شاعری لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
شاعری لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

اتوار, اگست 26, 2012

مہک تیری دل میں بسا کر چلے

مہک تیری دل میں بسا کر چلے
ترا نام لب پر سجا کر چلے

مرے پاس اب کچھ بچا ہی نہیں
دل و جان سب کچھ لٹا کر چلے

وہ دولت جو بخشی تھی تو نے ہمیں
اسے اپنے دل میں چھپا کر چلے

کیا تھا جو تم سے کبھی قول عشق
پھر اک بار اس کو نبھا کر چلے

وہی ضد ہماری رہی عمر بھر
کبھی سر نہ اپنا جھکا کر چلے

جئے ہم تو سر کو اُٹھا کے جئے
چلے بھی تو گردن کٹا کر چلے

جہالت کے ظلمت کدے میں نصر
چراغِ محبت جلا کر چلے
محمد ذیشان نصر

خاموش چاہتوں کی مہک اُس طرف بھی ہے

خاموش چاہتوں کی مہک اُس طرف بھی ہے
جو میرے دل میں ہے وہ کسک اُس طرف بھی ہے

کربِ شبانِ ہجر سے ہم بھی ہیں آشنا
آنکھوں میں رت جگوں کی جھلک اُس طرف بھی ہے

ہیں اِس طرف بھی تیز بہت، دل کی دھڑکنیں
بیتاب چوڑیوں کی کھنک اُس طرف بھی ہے

شامِ فراق اشک اِدھر بھی ہیں ضوفشاں
پلکوں پہ جگنوؤں کی دمک اُس طرف بھی ہے

سامان سب ہے اپنے تڑپنے کے واسطے
ہے زخمِ دل ادھر تو نمک اس طرف بھی ہے

باقی ہم اہلِ دل سے یہ دنیا بھی خوش نہیں
جائیں کہاں کہ سر پہ فلک اس طرف بھی ہے

تو رُل گیا تے تاں کی ہویا

ہیرے سستے تُلدے ویکھے
لال تکڑی وِچ تُلدے ویکھے

پُھل پَیراں وِچ رُلدے ویکھے
سیانے گَلّاں تو پُلدے ویکھے

کوئی کسے نال پیار نئی کردا
دل دنیا وچ کُھلدے ویکھے

رنگ برنگی دنیا ویکھی
کئی کئی رنگ اِک پُھل دے ویکھے

بس کر دِلا چھڈ دے کھیڑا
چھڈ دے رام کہانی ساری

تو رُل گیا تے تاں کی ہویا
شاہ وی گلیاں وچ رُلدے ویکھے

تم نے بارشوں کو محض برستے دیکھا ہے

تم نے بارشوں کو محض برستے دیکھا ہے
میں نے اکثر بارشوں کو کچھ کہتے دیکھا ہے

تم دیکھتے ہو بارشوں کی جل تھل ہر سال
میں نے برسات کو بارہا پلکوں پے مچلتے دیکھا ہے

کیسے مانگوں پھر برستا ساون اپنے رب سے
کہ ان آنکھوں نے دلوں کو ساون میں‌ اجڑتے دیکھا ہے

سیکھ گئے ہم بارشوں کو اپنے اندر اتارنے کا فن
اور پھر سب نے ہمیں ہر پل ہر دم ہنستے دیکھا ہے

محبت روگ ہے جاناں

محبت روگ ہے جاناں
عجب سنجوگ ہے جاناں
یہ کیسا روگ ہے جاناں
بڑے بوڑھے بتاتے تھے
کئی قصے سناتے تھے
مگر ہم مانتے کب تھے
یہ سب کچھ جانتے کب تھے
بہت پختہ ارادے کس طرح ٹوٹ جاتے ہیں
ہمیں ادراک ہی کب تھا
ہمیں کامل بھروسہ تھا
ہمارے ساتھ کسی صورت بھی ایسا ہو نہیں سکتا
یہ دل کبھی قابو سے بے قابو ہو نہیں سکتا
مگر
پھر یوں ہوا جاناں
نہ جانے کیوں ہوا جاناں
جگر کا خوں ہوا جاناں
ترے ابرو کی اک جنبش پر
ترے قدموں کی آہٹ پر
گلابی مسکراہٹ پر
ترے سر کے اشارے پر
صدائے دلربانہ پر
چہرۂ مصومانہ پر
نگاۂ قاتلانہ پر
ادائے کافرانہ پر
گھائل ہوگئے ہم بھی
بڑے بے باک پھرتے تھے
مائل ہوگئے ہم بھی
سخاوت کرنے آئے تھے
اور
سائل ہوگئے ہم بھی
بڑے بوڑھوں کے ان باتوں کے
قائل ہوگئے ہم بھی
کہ
محبت روگ ہے جاناں
عجب سنجوگ ہے جاناں
یہ کیسا روگ ہے جاناں...!!

