اتوار, جولائی 22, 2012

Journalists threatened by political officer in Waziristan

One of our journalist friend from South Waziristan Agency Farooq Mehsud has been threatened by the assistant political officer of SWA when he tried to confirm a news piece from him relating the return of IDPs of south Waziristan. He was embarrassed and threatened of arrest and serious consequences under the black law of FCR( frontier crimes regulations) which is prevalent in the tribal areas for the last one century.Political administration in the tribal areas have frequently been using this black law against journalists and it has been hanging as the sword of Damocles over the heads of the journalists working in tribal areas, the most dangerous zone for journalists.
 
We want to inform all the authorities concerned that if Farooq Mehsud gets any kind of harm from any quarter, APO south Hamid Khattack would be responsible for it.
 
 
IHSAN DAWAR
president press club
Mirali North Waziristan agency
FATA.

ہفتہ, جولائی 21, 2012

آؤٹ لک کا ٹائم میگزین کو ترکی بہ ترکی جواب

دو ہفتے پہلے امریکی جریدے ٹائم ميگزین کی سرِ ورق کی کہانی میں بھارتی وزیر اعظم منموہن سنگھ کو ’انڈراچیور‘ یا اپنے اہداف مکمل طور پر حاصل نہ کر پانے والا رہنما قرار دیا تھا جس کے جواب میں اب بعد ایک بھارتی جریدے نے بالکل اسی طرح اپنے سرِ ورق کی کہانی میں امریکی باراک اوباما کے لیے یہی لفظ استعمال کیے ہیں۔

آؤٹ لک میگزین کے ایڈیٹر نے کہا ہے کہ انہوں نے یہ کوور سٹوری ٹائم میگزین
 کی سٹوری کے جواب میں نہیں کی ہے۔
بھارت کے ایک مقتدر اور مقبول خبری جریدے ’ آؤٹ لک‘ نے اپنے اس ہفتے کے شمارے میں امریکی صدر باراک اوباما کی تصویر صفحہ اول پر شائع کی ہے انہیں ’انڈر اچیور‘ یا ایسا لیڈر قرار دی ہے جو اپنے وعدے پورے نہ کر سکا ہو یا اپنے اہداف حاصل نہ کر پایا ہو۔

ٹائم میگزین نے سولہ جولائی کو شائع ہونے والے شمارے میں لکھا تھا کہ ’انڈیا نیڈز ری بوٹ‘ یعنی بھارت کو نئی شروعات کی ضرورت ہے جیسے ایک کمپوٹر کو بند کر کے دوبارہ شروع کیا جاتا ہے بالکل اسی طرح ربوٹ۔

بالکل اسی طرز پر آؤٹ لک میگزین نے لکھا ہے ’امریکہ نیڈز ری بوٹ‘ یعنی امریکہ کو نئی شروعات کی ضرورت ہے۔

آؤٹ لک میگزین نے مزید لکھا ہے کہ باراک اوباما نے تبدیلی لانے کا وعدہ کیا تھا اور چار برس گزر جانے کے باوجود کوئی تبدیلی نہیں آئی، کچھ نہیں ہوا اور اب اوباما کا جادو ختم ہوگیا ہے۔

آؤٹ لک میگزین کے مدیر اعلیٰ کرشنا پرساد نے کہا ہے کہ انہوں نے سرِ ورق کی یہ کہانی ٹائم میگزین کے جواب میں نہیں کی ہے۔اور نہ ہی اسے ’ جیسے کو تیسا‘ کہا جانا چاہیے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ انہوں نے یہ کوور سٹوری منموہن سنگھ کی حمایت میں نہیں کی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ بہت دن سے کوشش کررہے تھے کہ باراک اوباما پر ایک سرِ ورق کی رپورٹ کریں۔ ہمارے میگزین کی توجہ تو باراک اوباما ہیں نہ کہ ٹائم کی سٹوری جو انہوں نے منموہن سنگھ کے بارے میں کی تھی۔

انہوں نے مزید کہا ’ہم امریکہ کے انتخابات کا مختلف زاویوں سے جائزہ لینا چاہتے تھے اور اوباما کی گزشتہ چار برسوں کی کارکردگی کا پر تنقیدی نظر ڈالنا چاہتے ہیں، بس!'

کرشنا پرساد کا کہنا تھا ’اگر آپ باراک اوباما کو بھارتی نظریے اور غیر امریکی نظرریے سے دیکھیں گے تو آپ سمجھیں گے کہ جیسے منموہن سنگھ ناکام ثابت ہوئے ہیں اسی طرح سے باراک اوباما بھی ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ چاہے آپ کو یہ بات اچھی لگے یا نہیں۔‘ 
ٹائم میگزین نے منموہن سنگھ کی لیڈرشپ پر سوال اٹھائے تھے
انہوں نے ان الزامات کو تردید کی کہ انہوں نے اوباما کے بارے میں یہ کوور سٹوری حکومت کے دفاع میں کی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا ’ کچھ دن بات ہوسکتا ہے کہ ہم برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کے بارے میں اسی طرح کی سٹوری کریں۔ ہم بی بی سی کی طرح دنیا کو غیر جذباتی نظریے سے دیکھتے ہیں اور اس کے بارے میں کہانیاں کرتے ہیں۔‘

ٹائم میگزین کی سٹوری کے بعد آؤٹ لک میگزین کی سٹوری فیس بک اور ٹوئٹر پر بے حد مقبول ہو رہی ہے۔ بعض افراد کا کہنا ہے کہ آؤٹ لک نے ٹائم میگزین کو ’ کرارا جواب دیا ہے‘ وہیں بعض کا کہنا ہے کہ ’ یہ اچھے حسِ مزاح کی مثال ہے۔‘

وہیں بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ ’بھارتی میڈیا اور خود بھارتی اپنے بارے میں کچھ برا سننا پسند نہیں کرتے ہیں۔‘

