جمعرات, اگست 23, 2012

آ اور میرے وجود میں اُتر

اے رات
آ اور میرے گلے لگ جا
آ میں تمھاری آنکھیں، تمہارے ہونٹ
تمہارے رخسار اور تمہاری پیشانی چوموں
تمہاری ٹھوڑی پہ بوسہ دُوں
تمھیں کاجل لگاؤں
تمھارے بال سنواروں
اور تمہاری مانگ میں ستارے بھر دُوں
اور تمہارے شانوں پہ سر رکھ کے
بچھڑے ہوئے لوگوں
اور بیتے ہوئے لمحوں کو یاد کروں
اور ٹوٹ کے چاروں طرف بکھرے ہوئے آئینوں کی کرچیاں
چن چن کے
تمہیں اپنی زخمی پوریں دکھاؤں
اے رات
آ اور میرے وجود میں اُتر
آ اور میری ہتھیلیوں پہ آہستہ آہستہ
اپنا تمام روپ پھیلا دے
• — — — — — — — — — — — — •
فرحت عباس شاہ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

آپ کی رائے باعث مسرت لیکن موقف کا غیر اخلاقی حصہ حذف کر دیا جائے گا۔