جمعرات, اگست 23, 2012

آ اور میرے وجود میں اُتر

اے رات
آ اور میرے گلے لگ جا
آ میں تمھاری آنکھیں، تمہارے ہونٹ
تمہارے رخسار اور تمہاری پیشانی چوموں
تمہاری ٹھوڑی پہ بوسہ دُوں
تمھیں کاجل لگاؤں
تمھارے بال سنواروں
اور تمہاری مانگ میں ستارے بھر دُوں
اور تمہارے شانوں پہ سر رکھ کے
بچھڑے ہوئے لوگوں
اور بیتے ہوئے لمحوں کو یاد کروں
اور ٹوٹ کے چاروں طرف بکھرے ہوئے آئینوں کی کرچیاں
چن چن کے
تمہیں اپنی زخمی پوریں دکھاؤں
اے رات
آ اور میرے وجود میں اُتر
آ اور میری ہتھیلیوں پہ آہستہ آہستہ
اپنا تمام روپ پھیلا دے
• — — — — — — — — — — — — •
فرحت عباس شاہ

پیر, اگست 13, 2012

بھول سکتا ہے بھلا کون یہ پیاری آنکھیں


بھول سکتا ہے بھلا کون یہ پیاری آنکھیں
رنگ میں ڈوبی ہوئی ، نیند سے بھاری آنکھیں

میری ہر سوچ نے، ہر سانس نے چاہا ہے تمہیں
جب سے دیکھا ہے تمہیں، تب سے سراہا ہے تمہیں
بس گئی ہیں میری آنکھوں میں، تمہاری آنکھیں

تم جو نظروں کو اٹھاؤ تو ستارے جھک جائیں
تم جو پلکوں کو جھکاؤ تو زمانے رک جائیں
کیوں نہ بن جائیں ان آنکھوں کی پجاری آنکھیں

جاگتی راتوں کو سپنوں کا خزانہ مل جائے
تم جو مل جاؤ تو جینے کا بہانہ مل جائے
اپنی قسمت پہ کریں ناز ہماری آنکھیں


ساحر لدھیانوی

پیر, اگست 06, 2012

جیل جارہا ہوں

امیر شہر کو شاعری کا شوق چرایا، غزل لکھی اور ملک الشعراء بہار ایرانی کو دربار میں بلایا اسے غزل دی اور رائے طلب کی۔ ملک الشعراء نے دیکھی اور کہا ”بے کار اور فضول“۔

امیر نے انہیں ایک مہینے کے لئے جیل میں‌ ڈال دیا۔ کچھ عرصے کے بعد امیر نے پھر غزل لکھی اور سمجھا کہ ملک الشعراء کا دماغ صحیح ہوگیا ہوگا۔ دربار میں طلب کیا اور غزل دکھائی۔ انہوں نے غزل پڑھی اور وہیں رکھ کر چل پڑے۔

