جمعہ, نومبر 23, 2012

چین: 90 دنوں میں دنیا کی بلند ترین عمارت کی تعمیر کا منصوبہ

اس عمارت کا نقشہ تیار کرنے والے وہی انجینیئرز ہیں جنہوں نے دبئی میں ’برج الخلیفہ‘ پر بھی کام کیا تھا۔ برج الخلیفہ 828 میٹر کے ساتھ اس وقت دنیا کی بلند ترین عمارت ہے۔ چین کی ایک تعمیراتی کمپنی نے کہا ہے کہ اس کے پاس ایک ایسی ٹیکنالوجی موجود ہے جس کی مدد سے وہ دنیا کی سب سے بلند عمارت برسوں اور مہینوں میں نہیں بلکہ صرف چند ہفتوں میں تعمیر کرسکتی ہے۔ بورڈ آف سسٹین ابیل بلڈنگ کارپوریشن نے اس ہفتے تعمیرات سے متعلق ایک جریدے ’کانسٹرکشن ویک‘ کو بتایا کہ اسے سوفی صد یقین ہے کہ وہ 220 منزلہ ایک عمارت، جس کا شمار دنیا کی سب سے بلند عمارت کے طور پر کیا جائے گا، صرف 90 دنوں میں کھڑی کرسکتی ہے۔ کمپنی چین کے جنوب وسطی شہر چانگشا میں 838 میٹربلند ایک دیو ہیکل عمارت تعمیر کرنے کی تیاری کر رہی ہے، جس میں 31 ہزار افراد کے رہنے کی گنجائش موجود ہوگی۔

دنیا کی اس سب سے بلند عمارت کو بنانے کے لیے پہلے سے تیار شدہ حصوں کو جوڑنے کی ٹیکنالوجی استعمال کی جائے گی۔ کمپنی کا کہنا ہے کہ وہ ایک دن میں پانچ منزلیں تعمیر کرے گی۔ سسٹین ایبل بلڈنگ کارپوریشن نے کہا ہے کہ وہ حکومت سے منظوری ملنے کے بعد اس سال کے آخر میں عمارت کی تعمیر شروع کرنے کا ارادہ رکھتی ہے جو 90 دن کے اندر اپنی تکمیل کے بعد دنیا کی سب سے اونچی عمارت ہونے کا اعزاز حاصل کرلے گی۔ کمپنی کے بیان کے مطابق 31 ہزار افراد کی گنجائش رکھنے والی اس عمارت میں ان کے لیے ہسپتال، سکول، شاپنگ سینٹر، دفاتر اور شہری زندگی کی تمام سہولتیں موجود ہوں گی ۔

مستقبل کی اس سب سے بلند عمارت کا نقشہ برج خلیفہ تعمیر کرنے والے ماہرین نے بنایا ہے۔ دبئی میں واقعہ برج خلیفہ کا شمار اس وقت دنیا کی بلند ترین عمارت کے طور پر کیا جاتا ہے۔ یہ عمارت 828 میٹر بلند ہے جب کہ چانگشا میں بنائی جانے والی عمارت کی بلندی اس سے دس میٹر زیادہ ہوگی۔ اور اسے یہ اعزاز بھی حاصل ہوگا کہ اس کی تکمیل 90 دن کی ریکارڈ کم مدت میں ہوگی۔

چین: 90 دنوں میں دنیا کی بلند ترین عمارت تعمیر کرنے کا منصوبہ

گوگل ميپ کے ايک جزيرے کا کوئی وجود نہيں

آسٹريلوی سائنسدانوں کی ايک ٹيم نے يہ پتہ چلايا ہے کہ گوگل ميپس اور بعض دوسرے مشہور نقشوں ميں بھی ايک ايسا جزيرہ دکھايا گيا ہے جس کا کوئی وجود ہی نہيں ہے۔ ايک طبقات الارضی مہم کے دوران آسٹريليا کے سائنسدانوں نے يہ پتہ چلايا ہے کہ جنوبی بحرالکاہل کا ايک جزيرہ جسے گوگل ميپس کے عالمی نقشوں ميں دکھايا جاتا ہے، کوئی وجود ہی نہيں رکھتا۔ آسٹريلوی سائنسدانوں نے اس پراسرار جزيرے کا سراغ لگانے کی بہت کوشش کی ليکن وہ ناکام رہے۔

گوگل ارتھ اور ورلڈ ميپ ميں يہ جزيرہ سينڈی آئی لينڈ کے نام سے آسٹريليا اور فرانس کے زير حکومت نيو کيليڈونيا کے درميان دکھايا گيا ہے۔ TIMES کے ورلڈ ايٹلس ميں اس جزيرے کو سيبل آئی لينڈ کا نام ديا گيا ہے۔ ايک آسٹريلوی بحری تحقيی جہاز کے موسمياتی نقشوں ميں بھی اس جزيرے کو دکھايا گيا ہے ليکن جب اس جہاز نے جزيرے کو ديکھنے کے ليے سفر کيا تو اُسے بھی يہ جزيرہ کہيں بھی نہيں ملا۔ سڈنی يونيورسٹی کی ڈاکٹر ماريا سيٹون نے جہاز کے 25 روزہ سفر کے بعد خبر ايجنسی اے ايف پی کو بتايا: ’’يہ جزيرہ گوگل ارتھ اور دوسرے نقشوں پر دکھايا گيا ہے اور اس ليے ہم اس کی تصديق کرنا چاہتے تھے ليکن ہميں يہ جزيرہ کہيں نہيں ملا۔ ہم حيران ہيں۔ آخر نقشوں ميں يہ کيوں دکھايا گيا ہے؟‘‘

