جمعرات, نومبر 15, 2012

یوٹیوب چند روز میں کھولے جانے کا امکان

اسلام آباد: ملک بھر میں یوٹیوب کو آئندہ چند روز میں کھولے جانے کا امکان ہے۔

ذرائع کے مطابق حکومت نے پاکستان ٹیلی کام اتھارٹی کو اس سلسلے میں ضروری اقدامات کی ہدایت کی ہے، پی ٹی اے اس سلسلے میں ایک ایسا فلٹر سسٹم لگائے گا جس سے یوٹیوب پر کسی بھی گستاخانہ مواد کو روکا جاسکے گا۔ واضح رہے کہ وزیر داخلہ رحمان ملک نے چند روز قبل میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت یوٹیوب پر سے تمام گستاخانہ مواد کو ہٹا کر اسے کھولنے پر غور کررہی ہے۔

حکومت نے گزشتہ ماہ یوٹیوب پر اس وقت پابندی لگادی تھی جب امریکا میں بنائی جانے والی گستاخانہ فلم کے خلاف ملک بھر میں احتجاج کے دوران امن وامان کا مسئلہ پیدا ہوگیا تھا۔ یوٹیوب پر گستاخانہ مواد کے باعث نہ صرف پاکستان بلکہ متعدد اسلامی ممالک میں بھی احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس دوران لیبیا میں مشتعل افراد نے دارالحکومت طرابلس میں امریکی سفارتخانے میں گھس کر امریکی سفیر سمیت 3 سفارتکاروں کو ہلاک کردیا تھا۔

پاکستان نے بھارت کی فتوحات کا سلسلہ ختم کردیا

جوہربارو: سلطان آف جوہر کپ جونیئر ہاکی ٹورنامنٹ میں پاکستان نے بھارت کی فتوحات کا سلسلہ ختم کردیا۔

مقابلے کا اختتام بغیر کسی گول کے برابری پر ہوا، گرین شرٹس جمعرات کو میزبان ملائیشیا کے مقابل آئیں گے، ٹیم نے اس سے قبل کیویز کیخلاف مقابلہ 3-3 سے ڈرا کیا جبکہ آسٹریلیا کے ہاتھوں 1-5 سے شکست برداشت کرنا پڑی، اس کے برعکس بھارت نے اپنے دونوں ابتدائی میچز جیتے تھے، اس نے آسٹریلیا کے خلاف 2-0 سے حیران کن فتح پائی اور پانچ مرتبہ کے ورلڈ جونیئر چیمپئن جرمنی کو 3-1 سے ہرایا تھا۔ جوہربارو، ملائیشیا میں بدھ کو روایتی حریف کے خلاف پاکستان نے جارحانہ انداز اختیار کیے رکھا تاہم دونوں ٹیموں کے فارورڈز میچ کو نتیجہ خیز نہیں بناسکے۔

گرین شرٹس نے پہلا پنالٹی کارنر 39 ویں منٹ میں حاصل کیا لیکن محمد عرفان نے گول کا موقع ضائع کردیا، 46 ویں منٹ میں بھارت کے پردیپ سنگھ کی لگائی ہوئی ہٹ پر گول کیپر نے گیند قابو کرلی، پاکستان کو 64 ویں منٹ میں بھی گول داغنے کا موقع ملا لیکن محمد ارسلان قادر کا سٹریٹ شاٹ انڈین گول کیپر ششانت ٹرکی نے روک لیا، تین میچز کی تکمیل پر بھارت 7 پوائنٹس کے ساتھ سرفہرست ہے جبکہ پاکستان 2 پوائنٹس لے کر6 ٹیموں کے ایونٹ میں آخری نمبر پر ہے۔

دونوں ٹیمیں جونیئر سطح پر 27 مرتبہ مدمقابل آچکیں، 10 میں گرین شرٹس اور 9 میں حریف نے فتح پائی، 8 میچز ڈرا ہوئے، پاکستان کے 42 گول کے مقابلے میں بھارت نے 49 بنائے، جوہر بارو ایونٹ میں اس سے قبل منعقدہ تین میچز میں سے دو میں بھارت اور ایک میں پاکستانی ٹیم کامیاب رہی۔ بدھ کو دیگر میچز میں آسٹریلیا نے میزبان ملائیشیا کو 3-2 سے مات دی، جرمنی نے اپنی گذشتہ دو ناکامیوں کا غصہ نیوزی لینڈ کو5-1 سے ہرا کر اتارا۔ 

کچی مٹی کے لازوال نقوش

مسرت جبیں

 mussarat.jabeen@janggroup.com.pk

اتنا تو مجھے پتہ تھا کہ چھوٹی عمر کے ناخوشگوار تجربے انسان کی ساری عمر اس کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں، بعد میں چاہے اسے زندگی سے کتنا کچھ ہی کیوں نہ مل جائے۔ ابتدائی سالوں کے وہ نقوش اسے رہ رہ کر ناخوش کرتے رہتے ہیں۔ میری اپنی بڑی بہن جو ایک بے حد خوبصورت انسان ہونے کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر بھی ہیں اور زندگی نے انہیں ہمیشہ مجھ سے بڑھ کر نوازا ہے۔ ان کے دل کے اندر ایک عجیب سی افسردگی ہمیشہ رہتی ہے۔ خود انہیں بھی احساس ہے لیکن وہ چاہتے ہوئے بھی اسے خود سے نوچ کر پھینک نہیں سکتیں۔ محض اس لئے کہ بہت بچپن میں یعنی صرف دوسال کی عمر میں ماں باپ سے جدا کر کے خالہ کی گود میں ڈال دیا گیا تھا۔ بہن کی ناخوشگوار ازدواجی زندگی کے مختصر تجربے اور پھر کبھی شادی نہ کرنے کے فیصلے کو اپنے طور پر قابل قبول بنانے کے لئے بہن اور بہنوئی نے اپنی دوسری بیٹی یعنی میری پیدائش پر، اپنی پہلی بیٹی اور اس وقت تین بھائیوں کی بہن کو خالہ کی محبت بھری گود کے سپرد کر دیا۔ بظاہر تو یہ فیصلہ اس بچی کے لئے جو خالہ سے یوں بھی بے حد مانوس تھی ناقابل قبول نہیں تھا، لیکن بڑھتی عمر اور یہ احساس کہ بھرے پرے کنبے کے بجائے محض خالہ اور نانی کی موجودگی چاہے وہ کتنے نخرے اٹھانے والی کیوں نہ ہوں۔ باپ ، ماں اور بھائی بہنوں کی موجودگی کا بدل کبھی نہ بن سکی۔ خاص طورپر جبکہ یہ حقیقت اس بچی سے بھی نہ چھپائی گئی کہ درحقیقت اس کا اپنا گھر کون سا ہے۔

ہمارے ہاں بڑے فیصلے کرتے ہوئے یہ بھول جاتے ہی کہ بچوں کے کچے اور معصوم ذہنوں پر ایسے فیصلوں کے کیا اثرات ہو سکتے ہیں۔ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ پانچ چھ سال تک کے بچے کو کسی بھی بات کا کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ اس کا ذہن اتنا پختہ نہیں ہوتا کہ اس چھوٹی عمر کے تجربات اور احساسات کو باقی زندگی کے لئے ذخیرہ کر سکے۔ اچھے یا برے، یہ تو ضمنی بات ہے لیکن خود میرے اپنے ذہن میں ایسے نقش یا یوں کہیئے کہ فلم کی ریل کی طرح عکس موجود ہیں جن کا سلسلہ میری پونے دو سال کی عمر سے جڑتا ہے۔ بھلا کون یقین کر سکتا ہے کہ اتنا چھوٹا بچہ، اپنے گرد و پیش میں ہونے والے واقعات اور مقامات کو اپنے ذہن میں اس طرح نقش کر لیتا ہے لیکن ایسا ہوتا ہے اور اب ایک بیس سالہ تحقیق نے اس کا ثبوت بھی دے دیا ہے۔
یہ تحقیق پینسلوینا یونیورسٹی کے شعبہ نیورو سائنس کی سربراہ مارتھا فرح نے یہ جاننے کے لئے کیا ہے کہ چھوٹی عمر یعنی چار سال تک کے بچے کی روزمرہ مصروفیات اور تجربات، بڑوں کے رویّے اور ماحول اس کے ذہن پر کیا اثرات مرتب کرتے ہیں اور وہ آگے زندگی میں ان سے کتنی رہنمائی لے سکتا ہے۔ بیس سال پر محیط اس ریسرچ نے ثابت کیا ہے کہ چار سال کی عمر تک بچے کو جو ماحول مہیا کیا جاتا ہے یعنی جیسے اور جتنے لوگ اس کے آس پاس رہتے ہیں، جیسے کھلونے یا کتابیں اسے دی جاتی ہیں، موسیقی کے کتنے آلات۔ اصلی یا کھلونوں کی صورت میں اس کی دسترس میں ہوتے ہیں۔ رنگوں اور خوشبوﺅں سے اس کا جتنا تعارف ہوتا ہے یہ سب چیزیں مل جل کر اس کے ذہن کی نشو ونما کرتے ہیں لیکن ان سب سے بڑھ کر محبت کی وہ گرمی جو اسے اس عمر میں حاصل ہوتی ہے یا نہیں ہوتی، ان سب کا اثر زندگی بھر اس کے ساتھ ساتھ رہتا ہے۔

