بدھ, جولائی 11, 2012

دوہری تلوار

پاکستان میں ایک نیا نیٹو مخالف مظاہرہ ہوا۔ تقریباً تیس ہزار افراد نے اسلام آباد میں نیٹو کے امدادی سامان کے لیے راستہ کھولے جانے کے خلاف احتجاج کیا۔ پارلیمنٹ کے سامنے جلسہ کیا، امریکہ مخالف نعرے لگائے اور بنیاد پرست اجتماع ”دفاع پاکستان کونسل“ کے پلے کارڈوں کی نمائش کی۔

اس مظاہرے کا اہتمام مذہبی سیاسی جماعتوں اور امریکہ و ہندوستان مخالف مذہبی گروہوں کے اتحاد ”دفاع پاکستان کونسل“ نے کیا تھا، جس نے 16-17 جولائی کو ایک اور مارچ کرنے کا اعلان بھی کیا ہے۔ ”یہ تحریک ان مقامات پر توجہ دے گی، جہاں سے نیٹو کے لیے ٹرک افغانستان میں داخل ہوتے ہیں“۔ مذکورہ اتحاد کے چیئرمین مولانا سمیع الحق نے کہا، ”ہم کوئٹہ سے چمن تک اور پشاور سے ظورخم تک مارچ کریں گے“۔ انہوں نے کہا۔

پرہجوم مظاہرے اور سخت مطالبے حکومت کو مشکل میں ڈال سکتے ہیں۔ ایک جانب سے تو افغانستان میں نیٹو کے دستوں کے لیے امدادی سامان بھیجے جانے کی خاطر راستہ کھولا جانا حکومت کی خارجہ پالیسی کی کامیابی تصور ہوتا ہے۔ واشنگٹن نے نرم الفاظ میں ہی سہی لیکن پاکستانی چیک پوسٹ پر حملہ کرنے پر افسوس کا اظہار کیا ہے، جس کا پاکستان نے تقاضا کیا تھا۔ امریکہ نے پاکستان کو دی جانے والی امداد کے منجمد کردہ ایک ارب بیس کروڑ ڈالر واگذار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پھر راستہ کھولے جانے سے بہت سے لوگوں کو روزگار میسر آئے گا اور اس طرح اضافی آمدنی خزانے میں جائے گی۔ ”امریکہ اور پاکستان نے ماضی کی کشیدگی کو پس پشت ڈالنے کی ہمت کرتے ہوئے مستقبل کو دیکھنے کی راہ اپنا لی ہے“۔ امریکہ کی سیکریٹری آف سٹیٹ ہیلیری کلنٹن نے کہا۔

دوسری جانب راستہ پھر سے کھولے جانے کے باعث حکومت کی مقبولیت میں کمی آسکتی ہے اور سیاسی بحران مزید گہرا ہوسکتا ہے، ماسکو میں کارنیگی فاؤنڈیشن کے ماہر پیوتر تاپیچکانوو کہتے ہیں، ”امریکہ سے اتفاق کرنے کے باعث لوگ حکومت کے مخالف ہوجائیں گے کیونکہ امریکہ کے خلاف منفی جذبات بھڑک سکتے ہیں۔ پاکستان کی موجودہ حکومت بہت زیادہ پاپولسٹ ہے۔ اسے عوام کی بھرپور حمایت درکار ہے۔ اگلے سال پاکستان میں پارلیمانی انتخابات ہونے ہیں۔ ملک میں انتخابی مہم کے سے حالات ہیں۔ پاکستان کے لیے اچھا ہوتا اگر امریکہ ان کی سرزمین سے گذرنے والے راستے کو نیٹو سپلائی کی خاطر استعمال کرنے سے انکار کردیتا“۔

راستہ پھر سے کھولے جانے کے بعد پاکستان میں انتہا پسند بنیاد پرست گروہ زیادہ فعال ہوچکے ہیں۔ پاکستان کے کئی خطوں مین دھماکے ہوچکے ہیں۔ اتوار کے روز چمن کے راستے میں ایک زوردار دھماکہ کیا گیا۔ یہ ہی وہ راستہ ہے جہاں سے نیٹو کے لیے سامان لے جانے والے ٹرک افغانستان کی جانب جاتے ہیں۔ اس دھماکے میں 18 افراد لقمہ اجل بن گئے۔ ایک دوسرے دیشت گردانہ واقعے میں جو مرکزی پنجاب کے شہر گجرات کے نزدیک ہوا کم سے کم سات فوجی تب شہید ہوگئے جب حملہ آورون نے ان پر فائر کھول دیا۔

نیٹو کے لیے سپلائی روٹ پھر سے کھولا جانا حکومت مخالف لوگوں کے ہاتھ میں ترپ کا پتیہ بن سکتا ہے۔ گیلانی کے وزارت عظمٰی سے ہٹائے جانے کے بعد کا بحران ایک نیا موڑ لے سکتا ہے۔ قبل از وقت انتخابات کرائے جانے کا امکان حقیقت میں ڈھلنے کے نزدیک پہنچ چکا ہے، چنانچہ ایسے میں اس سوال کا جواب دیا جانا دشوار ہے آیا نیٹو کے لیے سپلائی روٹ پھر سے کھولا جانا حکومت کی کامیابی ثابت ہوگا یا ناکامی؟


دوہری تلوار

کھیل اور مذہبی جذبات

لندن میں ہونے والے اولمپک کھیلوں میں مسلمان کھلاڑی خواتین حجاب کا استعمال کرسکیں گی۔ بین الاقوامی اولمپک کمیٹی نے بھی فیفا کے نقش قدم پر چلتے ہوئے لڑکیوں کو یہ رعائت دے دی ہے تاہم فرانس کی قومی فٹ بال ایسوسی ایشن اب بھی پہلے کی طرح اڑی ہوئی ہے کہ فرانسیسی مسلمان خواتین حجاب نہیں کرسکتیں۔ فیفا نے مسلمان خواتین سے حجاب استعمال نہ کرنے کی پابندی گذشتہ ہفتے ہی اٹھائی ہے۔ اس سے پہلے وہ اسے پنوں کے باعث خطرناک تصور کرتی تھی لیکن بغیر پن کے حجاب کھلاڑیوں کے کھیل کے بالکل آڑے نہیں آتا۔ اب بہت سے ایشیائی ملکوں کی لڑکیوں کو اولمپک کھیلوں سمیت عالمی سطح کے کھیلوں میں شامل ہونے کا موقع ملتا ہے۔ ممکن ہے کہ لندن میں ہونے والے اولمپک کھیلوں میں ہمیں باحجاب خواتین کو کھیلتے ہوئے دیکھنے کا موقع ملے۔

