کراچی (جسارت نیوز) برما میں مسلمانوں کے قتل عام پر خاموش رہنے والا پاکستانی میڈیا راجیش کھنہ کی موت پر سوگوار رہا اور سارا دن راجیش کھنہ کی پرانی فلموں کے کلپ اور گانے دکھاتا رہا، ایسا لگ رہا تھا کہ ایک بھارتی اداکار کی موت پر ہمارا میڈیا یتیم ہو گیا ہے۔ میڈیا سارا دن راجیش کھنہ کے بارے میں تبصرے دیتا رہا، کتنی فلموں میں کام کیا؟ کتنی شادیاں کیں؟ کتنے افیئر چلے؟ ان کی بیٹی کون ہے؟ داماد کون ہے؟ ان کی کونسی فلم ہٹ ہوئی؟ کون سی فلموں کے گانے ہٹ ہوئے؟ غرض میڈیا ہر زاویہ سے تبصرے کرتا رہا کہ راجیش کھنہ کو ’’کاکا‘‘ کے نام سے پکارا جاتا تھا، ان کی عمر 66 برس تھی، وہ گردوں کے عارضہ میں مبتلا تھے، انہوں نے 1966ء میں فلموں میں کام کرنا شروع کیا، ڈمپل کپاڈیا سے شادی کی، جمعرات کو دن 11 بجے ان کا کریا کرم کیا جائے گا۔ میڈیا پر راجیش کھنہ کی موت کے بعد نشر ہونے والی خبروں اور تجزیوں سے ایسا لگ رہا تھا کہ راجیش کھنہ مر گیا اور ہمارا میڈیا یتیم ہوگیا۔ ایک ہندو کی موت نے ہمارے میڈیا کو سوگوار کردیا جبکہ یہی میڈیا برما میں مسلمانوں کے قتل عام پر خاموش ہے، انسانیت سوز مظالم پر کوئی کوریج نہیں کی۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا؛ جو مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر دس مرتبہ رحمتیں نازل فرماتا ہے
جمعرات, جولائی 19, 2012
خلا باز نمیرا سلیم کو ہراساں کرنے پرمیجر (ر) حفیظ اللہ کے خلاف مقدمہ
اسلام آباد (آئی این پی ) پاکستان کی پہلی خاتون خلا باز نمیرا سلیم کو ای میل کے ذریعے ہراساں اور اپنے امام مہدی ہونے کا جھوٹا دعویٰ کرنے والے میجر(ر) حفیظ اللہ کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ نے ملزم کا نام ای سی ایل میں شامل کردیا ‘ملزم تاحال گرفتارنہ ہوسکا۔ نجی ٹی وی کے مطابق نمیرا سلیم جوابوظہبی میں اپنے والد کرنل (ر) سلیم کے ساتھ رہائش پذیر ہیں کی جانب سے پاکستانی سفارت خانے کے ذریعے وزارت داخلہ کو ایک درخواست دی گئی تھی‘ جس میں کہا گیا تھا کہ میجر(ر) حفیظ اللہ جو اسلام آباد میں مقیم ہے ای میل کے ذریعے نمیرا کو ہراساں کررہا ہے اور امام مہدی ہونے کا بھی دعویٰ کرتا ہے‘ جس پر وزارت داخلہ نے پولیس کو ہدایت کی کہ ملزم کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔
کیمپوں میں محصور 8 لاکھ برمی مسلمان خوراک کی قلت کا شکار
ینگون (آئی این پی) برما میں مسلمانوں کو خوراک کی شدید قلت پیدا ہوگئی ہے، روہینگیا مسلمان کیمپوں میں محصور افراد جیسی زندگی گزار رہے ہیں۔ انہیں یہ خوف ستایا ہوا کہ انہیں قتل کردیا جائے گا۔ برما میں کام کرنے والی انسانی حقوق کی تنظیموں کے عملے کو یا تو گرفتار کیا جارہا ہے یا پھر ملک سے باہر بھیجا جارہا ہے۔ بدھ کو غیرملکی میڈیا سے گفتگو میں فلاحی ادارے سے منسلک ایک شخص نے کیمپوں کو کھلے جیل سے تشبیہہ دی ہے۔ شمالی شہرسے فلاحی اداروں کو نکالا جارہا ہے۔ اس علاقہ میں 8 لاکھ مسلمان آباد ہیں جنہیں غذا کی شدید قلت ہے۔ عینی شاہدین کے مطابق 12 سال کے عمر کے افراد کو بھی تھانے بلا کر تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور پھر انہیں ارکنیس شہریوں کو دے دیا جاتا ہے جو ان پر بدترین تشدد کے بعد قتل کردیتے ہیں۔ میانمار کے 1982ء کے قانون کے تحت روہینگیا مسلمان میانمار کے شہری نہیں۔ مسلمانوں کے قتل عام کے خلاف بھارت کی انسانی حقوق کی تنظیمیں آگے آرہی ہیں۔ حال ہی میں وزیراعظم من موہن سنگھ کو لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ برما میں مسلمانوں کے قتل کے حوالے سے بھارتی مسلمانوں میں تشویش پائی جاتی ہے۔
آئی ایس آئی کے سربراہ کا امریکی دورہ متوقع
پاکستانی فوج کے خیفہ ادارے، آئی ایس آئی، کے سربراہ اطلاعات کے مطابق آئندہ ہفتے امریکہ کا دورہ کریں گے۔
مقامی اور غیرملکی ذرائع ابلاغ نے خبر دی ہے کہ ادارے کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ظہیر السلام امریکی سی آئی اے کے ڈائریکٹر ڈیوڈ پیٹریاس سے خفیہ معلومات کے تبادلے، انسداد دہشت گردی میں تعاون اور ڈرون حملوں پر بات چیت کریں گے۔
گزشتہ سال مئی میں ایبٹ آباد میں امریکی آپریشن میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد آئی ایس آئی کے سربراہ کا یہ پہلا دورہ واشنگٹن ہوگا جو دوطرفہ کشیدہ تعلقات میں بہتری کی علامت کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔
ایک پاکستانی عہدے دار کے بقول جنرل ظہیر الاسلام ڈرون حملوں کی بندش اور یہ ٹیکنالوجی پاکستان کو دینے کا مطالبہ دہرائیں گے تاکہ وہ خود اپنی سرزمین پر عسکریت پسندوں کے خلاف یہ کارروائیاں جاری رکھ سکیں۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے، اے ایف پی، سے گفتگو کرتے ہوئے عہدے دار نے کہا کہ آئی ایس آئی کے سربراہ کا دورہ سیاسی و فوجی قیادت کے درمیان طویل مشاورت کا نتیجہ ہے اور انھیں بات چیت میں ڈرون کے معاملے پر سخت موقف اپنانے کا اختیار دیا گیا ہے۔
’’شہری ہلاکتوں اور سیاسی مخالفت سے بچنے کے لیے ہدف کو ٹھیک نشانہ بنانے کی اس صلاحیت کی ہمیں ضرورت ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ امریکہ ہدف کی نشاندہی کرنے کے بعد ہمیں بتائے اور ہم خود اُسے تباہ کردیں۔‘‘
حکومت پاکستان کا موقف رہا ہے کہ ڈرون حملے اُس کی سالمیت کی خلاف ورزی اور ملک میں امریکہ مخالف جذبات کو بھڑکا رہے ہیں۔
اُدھر بدھ کو ایوان صدر میں صدر آصف علی زرداری اور وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے مشترکہ طور پر ایک اجلاس کی صدارت کی جس میں تینوں مسلح افواج کے سربراہان بھی موجود تھے۔
اجلاس میں پاک امریکہ تعلقات پر بات چیت کی گئی جبکہ چیئرمین جائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل خالد شمیم وائیں اور وزیرخارجہ حنا ربانی کھر بھی اس میں شریک تھیں۔
پاکستانی شہری بھارت میں رہنے کا خواہاں
