منگل, اگست 28, 2012

پاکستان آسٹريليا کرکٹ: پہلا ون ڈے آج کھيلا جائے گا

شارجہ میں ايک اورميدان سج گيا ہے، پاکستان اور آسٹريليا کے درميان پہلا ون ڈے آج شارجہ کے تاريخي ميدان پر کھيلا جائے گا۔ یہ میچ پاکستان کے وقت کے مطابق شام 7 (14:00 GMT) بجے شروع ہوگا۔

پاکستان نے آسٹريليا کے خلاف آخري سيريز 2002ء ميں جيتي تھي اب ديکھنا ہے کہ پاکستان کا انتظار ختم ہوتا ہے يا آسٹريلوي ٹيم کي کاميابيوں ميں مزيد اضافہ ہوگا۔ اعداد و شمار کے مطابق تو آسٹريليا آگے ہے، ليکن شارجہ کي کنڈيشنز پاکستان کے لئے نئي نہيں ہيں تاہم آسٹريلوي ٹيم کے لئے مشکل ضرور ہيں ليکن اس پر بھي کوئي دباؤ نہيں۔ دونوں ٹيميں شارجہ کرکٹ گراؤنڈ ميں پہلے ميچ کي تياريوں ميں مصروف ہيں اور شائقين کو ايک دلچسپ ميچ کي توقع ہے۔

پاکستان میں انتہا پسندی اور وہابی نظریات

پاکستان میں بہت سے لوگ طالبان اور ان کی پر تشدد کارروائیوں کی مخالفت کرتے ہیں تاہم عجیب بات یہ ہے کہ وہ سعودی عرب کے اُس وہابی نظریے کو چیلنج نہیں کرتے، جو شدت پسندی کو اساس فراہم کرتا ہے۔

ایسا ہرگز مشکل نہیں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ایسے لوگ نہ ملیں جو طالبان اور ان کی طرف سے کیے جانے والے خود کش حملوں کو ناپسند نہ کرتے ہوں لیکن تضاد یہ ہے کہ اس کے باوجود وہ سعودی عرب میں موجود وہابی فرقے کی طرف سے پھیلائے جانے والے ان نظریات کی مخالفت نہیں کرتے، جو ریاستی سطح پر پاکستان میں سرایت کرتے جارہے ہیں۔

پاکستان میں اگر کوئی سعودی عرب کی کسی پالیسی پر تنقید کرتا ہے تو اسلام اور اسلامی روایات کی وجہ سے عوام کی ایک بڑی تعداد اسے اسلام پر تنقید کے مترادف سمجھتی ہے۔ اگرچہ پاکستان نے ابتداء میں سعودی عرب اور ایران دونوں کے ساتھ ہی قریبی تعلقات قائم کیے تاہم 1979ء میں ایران میں انقلاب کے بعد پاکستانی حکومت کا جھکاؤ سعودی عرب کی طرف ہوگیا۔

پاکستان اور سعودی عرب کے مابین تعلقات اس وقت مزید قریبی اور مضبوط ہوگئے جب افغانستان کی جنگ شروع ہوئی۔ 80 کی دہائی میں سابقہ سوویت یونین کے خلاف لڑی جانے والی اس جنگ میں ان دونوں ممالک نے مجاہدین کی مدد کے لیے امریکا کے ساتھ بھی اپنے رابطوں میں اضافہ کردیا۔ افغان جنگ تو ختم ہوگئی لیکن پاکستان کا سعودی عرب اور وہاں پائی جانے والی وہابی تحریک کی طرف جھکاؤ ختم نہ ہوا۔

انتہا پسندی کی جڑیں

پاکستان کے سابق وزیر قانون اقبال حیدر نے ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کے دوران بتایا کہ پاکستان میں جہادی اور دہشت گرد تنظیموں کی زیادہ تر تعداد وہابی نظریات کی ماننے والی ہے، ’’چاہے وہ طالبان ہوں یا لشکر طیبہ، اس میں رتی برابر بھی شک نہیں کہ وہ سعودی وہابی نظریات کے ماننے والے ہیں‘‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان تنظیموں کو پاکستانی فوج اور خفیہ اداروں کی پشت پناہی حاصل ہے۔

مقتول پاکستانی وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے دور میں وزیر قانون کے عہدے پر فائز رہنے والے اقبال حیدر پاکستان میں انتہا پسندی کے بیج بونے کے حوالے سے سابق فوجی حکمران جنرل ضیاء الحق پر الزام عائد کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ 80 کی دہائی میں جنرل ضیاء نے وہابی گروپوں کی مدد کو ریاستی پالیسی بنا لیا تھا۔

اقبال حیدر یہ بھی کہتے ہیں کہ ضیاء الحق نے ملک کے اندر اقلیتی گروپوں بالخصوص شیعہ کمیونٹی کے خلاف کام کرنے والی تنظیموں کی مدد کی۔ حیدر کے مطابق شیعہ کمیونٹی کو بالخصوص اس لیے نشانہ بنایا گیا کیونکہ وہ اپنے مذہبی نظریات کی وجہ سے ایران کے ساتھ ہمددری رکھتی تھی۔