اس نظر نہ آنے والے جزيرے پر سوشل ميڈيا ميں بھی بحث شروع ہو گئی ہے۔ اس ميں چارلس لائڈ نے لکھا کہ يہ جزيرہ، ’سينڈی آئی لينڈ‘ ياہو ميپس اور بنگ ميپس ميں بھی دکھايا گيا ہے۔ ايک اور شخص نے لکھا کہ اُس نے فرانس کے ہائڈرو گرافک آفس سے يہ معلوم کرليا ہے حقيقتاً اس جزيرے کا کوئی وجود نہيں ہے اور اسے 1979 منں چارٹس سے مٹا ديا گيا تھا۔

گوگل نے اس بارے ميں کہا کہ وہ اپنے نقشوں کے بارے ميں آراء کو خوش آمديد کہتا ہے اور وہ لوگوں اور مستند ساتھيوں سے ملنے والی معلومات کو گوگل ميپس ميں جگہ دينے کی مسلسل کوشش کرتا رہتا ہے۔ گوگل کے ايک ترجمان نے خبر ايجنسی اے ايف پی کو بتايا کہ وہ قابل اعتماد پبلک اور تجارتی ڈيٹا کی مدد سے اپنے استعمال کرنے والوں کو نقشوں کے بارے ميں تازہ ترين اور بھرپور معلومات فراہم کرتے ہيں۔ ترجمان نے يہ بھی کہا کہ نقشوں اور جغرافيے کے بارے ميں ايک دلچسپ بات يہ ہے کہ دنيا مسلسل تبديل ہو رہی ہے۔

گوگل ميپ کے ايک جزيرے کا کوئی وجود نہيں

بلیو کارڈ سکیم کا جرمنی میں مستقبل

بلیو کارڈ کیا ہے؟ اس بارے میں زیادہ لوگوں نے ابھی تک کوئی خاص دھیان نہیں دیا ہے۔ یہ امریکی گرین کارڈ کا یورپی ورژن ہے۔ چونکہ یہ کارڈ نیلے رنگ کا ہے، اس لیے اسے بلیو کارڈ کہا جا رہا ہے۔

غیر ملکی ہنر مند افراد کو یورپی یونین میں ملازمتوں کے موقع فراہم کرنے والے اس پروگرام کے بارے میں جرمنی میں کوئی زیادہ دلچسپی نہیں لی جا رہی۔ شاید اس حوالے سے جرمنی کو ابھی مزید محنت کرنا ہو گی۔

اگست میں متعارف کروائے گئے اس ’جاب پرمٹ‘ کا مقصد یہ تھا کہ ملازمت کے خواہاں اعلی تربیت یافتہ افراد کو کم رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑے۔ تب سے ہی ایسے ہنر مند افراد جو یورپی یونین کی رکن ریاستوں سے تعلق نہیں رکھتے، انہیں ملازمتوں کے حصول کے حوالے سے درپیش مسائل میں کمی پیدا ہوئی ہے۔ بلیو کارڈ کی بدولت یونیورسٹی سے فارغ التحصیل نوجوان ایسی ملازمتیں کر سکیں گے، جن سے وہ سالانہ 44 ہزار آٹھ سو یورو تک کما سکیں گے۔ اس کارڈ سے قبل سالانہ 66 ہزار یورو تک کمانے کی اجازت تھی۔ ’جاب پرمٹ‘ جیسے بلیو کارڈ کا نام دیا جا رہا ہے، ابتدائی طور پر تین برس کے لیے جاری کیا جائے گا۔ اس کارڈ کی کامیابی کے حوالے سے جرمنی کے مختلف حلقوں میں ایک بحث جاری ہے۔ جرمن چیمبر آف انڈسٹریز اینڈ کامرس سے منسلک Stefan Hardege کے بقول یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ یہ سکیم ناکام ہو گئی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جرمن حکومت کو اس حوالے سے اپنی ’جاب مارکیٹ‘ کو دلکش بنانے کے لیے مزید کوشش کرنا ہو گی تاکہ ہنر مند افراد کو زیادہ مؤثر انداز میں متوجہ کیا جا سکے۔

جرمنی میں انضمام و مہاجرت SVR نامی کونسل سے وابستہ Gunilla Fincke بھی کہتی ہیں کہ بلیو کارڈ کو ابھی سے ہی ناکام قرار دے دینا مناسب نہیں ہو گا۔ وہ کہتی ہیں کہ کئی عشروں کے بعد جرمنی کے بارے میں یہ تاثر پیدا ہوا تھا کہ یہ ایک ’نان امیگریشن‘ ملک ہے اور اب پہلی مرتبہ ایک ایسا قانون بنا دینے سے یہ توقع نہیں کرنا چاہیے کہ برسوں پرانا یہ تاثر راتوں رات ہی ختم ہو جائے گا۔

