جمعہ, نومبر 23, 2012

بلیو کارڈ سکیم کا جرمنی میں مستقبل

بلیو کارڈ کیا ہے؟ اس بارے میں زیادہ لوگوں نے ابھی تک کوئی خاص دھیان نہیں دیا ہے۔ یہ امریکی گرین کارڈ کا یورپی ورژن ہے۔ چونکہ یہ کارڈ نیلے رنگ کا ہے، اس لیے اسے بلیو کارڈ کہا جا رہا ہے۔

غیر ملکی ہنر مند افراد کو یورپی یونین میں ملازمتوں کے موقع فراہم کرنے والے اس پروگرام کے بارے میں جرمنی میں کوئی زیادہ دلچسپی نہیں لی جا رہی۔ شاید اس حوالے سے جرمنی کو ابھی مزید محنت کرنا ہو گی۔

اگست میں متعارف کروائے گئے اس ’جاب پرمٹ‘ کا مقصد یہ تھا کہ ملازمت کے خواہاں اعلی تربیت یافتہ افراد کو کم رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑے۔ تب سے ہی ایسے ہنر مند افراد جو یورپی یونین کی رکن ریاستوں سے تعلق نہیں رکھتے، انہیں ملازمتوں کے حصول کے حوالے سے درپیش مسائل میں کمی پیدا ہوئی ہے۔ بلیو کارڈ کی بدولت یونیورسٹی سے فارغ التحصیل نوجوان ایسی ملازمتیں کر سکیں گے، جن سے وہ سالانہ 44 ہزار آٹھ سو یورو تک کما سکیں گے۔ اس کارڈ سے قبل سالانہ 66 ہزار یورو تک کمانے کی اجازت تھی۔ ’جاب پرمٹ‘ جیسے بلیو کارڈ کا نام دیا جا رہا ہے، ابتدائی طور پر تین برس کے لیے جاری کیا جائے گا۔ اس کارڈ کی کامیابی کے حوالے سے جرمنی کے مختلف حلقوں میں ایک بحث جاری ہے۔ جرمن چیمبر آف انڈسٹریز اینڈ کامرس سے منسلک Stefan Hardege کے بقول یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ یہ سکیم ناکام ہو گئی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جرمن حکومت کو اس حوالے سے اپنی ’جاب مارکیٹ‘ کو دلکش بنانے کے لیے مزید کوشش کرنا ہو گی تاکہ ہنر مند افراد کو زیادہ مؤثر انداز میں متوجہ کیا جا سکے۔

جرمنی میں انضمام و مہاجرت SVR نامی کونسل سے وابستہ Gunilla Fincke بھی کہتی ہیں کہ بلیو کارڈ کو ابھی سے ہی ناکام قرار دے دینا مناسب نہیں ہو گا۔ وہ کہتی ہیں کہ کئی عشروں کے بعد جرمنی کے بارے میں یہ تاثر پیدا ہوا تھا کہ یہ ایک ’نان امیگریشن‘ ملک ہے اور اب پہلی مرتبہ ایک ایسا قانون بنا دینے سے یہ توقع نہیں کرنا چاہیے کہ برسوں پرانا یہ تاثر راتوں رات ہی ختم ہو جائے گا۔

جرمنی میں ملازمتوں کے مواقع  
جرمنی میں متعدد صنعتوں میں کئی برسوں سے ہی ہنر مند افراد کی کمی پائی جا رہی ہے۔ کار سازی اور انجنیئرنگ کے علاوہ تحقیق اور نرسنگ میں بھی اعلیٰ تربیت یافتہ افراد کا نہ ہونا ایک مسئلہ تصور کیا جاتا ہے۔ Hardege کہتے ہیں کہ یہ ایسے شعبے ہیں، جہاں کئی کمپنیوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ نہ صرف یہ صنعتیں بلکہ اس کے علاوہ ٹریڈ کے شعبے میں بھی ہنر مند افراد کی کمی نوٹ کی گئی ہے۔ لیبر مارکیٹ پر تحقیق کرنے والے ایک انسٹی ٹیوٹ IZA کے ایک اندازے کے مطابق جرمنی میں 2020ء تک دو لاکھ 40 ہزار انجنیئروں کی کمی پیدا ہو جائے گی۔

کولون انسٹی ٹیوٹ برائے اقتصادی تحقیق IW سے منسلک کرسٹوف میٹزلر کے خیال میں غیر ملکی ہنر مند افراد کے لیے جرمنی میں ملازمت کرنے کے حوالے سے بلیو کارڈ ایک واضح اور مثبت اشارہ ہے۔ تاہم وہ قائل ہیں کہ اس حوالے سے ایک جارحانہ تشہیری مہم کی ضرورت بھی ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ جرمنی کی 12 سو پچاس کمپنیوں نے کھلے عام کہہ رکھا ہے کہ وہ غیر ملکی ہنر مند افراد کو ملازمتیں فراہم کرنے کے لیے تیار ہیں۔

ڈگری اور قابلیت کو تسلیم کرنا
جرمنی میں سکونت پذیر ایسے بہت سے افراد کو ملازمتیں تلاش کرنے میں مسائل کا سامنا رہا ہے، جنہوں نے بیرون ملک سے تعلیم حاصل کر رکھی ہے۔ اکثر اوقات ایسے افراد کی ڈگری یا قابلیت کو سرکاری طور پر تسلیم نہں کیا جاتا رہا، اس لیے وہ اپنے شعبے میں ملازمت حاصل کرنے میں ناکام ہو رہے ہیں۔ کرسٹوف میٹزلر حکومت کی طرف اس رکاوٹ کو بھی دور کرنے کو خوش آئند قرار دیتے ہیں۔ اس حوالے سے 'bq-portal' نامی ایک آن لائن پلیٹ فارم تخلیق کیا گیا ہے، جہاں غیر ملکی کمپنیاں اور چیمبر آف کامرس مختلف ممالک کے نظام تعلیم اور ووکیشنل ٹریننگ سسٹم میں مماثلتیں تلاش کر سکتی ہیں۔

جب جرمنی میں غیر ملکی ڈگری یا قابلت کو تسلیم کیا جاتا ہے تو عمومی طور پر ان کا جرمنی میں رائج نظام تعلیم سے تقابلی جائزہ کیا جاتا ہے۔ دوسری صورت میں جرمنی میں کام کرنے والے غیر ملکی خواہشمند افراد ان خصوصی سکیموں سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں، جن کی بدولت وہ مطلوبہ اضافی کوالیفیکیشن حاصل کر سکتے ہیں۔

بلیو کارڈ سکیم کا جرمنی میں مستقبل

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

آپ کی رائے باعث مسرت لیکن موقف کا غیر اخلاقی حصہ حذف کر دیا جائے گا۔