بھارت کی ریاست راجستھان کے جھنجھونوں ضلع کے ایک گاؤں میں پیدا ہونے والے نوے سالہ شمشیر تقسیم کے دوران پاکستان چلے گئے اور وہیں کے ہوکر رہ گئے لیکن اب وہ بھارت آنا چاہتے ہیں۔
انہیں پاکستانی کی شہریت ملی گئی مگر ان کی اہلیہ سلامت بانو اور ان کے بچے بھارت میں ہی رہ گئے۔
اب وہ چار دن قبل بھارت پہنچے ہیں اور اب وہ پاکستان واپس نہیں جانا چاہتے ہیں اور اس سلسلے میں انہوں نے جھنجھونوں ضلع کے کلکٹر کو بھارت میں رہنے کی درخواست دی ہے۔
جھنجھونوں ضلع کے کلکٹر جوگا رام نے بتایا ہے کہ ’شمشیر نے درخواست دی ہے اور بھارتی حکومت سے اپیل کی ہے کہ انہیں بھارت میں رہنے کی اجازت دی جائے۔ ہم نے ان کی درخواست وزارت داخلہ کو بھیج دی ہے‘۔
شمشیر کے رشتہ داروں نے بتایا ہے کہ تقسیم ہند کے دور میں شمشیر کسی کام سے پاکستان کے صوبہ سندھ گئے تھے اور ان کے وہاں جانے کے کچھ دن بعد ہی بٹوارا ہوگیا۔ شمشیر سرحد کے اس پار ہی رہ گئے۔
ان کے ایک رشتہ دار نے بتایا کہ’ان دنوں ویزے کا قانون نہیں تھا۔ پاکستان اور ہندوستان سے لوگ آتے اور جاتے رہتے تھے۔ شمشیر کی جھنجھونوں ضلع کی ایک لڑکی سے شادی بھی ہوئی۔ لیکن تھوڑے دن بعد ان کی اہلیہ چل بسیں تو شمشیر نے اپنی سالی سلامت بانو سے شادی کرلی۔ سلامت بانو یہی رہیں اور شمشیر آتے جاتے رہتے تھے۔ اس دوران ان کے دو بیٹے اور ایک بیٹی بھی ہوئی۔ وہ سب بھارت میں ہی رہے اور شمشیر پاکستان میں رہے‘۔
انہیں پاکستانی کی شہریت ملی گئی مگر ان کی اہلیہ سلامت بانو اور ان کے بچے بھارت میں ہی رہ گئے۔
اب وہ چار دن قبل بھارت پہنچے ہیں اور اب وہ پاکستان واپس نہیں جانا چاہتے ہیں اور اس سلسلے میں انہوں نے جھنجھونوں ضلع کے کلکٹر کو بھارت میں رہنے کی درخواست دی ہے۔
جھنجھونوں ضلع کے کلکٹر جوگا رام نے بتایا ہے کہ ’شمشیر نے درخواست دی ہے اور بھارتی حکومت سے اپیل کی ہے کہ انہیں بھارت میں رہنے کی اجازت دی جائے۔ ہم نے ان کی درخواست وزارت داخلہ کو بھیج دی ہے‘۔
شمشیر کے رشتہ داروں نے بتایا ہے کہ تقسیم ہند کے دور میں شمشیر کسی کام سے پاکستان کے صوبہ سندھ گئے تھے اور ان کے وہاں جانے کے کچھ دن بعد ہی بٹوارا ہوگیا۔ شمشیر سرحد کے اس پار ہی رہ گئے۔
ان کے ایک رشتہ دار نے بتایا کہ’ان دنوں ویزے کا قانون نہیں تھا۔ پاکستان اور ہندوستان سے لوگ آتے اور جاتے رہتے تھے۔ شمشیر کی جھنجھونوں ضلع کی ایک لڑکی سے شادی بھی ہوئی۔ لیکن تھوڑے دن بعد ان کی اہلیہ چل بسیں تو شمشیر نے اپنی سالی سلامت بانو سے شادی کرلی۔ سلامت بانو یہی رہیں اور شمشیر آتے جاتے رہتے تھے۔ اس دوران ان کے دو بیٹے اور ایک بیٹی بھی ہوئی۔ وہ سب بھارت میں ہی رہے اور شمشیر پاکستان میں رہے‘۔
شمشیر کے بیٹے شفیع محمد نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میرے والد بہت بوڑھے ہیں۔ انہیں سنائی نہیں دیتا ہے۔ وہ ٹھیک سے چل بھی نہیں سکتے۔ پاکستان میں کون ان کی دیکھ بھال کرے گا۔ بھارتی حکومت سے ہماری گزارش ہے وہ ہمارے والد پر رحم کریں اور انہیں بھارت میں ہی رہنے دیں‘۔
انسانی حقوق کی کارکن کویتا شریواستو کا کہنا ہے کہ یہ ایک انسان کی پسند ہے کہ وہ کس ملک میں رہے۔ اسے اپنی پسند کے ملک میں رہنے کا حق ہے۔
’یہ بنیادی انسانی حقوق ہے۔ شمشیر جیسے اور بھی معاملے ہیں۔ بدقسمتی سے جنوبی ایشیاء میں ملکوں کے درمیان دشمنی کے سبب ایسا ہوتا ہے۔ ہمیں ایسے معاملات میں انسانی ہمدردی کا رخ اپنانا چاہیے۔ شمشیر کو بھارت میں رہنے کی اجازت دی جائے‘۔
شمشیر گزشتہ چالیس برسوں میں تقریباً پانچ بار اپنے خاندان سے ملنے بھارت آ سکے تھے۔ ایک بار ان کی اہلیہ نے بچوں کے ساتھ پاکستان جانے کی کوشش کی تھی لیکن انہیں ویزا نہیں ملا تھا۔
آج شمشیر کے کانپتے ہاتھوں میں پاسپورٹ اور بھارت میں رہنے کی عرضی ہے۔ فی الحال ان کے پاس صرف ایک مہینے کا ویزا ہے۔ ان کے خاندان کو فکر ہے کہ ایک مہینے بعد کیا ہوگا۔ کیا شمشیر ایک بار پھر دوبارہ آنے کا وعدہ کرکے سرحد پار چلے جائیں گے۔
پاکستانی شہری بھارت میں رہنے کا خواہاں
انسانی حقوق کی کارکن کویتا شریواستو کا کہنا ہے کہ یہ ایک انسان کی پسند ہے کہ وہ کس ملک میں رہے۔ اسے اپنی پسند کے ملک میں رہنے کا حق ہے۔
’یہ بنیادی انسانی حقوق ہے۔ شمشیر جیسے اور بھی معاملے ہیں۔ بدقسمتی سے جنوبی ایشیاء میں ملکوں کے درمیان دشمنی کے سبب ایسا ہوتا ہے۔ ہمیں ایسے معاملات میں انسانی ہمدردی کا رخ اپنانا چاہیے۔ شمشیر کو بھارت میں رہنے کی اجازت دی جائے‘۔
شمشیر گزشتہ چالیس برسوں میں تقریباً پانچ بار اپنے خاندان سے ملنے بھارت آ سکے تھے۔ ایک بار ان کی اہلیہ نے بچوں کے ساتھ پاکستان جانے کی کوشش کی تھی لیکن انہیں ویزا نہیں ملا تھا۔
آج شمشیر کے کانپتے ہاتھوں میں پاسپورٹ اور بھارت میں رہنے کی عرضی ہے۔ فی الحال ان کے پاس صرف ایک مہینے کا ویزا ہے۔ ان کے خاندان کو فکر ہے کہ ایک مہینے بعد کیا ہوگا۔ کیا شمشیر ایک بار پھر دوبارہ آنے کا وعدہ کرکے سرحد پار چلے جائیں گے۔
پاکستانی شہری بھارت میں رہنے کا خواہاں
جنوبی ایشیا میں لینڈ سلائیڈ میں اضافہ
جنوبی ایشیائی ممالک میں خصوصاً ہندوکش اور ہمالیہ کے پہاڑی سلسلوں کے دامن میں واقع علاقوں میں جون سے ستمبر تک مون سون کے موسم میں لینڈ سلائیڈ یا مٹی کے تودے گرنا کوئی نئی چیز نہیں۔
تاہم سائنسدانوں کے مطابق حالیہ برسوں میں اس خطے میں لینڈ سلائیڈ کے واقعات اور ان سے ہونے والی تباہی میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔
بھارتی دارالحکومت نئی دلّی میں قائم سارک ڈیزاسٹر مینجمنٹ سینٹر سے وابستہ ارضیاتی تباہی کے ماہر مریگانکا گھاتک کا کہنا ہے کہ ’حالیہ کچھ عرصے میں مٹی کے تودے گرنے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ ہم نے بھارت، نیپال، پاکستان کے شمالی علاقوں اور بنگلہ دیش کے کچھ حصوں میں لینڈ سلائیڈ میں تیزی دیکھی ہے‘۔