جرمنی میں ملازمتوں کے مواقع  
جرمنی میں متعدد صنعتوں میں کئی برسوں سے ہی ہنر مند افراد کی کمی پائی جا رہی ہے۔ کار سازی اور انجنیئرنگ کے علاوہ تحقیق اور نرسنگ میں بھی اعلیٰ تربیت یافتہ افراد کا نہ ہونا ایک مسئلہ تصور کیا جاتا ہے۔ Hardege کہتے ہیں کہ یہ ایسے شعبے ہیں، جہاں کئی کمپنیوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ نہ صرف یہ صنعتیں بلکہ اس کے علاوہ ٹریڈ کے شعبے میں بھی ہنر مند افراد کی کمی نوٹ کی گئی ہے۔ لیبر مارکیٹ پر تحقیق کرنے والے ایک انسٹی ٹیوٹ IZA کے ایک اندازے کے مطابق جرمنی میں 2020ء تک دو لاکھ 40 ہزار انجنیئروں کی کمی پیدا ہو جائے گی۔

کولون انسٹی ٹیوٹ برائے اقتصادی تحقیق IW سے منسلک کرسٹوف میٹزلر کے خیال میں غیر ملکی ہنر مند افراد کے لیے جرمنی میں ملازمت کرنے کے حوالے سے بلیو کارڈ ایک واضح اور مثبت اشارہ ہے۔ تاہم وہ قائل ہیں کہ اس حوالے سے ایک جارحانہ تشہیری مہم کی ضرورت بھی ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ جرمنی کی 12 سو پچاس کمپنیوں نے کھلے عام کہہ رکھا ہے کہ وہ غیر ملکی ہنر مند افراد کو ملازمتیں فراہم کرنے کے لیے تیار ہیں۔

ڈگری اور قابلیت کو تسلیم کرنا
جرمنی میں سکونت پذیر ایسے بہت سے افراد کو ملازمتیں تلاش کرنے میں مسائل کا سامنا رہا ہے، جنہوں نے بیرون ملک سے تعلیم حاصل کر رکھی ہے۔ اکثر اوقات ایسے افراد کی ڈگری یا قابلیت کو سرکاری طور پر تسلیم نہں کیا جاتا رہا، اس لیے وہ اپنے شعبے میں ملازمت حاصل کرنے میں ناکام ہو رہے ہیں۔ کرسٹوف میٹزلر حکومت کی طرف اس رکاوٹ کو بھی دور کرنے کو خوش آئند قرار دیتے ہیں۔ اس حوالے سے 'bq-portal' نامی ایک آن لائن پلیٹ فارم تخلیق کیا گیا ہے، جہاں غیر ملکی کمپنیاں اور چیمبر آف کامرس مختلف ممالک کے نظام تعلیم اور ووکیشنل ٹریننگ سسٹم میں مماثلتیں تلاش کر سکتی ہیں۔

جب جرمنی میں غیر ملکی ڈگری یا قابلت کو تسلیم کیا جاتا ہے تو عمومی طور پر ان کا جرمنی میں رائج نظام تعلیم سے تقابلی جائزہ کیا جاتا ہے۔ دوسری صورت میں جرمنی میں کام کرنے والے غیر ملکی خواہشمند افراد ان خصوصی سکیموں سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں، جن کی بدولت وہ مطلوبہ اضافی کوالیفیکیشن حاصل کر سکتے ہیں۔

بلیو کارڈ سکیم کا جرمنی میں مستقبل

اینٹ کا جواب پتھر سے

اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں

جمعرات, نومبر 22, 2012

بحیرہ جنوبی چین غیر معمولی دلچسپی کا مرکز

اس کا جغرافیائی محل وقوع، مچھلی اور تیل و گیس کے بڑے ذخائر اسے بہت زیادہ پرکشش بنانے کی اہم ترین وجوہات ہیں۔ خاص طور سے اس کے ارد گرد واقع اُن دس ریاستوں کے لیے۔

 بحیرہ جنوبی چین، چین کے جنوب میں واقع ایک سمندر ہے۔ یہ بحر الکاہل کا حصہ اور سنگاپور سے لے کر آبنائے تائیوان تک 35 لاکھ مربع کلو میٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ یہ پانچ ابحار ’اقیانوس، کاہل، ہند، منجمد جنوبی، منجمد شمالی‘ کے بعد بڑا آبی جسم ہے۔

اس کا جغرافیائی محل وقوع، مچھلی اور تیل و گیس کے بڑے ذخائر اسے بہت زیادہ پرکشش بنانے کی اہم ترین وجوہات ہیں۔ خاص طور سے اس کے ارد گرد واقع اُن دس ریاستوں کے لیے یہ بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے جو اس کے کچھ حصوں کے دعوے دار ہیں۔ ان میں چین، تائیوان، فلپائن، ملائیشیا، برونائی، ویتنام، انڈونیشیا، سنگاپور، تھائی لینڈ اور کمپبوڈیا شامل ہیں۔