دوسری طرف پاکستانی مؤرخ ڈاکٹر مبارک علی کے مطابق برصغیر پاک و ہند میں وہابی نظریات کا اثر اتنا ہی پرانا ہے، جتنا کہ وہابی ازم۔ ڈاکٹر مبارک علی دیوبندی تعلیمات کو وہابی ازم کا ایک مظہر قرار دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں وہابی نظریات کو ریاستی سطح پر دیگر نظریات کے مقابلے میں ترجیح دی گئی ہے۔ مبارک علی کے بقول یہ ایک عجیب بات محسوس ہوتی ہے کیونکہ پاکستان میں وہابی ازم ایک اقلیتی سنی فرقہ ہے۔

معروف مؤرخ ڈاکٹر مبارک علی کہتے ہیں کہ وہابی نظریات نے نہ صرف پاکستانی معاشرے کی بنیادی ساخت کو متاثر کیا بلکہ انہوں نے اس علاقے کی کثیر الجہتی تہذیب کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔ ان کے بقول وہابی نظریات کے حامی کثیرالثقافتی رویوں کے مخالف ہیں، ’’وہ مقدس مقامات، میوزک فیسٹیولز اور دیگر تہذیبی مراکز کو نشانہ بناتے ہیں، کیونکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ اسلام کے خلاف ہیں۔‘‘ مبارک علی کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہابی ازم میں چونکہ عرب روایات کا پرچار کیا جاتا ہے، اس لیے یہ ایک غیر محسوس طریقے سے بہت سے پاکستانیوں کی نفسیات کا حصہ بن گیا ہے۔ ’’لوگ اب سعودی عرب کی تقلید کی کوشش میں ’خدا حافظ‘ کے لیے ’اللہ حافظ‘ کے الفاظ استعمال کرتے ہیں اور ’رمضان‘ کو ’رمادان‘ کہتے ہیں۔

سعودی امریکی اتحاد

مغربی ممالک پاکستان کے خفیہ اداروں بالخصوص آئی ایس آئی پر الزام عائد کرتے ہیں کہ ان میں ایسے عناصر موجود ہیں، جو طالبان کی پشت پناہی کرتے ہیں۔ امریکا کا بھی کہنا ہے کہ افغانستان کے ساتھ سرحد سے ملحقہ پاکستانی قبائلی علاقوں میں جنگجوؤں کے ’محفوظ ٹھکانے‘ موجود ہیں اور پاکستان ان جنگجوؤں کے خلاف مناسب کارروائی سے گریزاں ہے۔ لیکن اقبال حیدر کہتے ہیں کہ مغربی ممالک کے ایسے مطالبات میں ایک تضاد ہے۔ ان کے بقول پاکستان کو تو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے تاہم سعودی عرب کو کچھ نہیں کہا جاتا، جو پاکستان میں سرگرم وہابی جنگجوؤں کو سب سے زیادہ مالی مدد فراہم کرتا ہے۔

سعودی عرب مشرق وسطیٰ میں امریکا کا سب سے بڑا اتحادی ہے۔ ریاض حکومت ہی امریکا اور پاکستان کے مابین ثالثی کا کردار بھی ادا کرتی ہے۔ اقبال حیدر کہتے ہیں کہ ایرانی انقلاب سے قبل جو کردار تہران ادا کرتا تھا، وہ اب ریاض کے پاس چلا گیا ہے۔ وہ پاکستان میں شیعہ اقلیت کے قتل کے واقعات کے لیے بھی پاکستانی حکومت کو قصور وار قرار دیتے ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے حیدر نے مزید کہا کہ پاکستانی ریاست اپنے اسٹریٹیجک مفادات اور جغرافیائی سیاست میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے دیگر نظریات کے مقابلے میں ’وہابی ازم کی اجارہ داری‘ چاہتی ہے۔

پاکستان میں انتہا پسندی اور وہابی نظریات

روسی صدر کا اکتوبر میں مجوزہ دورہ پاکستان

روسی صدر ولادیمیر پوٹن دو اکتوبر کو ایک سرکاری دورے پر پاکستان جائیں گے۔ کسی روسی صدر کا پاکستان کا یہ پہلا دورہ ہوگا۔ پاکستان میں خارجہ، داخلہ، پیداوار اور دفاع سمیت کئی وزارتوں کے حکام نے روسی صدر کے دورے کی تیاریاں شروع کردی ہیں۔ پاک فضائیہ کے سربراہ بھی حال ہی میں روس کا دورہ کرکے آئے ہیں۔ اس سے پہلے پاکستانی صدر بھی اپنے روسی ہم منصب سے کئی ملاقاتیں کرچکے ہیں۔ روس پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے پر بھی پاکستان کی مدد کرنے کی خواہش کا اظہار کرچکا ہے۔ کئی پاکستانی دانشور روس کو گوادر میں کردار آفر کرنے کی بات بھی کررہے ہیں۔ مبصرین پاکستان اور روس کے مابین تعلقات کے فروغ کی نئی کوششوں کو پاک امریکی تعلقات میں بگاڑ کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔

محمد حفیظ ایک روزہ میچوں کے سرفہرست باؤلر

پاکستانی کرکٹر محمد حفیظ ایک روزہ بین الاقوامی میچوں کے باؤلروں کی عالمی فہرست میں اول پوزیشن حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔

پیر کو کرکٹ کی عالمی تنظیم آئی سی سی کی طرف سے جاری کردہ تازہ ترین فہرست میں محمد حفیظ 727 پوائنٹس کے ساتھ سر فہرست ہیں۔ اس سے قبل یہ اعزاز جنوبی افریقہ کے باؤلر ساٹ سوبے کے پاس تھا جو اب فہرست میں دوسرے درجے پر آگئے ہیں۔

پاکستان ہی کے سعید اجمل 696 پوائنٹس کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہیں۔

ایک روزہ بین الاقوامی میچوں میں بیٹنگ کے شعبے میں کوئی بھی پاکستانی کھلاڑی پہلے دس درجوں میں جگہ نہیں بنا سکا۔

جنوبی افریقہ کے ہاشم آملہ پہلے اور اے بی ڈی ویلیئرز تیسرے نمبر پر ہیں جب کہ بھارت کے ویرات کوہلی دوسری پوزیشن حاصل کرسکے ہیں۔

محمد حفیظ ایک روزہ میچوں کے سرفہرست باؤلر

پیر, اگست 27, 2012

انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کی ٹیسٹ، ایک روزہ اور ٹی 20 ٹیم رینکگ


دہر ميں اسم محمد سے اجالا کر دے...

قصہ مختصر…عظيم سرور

رمضان کا مبارک مہينہ اس سال بہت سي حسين ياديں چھوڑ کر رخصت ہو گيا۔ ان يادوں ميں بہت اچھے ٹي وي پروگراموں کي ياديں بھي ہيں جو جيو ٹي وي پر پيش کيے گئے۔ ان پروگراموں ميں ايک سادہ سا پروگرام وہ تھا جس نے ميرے دل اور ذہن ميں بہت سے چراغ روشن کرديئے۔ يہ پروگرام اسم محمد کے رنگوں سے سجا ہوا تھا۔ اس پروگرام کو ديکھتے ہوئے مجھے ہر بار احساس ہوا کہ اس ميں قرآن پاک ميں اللہ تعالٰي کے فرمان ”ورفعنا لک ذکرک“ کي تفاسير پرنور رنگوں کي صورت ميں پيش ہورہي ہيں۔ ہر روز پروگرام ميں تين شرکاء اسم محمد کے ايک پہلو کو ذہن ميں رکھ کے خطّاطي کرتے اور خطوں اور رنگوں کے ذريعے اسم محمد کي رحمتوں، برکتوں اور عظمتوں کو اجاگر کرتے۔

جيو ٹي وي پر يہ پروگرام ڈاکٹر محمد طاہر مصطفٰي پيش کررہے تھے۔ ڈاکٹر طاہر نے اسماء النبي پر مقالہ لکھا اور لاہور کي ٹيکنالوجي يونيورسٹي کے اسلامي علوم کے شعبے سے ڈاکٹر کي ڈگري حاصل کي۔ ٹيلي وژن پر يہ پروگرام کرنے کا خيال ان کو اس طرح آيا کہ مغربي دنيا ميں شرپسند اور شيطان صفت لوگ پيغمبر اسلام کي بے ادبي کرتے ہوئے آئے روز اخباروں اور کتابوں ميں خاکے بناتے رہتے ہيں۔ ہم ان خاکوں پر احتجاج تو کرتے ہيں ليکن اس کا کوئي مثبت جواب نہيں ديتے۔ حال ہي ميں ايک شيطان صفت عورت نے انٹرنيٹ پر پيغمبر اسلام کي شخصيت پر خاکے بنانے کا مقابلہ کروايا ہے اور دنيا بھر کے لوگوں سے کہا ہے کہ وہ اس خاص سائٹ پر اپنے يہ خاکے ارسال کريں۔ پہلے جو کام کسي ايک اخبار ميں کوئي ايک شخص کرتا تھا اب انٹرنيٹ پر وہ کام کئي افراد کررہے ہيں۔

