بدھ, جولائی 11, 2012

تمہارے شہر کا موسم بڑا سہانا لگے

تمہارے شہر کا موسم بڑا سہانا لگے 
میں ایک شام چرا لوں اگر برا نہ لگے 

تمہارے بس میں اگر ہو تو بھول جاؤ ہمیں 
تمہیں بھلانے میں شاید مجھے زمانہ لگے 

ہمارے پیار سے جلنے لگی ہے اک دنیا 
دعا کرو کسی دشمن کی بددعا نہ لگے 

نہ جانے کیا ہے اس کی بیباک آنکھوں میں 
وہ منہ چھپا کے جائے بھی تو بےوفا نہ لگے 

جو ڈوبنا ہے تو اتنے سکون سے ڈوبو 
کہ آس پاس کی لہروں کو بھی پتا نہ لگے 

ہو جس ادا سے میرے ساتھ بےوفائی کر کہ 
تیرے بعد مجھے کوئی بےوفا نہ لگے 

وہ پھول جو میرے دامن سے ہوگیا منسوب 
خدا کرے انہیں بازار کی ہوا نہ لگے 

تم آنکھ موند کے پی جاؤ زندگی قیصر 
کہ ایک گھونٹ میں شاید یہ بدمزا نہ لگے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

آپ کی رائے باعث مسرت لیکن موقف کا غیر اخلاقی حصہ حذف کر دیا جائے گا۔