بحیرہ جنوبی چین میں سینکڑوں جزائر اور ساحلی سنگستان پائے جاتے ہیں۔ ویتنامی اسے مشرقی سمندر کہتے ہیں۔ جزائر کے سب سے زیادہ متنازعہ گروپوں میں ’پاراسل جزائر‘، جنہیں چین میں Xisha اور ویتنام میں ہوانگ سا کے طور پر جانا جاتا ہے، اسپراٹلی جزائر جنہیں چین میں نانشا کوانڈو، ویتنام میں ترونگ سا جبکہ فلپائن میں کاپولان یا کالایان کہا جاتا ہے۔ یہ سمندر باقی دنیا کے لیے بھی غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ یہ یورپ، افریقہ، مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا کو مشرقی ایشیا سے ملاتا ہے۔ چین کی تیل کی قریب تمام برآمدات جنوبی چین کے سمندر سے پہنچتے ہیں جبکہ چین سے یورپ اور افریقہ جانے والی تمام برآمدات شمال کی سمت سے جاتی ہیں۔

برلن میں قائم انٹر نیشنل سکیورٹی امور کے ایک ماہر ’گیرہارڈ وِل‘ نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’سٹریٹیجک اور ملٹری اعتبار سے جنوبی چین کے سمندر کی ایک اہم پوزیشن ہے جو نہ صرف جنوبی مشرقی ایشیا بلکہ اس کے آس پاس کے علاقوں کو کنٹرول کرنے کے ضمن میں بھی غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔

مچھلیوں کی کثرت
بحیرہ جنوبی چین میں بہت بڑی تعداد میں مچھلیاں پائی جاتی ہیں۔ انٹرنیشنل کرائسز گروپ کے مطابق جنوبی چین کے سمندر سے دنیا بھر میں مچھلیوں کے سالانہ حصول کا 10 فیصد حاصل ہوتا ہے۔ تاہم بتایا گیا ہے کہ مچھلیوں کا بہت زیادہ شکار اب اس سمندر سے مچھلیوں کی تعداد میں تیزی سے کمی کا سبب بن رہا ہے۔ زیادہ سے زیادہ ماہی گیروں کو اس پانی کی گہرائی میں جانے پر مجبور کیا جاتا ہے جہاں ان کا تصادم پانی کی حفاظت کرنی والی فورسز سے ہو تا ہے۔ اطلاعات کے مطابق حالیہ سالوں میں بحیرہ جنوبی چین کے پانی سے مچھلیاں نکالنے والے ماہی گیروں کی گرفتاریاں اور ان کی کشتیوں کو نقصان پہنچانے جیسے واقعات میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ مختلف ملکوں کی سکیورٹی فورسز ایک دوسرے کے ماہی گیروں پر حملہ آور ہوجاتی ہیں۔ مچھلی نہ صرف انسانوں کے لیے پروٹین کے حصول کا ایک اہم ترین ذریعہ ہے بلکہ یہ ماہی گیری اقتصادی شعبے کی ایک اہم شاخ بن چکی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 2010ء میں ویتنام کی مجموعی قومی پیداوار کا 7 فیصد ماہی گیری کے ذریعے حاصل ہوا۔ فلپائن کے قریب ڈیڑھ ملین باشندے ماہی گیری کے ذریعے اپنا روزگار کماتے ہیں۔

بحیرہ جنوبی چین غیر معمولی دلچسپی کا مرکز

اجمل قصاب کو پھانسی دے دی گئی

بھارتی وزارت داخلہ کے مطابق ممبئی حملوں میں ملوث زندہ بچ جانے والے واحد مجرم اجمل قصاب کو پھانسی دے دی گئی ہے۔ اجمل قصاب نے بھارتی صدر سے رحم کی اپیل کر رکھی تھی جسے مسترد کر دیا گیا تھا۔ بھارتی وزارت داخلہ کے ایک ترجمان کے ایس دھتوالی K. S. Dhatwali کے مطابق اجمل قصاب کو بھارتی شہر پونے کی Yerawada جیل میں مقامی وقت کے مطابق صبح ساڑھے سات بجے پھانسی دی گئی۔ اجمل قصاب کو پھانسی بھارتی صدر پرنب مکھرجی کی طرف سے رحم کی اپیل مسترد کیے جانے کے بعد دی گئی ہے۔ صدر کی جانب سے یہ اپیل 6 نومبر کو مسترد کی گئی تھی۔

اجمل قصاب کو موت کی سزا دینے کی تصدیق وزیر داخلہ سوشیل کمار شینڈے نے بھی کی ہے۔ سوشیل کمار شینڈے کے مطابق 8 نومبر کو قصاب کو پھانسی کی سزا دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ اجمل قصاب کا ڈیتھ وارنٹ بھی 8 نومبر کو جاری کیا گیا تھا۔ پھانسی دینے کے لیے اجمل قصاب کو ممبئی کی آرتھر روڈ جیل سے پونے کی یراواڈا جیل منتقل کیا گیا تھا۔