اقبال نے کہا تھا، چراغ مصطفوي سے شرار بو لہبي ہميشہ جنگ جاري رکھے گا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے ميں بھي لوگ ان کے اور ان کے پيغام کے دشمن تھے۔ ان کو کبھي جادوگر، کبھي مجنون، کبھي شاعر، کبھي ابتر کہہ کر پکارتے تھے۔ اللہ تعالٰي ان کي ہر ہر بار ترديد فرماتا تھا اور قرآن کي آيات ميں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درجات اور نام کي سربلندي کا حکم ديتا تھا۔ اللہ تعالٰي نے نبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر بلند کرنے کا جو وعدہ فرمايا ہے وہ قيامت تک جاري رہے گا، اس عرصے ميں شيطان بھي اپني کارروائياں جاري رکھے گا ليکن اللہ کے بندے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شيدائي بھي اسم محمد کا پرچم بلند کرتے رہيں گے۔ اسم محمد کے اجالے سے دنيا کو منوّر کرتے رہيں گے اور اسم محمد کي رحمتوں کے رنگوں سے زمين کو سجاتے رہيں گے۔ جيو ٹي وي کا يہ پروگرام بھي اس کا حصّہ تھا۔ ڈاکٹر طاہر مصطفٰي نے خيال پيش کيا کہ ہم پاکستان کے لوگوں کو دعوت ديں کہ وہ آئيں اور نبي اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کي شخصيت کے مختلف پہلوؤں کو ان کے ”اسماء“ کے رنگوں سے سجي خطّاطي کے ذريعے اجاگر کريں۔ بہت پہلے پاکستان کے نامور مصوّر صادقين نے سورة الرحمن کي آيات کي خطّاطي کرکے مصوّري ميں ايک باب کا اضافہ کيا تھا۔ ڈاکٹر طاہر نے کہا کہ کيوں نہ ہم اسمائے محمد کي خطاطي کے شہہ پارے پيش کرکے مغرب کے شيطان صفت لوگوں کے شر اور فساد کا مثبت اور پر نور جواب ديں۔ ان کا يہ خيال منظور ہوا اور رمضان کے پورے ماہ ميں انہوں نے ہر روز تين مصوّروں کو بلا کر ان سے يہ نور پارے تخليق کروائے۔

اس پروگرام کو ديکھتے ہوئے ميں نے ہر بار سوچا کہ اس ماہ رمضان کا يہ تحفہ جاري رہنا چاہئے، لوگ اپنے نور پارے ساري دنيا سے ارسال کريں گے تو پوري دنيا کو پيغام جائے گا کہ اسم محمد کا اصل رنگ و روپ کيا ہے۔ الفاظ اور اسماء کي تاثير ہوتي ہے، ان ميں طاقت ہوتي ہے اور ان کے ارتعاش ميں پيغام ہوتا ہے۔ پھر جب نام محمد کي قوّت اس خوبصورت انداز ميں ساري دنيا ميں پھيل جائے گي تو پھر رحمت کے اثرات مرتّب ہونے لگيں گے اور دنيا ميں سلامتي کي فضاء پيدا ہونا شروع ہو جائے گي۔ اس پروگرام ميں حضور پرنور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عشق کرنے والے اپني عقيدتوں اور محبتوں کے رنگ بھي جگائيں گے اور پھر اقبال کا وہ پيغام عملي صورت اختيار کر جائے گا جس ميں انہوں نے کہا تھا:

قوّت عشق سے ہر پست کو بالا کردے

دہر ميں اسم محمد سے اجالا کردے

بیٹیاں خوبصورت ہوتی ہیں

تپتی زمیں پر آنسوؤں کے پیار کی صورت ہوتی ہیں

چاہتوں کی صورت ہوتی ہیں

بیٹیاں خوبصورت ہوتی ہیں


دل کے زخم مٹانے کو


آنگن میں اتری بوندوں کی طرح ہوتی ہیں

بیٹیاں پھولوں کی طرح ہوتی ہیں

نامہرباں دھوپ میں سایہ دیتی

نرم ہتھیلیوں کی طرح ہوتی ہیں

بیٹیاں تتلیوں کی طرح ہوتی ہیں

چڑیوں کی طرح ہوتی ہیں

تنہا اداس سفر میں رنگ بھرتی

رداؤں جیسی ہوتی ہیں

بیٹیاں چھاؤں جیسی ہوتی ہیں


کبھی بلا سکیں، کبھی چھپا سکیں

بیٹیاں اَن کہی صداؤں جیسی ہوتی ہیں

کبھی جھکا سکیں، کبھی مٹا سکیں

بیٹیاں اناؤں جیسی ہوتی ہیں

کبھی ہنسا سکیں، کبھی رُلا سکیں

کبھی سنوار سکیں، کبھی اجاڑ سکیں


بیٹیاں تو تعبیر مانگتی دعاؤں جیسی ہوتی ہیں

حد سے مہرباں، بیان سے اچھی

بیٹیاں وفاؤں جیسی ہوتی ہیں

پھول جب شاخ سے کٹتا ہے بکھر جاتا ہے

پتیاں سوکھتی ہیں ٹوٹ کے اُڑ جاتی ہیں

بیٹیاں پھول ہیں


ماں باپ کی شاخوں پہ جنم لیتی ہیں

ماں کی آنکھوں کی چمک بنتی ہیں

باپ کے دل کا سکوں ہوتی ہیں

گھر کو جنت بنا دیتی ہیں

ہر قدم پیار بچھا دیتی ہیں

جب بچھڑنے کی گھڑی آتی ہے

غم کے رنگوں میں خوشی آتی ہے

ایک گھر میں تو اُترتی ہے اداسی لیکن

دوسرے گھر کے سنورنے کا یقیں ہوتا ہے


بیٹیاں پھول ہیں

ایک شاخ سے کٹتی ہیں مگر

سوکھتی ہیں نہ کبھی ٹوٹتی ہیں

بیٹیاں تو پھول ہوتی ہیں

بیٹیاں تو پھول ہوتی ہیں

اور پھول کے مقدر میں
بالآخر بکھرنا ہے
انہیں تو بس مہکنا ہے
سجا دو سیج پر چاہے
چڑھا دو یا مزاروں پر
سہرے میں انہیں گوندھو
لگا دو یا کہ مدفن پر
انہیں خوشبو پھیلانی ہے
بھلا پھولوں کی مرضی کون پوچھتا ہے
بتاﺅ تم کو بالوں میں سجائیں یا کہ مرقد پے
آبیاری ہو کہیں یا قطع و برید ہو
پھولوں کے اختیار میں بس مہکتے رہنا ہے
اجنبی جذبات کو اپنی زباں میں کہنا ہے
جس رنگ میں چاہے باغباں
گلدستے میں سج جانا ہے
جس کیاری میں چاہے
وہیں پے ان کو اگنا ہے، وہیں پھل پھول دینے ہیں
وہیں مرجھانا ہے ان کو

پرندوں اور پودوں میں
یہی اک فرق ہے ازلی
کبھی جو بے سبب یہ مہرباں برساتیں روٹھ جائیں تو
یا بد قسمت گھٹائیں راستے بھول جائیں تو
کبھی جب پانیوں کی کوکھ بانج ہو جانے کا خدشہ ہو

پرندے ہجرتیں کرکے، نئی آب و زمیں کھوجیں
ٹھکانے، آشیانے، چمن و گلشن سب نیا ڈھونڈیں
مگر پھولوں کو پودوں کو، مگر بیلوں کو بانہوں کو
وہیں پانی کے مدفن پر، وہیں اشجار کے ساکت بدن پہ خاک ہونا ہے
انہی گجروں میں سجنا ہے
انہیں راہوں میں رلنا ہے
گلدان آباد کرنے ہیں
یہی پھولوں کی قسمت ہے، یہی ان کا مقدر ہے

بیٹیاں تو پھول ہوتی ہیں

بندر سمجھ کر اپنا ہی بیٹا مار دیا

جنوبی نیپال میں ایک کسان نے غلط فہمی کا شکار ہوکر اپنے ہی بارہ سالہ بیٹے کو گولی مار کر ہلاک کردیا۔ پولیس نے بتایا ہے کہ کسان سمجھا کہ بندر اس کی فصل خراب کررہا تھا۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے بتایا ہے کہ چترا بہادر نامی بارہ سالہ بچہ درخت پر چڑھ کر ان بندروں کا تعاقب کررہا تھا، جو اس کے گھرانے کے لیے پریشانی کی وجہ بنے ہوئے تھے۔ لیکن اس دوران چترا کے پچپن سالہ والد گپتا بہادر نے بندر سمجھ کر جس پر فائر کیا، وہ اس کا اپنا ہی بیٹا تھا۔ گپتا بہادر کے بقول یہ بندر اس کی فصلیں خراب کرتے تھے اور بطور خوراک انہیں لے کر بھاگ جاتے تھے۔

جنوبی نیپال میں آرگھا کھانچی نامی دور دراز علاقےکے پولیس حکام نے بتایا ہے کہ چترا بندروں کا تعاقب کرتے ہوئے درختوں میں چھپا ہوا تھا کہ اس کے والد نے اس غلط فہمی کا شکار ہوتے ہوئے کہ وہ بندر کو نشانہ بنا رہا ہے، اپنے ہی بیٹے پر فائر کھول دیا۔ علاقے کی پولیس کے نائب سربراہ ارون پاؤڈل نے بتایا کہ بچہ موقع پر ہی ہلاک ہوگیا، ’’بچہ درخت پر ٹہنیوں کے پیچھے چھپا ہوا تھا، جو گولی لگنے کے بعد وہیں ہلاک ہوگیا۔‘‘

ابتدائی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ گپتا بہادر کو علم نہیں تھا کہ اس کا بیٹا بندروں کو بھگانے کے لیے کھیتوں میں گیا ہوا ہے، اس لیے اس سے یہ غلطی سرزد ہوئی۔ پولیس نے بتایا کہ گپتا بہادر کو تحویل میں لے لیا گیا ہے اور وہ بندوق بھی برآمد کر لی گئی ہے، جس سے اس نے فائر کیا تھا۔

نیپال کی سرکاری نیوز ایجنسی نے آج اتوار کو بتایا کہ یہ واقعہ جمعے کے روز رونما ہوا۔ گپتا بہادر نے بعد ازاں ذرائع ابلاغ کو بتایا، ’’مجھے اپنی غلطی کا احساس اس وقت ہوا جب فائر کے بعد میرا اپنا ہی بیٹا درخت سے گر کر شاخوں میں پھنس گیا۔‘‘

