شانتا کماری صرف آٹھ برس کی تھی جب اس کے والدین نے اسے بطور’کملاری‘ یعنی زرخرید غلام صرف 75 ڈالر کے عوض ایک گھرانے کو بیچ دیا تھا۔
معصوم بچی شانتا کماری نیپال کے جنوب مغربی علاقے میں واقع ایک گھر میں روزانہ انیس انیس گھنٹے تک کام کرتی رہی۔ اس دوران اس سے کھانا پکوایا جاتا، صفائی ستھرائی کا کام لیا جاتا اور اس سے ناروا سلوک برتا جاتا رہا۔
اٹھارہ برس تک کملاری کے طور پر استحصال بھری زندگی بسر کرنے والی اب وہی بچی نیپال میں سیاستدان، انسانی حقوق کی کارکن اور ایک انتہائی اثر و رسوخ والی خاتون سمجھی جاتی ہے۔
ماضی کی اس کملاری نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے اپنے ماضی کے غمناک اور درد بھرے لمحات کا ذکر کرتے ہوئے کہا، ’’میں روزانہ صبح چار بجےاٹھتی۔ کوئی دن ایسا نہ تھا جب مجے مارا پیٹا نہ جاتا۔ میں نے بدسلوکی اور آبروریزی کو انتہائی قریب سے دیکھا‘‘۔
آنکھوں میں آنسو لیے شانتا کماری نے بتایا کہ اسے اب تک وہ تمام ظلم و جبر یاد ہے جس نے اس کے پچپن کو تباہ کردیا، ’’بے شک میں بیمار ہی کیوں نہ ہوتی لیکن مجھے اپنے وزن سے زیادہ بوجھ اٹھانا پڑتا تھا‘‘۔ اس نے بتایا کہ جب اسے بیچ دیا گیا تو پھر اس نے اپنے والدین کو کبھی نہ دیکھا، ’’ماں کا پیار کیا ہوتا ہے، مجھے یہ تجربہ کبھی حاصل نہ ہوسکا‘‘۔
بتیس سالہ شانتا کماری کے بقول نیپال میں بہت سے کملاریوں کی آبروریزی کی جاتی ہے اور انہوں نے اس بات کا خود مشاہدہ کر رکھا ہے۔ کماری نے بتایا، ’’میری شادی کی عمر کسی کے گھر گزر گئی۔ جب میں اپنے ماضی کو یاد کرتی ہوں تو میرا کلیجہ پھٹنے کو آ جاتا ہے‘‘۔
شانتا کماری کو 2006ء میں اس وقت آزادی ملی تھی جب ملک کی اعلیٰ عدلیہ نے کملاری نظام کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔ 2008ء کے عام انتخابات میں شانتا کماری کو مخصوص نشست پر پارلیمان میں نمائندگی حاصل کرنے کا موقع ملا۔ ابتدائی طور پر ناخواندگی کے باعث اسے مسائل کا سامنا رہا لیکن اس پرعزم خاتون نے اپنے طور پڑھنا لکھنا سیکھا اور معاشرے کے مرکزی دھارے میں اپنی موجودگی کو منوایا۔
اٹھارہ برس تک کملاری کے طور پر استحصال بھری زندگی بسر کرنے والی اب وہی بچی نیپال میں سیاستدان، انسانی حقوق کی کارکن اور ایک انتہائی اثر و رسوخ والی خاتون سمجھی جاتی ہے۔
ماضی کی اس کملاری نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے اپنے ماضی کے غمناک اور درد بھرے لمحات کا ذکر کرتے ہوئے کہا، ’’میں روزانہ صبح چار بجےاٹھتی۔ کوئی دن ایسا نہ تھا جب مجے مارا پیٹا نہ جاتا۔ میں نے بدسلوکی اور آبروریزی کو انتہائی قریب سے دیکھا‘‘۔
