منگل, اکتوبر 09, 2012

بھارت؛ شہروں سے لَوٹنے والی بِن بیاہی مائیں

بہت ساری خواتین بچوں کو اپنے گاؤں میں چھوڑکر واپس نہیں آئیں
بڑے شہروں کا چكا چوندھ اور سنہرے مستقبل کا خواب لئے جھارکھنڈ کی ہزاروں قبائلی لڑکیاں بڑے شہروں کا رخ تو کررہی ہیں مگر وہاں سے وہ جاتی ہیں بیماریاں اور گود میں بغیر شادی کے بچے لے کر۔ غیر سرکاری تنظیموں کی طرف سے کی گئی ایک تحقیق کے مطابق جھارکھنڈ سے روزگار کی تلاش میں بڑے شہروں کا رخ کرنے والی لڑکیوں کی تعداد میں تو اضافہ ہورہا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان بچوں کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے جنہیں یہ لڑکیاں واپس لے کر آرہی ہیں اور ریاست کے دور دراز جنگلات میں واقع اپنے گاؤں میں چھوڑ کر واپس جارہی ہیں۔ صورتحال اتنی خطرناک ہوگئی ہے کہ ایک سماجی تنظیم نے ان علاقوں میں ایسے بچوں کے لئے آشرم کھولنے شروع کردیئے ہیں۔

سمڈیگا ضلع کا سانور ٹنگریٹولی گاؤں میں میری ملاقات چھ سالہ پیٹر سے ہوئی۔ پیٹر کی والدہ دلی میں کام کرتی ہیں۔ ایک دن وہ گاؤں لوٹی حاملہ ہوکر اور پیدائش کے بعد پیٹر کو نانا نانی کے پاس چھوڑ کر واپس دلی چلی گئیں۔ پیٹر کے نانا کا کہنا ہے کہ پیدائش کے کچھ ہی مہینوں کے بعد وہ پھر دلی چلی گئی اور اب پانچ سال ہوگئے ہیں اس کا کوئی پتہ نہیں ہے۔ نہ اس نے کبھی فون کیا نا کوئی خط بھیجا اور نہ ہی خرچ کے لیے پیسے۔ وہ کہاں ہیں کسی کو اس کے بارے میں کچھ نہیں معلوم۔

پیٹر اپنے نانا نانی کو اپنا والدین سمجھتا ہے۔ پیٹر کی طرح ہی سمڈیگا ضلع کے دور دراز کے علاقوں میں کئی ایسے بچے ہیں جو اپنی ماں کا انتظار کررہے ہیں۔ لیکن ان کا انتطار لمبا ہوتا جارہا ہے۔ اور اس بات کے امکانات کم ہیں کہ ان مائیں واپس آئیں گی۔ سمڈیگا گاؤں کے حالات کا جائزہ لیتے ہوئے میں شہر کے قریب ’مراکل فاؤنڈیشن‘ پہنچا تو آشرم میں پالنوں ميں ایسے بچوں کو لیٹا دیکھ کر آنکھیں بھر آئیں۔ ان بچوں کی کلکیاروں کی آوازیں تو کہیں ان کے رونے چلانے کی آوازیں مجھے رہ رہ کر ستا رہی ہیں۔ اس آشرم میں تقریباً پچھتر ایسے بچے ہیں جن کے والدین کا کچھ پتہ نہیں۔ ان کی آشرم ان کی دیکھ بھال اور پرورش کا انتظام ہے۔ جھارکھنڈ میں بچوں کے حقوق اور حفاظت کے سرکاری کمیشن کے مطابق صرف سمڈیگا ضلع میں ہی ایسے بچوں کی تعداد دو سو سے زیادہ ہے۔ ایسا ہی حال گوملا، رانچی اور کھووٹی اضلا‏ع میں بھی ہے۔


آشرم کی سربراہ پربھا ٹے ٹے کہتی ہیں ’ آشرم میں نہ صرف ان بچوں کی دیکھ بھال کی جاتی ہے بلکہ ان حاملہ لڑکیوں کی بھی مدد کی جاتی جو اس سے پہلے سماج کے ڈر سے بغیر شادی کے پیدا ہوئے بچوں کو ادھر ادھر پھینک دیتی تھیں۔‘ آشرم کے باہر سڑک کے کنارے ایک پالنا رکھا ہوا جہاں اس طرح کی مائیں بچوں کو رکھ کر چلی جاتی ہیں اور پھر آشرم والے ان بچوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ مگر سمڈيگا ضلع کے گرجا کھیدنٹولی گاؤں کی نومیتا کے بچے خوش قسمت ہیں۔ نومیتا نے اپنے بچوں کا ساتھ نہیں چھوڑا ۔ نومیتا کے تینوں بچے ان کے ساتھ رہتے ہیں۔ حالانکہ نومیتا کو گاؤں کے لوگوں نے بالکل الگ تھلگ کردیا ہے۔ نومیتا بیمار رہتی ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ اس نے دوبارہ شہر جانے کی ہمت نہیں کی۔

جھارکھنڈ کے چائلڈ رائٹ پروٹیکشن کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین سنجے کمار مشر کہتے غیر شادی شدہ ماؤں اور ان کے بچوں کے مسائل سنجیدہ روپ اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ شہر جانے والی زیادہ تر لڑکیوں کا استحصال ہوتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا، ’زیادہ تر لڑکیاں دلالوں کے کہنے میں آ کر دلی یا دیگرشہروں کی پلیس مینٹ ایجنسیوں کے پاس چلی جاتی ہیں۔ پھر جن گھروں میں انہیں کام کرنے بھیجا جاتا ہے وہاں پر وہ جنسی استحصال کا شکار ہوتی ہیں۔‘ سنجے کمار مشرا کہتے ہیں، ’جھارکھنڈ حکومت نے دلی پولیس اور وہاں موجود ایک غیر سرکاری تنظیم کے ساتھ مل کر ایسی لڑکیوں کو بچانے کے لیے ایک ٹاسک فورس تشکیل دی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حالیہ دنوں میں ملک کے مختلف علاقوں سے کئی لڑکیوں کو بچانے میں کامیابی حاصل ہوئی ہے۔‘

سمڈیگا میں چرچ بھی ان خواتین کی مدد کے لیے آگے آ رہے ہیں۔ ایسے ہی ایک چرچ سے منسلک نن الیزابیتھ کا کہنا ہے کہ بعض لڑکیاں ایڈز جیسی بیمار کا شکار ہوچکی ہیں۔ انہوں نے کئی لڑکیوں کے نام بتائے جس میں سے ایک لڑکی کی موت ایڈز سے ہوگئی ہے۔ چرچ، حکومت اور غیر سرکاری تنظیمیوں کی کوششیں جاری ہیں لیکن اقتصادی پسماندگی کے سبب جھارکھنڈ کے ایسے بہت سے خاندان ہیں جو روزگار کی تلاش میں اپنی لڑکیوں کو بڑے شہروں میں بھیجنے کے لیے مجبور ہیں۔

قبائلی خواتین کا شہر کا رخ، بن بیاہی ماں بن کر لوٹنا

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

آپ کی رائے باعث مسرت لیکن موقف کا غیر اخلاقی حصہ حذف کر دیا جائے گا۔