بیجنگ میں ہوئی اولمپک میں بھی مذہبی لباس پر پابندی نہیں تھی لیکن اس اجازت کا اطلاق صرف لائٹ اتھلیٹکس پر ہوتا تھا۔ بحرین کی دوڑ کی کھلاڑی رقیہ القصرٰی نے ایک مخصوص مرکب لباس اور حجاب میں دوڑ کر کھیل جیت لیا تھا۔ یہ ایک مثال تھی اور اب اس نوع کے مرکّب لباس میں سعودی عرب کی لڑکیاں اولمپک کھیلوں میں شریک ہونگی۔

اس تبدیلی کے باوجود فرانس بہر حال اڑا ہوا ہے کہ کھیل میں اسلامی لباس نہیں چلے گا۔ یہ فرانس کے قانون کے خلاف ہے، ماسکو کے سرکاری انسٹیٹیوٹ برائے بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر یوگینی ابیچکن بتاتے ہیں، ”فرانس میں نقل مکانی کرکے آنے والوں کا ماحول میں ڈھل جانے کا مسئلہ بہت شدید ہے۔ اس ملک میں ہر ساتواں شخص تارکین وطن کی اولاد ہے۔ ملک میں مسلمان مذہب کے حوالے سے دوسرے مقام پر آتے ہین جن کی تعداد ستّر لاکھ ہے۔ ملک میں کیتھولک عقیدے کے حامل عیسائیوں کے بعد مسمان آتے ہیں، پروٹسٹنٹ عیسائی فرقہ تعداد میں ان سے کم ہوچکا ہے۔ اس وجہ سے انہیں فرانس کے ماحول میں جذب کرنے کا پروگرام تیار کیا گیا تھا، جس کے سلسلے میں سابق صدر فرانس نکولیا سارکوزی بہت فعال تھے تاکہ مسلمانوں کو فرانس کی تمام رسموں کا پابند بنائیں۔ اس کے لیے ہی عام مقامات پر مذہب کے حوالے سے زیب تن کی جانے والی ہر شےکو ممنوع قرار دے دیا گیا تھا۔ صرف حجاب ہی نہیں، عیسائیوں کو صلیب پہننے سے اور یہودیوں کو مخصوص ٹوپی پہننے سے روک دیا گیا تھا“۔
 
بہرحال عمومی رجحان یہ ہے کہ کھیل قومی ثقاقت سے ہم آہنگ رہیں۔ حجاب پہننے کی اجازت ملنے سے ان لڑکیوں کے لیے نئے امکانات کھلیں گے جن کی سرگرمیاں مذہبی لباس کی وجہ سے محدودو تھیں۔ لباس یا بظاہر نظر آنے کو کھلاڑیوں کی راہ میں حائل نہیں ہونا چاہیے، کھیلوں کے مبصر گریگوری توالتوادزے نے کہا، ”یہ کہنا مشکل ہے کہ حجاب پہن کر کھیلا جانا کتنا اہم ہے۔ یہ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ کوئی حجاب پہن کر غوطہ لگائے۔ اس کا نتیجہ کیا ہوگا، اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ کھیل سیاست کی نظر ہونے لگے ہیں۔ یہ صحیح نہیں ہے۔ کھیل کھیل ہوتا ہے، جس کا اولین حصہ انسان کی جسمانی خوبصورتی ہوتا ہے“۔

بلاشبہ کھیلوں کا ایک ڈریس کوڈ ہوتا ہے۔ شطرنج کی کھلاڑی لڑکیوں کے لیے گھٹنوں سے اوپر سکرٹ پہننا ممنوع ہے، لازماً بند جوتی استعمال کریں گی اور گریبان زیادہ کھلا نہیں رکھیں گی۔

کھیل اور مذہبی جذبات

روس: سیلاب نے شہر کریمسک کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا

سات جولائی کو آنے والے سیلاب نے صوبہ کراسنودار کے شہر کریمسک کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا ہے، صوبائی گورنر الیکساندر تکاچوو کے اعلان نامہ میں کہا گیا۔ گورنر نے کہا کہ گزشتہ چند دنوں سے صوبہ کراسنودار ایک سنگین ترین آزمائش سے گزر رہا ہے۔ ساتھ ہی گورنر نے یقین دہانی کرائی کہ سبھی متاثرین کو لازمی طور پر مدد دی جائے گی اور سردی آنے تک ان کے لیے نئے گھر تعمیر کردئے جائیں گے۔ ہم ہر ممکن کوشش کریں گے تاکہ معمول کی زندگی کو بحال کرسکیں، صوبائی گورنر نے کہا۔ انہوں نے متاثرین کی مدد و حمایت کرنے والوں کا شکریہ ادا کیا ہے۔ اس وقت روس بھر سے متاثرین کے لیے امدادی اشیاء بھیجی جا رہی ہیں۔

یاد رہے کہ سات جولائی کو آئے سیلاب کے نتیجے میں صوبہ کراسنودار میں ایک سو باہتر افراد ہلاک ہوگئے اور پانچ ہزار گھر منہدم ہوگئے۔

سیلاب نے شہر کریمسک کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا

بھارتی ہمالیہ میں ویاگرا کا ’سستا متبادل‘

جنسی قوت بڑھانے والی دوا ویاگرا کے خریداروں کے لیے ہمالیہ کے علاقے میں پائی جانے والی پھپھوند کی ایک قسم ایک ارزاں متبادل کے طور پر سامنے آئی ہے۔

اس نایاب پھپھوند کو مقامی آبادی نے ’بھارتی ویاگرا‘ کا نام دے دیا ہے اور آج کل ہمالیہ کے بعض علاقوں کی مقامی معیشت میں آنے والی مثبت تبدیلی اسی جڑی بوٹی کی مرہونِ منت ہے۔

تاہم اب اس قیمتی فصل کے ساتھ اس کے بعض کاٹنے والوں کو اپنی حفاظت کے لیے ہتھیاروں سے لیس ہو کر اس جڑی بوٹی کی حفاظت کرنی پڑتی ہے۔

شمالی بھارت میں اس پھپھوند کو ’کیڑا جڑی‘ کہا جاتا ہے اور یہ بھارتی ہمالیہ میں پائی جانے والی سنڈیوں پر حملہ آور ہوتی ہے۔

چین میں ’کیڑا جڑی‘ کا استعمال بطور شہوت انگیز دوا کے کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ایتھلیٹس اسے کارکردگی بڑھانے والی دوا کے طور پر بھی استعمال کرتے رہے ہیں لیکن ہندوستانی ہمالیہ کے رہائشیوں کے لیے یہ آمدن کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔

گزشتہ پانچ برس میں ان علاقوں کے لوگوں نے یہ پھپھوند اکھٹی کر کے مقامی خریداروں کو فروخت کرنی شروع کی ہے جو بعد ازاں اسے دارالحکومت دلی میں فروخت کرتے ہیں جہاں سے یہ ہمسایہ ممالک نیپال اور چین جاتی ہے۔

