بدھ, جولائی 11, 2012

ہمیں یقین ہے امجد نہیں وہ وعدہ خلاف

کوئی بھی لمحہ کبھی لوٹ کر نہیں آیا
وہ شخص ایسا گیا پھر نظر نہیں آیا

وفا کے دشت میں رستہ نہیں ملا کوئی
سوائے گرد سفر ہم سفر نہیں آیا

پَلٹ کے آنے لگے شام کے پرندے بھی
ہمارا صُبح کا بُھولا مگر نہیں آیا

کِسی چراغ نے پُوچھی نہیں خبر میری
کوئی بھی پُھول مِرے نام پر نہیں آیا

چلو کہ کوچہ قاتل سے ہم ہی ہو آئیں
کہ نخلِ دار پہ کب سے ثمر نہیں آیا

خُدا کے خوف سے دل لرزتے رہتے ہیں
اُنھیں کبھی بھی زمانے سے ڈر نہیں آیا

کدھر کو جاتے ہیں رستے، یہ راز کیسے کُھلے
جہاں میں کوئی بھی بارِ دگر نہیں آیا

یہ کیسی بات کہی شام کے ستارے نے
کہ چَین دل کو مِرے رات بھر نہیں آیا

ہمیں یقین ہے امجد نہیں وہ وعدہ خلاف
پر عُمر کیسے کٹے گی، اگر نہیں آیا

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

آپ کی رائے باعث مسرت لیکن موقف کا غیر اخلاقی حصہ حذف کر دیا جائے گا۔