آنکھوں میں آنسو لیے شانتا کماری نے بتایا کہ اسے اب تک وہ تمام ظلم و جبر یاد ہے جس نے اس کے پچپن کو تباہ کردیا، ’’بے شک میں بیمار ہی کیوں نہ ہوتی لیکن مجھے اپنے وزن سے زیادہ بوجھ اٹھانا پڑتا تھا‘‘۔ اس نے بتایا کہ جب اسے بیچ دیا گیا تو پھر اس نے اپنے والدین کو کبھی نہ دیکھا، ’’ماں کا پیار کیا ہوتا ہے، مجھے یہ تجربہ کبھی حاصل نہ ہوسکا‘‘۔
بتیس سالہ شانتا کماری کے بقول نیپال میں بہت سے کملاریوں کی آبروریزی کی جاتی ہے اور انہوں نے اس بات کا خود مشاہدہ کر رکھا ہے۔ کماری نے بتایا، ’’میری شادی کی عمر کسی کے گھر گزر گئی۔ جب میں اپنے ماضی کو یاد کرتی ہوں تو میرا کلیجہ پھٹنے کو آ جاتا ہے‘‘۔
شانتا کماری کو 2006ء میں اس وقت آزادی ملی تھی جب ملک کی اعلیٰ عدلیہ نے کملاری نظام کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔ 2008ء کے عام انتخابات میں شانتا کماری کو مخصوص نشست پر پارلیمان میں نمائندگی حاصل کرنے کا موقع ملا۔ ابتدائی طور پر ناخواندگی کے باعث اسے مسائل کا سامنا رہا لیکن اس پرعزم خاتون نے اپنے طور پڑھنا لکھنا سیکھا اور معاشرے کے مرکزی دھارے میں اپنی موجودگی کو منوایا۔
چائلڈ لیبر ایک عالمی مسئلہ |
شانتا کماری کہتی ہیں کہ نہ صرف متعدد اعلیٰ حکومتی اہلکاروں بلکہ انسانی حقوق کے لیے سرگرم کئی کارکنان کے گھروں میں بھی بچوں سے مزدوری لی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب تک ہم ایسے گھروں میں چھاپے نہیں ماریں گے، تب تک یہ مسئلہ برقرار رہے گا۔
اگرچہ دیگر جنوبی ایشیائی ممالک کی طرح نیپال میں بھی بچوں کے حوالے سے بنائے جانے والے قوانین کے باعث چائلڈ لیبر کے واقعات میں کمی ہوئی ہے لیکن شانتا کماری کے بقول ملک کے دور دراز علاقوں میں ابھی بھی بچوں کے ساتھ وہی سلوک ہو رہا ہے، جو کبھی ان کے ساتھ ہوا تھا۔
شانتا کماری کے بقول وہ زندگی بھر ایسی کوششیں کرتی رہیں گی، جن کی بدولت نیپال میں بچوں کے حقوق کے تحفظ کی صورت حال کو بہتر بنانے میں مدد ملے۔
نیپال، کل کی ’کملاری‘ لیکن آج کی سیاستدان
اگرچہ دیگر جنوبی ایشیائی ممالک کی طرح نیپال میں بھی بچوں کے حوالے سے بنائے جانے والے قوانین کے باعث چائلڈ لیبر کے واقعات میں کمی ہوئی ہے لیکن شانتا کماری کے بقول ملک کے دور دراز علاقوں میں ابھی بھی بچوں کے ساتھ وہی سلوک ہو رہا ہے، جو کبھی ان کے ساتھ ہوا تھا۔
شانتا کماری کے بقول وہ زندگی بھر ایسی کوششیں کرتی رہیں گی، جن کی بدولت نیپال میں بچوں کے حقوق کے تحفظ کی صورت حال کو بہتر بنانے میں مدد ملے۔
نیپال، کل کی ’کملاری‘ لیکن آج کی سیاستدان
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
آپ کی رائے باعث مسرت لیکن موقف کا غیر اخلاقی حصہ حذف کر دیا جائے گا۔