چونسٹھ بچوں کے دماغوں کا اسکین (SCAN) پہلے چار سال کی عمر میں کیا گیا، پھر آٹھ سال کی عمر میں اور آخری اسکین سترہ اور انیس سال کی عمروں میں اور اس سارے عرصے میں سائنسدان ان بچوں کے گھروں کے ماحول، ان کی زندگی میں موجود افراد اور باقی ہر طرح کے تجربات سے باخبر رہے لیکن نتیجے نے یہ ثابت کیا کہ جو ماحول، حالات، رویّے اور دوسرے عوامل ایک بچے کو چار سال کی عمر تک پیش آتے ہیں وہی اس کی باقی زندگی اور ذہنی نشو و نما کے لئے بنیادی کردار ادا کرتے ہیں کیونکہ دماغی نشو ونما میں اس کے بعد کوئی واضح فرق محسوس نہیں کیا گیا۔ بچے بڑے ہوتے ہیں، تعلیم حاصل کرتے ہیں یا نہیں کر سکتے، زندگی کے بہت سے دوسرے تجربات سے گزرتے ہیں۔ جو مختلف لوگوں اور مختلف حالات کے تحت بے حد متفرق ہو سکتے ہیں لیکن سائنسدانوں کا خیال ہے کہ چار سال کی عمر تک پیش آنے والے واقعات، اس عرصے تک گزاری گئی زندگی، ماں باپ اور دوسرے گھر والوں کے رویّے، محبت اور توجہ یا ان دونوں کی عدم موجودگی اور پورا ماحول مل کر ایک انسان کے رویوں، اس کے فیصلوں اور زندگی گزارنے کے طریقوں کا تعین کرتے ہیں۔
ماں باپ زندگی بھر تو کسی کے ساتھ نہیں رہتے لیکن اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے بچے صحیح فیصلے کر سکیں، اپنی زندگی کی راہیں مثبت خطوط پر استوار کریں اور سب سے بڑھ کر ایک مطمئن اور خوشگوار زندگی گزار سکیں تو اس وقت کا انتظار نہ کیجئے کہ بچہ ذرا بڑا ہو جائے تو اسے اچھے، برے اور مثبت چیزوں کی پہچان کرائیں۔ یہ سارے کام آپ کو چار سال کی عمرتک کر لینے چاہئیں کیونکہ اس وقت تک کمہار کی کچی مٹی کی طرح ذہن کی سطح پر پڑنے والے نقش بھی پکّے ہو جاتے ہیں پھرآپ لاکھ کوشش کریں پختہ مٹی کو نئے سرے سے گوندھ کر نئے سانچے میں نہیں ڈھال سکتے، اس لئے شروع سے ہی احتیاط لازم ہے۔

مانا کہ حالات اور ماحول آپ کے اختیار میں نہیں یعنی وہ ماحول جو روپے پیسے اور چیزوں سے عبارت ہے لیکن میٹھے بول، بچوں کی بات توجہ سے سننے کی عادت اور لمس کی گرمی تو آپ کے اختیار میں ہے۔ یقین جانیں یہ سب کسی بھی ٹانک یا بیرونی محرک سے بڑھ کر کام کرتے ہیں۔ میرے ماں باپ مجھے چاہتے ہیں، میری ذات کو گھر میں اہمیت دی جاتی ہے۔ یہ اعتماد زندگی بھر انسان کے ساتھ ساتھ چلتا ہے۔
جنگ

بات نکلی ہے تو دور تلک جائے گی

حامد میر

hamid.mir@janggroup.com.pk

پاکستانی میڈیا کو کئی دنوں سے شٹ اَپ کال دی جا رہی تھی۔ ڈانٹ ڈپٹ کرنے والوں کا فرمانا تھا کہ جب کوئی فوج حالت جنگ میں ہو تو اس فوج پر تنقید نہیں کی جاتی بلکہ اس فوج کا حوصلہ بڑھایا جاتا ہے۔ ڈانٹ ڈپٹ کرنے والوں کو بہت سمجھایا گیا کہ میڈیا نے فوج پر کوئی تنقید نہیں کی بلکہ ماضی میں آئین و قانون کی خلاف ورزی کرنے والے کچھ ریٹائرڈ جرنیلوں کے کردار پر بحث کی جا رہی ہے لیکن ڈانٹ ڈپٹ میں شدت آتی گئی اور میڈیا پر بلا جواز تنقید میں میڈیا کے کچھ لوگ بھی اپنے مخصوص منافقانہ انداز میں شامل ہو گئے۔ اس دوران کچھ ٹی وی چینلز کی انتظامیہ سے رابطہ کیا گیا اور کچھ اینکرز کے بارے میں کہا گیا کہ انہیں لگام دی جائے یا اسکرین سے ہٹا دیا جائے۔ یہ مطالبہ صاف بتا رہا تھا کہ اپنے آپ کو ریاست سے زیادہ طاقت ور سمجھنے والے کچھ عناصر بدستور اپنے سابقہ باس جنرل پرویز مشرف کے انداز میں سوچتے ہیں وہ نظریہ ضرورت کے تحت اپنی ماضی کی غلطیوں کا ذکر تو کرتے ہیں لیکن ماضی کی ان غلطیوں سے سبق سیکھنے کے لئے تیار نہیں۔ اس سے پہلے کہ کم از کم چار ٹی وی اینکرز کا دماغ درست کرنے کے لئے کوئی اور راستہ اختیار کیا جاتا امریکی میڈیا میں دنیا کی طاقتور ترین انٹیلی جنس ایجنسی سی آئی اے کے سربراہ جنرل ڈیوڈ پیٹریاس کا سکینڈل بے نقاب ہوگیا۔

60 سالہ ڈیوڈ پیٹریاس دو بچوں کی ماں 40 سالہ پاﺅلا بروڈ ویل کے ساتھ خفیہ طور پر عشق فرما رہے تھے۔ جنرل ڈیوڈ پیٹریاس کے اس عشق کا بھانڈا ایف بی آئی نے پھوڑا جو سی آئی ے کے سربراہ کی ای میلز کی نگرانی کر رہی تھی۔ جیسے ہی یہ معاملہ میڈیا میں آیا تو ڈیوڈ پیٹریاس نے اپنی غلطی کا اعتراف کر کے سی آئی اے سے استعفیٰ دے دیا۔ اب امریکی میڈیا اس اسکینڈل کی مزید تفصیلات جاننے کے لئے پاﺅلا اور پیٹریاس کے پیچھے بھاگ رہا ہے لیکن کسی نے امریکی میڈیا کو قومی مفادات کی آڑ لے کر اس معاملے کی رپورٹنگ سے نہیں روکا۔ جنرل ڈیوڈ پیٹریاس نے نہ تو آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سیاست میں مداخلت کی نہ، سیاستدانوں میں رقوم تقسیم کیں نہ کوئی رشوت لی۔ صرف ایک خاتون کے ساتھ عشق کیا جس کی وجہ سے کچھ خفیہ اطلاعات مذکورہ خاتون تک پہنچنے کا خدشہ تھا لہٰذا سی آئی اے کے سربراہ نے اخلاقی بنیادوں پر اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ اب ذرا پاکستان کی طرف آیئے۔ ہمارے ہاں کیا کچھ نہیں ہوتا رہا۔ جی ایچ کیو پر حملہ، ایبٹ آباد آپریشن، مہران بیس کراچی پر حملہ، سلالہ چیک پوسٹ پر حملہ اور پھر کامرہ ایئر بیس پر حملہ ہوا۔ کسی خفیہ ادارے کے سربراہ نے استعفیٰ نہیں دیا اور جب میڈیا نے ان اداروں کی کارکردگی پر سوالات اٹھائے تو انہیں ملک دشمن قرار دیا گیا۔ پیٹریاس پاکستان میں ہوتے تو صاف بچ جاتے۔

