پیر, نومبر 19, 2012

پاکستان میں بمبار ڈرون کی تیاری

جمعہ پندرہ نومبر کو لی گئی تصویر میں اسلحے کی بین الاقوامی نمائش (آئیڈیاز) میں
پائلٹ کے بغیر اڑنے والے پاکستانی جاسوس طیارے۔ اے پی تصویر
کراچی: پاکستان خفیہ انداز میں مقامی سطح پر ایسے خودکار ڈرونز بنانے کی کوشش کررہا ہے جو بمباری بھی کرسکیں۔ اس صنعت سے وابستہ ماہرین کے مطابق، پاکستان نے ابتدائی طور پر چند تجربات کئے ہیں لیکن ان میں نشانے میں درستگی کی کمی کے ساتھ ساتھ ہدف کو تباہ کرنے کی ٹیکنالوجی کی بھی کمی ہے۔

اسلام آباد کے دیرینہ اور قریب ترین دوست ملک چین نے پاکستان کو ہتھیاروں والے ڈرونز فروخت کرنے کی پیشکش کی ہے لیکن ماہرین اب بھی چینی طیاروں کی صلاحیت کے بارے میں شکوک میں مبتلا ہیں۔ پاکستان امریکہ سے بھی خودکار بمبار ڈرون کی فراہمی کا مطالبہ کرتا رہا تاکہ انہیں عسکریت پسندوں پر بہتر انداز میں استعمال کیا جاسکے۔ واشنگٹن نے معاملے کی حساسیت اور دشمنوں کے خلاف ان کے استعمال پر شبہات کی بنیاد پر یہ ٹیکنالوجی فراہم کرنے سے انکار کرچکا ہے۔ امریکہ پاکستان کو غیر جاسوسی اور نگرانی کیلئے بغیر اسلحے والے ڈرون کی پیشکش کرچکا ہے لیکن پاکستان پہلے ہی ایسے کئی ڈرونز استعمال کررہا ہے۔

گزشتہ ہفتے کراچی میں اسلحے اور دفاعی ٹیکنالوجی کی ایک بین الاقوامی نمائش کا افتتاح کرتے ہوئے وزیرِ اعظم راجہ پرویز اشرف نے امریکی ضد کے جواب میں چین سے مدد لینے کا اشاریہ دیا تھا۔ ’ٹیکنالوجی کے ضمن میں غیر اعلانیہ رکاوٹ ختم کرنے کے لئے پاکستان چین سے بھی استفادہ کرسکتا ہے‘، راجہ پرویز اشرف نے کہا تھا۔

پاکستان خود اپنے بل پر بھی بغیر پائلٹ کے لڑاکا طیارے بنانے کی کوششیں کررہا ہے۔ ایک پاکستانی عسکری افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی خواہش پر بتایا کہ اس مقامی ڈرون صنعت میں سویلین افراد بھی اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔

ایک سویلین جسے اس خفیہ منصوبے کا علم ہے نے بتایا کہ اب سے سات یا آٹھ ماہ قبل پاکستان نے اپنے ملک میں استعمال ہونے والے اٹلی کے ڈرون، فالکو میں راکٹ لے جانے کے لئے چند تبدیلیاں کیں۔ انہوں نے بتایا کہ عسکری حکام ملک میں تیار شدہ تازہ ترین ڈرون، شہپر کے ساتھ بھی اسی قسم کے تجربات میں مصروف ہیں۔ واضح رہے کہ شہپر کا غیر بمبار لڑاکا ورژن پہلی مرتبہ کراچی میں آئیڈیاز نمائش میں رکھا گیا تھا۔ اسی سویلین ماہر نے بتایا کہ چند طیاروں پر ہی اسلحے کی آزمائش کی گئی ہے اور لڑائی میں کوئی حملہ نہیں کیا گیا ہے۔

درستگی میں کمی
پاکستان کے پاس ہیل فائر جیسے لیزر گائیڈڈ میزائل بھی نہیں ہیں جو امریکی پریڈیٹر اور ریپر جیسے جدید ترین ڈرونز میں ایڈوانس ٹارگٹ سسٹم کے ساتھ استعمال ہوتے ہیں۔ اسی لئے پاکستانی افواج گائیڈ کے بغیر راکٹ استعمال کررہی ہے جن کا نشانہ بہت اچھا نہیں۔ پاکستانی میزائلوں میں غلطی کی گنجائش تیس میٹر تک ہے اور اگر ہوا ذیادہ تیز چل رہی ہو تو یہ ٹارگٹ سے تین سو میٹر دور بھی گرسکتے ہیں۔ سویلین ماہر نے بتایا۔ اور اگرپاکستان کو جدید ہیل فائر میزائل اور گائیڈنس سسٹم مل بھی جائے تب بھی ان کا وزن پاکستان میں تیار ہونے والے چھوٹے ڈرون کے لئے بہت بڑا چیلنج ثابت ہوگا۔ پاکستان میں تیارشدہ سب سے بڑے ڈرون، شہپر کے بازووں کا گھیر سات میٹر ہے جو پچاس کلوگرام وزن لے جاسکتا ہے۔ جبکہ امریکی ڈرون پریڈیٹر جو ایک وقت میں دو ہیل فائر میزائل لے جاسکتا ہے اس کے پروں کا گھیر اس سے دوگنا ہے اور وہ اس سے چار گنا ذیادہ وزن کے ہتھیار لے جاسکتا ہے۔ پھر شہپر ریڈیو نشریات پر کام کرتا ہے جبکہ پریڈیٹر عسکری سیٹلائٹ سے مدد لیتے ہیں۔ شہپر صرف ڈھائی سو کلومیٹر کا فاصلہ طے کرسکتا ہے جبکہ پریڈیٹر ڈرون اس سے پانچ گنا ذیادہ فاصلے تک جا سکتا ہے۔

چین کے ڈرونز
چینی حکومت نے پاکستان کو سی ایچ تھری نامی لڑاکا ڈرون کی پیشکش کی ہے جو ایک وقت میں دو لیزر گائیڈڈ میزائل یا بم کو اپنے ہدف تک لے جاسکتا ہے۔ چین نے پاکستان کو اپنے قدرے جدید سی ایچ فور ڈرون کی بھی پیشکش کی ہے جو امریکی ڈرون ریپر سے ملتا جلتا ہے اور ایک وقت میں چار میزائل یا بم لے جاسکتا ہے۔ یہ بات لائی زیاولی نے بتائی جو سی ایچ تھری اور فور بنانے والی سرکاری کپمنی ایئروسپیس لانگ مارچ انٹرنیشنل کے نمائندے ہیں۔ پاکستان کو چینی ڈرون کی خریداری سے قبل ان کی صلاحیتوں کے بارے میں جانچ کرنے کی ضرورت ہے لیکن شاید مستقبل میں یہ ممکن ہوسکے۔

دنیا میں برطانیہ، امریکہ اور اسرائیل جیسے چند ممالک ہی ہیں جن کے بمبار ڈرون جنگوں میں کامبیابی سے آزمائے گئے ہیں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

آپ کی رائے باعث مسرت لیکن موقف کا غیر اخلاقی حصہ حذف کر دیا جائے گا۔