پاکستان کے ارضیاتی سروے کے ڈائریکٹر جنرل عمران خان کا کہنا ہے کہ علاقے میں آنے والے زلزلوں کا بھی ان واقعات سے گہرا تعلق ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’جنوبی ایشیا میں ہندوکش ہمالیہ کا خطہ زیرِ زمین دباؤ کی وجہ سے بہت سے ارضیاتی تبدیلیوں کا شکار ہے۔ اس خطے میں بڑی فالٹ لائنز موجود ہیں اور ہر زلزلے سے پہاڑوں اور ڈھلوانوں پر موجود پتھر اور دیگر ملبہ اپنی جگہ سے ہل جاتا ہے اور یہی اس خطے میں لینڈ سلائیڈ کی بنیادی وجہ ہے‘۔
سائنسدانوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ جنگلات کی کٹائی، سڑکوں کی تعمیر اور پہاڑی ڈھلوانوں پر کاشتکاری بھی تودے گرنے کے واقعات میں اضافے کی اہم وجوہات ہیں۔
جنوبی ایشیا میں لینڈ سلائیڈ میں اضافہ
تاہم سائنسدانوں کے مطابق حالیہ برسوں میں اس خطے میں لینڈ سلائیڈ کے واقعات اور ان سے ہونے والی تباہی میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔
بھارتی دارالحکومت نئی دلّی میں قائم سارک ڈیزاسٹر مینجمنٹ سینٹر سے وابستہ ارضیاتی تباہی کے ماہر مریگانکا گھاتک کا کہنا ہے کہ ’حالیہ کچھ عرصے میں مٹی کے تودے گرنے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ ہم نے بھارت، نیپال، پاکستان کے شمالی علاقوں اور بنگلہ دیش کے کچھ حصوں میں لینڈ سلائیڈ میں تیزی دیکھی ہے‘۔
پاکستان کے ارضیاتی سروے کے ڈائریکٹر جنرل عمران خان کا کہنا ہے کہ علاقے میں آنے والے زلزلوں کا بھی ان واقعات سے گہرا تعلق ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’جنوبی ایشیا میں ہندوکش ہمالیہ کا خطہ زیرِ زمین دباؤ کی وجہ سے بہت سے ارضیاتی تبدیلیوں کا شکار ہے۔ اس خطے میں بڑی فالٹ لائنز موجود ہیں اور ہر زلزلے سے پہاڑوں اور ڈھلوانوں پر موجود پتھر اور دیگر ملبہ اپنی جگہ سے ہل جاتا ہے اور یہی اس خطے میں لینڈ سلائیڈ کی بنیادی وجہ ہے‘۔
سائنسدانوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ جنگلات کی کٹائی، سڑکوں کی تعمیر اور پہاڑی ڈھلوانوں پر کاشتکاری بھی تودے گرنے کے واقعات میں اضافے کی اہم وجوہات ہیں۔
جنوبی ایشیا میں لینڈ سلائیڈ میں اضافہ
بم دھماکہ، نیٹو رسد کے بائیس ٹینکر تباہ
افغانستان میں حکام کا کہنا ہے کہ طالبان کی جانب سے نصب شدہ بم پھٹنے سے نیٹو افواج کے لیے ایندھن لے جانے والے بائیس ٹینکر تباہ ہوگئے ہیں۔
حکام کے مطابق یہ واقعہ شمالی افغانستان میں سمنگان صوبے میں بدھ کو علی الصبح پیش آیا۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ ٹینکر ازبکستان سے افغانستان میں داخل ہوئے تھے اور ان کی منزل ملک کے جنوبی علاقے تھے۔
مقامی پولیس اہلکاروں نے بی بی سی کو بتایا کہ دھماکے کے وقت تمام ٹینکر ایک پڑاؤ پر کھڑے تھے جہاں ان کے ڈرائیور رات بسر کرنے کے لیے رکے تھے۔
اہلکاروں کا کہنا ہے کہ بم ایک ٹینکر کے نچلے حصے میں نصب کیا گیا تھا جس کے پھٹنے سے لگنے والی آگ نے دیگر ٹینکروں کو بھی لپیٹ میں لے لیا۔
یہ آگ اتنی شدید تھی کہ اسے واقعے کے کئی گھنٹے بعد تک بجھایا نہیں جا سکا۔
اس واقعے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ ’چونکہ دھماکہ صبح کے وقت ہوا تو وہاں زیادہ لوگ موجود نہیں تھے ورنہ بڑے پیمانے پر جانی نقصان ہوسکتا تھا‘۔
طالبان نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے اور افغان حکام کے مطابق ملک کے شمالی علاقوں میں یہ اس نوعیت کا پہلا حملہ ہے۔
یہ حملہ اسی صوبے میں ہوا ہے جہاں سنیچر کو ایک خودکش حملے میں افغان سیاستدان احمد خان سمنگانی ہلاک ہوئے تھے۔
پاکستان کی جانب سے گزشتہ برس نومبر میں نیٹو کو زمینی راستے سے رسد کی فراہمی پر پابندی کے بعد اتحادی افواج کو سامان کی فراہمی کا دارومدار وسط ایشیا کے راستے پر ہے۔
پاکستان نے اگرچہ نیٹو کو رسد کی فراہمی کھولنے کا اعلان کیا ہوا ہے لیکن یہ سلسلہ ابھی مکمل طور پر بحال ہونا باقی ہے۔
بم دھماکہ، نیٹو رسد کے بائیس ٹینکر تباہ
ملتان میں آج ضمنی انتخاب ہوگا
سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کی نااہلی سے خالی ہونے والی قومی اسمبلی کی نشست پر آج جمعرات کو ضمنی انتخاب ہورہا ہے۔
اس نسشت پر سابق وزیراعظم کے بیٹے عبدالقادر گیلانی کا مقابلہ آزاد امیدوار شوکت حیات بوسن سے ہورہا ہے۔
حکمران جماعت پیپلزپارٹی نے یوسف رضا گیلانی کی نااہلی کے بعد ان کے بیٹے عبدالقادر گیلانی کو امیدوار نامزد کیا تاہم ان کے مدمقابل حزب مخالف کی کسی بھی جماعت نے اپنا براہ راست امیدوار کھڑا نہیں کیا۔
ملتان کے اس حلقہ میں یوسف رضا گیلانی کے روایتی حریف اور سابق وفاقی وزیر سکندر حیات خان بوسن تحریک انصاف میں شامل ہونے کی وجہ سے ضمنی انتخاب میں حصہ نہیں لے رہے تاہم ان کے جگہ ان کے بھائی شوکت حیات خان بوسن آزاد امیدوار کے طور پر میدان میں ہیں۔
سکندر بوسن اپنے بھائی کے انتخابی مہم میں پیش پیش رہے اور جماعت اسلامی بھی تحریک انصاف کے رہنما کے بھائی شوکت بوسن کی حمایت کررہی ہے۔
مسلم لیگ نون نے ان ضمنی انتخابات میں اپنے امیدوار کھڑا کرنے کے بجائے آزاد امیدوار شوکت حیات بوسن کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔
ضمنی انتخاب الیکشن کمیشن کی طرف سے جاری کردہ نئے ضابطۂ اخلاق کے تحت ہورہا ہے اور پہلی بار امیدواروں کو یہ اجازت نہیں ہوگی کہ ووٹروں کو پولنگ اسٹیشن تک لے جانے کے لیے ٹرانسپورٹ استعمال کرسکیں۔
ووٹروں کو پولنگ اسٹیشن پہنچانے کے لیے الیکشن کمیشن نے اسی کے قریب ٹرانسپورٹ فراہم کی ہے جبکہ پولنگ اسٹشین کے قریب امیدواروں کو اپنے کمیپ لگانے کی اجازت نہیں ہے اور الیکشن کمیشن کا عملہ ووٹروں کو ان کے ووٹ کے بارے میں آگاہی فراہم کرے گا۔
اس مرتبہ ووٹروں کو ان کے ووٹ کی پرچی امیدوار کی بجائے خود الیکشن نے ڈاک کے ذریعے پہنچائی ہے۔
ملتان کے مقامی صحافی شکیل احمد نے بی بی سی کو بتایا کہ ضمنی انتخاب میں ٹرن آؤٹ خاصا کم رہتا ہے اور نئے صابطہ اخلاق کے باعث ٹرن آؤٹ مزید کم ہونے کا اندیشہ ہے۔
خیال رہے کہ مسلم لیگ نون کے طرف سے سابق رکن پنجاب اسمبلی اسحاق بچہ نےکاغذات جمع کرائے تھے تاہم وہ دوبارہ پیپلزپارٹی میں شامل ہوگئے۔
ملتان میں آج ضمنی انتخاب ہوگا