آؤٹ لک کا ٹائم میگزین کو ترکی بہ ترکی جواب

لندن اولمپکس: عربی میں پوسٹر، عربوں کے لیے ہی مبہم

لندن میں منعقد ہونے والے اولمپکس کھیلوں سے پہلے مختلف زبانوں میں تیار کیے گئے سکیورٹی پوسٹرز میں عربی زبان کا پوسٹر ایسا ہے جو عربی جاننے والوں کی سمجھ میں بھی نہیں آ رہا۔

اس اشتہار کو بنانے والی ٹرین کمپنی کو اس کے لیے تنقید کا سامنا ہے۔

فرسٹ کیپٹل کنیکٹ نامی کمپنی نے انگریزی اور دیگر سات زبانوں میں تیار کیے گئے ان پوسٹرز کو تیرہ ریلوے سٹیشنوں کو بھیجا تھا تاکہ انہیں اولمپکس کھیلوں سے پہلے وہاں لگایا جاسکے۔

لیکن عرب اور برطانیہ کے درمیان تعلقات کو فروغ دینے کے لیے کونسل کا کہنا ہے کہ یہ پوسٹر ’ایک مذاق ہے‘۔ ان کا کہنا ہے کہ پوسٹر میں عربی کو جس طرح سے لکھا گیا ہے اس میں عربی کے الفاظ کو جوڑا نہیں گیا ہے۔

وہیں پوسٹر بنانے والی کمپنی کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ان اشتہارات کو مدد کرنے کی نیت سے بنایا گیا ہے۔

اولمپکس کھیلوں کے دوران لوگوں کو یہ وارننگ دینے والا پوسٹر کہ وہ اپنے سامان کو لاوارث نہ چھوڑیں کئی سٹیشنوں پر لگایا گیا ہے۔ ان میں کنگز کراس، سٹی ٹیمز لنک اور فیرنگڈن ریلوے سٹیشن شامل ہیں۔

عرب اور برطانیہ کے درمیان تعلقات کو فروغ دینے کے لیے کونسل کے ڈائریکٹر کرس ڈوئل کا کہنا ہے ’یہ بہت خراب پوسٹر ہے۔ اگر اس کو درست نہیں کیا گیا تو بہت سارے عربی زبان جاننے والے کہیں گے یہ کیا مذاق ہے‘۔

فرسٹ کیپٹل کنیکٹ کمپنی کے ترجمان کا کہنا ہے کہ اس پوسٹر کا انگریزی زبان سے عربی میں ترجمہ کیا گیا ہے اور ترجمہ کرنے کا کام ایک پروفیسر نے کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’پوسٹر بناتے وقت ہمارے سپلائر نے غلط فونٹ کا استعمال کیا جس سے پوسٹر کی تحریر بے معنی ہوگئی ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ کمپنی جلد ہی ان پوسٹرز کو دوبارہ صحیح تحریر میں شائع کرے گی۔

عربی میں پوسٹر، عربوں کے لیے ہی مبہم

دفترِ خارجہ کا پاکستانیوں کو شام نہ جانے کا مشورہ

پاکستان کے دفتر خارجہ نے سنیچر کے روز ایک سفری ایڈوائزری میں کہا ہے کہ شام میں بگڑتی ہوئی صورت حال کی وجہ پاکستانیوں کو شام کا سفر اختیار کرنے پر متنبہ کیا ہے۔

پاکستانی دفتر خارجہ سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ شام میں سکیورٹی کی بگڑتی ہوئی صورتحال کی وجہ سے تمام پاکستانیوں بالخصوص زائرین کو شام نہ جانے کا مشورہ ہے۔

دفتر خارجہ کا مزید کہنا ہے کہ جو پاکستانی شام میں موجود ہیں وہ مدد کے لیے دمشق میں پاکستانی سفارت خانے کے ان ٹیلیفون نمبروں پر رابطہ کریں

00963116132694 ۔

دفترِ خارجہ کا پاکستانیوں کو شام نہ جانے کا مشورہ

محرم کے بغیر گھر سے نکلنے پر پابندی کا مطالبہ

پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخواہ کے جنوبی ضلع لکی مروت کی تحصیل نورنگ میں گراں فروشی کے خلاف بلائے گئے ایک اجلاس میں علماء نے بغیر محرم کے خواتین کے بازاروں میں نکلنے پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا ہے جس کا شہر بھر میں اعلان بھی کرادیا گیا۔

دوسری جانب پولیس حکام کا کہنا ہے کہ ان کا اس تجویز سے کوئی تعلق نہیں ہے تاہم وہ فحاشی کے خلاف ضرور کارروائی کریں گے۔

تحصیل نورنگ ضلع لکی مروت اور بنوں کے درمیان واقع ہے۔

مقامی انتظامیہ نے گزشتہ روز رمضان کے حوالے سے علاقے میں گراں فروشی، ذخیرہ اندوزی اور دیگر مسائل کے بارے میں اجلاس طلب کیا تھا جس میں علاقے کی اہم شخصیات نے شرکت کی تھی۔

اجلاس میں شریک محکمۂ تعلیم کے ریٹائرڈ افسر محمد اسلم خان سے جب رابطہ کیا تو انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ مقامی علماء اور آئمہ کرام کی جانب سے یہ تجویز آئی کی رمضان میں خواتین کے بغیر محرم کے بازاروں میں آنے پر پابندی عائد کردی جائے۔ جس کے بعد شہر میں اعلان کرایا گیا کہ خواتین بغیر محرم کے بازاروں میں نہ آئیں۔
اسلم خان نے بتایا کہ ایسی کوئی بات نہیں ہوئی کہ اس فیصلے کی پابندی نہ کرنے والے کو کوئی سزا دی جائے گی بلکہ علاقے میں لوگ ایسے فیصلوں پر خود ہی عمل درآمد کرتے ہیں۔

