جمعہ, جولائی 20, 2012

اس کی یاد کا جو چراغ تھا نہ جلا سکے نہ بجھا سکے

سبھی اشک آنکھوں میں آگئے نہ چھپا سکے نہ بتا سکے

وہ جو راز تھا وہ کھل گیا کوئی بات بھی نہ چھپا سکے

نہ وفا رہی نہ جفا رہی نہ وہ دل رہا نہ ہم رہے

اس کی یاد کا جو چراغ تھا نہ جلا سکے نہ بجھا سکے

کوئی زور خود پے رہا نہیں کوئی بس بھی اس پے چلا نہیں

اسے دیکھتے رہے دور تک مگر ہاتھ تک نہ ہلا سکے

نہیں اس میں اس کی خطا کوئی نہ نصیب کا کوئی دوش تھا

یہ ہمارا اپنا مزاج تھا کہ کسی طرح نہ نبھا سکے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

آپ کی رائے باعث مسرت لیکن موقف کا غیر اخلاقی حصہ حذف کر دیا جائے گا۔