تو پھر طے یہ ہوا کہ کوئی بھی ایک پاگل ہم سب کو پاگل کرسکتا ہے۔ عقل کو کوٹھے پر بٹھا سکتا ہے۔ دماغ کو انگلیوں پر نچا سکتا ہے۔
محبوبِ خدا موسٰی، عدمِ تشدد کے داعی عیسٰی اور رحمت العالمین محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام پر وہ وہ کیا جا سکتا ہے جو جو نہ کرنے کے لیے منع فرمایا گیا ہے۔
میرے والد کہتے تھے گلی میں کتا بھونکے تو نظرانداز کرو۔ جواباً بھونکو گے تو وہ اور بھونکے گا۔ راہ گیر کتے کی بجائے تمہیں عجب نگاہوں سے دیکھیں گے۔ شکر ہے میرے والد بروقت انتقال کر گئے۔
کیا روزانہ لاکھوں مسلمان مساجد، مدارس اور گھروں میں سورہ فیل تلاوت نہیں کرتے۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ کعبے کو ابرہہ کے لشکر سے آسمانی ابابیلوں نے بچایا تھا یا عبدالمطلب اور ان کے قبیلے نے؟ مگر اب خدا پر اتنے بھروسے کی کیا ضرورت؟ ہم تو خود ابابیلیں ہیں۔
جتنی توہینِ رسالت خود رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں ہوئی اس حساب سے تو مکہ اور مدینہ میں کھوپڑیوں کے مینار بن جانے چاہیے تھے۔ کم ازکم اس بڑھیا کی گردن تو اڑ ہی جانی چاہیے تھی جو روزانہ اپنے چوبارے سے آپ پر کوڑا پھینکتی تھی۔ کم ازکم طائف میں آپ پر پتھراؤ کرنے والوں کو دو پہاڑوں کے پاٹوں میں پیس دینے کی اجازت تو جبرائیل کو مل ہی جانی چاہیے تھی۔ کم از کم مدینے میں آپ کے قتل کی سازش کرنے والے یہودیوں کو دس روز کے اندر اندر شہر چھوڑنے کی مہلت تو بالکل نہیں دینی چاہیے تھی۔ کم ازکم فتحِ مکہ کے بعد ہندہ کو تو ذبح ہونا ہی چاہیے تھا۔ اور جو بدر اور احد کے حملہ آور اور قاتل زندہ بچ گئے تھے انہیں تو بالکل معاف نہیں کرنا چاہیے تھا۔ مگر ہوا کیا؟ کیا پورے دورِ نبوت میں سوائے ایک ہجو گو یہودی کعب بن اشرف کی گردن اڑانے کے علاوہ کسی اور کے قتل کے فرمان پر عمل ہوا یا معاف کردیا گیا؟
کیونکہ حکم دے دیا گیا تھا کہ تمہارا کام صرف پیغام پہنچانا ہے۔ باقی خدا پر چھوڑ دو۔ لہٰذا ابو لہب کے دونوں ہاتھ توڑنے اور گلے میں آگ کی رسی ڈالنے کا کام بھی خدا کو اپنے ہی ذمے لینا پڑا۔
محبوبِ خدا موسٰی، عدمِ تشدد کے داعی عیسٰی اور رحمت العالمین محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام پر وہ وہ کیا جا سکتا ہے جو جو نہ کرنے کے لیے منع فرمایا گیا ہے۔
میرے والد کہتے تھے گلی میں کتا بھونکے تو نظرانداز کرو۔ جواباً بھونکو گے تو وہ اور بھونکے گا۔ راہ گیر کتے کی بجائے تمہیں عجب نگاہوں سے دیکھیں گے۔ شکر ہے میرے والد بروقت انتقال کر گئے۔
کیا روزانہ لاکھوں مسلمان مساجد، مدارس اور گھروں میں سورہ فیل تلاوت نہیں کرتے۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ کعبے کو ابرہہ کے لشکر سے آسمانی ابابیلوں نے بچایا تھا یا عبدالمطلب اور ان کے قبیلے نے؟ مگر اب خدا پر اتنے بھروسے کی کیا ضرورت؟ ہم تو خود ابابیلیں ہیں۔