بندر سمجھ کر اپنا ہی بیٹا مار دیا

نئی دہلی میں یومیہ 12بچے اغوا ہوتے ہیں

حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق، اِس وقت پورے بھارت میں 55000 بچے لاپتا ہیں اور محکمہ پولیس اُن کا سراغ لگانے میں ناکام رہا ہے، جب کہ دارالحکومت دہلی میں روزانہ 12 بچے لاپتا ہوتے ہیں، جِن میں اکثریت لڑکیوں کی ہے۔

اِس سلسلے میں سپریم کورٹ نے مرکز اور تمام ریاستی حکومتوں کو نوٹس جاری کیا ہے۔ اُس نے یہ کارروائی مفادِ عامہ کی ایک عذر داری پر سماعت کے دوران کی، جسے ایک وکیل سرو مِترا نے داخل کیا ہے۔

جسٹس آفتاب عالم کی سربراہی والے بینچ نے اِس بارے میں حکومتوں سے جواب طلب کیا ہے۔ عذر داری میں کہا گیا ہے کہ لاپتا بچے اذیت ناک حالت سے دوچار ہوتے ہیں۔ اُن کو اغوا کرنے والے گروہ کسی بچے کا ایک ہاتھ کاٹ دیتے ہیں تو کسی کا ایک پیر اور کسی کی آنکھ پھوڑ دیتے ہیں۔ پھر اُنھیں بھیک مانگنے پر مجبور کردیا جاتا ہے یا جسم فروشی کے دھندے میں دھکیل دیا جاتا ہے۔

عذرداری میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پولیس محکمہ اغوا کے معاملات کی جانچ کرنے اور لاپتا بچوں کو تلاش کرنے میں ناکام رہا ہے۔ یہ صورت حال اِن معصوم بچوں کو زندہ رہنے کے حق اور آزادی سے محروم کرنے جیسا ہے۔ ایسے بچوں کی خرید و فروخت بھی ہوتی ہے اور اُن کا جنسی استحصال بھی کیا جاتا ہے۔

ادھر، دہلی پولیس کے ریکارڈ کے مطابق دارالحکومت دہلی میں ایک سال کے اندر 3171 بچے لاپتا ہوئے ہیں، جن میں 1652 لڑکیاں اور 1519 لڑکے ہیں۔

یہاں یومیہ 12بچے غائب ہوتے ہیں۔ تاہم، پولیس کا کہنا ہے کہ گذشتہ سال کےمقابلے میں امسال گمشدگی کی شرح کم ہوئی ہے، کیونکہ گذشتہ سال 14بچے یومیہ گم ہورہے تھے۔ لیکن، ایک اعلیٰ پولیس افسر کےمطابق بچوں کی گمشدگی کی کوئی ایک خاص وجہ نہیں ہے۔

جِن بچوں کو تلاش کرلیا گیا ہے اُن کی گمشدگی کی وجوہات میں والدین کا غلط سلوک، دوسرے لوگوں کے ذریعے گمراہ کیا جانا، تعلیم کا بوجھ، دماغی خلل یا کسی کے ساتھ بھاگ جانا شامل ہے۔

نئی دہلی میں یومیہ 12بچے اغوا ہوتے ہیں: پولیس ذرائع

بھارت نے انڈر - 19 کرکٹ عالمی کپ چیت لیا

بھارتی کھلاڑی فائنل میچ جیتنے پر خوشی کا اظہار کررہے ہیں
 بھارت نے 19 سال سے کم عمر کھلاڑیوں کی کرکٹ کے عالمی کپ مقابلوں کے فائنل میچ میں آسٹریلیا کو شکست دے کر چیمپیئن کا اعزاز تیسری مرتبہ چیت لیا۔

آسٹریلیا کے شہر ٹاؤنس ولے میں کھیلے جانے والے فائنل میں بھارتی ٹیم نے میزبان ملک کو چھ وکٹوں سے شکست دی۔ اس سے قبل 2000ء اور 2008ء میں بھارت نے انڈر - 19 عالمی کرکٹ کپ میں فتح حاصل کی تھی۔

فائنل میچ میں بھارت نے ٹاس جیت کر آسٹریلیا کو پہلے کھیلنے کی دعوت دی۔ میزبان ٹیم نے پہلے بلے بازی کرتے ہوئے آٹھ وکٹ کے نقصان پر 225 رنز بنائے تھے۔ بھارتی بلے بازوں نے عمدہ بیٹنگ کرتے ہوئے چار وکٹوں کے نقصان پر اڑتالیسویں اوور میں یہ ہدف حاصل کرلیا۔

بھارتی ٹیم کے کپتان انمکت چند نے جیت میں اہم کردار ادا کیا انھوں نے 111 رنز بنائے اور آؤٹ نہیں ہوئے۔