رواں برس اگست میں بھارتی سپریم کورٹ نے قصاب کی سزائے موت کو برقرار رکھنے کا فیصلہ سنایا تھا۔ قبل ازیں سن 2010ء میں ممبئی حملوں کے اس مرکزی مجرم کو سزائے موت سنا دی گئی تھی۔ بھارت کی ایک عدالت نے اجمل قصاب کو یہ سزا اس پرعائد کل 86 میں سے چار بڑے الزامات کی بنیاد پر سنائی تھی۔ 22 سالہ قصاب پر عائد الزامات میں بھارت پر جنگ مسلط کرنا، قتل، اقدام قتل، سازش اور دہشت گردی کے الزامات بھی شامل تھے۔

نومبر2008ء میں ممبئی کے مختلف مقامات پر دہشت گردانہ حملوں میں کم از کم 166 افراد ہلاک اور تین سو سے زائد زخمی ہوئے تھے۔ ان دہشت گردانہ حملوں میں اجمل واحد حملہ آور تھا، جسے گرفتار کر لیا گیا تھا۔ بھارتی حکومت کے مطابق پاکستانی شہری اجمل قصاب کا تعلق عسکری گروپ لشکر طیبہ سے تھا۔

26 نومبر سن 2008 کو ممبئی میں مختلف مقامات پر دس حملہ آوروں نے اچانک حملہ کر دیا تھا۔ بھارتی سیکیورٹی اہلکاروں سے کوئی ساٹھ گھنٹے تک جاری رہنے والے مقابلے میں 9 حملہ آور ہلاک کر دئے گئے تھے۔

بھارت میں حکومتی اہلکاروں کی ایک بڑی تعداد اجمل قصاب کو سزائے موت سنائے جانے کے حق میں تھی۔ بھارت میں سزائے موت دی جانے کی شرح بہت ہی کم ہے۔ آخری مرتبہ سزائے موت پر عمل سن 2004 میں کیا گیا تھا۔ جبکہ اس سے قبل سن 1998 میں دو مجرمان کو پھانسی دی گئی تھی۔ ممبئی حملوں میں ہلاک ہونے والے افراد کے رشتہ داروں نے بھی مطالبہ کر رکھا تھا کہ مجرم کو موت کی سزا دی جائے۔

اجمل قصاب کو پھانسی دے دی گئی، بھارتی وزارت داخلہ

اے ٹی ایم سے پونڈ کی برسات

مشین کی خرابی کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی اور کچھ ہی دیر میں برن سائیڈ اے ٹی ایم مشین کے باہر سیکڑوں افراد اس جادوئی مشین سے فری پونڈ نکالنے کے لیےلمبی قطار میں کھڑے نظر آئے


سکاٹ لینڈ کے شہر گلاسکو میں ایک دلچسپ صورت حال اُس وقت پیدا ہوئی جب سٹون لا روڈ کے علاقے برن سائیڈ میں واقع ’بینک آف سکاٹ لینڈ‘ کی ایک اے ٹی ایم مشین نے ڈبیٹ کارڈ ڈالنے پر مطلوبہ رقم کے بجائے دگنی رقم نکالنی شروع کردی۔

مشین کی خرابی کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی اور کچھ ہی دیر میں برن سائیڈ اے ٹی ایم مشین کے باہر سیکڑوں افراد اس جادوئی مشین سے فری پونڈ نکالنے کے لیےلمبی قطار میں کھڑے نظر آئے۔ مشین کے اس طرح اضافی رقم نکالنے پر سکاٹ لینڈ بینک مشین بند کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ اس دوران بنک نے پولیس کو اطلاع کر دی اور ایک پولیس کانسٹبل کیش پوائنٹ کے باہر کھڑا کر دیا گیا۔

برطانوی اخبار ’ڈیلی میل‘ کے مطابق بینک بالآخر ریموٹ کے ذریعے اس مشین کو بند کرنے میں کامیاب ہو سکا۔ اس دوران بنک کو ایک بڑا نقصان اٹھانا پڑا۔ بنک انتظامیہ کا کہنا ہے کہ بنک ایسے لوگوں کی شناخت نہیں کر سکتا جنھوں نے اس خرابی کے دوران مشین سے پونڈ نکالے، کیونکہ وہ سب ہی بینک آف سکاٹ لینڈ کے کھاتہ دار نہیں۔

سماجی رابطے کی ویب سائیٹ ’ٹوئٹر‘ پر گلاسکو اے ٹی ایم مشین کی خرابی کی خبر اور باہر لگی لوگوں کی لمبی قطار کی تصویر نے اس دلچسپ واقعہ کو منظر عام کر دیا۔ ٹوئٹر پر لورین نے لکھا ’برن سائیڈ پر واقع سکاٹ لینڈ بینک جو دگنی رقم نکال رہا ہے، وہاں اب پولیس کھڑی ہے اس لیے اب وہاں کوئی فری پونڈ نکالنے نہیں جا سکتا ہے‘۔

تاہم، بینک انتظامیہ کا کہنا ہے کہ مشین میں خرابی کا دورانیہ اتنا زیادہ نہیں تھا کہ لوگ بڑی تعداد میں مشین سے دگنی رقم نکال سکتے۔ بینک انتظامیہ نے مشین کی خرابی پر معذرت کی ہے۔