جتنی توہینِ رسالت خود رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں ہوئی اس حساب سے تو مکہ اور مدینہ میں کھوپڑیوں کے مینار بن جانے چاہیے تھے۔ کم ازکم اس بڑھیا کی گردن تو اڑ ہی جانی چاہیے تھی جو روزانہ اپنے چوبارے سے آپ پر کوڑا پھینکتی تھی۔ کم ازکم طائف میں آپ پر پتھراؤ کرنے والوں کو دو پہاڑوں کے پاٹوں میں پیس دینے کی اجازت تو جبرائیل کو مل ہی جانی چاہیے تھی۔ کم از کم مدینے میں آپ کے قتل کی سازش کرنے والے یہودیوں کو دس روز کے اندر اندر شہر چھوڑنے کی مہلت تو بالکل نہیں دینی چاہیے تھی۔ کم ازکم فتحِ مکہ کے بعد ہندہ کو تو ذبح ہونا ہی چاہیے تھا۔ اور جو بدر اور احد کے حملہ آور اور قاتل زندہ بچ گئے تھے انہیں تو بالکل معاف نہیں کرنا چاہیے تھا۔ مگر ہوا کیا؟ کیا پورے دورِ نبوت میں سوائے ایک ہجو گو یہودی کعب بن اشرف کی گردن اڑانے کے علاوہ کسی اور کے قتل کے فرمان پر عمل ہوا یا معاف کردیا گیا؟
کیونکہ حکم دے دیا گیا تھا کہ تمہارا کام صرف پیغام پہنچانا ہے۔ باقی خدا پر چھوڑ دو۔ لہٰذا ابو لہب کے دونوں ہاتھ توڑنے اور گلے میں آگ کی رسی ڈالنے کا کام بھی خدا کو اپنے ہی ذمے لینا پڑا۔
مگر اتنا دل اور اس دل میں اتنا صبر تو صرف پیغمبر کا ہی حق ہے۔ اس کے وارثوں میں اتنی تاب و برداشت کہاں؟ لہٰذا اس پر کان دھرنے کی کیا پڑی کہ غصہ آدمی کو یوں کھا جاتا ہے جیسے آگ بھوسے کو۔ یہ بات سمجھنے کی کیا جلدی ہے کہ غصے میں کھڑے ہو تو بیٹھ جاؤ۔ بیٹھے ہو تو لیٹ جاؤ۔
بھلا آصف زرداری، راجہ پرویز اشرف، رحمان ملک، مولانا فضل الرحمٰن، منور حسن، جنرل حمید گل، مولانا سمیع الحق، عمران خان، نواز شریف و شہباز شریف، غلام احمد بلور سمیت سب معزز و محترم عاشقانِ رسول دورِ رسالت کے یہ پہلو کیوں اجاگر کریں؟
کیونکہ نمازِ جمعہ کے بعد مردہ موبائیل فون پکڑے اپنے اپنے ڈرائنگ رومز اور حجروں میں ریموٹ کنٹرول پر چینلز بدل بدل کر عشق اور دیوانگی کی کشتی دیکھنے اور رات گئے پرامن رہنے کی اپیل کا جو لطف ہے وہ دھوپ میں سڑک پر نکل کے قیادت و تلقینِ امن کی بیگاری میں کہاں؟ اور ابھی 19 لاشوں کو بیچنے کا کام بھی تو آن پڑا ہے؟
بھلا آصف زرداری، راجہ پرویز اشرف، رحمان ملک، مولانا فضل الرحمٰن، منور حسن، جنرل حمید گل، مولانا سمیع الحق، عمران خان، نواز شریف و شہباز شریف، غلام احمد بلور سمیت سب معزز و محترم عاشقانِ رسول دورِ رسالت کے یہ پہلو کیوں اجاگر کریں؟
کیونکہ نمازِ جمعہ کے بعد مردہ موبائیل فون پکڑے اپنے اپنے ڈرائنگ رومز اور حجروں میں ریموٹ کنٹرول پر چینلز بدل بدل کر عشق اور دیوانگی کی کشتی دیکھنے اور رات گئے پرامن رہنے کی اپیل کا جو لطف ہے وہ دھوپ میں سڑک پر نکل کے قیادت و تلقینِ امن کی بیگاری میں کہاں؟ اور ابھی 19 لاشوں کو بیچنے کا کام بھی تو آن پڑا ہے؟
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
آپ کی رائے باعث مسرت لیکن موقف کا غیر اخلاقی حصہ حذف کر دیا جائے گا۔