ہفتہ, اگست 18, 2012

دونوں عید کے دِن اور نماز کے اہم مسائل

*** شرعی حُکم (حیثیت ) *** 

تحریر: عادل سہیل

عید کی نماز ہر ایک مُسلمان پر واجب ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود کبھی بھی کِسی بھی عید کی نماز نہیں چھوڑی، اور دوسروں کو یہ نماز پڑھنے اور اِس کا مُشاھدہ کرنے کا شدید حُکم دِیا ہے۔
:::::: دلیل ::::: اُم عطیہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ (اَمَرَنَا رسولُ اللَّہِ صَلی اللَّہُ عَلِیہ وسلم اَن نُخرِجَہُنَّ فی الفِطرِ وَالاَضحَی العَوَاتِقَ وَالحُیَّضَ وَذَوَاتِ الخُدُورِ فَاَمَّا الحُیَّضُ فَیَعتَزِلنَ الصَّلَاۃَ وَیَشہَدنَ الخَیرَ وَدَعوَۃَ المُسلِمِینَ :::
::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں (عورتوں) کو حُکم فرمایا کہ ہم سب (عید) الاضحی اور (عید) الفِطرمیں (مُصلّے کی طرف) جائیں، نئی بالغ ہونے والی لڑکیاں، اور حیض (ماہواری) کی حالت والیاں، اور جوان کنواریاں (سب کی سب مُصلّے جائیں) لیکن حیض والی عورتیں نماز نہ پڑھیں بلکہ (نماز کی جگہ سے ذرا ہٹ کر) مسلمانوں کی خیر اور دعوت (اسلام کی تبلیغ) کا مشاہدہ کریں)))))
میں نے کہا :: اے اللہ کے رسول اگر ہم میں سے کِسی کے پاس پردے کے لیے چادر نہ ہو تو وہ کیا کرے؟،
تو ارشاد فرمایا (((((لِتُلبِّسہَا اُختُہَا من جِلبَابِہَا ::: اُس کی کوئی دوسری (مسلمان) بہن اُسے اپنی چادر میں لپیٹ (کر ساتھ) لائے)))))) صحیح البُخاری / کتاب العیدین / باب ٢٠،٢١، صحیح مُسلم، حدیث ٨٩٠ / کتاب صلاۃ العیدین / پہلا باب، اُوپر نقل کیئے گئے اِلفاظ مُسلم کی روایت کے ہیں۔
گو کہ اِن احادیث میں حُکم عورتوں کے لیے ہے، لیکن یہ بات بالکل سیدھی سادھی ہے کہ مَردوں کے لیے عید کی نماز کی ادائیگی کے لیے مُصلّے جانے کا حُکم بدرجہ اول ہے، کیونکہ اگر مَرد نہیں جائیں گے تو کیا عورتیں اپنی نماز پڑھیں گی، اور مسلمانوں کے کون سے اجتماع کی خیر اور دعوت کا مشاہدہ کرسکیں گی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حُکم عید کے مُصلّے میں حاضر ہونے کو واجب قرار دیتا ہے، اور اِس حاضری کا سبب عید کی نماز ادا کرنا ہے، لہذا عید کی نماز ہر مُسلمان پر واجب ہے، فرضِ کفایہ نہیں اور نہ ہی سُنّت، اور جمعہ کے دِن عید کی نماز پڑھ لینے کی صورت میں جمعہ کی نماز سے معافی دی گئی ہے، اِس کا ذِکر اِن شاء اللہ آگے آئے گا، یہ معاملہ عید کی نماز کے واجب ہونے کی دوسری دلیل ہے۔

یہاں یہ بات بھی بہت اچھی طرح سے یاد رکھنے کی ہے خواتین کو مُصلّے جانے کا حُکم دِیا گیا ہے، تو ساتھ ہی ساتھ پردے کے بارے میں بھی یہاں تک فرمایا گیا ہے کہ جِس کے پاس چادر نہ ہو اُسے اُس کی کوئی بہن اپنی چادر میں لپیٹ کر لائے، یعنی بے پردگی نہ ہو، اور نہ ہی کِسی قِسم کی کوئی بے حیائی ہو، اور نہ ہی مَردوں کے ساتھ میل جول کا کوئی سبب بنے۔
 