امیر نے پوچھا کہاں جارہے ہو؟

کہا ”جیل جارہا ہوں“۔


جمعہ, جولائی 20, 2012

اسے کہنا اگر ملنا نہیں آسان

اسے کہنا اگر ملنا نہیں آسان
تو لکھ بھیجے وہ کیسا ہے

بہت دن سے یہ دل اداس رہتا ہے

طبیعت بھی مچلتی ہے

کبھی ٹھوکر جو لگتی ہے

دھیان میرا نہ جانے کیوں

اسی کی سمت جاتا ہے

اسے کوئی پتھر کوئی کانٹا لگا نہ ہو

خدایا وہ سلامت ہو

اسے کہنا اگر ملنا نہیں آسان
تو لکھ بھیجے وہ کیسا ہے

اس کی یاد کا جو چراغ تھا نہ جلا سکے نہ بجھا سکے

سبھی اشک آنکھوں میں آگئے نہ چھپا سکے نہ بتا سکے

وہ جو راز تھا وہ کھل گیا کوئی بات بھی نہ چھپا سکے

نہ وفا رہی نہ جفا رہی نہ وہ دل رہا نہ ہم رہے

اس کی یاد کا جو چراغ تھا نہ جلا سکے نہ بجھا سکے

کوئی زور خود پے رہا نہیں کوئی بس بھی اس پے چلا نہیں

اسے دیکھتے رہے دور تک مگر ہاتھ تک نہ ہلا سکے

نہیں اس میں اس کی خطا کوئی نہ نصیب کا کوئی دوش تھا

یہ ہمارا اپنا مزاج تھا کہ کسی طرح نہ نبھا سکے

میں چاند ہوں انساں نہیں

رات کا آخری پہر تھا
مجھ سے چاند نے کہا

ہم نشیں الوداع
مجھ کو نیند آرہی ہے
کل ملیں گے اسی جگہ

میں سن کر مسکرا دیا
اس کو بتلا دیا

جانے والے لوٹتے نہیں
تم نہیں آؤ گے مجھے ہے یقین

میری بات سن کے وہ رک گیا

اور

کہنے لگا

تم سے وعدہ کروں پھر پورا نہ کروں
ایسا ممکن نہیں

میں چاند ہوں انساں نہیں

اتوار, جولائی 15, 2012

جس نے بھی یہاں پیار کیا، سُکھ اس نے کبھی بھی پایا نہیں

جب کوئی بہت بڑا دُکھ دے، اور وہ دے جسے آپ اپنی زندگی سمجھتے ہو، تو بے ساختہ ایسے ہی اشعار نکلتے ہیں، جنہیں لوگ لائیک کرتے ہیں، مگر کبھی نہیں سوچتے کہ کس کرب سے گذر کر یہ لکھا گیا ہے

ہفتہ, جولائی 14, 2012

تُساں ساڈے نال مُکا چھوڑی

گلاں چُوں گل تے کوئی نائی
تُساں گل دی گل بنا چھوڑی

اَساں جتنی گل مکاندے رئے
تُساں اُتنی گل ودھا چھوڑی

اَساں نِت خلوص دی چھاں کیتی
تُساں جِھڑکاں نال وَنجا چھوڑی

اَساں لوکاں نال مُکاندے رئے
تُساں ساڈے نال مُکا چھوڑی

جمعہ, جولائی 13, 2012

کوئی ایک شخص تو یوں ملے کہ سکوں ملے


کوئی ایک شخص تو یوں ملے کہ سکوں ملے
کوئی ایک لفظ تو ایسا ہو کہ قرار ہو
کہیں ایسی رت بھی ملے ہمیں جو بہار ہو
کبھی ایسا وقت بھی آئے کہ ہمیں پیار ہو!

کوئی ایک شخص تو یوں ملے ۔۔۔
کہ چراغِ جاں اسے نور دے، اسے تاب دے، بنے کہکشاں
کوئی غم ہو جس كو كہا کریں غمِ جاوداں
کوئی یوں قدم کو ملائے کہ بنے کارواں

کوئی ایک شخص تو یوں ملے ۔۔۔ کہ قرار ہو
میری راہِ گزرِ خیال میں کوئی پھول ہو
میں سفر میں ہوں مرے پاؤں پہ کبھی دھول ہو
مجھے شوق ہے مجھ سے بھی کبھی کوئی بھول ہو
غمِ ہجر ہو، شبِ تار ہو، بڑا طول ہو۔۔۔

کوئی ایک شخص تو یوں ملے ۔۔۔ کہ قرار ہو
کہ جو عکسِ ذات ہو، ہو بہو میرا آئینہ، میرے رو برو
کوئی ربط کہ جس میں نا مَیں، نہ تُو
سرِ خامشی کوئی گفتگو ۔۔۔