مقامی افراد کا کہنا ہے کہ علاقے میں بیشتر خواتین پردہ کرتی ہیں لیکن کچھ عرصے سے اب بازاروں میں خواتین بغیر پردے کے بھی خریداری کے لیے آتی ہیں جس سے مختلف مسائل جنم لیتے ہیں۔

متحدہ شاپ کیپر ایسوسی ایشن کے صدر امان اللہ خان نے بی بی سی کو بتایا اس تجویز سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے اور نا ہی اس سے ان کا کاروبار متاثر ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ دال گڑ اور آٹا بیچتے ہیں جو مرد یا بچے آ کر لے جاتے ہیں۔

ان سے جب پوچھا گیا کہ اس فیصلے سے کپڑے اور کاسمیٹکس کا کاروبار کرنے والے تاجروں کا کاروبار تو متاثر ہوگا تو انھوں نے کہا کہ ان دکانوں سے بھی مرد اپنی خواتین کے لیے خریداری کرسکتے ہیں اس لیے اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

اس اجلاس کی صدارت ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس ثناء اللہ خان نے کی۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ خواتین کے بغیر محرم کے بازاروں میں نہ آنے پر پابندی کا معاملہ اس اجلاس کا ایجنڈا نہیں تھا۔

انہوں نے کہا کہ اجلاس میں علماء نے تجویز دی تو انھوں نے کہا کہ وہ یہ اختیار نہیں رکھتے کہ وہ کوئی پابندی لگائیں یا خود کوئی قانون بنائیں لیکن اگر کوئی فحاشی پھیلائے تو پولیس کو اطلاع دیں تو اس پر ضرور کارروائی ہوگی۔

انھوں نے کہا کہ ایسا کوئی فیصلہ نہیں ہوا کہ بغیر محرم کے بازاروں میں آنے والی خواتین کو گرفتار کیا جائے گا یا انھیں کوئی سزا دی جائے گی۔

ڈی ایس پی نے کہا کہ انھوں نے یونین اور علاقے کے افراد سے کہا کہ وہ خود اس کی نگرانی کریں تاہم ان کی جانب سے کوئی ایسی پابندی نہیں ہے لیکن اگر کوئی فحاشی پھیلائے تو پولیس کو اطلاع دیں تو اس پر ضرور کارروائی ہوگی۔

راولپنڈی سحر و افطار کے اوقات 2012ء بمطابق 1433ھ

یوفون رمضان آفر سحر سے افطار لاتعداد فری کالز


آفر ختم کرنے کے لئے #446* ڈائل کریں

سحر کے وقت 3 بجے سے شام 7 بجے تک کے چارجز 4 روپے 78 پیسے

جمعہ, جولائی 20, 2012

اسے کہنا اگر ملنا نہیں آسان

اسے کہنا اگر ملنا نہیں آسان
تو لکھ بھیجے وہ کیسا ہے

بہت دن سے یہ دل اداس رہتا ہے

طبیعت بھی مچلتی ہے

کبھی ٹھوکر جو لگتی ہے

دھیان میرا نہ جانے کیوں

اسی کی سمت جاتا ہے

اسے کوئی پتھر کوئی کانٹا لگا نہ ہو

خدایا وہ سلامت ہو

اسے کہنا اگر ملنا نہیں آسان
تو لکھ بھیجے وہ کیسا ہے

اس کی یاد کا جو چراغ تھا نہ جلا سکے نہ بجھا سکے

سبھی اشک آنکھوں میں آگئے نہ چھپا سکے نہ بتا سکے

وہ جو راز تھا وہ کھل گیا کوئی بات بھی نہ چھپا سکے

نہ وفا رہی نہ جفا رہی نہ وہ دل رہا نہ ہم رہے

اس کی یاد کا جو چراغ تھا نہ جلا سکے نہ بجھا سکے

کوئی زور خود پے رہا نہیں کوئی بس بھی اس پے چلا نہیں

اسے دیکھتے رہے دور تک مگر ہاتھ تک نہ ہلا سکے

نہیں اس میں اس کی خطا کوئی نہ نصیب کا کوئی دوش تھا

یہ ہمارا اپنا مزاج تھا کہ کسی طرح نہ نبھا سکے

میں چاند ہوں انساں نہیں

رات کا آخری پہر تھا
مجھ سے چاند نے کہا

ہم نشیں الوداع
مجھ کو نیند آرہی ہے
کل ملیں گے اسی جگہ

میں سن کر مسکرا دیا
اس کو بتلا دیا

جانے والے لوٹتے نہیں
تم نہیں آؤ گے مجھے ہے یقین

میری بات سن کے وہ رک گیا

اور

کہنے لگا

تم سے وعدہ کروں پھر پورا نہ کروں
ایسا ممکن نہیں

میں چاند ہوں انساں نہیں

مومن کی صفات

مومن تو وہ ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں۔ جب انہیں اس کی آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو ان کا ایمان اور بڑھ جاتا ہے اور وہ اپنے رب پر بھروسا رکھتے ہیں۔ وہ جو نماز پڑھتے ہیں اور جو مال ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے نیک کاموں میں خرچ کرتے ہیں، یہی سچے مومن ہیں اور ان کے لئے رب کے ہاں برے بڑے درجے، بخشش اور عزت کی روزی ہے۔ 
(الانفال۔ آیت نمبر ۲ تا ۴)

مایوس نہ ہوں! یہ دنیا فانی ہے

 اور جب میں نے دسویں منزل سے چھلانگ لگائی
میری تو ساری زندگی ہی غموں اور دکھوں سے بھری تھی
کوئی حل بھی تو نظر نہیں آتے تھے
بس خود کشی کا ہی ایک راستہ باقی تھا
چھلانگ لگاؤں یا نہ لگاؤں؟
اور پھر میں نے واقعی چھلانگ لگا دی۔
*******
یہ نویں منزل ہے
 
