بھارت کی ریاست راجستھان کے جھنجھونوں ضلع کے ایک گاؤں میں پیدا ہونے والے نوے سالہ شمشیر تقسیم کے دوران پاکستان چلے گئے اور وہیں کے ہوکر رہ گئے لیکن اب وہ بھارت آنا چاہتے ہیں۔
انہیں پاکستانی کی شہریت ملی گئی مگر ان کی اہلیہ سلامت بانو اور ان کے بچے بھارت میں ہی رہ گئے۔
اب وہ چار دن قبل بھارت پہنچے ہیں اور اب وہ پاکستان واپس نہیں جانا چاہتے ہیں اور اس سلسلے میں انہوں نے جھنجھونوں ضلع کے کلکٹر کو بھارت میں رہنے کی درخواست دی ہے۔
جھنجھونوں ضلع کے کلکٹر جوگا رام نے بتایا ہے کہ ’شمشیر نے درخواست دی ہے اور بھارتی حکومت سے اپیل کی ہے کہ انہیں بھارت میں رہنے کی اجازت دی جائے۔ ہم نے ان کی درخواست وزارت داخلہ کو بھیج دی ہے‘۔
شمشیر کے رشتہ داروں نے بتایا ہے کہ تقسیم ہند کے دور میں شمشیر کسی کام سے پاکستان کے صوبہ سندھ گئے تھے اور ان کے وہاں جانے کے کچھ دن بعد ہی بٹوارا ہوگیا۔ شمشیر سرحد کے اس پار ہی رہ گئے۔
ان کے ایک رشتہ دار نے بتایا کہ’ان دنوں ویزے کا قانون نہیں تھا۔ پاکستان اور ہندوستان سے لوگ آتے اور جاتے رہتے تھے۔ شمشیر کی جھنجھونوں ضلع کی ایک لڑکی سے شادی بھی ہوئی۔ لیکن تھوڑے دن بعد ان کی اہلیہ چل بسیں تو شمشیر نے اپنی سالی سلامت بانو سے شادی کرلی۔ سلامت بانو یہی رہیں اور شمشیر آتے جاتے رہتے تھے۔ اس دوران ان کے دو بیٹے اور ایک بیٹی بھی ہوئی۔ وہ سب بھارت میں ہی رہے اور شمشیر پاکستان میں رہے‘۔
انہیں پاکستانی کی شہریت ملی گئی مگر ان کی اہلیہ سلامت بانو اور ان کے بچے بھارت میں ہی رہ گئے۔
اب وہ چار دن قبل بھارت پہنچے ہیں اور اب وہ پاکستان واپس نہیں جانا چاہتے ہیں اور اس سلسلے میں انہوں نے جھنجھونوں ضلع کے کلکٹر کو بھارت میں رہنے کی درخواست دی ہے۔
جھنجھونوں ضلع کے کلکٹر جوگا رام نے بتایا ہے کہ ’شمشیر نے درخواست دی ہے اور بھارتی حکومت سے اپیل کی ہے کہ انہیں بھارت میں رہنے کی اجازت دی جائے۔ ہم نے ان کی درخواست وزارت داخلہ کو بھیج دی ہے‘۔
شمشیر کے رشتہ داروں نے بتایا ہے کہ تقسیم ہند کے دور میں شمشیر کسی کام سے پاکستان کے صوبہ سندھ گئے تھے اور ان کے وہاں جانے کے کچھ دن بعد ہی بٹوارا ہوگیا۔ شمشیر سرحد کے اس پار ہی رہ گئے۔
ان کے ایک رشتہ دار نے بتایا کہ’ان دنوں ویزے کا قانون نہیں تھا۔ پاکستان اور ہندوستان سے لوگ آتے اور جاتے رہتے تھے۔ شمشیر کی جھنجھونوں ضلع کی ایک لڑکی سے شادی بھی ہوئی۔ لیکن تھوڑے دن بعد ان کی اہلیہ چل بسیں تو شمشیر نے اپنی سالی سلامت بانو سے شادی کرلی۔ سلامت بانو یہی رہیں اور شمشیر آتے جاتے رہتے تھے۔ اس دوران ان کے دو بیٹے اور ایک بیٹی بھی ہوئی۔ وہ سب بھارت میں ہی رہے اور شمشیر پاکستان میں رہے‘۔