واقفان حال جانتے ہیں کہ جس قسم کے اسکینڈل کی وجہ سے جنرل ڈیوڈ پیٹریاس نے استعفیٰ دیا اس قسم کے اسکینڈل ہمارے لئے نئے نہیں ہیں۔ جنرل یحییٰ خان سے لے کر جنرل پرویز مشرف تک فوج کے کئی جرنیل اپنی رنگین مزاجی کے لئے مشہور تھے لیکن ہمارے میڈیا نے کبھی ان رنگین داستانوں کی تفصیل میں جانے کی جرا ¿ت نہ کی۔پاکستانی میڈیا کے لئے سیاستدانوں اور بیورو کریٹ کے خلاف سچ بولنا ہمیشہ آسان رہا ہے کیونکہ ان کے ہاتھ میں بندوق نہیں ہوتی۔ جب بھی کوئی صحافی جرنیلوں کی غیر آئینی یا غیر اخلاقی سرگرمیوں کے بارے میں زبان کھولتا ہے تو اسے دھمکیوں اور الزامات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کون نہیں جانتا تھا کہ جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں ایک ٹی وی اداکارہ کی رسائی ایوان صدر کے کون کون سے کونے تک پہنچ چکی تھی؟ با خبر صحافی تو ایک صنعت کار خاتون کی پہنچ سے بھی واقف تھے جس نے ایک سیاسی جماعت کے رہنما کو شادی کا جھانسہ دے کر کئی راز اگلوائے اور پھر یہ سب کچھ مشرف صاحب کو بتا کر ان کے قریب ہو گئی۔

مشرف دور حکومت میں ق لیگ کی کچھ خواتین ارکان اسمبلی کی سرگرمیوں نے چودھری شجاعت حسین کو زچ کر دیا تھا اور مشرف سے ان کے اختلافات کی یہ ایک بنیادی وجہ تھی۔ مشرف دور میں کیا کچھ ہوتا رہا؟ مزید تفصیلات کے لئے برطانیہ کی خاتون صحافی کیر ی شوفیلڈ کی کتاب ”ان سائیڈ پاکستان آرمی“ پڑھئے۔ یہ کتاب کسی بھارتی یا یہودی ایجنٹ کا پراپیگنڈہ نہیں بلکہ کیری شوفیلڈ کو یہ کتاب لکھنے کے لئے جی ایچ کیو نے پورا تعاون فراہم کیا اور انہوں نے آئی ایس آئی ہیڈ کوارٹر میں کئی بریفنگز بھی لیں۔ برطانوی صحافی نے لکھا ہے کہ پاکستان آرمی کے ایک افسر میجر جنرل فیصل علوی کو اگست 2005 میں ایک خاتون کے ساتھ مبینہ تعلقات کی وجہ سے جبری طور پر ریٹائر کر دیا گیا۔ بعد ازاں فیصل علوی نے الزام کو جھٹلاتے ہوئے اپنے کچھ سینئرز کے بارے میں ناشائستہ گفتگو کی۔ کچھ عرصے کے بعد میجر جنرل فیصل علوی کو پراسرار انداز میں قتل کر دیا گیا۔ قتل کے الزام میں ایک ریٹائرڈ میجر کو گرفتار کیا گیا جو بعد میں رہا ہو گیا۔ اس کتاب میں قبائلی علاقوں میں پاکستانی فوج کے مختلف آپریشنز کا بھی ذکر ہے جن میں ہمارے کئی افسروں اور جوانوں نے جرا ¿ت و بہادری کا مظاہرہ کیا لیکن میجر جنرل فیصل علوی کے بارے میں تفصیلات پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ یہ افسر انصاف مانگتا مانگتا قتل ہو گیا۔ میڈیا سیاستدانوں اور کرکٹروں کے خلاف برطانیہ اور امریکہ میں شائع ہونے والی کتابوں کے اقتباسات تو شائع کرتا ہے لیکن کیری شوفیلڈ کی کتاب میں فیصل علوی کے بارے میں جو کچھ لکھا گیا ہے اسے نظر انداز کرتا ہے کیونکہ جان سب کو پیاری ہے۔

یہ سب لکھنے کا مقصد یہ قطعاً نہیں کہ میڈیا اس خاتون کی تلاش شروع کر دے جو میجر جنرل فیصل علوی کا کیریئر تباہ کرنے کا باعث بنی۔ مقصد صرف یہ عرض کرنا ہے کہ اگر ڈیوڈ پیٹریاس ایک خاتون سے ناجائز تعلقات کے الزام میں سی آئی اے سے استعفیٰ دے سکتا ہے تو جنرل اسلم بیگ اور جنرل اسد درانی کے خلاف کارروائی کیوں نہیں ہو سکتی؟ دونوںکے خلاف سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا ہے اور صاف لکھا ہے کہ فوج کو بحیثیت ادارہ ان دونوں کے جرائم کا ذمہ دار قرار نہیں دیا جا سکتا۔ مجھے یاد ہے کہ 10 اکتوبر 2006ءکو جیو ٹی وی پر کیپٹل ٹاک میں اسد درانی سے ان کے سیاسی کردار پر میں نے کچھ سخت سوالات کئے تو 21 اکتوبر کو پمرا کے ڈائریکٹر جنرل رانا الطاف مجید نے مجھے ایک شوکاز نوٹس دیا تھا جس میں مجھ پر فوج کے خلاف سازش کا الزام لگایا گیا۔

یہ وہی رانا الطاف مجید تھا جس نے 2007ء میں وکلاءتحریک کو اہمیت دینے والے ٹی وی چینلز کی مقبولیت کم کرنے کے لئے پاکستان میں بھارتی ٹی وی چینلز کھلوا دیئے تھے لیکن موصو ف کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ اب اسد درانی اور اسلم بیگ کے خلاف سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد یہ دونوں صاحبان فوج کی آڑ لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ فیصلہ دو ریٹائرڈ جرنیلوں کے خلاف ہے اور فیصلے میں نواز شریف، الطاف حسین، جاوید ہاشمی اور عابدہ حسین سمیت کئی سیاستدانوں اور کچھ صحافیوں کا بھی ذکر ہے۔ حکومت شفاف تحقیقات کرے گی تو صرف کچھ سیاستدان نہیں بلکہ وہ صحافی بھی بے نقاب ہوں گے جو قومی مفادات کے نام پر خاموشی سے بھاری رقوم ہضم کرتے رہے اور ہم نے جب بھی اصغر خان کیس کا ذکر کیا تو ان بزرگوں نے ہماری ڈانٹ ڈپٹ کی۔ مجھے یقین ہے کہ تحقیقات شروع ہوئیں تو معاملہ صرف 1990ء کے الیکشن تک محدود نہ رہے گا۔ بات نکلے گی تو دور تلک جائے گی 1993، 1997، 2002 اور 2008 کے الیکشن میں کس نے پیسے دیئے اور کس نے لئے سب کچھ سامنے آ جائے گا۔ سچ سامنے آئے گا تو فوج، سیاستدان اور صحافی بدنام نہیں ہوں گے بلکہ کچھ کالی بھیڑیں بے نقاب ہوں گی آج پاکستان کو آگے لے کر جانا ہے تو سب کے بارے میں سچ بولا جائے سچ سے پاکستان کمزور نہیں مضبوط ہوگا۔

جنگ

چنگیز خان کی قبر تووا میں تلاش کی جانی چاہیے

عظیم چنگیز خان کی آخری آرام گاہ ایک عرصے سے تلاش کرنے والوں کے لیے معمہ بنی ہوئی ہے اور اس بارے میں دنیا بھر کے دانشوروں اور تلاش کنندگان میں اختلاف پائے جاتے ہیں۔ منگولوں کا خیال ہے کہ ان کے عظیم جد کی قبر الن باتور کے شمال کے پہاڑی علاقے میں کہیں ہے۔ روایت یہ ہے کہ انہیں برہان ہلدون نام کے پہاڑ پہ دفنایا گیا تھا۔ 1990 کی دہائی میں منگولیا کے اس مقام پر امریکی اور جاپانی مہم جووں نے ان کی قبر تلاش کرنے کی کوششیں کی تھیں۔ انہوں نے ان مہمات پر لاکھوں ڈالر صرف کیے تھے لیکن بے نیل و مرام رہے تھے۔

گزشتہ برسوں میں چینیوں کا یہ دعوٰی رہا ہے کہ چنگیز خان کی قبر منگولیا اور چین کی سرحد کے نزدیک چین کی سرزمین پر التائی پہاڑوں کی تلہٹی میں ہونی چاہیے۔ شہر ہرمچی سے تلاش کے لیے آنے والی مہم کی دلیل یہ ہے کہ یہی وہ مقام تھا جہاں سے چنگیز خان کئی بار تنگوتوں کے ملک سی سیا آئے گئے تھے۔ شمالی چین کی یہ ریاست 1227 میں منگول فوج کا نشانہ بنی تھی۔ تنگوتوں پر چڑھائی کے دوران ہی چنگیزخان کا انتقال ہو گیا تھا۔

