پیر, دسمبر 10, 2012

ذرا تم رات ہونے دو

ذرا تم رات ہونے دو

میں تتلیوں کو سُلا دوں گا
ذرا تم رات ہونے دو
میں جگنوؤں کو جگا دوں گا
ذرا تم رات ہونے دو

میری نمناک آنکھوں کو
نہ دیکھو تم حقارت سے
میں تم کو بھی رُلا دوں گا
ذرا تم رات ہونے دو

کہاں آغاز ہوتا ہے
کہاں انجام ہوتا ہے
ہُنر سارے سکھا دوں گا
ذرا تم رات ہونے دو

جو تم نے مجھ سے پوچھا ہے
کہاں ہو گی تمھاری رات
جہاں ہو گی بتا دوں گا
ذرا تم رات ہونے دو

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

آپ کی رائے باعث مسرت لیکن موقف کا غیر اخلاقی حصہ حذف کر دیا جائے گا۔