انمکت چند کو میچ کا بہترین کھلاڑی ’مین آف دی میچ‘ قرار دیا۔

بھارت نے انڈر - 19 کرکٹ عالمی کپ چیت لیا

اتوار, اگست 26, 2012

میں جہاں جمعہ پڑھنے جاتا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

‫میں جہاں جمعہ پڑھنے جاتا ہوں وہاں ایک مولوی صاحب ہیں- اب جو مولوی صاحب ہوتے ہیں ان کی اپنی ایک سوچ ہوتی ہے- انھیں سمجھنے کے لیے کسی اور طرح سے دیکھنا پڑتا ہے اور جب آپ ان کی سوچ سمجھ جائیں تو پھر آپ کو ان سے علم ملنے لگتا ہے-

وہ نماز سے پہلے تمام صفوں کے درمیان ایک چار کونوں والا کپڑا پھراتے ہیں جس میں لوگ حسب توفیق یا حسب تمنا کچھ پیسے ڈال دیتے ہیں- اس مرتبہ بڑی عید سے پہلے جو جمعہ تھا، اس میں بھی وہ چو خانوں والا کپڑا پھرایا گیا اور جو اعلان کیا وہ سن کر میں حیران رہ گیا-

وہ اس طرح سے تھا ’’اس مرتبہ دوحا قطر سے کوئی صاحب آئے تھے انھوں نے مجھے پانچ ہزار روپے دیے ہیں- میں نے وہ پیسے دو تین دن رکھے اور پھر ان پیسوں کو 100، 50 کے نوٹوں میں تبدیل کروایا، جنھیں اب میں یہاں لے آیا ہوں جو اس چو خانوں والے کپڑے میں ہیں-
عید قریب ہے ہم سارے کے سارے لوگ صاحب حیثیت نہیں ہیں اور جس بھائی کو بھی ضرورت ہو وہ اس کپڑے میں سے اپنی مرضی کے مطابق نکال لے“-

مولوی صاحب کہتے ہیں کہ ہم پڑھتے ہیں ’’دس دنیا ستر آخرت‘‘

آخر دینے سے کچھ فائدہ ہی ہوتا ہے نا! شاید وہ یہ ٹیسٹ کرنا چاہتا تھا کہ یہ بات جو لکھی ہوئے ہے واقعی درست ہے یا ایسے ہی چلتی چلی آ رہی ہے-

میں نے دیکھا کہ اس کپڑے میں سے کچھ لوگوں نے روپے لیے، ایک نے پچاس کا نوٹ لیا- ایک اور شخص نے سو کا نوٹ لیا- کچھ ڈالنے والوں نے اپنی طرف سے بھی اس کپڑے میں نوٹ ڈالے-

اگلے دن میں مولوی صاحب سے ملا اور ان سے کہا گزشتہ روز آپ کا عجیب و غریب تجربہ تھا- ہم نے تو آج تک ایسا دیکھا نہ سنا-

تو وہ کہنے لگے کہ جناب جب میں نے آخر میں اس رومال یا کپڑے کو کھول کر دیکھا اور گنا تو پونے چھہ ہزار روپے تھے-

اب یہ بات میرے جیسے ’’پڑھے لکھے آدمی‘‘ کے ذہن میں یا ’’دانش مند‘‘ آدمی کے ذہن میں نہیں آئی-

ایک ان پڑھ کبھی کبھی ایسے ماحول یا تجربے سے گزرتا ہے اور پھر ایک ایسا نتیجہ اخذ کرتا ہے جو مجھ کتاب والے کو بھی نہیں ملا-

(از اشفاق احمد زاویہ 2 ان پڑہ سقراط صفحہ 237)