چنگیز خان کی قبر ”تووا“ میں تلاش کی جانی چاہیے کیونکہ تاریخی طور پر یہ جگہ ہی اس سپہ سالار کی جائے پیدائش ہے، جہاں قدیم زمانے میں اریانہی یعنی توویائی رہتے تھے۔ یہ تصور تووا کی سٹیٹ یونیورسٹی کے پروفیسر اور تاریخ دان نکولائی ابایو کا ہے، جس سے روس کے بہت سے دوسرے دانشور بھی متفق ہیں۔ معروف روسی منگول شناس ماہر تاریخ ایلینا بوئیکووا سمجھتی ہیں، ”چنگیز خان کی قبر کے معاملے کو وسیع تناظر بخشا جانا چاہیے اور اسے اس کی جائے پیدائش سے منسلک کیا جانا چاہیے جہاں روایات کے مطابق کسی شخص کو دفن کیا جاتا تھا۔ روس کے تاریخ دانوں کی اکثریت کا خیال ہے کہ چنگیز خان کے آباء کا تعلق یا تو سایانو التایا خطے سے تھا جو آج کے تووا کے علاقے میں تھا یا پھر شمال مغربی منگولیا میں جھیل ہبسگل کے نزدیک جہاں توویائی بستے ہیں“۔

ایکلینا بوئیکووا کی رائے سے چینی دانشور بھی اتفاق کرتےہیں اور کہتے ہیں کہ چنگیز خان کی قبر کا چین میں وجود متنازع ہے، جس کے لیے بڑے ثبوت درکار ہیں۔ ایلینا بوئیکووا کہتی ہیں، ”میں سمجھتی ہوں کہ روایت بن جانے والے سپہ سالار کے مدفن کی تلاش بارے چینیوں کو خالص علمی دلچسپی نہیں ہے بلکہ منگول شہنشاہ کی قبر کی تلاش بارے ان کے کچھ سیاسی عزائم ہیں کہ بیجنگ اپنے ہمسایہ ملکوں پہ ثابت کر سکے کہ وہ اس خطے کے بلا شرکت غیرے رہنما رہے ہیں“۔

چنگیزخان کے مدفن بارے روسی ماہرہ کے دعوے کا ایک اور ثبوت بھی ہے۔ ایک معروف روایت کے مطابق جہاں چنگیز خان دفن تھا اس کے ارد گرد قبیلہ اریانہی کے ان ہزاروں جنگجووں کو جنہیں جنگی مقاصد سے علیحدہ کیا جا چکا تھا، حفاظت پہ متعین کیا گیا تھا۔ اریانہی قدیم منگولیا والے توویاؤں کے اجداد کو کہا کرتے تھے۔ بالاخر یہ پہرہ ہٹا دیا گیا تھا، یوں مدفن گم ہو گیا تھا کیونکہ اس زمین پر ہزاروں گھوڑوں کو دوڑایا گیا تھا تاکہ قبر کے نشان کا پتہ نہ چل پائے۔

چنگیز خان کی قبر تووا میں تلاش کی جانی چاہیے

امریکہ کے ساتھ رہنے سے کون انکاری ہے؟

اگرچہ اس بارے میں یقین کرنا دشوار ہے لیکن اپنی ریاستوں کو ریاست ہائے متحدہ امریکہ سے جدا کرنے کے خواہش مندوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ 6 نومبر کو ہوئے صدارتی انتخاب کے بعد وہائٹ ہاؤس کی سائٹ پر ”ہم ۔۔ عوام“ نام کے کالم میں ایسے افراد کی تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ تاہم اس خواہش کو علیحدگی پسندانہ رجحان پہ محمول نہیں کیا جاسکتا۔ ایسے لوگوں کی اکثریت کا خیال یہ ہے کہ اس علیحدگی کا تعلق وفاقی سرکاری پالیسیوں سے جان چھڑانا ہے۔ امریکی واشنگٹن سرکار کو پسند نہیں کرتے۔ یوں ایسے لوگوں کی بڑھتی ہوئی تعداد ماسوائے احتجاج کی ایک اور شکل کے مزید کچھ نہیں ہے۔ ویسے تو لگتا ہے کہ یہ معاملہ مذاق میں شروع ہوا تھا۔

کچھ عرصہ قبل اس نوع کی ریاستوں میں بیس ریاستوں کے نام شامل تھے، جن میں ٹیکساس اور نیویارک جیسی بڑی ریاستوں کے نام بھی ہیں۔ پھر نیو جرسی، نارتھ اور ساؤتھ کیرولینا، الاباما، جارجیا، فلوریڈا اور دیگر ریاستیں بھی اس فہرست مں درج ہیں۔

13 نومبر کو ان میں 8 اور باغی ریاستوں کے نام شامل ہو گئے ہیں جن میں کیلیفورنیا، نیوادا، پینسلوانیا اور اوہائیو بھی ہیں۔ اس طرح کے احتجاج کو سنجیدگی سے نہیں لیا جانا چاہیے، ماسکو سٹیٹ انسٹیٹیوٹ فار انٹرنیشنل ریلیشنز کے پروریکٹر آرتیوم مالگین سمجھتے ہیں، ”انتخابی مہم کے دوران اس طرح کی معلومات کو سیاسی لطیفے کے طور پر لیا جانا چاہیے۔ ایسے لطائف کے اثرات نہیں ہوا کرتے اور بھلا اثر ہو بھی کیا سکتا ہے۔“

مسئیہ تو کچھ اتنا عاقلانہ نہیں ہے تاہم ”وہائٹ ہاؤس“ نے اس کے لیے ایک کالم بنا دیا ہے۔ ”وی دی پیپلٴٴٴٴٴٴ‘ امریکہ کے دستور کے اولیں الفاظ ہیں، یوں امریکہ کے شہریوں کو براہ راست صدر کی انتظامیہ تک رسائی فراہم کی گئی ہے تاکہ سنا جاسکے کہ لوگ کس قسم کی تبدیلیاں چاہتے ہیں۔ باراک اوبامہ نے 2008 کی انتخابی مہم میں وعدہ کیا تھا کہ وہ اپنی انتظامیہ کو بے مثل حد تک قابل رسائی بنائیں گے اور انہوں نے ایسا کر دکھایا۔

ایسی پٹیشن 13 سال سے زیادہ عمر کو کوئی بھی شہری ارسال کر سکتا ہے۔ 150 دستخط پورے ہو جانے کے بعد اسے ”وہائٹ ہاؤس“ کی سائٹ پر چڑھا دیا جاتا ہے۔ جب فہرست میں درج لوگوں کی تعداد پانچ ہزار ہو جائے گی تو وہائٹ ہاؤس کے وعدے کے مطابق، ایسی درخواست رسمی دستاویز کی شکل اختیار کر لے گی جس کا جواب دیا جانا لازمی ہوگا۔

کچھ پٹیشنوں پہ یہ تعداد دس پندرہ ہزار سے زیادہ ہو چکی ہے یعنی مذاق سے شروع ہونے والی بات سنجیدہ شکل اختیار کر چکی ہے۔ اب تک وصول ہونے والی پٹیشنوں میں سے بیشتر گذشتہ ہفتے موصول ہوئی ہیں۔ اب تک کسی کا بھی سرکاری جواب نہیں دیا گیا۔ لگتا ہے کہ وہائٹ ہاؤس طے نہیں کر پا رہا کہ بات کہاں سے شروع کی جائے۔

ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے ساتھ رہنے سے کون انکاری ہے؟

ہیمبرگ میں مسلم تقریبات پر تعطیل

جرمن شہر ہیمبرگ کے میئر اولاف شتولتس نے مسلم برادری کے ساتھ ایک سمجھوتے پر دستخط کئے جس کے تحت کچھ مسلم تقریبات تعطیل قرار دی جائیں گی، جرمن اخبار ”ویلٹ“ نے لکھا۔ مسلم تقریبات کے موقع پر ہیمبرگ میں رہنے والے مسلمانوں کو تین روزہ چھٹی دی جائے گی۔ یہی روایت کچھ عیسائی تقریبات کے لئے موجود ہے۔

مزید برآں مذکورہ سمجھوتے کے مطابق سکولوں میں اسلامی مذہب کے بارے میں تعلیم دینے کی اجازت دی گئی۔ اپنی طرف سے مسلمانوں کو خواتین اور حضرات کے درمیان مساوی حقوق سمیت اہم ترین انسانی حقوق کی حمایت کرنی ہوگی۔

ہیمبرگ کی پارلیمنٹ کو اس سمجھوتے کو منظوری کرنے کی ضرورت ہے۔ واضح رہے کہ ہیمبرگ کی اٹھارہ لاکھ باشندوں میں سے ایک لاکھ اسی ہزار مسلمان ہیں۔