اے ٹی ایم مشین سے پونڈ کی برسات

پاکستانی ہیکرز نے اسرائیل کی ویب سائیٹس ہیک کر لیں

غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے خلاف شاید پاکستانی حکومت کی جانب سے تو کوئی آواز بلند نہ کی جائے لیکن پاکستانی ہیکرز نے اسرائیل کی بڑی ویب سائیٹس ہیک کرکے یہودی لابی کو پیغام دیا ہے کہ وہ فلسطین میں جاری خون کی ہولی بند کریں۔

گذشتہ روز ہیکرز کی جانب سے اسرائیل کی بڑی ویب سائیٹس جیسے ایمازون، بی بی سی، سٹی بینک، سی این این، مائیکروسافٹ، ماسٹرکارڈ، انٹل اور کوکا کولا وغیرہ پر حملہ کیا گیا اور ان پر اپنا پیغام نشر کر دیا۔ اسرائیلی ویب سائٹس پر حملہ کرنے والے ہیکرز نے خود کو 1337 ,H4x0rL1f3, ZombiE_KsA اور Invectus کے نام سے متعارف کروایا ہے اور یہ گروپ پہلے بھی بھارتی ویب سائیٹس پر حملے کر چکا ہے۔

اس سے قبل جمعہ کے روز مشہور ہیکرگروپ Anonymous کی جانب سے بھی کم و بیش 650 اسرائیلی ویب سائیٹس جن میں اکثر سرکاری اور حساس ویب سائیٹس بھی شامل ہیں انہیں ہیک کر لیا گیا تھا اور ان کی تفصیلات جیسے ای میل اور پاسورڈز کو نشر کر دیا گیا اور ویب سائیٹس پر موجود تمام مواد ڈیلیٹ کر دیا۔ اسی طرح اس گروپ نے اتوار کے روز 3000 ناموں کی ایک فہرست جاری کی جس میں ان لوگوں کے نام، پتے اور ٹیلی فون نمبر شامل تھے جو جنگ کے لیےاسرائیل کی مالی امداد میں پیش پیش ہیں۔

مغربی ممالک اور خاص کر امریکہ اور اقوام متحدہ کی جانب سے غزہ پر بمباری اور روز بروز بڑھنے والی شہادتوں پر کوئی ایکشن نہ لینے کی وجہ سے پوری دنیا اور خاص کر مسلم ممالک میں اشتعال پایا جاتا ہے۔ اگر صورت حال یہی رہی تو آئندہ آنے والے دنوں میں ہیکرز کے حملوں میں اضافہ ہونے کا امکان ہے۔

مزے کی بات یہ ہے کہ اسرائیلی فنانس منسٹر کی جانب سے دیے گئے حالیہ بیان میں یہ کہا گیا ہے کہ اسرائیلی کی سائیبر سیکیورٹی بہت عمدہ ہے اور ہم تمام ہیکرز کے حملے روکنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور ہیکرز کی جانب سے کیے گئے تمام دعوے غلط ہیں۔

اسرائیلی منسٹر بھی شاید پاکستانی منسٹروں کی طرح ”سب اچھا“ کی رپورٹ دے کر خو د کو اور اپنی عوام کو بے وقوف بنانا چاہ رہے ہیں۔ آپ کا کیا خیال ہے؟

فلسطین میں اسرائیلی جارحیت کا منہ توڑ جواب پاکستانی ہیکرز نے اسرائیل کی بڑی ویب سائیٹس ہیک کر لیں

پیر, نومبر 19, 2012

اسرائیلی میزائل شکن نظام آئرن ڈوم فلسطین میں استعمال

اسرائیلی میزائل سسٹم کے آئرن ڈوم نظام فلسطینیوں کی جانب سے فائر کئے گئے حملے روکنے میں موثر ہتھیار کے طور پر کامیاب رہا، اسرائیل کا یہ اینٹی میزائل سسٹم 150 سکوائر کلو میٹر سے آنے والے میزائل کو ہوا میں تباہ کرنے کی صلاحیت کا حامل ہے۔

میزائل شکن پروگرام آئرن ڈوم اس مرتبہ فلسطینی مزاحمت کاروں کے فائر کیے گئے راکٹ روکنے میں کامیاب رہا لیکن پھر بھی کچھ راکٹ ایسے تھے جو آئرن ڈوم نامی اس اپ گریڈ ورژن کی رینج میں نہ آسکے۔ غیرملکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق فائر کیے گئے 75 میں سے 72 راکٹ کو آئرن ڈوم فضا میں تباہ کرنے میں کامیاب رہا صرف 3 راکٹ ایسے تھے جو اسرائیل میں گرے۔ آئرن ڈوم نامی سسٹم اسلحہ ساز کمپنی نے تیار کیا ہے جس پر تقریبا 210 ملین ڈالر لاگت آئی ہے۔ 