گاؤں میں فروخت کے وقت پھپھوند کا ایک ٹکڑا ایک سو پچاس بھارتی روپے میں فروخت ہوتی ہے جو کہ ایک یومیہ اجرت پر کام کرنے والے کے معاوضہ سے زیادہ ہے اور کچھ لوگ روزانہ چالیس ٹکڑے تک اکھٹے کرلیتے ہیں۔

چوبیس سالہ پریم سنگھ بھی قسمت آزمائی کے لیے بلند پہاڑی علاقوں میں دو ہفتے گزار کر آئے ہیں۔ پریم اس سفر پر اکیلے گئے تھے اور صرف چاول، گندم اور دال کھانے کے طور پر ساتھ لے کر گئے تھے۔

 

 تلاش کے تاریک پہلو

اس دوران انہوں نے پانچ ہزار میٹرز کی بلندی پر بھی کیمپ لگایا۔ پہلے تین دن انہیں کچھ نہیں ملا مگر پھر ان کی قسمت جاگی اور وہ اپنے گاؤں پھپھوند کے دو سو ٹکڑوں کے ساتھ لوٹے۔ اب وہ اپنی آمدن سے ایک شاندار دو منزلہ مکان تعمیر کروا رہے ہیں۔

اس طرح کی آمدن کی بات سن کر کئی لوگ جو پہلے کام کاج کے لیے شہر کا رخ کرتے تھے اب گاؤں میں ہی رہتے ہیں یا گاؤں واپس آرہے ہیں۔ پریم کی مطابق ’میں دلی کیوں ہجرت کروں جہاں ایک ہوٹل میں کام کر کے اتنے پیسے دو سال میں نہیں کما سکتا جتنے میں یہاں دو ہفتے میں کما سکتا ہوں‘۔

لیکن اس سارے سلسلے کے بعض تاریک پہلو بھی ہیں۔ سبھی لوگ اپنی تلاش میں کامیاب نہیں ہوتے اور کئی بیمار ہوکر لوٹتے ہیں۔ پھپھوند ڈھونڈنے کے لیے برف میں کہنیوں کے زور اور سینے کے بل پر لیٹنا پڑتا ہے۔ اس دوران بعض اوقات شدید سردی اور تیز ہواؤں کی وجہ پھیپھڑے درد کرتے ہیں جس کی وجہ سے لوگ اکثر جوڑوں اور سانس کی تکلیف کے ساتھ واپس لوٹتے ہیں۔

اب تک ایک شخص اونچائی کی وجہ سے ان بیماریوں کا شکار ہوکر ہلاک ہوچکا ہے۔

پھپھوند کا یہ کاروبار دشمنی کا باعث بھی بن رہا ہے خاص طور پر دو گاؤں جو کہ ایک دوسرے سے ایک پہاڑی قطعہ کی وجہ سے برسر پیکار ہیں جہاں بظاہر یہ پھپھوند کثرت سے ہے۔ یہاں اسے ڈھونڈنے والوں کو اب ہتھیار ساتھ لے کر جانا پڑتا ہے۔

اہم بات یہ ہے کہ اس پھپھوند کو اکھٹا کرنا قانونی طور پر جائز ہے مگر اس کی فروخت ناجائز ہے جو اسے تلاش کرنے والوں اور بیچنے والوں کے لیے مذید خطرات پیدا کرتا ہے۔

بھارتی ہمالیہ میں ویاگرا کا ’سستا متبادل‘

افغانستان کی تاریخ، قبروں کی زبانی

دنیا میں بہت کم ایسے ممالک ہیں جہاں مسلسل کوئی نہ کوئی بیرونی طاقت حملے کرتی رہی ہو۔ افغانستان کی کہانی میں یہ ایک اہم عنصر رہا ہے۔

ان حملوں کے نتیجے میں افغانستان میں مختلف ممالک کے فوجی اور شہری ہلاک ہوئے اور ان کے لیے افغانستان کے شہر کابل میں ’قبرہ گورہ‘ نامی ایک مخصوص قبرستان موجود ہے۔

اس قبرستان میں مختلف نسلوں سے تعلق رکھنے والے فوجی و شہری آرام کی نیند سو رہے ہیں۔ یہ قبرستان انیسوی صدی میں برطانیہ کی جانب سے کیے گئے حملوں کے دوران بنایا گیا تھا۔

کہا جاتا ہے کہ اُس جنگ میں ہلاک ہوئے کم از کم ایک سو ساٹھ فوجی یہاں دفن ہیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ افغانستان میں مختلف جنگوں اور بیرونی حملوں کے دوران جتنی ہلاکتیں ہوئی ہیں اس کے مقابلے یہ تعداد کچھ بھی نہیں۔

جب آپ اس قبرستان کے لکڑی کے پرانے دروازوں سے گزر کر اندر داخل ہوتے ہیں تو کابل کا شور و غل جیسے خاموش لگنے لگتا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ کسی نئی دنیا میں آگئے ہیں۔


یادگاریں

امریکی قیادت میں افغانستان پر سنہ دو ہزار ایک میں ہونے والے حملے کی ہلاکتوں کا ابھی یہاں ریکارڈ مکمل نہیں کیا گیا ہے تاہم نیٹو افواج کے مختلف ممالک سے آنے والے فوجیوں کے لیے یہاں بہت سی یادگاریں بنائی گئیں ہیں۔

ان فوجیوں کے ساتھ یہاں چند کہانیاں بھی محفوظ ہیں۔ 9th کوئینز رائل لانسرز کے کوئی لوٹیننٹ جان ہیرسی تھے جنہیں دسمبر انیس سو انہتر میں دل میں گولی لگی۔ افغان گولیوں کی بوچھاڑ سے مٹے 67th فٹ ریجمنٹ کے درجنوں بےنام جوان بھی یہاں آپ کو ملیں گے۔

واضح رہے کہ برطانیہ نے سب سے پہلے سنہ 1839 میں کابل پر حملہ کیا۔اس حملے کا مقصد روس کو افغانستان میں داخل ہونے سے روکنا تھا لیکن دھیرے دھیرے افغانستان میں برطانوی حکومت کے خلاف عوامی احتجاج نے زور پکڑا اور دو برسوں کے اندر برطانوی فوجوں کو ملک سے باہر نکلنا پڑا۔ تاہم برطانوی فوج اُسی سال واپس کابل آئی اور بدلے میں بیشتر کابل کو تباہ کردیا۔

برطانیہ نے شاید اس جنگ سے یہ سبق سیکھا کہ افغانستان میں مداخلت کرنا تو آسان لیکن افغانستان پر قبضہ کرنا بے حد مہنگا سودا ہے۔

امریکی قیادت میں افغانستان پر سنہ دو ہزار ایک میں ہونے والے حملے کی ہلاکتوں کا ابھی یہاں ریکارڈ مکمل نہیں کیا گیا ہے تاہم نیٹو افواج کے مختلف ممالک سے آنے والے فوجیوں کے لیے یہاں بہت سی یادگاریں بنائی گئیں ہیں۔