ارے یہ تو وہ دونوں میاں بیوی ہیں
جن کی آپس کی محبت اور خوشیوں بھری زندگی
کی ہماری بلڈنگ میں مثال دی جاتی تھی۔
(یہ تو آپس میں لڑ رہے ہیں)
اس طرح تو یہ کبھی خوش و خرم نہیں تھے
*******
یہ آٹھویں منزل ہے
 
 
یہ تو ہماری بلڈنگ کا مشہور ہنس مکھ نوجوان ہے
جو روتے لوگوں کو ہنسنے پر مجبور کر دیتا تھا۔
یہ تو خود بیٹھا رو رہا ہے۔۔۔
*******
یہ ساتویں منزل ہے
 
 
کیا یہ ہماری بلڈنگ کی وہ عورت نہیں
جو اپنی شوخی، چنچل پن اور چستی و چالاکی کی وجہ سے مشہور تھی۔
یہ تو اس کا مختلف رخ دکھائی دے رہا ہے۔
اتنی ساری دوائیں؟
یہ تو دوائیوں کے سہارے زندہ تھی۔
بیچاری اتنی زیادہ بیمار تھی کیا؟  
*******
یہ چھٹی منزل ہے
 
 
یہ تو ہمارا انجینیئر ہمسایہ لگتا ہے۔
بیچارے نے پانچ سال پہلے انجیئرنگ مکمل کی تھی
اور تب سے روزانہ اخبار خرید کر ملازمت
کیلئے اشتہارات دیکھتا رہتا ہے۔
*******
یہ پانچویں منزل ہے
 
 
یہ ہمارا بوڑھا ہمسایہ ہے۔
بیچارہ انتظار میں ہی رہتا ہے کہ کوئی آ کر اسکا حال ہی پوچھ لے۔
اپنے شادی شدہ بیٹے اور بیٹیوں کے انتظار میں رہتا ہے۔
لیکن کبھی بھی کسی نے اس کا دروازہ نہیں کھٹکھٹایا۔
بیچارہ کتنا اداس دکھائی دے رہا ہے۔
*******
یہ چوتھی منزل ہے
 
 
ارے یہ تو ہماری وہ خوبصورت اور ہنستی مسکراتی ہمسائی ہے!
بیچاری کے خاوند کو مرے ہوئے ہوئے تین سال ہوگئے ہیں۔
سب لوگ تو یہی سمجھ رہے تھے کہ اس کے زخم مندمل ہو چکے۔
مگر یہ تو ابھی بھی اپنے مرحوم خاوند کی تصویر اٹھائے رو رہی ہے۔
*******
 
 
دسویں منزل سے کودنے سے پہلے تو میں نے یہی سمجھا تھا کہ میں ہی اس دنیا کی سب سے غمگین اور اداس شخص ہوں
یہ تو مجھے اب پتہ چلا ہے کہ یہاں ہر کسی کے اپنے مسائل اور اپنی پریشانیاں ہیں۔
اور جو کچھ میں نے ملاحظہ کیا ہے اس سے تو یہی لگتا ہے کہ میرے مسائل اتنے گمبھیر بھی نہ تھے۔
 
 

کودنے کے بعد زمین کی طرف آتے ہوئے،  جن لوگوں کو میں دیکھتے ہوئے آئی تھی وہ اب مجھے دیکھ رہے ہیں۔
*******
کاش ہر شخص یہی سوچ لے کہ دوسروں پر پڑی ہوئی مصیبتیں اور پریشانیاں اُن مصیبتوں اور پریشانیوں سے کہیں زیادہ اور بڑی ہیں جن سے وہ گزر رہا ہے
تو وہ کس قدر خوشی سے اپنے زندگی گزارے۔
اور ہمیشہ اپنے رب کا شکر گزار رہے۔
*******
میرے دوست: مایوس نہ ہوا کریں، کہ یہ دنیا فانی ہے۔  اس دنیا میں موجود ہر شئے اللہ کے نزدیک مچھر کے ایک پر کے برابر کی حیثیت بھی نہیں رکھتی۔
اور جان لیجیئے کہ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔

قصہ کچھ طویل ہے لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ايک دفعہ كا ذكر ہے كہ ايک تھا مچھیرا، اپنے كام ميں مگن اور راضی خوشی رہنے والا۔ وہ صرف مچھلی كا شكار كرتا اور باقی وقت گھر پر گزارتا۔ قناعت كا يہ عالم كہ جب تک پہلی شكار كی ہوئی مچھلی ختم نہ ہو دوبارہ شكار پر نہ جاتا۔

ايک دن كی بات ہے کہ ۔۔۔ مچھیرے کی بيوی اپنے شوہر کی شكار كردہ مچھلی كو چھیل كاٹ رہی تھی كہ اس نے ايک حيرت ناک منظر ديكھا۔۔۔ حيرت نے تو اس كو كو دنگ كر كے ركھ ديا تھا۔۔۔ ايک چمكتا دمكتا موتی مچھلی كے پيٹ ميں۔۔۔ سبحان اللہ ۔۔۔ سرتاج، سرتاج، آؤ ديكھو تو، مجھے كيا ملا ہے۔۔۔ كيا ملا ہے، بتاؤ تو سہی۔۔۔ یہ دیکھو اتنا خوبصورت موتی ۔۔۔ كدھر سے ملا ہے۔۔۔ مچھلی کے پيٹ سے۔۔۔ لاؤ مجھے دو ميری پياری بيوی، لگتا ہے آج ہماری خوش قسمتی ہے جو اس كو بيچ كر مچھلی كے علاوہ كچھ اور كھانا کھانے كو ملے گا۔۔۔