جرمن شہر ہیمبرگ میں مسلم تقریبات تعطیل قرار دی گئیں

بن لادن کے قتل کا منصوبہ ساز سی آئی اے کا سربراہ

بیوی کے ساتھ بے وفائی کرنے کی خبر افشاء ہونے کے بعد سی آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل ڈیوڈ پیٹریوس کے استعفے کے بعد مائیکل موریل کو سی آئی اے کا قائم مقام سربراہ مقرر کیا گیا ہے۔ اس کا پاک امریکہ تعلقات اور خاص طور پر سی آئی اے اور آئی ایس آئی کے مابین تعلقات پر کیا اثر پڑے گا؟

مائیکل موریل کو ”اسامہ بن لادن کو ٹھکانے لگانے والی سی آئی اے کی ٹیم“ کا سربراہ کہا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے پاکستان کی سرزمین پر اسامہ بن لادن کو ٹھکانے لگانے بارے تیاری میں بڑا کردار ادا کیا تھا۔ پس مائیکل موریل کے نئے عہدے پر تعیناتی کو خطے میں اچھا نہیں خیال کیا جائے گا، جغرافیائی سیاسی مسائل بارے اکادمی کے صدر کرنل جنرل لیوند ایواشوو سمجھتے ہیں، ”سی آئی اے کے نئے ڈائریکٹر کی تعیناتی کو مثبت کی بجائے منفی لیا جائے گا۔ پاکستان کے لوگوں اور کلی طور پر خطے کے لوگ اس سے خوش نہیں ہونگے۔ اسامہ بن لادن جو اور جیسا بھی تھا وہ اسلامی دنیا کی بیشتر آبادی کے لیے اہمیت رکھتا تھا اور اس کے قاتل کو وہاں مطعون سمجھا جاتا ہے۔“

اس خطے کے ملکوں اور امریکہ کے تعلقات کی ایک دکھتی رگ پاکستان کے افغانستان کے ساتھ ملحق علاقوں مین ڈرون طیاروں کے ذریعے کیے جانے والے حملے ہیں۔ ان حملوں میں جنگجو طالبان کے علاوہ عام پاکستانی شہریوں کا مارا جانا اب بھی جاری ہے۔ پھر مائیکل موریل کو ڈروں کے ذریعے حملوں کا بہت بڑا حامی خیال کیا جاتا ہے تاکہ پاکستان، افغانستان، یمن اور دیگر ملکوں میں اسلام پسند جنگجووں سے نمٹا جا سکے۔

پاک امریکہ تعلقات میں باہمی اعتماد کی فضا بے حد خراب ہے۔ سی آئی اے اور آئی ایس آئی کے مابین تعاون بھی بحال نہیں ہو پایا ہے۔ اس برس کے ماہ اگست میں پاکستان کی آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ظہیرالاسلام کے دورہ امریکہ کے متوقع نتائج برآمد نہیں ہو سکے تھے۔ پاکستان کے راستے نیٹو کے دستوں کو سامان پہنچائے جانے کا عمل معاہدے پہ دستخط ہو جانے کے باوجود نہ ہونے کے برابر ہے۔ ٹرکوں اور ٹینکروں پہ طالبان جنگجووں کے حملے جاری ہیں۔

سی آئی اے کے نئے سربراہ مائیکل موریل پاکستان میں خاصے جانے پہچانے ہیں، شاید یہی ایک وجہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کو بااعتماد بنانے کے کام آ سکے۔
 

بدھ, نومبر 14, 2012

بھارت کے لئے تمغے جیتنے والی خاتون مرد نکلا

بھارتی فلموں ميں تو ہيرؤئن مرد بن کر کرکٹ ٹيم ميں شامل ہو جاتی ہے اور چوکے چھکے بھی لگا ديتی ہے ليکن گنگا کے ديس ميں سچ مچ يہ بنگالی جادو چل جاتا ہے آج ثابت ہو ہی گيا۔  

نئی دہلی : ایشین گولڈ میڈلسٹ بھارتی خاتون ایتھلیٹ مرد نکلا۔ میڈیکل ٹیسٹ نے بھانڈا پھوڑ دیا۔ ساتھی کھلاڑی سے زيادتی کے الزام پر ملزم کو گرفتار کيا گيا تھا۔

کلکتہ سے تعلق رکھنے والی ايشين گولڈ ميڈليسٹ اتھيليٹ پنکی پرامانک ليکن ٹہريے يہ پنکی نہيں بلکہ پنکا ہے جی ہاں ميڈيکل رپورٹ سے اس کے مرد ہونے کا ثبوت مل گيا۔ عورت بن کر سب کو دھوکا دينے والے ايتھيليٹ نے ميلبورن کامن ويلتھ گيمز میں چاندی، انڈور ايشين گيمز دو ہزار پانچ ميں سونے، ايشين گيمز دو ہزار چھ ميں سونے، جب کہ جنوبی ايشين گیمز دو ہزار چھ میں تين سونے کے تمغے حاصل کیے۔

دو ہزار سات میں کھیلوں سے ریٹائرمنٹ بھی لے لی تھی ليکن ڈھول کا پول کھل ہی جاتا ہے۔ چودہ جون دو ہزار بارہ کو چھبیس سالہ پنکی پر بتیس سالہ خاتون نے جنسی زیادتی کا الزام لگایا جس پر اسے گرفتار کر کے چودہ روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر بھیج دیا گیا۔ تیرہ جولائی کو پنکی کو ضمانت پر رہا کردیا گیا ليکن انکوائری چلتی رہی اور آخرکار ميڈيکل رپورٹ سے اس کا مرد ہونا ثابت ہوگيا۔ پنکی عورت کی حيثيت سے ملنے والے تمام ايوارڈ سے ممکنہ طور پر محروم ہوجائے گی ليکن ابھی تک اس بارے ميں کوئی فيصلہ نہيں ہوا۔ بنگال کی اس جادوگرنی بلکہ جادوگر نے بہت دن تک عوام اور خواص کو بے وقوف بنائے رکھا ليکن بکرے کی ماں کب تک خير منائے گی۔ 

ذیا بیطس سے بچاؤ کا دن آج منایا جا رہا ہے

دنیا بھر میں آج ذیا بیطس سے بچاؤ کا دن منایا جا رہا ہے، ذیا بیطس کے مریض معمولی زخم کی احتیاط نہ کریں تو جسمانی اعضاء سے بھی ہاتھ دھونا پڑتے ہیں۔

راولپنڈی کے رہائشی حاجی نصیر گزشتہ کئی سال سے ذیا بیطس کے مرض میں مبتلا ہیں۔ حاجی نصیر کے پاؤں میں معمولی چھالا نکلا، بروقت علاج نہ کرانے پر زخم اس قدر بگڑ گیا کہ ڈاکٹروں کو ٹانگ کاٹنا پڑی۔ 

پاکستان سمیت دنیا بھر میں ہر انیس منٹ میں ذیا بیطس کا ایک مریض اپنے کسی اعضا سے محروم ہو جاتا ہے۔ طبی ماہرین کہتے ہیں کہ شوگر کے مریضوں کو ننگے پاؤں چلنے، ہیٹر سے پاؤں گرم کرنے، زیادہ گرم پانی سے پاؤں دھونے، تنگ جوتے اور گندی جرابوں کے استعمال سے اجتناب کرنا چاہیے۔ ماہرین کے مطابق شوگر کے مریض اپنے پاؤں کا خود معائنہ کریں، اورمعمولی زخم کا علاج بھی مستند ڈاکٹر سے کرائیں۔

ذیا بیطس سے بچاؤ کا دن آج منایا جا رہا ہے

سماجی رابطوں کے پر خطر اثرات

دو نومبر کو بی بی سی کے پروگرام نیوز نائٹ میں انیس سو اسی کی دہائی کے ایک نمایاں کنزرویٹو سیاستدان پر ایک شخص سے جنسی بدسلوکی کے غلط الزامات عائد کیےگئے۔ اس پروگرام کے نشر ہونے کے فوری بعد اندازوں اور قیافوں کا سلسلہ شروع ہو گیا کہ یہ سیاستدان کون ہوسکتا ہے۔

اس میں سے کچھ بحث ٹوئٹر پر ہو رہی تھی جس پر بعض افراد لارڈ میک الپائن کو نیوز نائٹ کے اس پروگرام سے جوڑ رہے تھے۔ اس ساری بحث کا فوری نتیجہ یہ نکلا کہ لارڈ میک الپائن کا نام ٹوئٹر پر نمایاں ٹرینڈز میں شامل ہو گیا۔ ٹوئٹر پر ٹرینڈ کرنے کے مطلب ہے کہ اس خطے یا پوری دنیا میں بڑی تعداد میں لوگ اسی موضوع پر بیک وقت بات کر رہے ہوتے ہیں۔ میڈیا میں آنے والی رپورٹوں میں سے بعض یہ بتاتی ہیں کہ لارڈ میک الپائن ان ہزاروں افراد میں سے چند افراد کے خلاف ہتک عزت کا دعوی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