کوئی ایک شخص تو یوں ملے کہ سکوں ملے

بدھ, جولائی 11, 2012

اب کیا کسی کو چاہیں کہ ہم کو تو ان دنوں

وہ سلسلے وہ شوق وہ نسبت نہیں رہی
اب زندگی میں ہجر کی وحشت نہیں رہی

پھر یوں ہوا کہ کوئی اپنا نہیں رہا
پھر یوں ہوا کہ درد میں شدت نہیں رہی

ٹوٹا ہے جب سے اس کی مسیحائی کا طلسم
دل کو کسی مسیحائی کی حاجت نہیں رہی

پھر یوں ہوا کہ ہوگیا مصروف وہ بہت
اور ہم کو یاد کرنے کی فرصت نہیں رہی

اب کیا کسی کو چاہیں کہ ہم کو تو ان دنوں
خود اپنے آپ سے بھی محبت نہیں رہی

تمہارے شہر کا موسم بڑا سہانا لگے

تمہارے شہر کا موسم بڑا سہانا لگے 
میں ایک شام چرا لوں اگر برا نہ لگے 

تمہارے بس میں اگر ہو تو بھول جاؤ ہمیں 
تمہیں بھلانے میں شاید مجھے زمانہ لگے 

ہمارے پیار سے جلنے لگی ہے اک دنیا 
دعا کرو کسی دشمن کی بددعا نہ لگے 

نہ جانے کیا ہے اس کی بیباک آنکھوں میں 
وہ منہ چھپا کے جائے بھی تو بےوفا نہ لگے 

جو ڈوبنا ہے تو اتنے سکون سے ڈوبو 
کہ آس پاس کی لہروں کو بھی پتا نہ لگے 

ہو جس ادا سے میرے ساتھ بےوفائی کر کہ 
تیرے بعد مجھے کوئی بےوفا نہ لگے 

وہ پھول جو میرے دامن سے ہوگیا منسوب 
خدا کرے انہیں بازار کی ہوا نہ لگے 

تم آنکھ موند کے پی جاؤ زندگی قیصر 
کہ ایک گھونٹ میں شاید یہ بدمزا نہ لگے

ہمیں یقین ہے امجد نہیں وہ وعدہ خلاف

کوئی بھی لمحہ کبھی لوٹ کر نہیں آیا
وہ شخص ایسا گیا پھر نظر نہیں آیا

وفا کے دشت میں رستہ نہیں ملا کوئی
سوائے گرد سفر ہم سفر نہیں آیا

پَلٹ کے آنے لگے شام کے پرندے بھی
ہمارا صُبح کا بُھولا مگر نہیں آیا

کِسی چراغ نے پُوچھی نہیں خبر میری
کوئی بھی پُھول مِرے نام پر نہیں آیا

چلو کہ کوچہ قاتل سے ہم ہی ہو آئیں
کہ نخلِ دار پہ کب سے ثمر نہیں آیا

خُدا کے خوف سے دل لرزتے رہتے ہیں
اُنھیں کبھی بھی زمانے سے ڈر نہیں آیا

کدھر کو جاتے ہیں رستے، یہ راز کیسے کُھلے
جہاں میں کوئی بھی بارِ دگر نہیں آیا

یہ کیسی بات کہی شام کے ستارے نے
کہ چَین دل کو مِرے رات بھر نہیں آیا

ہمیں یقین ہے امجد نہیں وہ وعدہ خلاف
پر عُمر کیسے کٹے گی، اگر نہیں آیا

مجھ میں کچھ تم رہ جاؤ

جاؤ چاند سے مٹی لاؤ

اس کے دو بت بناؤ

اک بُت اپنا، اک بُت میرا

پھر ان کو توڑ ڈالو

پھر شروع سے مٹی گوندھو

اس کے دو بُت بناؤ

اک بُت اپنا، اک بُت میرا

تجھ میں کچھ میں رہ جاؤں

مجھ میں کچھ تم رہ جاؤ

ہم سا جو شکستہ قلب ملا، اُسے دل سے لگا کر چُوم لیا

تعبیر ہو جس کی اچھی سی، کوئی ایسا خواب نہیں دیکھا
کوئی ٹہنی سبز نہیں پائی، کوئی شوخ گلاب نہیں دیکھا

ایسا ہے کہ تنہا پھرنے کا کچھ اتنا زیادہ شوق نہیں
تیرے بعد سو ان آنکھوں نے کبھی جشن ِ مہتاب نہیں دیکھا

ہم ہجر زدہ سودائی تھے، جلتے رہے اپنے شعلوں میں
اچھا ہے کہ توُ محفوظ رہا، تُو نے یہ عذاب نہیں دیکھا

بس اتنا ہوا ہم تشنہ دہن لوٹ آئے بھرے دریاؤں سے
کوئی اور فریب نہیں کھایا، کوئی اور سراب نہیں دیکھا

ہم سا جو شکستہ قلب ملا، اُسے دل سے لگا کر چُوم لیا
اس سے بہتر اس سے بڑھ کر کوئی کارِ ثواب نہیں دیکھا

ہفتہ, جولائی 07, 2012

میرے خدا مجھے اس کے نصیب میں لکھ دے

میرے وجود کی جاگیر اس نے مانگی ہے

آج خواب کی تعبیر اس نے مانگی ہے

اس کی قید میں رہتی ہوں میں پہلے بھی

نا جانے پھر کیوں زنجیر اس نے مانگی ہے

گمان ہوتا ہے وہ بھول سکتا ہے مجھے

کیوں کہ آج میری تصویر اس نے مانگی ہے

میرے خدا مجھے اس کے نصیب میں لکھ دے

کہ مجھ سے میری تقدیر اس نے مانگی ہے
پروین شاکر