مچھیرے نے بيوی سے موتی لیا۔۔۔ اور محلے كے سنار كے پاس پونہچا۔۔۔ السلام عليكم۔۔۔ وعليكم السلام۔۔۔ جی قصہ یہ ہے کہ مجھے مچھلی كے پيٹ سے موتی ملا ہے۔۔۔ دو مجھے ، ميں ديكھتا ہوں اسے۔۔۔ اوہ،،،، يہ تو بہت عظيم الشان ہے۔۔۔ ميرے پاس تو ايسی قيمتی چيز خريدنے كی استطاعت نہيں ہے۔۔۔ چاہے اپنا گھر، دكان اور سارا مال و اسباب ہی كيوں نہ بيچ ڈالوں، اس موتی كی قيمت پھر بھی ادا نہیں کرسكتا میں۔۔۔ تم ايسا كرو ساتھ والے شہر كے سب سے بڑے سنار كے پاس چلے جاؤ۔۔۔ ہوسكتا ہے كہ وہ اس کی قيمت ادا كرسكے، جاؤ اللہ تيرا حامی و ناصر ہو۔۔۔

مچھیرا موتی لے كر، ساتھ والے شہر كے سب سے امير كبير سنار كے پاس پونہچا، اور اسے سارا قصہ كہہ سنايا۔۔۔ مجھے بھی تو دكھاؤ، ميں ديكھتا ہوں ايسی كيا خاص چيز مل گئی ہے تمہيں۔۔۔ اللہ اللہ ، پروردگار كی قسم ہے بھائی، ميرے پاس اس كو خريدنے کی حيثيت نہیں ہے۔۔۔ ليكن ميرے پاس اس كا ايک حل ہے، تم شہر كے والی کے پاس چلے جاؤ۔۔۔ لگتا ہے ايسا موتی خريدنے كی اس كے پاس ضرور حيثيت ہوگی۔۔۔ مدد كرنے كا شكريہ، ميں چلتا ہوں والی شہر کے پاس۔۔۔

اور اب شہر كے والی كے دروازے پر ہمارا یہ مچھیرا دوست ٹھہرا ہوا ہے، اپنی قيمتی متاع كے ساتھ، محل ميں داخلے كی اجازت كا منتظر۔۔۔ اور اب شہر كے والی كے دربار ميں اس كے سامنے۔۔۔ ميرے آقا، يہ ہے ميرا قصہ، اور يہ رہا وہ موتی جو مجھے مچھلی كے پيٹ سے ملا۔۔۔ اللہ اللہ۔۔۔ كيا عديم المثال چيز ملی ہے تمہيں، ميں تو گويا ايسی چيز ديكھنے كی حسرت ميں ہی تھا۔۔۔ ليكن كيسے اس كی قيمت كا شمار كروں۔۔۔ ايک حل ہے ميرے پاس، تم ميرے خزانے ميں چلے جاؤ۔۔۔ اُدھر تمہيں 6 گھنٹے گزارنے كی اجازت ہوگی۔۔۔ جس قدر مال و متاع لے سكتے ہو لے لينا، شايد اس طرح موتی کی كچھ قيمت مجھ سے ادا ہوپائے گی۔۔۔ آقا، 6 گھنٹے!!!! مجھ جيسے مفلوک الحال مچھیرے كے لئے تو 2 گھنٹے بھی كافی ہيں۔۔۔ نہيں، 6 گھنٹے، جو چاہو اس دوران خزانے سے لے سكتے ہو، اجازت ہے تمہيں۔۔۔

ہمارا یہ مچھیرا دوست والی شہر كے خزانے ميں داخل ہوكر دنگ ہی رہ گيا، بہت بڑا اور عظيم الشان ہال كمرا، سليقے سے تين اقسام اور حصوں ميں بٹا ہوا، ايک قسم ہيرے، جواہرات اور سونے كے زيورات سے بھری ہوئی۔۔۔ ايک قسم ريشمی پردوں سے مزّين اور نرم و نازک راحت بخش مخمليں بستروں سے آراستہ۔۔۔ اور آخری قسم كھانے پينے كی ہر اُس شئے سے آراستہ جس كو ديكھ كر منہ ميں پانی آجائے۔۔۔

مچھيرے نے اپنے آپ سے كہا،،، 6 گھنٹے؟؟؟ مجھ جيسے غريب مچھیرے كے لئے تو بہت ہی زيادہ مہلت ہے يہ۔۔۔ كيا كروں گا ميں ان 6 گھنٹوں ميں آخر؟؟؟ خير۔۔۔ كيوں نہ ابتدا كچھ كھانے پينے سے كی جائے؟؟؟ آج تو پيٹ بھر كر كھاؤں گا، ايسے كھانے تو پہلے كبھی ديكھے بھی نہيں۔۔۔ اور اس طرح مجھے ايسی توانائی بھی ملے گی جو ہيرے، جواہرات اور زيور سميٹنے ميں مدد دے۔۔۔