یہ قبرستان صرف فوجیوں کے لیے نہیں ہے۔ یہاں صحافی، امدادی کارکن بلکہ ساٹھ کی دہائی کے چند سیاح بھی موجود ہیں۔

شاید اس کا افغان نام ’قبرہ گورہ‘ یعنی غیرملکیوں کا قبرستان ہی موضوں ہے۔

افغانستان کی تاریخ، قبروں کی زبانی

ایوا کی ہلاکت کی وجہ تاحال نامعلوم

سکاٹ لینڈ یارڈ نے تصدیق کر دی ہے کہ ارب پتی برطانوی خاتون ایوا روسنگ مغربی لندن میں اپنے مکان میں مردہ حالت میں پائی گئی ہیں۔

اڑتالیس سالہ امریکی شہری ایوا ٹیٹرا پیک ڈبوں کے کاروبار سے اربوں ڈالر کمانے والے خاندان کی رکن تھیں۔

پولیس حکام کو ایوا کی لاش کے پوسٹ مارٹم کے باوجود موت کی وجہ معلوم نہیں ہوسکی ہے اور مزید تجزیے کیے جارہے ہیں۔

لندن پولیس کے ایک ترجمان کے مطابق ایوا روسنگ کے موت کے حوالے سے ایک انچاس سالہ شخص کو حراست میں لیا گیا تھا تاہم اب وہ پولیس کی تحویل میں نہیں اور اس کا علاج ہورہا ہے۔

پولیس کے مطابق انھوں نے پیر کے دن جب منشیات تلاش کرنے کے سلسلے میں ایوا روسنگ کے گھر پر چھاپا مارا تو انہیں ایوا کی لاش ملی اور مشکوک شخص بھی وہاں سے گرفتار ہوا۔

دو ہزار آٹھ میں ایوا روسنگ اور ان کے شوہر ہینز کرسٹن روسنگ کےگھر سے منشیات برآمد ہوئی تھیں جس کی وجہ سے انہیں مقدمے کا سامنا کرنا پڑا۔

ایوا کو اس وقت بھی گرفتار کیا گیا تھا جب انھوں نے لندن میں معمولی مقدار میں ہیرئین اور کوکین امریکہ کے سفارت خانہ میں سمگل کرنے کی کوشش کی تھی۔ بعد میں انہیں تنبیہ کر کے ان کے خلاف عائد مقدمہ ختم کردیا گیا۔

ایوا راؤزنگ کا شمار برطانیہ کے امیر ترین خواتین میں ہوتا ہے اور انہیں اپنے والد سے پانچ اعشاریہ چار ارب پونڈ کا کاروبار ورثے میں ملا تھا۔

ایوا کی ہلاکت کی وجہ تاحال نامعلوم

بھارت: بچی کو پیشاب پینے کی سزا

بچوں کے استحصال کی رپورٹیں عام نہیں ہو پاتی ہیں
بھارت کی ریاست مغربی بنگال کی وشو بھارتی یونیورسٹی کے ایک سکول میں پانچویں جماعت میں پڑھنے والی ایک بچی کو اپنا ہی پیشاب پینے کی سزا دی گئی ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس لڑکی کے والدین نے بتایا کہ افسوسناک بات یہ ہے کہ اس معاملے کو اٹھانے کی پاداش میں انھیں بھی لاک اپ میں رہنا پڑا۔

واضح رہے کہ والدین کی پولیس میں شکایت کے بعد یونیورسٹی انتظامیہ نے ان پر ہاسٹل میں زبردستی گھسنے کی شکایت کردی تھی۔

عدالت سے ضمانت پر رہا ہونے کے بعد پیر کو اس دس سالہ بچی کے والد منوج مستری نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں اس واقعے کا علم اس وقت ہوا جب ان کی اہلیہ نے اپنی بچی کی خیریت جاننے کے لیے وارڈن کو فون کیا۔

انھوں نے بتایا: ’مجھے اس واقعے سے کافی صدمہ پہنچا ہے کہ یہ ربندرناتھ ٹیگور کے قائم کیے ہوئے ادارے میں ہوا ہے۔ میں اپنی بچی کے ساتھ کھڑا ہوں۔ یہاں اب اپنی بچی کو رکھوں گا یا نہیں اس کا فیصلہ میں اپنی اہلیہ کے ساتھ صلاح مشورے کے بعد ہی کروں گا۔‘

پولیس کو اپنی شکایت میں لڑکی کے والدین نے بتایا کہ یہ واقعہ سنیچر کی رات کا ہے جب ان کی بچی نے بستر گیلا کردیا تھا۔

انھوں نے بتایا کہ اس سکول کی وارڈن نے خود ہی انھیں بتایا کہ ’اس خراب عادت کو چھڑانے کے لیے انھوں نے بچی کو پیشاب پلایا۔‘

مبینہ طور پر یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اس کے گیلے بستر پر نمک چھرک کر لڑکی سے اسے چاٹنے کی سزا دی گئی۔

لڑکی کے والد نے یہ بھی بتایا کہ اس واقعے کے بہت سارے گواہ ہیں۔

شانتی نکیتن وشوبھارتی کی انتظامیہ نے بی بی سی کو بتایا کہ اس معاملے کی جانچ کے لیے ایک چار رکنی کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہےلیکن وہ اس بابت مزید کچھ کہنے سے گریز کررہے ہیں۔

قومی کمیشن برائے تحفظ حقوق اطفال کی چیئر پرسن شانتا سنہا نے کہا کہ اس واقعے سے پورے ملک میں ‏غصہ پایا جاتا ہے اور ان کے کمیشن نے سکول سے جواب طلب کیا ہے۔

انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ایسے واقعات پہلے بھی ہوتے رہے ہیں لیکن لوگوں میں بیداری اور میڈیا کی مدد سے یہ باتیں سامنے آرہی ہیں۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’افسوس کی بات یہ ہے کہ شانتی نکیتن جیسے ادارے میں جسے رابندر ناتھ جیسے عظیم شخص نے تعمیر کیا تھا وہاں اس قسم کے واقعات رونما ہوں۔‘

بچی کو پیشاب پینے کی سزا

انگلینڈ نے آخری ون ڈے بھی جیت لیا

اولڈ ٹریفرڈ میں انگلینڈ نے آسٹریلیا کے خلاف سیریز کا پانچویں اور آخری ایک روزہ میچ سات وکٹ سے جیت لیا ہے۔

اس میچ میں انگلینڈ کو فتح کے لیے انتیس اوورز میں ایک سو اڑتیس رنز کا ہدف ملا جو اس نے اٹھائیسویں اوور میں تین وکٹوں کے نقصان پر حاصل کرلیا۔