اس بارے میں قانون واضع ہے جو یہ کہتا ہے کہ ایک فرد واحد جب کوئی مواد انٹرنیٹ پر آن لائن شائع یا پوسٹ کرتا ہے، چاہے وہ فیس بک ہو یا ٹوئٹر یا پھر نیوز ویب سائٹس کے کمنسٹس والے حصے میں اپنے تاثرات کا اظہار کرتا ہے تو وہ اپنے لکھے کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ اس قانون سے لاعلمی موثر دفاع نہیں ہے۔

جب ایک فردِ واحد انٹرنیٹ پر مواد شائع کرتا ہے یا لکھتا ہے وہ ایک پبلشر یا ناشر کے طور پر عمل کر رہا ہوتا ہے اور ان کی مطبوعہ یا شائع شدہ مواد یا تبصرے اسی طرح قانون کی زد میں آتے ہیں جیسے ایک کاروباری ناشر آتا ہے یا ایک اخبار۔ اس میں ٹویٹ کے ذریعے اشاعت بھی شامل ہے اور ایک ری ٹویٹ اس کی مزید اشاعت کے زمرے میں آتی ہے۔ ری ٹویٹ کا مطلب ہے کسی کی لکھی ہوئی ٹویٹ کو آگے اپنے ساتھیوں یا فالوور کے ساتھ شئیر کرنا۔ جو کسی کی ٹویٹ کو ری ٹویٹ یا آگے بڑھاتا ہے تو وہ بھی ٹویٹ میں موجود مواد کا ذمہ دار بنتا ہے۔ اس میں مسئلہ یہ ہے کہ جس شخص نے اصل ٹویٹ کی ہو وہ ان تمام ری ٹویٹ کرنے والوں کے عمل کا بھی ذمہ دار ٹہرایا جا سکتا ہے۔ اب یہ اصل ٹویٹ کرنے والے شخص کے اختیار میں نہیں ہو سکتا کہ وہ اپنی ٹویٹ کو ری ٹویٹ ہونے سے روک سکے مگر پھر بھی وہ ذمہ دار بن سکتا ہے۔ اس کا دفاع یہ ہرگز نہیں ہو سکتا کہ فرد واحد یہ دعویٰ کرے کہ وہ تو صرف کسی کی کہی ہوئی بات یا ٹویٹ کو ری ٹویٹ کر رہا تھا۔ اس کا دفاع یہ بھی نہیں ہو سکتا کہ کسی نے ایک بات کی تو اسے دہرانا ٹھیک ہے۔ عدالت ہر ٹویٹ کو ہتک عزت کے عمل کے طور پر دیکھے گی اور جتنا وہ ٹویٹ دہرائی جائے گی اتنا ہی اس کا نقصان زیادہ پہنچنے کا امکان ہے اور اتنا ہی زیادہ امکان ہے کہ اس کے نتیجے میں لوگ ہتک عزت کے دعوے کرنے پر مائل ہوں۔ اسی طرح یہ بات اہم ہے کہ جب آپ کو الزام ثابت کرنا پڑتا ہے تو اس میں یہ کافی نہیں ہوگا کہ کسی کی بات صحیح طریقے سے نہیں کی گئی بلکہ شائع کرنے والے ناشر کو اس الزام میں موجود حقیقت کو بھی ثابت کرنا پڑتا ہے۔

اس کی مثال یو ں ہے کہ فرض کریں کہ اگر میں ایک فرد واحد اپنے افسر پر ایک الزام عائد کرتا ہوں جسے میرے ایک دوست نے ری ٹویٹ کیا ہے۔ میرے اس دوست کو اس الزام کو ثابت کرنے کے قابل ہونا چاہیے اور صرف یہ کہنا کافی نہیں ہوگا کہ میں نے یہ بات کی ہے جس کی بنا پر اس نے ری ٹویٹ کیا۔ اگرچہ عدالتوں نے ماضی میں دیے گئے فیصلوں میں یہ واضع کیا ہے کہ وہ ایک ملزم سے توقع کرتے ہیں کہ وہ اپنے دفاع کو کامیاب کرنے کے لیے یہ ثابت کر سکیں کہ وہ ذمہ دارانہ صحافت کے اصولوں کے مطابق کام کرتے رہے ہیں۔ اس میں کہانی کی حقیقت کا پتہ کرنا اور تصدیق کرنا اور اس کے موضوع کو اپنا موقف بیان کرنے کا موقع دینا شامل ہیں۔ ٹوئٹر پر موجود ایک ٹویٹ کو ری ٹویٹ کرنے کے بعد معذرت بھی درست نہیں سمجھی جائے گی۔

ان مقدمات میں لوگ کثیر رقوم ہتک عزت کے دعوؤں کی صورت میں مانگ سکتے ہیں۔ یہ اس بات پر منحصر ہے کہ شائع ہونے والا مواد کیسا ہے اور اس کے اثرات کس قسم کے ہو سکتے ہیں جن میں ایک فوری معذرت بھی شامل ہو سکتی ہے۔ اگر لارڈ میک الپائن ان حالیہ ٹویٹس کے نتیجے میں مقدمہ کرتے ہیں تو یہ مقدمہ ان کثیر تعداد میں کیےگئے مقدمات میں شامل ہو گا جو کہ فرد واحد کے سوشل میڈیا کے استعمال کے نتیجے میں سامنے آر ہے ہیں۔

برطانیہ میں سوشل میڈیا کے نتیجے میں ہتک عزت کے دعوے کا سب سے پہلا مقدمہ نیوزی لینڈ کے کرکٹر کرس کینز نے کیا جس کے نتیجے میں انہیں ہرجانے کے طور پر نوے ہزار پاؤنڈ ادا کرنے کا حکم دیا۔ ہندوستانی پریمئر لیگ کے سابق سربراہ لیلت مودی نے ٹوئٹر پر کرس کینز کے خلاف میچ فکسنگ کا غلط الزام عائد کیا تھا۔ اس مقدمے کا فیصلے دیتے ہوئے لارڈ چیف جسٹس نے کہا تھا کہ جدید ٹیکنالوجی اور مواصلاتی ذرائع کے نیتجے میں اب پہلے کی نسبت یہ زیادہ ممکن ہے کہ ایک بات یا خبر زیادہ دور تک اور تیزی سے پھیل سکتی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ سماجی رابطے کی ویب سائٹس کے نیتجے میں پیدا ہونے والے اثرات پہلے کی نسبت بہت زیادہ دور رس اور لامحدود ہو گئے ہیں۔ جو پیغام ہمیں عدالتوں سے واضع اور زور شور سے مل رہا ہے وہ یہ ہے کہ اب آپ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس ٹوئٹر اور فیس بک پر لکھی گئی باتوں کو ایک مجلس میں کی گئی عام گپ شپ کے طور پر نہیں لے سکتے۔

سماجی رابطوں کے پر خطر اثرات

نوواک جوکووچ کی راجر فیڈرر کو شکست

لندن: اے ٹی پی ورلڈ ٹور فائنلز ٹینس مقابلوں کے فائنل میچ میں سربیا کے نوواک جوکووچ نے سوئٹزر لینڈ کے راجر فیڈرر کو شکست دے دی۔

پچیس سال کے سربین کھلاڑی نوواک جوکووچ نے سابق عالمی چیمپین راجر فیڈرر کو شکست دے کر اپنے عالمی نمبر ایک ہونے کے اعزاز کا دفاع کیا، جوکووچ نے2 گھنٹے اور 14 منٹ جاری رہنے والے اس مقابلے میں اپنے حریف کو 6-7 اور 5-7 سے شکست دی۔

جوکووچ اب 11420 پوائنٹس کے ساتھ عالمی ٹینس رینکنگ میں پہلی پوزیشن پر ہیں، سوئس سٹار روجر فیڈرر دوسری جبکہ برطانیہ کے اینڈی مرے تیسری پوزیشن پر براجمان ہیں۔

میچ ڈرا؛ پروٹیز کینگروز کے شکنجے سے بچ نکلے

برسبین: برسبین ٹیسٹ میں پروٹیز کینگروز کے شکنجے سے بچ نکلے، تین ٹیسٹ میچز کی سیریز کا پہلا مقابلہ ڈرا ہوگیا۔

دوسری باری میں جنوبی افریقہ نے 5 وکٹوں پر 166 رنز بنائے، دونوں کپتانوں نے 11 اوورز قبل ہی میچ ختم کرنے پر رضامندی ظاہر کی۔ اس سے قبل میزبان نے اپنی پہلی اننگز 5 وکٹوں پر 565 رنز پر ڈیکلیئرڈ کی، مین آف دی میچ کلارک 259 رنز پر ناقابل شکست رہے، مائیکل ہسی نے بھی سنچری مکمل کرلی۔ تفصیلات کے مطابق برسبین میں میزبان سائیڈ نے ناممکن کامیابی کے حصول کی کوشش تو کی مگر پروٹیز مشکل سے دوچار ہونے کے باوجود ان کے قابو میں نہیں آئے، پہلی اننگز میں 115 رنز کے خسارے سے دوچار ہونے والی مہمان ٹیم نے دوسری باری میں 5 وکٹ پر 166 رنز بنائے۔