مہک تیری دل میں بسا کر چلے

مہک تیری دل میں بسا کر چلے
ترا نام لب پر سجا کر چلے

مرے پاس اب کچھ بچا ہی نہیں
دل و جان سب کچھ لٹا کر چلے

وہ دولت جو بخشی تھی تو نے ہمیں
اسے اپنے دل میں چھپا کر چلے

کیا تھا جو تم سے کبھی قول عشق
پھر اک بار اس کو نبھا کر چلے

وہی ضد ہماری رہی عمر بھر
کبھی سر نہ اپنا جھکا کر چلے

جئے ہم تو سر کو اُٹھا کے جئے
چلے بھی تو گردن کٹا کر چلے

جہالت کے ظلمت کدے میں نصر
چراغِ محبت جلا کر چلے
محمد ذیشان نصر

خاموش چاہتوں کی مہک اُس طرف بھی ہے

خاموش چاہتوں کی مہک اُس طرف بھی ہے
جو میرے دل میں ہے وہ کسک اُس طرف بھی ہے

کربِ شبانِ ہجر سے ہم بھی ہیں آشنا
آنکھوں میں رت جگوں کی جھلک اُس طرف بھی ہے

ہیں اِس طرف بھی تیز بہت، دل کی دھڑکنیں
بیتاب چوڑیوں کی کھنک اُس طرف بھی ہے

شامِ فراق اشک اِدھر بھی ہیں ضوفشاں
پلکوں پہ جگنوؤں کی دمک اُس طرف بھی ہے

سامان سب ہے اپنے تڑپنے کے واسطے
ہے زخمِ دل ادھر تو نمک اس طرف بھی ہے

باقی ہم اہلِ دل سے یہ دنیا بھی خوش نہیں
جائیں کہاں کہ سر پہ فلک اس طرف بھی ہے

تو رُل گیا تے تاں کی ہویا

ہیرے سستے تُلدے ویکھے
لال تکڑی وِچ تُلدے ویکھے

پُھل پَیراں وِچ رُلدے ویکھے
سیانے گَلّاں تو پُلدے ویکھے

کوئی کسے نال پیار نئی کردا
دل دنیا وچ کُھلدے ویکھے

رنگ برنگی دنیا ویکھی
کئی کئی رنگ اِک پُھل دے ویکھے

بس کر دِلا چھڈ دے کھیڑا
چھڈ دے رام کہانی ساری

تو رُل گیا تے تاں کی ہویا
شاہ وی گلیاں وچ رُلدے ویکھے

شاور سے غسل، صحت کے لیے نقصان دہ

امریکی سائنسدانوں کے مطابق شاور کے ذریعے نہانا صحت کے لیے نقصان دہ ہے کیونکہ شاور کے گندے سرے سے خطرناک بکٹیریا خارج ہوسکتا ہے۔

ایک تحقیق کے دوران ٹیسٹ کرنے سے معلوم ہوا ہے کہ ایک تہائی شاورز کے سرے بکٹیریا کا ٹھکانہ ہوتے ہیں جو انسانی پھیپھڑوں کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ ٹیسٹ کے نتائج کے مطابق گھروں میں پانی سپلائی کرنے والی پائپ لائنوں کے برعکس شاور کے سروں میں مائکو بکٹیریا کی مقدار سو فیصد زیادہ ہوتی ہے۔

نیشنل اکیڈمی آف سائنس میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق شاور کے سرے میں ایم ۔ اے وئیم نامی بکٹیریا ایک بائیو فلم یا تہہ بناتے ہیں۔

سائنسدانوں کے مطابق تحقیق سے ثابت کیا جاسکتا ہے کہ گزشتہ چند سالوں سے پھیپھڑوں کی بیماری میں مبتلا افراد کی تعداد میں جو اضافہ ہوا ہے ان میں زیادہ تر زیادہ تر وہ شامل تھے جو شاور کے ذریعے غسل کو ترجیح دیتے ہیں۔

سائنسدانوں کے مطابق شاور کے سرے سے خارج ہونے والے پانی میں بکٹیریا شامل ہوجاتا ہے جو بعد میں پانی کے بخارات میں تبدیل ہوکر سانس کے ذریعے آسانی کے ساتھ پھیپڑوں کے تہہ تک پہنچ جاتا ہے۔ سائنسدانوں کی تحقیقی ٹیم کے سربراہ پروفیسر نومین پیس کے مطابق شاور کھولنے کے بعد آپ کے چہرے پر گرنے والے پانی میں مائکو بکٹیریا کی اچھی خاصی مقدار موجود ہوتی ہے جو کہ صحت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے۔

اگرچہ بہت صحت مند لوگوں کو شاور سے نہانے سے زیادہ خطرہ نہیں ہوسکتا لیکن وہ افراد جن کی قوت مدافعت کمزور ہوتی ہے ان کی صحت کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے اور ان میں بڑی عمر کے افراد اور حاملہ خواتین بھی شامل ہیں۔

شاور کے ذریعے خارج ہونے والے بکٹیریا سے پھیپھڑوں کی بیماری کی وجہ سے تھکاوٹ، خشک کھانسی، سانس کی بیماری کی وجہ سے کمزوری اور روزمرہ زندگی میں صحت مند محسوس نہ کرنے جیسی بیماریاں لاحق ہوسکتی ہیں۔

تحقیق کے دوران امریکہ کے سات شہروں میں پچاس کے قریب شاورز کا معائنہ کیا گیا اور ان میں سے تیس فیصد کو خطرہ قرار دیا ہے۔ پروفیسر نومین پیس کے مطابق پلاسٹک کے شاورز میں بکٹیریا سے بھری بائیو فلمز زیادہ ہوتی ہیں لیکن اس کے برعکس دھات کے بنے ہوئے شاور ایک بہتر متبادل ہوسکتے ہیں۔

ہیلتھ پروٹیکشن ایجنسی کے مطابق گرم پانی کے ٹب اور پولز بھی سے اسی قسم کی بیمایاں پھیلانے کا سبب بن سکتے ہیں۔

تم نے بارشوں کو محض برستے دیکھا ہے

تم نے بارشوں کو محض برستے دیکھا ہے
میں نے اکثر بارشوں کو کچھ کہتے دیکھا ہے

تم دیکھتے ہو بارشوں کی جل تھل ہر سال
میں نے برسات کو بارہا پلکوں پے مچلتے دیکھا ہے

کیسے مانگوں پھر برستا ساون اپنے رب سے
کہ ان آنکھوں نے دلوں کو ساون میں‌ اجڑتے دیکھا ہے

سیکھ گئے ہم بارشوں کو اپنے اندر اتارنے کا فن
اور پھر سب نے ہمیں ہر پل ہر دم ہنستے دیکھا ہے