اس نسشت پر سابق وزیراعظم کے بیٹے عبدالقادر گیلانی کا مقابلہ آزاد امیدوار شوکت حیات بوسن سے ہورہا ہے۔
حکمران جماعت پیپلزپارٹی نے یوسف رضا گیلانی کی نااہلی کے بعد ان کے بیٹے عبدالقادر گیلانی کو امیدوار نامزد کیا تاہم ان کے مدمقابل حزب مخالف کی کسی بھی جماعت نے اپنا براہ راست امیدوار کھڑا نہیں کیا۔
ملتان کے اس حلقہ میں یوسف رضا گیلانی کے روایتی حریف اور سابق وفاقی وزیر سکندر حیات خان بوسن تحریک انصاف میں شامل ہونے کی وجہ سے ضمنی انتخاب میں حصہ نہیں لے رہے تاہم ان کے جگہ ان کے بھائی شوکت حیات خان بوسن آزاد امیدوار کے طور پر میدان میں ہیں۔
سکندر بوسن اپنے بھائی کے انتخابی مہم میں پیش پیش رہے اور جماعت اسلامی بھی تحریک انصاف کے رہنما کے بھائی شوکت بوسن کی حمایت کررہی ہے۔
مسلم لیگ نون نے ان ضمنی انتخابات میں اپنے امیدوار کھڑا کرنے کے بجائے آزاد امیدوار شوکت حیات بوسن کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔
ضمنی انتخاب الیکشن کمیشن کی طرف سے جاری کردہ نئے ضابطۂ اخلاق کے تحت ہورہا ہے اور پہلی بار امیدواروں کو یہ اجازت نہیں ہوگی کہ ووٹروں کو پولنگ اسٹیشن تک لے جانے کے لیے ٹرانسپورٹ استعمال کرسکیں۔
ووٹروں کو پولنگ اسٹیشن پہنچانے کے لیے الیکشن کمیشن نے اسی کے قریب ٹرانسپورٹ فراہم کی ہے جبکہ پولنگ اسٹشین کے قریب امیدواروں کو اپنے کمیپ لگانے کی اجازت نہیں ہے اور الیکشن کمیشن کا عملہ ووٹروں کو ان کے ووٹ کے بارے میں آگاہی فراہم کرے گا۔
اس مرتبہ ووٹروں کو ان کے ووٹ کی پرچی امیدوار کی بجائے خود الیکشن نے ڈاک کے ذریعے پہنچائی ہے۔
ملتان کے مقامی صحافی شکیل احمد نے بی بی سی کو بتایا کہ ضمنی انتخاب میں ٹرن آؤٹ خاصا کم رہتا ہے اور نئے صابطہ اخلاق کے باعث ٹرن آؤٹ مزید کم ہونے کا اندیشہ ہے۔
خیال رہے کہ مسلم لیگ نون کے طرف سے سابق رکن پنجاب اسمبلی اسحاق بچہ نےکاغذات جمع کرائے تھے تاہم وہ دوبارہ پیپلزپارٹی میں شامل ہوگئے۔
ملتان میں آج ضمنی انتخاب ہوگا
ڈرون حملوں میں شہری ہلاکتیں
پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ڈرون حملوں میں شہری ہلاکتیں ماضی کے مقابلے میں اب نہ ہونے کے برابر ہیں۔ یہ بات خبر رساں ادارے آئی پی ایس نے نیو امریکا فاؤنڈیشن کی ایک رپورٹ کے حوالے سے بتائی ہے۔ اس فاؤنڈیشن کا کہنا ہے کہ 2004ء سے پاکستان کے شمال مغربی علاقوں میں 310 ڈرون حملے ہوئے جن میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد 1,870 اور 2,873 کے درمیان رہی۔ رپورٹ کے مطابق ان میں سے 1,577 سے 2,402 ہلاک شدگان کو شدت پسند قرار دیا گیا ہے۔ یہ رپورٹ مؤقر خیال کیے جانے والے پاکستانی اور غیرملکی میڈیا سے حاصل کیے گئے اعداد و شمار کی مدد سے مرتب کی گئی۔
بھارت میں صدارتی انتخاب آج ہوگا
بھارت میں جمعرات کو ہونے والے صدارتی انتخاب کی تیاریاں مکمل ہوچکی ہیں۔ اس صدارتی انتخاب میں حکمراں اتحاد کی طرف سے پرنب مکھر جی اور حزب اختلاف کی جانب سے پی کے سنگما صدارتی امیدوار ہیں۔
صدارتی انتخاب میں سات سو چھہتر ارکان پارلیمان اور ریاستی اسمبلیوں کے چار ہزار ایک سو بیس ارکان نئے صدر کا انتخاب کریں گے۔
ان ارکان کے ووٹوں کی تعداد کا تعین ان کے حلقے کی آبادی کے تناسب سے ہوتا ہے۔ مجموعی طورپر ووٹوں کی تعداد دس لاکھ اٹھانوے ہزار ہے اور جیتنے والے امیدوار کو پانچ لاکھ انچاس ہزار چار سو بیالیس ووٹ درکار ہوں گے۔
ووٹوں کی گنتی اتوار کو ہوگی اور نتائج اتوار کی شام تک آنے کی توقع ہے ۔
حکمراں اتحاد کے امیدوار پرنب مکھرجی کو حزب اختلاف کے اتحاد کی بعص جماعتون کی بھی حمایت حاصل ہے اور عام طور پر یہی اندازہ لگایا جارہا ہے کہ وہ یہ انتخاب جیت جائیں گے۔
پرنب مکھرجی کو حکمراں اتحاد کے علاوہ، ملائم سنگھ یادو کی سماواجدی پارٹی، مایاوتی کی بہوجن سماج پارٹی، لالو یادو کے راشٹریہ جنتا دل، جندا دل سیکیولر، مارکسی کمیونسٹ پارٹی اور شیو سینا کی بھی حمایت حاصل ہے۔
دوسری جانب سابق سپیکر پی کے سنگما بی جے پی اور اس کی اتحادی جماعتون کی حمایت پرانحصار کریں گے۔
پی کے سنگما نے ارکان پارلیمان اور اسمبلی سے اپنے ضمیر کی آواز پر ووٹ دینے کی اپیل کی ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی ہے کہ وہ اس انتخاب میں کامیاب ہونگے۔
اس دوران نائب صرر محمد حامد انصاری نے دوبارہ نائب صدر کے عہرے کے لیے اپنے کاغذات نامزدگی داخل کردیے ہیں۔ ان کا مقابلہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے سینیئررہنما جسونت سنگھ سے ہے۔
بھارت میں صدارتی انتخاب آج ہوگا
ان ارکان کے ووٹوں کی تعداد کا تعین ان کے حلقے کی آبادی کے تناسب سے ہوتا ہے۔ مجموعی طورپر ووٹوں کی تعداد دس لاکھ اٹھانوے ہزار ہے اور جیتنے والے امیدوار کو پانچ لاکھ انچاس ہزار چار سو بیالیس ووٹ درکار ہوں گے۔
ووٹوں کی گنتی اتوار کو ہوگی اور نتائج اتوار کی شام تک آنے کی توقع ہے ۔
حکمراں اتحاد کے امیدوار پرنب مکھرجی کو حزب اختلاف کے اتحاد کی بعص جماعتون کی بھی حمایت حاصل ہے اور عام طور پر یہی اندازہ لگایا جارہا ہے کہ وہ یہ انتخاب جیت جائیں گے۔
پرنب مکھرجی کو حکمراں اتحاد کے علاوہ، ملائم سنگھ یادو کی سماواجدی پارٹی، مایاوتی کی بہوجن سماج پارٹی، لالو یادو کے راشٹریہ جنتا دل، جندا دل سیکیولر، مارکسی کمیونسٹ پارٹی اور شیو سینا کی بھی حمایت حاصل ہے۔
دوسری جانب سابق سپیکر پی کے سنگما بی جے پی اور اس کی اتحادی جماعتون کی حمایت پرانحصار کریں گے۔
پی کے سنگما نے ارکان پارلیمان اور اسمبلی سے اپنے ضمیر کی آواز پر ووٹ دینے کی اپیل کی ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی ہے کہ وہ اس انتخاب میں کامیاب ہونگے۔
اس دوران نائب صرر محمد حامد انصاری نے دوبارہ نائب صدر کے عہرے کے لیے اپنے کاغذات نامزدگی داخل کردیے ہیں۔ ان کا مقابلہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے سینیئررہنما جسونت سنگھ سے ہے۔
بھارت میں صدارتی انتخاب آج ہوگا
کشمیر:زلزلے کے سات سال بعد لاش برآمد