بارش سے متاثر ہونے والا یہ میچ بتیس اوورز فی اننگز تک محدود کیا گیا اور آسٹریلیا نے پہلے کھیلتے ہوئے مقررہ اوورز میں سات وکٹ کے نقصان پر ایک سو پینتالیس رنز بنائے۔

آسٹریلیا کی جانب سے بیلی چھیالیس رنز کے ساتھ سب سے کامیاب بلے باز رہے جبکہ انگلینڈ کے لیے ٹریڈ ویل اور بوپارا نے دو دو وکٹیں لیں۔

آسٹریلوی اننگز کے بعد میچ بارش کی وجہ سے دوبارہ رکا رہا اور انگلینڈ کی اننگز کو انتیس اوورز تک محدود کرکے اسے ایک سو اڑتیس رنز کا نظرِثانی شدہ ہدف دیا گیا۔

انگلینڈ کی جانب سے الیسٹر کک اور روی بوپارا نے نصف سنچریاں بنائیں۔ کک اٹھاون رنز بناکر ہلفنہاس کی گیند پر آؤٹ ہوئے جبکہ بوپارا باون رنز پر ناقابلِ شکست رہے۔

اس سیریز میں انگلینڈ نے لارڈز کے پہلے ون ڈے میں پندرہ رنز جبکہ اوول میں چھ وکٹ سے کامیابی حاصل کی تھی جبکہ تیسرا میچ بارش کی وجہ سے منسوخ کردیا گیا تھا۔

سیریز کے چوتھے میچ میں انگلینڈ نے آسٹریلیا کو آٹھ وکٹ سے شکست دی تھی۔

انگلینڈ نے آخری ون ڈے بھی جیت لیا

دنیا کی سب سے پرکشش ادارکارہ پاکستانی !!

’ستاروں کی دنیا‘ یعنی بالی ووڈ میں اس خبر نے ہلچل مچا دی ہے کہ دنیابھر میں سب سے پرکشش اداکارہ،جس نے انجلینا جولی اور برٹنی اسپیئر کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے، ایک پاکستانی لڑکی ہے۔

ہالی ووڈ کی ایک معروف فیشن میگزین نے حال ہی میں اپنے قارئین سے ایک پول کے ذریعے رائے مانگی تھی کہ ان کی نظر میں سب سےزیادہ ’پرکشش‘ دلکش اداکارہ کون سی ہے؟ اس کے جواب میں قارئین کی اکثریت نے ’وینا ملک‘ کو دنیا کی سب سے دلکش اداکارہ قرار دیا۔

آپ کو یہ جان کر بھی حیرت ہوگی کہ اس پول میں ان کا مقابلہ برٹنی اسپیئر، انجلینا جولی، پیرس ہلٹن، کیمرون ڈیاز، میگن فوکس کم کردشین، پونم پانڈے، سونم کپور اور شلپا شیٹھی سےتھا۔

اس پول میں حصہ لیا دنیا بھر میں پھیلے ہوئے وینا ملک پرستاروں نے۔ اس فیصلے کے بعد وینا ملک کو دنیا کی سب سے دلکش اداکارہ کا تاج بھی پہنایا گیا۔

پچھلے دنوں وینا ملک کے چاہنے والوں نے ایک اور کمال کر دکھایا۔ گذشتہ جمعے بھارتی شہر بنگلور میں اس وقت شہر کی ایک اہم شاہراہ پر20 ہزار لوگ امڈ آئے جب انہیں یہ پتا چلا کہ وینا ملک اپنی پہلی کنڑ فلم ”دی ڈرٹی پکچر“ کی شوٹنگ کے لئے سیٹ پر پہنچی ہیں۔

بیس ہزار تعداد کچھ کم نہیں ہوتی ۔ ٹریفک تو جام ہوا سو ہوا علاقے بھر کے تجارتی مراکز بھی اس رش سے بری طرح متاثر ہوئے۔ جب ہجوم بے قابو ہونے لگا تو پولیس کو طلب کرنا پڑا۔فلم میکرز کا کہنا ہے کہ انہوں نے وینا کی آمد کو خفیہ رکھا تھا مگر ”نجانے کیسے خبر ہوگئی زمانے کو۔“
 

جنوبی افریقہ کے وکٹ کیپر مارک باؤچر ریٹائر

مارک باؤچر نے جنوبی افریقہ کی جانب سے ایک سو سینتالیس ٹیسٹ میچ کھیلے ہیں۔
جنوبی افریقہ کے وکٹ کیپر مارک باؤچر نے بین الاقوامی کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا ہے۔ یہ فیصلہ انہوں نے انگلینڈ کے خلاف شروع ہونے والی سیریز کے دوران آنکھ پر چوٹ لگنے کے بعد کیا۔

واضح رہے کہ پینتیس سالہ کرکٹر مارک باؤچر کی آنکھ انگلش کاؤنٹی سمر سیٹ کے خلاف وکٹ کیپنگ کرتے ہوئے گیند لگنے سے زخمی ہوگئی تھی۔

جنوبی افریقہ کے کپتان گراہم سمتھ کو بھیجے جانے والے ایک پیغام میں مارک باؤچر کا کہنا تھا کہ انہیں غیر یقینی ریکوری کا سامنا ہے۔

مارک باؤچر دنیائے کرکٹ کے وہ واحد وکٹ کیپر ہیں جنہوں نے ٹیسٹ کرکٹ میں وکٹوں کے پیچھے سب سے زیادہ پانچ سو پچپن کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا جو ایک ریکارڈ ہے۔


انہو ں نے ایک روزہ بین الاقوامی میچوں میں بھی چار سو پچیس کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔

جنوبی افریقہ کے سنہ انیس سو اٹھانوے، دو ہزار اور دو ہزار چھ میں سال کے بہترین کھلاڑی قرار دیےجانے والے مارک باؤچر نے ٹیسٹ میچوں میں تیس رنز کی اوسط سے پانچ ہزار پانچ سو پندرہ جبکہ ایک روزہ میچوں میں انتیس رنز کی اوسط سے چار ہزار چھ سو چھیاسی رنز بنائے۔

مارک باؤچر نے اپنی ریٹائرمنٹ کا اعلان اس الفاظ میں کیا ’میں بہت دکھ اور تکلیف کے ساتھ اپنی ریٹائرمنٹ کا اعلان کررہا ہوں۔ میری آنکھ میں لگنے والی چوٹ کی شدت کی وجہ سے میں دوبارہ بین الاقوامی کرکٹ نہیں کھیل پاؤں گا۔‘

ان کا کہنا تھا ’میں نے انگلینڈ کے دورے کے لیے بہت تیاری کی تھی، میں نے اپنی کیرئیر میں اس سے پہلے کسی دورے کے لیے اتنی اچھی تیاری نہیں کی۔ میں نے کبھی بھی اس طرح اپنی ریٹائرمنٹ کے اعلان کے بارے میں سوچا نہیں تھا تاہم حالات نے مجھے ایسا کرنے پر مجبور کیا۔‘