شمشیر کے بیٹے شفیع محمد نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میرے والد بہت بوڑھے ہیں۔ انہیں سنائی نہیں دیتا ہے۔ وہ ٹھیک سے چل بھی نہیں سکتے۔ پاکستان میں کون ان کی دیکھ بھال کرے گا۔ بھارتی حکومت سے ہماری گزارش ہے وہ ہمارے والد پر رحم کریں اور انہیں بھارت میں ہی رہنے دیں‘۔
انسانی حقوق کی کارکن کویتا شریواستو کا کہنا ہے کہ یہ ایک انسان کی پسند ہے کہ وہ کس ملک میں رہے۔ اسے اپنی پسند کے ملک میں رہنے کا حق ہے۔
’یہ بنیادی انسانی حقوق ہے۔ شمشیر جیسے اور بھی معاملے ہیں۔ بدقسمتی سے جنوبی ایشیاء میں ملکوں کے درمیان دشمنی کے سبب ایسا ہوتا ہے۔ ہمیں ایسے معاملات میں انسانی ہمدردی کا رخ اپنانا چاہیے۔ شمشیر کو بھارت میں رہنے کی اجازت دی جائے‘۔
شمشیر گزشتہ چالیس برسوں میں تقریباً پانچ بار اپنے خاندان سے ملنے بھارت آ سکے تھے۔ ایک بار ان کی اہلیہ نے بچوں کے ساتھ پاکستان جانے کی کوشش کی تھی لیکن انہیں ویزا نہیں ملا تھا۔
آج شمشیر کے کانپتے ہاتھوں میں پاسپورٹ اور بھارت میں رہنے کی عرضی ہے۔ فی الحال ان کے پاس صرف ایک مہینے کا ویزا ہے۔ ان کے خاندان کو فکر ہے کہ ایک مہینے بعد کیا ہوگا۔ کیا شمشیر ایک بار پھر دوبارہ آنے کا وعدہ کرکے سرحد پار چلے جائیں گے۔
پاکستانی شہری بھارت میں رہنے کا خواہاں
انسانی حقوق کی کارکن کویتا شریواستو کا کہنا ہے کہ یہ ایک انسان کی پسند ہے کہ وہ کس ملک میں رہے۔ اسے اپنی پسند کے ملک میں رہنے کا حق ہے۔
’یہ بنیادی انسانی حقوق ہے۔ شمشیر جیسے اور بھی معاملے ہیں۔ بدقسمتی سے جنوبی ایشیاء میں ملکوں کے درمیان دشمنی کے سبب ایسا ہوتا ہے۔ ہمیں ایسے معاملات میں انسانی ہمدردی کا رخ اپنانا چاہیے۔ شمشیر کو بھارت میں رہنے کی اجازت دی جائے‘۔
شمشیر گزشتہ چالیس برسوں میں تقریباً پانچ بار اپنے خاندان سے ملنے بھارت آ سکے تھے۔ ایک بار ان کی اہلیہ نے بچوں کے ساتھ پاکستان جانے کی کوشش کی تھی لیکن انہیں ویزا نہیں ملا تھا۔
آج شمشیر کے کانپتے ہاتھوں میں پاسپورٹ اور بھارت میں رہنے کی عرضی ہے۔ فی الحال ان کے پاس صرف ایک مہینے کا ویزا ہے۔ ان کے خاندان کو فکر ہے کہ ایک مہینے بعد کیا ہوگا۔ کیا شمشیر ایک بار پھر دوبارہ آنے کا وعدہ کرکے سرحد پار چلے جائیں گے۔
پاکستانی شہری بھارت میں رہنے کا خواہاں
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
آپ کی رائے باعث مسرت لیکن موقف کا غیر اخلاقی حصہ حذف کر دیا جائے گا۔