درحقیقت ان کا یہ سکور 6 وکٹ تھا کیونکہ انھیں انجرڈ بیٹسمین پال ڈومنی کی خدمات ہی حاصل نہیں تھیں، چائے کے وقفے سے قبل ہی الویرو پیٹرسن (5)، گریم سمتھ (23) اور ہاشم آملا (38) آئوٹ ہوگئے تاہم جیک کیلس اورابراہم ڈی ویلیئرز نے کینگرو اٹیک کی راہ میں حائل ہوتے ہوئے میچ کو ڈرا کی جانب لے جانا شروع کیا، ففٹی سے صرف ایک رن کی کمی پر کیلس کا کلارک نے سلپ میں ایک ہاتھ سے شاندار کیچ لیا، کامیاب بولر آف اسپنر ناتھن لیون تھے، کھاتہ کھولنے سے قبل جیک رڈولف کے خلاف سڈل نے ایل بی ڈبلیو کی زوردار اپیل کی مگر امپائر بلی بائوڈن کے کان پر جوں تک نہیں رینگی، رڈولف آخر کار 11 رنز پر لیون کی گیند پر ایل بی ڈبلیو ہوئے۔

اختتام میں گیارہ اوور باقی تھے کہ دونوں کپتان میچ کو ختم کرنے پر راضی ہوگئے۔ اس سے قبل آسٹریلیا نے اپنی اننگز 5 وکٹ 565 پر ڈیکلیئرڈ کی، کلارک پروٹیز کے قابو میں نہیں آئے، انھوں نے 259 رنز بنائے جبکہ ہسی 100 رنز پر مورکل کا شکار بنے کیچ متبادل ڈوپلیسس نے تھاما۔

برسبین ٹیسٹ ڈرا؛ پروٹیز کینگروز کے شکنجے سے بچ نکلے

ون ڈے رینکنگ؛ سعید اجمل پہلے نمبر پر

دبئی: انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) نے نئی ون ڈے رینکنگ جاری کردی جس کے مطابق بولنگ میں سعید اجمل پہلی پوزیشن پر براجمان ہیں۔

آئی سی سی کی نئی رینکنگ کے مطابق بولنگ میں محمد حفیظ دوسری، ٹیسوبے تیسری، بھارت کے اشون چوتھی جبکہ جنوبی افریقہ کے مورنے مورکل پانچویں پوزیشن پر ہیں۔

جنوبی افریقہ کے ہاشم آملہ ون ڈے بیٹنگ رینکنگ میں پہلے، بھارت کے ویرات کوہلی دوسرے، جنوبی افریقہ کے ہی اے بی ڈیویلیرز تیسرے، انگلینڈ کے جوناتھن ٹراٹ چوتھے جب کہ سری لنکا کے کمار سنگاکارا پانچویں پوزیشن پر ہیں۔

نئی ون ڈے رینکنگ کے مطابق ٹاپ 10 بیٹسمینوں میں پاکستان کا کوئی بھی کھلاڑی شامل نہیں تاہم پاکستان کے وکٹ کیپر اور بیٹسمین کامران اکمل 14 ویں پوزیشن پر ہیں۔
آئی سی سی ون ڈے رینکنگ؛ سعید اجمل پہلے نمبر پر

بھارت: ٹيبلٹ کمپيوٹر محض بيس ڈالر ميں

بھارت ميں آکاش نامی انتہائی کم قيمت والے ٹيبلٹ کمپيوٹر کا ايک نيا ورژن متعارف کروا ديا گيا ہے، جس ميں پچھلے ورژن کے مقابلے ميں زيادہ تيز پروسيسر اور زيادہ ديرپا بيٹری نصب ہے۔

خبر رساں ادارے اے ايف پی کے مطابق دنيا ميں سب سے کم قيمت ٹيبلٹ کمپيوٹر مانے جانے والے ’آکاش ٹو‘ کو نجی و سرکاری کمپنيوں کے اشتراک سے بھارت ميں طلباء کے ليے صرف بيس ڈالر کے برابر مقامی کرنسی ميں فروخت کيا جائے گا۔ اگرچہ اس کمپيوٹر کی اصل قيمت چونسٹھ ڈالر يا مقامی کرنسی ميں ساڑھے تين ہزار روپے کے قريب ہے تاہم ملک ميں انجينئرنگ کے طالب علموں کے ليے قريب ايک لاکھ کمپيوٹرز کو صرف 1130 بھارتی روپے ميں دستياب بنايا جائے گا۔ آکاش ٹو کو بھارت کی يونيورسٹيوں ميں قائم بُک سٹورز پر فروخت کيا جائے گا۔

بھارت ميں آکاش ٹو کی افتتاحی تقريب ميں ملکی صدر پرنب مکھرجی کا کہنا تھا کہ ٹيکنالوجی کی مدد سے سکھانا تعليمی مرحلے کا ايک انتہائی اہم حصہ ہے۔

نيوز ايجنسی اے ايف پی کے مطابق آکاش ٹو بھارت ميں انفارميشن ٹيکنالوجی کی چوٹی کی يونيورسٹيوں ميں تعليم حاصل کرنے والے ملکی انجينئرز نے بنايا ہے۔ البتہ کمپيوٹر کی پيداوار ’ڈيٹا ونڈ‘ نامی ایک برطانوی کمپنی کے سپرد کی گئی ہے۔

اس کمپيوٹر کی سکرين کا سائز سات انچ ہے اور اس ميں گوگل آپريٹنگ سسٹم Android 4.0 کا استعمال کيا گيا ہے۔ آکاش ٹو کی بيٹری کا دورانيہ قريب تين گھنٹے بتايا جا رہا ہے جبکہ اس کے پروسيسر کی اسپيڈ پچھلے ورژن کے مقابلے ميں تين گنا زيادہ ہے۔

واضح رہے کہ بھارت ميں آکاش ٹو کا پچھلا ورژن يعنی آکاش گزشتہ سال اکتوبر ميں متعارف کروايا گيا تھا ليکن اس ٹيبلٹ کمپيوٹر کے حوالے سے چند تکنيکی مسائل سامنے آئے تھے اور اس کی ڈسٹری بيوشن ميں بھی دشواری پيش آئی تھی۔

بھارت ميں ہيومن ريسورس ڈيویلپمنٹ منسٹری کے مطابق ملک بھر کے قريب دو سو پچاس کالجوں ميں پندرہ سو سے زائد اساتذہ کو آکاش کے استعمال کے حوالے سے تربيت فراہم کی جا چکی ہے تاکہ وہ تعليم کے فروغ کے ليے اس کمپيوٹر کو استعمال کر سکيں۔

انٹرنيٹ اينڈ موبائل ايسوسی ايشن آف انڈيا کے مطابق بھارت ميں انٹرنيٹ استعمال کرنے والوں کی کل تعداد ايک سو پندرہ ملين کے لگ بھگ ہے۔ اس طرح انٹرنيٹ صارفین کی تعداد کے لحاظ سے چين اور امريکا کے بعد بھارت دنيا کا تيسرا بڑا ملک ہے۔

بھارت: ٹيبلٹ کمپيوٹر محض بيس ڈالر ميں

جلد پر داغ دھبے سرطان کی علامت ہو سکتے ہیں

جلد پر پائے جانے والے لیور سپاٹس کو ’سولر لنٹگو‘ یا شمسی چھائیاں بھی کہا جاتا ہے۔ انہیں محض زیبائشی تناظر میں نہیں دیکھا جانا چاہیے اور نہ ہی ان کا تعلق محض بڑھتی ہوئی عمر سے ہوتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جسم کے کسی بھی حصے پر بننے والے یہ دھبے یا چھائیاں جلد کے سرطان کی علامت بھی ہو سکتے ہیں۔

عموماً یہ سمجھا جاتا ہے کہ ڈھلتی عمر کے ساتھ چہرے، ہاتھوں یا بازوؤں پر بننے والے سیاہ یا گہرے رنگ کے دھبوں کی وجہ ان اعضاء پر پڑنے والی مسلسل دھوپ ہوتی ہے۔ مزید یہ کہ جیسے جیسے انسان کی عمر بڑھتی ہے، یہ دھبے بھی پڑنا شروع ہوجاتے ہیں، جو نقصان دہ نہیں ہوتے تاہم حُسن یا زیبائی کو متاثر کرتے ہیں۔