اور جناب ہمارا يہ مچھیرا دوست خزانے كی تيسری قسم ميں داخل ہوا۔۔۔ اور ادھر اُس نے والی شہر كی عطاء كردہ مہلت ميں سے دو گھنٹے گزار ديئے۔۔۔ اور وہ بھی محض كھاتے، كھاتے، كھاتے۔۔۔ اس قسم سے نكل كر ہيرے جواہرات كی طرف جاتے ہوئے، اس كی نظر مخمليں بستروں پر پڑی، اُس نے اپنے آپ سے كہا۔۔۔ آج تو پيٹ بھر كر كھايا ہے۔۔۔ كيا بگڑ جائے گا اگر تھوڑا آرام كرليا جائے تو، اس طرح مال و متاب جمع كرنے ميں بھی مزا آئے گا۔۔۔ ايسے پر تعيش بستروں پر سونے كا موقع بھی تو بار بار نہيں ملے گا، اور موقع كيوں گنوايا جائے۔۔۔ مچھيرے نے بستر پر سر ركھا اور بس،،،، پھر وہ گہری سے گہری نيند ميں ڈوبتا چلا گيا۔۔۔
اُٹھ اُٹھ اے احمق مچھیرے، تجھے دی ہوئی مہلت ختم ہوچكی ہے۔۔۔ ہائيں، وہ كيسے؟؟؟ جی، تو نے ٹھيک سنا ہے، نكل ادھر سے باہر كو۔۔۔ مجھ پر مہربانی كرو، مجھے كافی وقت نہيں ملا، تھوڑی مہلت اور دو۔۔۔ آہ۔۔۔ آہ۔۔۔ تجھے اس خزانے ميں آئے 6 گھنٹے گزر چكے ہيں، اور تو اپنی غفلت سے اب جاگنا چاہتا ہے۔۔۔! اور ہيرے جواہرات اكٹھے كرنا چاہتا ہے كيا؟؟؟ تجھے تو یہ سارا خزانہ سميٹ لينے كے لئے كافی وقت ديا گيا تھا۔۔۔ تاكہ جب ادھر سے باہر نكل كر جاتا تو ايسا بلكہ اس سے بھی بہتر کھانا خريد پاتا۔۔۔ اور اس جيسے بلكہ اس سے بھی بہتر آسائش والے بستر بنواتا۔۔۔ ليكن تو احمق نكلا كہ غفلت ميں پڑگيا۔۔۔ تو نے اس كنويں كو ہی سب كچھ جان ليا جس ميں رہتا تھا۔۔۔ باہر نكل كر سمندروں كی وسعت ديكھنا تونے گوارہ ہی نہ کی۔۔۔ نكالو باہر اس كو۔۔۔ نہيں، نہيں، مجھے ايک مہلت اور دو، مجھ پر رحم كھاؤ۔۔۔

•••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••

(( يہ قصہ تو ادھر ختم ہو گيا ہے ))

ليكن عبرت حاصل كرنے والی بات ابھی ختم نہيں ہوئی۔۔۔
اُس قيمتی موتی كو پہچانا ہے آپ لوگوں نے؟؟؟
وہ تمہاری روح ہے اے ابن آدم، اے ضعيف مخلوق!!!
يہ ايسی قيمتی چيز ہے جس كی قيمت كا ادراك بھی نہيں کیا جاسكتا۔۔۔
اچھا، اُس خزانے كے بارے ميں سوچا ہے كہ وہ كيا چيز ہے؟؟؟
جی ہاں، وہ دنيا ہے۔۔۔
اس كی عظمت كو ديكھ دیکھ اس كے حصول كے لئے ہم كيسے مگن ہيں؟؟؟
اس خزانے ميں ركھے گئے ہيرے جواہرات!!!
وہ تيرے اعمال صالحہ ہيں۔۔۔
اور وہ پر تعيش و پر آسائش بستر!!!
وہ تيری غفلت ہيں۔۔۔
اور وہ كھانا پينا!!!
وہ شہوات ہيں۔۔۔
اور اب۔۔۔ اے مچھلی كا شكار كرنے والے دوست۔۔۔
اب بھی وقت ہے كہ نيندِ غفلت سے جاگ جا،،
اور چھوڑ دے اس پر تعيش اور آرام دہ بستر كو۔۔۔
اور جمع كرنا شروع كردے ان ہيروں اور جواہرات كو جو کہ تيری دسترس ميں ہی ہیں۔۔۔
اس سے قبل كہ تجھے دی گئی 6 گھنٹوں كی مہلت ختم ہوجائے۔۔۔
تجھے محض حسرت ہی رہ جائے گی۔۔۔
خزانے پر مامور سپاہيوں نے تو تجھے ذرا سی بھی اور زيادہ فرصت نہيں دينی،
اور تجھے ان نعمتوں سے باہر نكال دينا ہے جن ميں تو رہ رہا ہے۔۔۔

