ہفتہ, نومبر 10, 2012

خلائی انٹرنیٹ کا تجربہ کامیاب رہا

بین الاقوامی خلائی سٹیشن پر موجود ایک خلا باز نے زمین پر ایک روبوٹ کو ہدایات بھیج کر پہلی بار خلائی انٹرنیٹ استعمال کرنے کا تجربہ کیا ہے۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے ایک تجرباتی ٹیکنالوجی استعمال کی جسے ڈسرپشن ٹولرنٹ نیٹ ورکنگ (ڈی ٹی این) یا ’خلل برداشت کرنے والی نیٹ ورکنگ‘ کہا جاتا ہے۔ اس پروٹوکول کو مستقبل میں مریخ پر موجود خلا بازوں کے ساتھ رابطے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ اگر کوئی مسئلہ ہو جائے تو زمین اور مریخ گاڑی کے درمیان بھیجے گئِے پیغامات ضائع ہو سکتے ہیں لیکن ڈی ٹی این کی مدد سے زیادہ لمبے فاصلوں تک ڈیٹا بھیجا جا سکتا ہے۔ یورپی خلائی ادارے اور ناسا نے اکتوبر میں مل کر اس نئے نظام کا تجربہ کیا تھا۔ بین الاقوامی خلائی سٹیشن پر کمانڈر سنیتا ولیمز نے ایک لیپ ٹاپ پر ڈی ٹی این سافٹ ویئر کی مدد سے جرمنی میں ایک روبوٹ گاڑی چلائی۔

ڈی ٹی این زمینی انٹرنیٹ سے ملتا جلتا ہے، فرق صرف یہ ہے کہ اس کی مدد سے مواصلات میں تاخیر اور خلل کے مسائل سے زیادہ بہتر طریقے سے نمٹا جا سکتا ہے۔ سیاروں، خلائی سٹیشنوں، اور دور دراز سفر کرتے ہوئے خلائی جہازوں میں یہ مسائل عام ہوں گے۔ یہ تاخیر شمسی طوفانوں یا پھر خلائی جہاز کے کسی سیارے کے پیچھے ہونے کی وجہ سے واقع ہوسکتی ہے۔

یورپی خلائی ادارے کے کم نیرگارڈ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اس کا مقصد طویل فاصلوں تک مواصلات کو ممکن بنانا ہے، کیوں کہ عام انٹرنیٹ اس بات کی توقع نہیں کرتا کہ کوئی چیز بھیجنے یا وصول کرنے میں کئی منٹ لگیں۔‘ تاخیر کا مقابلہ کرنے کے لیے اس نظام کے اندر نوڈز، یا کنکنشن پوائنٹس، کا ایک سلسلہ بنایا گیا ہے۔ اگر مواصلات منقطع ہوجاتی ہیں تو ڈیٹا اس وقت تک نوڈ کے اندر سٹور کر لیا جاتا ہے جب تک رابطہ دوبارہ بحال نہ ہو جائے۔ ذخیرہ کرنے اور آگے بھیجنے کے اس نظام کی وجہ سے اس بات کو یقینی بنا لیا جاتا ہے کہ ڈیٹا ضائع نہیں ہو گا اور بتدریج آگے بڑھتا رہے گا۔

نیرگارڈ کہتے ہیں ’زمین پر اگر انٹرنیٹ کا رابطہ منقطع ہو جائِے تو ہر چیز ازسرِنو بھیجنا پڑتی ہے، ورنہ ڈیٹا ضائع ہو جاتا ہے‘۔ ’لیکن ڈی ٹی این کے اندر خلل کو برداشت کرنے کی صلاحیت موجود ہے، اور یہی اصل فرق ہے۔ یہ جن طویل فاصلوں اور نیٹ ورکس پر کام کرے گا، اسے اتنا ہی مضبوط ہونا چاہیے۔‘ اس وقت مریخ پر موجود روبوٹ گاڑی کیوروسٹی کے ساتھ رابطے کے لیے ناسا اور یورپی ادارہ ’پوائنٹ ٹو پوائنٹ‘ مواصلات کا طریقہ استعمال کرتے ہیں۔ نیرگارڈ کہتے ہیں ’اسے نیٹ ورک کی طرح نہیں بنایا گیا۔ اس وقت مریخ کی سطح پر کئی روبوٹ گاڑیاں موجود ہیں، اور کئی جہاز اس سیارے کے گرد چکر لگا رہے ہیں، لیکن ان سب کو پوائنٹ ٹو پوائنٹ مواصلات سمجھا جاتا ہے‘۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’خلائی انٹرنیٹ کے پیچھے خیال یہ ہے کہ مستقبل میں مریخ پر بھیجی جانے والی گاڑیاں اور جہازوں کو ایک نیٹ ورک کی طرح برتا جائے گا، اور آپ ان تک ڈیٹا ویسے ہی بھیج سکیں گے جیسے آپ زمین پر انٹرنیٹ استعمال کرتے ہوئے بھیجتے ہیں‘۔

ناسا کے بدری یونیز نے کہا کہ تجربہ کامیاب رہا اور اس کی مدد سے ’مواصلات کے ایک نئے طریقے کے استعمال کی افادیت کا مظاہرہ ہوا ہے جس میں کسی سیارے کی سطح پر موجود روبوٹ تک مدار میں چکر کاٹتے جہاز سے احکام بھیجے جا سکتے ہیں اور روبوٹ سے تصویریں اور ڈیٹا وصول کیا جا سکتا ہے‘۔

خلائی انٹرنیٹ کا تجربہ کامیاب رہا

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

آپ کی رائے باعث مسرت لیکن موقف کا غیر اخلاقی حصہ حذف کر دیا جائے گا۔