مارک باؤچر نے کہا کہ وہ اپنے مداحوں اور اجنبی افراد کا شکریہ ادا کرنا چاہتے ہیں جنہوں نے گزشتہ چوبیس گھنٹے میں ان کی حوصلہ افزائی کی۔

جنوبی افریقہ کے مشہور وکٹ کیپر بلے باز کا کہنا تھا ’میں اپنے ملک واپس جارہا ہوں اور میں اپنی ٹیم کے لیے دورۂ انگلینڈ کے دوران نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں۔‘

دوسری جانب جنوبی افریقہ کی کرکٹ ٹیم کے کپتان گراہم سمتھ نےمارک باؤچر کو ایک پیغام دیتے ہوئے کہا ’باؤچ ہم نے ایک لمبا سفر اکٹھے طے کیا اور ہم ان حالات میں تمہاری ریٹائرمنٹ کے اعلان کی وجہ سے بہت افسردہ ہیں۔‘

جنوبی افریقہ کے وکٹ کیپر مارک باؤچر ریٹائر

آخری ٹیسٹ:سری لنکا 337 رنز پر آؤٹ

پریرا نے 75 رنز کی شاندار اننگز کھیلی
پاکستان نے پہلی اننگز میں 226 رنز بنائے تھے اور یوں میزبان ٹیم کو 111 رنز کی برتری حاصل ہو گئی ہے۔

پالی کیلے میں تیسرے اور آخری کرکٹ ٹیسٹ میچ کی پہلی اننگز میں سری لنکا کی ٹیم 337 رنز بنا کر آؤٹ ہوگئی ہے۔

پاکستان نے پہلی اننگز میں 226 رنز بنائے تھے اور یوں میزبان ٹیم کو 111 رنز کی برتری حاصل ہوگئی ہے۔

کھیل کے اختتام پر پاکستان نے دوسری اننگز میں ایک وکٹ کے نقصان پر 27 رنز بنائے تھے۔ ابتدائی بلے باز توفیق عمر صرف چار رنز بنا کر کلاسیکرا کی گیند پر ایل بی ڈبلیو آؤٹ ہوگئے۔

منگل کو میچ کے تیسرے روز سری لنکا نے 44 رنز تین کھلاڑی آؤٹ پر کھیل کا آغاز کیا اور پراناویتانا اور سماراویرا نے ایک اچھی شراکت قائم کر کے اپنی ٹیم کی پوزیشن کو مستحکم کیا۔ دونوں نے بالترتیب 75 اور 73 رنز بنائے۔

بعد میں آنے والے میزبان بلے باز ماسوائے پریرا کے کوئی خاطر خواہ کارکردگی نہ دکھا سکے۔ پریرا نے 75 رنز کی شاندار اننگز کھیلی۔

پاکستان کی طرف سے جنید خان نے پانچ، سعید اجمل نے تین جب محمد سمیع اور عمر گل نے ایک ایک وکٹ حاصل کی۔

دوسرے روز کا کھیل بارش کی وجہ سے نہیں ہوسکا تھا۔

تین ٹیسٹ میچوں کی سیریز میں سری لنکا کو ایک، صفر سے برتری حاصل ہے۔
 

کراچی کا نوجوان انٹرنیٹ پر فحش مواد کے خلاف جدوجہد کی علامت بن گیا

اسلام آباد (عثمان منظور) انٹرنیٹ کے ذریعے آنے والا فحش مواد جو تیزی سے پھیلنے والی سماجی برائی اور معاشرے کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے کا باعث بن رہا ہے، کے خلاف کراچی کا 15 سالہ نوجوان عبداللہ غازی جدوجہد کی ایک علامت کے طور پر ابھرا ہے۔ عموماً اس عمر میں نوجوان کھیل کود اور لڑائی جھگڑوں میں حصہ لیتے ہیں تاہم اس نوجوان نے ایک انتہائی سنجیدہ لڑائی کا راستہ اختیار کیا۔ عبداللہ غازی نے اس کے خلاف لڑائی کا بیڑہ اٹھایا اور اس سلسلے میں پی ٹی اے، وزارت آئی ٹی اور چیف جسٹس پاکستان سے رابطہ کیا کہ وہ فحش اور قابل اعتراض مواد کو چیک کریں بظاہر یہ کام ناممکن نظر آتا ہے پر یہ نوجوان پہلے ہی 7 لاکھ 60 ہزار ویب لنکس جن پر قابل اعتراض مواد موجود ہے، کے متعلق پی ٹی اے کو آگاہ کر چکا ہے تاہم اس کے اس کام کو سراہنے کے بجائے مغربی خود پسندوں اور نام نہاد لبرلز نے اس کے خلاف مہم شروع کردی۔ گزشتہ برس عبداللہ غازی نے چیف جسٹس پاکستان کو میڈیا اور انٹرنیٹ کے ذریعے تفریح کے نام پر پھیلنے والے فحش اور قابل اعتراض مواد کا نوٹس لینے کیلئے خط لکھا۔ اعلیٰ عدلیہ کے انسانی حقوق سیل نے اس خط پر کام کا آغاز کیا اور پی ٹی اے اور وزارت آئی ٹی کو اس ضمن میں اپنے جواب داخل کرانے کا کہا۔ ابتداء میں پی ٹی اے اور وزارت آئی ٹی نے اس نوجوان کے خط کو اہمیت نہ دی اور نتیجتاً عبداللہ غازی نے چیف جسٹس پاکستان تک رسائی حاصل کی۔ عبداللہ کی ٹیم نے میڈیا سے رابطہ کیا اور روزنامہ جنگ میں کالم لکھے جانے کے بعد سپریم کورٹ نے معاملے کا نوٹس لے لیا۔

روزنامہ جنگ

چائے بھارت کا قومی مشروب

اب بھارت میں لوگ چائے کی چسکی لے کر راحت ہی نہیں فخر بھی محسوس کرسکتے ہیں کیونکہ چائے جلد ہی قومی مشروب بننے والی ہے۔

بھارتی منصوبہ بندی کمیشن کے نائب صدر مونٹیک سنگھ آہلووالیہ نے کہا کہ چائے کو اگلے سال اپریل میں قومی مشروب کا درجہ دے دیا جائے گا۔

بھارت کی شمالی مشرقی ریاست آسام کے جورہاٹ میں آسام ٹی پلانٹرس ایسوسی ایشن کے 75 ویں سالگرہ کے موقع پر منعقد ایک تقریب میں مونٹیک سنگھ آہلووالیہ نے کہا کہ ’آئندہ برس سترہ اپریل کو چائے کو قومی مشروب کے طور پر اعلان کردیا جائے گا۔‘ سترہ اپریل آسام میں چائے اگانے والے پہلے بھارتی اور 1857 کے بغاوت کے ہیرو منيرام دیوان کا یوم پیدائش بھی ہے۔