اسرائیل لبنان جنگ کے بعد اسرائیلی وزیر دفاع نے حزب اللہ کے راکٹ حملوں سے بچنے کے لیے فروری 2007 میں آئرن ڈوم کی تنصیب کا فیصلہ کیا تھا۔ آئرن ڈوم سسٹم شروع میں ناکام رہا لیکن 2011 اور پھر امریکی امداد کے بعد 2012 میں اسے کامیاب قرار دیا گیا۔ کیونکہ اسرائیلی فضائیہ نے اسے ٹیک اوور کرتے ہوئے اپ گریڈ کیا تھا۔

شروع میں قصام بریگیڈ کے حملوں سے بچنے کے لیے یہ سسٹم بنایا گیا جسے اینٹی قصام کا نام دیا گیا اور بعد ازاں گولڈن ڈوم اور پھر اپ گریڈیشن کے بعد اسے آئرن ڈوم کا نام دیا گیا۔ 

مشروبات سے جوڑوں کے درد میں اضافہ

میٹھے مشروبات کے استعمال میں احتیاط کریں کیوں کہ یہ جوڑوں کے درد میں اضافے کا باعث بن سکتا ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق جوڑوں کے مریضوں کو میٹھے مشروبات سے پرہیز کرنا چاہئے۔ 

امریکا میں جوڑوں کے درد میں مبتلا دو ہزار سے زائد مریضوں پر چار سال تک کی گئی تحقیق کے بعد معلوم ہوا کہ میٹھے مشروبات کا زیادہ استعمال کرنے والے افراد کی تکلیف دو گنا تیزی سے بڑھی جب کہ ایسے مریض جنہو ں نے مشروبات کا استعمال بالکل نہیں کیا ان میں بیماری بڑھنے کی شرح بہت کم پائی گئی۔

بادام، اخروٹ کھائیے بڑھاپے میں صحت مند رہیے

روایتی پھلوں اور سبزیوں پر مشتمل خوراک میں بادام اور اخروٹ بھی باقاعدگی سے شامل کر لئے جائیں تو صحت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔

سپین کی یونیورسٹی میں کی گئی تحقیق کے مطابق بادام یا اخروٹ کا باقاعدگی سے استعمال کرنے والے افراد کا نظام انہضام بڑھاپے میں بھی درست رہتا ہے۔ یہ موٹاپا، كولسٹرول، ہائی بلڈ پریشر اور غیر معمولی بلڈ شوگر پر قابو پانے میں مفید ہے۔ 

محققین کے مطابق بادام کھانے سے دمہ اور کئی دیگر بیماریوں کا خدشہ کم ہو جاتا ہے۔
 

سندھ مدرستہ الاسلام کے لئے یونیورسٹی کا درجہ

بانی پاکستان کی ابتدائی درسگاہ سندھ مدرستہ الاسلام کو یونیورسٹی کا درجہ ملنے کے بعد پہلے تعلیمی سال میں داخلے کے لئے ہونے والے انٹری ٹیسٹ میں طلبا و طالبات کا انتہائی جوش و خروش رہا۔

سندھ مدرستہ الاسلام کو یونیورسٹی کا درجہ دینے کے لئے سندھ اسمبلی نے 22 دسمبر 2011ء کو بل منظوری کیا اور 16 فروری 2012ء کو گورنر سندھ نے بل پر دستخط کئے۔ یونیورسٹی میں باقاعدہ تدریس کے لئے 5 فیکلٹیز میں داخلوں کا آغاز کر دیا گیا ہے جس کے لئے یونیورسٹی میں انٹری ٹیسٹ ہوئے۔ 

یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر محمد علی شیخ کا کہنا تھا کہ یونیورسٹی کے قیام سے قائد اعظم کے خواب کی تکمیل ہوئی ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے 1943ء میں سندھ مدرسہ کو سکول سے کالج بنانے کا افتتاح کیا تھا اور وہ اس مدرسے کو یونیورسٹی کی شکل میں دیکھنا چاہتے تھے۔ داخلے کے خواہش مند امیدوار قائد کے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ 

یونیورسٹی کے مطابق پانچ شعبوں میں 150 طلبا و طالبات کو داخلہ دیئا جائے گا اور میرٹ پر سختی سے عمل کیا جائے گا۔

سندھ مدرسۃ الاسلام یکم ستمبر 1885ء کو قائم ہوا اس کے بانی حسن علی آفندی تھے جو ترک نژاد اور کراچی میں آباد تھے۔ سندھ مدرستہ الاسلام کا شمار جنوبی ایشیا کے قدیم ترین جدید مسلم تعلیمی اداروں میں ہوتا ہے۔ ادارے کا مقصد سندھ کے لوگوں کو جدید تعلیم سے بہرہ ور کرنا تھا۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے بھی سندھ مدرسۃ الاسلام میں ابتدائی تعلیم حاصل کی تھی۔

پولیس نے سکول میں تھانہ بنا لیا

شکار پور میں پولیس نے گورنمنٹ پرائمری سکول میں تھانہ بنا لیا، بچے تعلیم سے محروم، پولیس کے ڈرسے لوگ بات کرتے ہوئے ڈرنے لگے۔