تاہم امراض جلد کی جرمن ماہر پروفیسر کرسٹیانے بائیرل کا کہنا ہے کہ ان دھبوں یا چھائیوں کا فوری معائنہ بہت ضروری ہوتا ہے کیونکہ اکثر یہ سرطان کی علامت ہوتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ یہ دھبے محض معمر افراد ہی کی جلد پر نہیں بنتے بلکہ 40 سال کی عمر سے ہی ایسے داغ دھبے نمایاں ہونا شروع ہو سکتے ہیں۔

جرمن ماہر کا کہنا ہے کہ اس بیماری کا متعدد طریقوں سے علاج ممکن ہے تاہم اس میں سب سے اہم امر یہ ہے کہ ان دھبوں کا رنگ کیسا ہے۔ پروفیسر کرسٹیانے بائیرل نے کہا، ’جلد کے سرطان کی اس قسم کا اکثر و بیشتر غلط اندازہ لگایا جاتا ہے۔ اس لیے سب سے ضروری عمل یہ ہے کہ جسم کے جس بھی حصے پر یہ چھائیاں نظر آنا شروع ہوں، اُس جگہ کی جلد کا مفصل معائنہ کروایا جائے۔ محض بائیوپسی وغیرہ کے ذریعے ہی یہ پتہ چلایا جا سکتا ہے کہ آیا دھبے والی اس جلد کے اندر کوئی ضرر رساں خلیہ موجود ہے یا نہیں۔

چہرے کی جلد پر پڑنے والے دھبے یا چھائیاں چھپانے کے لیے کوسمیٹکس یا کریم اور لوشن وغیرہ دستیاب ہیں۔ کاسمیٹکس کی ماہر ایک جرمن خاتون Renate Donath کا کہنا ہے کہ معدنیات سے بھرپور فاؤنڈیشن اکثر چہرے کے دھبے یا چھائیاں چھپانے کے لیے کافی ہوتی ہے۔

گہرے دھبوں کو سفید مائل بنانے والی کریم فارمیسیز میں دستیاب ہیں تاہم ان کا استعمال زیادہ سے زیادہ دو ماہ تک کیا جانا چاہیے کیونکہ اس سے زیادہ عرصے تک اس کریم کا استعمال جلد کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بعض کیسز میںalpha hydroxy acid سے تیار کردہ چھلکے یا جھلی نما پیلنگ کو چہرے پر لگا کر دھبے غیر نمایاں بنائے جاسکتے ہیں اور یہ جلد کے لیے بے ضرر ہوتے ہیں۔
 
جرمن ماہر امراض جلد Uta Schlossberger کا کہنا ہے کہ ’پیلنگ‘ کا غلط استعمال اور پھر اس عمل کے فوراً بعد دھوپ میں نکلنا جلد میں مختلف طرح کی انفکشنز اور داغ دھبوں کا سبب بن سکتا ہے کیونکہ’پیلنگ‘ کے بعد جلد نہایت حساس ہوجاتی ہے۔ جب پگمنٹ یا نباتاتی خلیے کا رنگ دار مادہ جلد میں سرایت کر جائے، تب اس کا علاج محض لیزر کی مدد سے ہی ممکن ہوتا ہے۔

Uta Schlossberger کے مطابق ’لیزر تھراپی نباتاتی خلیے کے رنگ دار مادے کے ذخائر کو توڑ کر اُسے ریزہ ریزہ کردیتی ہےاور یہ ذرے جسم سے خارج ہوجاتے ہیں۔ یہ ایک سادہ سا طریقہ علاج ہے تاہم ضرر رساں پگمنٹ یا نباتاتی خلیے کے رنگ دار مادے کی تشخیص کے بعد لیزر تھیراپی نہیں کرنی چاہیے، یہ اس رنگ دار ضرر رساں مادے کو جسم کے مختلف حصوں میں پھیلانے کا عمل شروع کر دیتی ہے‘۔

جلد پر داغ دھبے سرطان کی علامت ہو سکتے ہیں

خون کی کمی: ننھی کلی مرجھانے کا خطرہ

تھیلیسیمیا کی مریض 8 سالہ عفیفہ بہت خاص بچی ہے۔ اس کے خون کا گروپ hh ہے جو بہت نایاب ہے۔ ہر مہینے اس کو دو بوتل خون کی ضرورت ہوتی ہے۔ پوری دنیا میں ہر دس لاکھ میں سے صرف چار ایسے لوگ ہوں گے جن کا بلڈ گروپ hh ہوگا۔ خون فراہم کرنے والے ادارے کہتے ہیں پورے پاکستان میں اب تک محض 14 لوگ خون کے اس گروپ کے ساتھ دریافت ہوپائے ہیں اور کراچی میں تو صرف سات ہی لوگ hh گروپ کا خون رکھتے ہیں۔ ایسے لوگ کسی کو بھی اپنے خون کا عطیہ دے سکتے ہیں لیکن پھر ان کے اپنے لیے خون کا عطیہ کوئی نہیں دے سکتا۔ ان کا خون صرف اپنے ہی گروپ والے خون کو قبول کرتا ہے۔ ایسے میں سوچئے اگر کسی کو خون کی ضرورت ہو تو کیا کرے ۔

عفیفہ کی دوسری خاص بات یہ ہے کہ اس کو خون کی بہت ضرورت پڑتی ہے۔ یہ ننھی سی بچی پچھلے چار سال سے تھیلیسیمیا کی مریض ہے اور اس کو ہر مہینے دو بوتل خون کی ضرورت پڑتی ہے۔ اب اتنے نایاب خون کی دو بوتلیں ہر مہینے حاصل کرنا عفیفہ کے والدین کے لئے جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔

کچھ عرصے پہلے تک تو صرف دو ہی ایسے نیک لوگ تھے جو عفیفہ کے لئے خون دیا کرتے تھے اور اب بھی یہ عطیہ دینے والوں کی تعداد صرف تین ہوپائی ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ ان میں سے کوئی بھی عطیہ دینے والا اپنے خون کے پیسے نہیں لیتا بلکہ دو لوگ تو عفیفہ کو خون دینے کے لئے امریکہ اور دبئی سے اپنے خرچے پر خاص طور پر پاکستان آتے ہیں۔
 
عفیفہ بڑے ہو کر ڈاکٹر بننے کا خواب دیکھ رہی ہے
پاکستان میں عموماّّ یہ معلوم بھی نہیں ہوتا کہ کس کے خون کا گروپ کیا ہے جب تک کسی کو خون کی ضرورت خود نہ پڑ جائے۔ یورپی ممالک میں بھی، جہاں یہ معلومات پیدائش کے وقت ہی دستاویزات میں محفوظ کر لی جاتی ہیں hh گروپ کے خون والے لوگ بہت کم ہیں۔ دستیاب اعداد و شمار کے مطابق وہاں ہر دس لاکھ میں صرف ایک شخص ایسا ہوگا جو خون کے اس نایاب گروپ سے تعلق رکھتا ہوگا۔ بھارت اور خاص طور پر ممبئی میں جہاں یہ گروپ اب سے پچاس سال پہلے سب سے پہلے دریافت ہوا تھا دس لاکھ میں سے سو افراد ایسے مل سکتے ہیں جو ایسا گروپ والا خون رکھتے ہوں۔

مگر ڈاکٹر کہتے ہیں کہ اگر عفیفہ کا تھیلیسیمیا کا علاج ہوجائے تو ایسا خون رکھنا از خود کوئی بیماری نہیں۔ اب تک صرف ایک ہی راستہ نظر آیا ہے اور وہ بھی خاصہ مشکل۔ عفیفہ کی والدہ کی ہڈیوں کا گودا اگر عفیفہ کو مل سکے تو اس bone marrow transplant operation کے ذریعے عفیفہ کا تھیلیسیمیا ختم ہوسکتا ہے۔ مگر یہ آپریشن نہ صرف مہنگا ہوگا بلکہ خطرناک بھی۔ اس میں عفیفہ کی جان بھی جاسکتی ہے۔
 
 عفیفہ بڑے ہوکر ڈاکٹر بننا چاہتی ہے۔ لیکن ڈاکٹر کہتے ہیں کہ یہ مشکل ہوگا۔ جب تک عفیفہ کے لئے خون دینے والے اتنی بڑی تعداد میں جمع نہ ہوجائیں کہ ہر مہینے اس کو دو بوتل خون مل سکے یا پھر کسی طور اس کے تھیلیسیمیا کا علاج ہوسکے یہ ایک بہت مشکل کام ہوگا۔ عفیفہ کوالبتہ ابھی بھی امید ہے، دنیا میں اس کے خون کا گروپ نایاب صحیح، نیکی ابھی بھی نایاب نہیں ہوئی ہے۔

خون کی کمی اور نایاب بلڈ گروپ: ننھی کلی کے مرجھانے کا خطرہ