فرمابردار بیوی

شوھر: آج کھانے میں کیا بناؤ گی

بیوی: جو آپ کہیں

شوھر: واہ بھئی واہ ایسا کرو دال چاول بنا لو

بیوی: ابھی کل ہی تو کھائے تھے

شوھر: تو سبزی روٹی بنالو

بیوی: بچے نہیں کھائیں گے

شوھر: تو چھولے پوری بنالو چینج ہوجائے گا

بیوی: جی سا متلا جاتا ہے مجھے ھیوی ھیوی لگتا ہے

شوھر: یار آلو قیمہ بنالو اچھا سا

بیوی: آج منگل ہے گوشت نہیں ملے گا

شوھر: پراٹھہ انڈہ

بیوی: صبح ناشتے میں روز کون کھاتا ہے

شوھر: چل چھوڑ یار ھوٹل سے منگوالیتے ہیں

بیوی: روز روز باھر کا کھانا نقصان دہ ہوتا ہے جانتے ہیں آپ

شوھر: کڑھی چاول

بیوی: دھی کہاں ملے گا اس وقت
 
شوھر: پلاؤ بنالو چکن کا

بیوی: اس میں ٹائم لگے گا پہلے بتاتے

شوھر: پکوڑے ہی بنالو اس میں ٹائم نہیں لگے گا

بیوی: وہ کوئی کھانا تھوڑی ہے کھانا بتائیں پراپر

شوھر :پھر کیا بناؤ گی

بیوی: جو آپ کہیں سرتاج

والدین سے پیار کریں

کسی جگہ سیب کا ایک بہت پرانا اور گھنا درخت تھا، ایک چھوٹا لڑکا روزانہ درخت کے قریب جاتا اور اس کے پاس کھیلتا تھا۔ وہ درخت کے اوپر چڑھتا سیب توڑ کر کھاتا اور پھر درخت کے سائے تلے آرام کرتا۔ اسے درخت سے پیار تھا اور درخت کو بھی اس کے ساتھ کھیلنا اچھا لگتا تھا۔ وقت گزرتا رہا لڑکا جوان ہوگیا۔ اب اس نے روزانہ درخت کے پاس کھیلنا چھوڑ دیا۔ ایک روز لڑکا درخت کے قریب گیا، لیکن وہ اداس نظر آرہا تھا۔ درخت نے لڑکے سے کہا، میرے پاس آﺅ اور میرے ساتھ کھیلو۔ لڑکے نے جواب دیا، میں بچہ نہیں ہوں اور اب درختوں کے پاس نہیں کھیلتا، مجھے کھلونے چاہیئے، اور اس کے لئے رقم کی ضرورت ہے۔ درخت نے جواب دیا، مجھے افسوس ہے، میرے پاس تو رقم نہیں ہے۔ لیکن تم ایسے کرو میرے تمام سیب توڑ کر بیچ دو اور اس طرح تم رقم حاصل کرسکتے ہو۔ لڑکا بہت خوش ہوا، اس نے تمام سیب توڑے اور وہاں سے خوشی خوشی چل دیا۔ اس کے بعد لڑکا کبھی واپس نہیں گیا تو درخت اداس ہوگیا۔

ایک دن لڑکا جو بڑا ہوکر مرد بن گیا تھا واپس درخت کے پاس پہنچ گیا۔ اسے دیکھ کر درخت بہت خوش ہوا اور اس سے کہا، آﺅ میرے ساتھ کھیلو!

لڑکے نے جواب دیا، میرے پاس کھیلنے کے لئے وقت نہیں ہے، مجھے اپنے خاندان کے لئے کام کرنا ہے۔ ہمیں رہنے کے لئے ایک مکان چاہیئے ہے۔ کیا تم میری مدد کرسکتے ہو؟؟؟

مجھے افسوس ہے میں تمہاری مدد نہیں کرسکتا، کیوں کہ میرے پاس مکان نہیں ہے، درخت نے جواب دیا۔ لیکن تم مکان بنانے کے لئے میری ساری شاخیں کاٹ سکتے ہو۔ درخت نے مزید کہا۔

اس طرح اس نے درخت کی تمام شاخیں کاٹ لیں اور خوشی خوشی وہاں سے چل دیا۔

درخت اسے خوش دیکھ کر بہت مطمئن اور خوش ہوا، لیکن وہ شخص اس کے بعد کبھی واپس نہ آیا۔

درخت ایک بار پھر اداس اور اکیلا رہ گیا۔

شدید گرمی کے ایک روز، وہ شخص واپس آیا تو اسے دیکھ کر درخت بہت خوش ہوا، اور اس سے کہا آﺅ میرے ساتھ کھیلو۔
تو اس شخص نے کہا، میں اب بوڑھا ہو رہا ہوں، آرام اور تفریح کے لئے سیلنگ کرنا چاہتا ہوں، کیا تم مجھے کشتی دے سکتے ہو؟؟؟ 

تم میرا تنا کاٹ کر کشتی بنالو، سیلنگ کرو اور خوش رہو، درخت نے جواب دیا۔

اس شخص نے کشتی بنانے کے لئے درخت کا تنا بھی کاٹ لیا اور سیلنگ کے لئے چلا گیا۔ پھر وہ لمبے عرصے تک نظر نہیں آیا۔

بالآخر وہ کئی سالوں کے بعد واپس آیا۔

میرے بچے میں معذرت خواہ ہوں کہ اب میرے پاس تمہیں دینے کے لئے کچھ نہیں بچا۔ درخت نے کہا۔ میرے پاس اب سیب بھی نہیں ہیں، درخت نے مزید کہا۔

کوئی بات نہیں، اب تو میرے دانت ہی نہیں کہ سیب کھا سکوں۔

اب تو میرا تنا بھی نہیں ہے جس پر تم چڑھ سکو۔

اس شخص نے جواب دیا، اب میں بہت بوڑھا ہو چکا ہوں۔

اب میں حقیقت میں تمہیں کچھ نہیں دے سکتا، صرف اور صرف جڑیں بچ گئی ہیں اور وہ بھی خشک ہورہی ہیں۔ درخت نے روتے ہوئے کہا۔

اس شخص نے جواب دیا، اب مجھے مزید کسی چیز کی ضرورت نہیں، صرف آرام کے لئے جگہ چاہیئے ہے، اس لئے کہ اب میں تھک گیا ہوں۔

بہت اچھا، پرانے درخت کی جڑیں لیٹنے اور آرام کے لئے بہترین جگہ ہے۔

آﺅ آﺅ میرے ساتھ بیٹھ جاﺅ اور آرام کرو، درخت نے کہا۔

وہ شخص وہاں بیٹھ گیا۔ درخت خوش ہوگیا اور آنسوﺅں کے ساتھ مسکرا دیا۔

اس کہانی میں آپ کے والدین اور آپ کا ذکر کیا گیا۔

اپنے والدین سے پیار کریں۔

بعد از مرگ آن لائن املاک کا وارث کون؟

انٹرنیٹ کے فروغ سے دنیا بھر میں بے شمار آن لائن اکاؤنٹ کھولے گئے ہیں۔ اکثر لوگ ای میل، سوشل میڈیا مثلاً فیس بک اور ٹوئٹر اور دوسرے آن لائن اکاؤنٹ میں ذاتی نوعیت کا بہت سا ڈیجیٹل مواد ایسے ہی چھوڑ دیتے ہیں۔

مگر ہمارے مرنے کے بعد اس ذاتی ڈیجیٹل مواد کا کیا ہوتا ہے؟ کون ہماری آن لائن وراثت کو کنٹرول کرتا ہے؟ بہت سے لوگوں اس وقت بہت مایوسی ہوتی ہے جب وہ اپنے پیاروں کےمرنے کے بعد ان کی آن لائن زندگیوں تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر ناکام رہتے ہیں۔