پاکستان کے شمالی علاقوں اور کشمیر میں اکتوبر سنہ دو ہزار پانچ میں آنے والے زلزلے میں ہلاک ہونے والے ایک شخص کی لاش تقریباً سات سال آٹھ ماہ بعد ملی ہے۔
یہ لاش بدھ کو مظفرآباد شہر میں بنک روڈ پر واقع پرانی جیل کی تباہ شدہ عمارت کے ملبے کے نیچے سے ملی۔
پولیس کا کہنا ہے کہ یہ لاش تعمیراتی کھدائی کے دوران ملی اور اس کی پہچان ممکن نہیں کیونکہ اب صرف اس کا ڈھانچہ ہی باقی رہ گیا تھا۔
پولیس حکام نے نامہ نگار ذوالفقار علی کو بتایا کہ لاش کے پاس سے ایک چادر اور تسبیح بھی ملی تاہم اس کے ذریعے لاش کو پہچاننا ممکن نہیں تھا اس لیے پوسٹ مارٹم کرانے کے بعد لاش کو لاوارث قرار دے کر دفنا دیا گیا ہے۔
آٹھ اکتوبر کے تباہ کن زلزلے میں مظفرآباد جیل کی عمارت مکمل طور پر تباہ ہوگئی تھی۔ مظفر آباد جیل کے سپرنڈنٹ لیاقت حسین نقوی کا کہنا ہے کہ اس واقعہ میں لگ بھگ پندرہ افراد ہلاک جبکہ تقریباً ایک سو قیدی فرار یا لاپتہ ہوگئے تھے۔
ان کا کہنا ہے کہ ان میں سےقریباً ساٹھ قیدی واپس آگئے تھے جبکہ دیگر کے بارے میں ابھی تک کوئی سراغ نہیں مل سکا ہے۔
آٹھ اکتوبر سن دو ہزار پانچ کے زلزلے میں پاکستان کے شمالی علاقوں اور کشمیر میں سّتر ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے حکام کے پاس کوئی اعداد و شمار نہیں کہ اس زلزلے کے بعد اب تک کتنے افراد لاپتہ ہیں۔
اس زلزلے کے بعد آنے والے برسوں میں مختلف مقامات سے لاشیں ملتی رہی ہیں اور ڈھائی سال قبل جنوری دو ہزار دس میں مظفرآباد کے قریب سے زلزلے میں تباہ ہونے والی ایک گاڑی سے سترہ لاشیں برآمد ہوئی تھیں۔
اس سے پہلے ایک شخص کی لاش دو ہزار نو میں مظفرآباد میں ملبے سے نکالی گئی تھی جبکہ فروری دو ہزار سات میں چکوٹھی میں ملبے میں دبی دو خواتین کی لاشیں برآمد ہوئی تھیں۔
زلزلے کے تقریباً آٹھ ماہ بعد جون دو ہزار چھ میں مظفرآباد کے قریب چھل پانی میں ملبے میں دبی ایک تباہ شدہ بس سے بھی اٹھارہ لاشیں نکالی گئی تھیں۔
کشمیر:زلزلے کے سات سال بعد لاش برآمد
یہ لاش بدھ کو مظفرآباد شہر میں بنک روڈ پر واقع پرانی جیل کی تباہ شدہ عمارت کے ملبے کے نیچے سے ملی۔
پولیس کا کہنا ہے کہ یہ لاش تعمیراتی کھدائی کے دوران ملی اور اس کی پہچان ممکن نہیں کیونکہ اب صرف اس کا ڈھانچہ ہی باقی رہ گیا تھا۔
پولیس حکام نے نامہ نگار ذوالفقار علی کو بتایا کہ لاش کے پاس سے ایک چادر اور تسبیح بھی ملی تاہم اس کے ذریعے لاش کو پہچاننا ممکن نہیں تھا اس لیے پوسٹ مارٹم کرانے کے بعد لاش کو لاوارث قرار دے کر دفنا دیا گیا ہے۔
آٹھ اکتوبر کے تباہ کن زلزلے میں مظفرآباد جیل کی عمارت مکمل طور پر تباہ ہوگئی تھی۔ مظفر آباد جیل کے سپرنڈنٹ لیاقت حسین نقوی کا کہنا ہے کہ اس واقعہ میں لگ بھگ پندرہ افراد ہلاک جبکہ تقریباً ایک سو قیدی فرار یا لاپتہ ہوگئے تھے۔
ان کا کہنا ہے کہ ان میں سےقریباً ساٹھ قیدی واپس آگئے تھے جبکہ دیگر کے بارے میں ابھی تک کوئی سراغ نہیں مل سکا ہے۔
آٹھ اکتوبر سن دو ہزار پانچ کے زلزلے میں پاکستان کے شمالی علاقوں اور کشمیر میں سّتر ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے حکام کے پاس کوئی اعداد و شمار نہیں کہ اس زلزلے کے بعد اب تک کتنے افراد لاپتہ ہیں۔
اس زلزلے کے بعد آنے والے برسوں میں مختلف مقامات سے لاشیں ملتی رہی ہیں اور ڈھائی سال قبل جنوری دو ہزار دس میں مظفرآباد کے قریب سے زلزلے میں تباہ ہونے والی ایک گاڑی سے سترہ لاشیں برآمد ہوئی تھیں۔
اس سے پہلے ایک شخص کی لاش دو ہزار نو میں مظفرآباد میں ملبے سے نکالی گئی تھی جبکہ فروری دو ہزار سات میں چکوٹھی میں ملبے میں دبی دو خواتین کی لاشیں برآمد ہوئی تھیں۔
زلزلے کے تقریباً آٹھ ماہ بعد جون دو ہزار چھ میں مظفرآباد کے قریب چھل پانی میں ملبے میں دبی ایک تباہ شدہ بس سے بھی اٹھارہ لاشیں نکالی گئی تھیں۔
کشمیر:زلزلے کے سات سال بعد لاش برآمد
رمضان، اولمپکس اور مسلم اتھلیٹس
ایسا چوالیس برس میں ایک مرتبہ ہی ہوتا ہے کہ رمضان اور اولمکپس ایک ساتھ آئیں۔ اس سال لندن اولمپکس میں ایسا ہوا ہے۔ اس وجہ سے مسلمان اتھلیٹس اس تذبذب میں ہیں کہ اولمپکس کے دوران روضے رکھیں یا نہ رکھیں۔
بھارت: یوراج سنگھ کی کرکٹ میں واپسی
یوراج سنگھ |
کئی ماہ زیر علاج رہنے کے بعد کینسر کے مرض سے صحت یاب ہونے والے بھارتی کرکٹ کھلاڑی یوراج سنگھ کو ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے تیس ممکنہ کھلاڑیوں کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔
گزشتہ برس ایک روزہ میچوں کے عالمی کپ کے بعد معلوم ہوا تھا کہ تیس سالہ یوراج سنگھ کیسنر کے مرض میں مبتلا ہیں اور وہ کئی مہینے امریکہ میں علاج کرانے کے بعد اپریل میں بھارت واپس لوٹے تھے۔
دو ہزار گیارہ کا عالمی کپ بھارت نے جیتا تھا اور اپنے شاندار کھیل کی وجہ سے مین آف دی سیریز کا ایوارڈ یوراج سنگھ نے حاصل کیا تھا۔
لیکن اس کے بعد خبریں آنا شروع ہوئیں کہ ڈاکٹروں نے ان کے پھیپھڑوں کے قریب کینسر کی ایسی قسم کی تشخیص کی ہے جو بہت کم ہی لوگوں میں ہوتی ہے۔
لیکن ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ ابتدائی مراحل میں ہی مرض کا پتہ چل جانے کی وجہ سے یوراج پوری طرح صحت یاب ہوجائیں گے اور دوبارہ بین الاقوامی کرکٹ کھیل سکیں گے۔
آف سپنر ہربھجن سنگھ کی بھی ممکنہ کھلاڑیوں میں واپسی ہوئی ہے۔
ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے لیے پنردہ رکنی سکواڈ کا اعلان اگست میں کیے جانے کی امید ہے۔ عالمی کپ سترہ ستمبر سے سری لنکا میں کھیلا جائے گا۔
یوراج سنگھ کا شمار ٹی ٹوئنٹی کے بہترین کھلاڑیوں میں کیا جاتا ہے۔ دو ہزار سات کے عالمی ٹی ٹوئنٹی کپ میں انہوں نے انگلینڈ کے فاسٹ بالر سٹیورٹ براڈ کے ایک ہی اوور میں چھ چھکے لگائے تھے۔
ماہرین کے مطابق ان کے لیے بوچی بابو ٹورنامنٹ ایک سخت آزمائش ہوگا۔ یہ ٹورنامنٹ اگست میں چنئی میں کھیلا جائے گا اور اس میں سلیکٹرز کو یوراج سنگھ کی فٹنس کا جائزہ لینے کا موقع ملے گا۔
