بھارتی ریاست اتر پردیش میں ایک گاؤں کی پنچایت نے خواتین کے اکیلے بازار جانے اور موبائل فون استعمال کرنے پر پابندی لگا دی ہے۔ مقامی پولیس نے تفتیش شروع کردی ہے۔
اتر پردیش کے ایک گاؤں کے مسلمان شہریوں نے اپنی پنچایت کے ذریعے گاؤں کی خواتین پر بعض پابندیاں عائد کردی ہیں۔ بھارتی ریاست اتر پردیش کے گاؤں اسارا میں پنچایت کے فیصلے کے تحت کھلے عام اور عوامی مقامات پر خواتین کو سر ڈھانپنے کا پابند بنایا گیا ہے۔ بھارت میں خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم حلقوں نے پنچایت کے فیصلے کی مذمت کی ہے۔ آل انڈیا ڈیموکریٹک ویمن ایسوسی ایشن کی جنرل سیکریٹری سدھا سدھیر رامن کے بقول یہ سوچ کہ خواتین کی حفاظت کے ساتھ ساتھ انہیں کنٹرول کیا جانا چاہیے، اس سے ہی تمام بنیادی اخلاقی اصولوں کی پامالی ہوتی ہے۔
دوسری جانب اسارا کی اس پنچایت کا موقف ہے کہ انہوں نے معاشرے میں موجود برے عناصر سے خواتین کو محفوظ رکھنے کے لیے یہ فیصلہ کیا ہے۔ اس کونسل کے ایک رکن ستار احمد کے بقول والدین کی رضا مندی کے بغیر پسند کی شادیوں سے معاشرے پر برے اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ اس سلسلے میں موبائل فون کے استعمال کو برائی کی جڑ قرار دیا جارہا ہے۔ دی میل ٹوڈے نامی بھارتی روزنامے کے مطابق اسارا گاؤں کے لوگ اپنی پنچایت کے اس فیصلے پر بہت خوش ہیں اور اس پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کےلیے پر عزم بھی دکھائی دیتے ہیں۔
بھارتی خبر رساں ادارے پی ٹی آئی کے مطابق مقامی پولیس نے معاملے کی انکوائری شروع کردی ہے۔ وزیرداخلہ پی چدم برم پنچایت کے اس ان فیصلوں کو غیر جمہوری قرار دے کر ان کی مذمت کر چکے ہیں۔ وزیرداخلہ کے بقول پولیس کو ہر اس شخص کے خلاف کارروائی کرنا چاہیے جو اس قسم کے احکامات جاری کرتا ہے۔ ’’ اگر کوئی کسی نوجوان مرد یا عورت کے خلاف غیرقانونی دیہی عدالت کے حکم کی بنیاد پر کوئی ایکشن لیتا ہے تو اسے ضرور گرفتار کیا جائے۔‘‘
اسارا کے پولیس سپر انٹینڈنٹ وی کے شیکھر کے بقول پنچایت کی قانونی حیثیت اور اس کے جاری کیے گئے فیصلے کی تفصیلات سے متعلق تفتیش شروع کردی گئی ہے۔ نیوز ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق اس طرز کی پنچایت جس علاقے میں قائم کی جاتی ہے وہاں کے اخلاقی یا مالی اعتبار سے معتبر و بزرگ شہری اس کے رکن بنائے جاتے ہیں اور اس کے لیے عوامی سطح پر کوئی منظم انتخابی عمل نہیں ہوتا۔ اگرچہ ان پنچایتوں کے فیصلوں کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوتی تاہم مقامی آبادیوں پر ان کا خاصا اثر و رسوخ ہوتا ہے اور کئی بار پنچایتوں کے فیصلوں ہی عزت و غیرت کے نام پر قتل جیسے واقعات کا محرک بنتے ہیں۔
بھارت میں پنچایت کا ’خواتین کے تحفظ‘ کا متنازعہ فیصلہ
اتر پردیش کے ایک گاؤں کے مسلمان شہریوں نے اپنی پنچایت کے ذریعے گاؤں کی خواتین پر بعض پابندیاں عائد کردی ہیں۔ بھارتی ریاست اتر پردیش کے گاؤں اسارا میں پنچایت کے فیصلے کے تحت کھلے عام اور عوامی مقامات پر خواتین کو سر ڈھانپنے کا پابند بنایا گیا ہے۔ بھارت میں خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم حلقوں نے پنچایت کے فیصلے کی مذمت کی ہے۔ آل انڈیا ڈیموکریٹک ویمن ایسوسی ایشن کی جنرل سیکریٹری سدھا سدھیر رامن کے بقول یہ سوچ کہ خواتین کی حفاظت کے ساتھ ساتھ انہیں کنٹرول کیا جانا چاہیے، اس سے ہی تمام بنیادی اخلاقی اصولوں کی پامالی ہوتی ہے۔
دوسری جانب اسارا کی اس پنچایت کا موقف ہے کہ انہوں نے معاشرے میں موجود برے عناصر سے خواتین کو محفوظ رکھنے کے لیے یہ فیصلہ کیا ہے۔ اس کونسل کے ایک رکن ستار احمد کے بقول والدین کی رضا مندی کے بغیر پسند کی شادیوں سے معاشرے پر برے اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ اس سلسلے میں موبائل فون کے استعمال کو برائی کی جڑ قرار دیا جارہا ہے۔ دی میل ٹوڈے نامی بھارتی روزنامے کے مطابق اسارا گاؤں کے لوگ اپنی پنچایت کے اس فیصلے پر بہت خوش ہیں اور اس پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کےلیے پر عزم بھی دکھائی دیتے ہیں۔
بھارتی خبر رساں ادارے پی ٹی آئی کے مطابق مقامی پولیس نے معاملے کی انکوائری شروع کردی ہے۔ وزیرداخلہ پی چدم برم پنچایت کے اس ان فیصلوں کو غیر جمہوری قرار دے کر ان کی مذمت کر چکے ہیں۔ وزیرداخلہ کے بقول پولیس کو ہر اس شخص کے خلاف کارروائی کرنا چاہیے جو اس قسم کے احکامات جاری کرتا ہے۔ ’’ اگر کوئی کسی نوجوان مرد یا عورت کے خلاف غیرقانونی دیہی عدالت کے حکم کی بنیاد پر کوئی ایکشن لیتا ہے تو اسے ضرور گرفتار کیا جائے۔‘‘
اسارا کے پولیس سپر انٹینڈنٹ وی کے شیکھر کے بقول پنچایت کی قانونی حیثیت اور اس کے جاری کیے گئے فیصلے کی تفصیلات سے متعلق تفتیش شروع کردی گئی ہے۔ نیوز ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق اس طرز کی پنچایت جس علاقے میں قائم کی جاتی ہے وہاں کے اخلاقی یا مالی اعتبار سے معتبر و بزرگ شہری اس کے رکن بنائے جاتے ہیں اور اس کے لیے عوامی سطح پر کوئی منظم انتخابی عمل نہیں ہوتا۔ اگرچہ ان پنچایتوں کے فیصلوں کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوتی تاہم مقامی آبادیوں پر ان کا خاصا اثر و رسوخ ہوتا ہے اور کئی بار پنچایتوں کے فیصلوں ہی عزت و غیرت کے نام پر قتل جیسے واقعات کا محرک بنتے ہیں۔
بھارت میں پنچایت کا ’خواتین کے تحفظ‘ کا متنازعہ فیصلہ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
آپ کی رائے باعث مسرت لیکن موقف کا غیر اخلاقی حصہ حذف کر دیا جائے گا۔