فیس بک پر تمام مواد اس کی ملکیت
جب اکیس سالہ بنجمن سٹیسن نے خودکشی کی تو وہ ایک بہت بے فکرا اور اپنے کالج کی زندگی میں مگن انسان نظر آتا تھا۔ اس کی موت کے بعد سے اس کے والدین یہ کھوج لگانے کی کوشش کررہے ہیں کہ اس نے ایسا کیوں کیا۔

اس کے والدہ ایلس نے کہا،’’ہمیں بنجمن کی موت سے بہت دھچکا لگا ہے‘‘۔

اس کےوالد جے سٹیسن نے کہا کہ ’’ہم نے اس کے سوشل میڈیا اور ای میل اکاؤنٹ تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ یہ جان سکیں کہ اس کی زندگی میں ایسا کیا ہورہا تھا‘‘۔

وہ خاص طور پر اس کے فیس بک اکاؤنٹ تک رسائی حاصل کرنا چاہتے ہیں تاکہ اس کے پرائیوٹ پیغام پڑھ سکیں۔ مگر سب لوگوں کی طرح بنجمن سٹاسن نے بھی فیس بک اکاؤنٹ بناتے وقت شاید بغیر پڑھے ایک ایگری منٹ سائن کیا تھا جس کے مطابق اس کے اکاؤنٹ پر موجود تمام مواد کمپنی کی ملکیت ہے۔

اس کے والد کا کہنا ہے کہ مرنے والے کے والد کی حیثیت سے اس کے اکاؤنٹ تک رسائی حاصل کرنا تو دور کی بات ہے، کمپنی سے رابطہ کرنا ہی ایک بہت بڑا چیلنج تھا۔

لہٰذا انہوں نے عدالت سے ایک حکمنامہ حاصل کیا ہے جس میں فیس بک کمپنی کو کہا گیا ہے کہ وہ ان کو اپنے بیٹے کے اکاؤنٹ تک رسائی دے۔ تاہم ابھی تک فیس بک نے اس حکمنامے پر عمل نہیں کیا۔

آن لائن وراثت
کچھ ایسا ہی میک ٹونیز کے خاندان اور دوستوں کے ساتھ بھی ہوا جو 2009ء میں نیند کی حالت میں انتقال کر گئےتھے۔ وہ ایک مقبول بلاگ لکھتے تھے اور ان کے بہت سے آن لائن دوست اور مداح تھے۔ ان کی وفات کے بعد ان کے خاندان نے گوگل کمپنی سے اس بلاگ تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کی، مگر ناکام رہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے بلاگ کے تبصروں کے سیکشن میں بہت سے اشتہار جمع ہوگئے ہیں جو وہ عموماً ڈیلیٹ کردیا کرتے تھے۔

کچھ کمپنیاں اس مسئلے کےایک نیا حل پیش کررہی ہیں تاکہ لوگ اپنی آن لائن وراثت پر کچھ کنٹرول حاصل کرسکیں۔ اس کا ایک طریقہ یہ ہے کہ آپ اپنے تمام آن لائن اکاؤنٹس کے نام اور پاس ورڈ ایک ڈیجیٹل خانے میں اپ لوڈ کردیں اور ساتھ ہی کمپنی کو یہ ہدایت دے دیں کہ آپ کے مرنے کے بعد آپ کے اکاؤنٹ کی کون سے فائلیں ختم کرنی ہیں اور کون سی متعین کردہ افراد کو پہنچانی ہیں۔

مگر میک ٹونیز کے ویب ڈیویلپر دوست مارک پلاٹنر نے ایک اور حل نکالا ہے۔ انہوں نے ان کے بلاگ کا تمام مواد سائٹ سکر نامی ایک پروگرام کے ذریعے ڈاؤن لوڈ کرکے اسےبالکل ویسے ہی ایک نئے بلاگ پر اپ لوڈ کیا ہے۔ مگر اب اس کا کنٹرول ان کے اپنے ہاتھ میں ہے۔ وہ اس بات پر خوش ہیں کہ وہ اپنے دوست کی آن لائن وراثت کو زندہ رکھنے میں کامیاب رہے ہیں۔
 
ان کا یہ مشورہ آجکل کے ڈیجیٹل دور میں ہر کسی کو اپنی آن لائن وراثت کے بارے میں سوچنا چاہٍئے اور پہلے سے ہی اس کے متعلق اقدامات کرلینے چاہئیں۔

بعد از مرگ آن لائن املاک کا وارث کون؟

جمعرات, جولائی 19, 2012

ناسا کے سُوپر کمپیوٹر کی رفتار بڑھا دی گئی

امریکی خلائی ادارے ناسا نے ایمز نامی ریسرچ سینٹر میں نصب سُوپر کمپیوٹر کی رفتار بڑھا کر ایک اعشاریہ چوبیس پیٹافلاپس کردی ہے۔
اس سوپر کمپیوٹر کی رفتار کا اندازہ لگانے کے لیے یہ فرض کرنا کافی ہوگا کہ اگر دنیا کی پوری آبادی ایک سینکنڈ میں علم ریاضی کا ایک ہی عمل کرے تو اسے وہ اعمال کرنے کے لیے تین سو ستر دن لگیں گے جو ناسا کا سُوپر کمپیوٹر ساٹھ سیکنڈ میں کرتا ہے۔
اس وقت بارہ سو ادارے یہ سوپر کمپیوٹر استعمال کرتے ہیں۔ سوپر کمپیوٹر کے ذریعے طیارہ سازی، خلائی تحقیقات اور خلائی جہازوں کی تعمیر کا حساب کیا جاتا ہے۔