چیف قومی سلیکٹر کرشنماچاری شریکانت نے حال ہی میں کہا تھا کہ’میرے خیال میں جس شخص نے ہمیں عالمی کپ جتوایا تھا اسے ٹیم میں واپسی کا موقع ملنا چاہیے۔‘
بھارت: یوراج سنگھ کی کرکٹ میں واپسی
گزشتہ برس ایک روزہ میچوں کے عالمی کپ کے بعد معلوم ہوا تھا کہ تیس سالہ یوراج سنگھ کیسنر کے مرض میں مبتلا ہیں اور وہ کئی مہینے امریکہ میں علاج کرانے کے بعد اپریل میں بھارت واپس لوٹے تھے۔
دو ہزار گیارہ کا عالمی کپ بھارت نے جیتا تھا اور اپنے شاندار کھیل کی وجہ سے مین آف دی سیریز کا ایوارڈ یوراج سنگھ نے حاصل کیا تھا۔
لیکن اس کے بعد خبریں آنا شروع ہوئیں کہ ڈاکٹروں نے ان کے پھیپھڑوں کے قریب کینسر کی ایسی قسم کی تشخیص کی ہے جو بہت کم ہی لوگوں میں ہوتی ہے۔
لیکن ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ ابتدائی مراحل میں ہی مرض کا پتہ چل جانے کی وجہ سے یوراج پوری طرح صحت یاب ہوجائیں گے اور دوبارہ بین الاقوامی کرکٹ کھیل سکیں گے۔
آف سپنر ہربھجن سنگھ کی بھی ممکنہ کھلاڑیوں میں واپسی ہوئی ہے۔
ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے لیے پنردہ رکنی سکواڈ کا اعلان اگست میں کیے جانے کی امید ہے۔ عالمی کپ سترہ ستمبر سے سری لنکا میں کھیلا جائے گا۔
یوراج سنگھ کا شمار ٹی ٹوئنٹی کے بہترین کھلاڑیوں میں کیا جاتا ہے۔ دو ہزار سات کے عالمی ٹی ٹوئنٹی کپ میں انہوں نے انگلینڈ کے فاسٹ بالر سٹیورٹ براڈ کے ایک ہی اوور میں چھ چھکے لگائے تھے۔
ماہرین کے مطابق ان کے لیے بوچی بابو ٹورنامنٹ ایک سخت آزمائش ہوگا۔ یہ ٹورنامنٹ اگست میں چنئی میں کھیلا جائے گا اور اس میں سلیکٹرز کو یوراج سنگھ کی فٹنس کا جائزہ لینے کا موقع ملے گا۔
چیف قومی سلیکٹر کرشنماچاری شریکانت نے حال ہی میں کہا تھا کہ’میرے خیال میں جس شخص نے ہمیں عالمی کپ جتوایا تھا اسے ٹیم میں واپسی کا موقع ملنا چاہیے۔‘
بھارت: یوراج سنگھ کی کرکٹ میں واپسی
بدھ, جولائی 18, 2012
بھارت: خواتین کے اکیلے بازار جانے اور موبائل فون استعمال کرنے پر پابندی
بھارتی ریاست اتر پردیش میں ایک گاؤں کی پنچایت نے خواتین کے اکیلے بازار جانے اور موبائل فون استعمال کرنے پر پابندی لگا دی ہے۔ مقامی پولیس نے تفتیش شروع کردی ہے۔
اتر پردیش کے ایک گاؤں کے مسلمان شہریوں نے اپنی پنچایت کے ذریعے گاؤں کی خواتین پر بعض پابندیاں عائد کردی ہیں۔ بھارتی ریاست اتر پردیش کے گاؤں اسارا میں پنچایت کے فیصلے کے تحت کھلے عام اور عوامی مقامات پر خواتین کو سر ڈھانپنے کا پابند بنایا گیا ہے۔ بھارت میں خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم حلقوں نے پنچایت کے فیصلے کی مذمت کی ہے۔ آل انڈیا ڈیموکریٹک ویمن ایسوسی ایشن کی جنرل سیکریٹری سدھا سدھیر رامن کے بقول یہ سوچ کہ خواتین کی حفاظت کے ساتھ ساتھ انہیں کنٹرول کیا جانا چاہیے، اس سے ہی تمام بنیادی اخلاقی اصولوں کی پامالی ہوتی ہے۔
دوسری جانب اسارا کی اس پنچایت کا موقف ہے کہ انہوں نے معاشرے میں موجود برے عناصر سے خواتین کو محفوظ رکھنے کے لیے یہ فیصلہ کیا ہے۔ اس کونسل کے ایک رکن ستار احمد کے بقول والدین کی رضا مندی کے بغیر پسند کی شادیوں سے معاشرے پر برے اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ اس سلسلے میں موبائل فون کے استعمال کو برائی کی جڑ قرار دیا جارہا ہے۔ دی میل ٹوڈے نامی بھارتی روزنامے کے مطابق اسارا گاؤں کے لوگ اپنی پنچایت کے اس فیصلے پر بہت خوش ہیں اور اس پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کےلیے پر عزم بھی دکھائی دیتے ہیں۔
بھارتی خبر رساں ادارے پی ٹی آئی کے مطابق مقامی پولیس نے معاملے کی انکوائری شروع کردی ہے۔ وزیرداخلہ پی چدم برم پنچایت کے اس ان فیصلوں کو غیر جمہوری قرار دے کر ان کی مذمت کر چکے ہیں۔ وزیرداخلہ کے بقول پولیس کو ہر اس شخص کے خلاف کارروائی کرنا چاہیے جو اس قسم کے احکامات جاری کرتا ہے۔ ’’ اگر کوئی کسی نوجوان مرد یا عورت کے خلاف غیرقانونی دیہی عدالت کے حکم کی بنیاد پر کوئی ایکشن لیتا ہے تو اسے ضرور گرفتار کیا جائے۔‘‘
اسارا کے پولیس سپر انٹینڈنٹ وی کے شیکھر کے بقول پنچایت کی قانونی حیثیت اور اس کے جاری کیے گئے فیصلے کی تفصیلات سے متعلق تفتیش شروع کردی گئی ہے۔ نیوز ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق اس طرز کی پنچایت جس علاقے میں قائم کی جاتی ہے وہاں کے اخلاقی یا مالی اعتبار سے معتبر و بزرگ شہری اس کے رکن بنائے جاتے ہیں اور اس کے لیے عوامی سطح پر کوئی منظم انتخابی عمل نہیں ہوتا۔ اگرچہ ان پنچایتوں کے فیصلوں کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوتی تاہم مقامی آبادیوں پر ان کا خاصا اثر و رسوخ ہوتا ہے اور کئی بار پنچایتوں کے فیصلوں ہی عزت و غیرت کے نام پر قتل جیسے واقعات کا محرک بنتے ہیں۔
بھارت میں پنچایت کا ’خواتین کے تحفظ‘ کا متنازعہ فیصلہ
اتر پردیش کے ایک گاؤں کے مسلمان شہریوں نے اپنی پنچایت کے ذریعے گاؤں کی خواتین پر بعض پابندیاں عائد کردی ہیں۔ بھارتی ریاست اتر پردیش کے گاؤں اسارا میں پنچایت کے فیصلے کے تحت کھلے عام اور عوامی مقامات پر خواتین کو سر ڈھانپنے کا پابند بنایا گیا ہے۔ بھارت میں خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم حلقوں نے پنچایت کے فیصلے کی مذمت کی ہے۔ آل انڈیا ڈیموکریٹک ویمن ایسوسی ایشن کی جنرل سیکریٹری سدھا سدھیر رامن کے بقول یہ سوچ کہ خواتین کی حفاظت کے ساتھ ساتھ انہیں کنٹرول کیا جانا چاہیے، اس سے ہی تمام بنیادی اخلاقی اصولوں کی پامالی ہوتی ہے۔
دوسری جانب اسارا کی اس پنچایت کا موقف ہے کہ انہوں نے معاشرے میں موجود برے عناصر سے خواتین کو محفوظ رکھنے کے لیے یہ فیصلہ کیا ہے۔ اس کونسل کے ایک رکن ستار احمد کے بقول والدین کی رضا مندی کے بغیر پسند کی شادیوں سے معاشرے پر برے اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ اس سلسلے میں موبائل فون کے استعمال کو برائی کی جڑ قرار دیا جارہا ہے۔ دی میل ٹوڈے نامی بھارتی روزنامے کے مطابق اسارا گاؤں کے لوگ اپنی پنچایت کے اس فیصلے پر بہت خوش ہیں اور اس پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کےلیے پر عزم بھی دکھائی دیتے ہیں۔
