منگل, جولائی 24, 2012

آخر وہ بھی تو پاکستان کا ہی چہرہ ہے

شرمین عبید نے اپنی آسکر ایوارڈ یافتہ فلم ’سیونگ فیس‘ سے پاکستان میں کئی چہروں کو تیزاب کے چھینٹوں سے بچانے کی کوشش کیا کی کہ انہیں خود کو الزامات سے بچانا مشکل ہوگیا۔

ان کے آسکر جیتنے سے پاکستان کا چہرہ تو دنیا بھر میں ایک نئے انداز میں ابھرا لیکن ہمیشہ کی طرح اس معاملے پر بھی ملک میں اتنی لے دے ہوئی کہ آسکر اعزاز کے بجائے عذاب بن گیا۔

کچہ حلقے شرمین پر پاکستان کا امیج عالمی سطح پر مجروح کرنے کا الزام عائد کرتے رہے ہیں اور اب توان پر فلم میں کام کرنے والی تیزاب سے متاثرہ خاتون رخسانہ بی بی سے کیے گئے معاہدے کی خلاف ورزی کا تنازع سامنے آرہا ہے بلکہ اس تنارعے پر تو پنجاب اسمبلی میں تحریک التوا بھی پیش کردی گئی۔

تحریک پیش کرنے والے پنجاب اسمبلی میں یونیفکیشن بلاک کے رکن شیخ علاوالدین کا کہنا ہے کہ ان کی براہ راست تو رخسانہ بی بی سے بات نہیں ہوئی تاہم انہیں ’باوثوق‘ ذرائع سے معلومات ملی ہیں کہ شرمین نے رخسانہ بی بی سے کیےگئے معاہدے کی خلاف ورزی کی اور انہیں طے کردہ معاوضہ ادا نہیں کیا۔

شیخ علاوالدین کا کہنا ہے کہ شرمین کی فلم سے پاکستان خواتین کے حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے دنیا بھر میں بدنام ہوا۔ دانستہ طور پر ایسے واقعات کو اچھالا جارہا ہے اگر شرمین حقیقت میں ایسی خواتین کے لیے کچھ کرنا چاہتی تھیں تو ملک میں ان کے لیے آواز اٹھاتیں۔

پنجاب اسمبلی میں حزب اختلاف کی جماعت پیپلزپارٹی کی ساجدہ میر نے شیخ علاوالدین کی تحریک التوا کی مخالفت کی اور شرمین عبید کا دفاع کیا۔

ساجدہ میر کے مطابق شرمین نے اپنی فلم کے ذریعے ایک سماجی برائی کی عکاسی کی اور پاکستان کا وقار بلند کیا۔

رخسانہ بی بی پر تیزاب پھینکنے والے اس کے شوہر کو سزا دینے کی بات تو کوئی نہیں کررہا شرمین پر الزامات لگائے جارہے ہیں۔

معاملے کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے تحریک التوا پر بحث کروانے کی بجائے پنجاب کے وزیرقانون رانا ثنا اللہ نے معاملے کی تحقیقات کے لیے اسے ویمن ڈویلپمنٹ کمیٹی کے سپرد کرنے کا اعلان کیا۔

رانا ثنااللہ کی دور اندیشی کا تو ویسے ہی جواب نہیں، پنجاب اسمبلی میں خواتین کی ترقی کے حوالے سے کام کرنے کمیٹی چیئرپرسن نہ ہونے کے باعث کافی عرصے سے فعال ہی نہیں۔

سیکرٹری پنجاب اسمبلی مقصود ملک کا کہنا ہے کہ چیئرپرسن کے نہ ہونے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا ہے اور حکومت جب چاہے کمیٹی کا اجلاس بلا سکتی ہے۔

’کمیٹی جب چاہے شرمین عبید کو طلب کرکے ان سے وضاحت بھی لے سکتی ہے لیکن معاملے کی باضابطہ تحقیقات کرنے اور شرمین کے پیش نہ ہونے کی صورت میں کمیٹی کے پاس ان کے خلاف کاروائی کرنے کے کوئی واضح اختیارات موجود نہیں۔‘

پنجاب اسمبلی کی کمیٹی میں شرمین کی پیشی ہوپائے گی یا نہیں اس سے قطع نظر یہ بات تو طے ہے کہ سازش کا مفروضہ اس حد تک ہماری رگوں میں سرایت کر چکا ہے اگر بین الاقوامی سطح پر ہمیں کوئی اعزاز مل بھی جائے تو ہم خود ہی اس کی نفی کرنے پر تل جاتے ہیں۔ ہمیں ’سیونگ فیس‘ میں رخسانہ بی بی کا جھلسا ہوا چہرہ تو یاد رہا لیکن شرمین کا دمکتا ہوا چہرہ بھول گئے۔ آخر وہ بھی تو پاکستان کا ہی چہرہ ہے۔

آخر وہ بھی تو پاکستان کا ہی چہرہ ہے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

آپ کی رائے باعث مسرت لیکن موقف کا غیر اخلاقی حصہ حذف کر دیا جائے گا۔