منیرام دیوان سال 1806 میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ ایک دن کلکتہ میں گھوم رہے تھے کا انہوں نے کچھ انگریز تاجروں کو چائے کے کاروبار سے ہونے والے فائدے کے بارے میں بات کرتے سنا۔

منیرام دیوان نے ان تاجروں کو بتایا کہ آسام، اروناچل پردیش کی سرحد پر قبائلی کچھ اسی طرح کے پودے اگاتے ہیں۔ دیوان کی بات سن کر آسام میں جاکر سب سے پہلے چائے اگانے والے آدمی تھے رابرٹ بروس۔

دیوان نے سال 1845 میں اپنا خود چائے کے باغات لگائے۔ بعد میں انہوں نے انگریزوں کے خلاف 1857 کے غدر میں بھی حصہ لیا جس کی وجہ سے انگریزوں نے انہیں پھانسی پر چڑھا دیا۔

بھارت میں چائے کی اہمیت کے بارے میں بتاتے ہوئے مونٹیک سنگھ اہلووالیہ نے کہا ’چائے کے اہمیت کے پیچھے دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ یہاں کام کرنے والی ملازمین میں نصف خواتین ہیں اور چائے کی صنعت منظم سیکٹر میں سب سے زیادہ ملازمتیں دینے والی صنعت ہے۔‘

بھارت دنیا میں کالی چائے کی سب سے زیادہ پیداوار کرنے والا ملک ہے اور پوری دنیا میں کالی چائے سب سے زیادہ بھارت میں ہی پی جاتی ہے ۔ ایک سروے کے مطابق بھارت میں 83 فیصد گھروں میں چائے کا استعمال ہوتا ہے۔

کوئل ۔۔ دس ہزار میل پرواز کرنے والا پرندہ

اگر آپ صبح سویرے سیر پر جاتے ہیں تو آپ نے درختوں کے قریب سے گذرتے ہوئے ایک پرندے کی خوبصورت اور سریلی آواز ضرور سنی ہوگی۔ دل کو چھو لینے والی یہ آواز ایک لمحے کے لیے رک پلٹ کر دیکھنے پر مجبور کردیتی ہے۔ یہ خوبصورت آوازایک چھوٹے سے پرندے کوئل کی ہے۔

کوئل اور ہر گھنٹے کے بعد کوئل جیسی آواز نکالنے والے کلاک اب ماضی کا حصہ بنتے جارہے ہیں۔ زیادہ دور پرے کی بات نہیں ہے کہ باغوں اور پارکوں میں کوئل کی سریلی اور خوبصورت آواز اکثر سنائی دیتی تھی اور بہت سے گھروں کی دیواروں پر ایسے کلاک نظر آتے تھے جن میں ہر گھنٹے کے بعد ایک چھوٹی سی کھڑکی کھلتی تھی اور ایک ننھی سی کوئل اپنی چونچ باہر نکال کر وقت کا اعلان کرتی تھی۔

کوکو کلاک موبائل فونز اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے دیگر گھریلو آلات کی بھینٹ چڑھ چکا ہے، جب کہ آب و ہوا کی تبدیلیاں ہمارے باغوں اور پارکوں کوکوئل کے سریلے نغموں سے محروم کررہی ہیں۔ جنوبی ایشیا میں کوئل کی آبادی میں کتنی کمی واقع ہوئی ہے؟ اس بارے میں مستند اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں لیکن برطانیہ میں ایک حالیہ مطالعے سے پتا چلا ہے کہ 1995ء کے مقابلے میں 2010ء میں اس خوش الحان پرندے کی تعداد آدھی ہوچکی تھی۔

کم ہی لوگوں کو یہ علم ہے کہ کوئل ایک خانہ بدوش پرندہ ہے اور وہ خوراک کی تلاش اور موسموں کی سختیوں سے بچنے کی خاطر ہر سال ہزاروں میل کا سفر کرتا ہے۔ یورپ میں یہ ننھا پرندہ افریقہ سے طویل سفر کے بعد وہاں آتا ہے اور سردیاں شروع ہوتے ہی واپسی کی پرواز شروع کردیتا ہے۔ آپ کو یہ جان کر یقیناً حیرت ہوگی کہ یہ ننھی سی جان ہرسال دس ہزار میل سے زیادہ پرواز کرتی ہے۔ اوراس سے بھی زیادہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ شمالی امریکہ کے سفر کے لیے یہ پرندہ چار ہزار میل کی ایک مسلسل اڑان میں بحیرہ کریبیئن عبور کرتا ہے۔

کوئل یا کوکو کی کئی اقسام ہیں جن کا وزن 15 گرام سے سوا پونڈ تک ہوتا ہے۔ مختلف اقسام کے پروں کی رنگت بھی مختلف ہوتی ہے اور کوئل کی نقل مکانی پر نظر رکھنے والے یورپی تحقیقی ادارے بی ٹو او کے مطابق کچھ اقسام نقل مکانی نہیں کرتیں اور کسی خاص علاقے میں مستقل طور پر رہتی ہیں۔

برطانوی سائنس دانوں کی ایک ٹیم نے، جو گذشتہ ایک سال سے کوئل پر تحقیق کررہی ہے، افریقہ سے برطانیہ پہنچنے والی کوئل کی پرواز کے راستوں کی مستند معلومات اکھٹی کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

اس تحقیق کے لیے پہلی بار جی پی ایس سے مدد لی گئی ہے اور سیٹلائٹ کے ذریعے ان کی پرواز پر نظر رکھ کر ڈیٹا مرتب کیا گیا ہے۔

ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر فل اٹکن سن کا کہنا ہے کہ اپنی تحقیق کے لیے انہوں نے پچھلے سال مئی میں نورفوک کے علاقے سے پانچ نر کوئل پکڑے، اور پھر ایک خصوصی چھوٹے جی پی ایس کو ان کے بازوں کے ساتھ باندھنے کے بعد آزاد کردیا گیا۔ جس کے بعد ان کی پرواز کاریکارڈ مرتب کیا گیا۔

ڈاکٹر اٹکن سن کا کہنا ہے کہ ان پانچ میں سے دو پرندوں نے جن کے نام لاسٹر اور کرس رکھے گئے تھے، خزاں کا موسم شروع ہوتے ہی اپنی واپسی کی پرواز شروع کی اور وہ مختلف راستوں سےاٹلی اور سپین سے گذرتے، بحیرہ روم کے اوپر سے پرواز کرتے ہوئے افریقہ کے صحرائے اعظم میں داخل ہوئے اور سردیوں کے آغاز پر ایک برساتی جنگل میں پہنچ گئے۔ پھر جب موسم بدلنا شروع ہوا تو انہوں نے واپسی کے سفر کا آغاز کیا اور مختلف راستوں سے گذرتے اپریل کے آخر میں برطانیہ میں فورنوک کے اسی علاقے میں پہنچ گئے جہاں سے ایک سال قبل انہیں پکڑا گیا تھا۔