بھارتی خبر رساں ادارے پی ٹی آئی کے مطابق مقامی پولیس نے معاملے کی انکوائری شروع کردی ہے۔ وزیرداخلہ پی چدم برم پنچایت کے اس ان فیصلوں کو غیر جمہوری قرار دے کر ان کی مذمت کر چکے ہیں۔ وزیرداخلہ کے بقول پولیس کو ہر اس شخص کے خلاف کارروائی کرنا چاہیے جو اس قسم کے احکامات جاری کرتا ہے۔ ’’ اگر کوئی کسی نوجوان مرد یا عورت کے خلاف غیرقانونی دیہی عدالت کے حکم کی بنیاد پر کوئی ایکشن لیتا ہے تو اسے ضرور گرفتار کیا جائے۔‘‘
اسارا کے پولیس سپر انٹینڈنٹ وی کے شیکھر کے بقول پنچایت کی قانونی حیثیت اور اس کے جاری کیے گئے فیصلے کی تفصیلات سے متعلق تفتیش شروع کردی گئی ہے۔ نیوز ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق اس طرز کی پنچایت جس علاقے میں قائم کی جاتی ہے وہاں کے اخلاقی یا مالی اعتبار سے معتبر و بزرگ شہری اس کے رکن بنائے جاتے ہیں اور اس کے لیے عوامی سطح پر کوئی منظم انتخابی عمل نہیں ہوتا۔ اگرچہ ان پنچایتوں کے فیصلوں کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوتی تاہم مقامی آبادیوں پر ان کا خاصا اثر و رسوخ ہوتا ہے اور کئی بار پنچایتوں کے فیصلوں ہی عزت و غیرت کے نام پر قتل جیسے واقعات کا محرک بنتے ہیں۔
بھارت میں پنچایت کا ’خواتین کے تحفظ‘ کا متنازعہ فیصلہ
نیپال، کل کی ’کملاری‘ لیکن آج کی سیاستدان
شانتا کماری صرف آٹھ برس کی تھی جب اس کے والدین نے اسے بطور’کملاری‘ یعنی زرخرید غلام صرف 75 ڈالر کے عوض ایک گھرانے کو بیچ دیا تھا۔
معصوم بچی شانتا کماری نیپال کے جنوب مغربی علاقے میں واقع ایک گھر میں روزانہ انیس انیس گھنٹے تک کام کرتی رہی۔ اس دوران اس سے کھانا پکوایا جاتا، صفائی ستھرائی کا کام لیا جاتا اور اس سے ناروا سلوک برتا جاتا رہا۔
اٹھارہ برس تک کملاری کے طور پر استحصال بھری زندگی بسر کرنے والی اب وہی بچی نیپال میں سیاستدان، انسانی حقوق کی کارکن اور ایک انتہائی اثر و رسوخ والی خاتون سمجھی جاتی ہے۔
ماضی کی اس کملاری نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے اپنے ماضی کے غمناک اور درد بھرے لمحات کا ذکر کرتے ہوئے کہا، ’’میں روزانہ صبح چار بجےاٹھتی۔ کوئی دن ایسا نہ تھا جب مجے مارا پیٹا نہ جاتا۔ میں نے بدسلوکی اور آبروریزی کو انتہائی قریب سے دیکھا‘‘۔
آنکھوں میں آنسو لیے شانتا کماری نے بتایا کہ اسے اب تک وہ تمام ظلم و جبر یاد ہے جس نے اس کے پچپن کو تباہ کردیا، ’’بے شک میں بیمار ہی کیوں نہ ہوتی لیکن مجھے اپنے وزن سے زیادہ بوجھ اٹھانا پڑتا تھا‘‘۔ اس نے بتایا کہ جب اسے بیچ دیا گیا تو پھر اس نے اپنے والدین کو کبھی نہ دیکھا، ’’ماں کا پیار کیا ہوتا ہے، مجھے یہ تجربہ کبھی حاصل نہ ہوسکا‘‘۔
بتیس سالہ شانتا کماری کے بقول نیپال میں بہت سے کملاریوں کی آبروریزی کی جاتی ہے اور انہوں نے اس بات کا خود مشاہدہ کر رکھا ہے۔ کماری نے بتایا، ’’میری شادی کی عمر کسی کے گھر گزر گئی۔ جب میں اپنے ماضی کو یاد کرتی ہوں تو میرا کلیجہ پھٹنے کو آ جاتا ہے‘‘۔
شانتا کماری کو 2006ء میں اس وقت آزادی ملی تھی جب ملک کی اعلیٰ عدلیہ نے کملاری نظام کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔ 2008ء کے عام انتخابات میں شانتا کماری کو مخصوص نشست پر پارلیمان میں نمائندگی حاصل کرنے کا موقع ملا۔ ابتدائی طور پر ناخواندگی کے باعث اسے مسائل کا سامنا رہا لیکن اس پرعزم خاتون نے اپنے طور پڑھنا لکھنا سیکھا اور معاشرے کے مرکزی دھارے میں اپنی موجودگی کو منوایا۔
اٹھارہ برس تک کملاری کے طور پر استحصال بھری زندگی بسر کرنے والی اب وہی بچی نیپال میں سیاستدان، انسانی حقوق کی کارکن اور ایک انتہائی اثر و رسوخ والی خاتون سمجھی جاتی ہے۔
ماضی کی اس کملاری نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے اپنے ماضی کے غمناک اور درد بھرے لمحات کا ذکر کرتے ہوئے کہا، ’’میں روزانہ صبح چار بجےاٹھتی۔ کوئی دن ایسا نہ تھا جب مجے مارا پیٹا نہ جاتا۔ میں نے بدسلوکی اور آبروریزی کو انتہائی قریب سے دیکھا‘‘۔
آنکھوں میں آنسو لیے شانتا کماری نے بتایا کہ اسے اب تک وہ تمام ظلم و جبر یاد ہے جس نے اس کے پچپن کو تباہ کردیا، ’’بے شک میں بیمار ہی کیوں نہ ہوتی لیکن مجھے اپنے وزن سے زیادہ بوجھ اٹھانا پڑتا تھا‘‘۔ اس نے بتایا کہ جب اسے بیچ دیا گیا تو پھر اس نے اپنے والدین کو کبھی نہ دیکھا، ’’ماں کا پیار کیا ہوتا ہے، مجھے یہ تجربہ کبھی حاصل نہ ہوسکا‘‘۔
بتیس سالہ شانتا کماری کے بقول نیپال میں بہت سے کملاریوں کی آبروریزی کی جاتی ہے اور انہوں نے اس بات کا خود مشاہدہ کر رکھا ہے۔ کماری نے بتایا، ’’میری شادی کی عمر کسی کے گھر گزر گئی۔ جب میں اپنے ماضی کو یاد کرتی ہوں تو میرا کلیجہ پھٹنے کو آ جاتا ہے‘‘۔
شانتا کماری کو 2006ء میں اس وقت آزادی ملی تھی جب ملک کی اعلیٰ عدلیہ نے کملاری نظام کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔ 2008ء کے عام انتخابات میں شانتا کماری کو مخصوص نشست پر پارلیمان میں نمائندگی حاصل کرنے کا موقع ملا۔ ابتدائی طور پر ناخواندگی کے باعث اسے مسائل کا سامنا رہا لیکن اس پرعزم خاتون نے اپنے طور پڑھنا لکھنا سیکھا اور معاشرے کے مرکزی دھارے میں اپنی موجودگی کو منوایا۔
چائلڈ لیبر ایک عالمی مسئلہ |
شانتا کماری کہتی ہیں کہ نہ صرف متعدد اعلیٰ حکومتی اہلکاروں بلکہ انسانی حقوق کے لیے سرگرم کئی کارکنان کے گھروں میں بھی بچوں سے مزدوری لی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب تک ہم ایسے گھروں میں چھاپے نہیں ماریں گے، تب تک یہ مسئلہ برقرار رہے گا۔
اگرچہ دیگر جنوبی ایشیائی ممالک کی طرح نیپال میں بھی بچوں کے حوالے سے بنائے جانے والے قوانین کے باعث چائلڈ لیبر کے واقعات میں کمی ہوئی ہے لیکن شانتا کماری کے بقول ملک کے دور دراز علاقوں میں ابھی بھی بچوں کے ساتھ وہی سلوک ہو رہا ہے، جو کبھی ان کے ساتھ ہوا تھا۔
