منگل, جولائی 24, 2012

دنیا کا تصور ۔۔۔ ’’آہیں، سسکیاں، بھوک، پریشانی، جنگیں، تباہی‘‘

کیا یہ سچ نہیں ہے کہ دنیا میں سازشیں ہی سازشیں ہیں، ہر شخص اقتدار چاہتا ہے، ہر شخص شہنشاہ ہے، پُرہوس اور ڈاکو ہے، زندگی کس قدر غیرمحفوظ ہے۔ بازاروں، گلیوں اور سڑکوں پر موت گھومتی ہے، انسانی زندگی بے حقیقت ہے، کوئی اس کا احترام نہیں کرتا، کوئی قدر نہیں، کوئی اخلاق نہیں، کوئی کسی کا دوست نہیں۔

 کیا لوگوں کا مذہب دولت نہیں بن چکا ہے؟ ایمان ہی دولت، جگہ جگہ دولت کی پوجا ہوتی ہے اور زرپرستی میں ایمان مکمل ہوتا ہے۔ ایمان میں کھوٹ ہے یا دولت کے لئے سب کچھ، اخلاقیات تک بھول گئے ہیں، انسانوں کے نزدیک دولت سے بڑھ کوئی چیز نہیں رہی، دولت کے حصول کے لئے سب کچھ بھول بیٹھے ہیں، کوئی رشتہ، کوئی تہذیب نہیں، دولت ہی خدا ہے، زرپرستی، ہوس پرستی کے علاوہ کسی اور معبود کی پوجا نہیں کی جاتی۔

کیا دنیا تباہی کے نزدیک ہے؟ اگر نہیں تو زندگی کا وجود کیا ہے؟ ’’آہیں، سسکیاں، بھوک، پریشانی، جنگیں، تباہی۔‘‘ یہ سب جمع کردی جائیں تو آج کی دنیا کا تصور مکمل ہوجاتا ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

آپ کی رائے باعث مسرت لیکن موقف کا غیر اخلاقی حصہ حذف کر دیا جائے گا۔