پیر, نومبر 19, 2012

غزہ: اسرائیلی فوجی کارروائی کا بد ترین دن... 26 افراد ہلاک

غزہ پر اسرائیلی حملوں کے چھٹے دن کے آغاز میں غزہ میں اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں دو فلسطینیوں کے ہلاک ہونے کی اطلاع ہے جس سے مجموعی طور پر اب تک 71 افراد ہلا ک ہو چکے ہیں کن میں کئی کم سن بچے بھی شامل ہیں۔

اتوار کے روز 26 افراد ہلاک ہوئے جن میں سے الدالو خاندان کے چار بچوں سمیت گیارہ افراد شامل ہیں۔

بی بی سی کے وائر ڈیویس نے بتایا کہ غزہ میں ڈاکٹروں کے مطابق پچھلے چار دنوں میں ہلاک ہونے والوں میں سے پچاس فیصد تک عام شہری ہیں۔

مقامی ذرائع نے بی بی سی عربی سروس کو بتایا کہ غزہ شہر کے النصر علاقے میں ایک تین منزلہ عمارت پر حملے کے نتیجے میں دس فلسطینی ہلاک ہوئے جن میں تین خواتین اور چھ بچے شامل تھے۔ تین فلسطینی شجاعیہ کے علاقے میں جبکہ جبلیہ کے علاقے میں ایک فلسطینی اپنی کار میں ہلاک ہوا۔

صحافیوں کی عالمی تنظیم ’رپورٹرز ساں فرانٹئرز‘ یعنی سرحدوں کے بغیر رپورٹرز نے فوری طور پر مطالبہ کیا ہے کہ ان حملوں کو فوری بند کیا جائے۔ اس تنظیم نے کہا کہ نو صحافی ایک حملے کی نتیجے میں زخمی ہوئے ہیں جس کی وجہ سے ان کا کام متاثر ہوا۔

اسرائیلی افواج کے مطابق انہوں نے سوموار کے دن کے آغاز کے وقت غزہ میں عمارتوں پر لگے اینٹیناز کو نشانہ بنایا جن کی مدد سے ان کے مطابق حماس مبینہ طور پر اپنے جنگجوؤں سے رابطہ میں رہتا ہے۔ گزشتہ روز فضائی حملوں کے ساتھ ساتھ بحری جہازوں سے بھی میزائل داغے گئے جن کے نتیجے میں غزہ میں پچیس افراد کے ہلاک ہوئے۔ جبکہ اسرائیلی وزیراعظم بنیامن نتنیاہو کا کہنا ہے ان کا ملک غزہ میں اپنی کارروائیوں میں ’قابلِ ذکر‘ اضافے کے لیے تیار ہے۔

فلسطینی علاقے سے اسرائیل پر راکٹ حملوں کا سلسلہ بھی جاری رہا مگر اس میں کافی کمی نظر آئی۔ ’پلر آف ڈیفینس‘ نامی اسرائیلی کارروائی میں اب تک مجموعی طور پر اکہتر افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ حماس کی جانب سے اسرائیل پر راکٹ حملوں کے نتیجے میں تین اسرائیلی ہلاک ہوئے ہیں۔

متحارب فریقین کے ذرائع نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی ہے کہ جنگ بندی کی کوششیں جاری ہیں۔


غزہ کے رہائشی یوسف اپنے اٹھارہ ماہ کے بچے ریاد 
کو دفن کرنے جا رہے ہیں
برطانوی وزیرِ خارجہ ولیم ہیگ نے متنبہ کیا ہے کہ اگر اسرائیل غزہ میں زمینی کارروائی کرتا ہے تو اسے عالمی حمایت سے ہاتھ دھونا پڑ سکتے ہیں۔ تاہم سکائی نیوز سے بات کرتے ہوئے ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس حالیہ تنازع کی اصولی ذمہ داری حماس پر ہی عائد ہوتی ہے۔

اسرائیلی وزیراعظم نے اتوار کو کابینہ کے اجلاس سے خطاب کے دوران کہا ہے کہ اسرائیلی فوج کسی بھی کارروائی کے لیے تیار ہے۔ ’اسرائیلی ڈیفینس افواج اس آپریشن کے دائرۂ کار میں قابلِ ذکر اضافے کے لیے تیار ہیں‘۔

تازہ اسرائیلی حملوں میں ذرائع ابلاغ کی دو عمارتیں بھی نشانہ بنی ہیں اور ان حملوں میں آٹھ فلسطینی صحافی زخمی ہوئے ہیں۔ اسرائیلی فوج نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ان عمارتوں میں سے ایک میں غیر ملکی صحافیوں کی موجودگی سے آگاہ تھے اور وہ ان کا ہدف نہیں تھے۔ اسرائیل نے حماس اور اسلامی جہاد کے ریڈیو سٹیشنز کی بندش بھی کر دی ہے۔ ٹوئٹر پر شائع ہونے والے پیغام میں اسرائیلی فوج نے کہا ہے کہ انہوں نے صرف ایک انٹینا سمیت مخصوص ساز و سامان کو نشانہ بنایا تاہم روسی ٹی وی نیٹ روک رشیا ٹوڈے کے مطابق حملے میں ان کے دفتر کو نقصان پہنچا ہے۔ حملے میں نشانہ بننے والی عمارتوں میں سے ایک حماس کے ٹی وی سٹیشن القدس کے علاوہ سکائی نیوز اور آئی ٹی این کے بھی زیرِاستعمال تھی۔ اسی عمارت میں ایک سال قبل تک بی بی سی کا دفتر بھی تھا۔

غزہ میں طبی حکام کا کہنا ہے کہ پانچ روزہ اسرائیلی کارروائی میں اب تک گیارہ بچوں سمیت باون فلسطینیوں کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے جبکہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے کہا ہے کہ غزہ میں ہسپتال زخمیوں سے بھرے ہیں اور ان ہسپتالوں میں طبی سپلائی کم پڑ رہی ہے۔

اتوار کو اسرائیل کے تجارتی صدر مقام سمجھے جانے والے شہر تل ابیب میں مسلسل چوتھے دن بھی راکٹ حملوں سے متنبہ کرنے والے سائرن بجائے جاتے رہے۔ اسرائیلی پولیس کے مطابق شہر پر داغے گئے دو راکٹ حفاظتی نظام کی مدد سے تباہ کیے گئے ہیں۔ تاہم غزہ سے داغا گیا ایک راکٹ اشکیلون میں ایک رہائشی عمارت پر گرا جس سے متعدد افراد زخمی ہوئے جبکہ عمارت کو بھی نقصان پہنچا۔ ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب کو بی بی سی کے نامہ نگار نے بتایا تھا کہ غزہ میں ایک درجن سے زیادہ دھماکے سنائی دیے۔ ان کے مطابق یہ میزائل جنگی بحری جہازوں سے فائر کیے گئے تھے۔ اسرائیل کے وزیر داخلہ ایلی یشئی نے اسرائیلی اخبار سے بات کرتے ہوئے کہا ہے ’آپریشن پلر آف ڈیفنس کا مقصد غزہ کو پتھر کے زمانے میں واپس بھیجنا ہے۔ اور پھر ہی اسرائیل میں اگلے چالیس سال تک سکون رہے گا۔‘

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

آپ کی رائے باعث مسرت لیکن موقف کا غیر اخلاقی حصہ حذف کر دیا جائے گا۔