شانتا کماری کے بقول وہ زندگی بھر ایسی کوششیں کرتی رہیں گی، جن کی بدولت نیپال میں بچوں کے حقوق کے تحفظ کی صورت حال کو بہتر بنانے میں مدد ملے۔
نیپال، کل کی ’کملاری‘ لیکن آج کی سیاستدان
اگرچہ دیگر جنوبی ایشیائی ممالک کی طرح نیپال میں بھی بچوں کے حوالے سے بنائے جانے والے قوانین کے باعث چائلڈ لیبر کے واقعات میں کمی ہوئی ہے لیکن شانتا کماری کے بقول ملک کے دور دراز علاقوں میں ابھی بھی بچوں کے ساتھ وہی سلوک ہو رہا ہے، جو کبھی ان کے ساتھ ہوا تھا۔
شانتا کماری کے بقول وہ زندگی بھر ایسی کوششیں کرتی رہیں گی، جن کی بدولت نیپال میں بچوں کے حقوق کے تحفظ کی صورت حال کو بہتر بنانے میں مدد ملے۔
نیپال، کل کی ’کملاری‘ لیکن آج کی سیاستدان
صحت کے بارے میں مفید مشورے
صحت بخش زندگی گزارنے اور اپنے طرز زندگی کے ذریعے بیماریوں کے خطرے سے بچنے کے لیے ان آٹھ مفید اشاروں پر عمل کریں۔
پھل اور سبزیاں:
پھل اور سبزیاں:
اگر آپ کم از کم ۶۰۰ گرام فروٹ اور سبزیاں دن میں کھاتے ہیں، آپ دل کی بیماری، ذیابطس اور سرطان کی بیماری کے خطرے کو کم کرسکتے ہیں۔ اگر آپ سیب، مالٹا، کیلا اور ایک گاجر روزنہ کھائیں اور اپنے کھانے میں سبزیاں استعمال کریں، آپ آسانی سے دن کے ۶۰۰ گرام پورے کرلیں گے۔ اخروٹ اور خشک فروٹ بھی شامل کرسکتے ہیں۔
مچھلی اور مچھلی والی اشیاء:
مچھلی اس لیے صحت بخش ہے کیونکہ اس میں مچھلی کا تیل، وٹامن ڈی اور سلینیم شامل ہوتا ہے۔ بہت سے دوسرے کھانوں میں ان اشیاء کی تھوڑی سی مقدار ہوتی ہے۔ آپ مچھلی کو پکا کر کھا سکتے ہیں یا سینڈوچ میں۔
آلو، چاول یا پاستا کا روزانہ استعمال:
بریڈ، آٹا اور مکئی کی اشیاء صحت بخش ہوتی ہیں اور ان میں کم چکنائی ہوتی ہے۔ ان چھنے آٹے والی بریڈ اور جئی کا آٹا خاص طور پر صحت بخش ہیں اور ان میں بہت سا فائبر ہوتا ہے اور وٹامن بی۔ ایسی بریڈ کا انتخاب کریں جس میں تھوڑی سی چینی ہو اور رئی بریڈ کا استعمال کریں بجائے سفید بریڈ کے۔ سفید بریڈ میں فائبر کم ہوتا ہے اور اس وجہ سے وہ آپ کی فائبر کی کمی دوسری بریڈ کی طرح پورا نہیں کرسکتی۔
مچھلی اور مچھلی والی اشیاء:
مچھلی اس لیے صحت بخش ہے کیونکہ اس میں مچھلی کا تیل، وٹامن ڈی اور سلینیم شامل ہوتا ہے۔ بہت سے دوسرے کھانوں میں ان اشیاء کی تھوڑی سی مقدار ہوتی ہے۔ آپ مچھلی کو پکا کر کھا سکتے ہیں یا سینڈوچ میں۔
آلو، چاول یا پاستا کا روزانہ استعمال:
بریڈ، آٹا اور مکئی کی اشیاء صحت بخش ہوتی ہیں اور ان میں کم چکنائی ہوتی ہے۔ ان چھنے آٹے والی بریڈ اور جئی کا آٹا خاص طور پر صحت بخش ہیں اور ان میں بہت سا فائبر ہوتا ہے اور وٹامن بی۔ ایسی بریڈ کا انتخاب کریں جس میں تھوڑی سی چینی ہو اور رئی بریڈ کا استعمال کریں بجائے سفید بریڈ کے۔ سفید بریڈ میں فائبر کم ہوتا ہے اور اس وجہ سے وہ آپ کی فائبر کی کمی دوسری بریڈ کی طرح پورا نہیں کرسکتی۔
چینی کم استعمال کریں:
میٹھی چیزوں میں بہت سی کیلوریز ہوتی ہیں اور بہت کم صحت بخش اشیاء۔ بہت سی میٹھی چیزیں صحت بخش کھانوں کے لیے کم جگہ چھوڑتی ہیں۔
چکنائی کا کم استعمال:
آپ کے جسم کو چکنائی کی ضرورت ہے لیکن بہت زیادہ نہیں۔ یہ بہترین ہے کہ پودوں کا تیل استعمال کریں اور جانوروں کی چربی کم کریں۔ کم چربی والے گوشت کا انتخاب کریں اور اضافی چربی جو نظر آ رہی ہو اسے نکال دیں۔ کم چکنائی والا دودھ، دہی اور پنیر کا انتخاب کریں۔
میٹھی چیزوں میں بہت سی کیلوریز ہوتی ہیں اور بہت کم صحت بخش اشیاء۔ بہت سی میٹھی چیزیں صحت بخش کھانوں کے لیے کم جگہ چھوڑتی ہیں۔
چکنائی کا کم استعمال:
آپ کے جسم کو چکنائی کی ضرورت ہے لیکن بہت زیادہ نہیں۔ یہ بہترین ہے کہ پودوں کا تیل استعمال کریں اور جانوروں کی چربی کم کریں۔ کم چربی والے گوشت کا انتخاب کریں اور اضافی چربی جو نظر آ رہی ہو اسے نکال دیں۔ کم چکنائی والا دودھ، دہی اور پنیر کا انتخاب کریں۔
مختلف غذا لیں اور وزن برقرار رکھیں:
مختلف قسم کی بریڈ، فروٹ، سبزیاں، گوشت اور دودھ سے بنی اشیاء کا روزانہ استعمال کریں۔ اس طرح آپ کو تمام وٹامن اور نمکیات مہیا ہوں گی جن کی آپ کے جسم کو ضرورت ہے۔ اگر آپ کا وزن بڑھ جائے، کم کھانا کھائیں اور زیادہ ورزش کریں۔
پیاس پانی سے بھجائیں:
آپ کے جسم کو ایک سے ڈیڑھ لیٹر پانی کی روزانہ ضرورت ہوتی ہے۔ عام پانی بہترین ہے کیونکہ وہ آپ کی پیاس بجھاتا ہے اور اس میں کیلوریز بھی نہیں ہوتیں۔
جسمانی مصروفیت:
سیڑھیوں کا استعمال کریں، چہل قدمی کے لیے جائیں۔ آپ کے جسم کو کم از کم ۳۰ منٹ روزانہ ورزش کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور یہ اچھا ارادہ ہے کہ ہفتے میں ایک یا کئی بار کوئی کھیل کھیلیں۔ بچوں کو کم از کم ایک گھنٹہ روزانہ مصروف رہنے کی ضرورت ہے۔ ہر قسم کی جسمانی مصروفیات روزانہ بچوں اور بڑوں، جوان اور بوڑھوں، کے لیے صحت بخش ہے۔ یہ آپ کے جسم اور عام ترتیب کے لیے اچھا ہے اور آپ کے وزن کو برقرار رکھنے کا بہترین طریقہ ہے۔
مختلف قسم کی بریڈ، فروٹ، سبزیاں، گوشت اور دودھ سے بنی اشیاء کا روزانہ استعمال کریں۔ اس طرح آپ کو تمام وٹامن اور نمکیات مہیا ہوں گی جن کی آپ کے جسم کو ضرورت ہے۔ اگر آپ کا وزن بڑھ جائے، کم کھانا کھائیں اور زیادہ ورزش کریں۔
پیاس پانی سے بھجائیں:
آپ کے جسم کو ایک سے ڈیڑھ لیٹر پانی کی روزانہ ضرورت ہوتی ہے۔ عام پانی بہترین ہے کیونکہ وہ آپ کی پیاس بجھاتا ہے اور اس میں کیلوریز بھی نہیں ہوتیں۔
جسمانی مصروفیت:
سیڑھیوں کا استعمال کریں، چہل قدمی کے لیے جائیں۔ آپ کے جسم کو کم از کم ۳۰ منٹ روزانہ ورزش کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور یہ اچھا ارادہ ہے کہ ہفتے میں ایک یا کئی بار کوئی کھیل کھیلیں۔ بچوں کو کم از کم ایک گھنٹہ روزانہ مصروف رہنے کی ضرورت ہے۔ ہر قسم کی جسمانی مصروفیات روزانہ بچوں اور بڑوں، جوان اور بوڑھوں، کے لیے صحت بخش ہے۔ یہ آپ کے جسم اور عام ترتیب کے لیے اچھا ہے اور آپ کے وزن کو برقرار رکھنے کا بہترین طریقہ ہے۔
سبسکرائب کریں در:
اشاعتیں (Atom)