پرندوں پر ایک اور حالیہ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ 1995ء سے یورپ میں کوئل سمیت پرندوں کی دوسری کئی اقسام کی تعداد مسلسل گھٹ رہی ہے۔ ان میں قمری، فاختہ، بلبل اور ممولے بھی شامل ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق برطانیہ میں ہر سال کوئل کے دس ہزار سے بیس ہزار جوڑے گرمیاں گذارنے آتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مادہ کوئل اپنے واپسی کے سفر پر روانگی سے قبل عموماً کوئے کے گھونسلے میں انڈے دیتی ہے۔ اور کوئے کو اس وقت پتا چلتا ہے کہ وہ کوئل کے انڈے سہتا اور اس کے بچے پالتا رہا ہے، جب وہ بولنا شروع کرتے ہیں۔ وہ انہیں گھونسلے سے باہر پھینک دتیا ہے۔ مگر تب تک وہ اڑنے کے قابل ہوچکے ہیں اور پھر گھونسلے سے بے دخل ہونے کے چند ہی ہفتوں کے بعد وہ افریقہ کے لیے اپنی پرواز شروع کردیتے ہیں۔

کوئل کی اقسام اپنے انڈے خود سہتی ہیں اور اپنے بچوں کی پرورش بھی خود کرتی ہیں۔

نئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ کوئل پرواز کے لیے مختلف راستے اختیار کرتا ہے۔ بالغ پرندے اپنا سفر پہلے شروع کرتے ہیں اور عموماً مارچ کے آخر یا اپریل کے شروع میں برطانیہ پہنچ جاتے ہیں اور پھر جولائی اگست میں ان کی واپسی شروع ہوجاتی ہے۔ جب کہ ان کے بچوں کی پرواز تقریباً ایک ماہ بعد شروع ہوتی ہے۔

صحرائے اعظم عبور کرنے سے پہلے یہ پرندے کچھ عرصہ مغربی افریقہ میں رکتے ہیں اور اپنے قیام کے دوران معمول سے زیادہ خوراک کھاتے ہیں جس سے ان کے وزن اور جسم میں توانائی کی مقدار بڑھ جاتی ہے۔ اپنی اسی توانائی کے بل پر وہ صحرا ئے اعظم عبور کرتے ہیں۔

ڈاکٹر فل اٹکن سن کا کہنا ہے کہ ہمیں پتا چلا ہے کہ غیرمعمولی موسمی تبدیلیاں ان کی ہلاکت کا سبب بن رہی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ تحقیق میں شامل پہلا کوئل افریقی ملک کیمرون سے گذرتے ہوئے سخت موسم کے باعث ہلاک ہوگیا تھا۔

ماہرین کے مطابق کوئل کا اصل وطن افریقہ ہے اور وہ خوراک کی تلاش میں یورپ کا رخ کرتا ہے۔

ڈاکٹر اٹکن سن نے ٹیلی گراف کے ساتھ اپنے انٹرویو میں موسمیاتی تبدیلیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان تبدیلوں کے باعث اس سال فروری کے آخر میں ہی کوئل کی آمد کاسلسلہ شروع ہوگیا تھا، جب کہ ان کی آمد عموماً اپریل اور مئی میں ہوتی ہے۔

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ نر اور مادہ کوئل کی عادات کافی مختلف ہیں۔ برطانیہ میں نر پرندوں کی آمد پہلے شروع ہوتی ہے اور وہ گرمیاں گذارنے کے لیے ایسی جگہوں کا انتخاب کرتے ہیں جہاں انہیں اپنے لیے اچھے جیون ساتھی ملنے کی توقع ہوتی ہے۔ جب کہ مادہ پرندے کئی ہفتوں کے بعد وہاں پہنچنے ہیں اوران کی پرواز کے راستے بھی مختلف ہوتے ہیں۔

ڈاکٹر اٹکن سن کی ٹیم مادہ کوئل کی پرواز کے راستوں کا نقشہ بنانے کے لیے اس سال ان پر تحقیق کررہی ہے۔

اب کیا کسی کو چاہیں کہ ہم کو تو ان دنوں

وہ سلسلے وہ شوق وہ نسبت نہیں رہی
اب زندگی میں ہجر کی وحشت نہیں رہی

پھر یوں ہوا کہ کوئی اپنا نہیں رہا
پھر یوں ہوا کہ درد میں شدت نہیں رہی

ٹوٹا ہے جب سے اس کی مسیحائی کا طلسم
دل کو کسی مسیحائی کی حاجت نہیں رہی

پھر یوں ہوا کہ ہوگیا مصروف وہ بہت
اور ہم کو یاد کرنے کی فرصت نہیں رہی

اب کیا کسی کو چاہیں کہ ہم کو تو ان دنوں
خود اپنے آپ سے بھی محبت نہیں رہی

یہ ہے تھائی لینڈ کی وزیراعظم

بنکاک، یہ کسی سٹیج ڈرامے کا منظر نہیں بلکہ عقیدت و احترام کا اظہار ہے، تھائی لینڈ کے بادشاہ بھومی بول آدلیا دیج کی 84ویں سال گرہ کے موقع پر منعقد ہونے والی تقریب میں تھائی وزیراعظم ینک لک شنواترا، شہزادی مہا چکری اندھورن کے قدموں میں بیٹھ کر باتیں کررہی ہیں۔ (رائٹرز)

تمہارے شہر کا موسم بڑا سہانا لگے

تمہارے شہر کا موسم بڑا سہانا لگے 
میں ایک شام چرا لوں اگر برا نہ لگے 

تمہارے بس میں اگر ہو تو بھول جاؤ ہمیں 
تمہیں بھلانے میں شاید مجھے زمانہ لگے 

ہمارے پیار سے جلنے لگی ہے اک دنیا 
دعا کرو کسی دشمن کی بددعا نہ لگے 

نہ جانے کیا ہے اس کی بیباک آنکھوں میں 
وہ منہ چھپا کے جائے بھی تو بےوفا نہ لگے 

جو ڈوبنا ہے تو اتنے سکون سے ڈوبو 
کہ آس پاس کی لہروں کو بھی پتا نہ لگے 

ہو جس ادا سے میرے ساتھ بےوفائی کر کہ 
تیرے بعد مجھے کوئی بےوفا نہ لگے 

وہ پھول جو میرے دامن سے ہوگیا منسوب 
خدا کرے انہیں بازار کی ہوا نہ لگے 

تم آنکھ موند کے پی جاؤ زندگی قیصر 
کہ ایک گھونٹ میں شاید یہ بدمزا نہ لگے