*** عید کا دِن، تابع فرمانی یا نافرمانی، اِسلامی عزت و وقار کا اِظہار یا کافروں کی غلامی میں اُن کی نقالی کا اِظہار ***
مسئلہ ::::: عید کے دِن کھیل کُود تفریح وغیرہ جائز ہے :::::
انس رضی اللہ عنہُ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (مکہ سے) مدینہ تشریف لائے تو مدینہ والوں کے لیے دورِ جاھلیت میں سے دو دِن ایسے تھے جِن میں وہ لوگ کھیل کوُد کرتے تھے (یہ دو دِن یوم النیروز اور یوم المھرجان یعنی تہوار اور میلے تھے)،
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (((((قَدِمتُ عَلَیکُم وَلَکُم یَومَانِ تَلعَبُونَ فِیہِمَا فاِن اللَّہَ قد اَبدَلَکُم یَومَینِ خَیراً مِنہُمَا یوم الفِطرِ وَیَومَ النَّحرِ ::: میں جب تُم لوگوں کے پاس آیا تو تُم لوگوں کے لیے دو دِن تھے جِن میں تُم لوگ کھیل کُود کرتے تھے، اللہ نے تُم لوگوں کو اُن دو دِنوں کے بدلے میں اُن سے زیادہ خیر والے دو دِن فِطر کا دِن اور اضحٰی کا دِن دے دیے ہیں))))) مُسند احمد / جلد ٣ / صفحہ ١٧٨،٢٣٥، سلسلہ الاحادیث الصحیحہ حدیث ٢٠٢١۔
جی ہاں ::::: دونوں عیدوں کے دِنوں میں مُسلمانوں کو اجازت دِی گئی کہ وہ کھیل کُود کے ذریعے خود کو خوش کرنا چاہیں تو کرلیں، اوروہ عام طور پر ایسے کھیل ہوتے تھے جِن میں کافروں کو مرعوب کرنے کے لیے طاقت و قوت اور جنگی مہارت کا اظہار ہوتا تھا،،،،، نہ کہ ایسے کھیل جِن میں وقت اور مال ضائع کرنے کے ساتھ ساتھ، کِسی پردہ و غیرت کے بغیر، کِسی حد و حیاء کے بغیر مرد و عورت کا اختلاط ہو، طاقت و قوت و جنگی مہارت کے اظہار کی بجائے عزت و حمیت کی دھجیاں اُڑائی جاتی ہوں۔
جی ہاں ::::: دونوں عیدوں کے دِنوں میں مُسلمانوں کو اجازت دِی گئی کہ وہ دف وغیرہ بجالیں اور ایسا کلام پڑھ لیں جِس میں شرک و کفر، بے حیائی و جھوٹ وغیرہ نہ ہو،،،،، نہ کہ ہر طرف موسیقی کی مجلسوں (میوزک پارٹیز) کے ذریعے، عید ملن پارٹیز، یا اُن کے بغیر شیطان کی ہر آواز (موسیقی کے آلات، میوزک انسٹرومنٹس) بلند کی جائے، اور جھوٹ، بے حیائی، عشق و محبت، فِسق و فجور، کفر و شرک پر مبنی شیطانی کلام گایا جائے، اور مَرد و عورت رقص کرتے ہوں، جسے اپنی عِزت کا موتی پردے میں چھپا کر رکھنے کا حُکم ہے وہ خوشی کے نام پر اپنا انگ انگ سب کو دِکھاتی رہے، اور، نامحرم مَردوں کے ہاتھوں میں کھیلتی رہے، اور، اور، اور۔
جی ہاں ::::: اِن دونوں عیدوں کے دِنوں میں مُسلمانوں کو ایک مُصلّے میں نماز کے ذریعے عظیم اجتماع کی تعلیم دی گئی، کہ اِسلام اور مسلمانوں کی شان و شوکت کا اِظہار کِیا جائے، کافروں کو اسلامی شعائر دِکھائے جائیں، مُسلمانوں کا بھائی چارہ اور باہمی مُحبت و اخوت دِکھائی جائے،،،،، نہ کہ کافروں کی عیدوں اور تہواروں پر جو کچھ وہ کرتے ہیں وہی کچھ بلکہ اپس سے بھی کچھ بڑھ کر کرکے دِکھایا جائے اور اُنہیں یہ تسلی دِلائی جائے کہ ہم اور تُم ایک ہیں، ناموں کے فرق سے کچھ نہیں ہوتا، جو تُم کرتے ہو ہم بھی وہی کرتے ہیں، لہذا ہم سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہم وہ مسلمان نہیں ہیں جو اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کا تصور بھی نہیں کیا کرتے تھے اور اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حُکموں کے نفاذ اور اپنے دِین کی سر بلندی کے لیے کِسی سے ڈرتے تھے نہ ہی کِسی کا لحاظ رکھتے تھے، 

وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا ::::: کارواں کے دِل سے احساسِ زیاں جاتا رہا

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

آپ کی رائے باعث مسرت لیکن موقف کا غیر اخلاقی حصہ حذف کر دیا جائے گا۔