پاکستانی پولیس کے انداز ہی نرالے ہیں جان ومال کے یہ محافظ جو کہہ دیں وہی قانون کہلاتا ہے۔ یہی نہیں قانون کے رکھوالے جسے چاہیں اپنی ملکیت قرار دے دیں۔ چاہے وہ کوئی سرکاری دفتر ہو یا بچوں کا سکول پولیس والے جہاں براجمان ہوجائیں وہاں سے انہیں نکالنا پھرکسی کے بس میں نہیں رہتا۔ 

ایسا ہی ہوا شکار پورکے نواحی گاؤں جہاں گورنمنٹ پرائمری سکول کی عمارت میں پولیس نے گزشتہ ایک سال سے تھانہ قائم کر رکھا ہے جس کے بعد گاؤں کا واحد سکول بند ہوگیا۔ تدریسی عمل ٹھپ ہوا تو سکول میں تعینات تین اساتذہ گھر بیٹھے تنخواہیں وصول کرنے لگے۔ اہل علاقہ نے مقامی وڈیروں کے ڈر سے موقف دینے سے انکار کر دیا جبکہ پولیس اور محکمہ تعلیم کےافسران بھی موقف دینے سے انکار کررہے ہیں۔

طلبا سکول جانے کے لیے دریا عبور کرتے ہیں

علم کے حصول کے لئے چین تک جانے کا حکم ہے لیکن انڈونیشیا میں بچوں کو سکول جانے کے لئے دریا سے گزرنا پڑتا ہے۔ مغربی سماٹرا کے گاؤں لمبونگ بیوکک کے بچوں کو سکول جانے کے لئے ہر روز دریا عبور کرنا پڑتا ہے جس کا پاٹ 80 فٹ چوڑا اور بعض مقامات پر گہرائی تین فٹ کے لگ بھگ ہے۔ دریا کا بہاؤ بھی بہت تیز ہے۔ دریا کنارے پہنچتے ہی یہ اپنی پینٹوں کے پائنچے اوپر چڑھا لیتے ہیں جبکہ بعض کو تو اپنی قمیض تک اٹھانا پڑتی ہیں۔ دوسرے کنارے پہنچ کر بچے دوبارہ یونیفارم پہن کر سکول کا رخ کرتے ہیں۔ 

بچوں کا کہنا ہے برسات میں دریا کا بہاؤ اور تیز ہو جاتا ہے اور اس وقت اسے عبور کرنا جاں جوکھوں کا کام ہے۔ دریا اب تک بچوں کے دو ساتھیوں کو نگل چکا ہے۔ 

مقامی انتظامیہ کے مطابق بچوں کی مشکل کو دیکھتے ہوئے دریا پر پل بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ رقم مختص ہو چکی اور اگلے برس پل بن جائے گا۔

پاکستان میں بمبار ڈرون کی تیاری

جمعہ پندرہ نومبر کو لی گئی تصویر میں اسلحے کی بین الاقوامی نمائش (آئیڈیاز) میں
پائلٹ کے بغیر اڑنے والے پاکستانی جاسوس طیارے۔ اے پی تصویر
کراچی: پاکستان خفیہ انداز میں مقامی سطح پر ایسے خودکار ڈرونز بنانے کی کوشش کررہا ہے جو بمباری بھی کرسکیں۔ اس صنعت سے وابستہ ماہرین کے مطابق، پاکستان نے ابتدائی طور پر چند تجربات کئے ہیں لیکن ان میں نشانے میں درستگی کی کمی کے ساتھ ساتھ ہدف کو تباہ کرنے کی ٹیکنالوجی کی بھی کمی ہے۔

اسلام آباد کے دیرینہ اور قریب ترین دوست ملک چین نے پاکستان کو ہتھیاروں والے ڈرونز فروخت کرنے کی پیشکش کی ہے لیکن ماہرین اب بھی چینی طیاروں کی صلاحیت کے بارے میں شکوک میں مبتلا ہیں۔ پاکستان امریکہ سے بھی خودکار بمبار ڈرون کی فراہمی کا مطالبہ کرتا رہا تاکہ انہیں عسکریت پسندوں پر بہتر انداز میں استعمال کیا جاسکے۔ واشنگٹن نے معاملے کی حساسیت اور دشمنوں کے خلاف ان کے استعمال پر شبہات کی بنیاد پر یہ ٹیکنالوجی فراہم کرنے سے انکار کرچکا ہے۔ امریکہ پاکستان کو غیر جاسوسی اور نگرانی کیلئے بغیر اسلحے والے ڈرون کی پیشکش کرچکا ہے لیکن پاکستان پہلے ہی ایسے کئی ڈرونز استعمال کررہا ہے۔

گزشتہ ہفتے کراچی میں اسلحے اور دفاعی ٹیکنالوجی کی ایک بین الاقوامی نمائش کا افتتاح کرتے ہوئے وزیرِ اعظم راجہ پرویز اشرف نے امریکی ضد کے جواب میں چین سے مدد لینے کا اشاریہ دیا تھا۔ ’ٹیکنالوجی کے ضمن میں غیر اعلانیہ رکاوٹ ختم کرنے کے لئے پاکستان چین سے بھی استفادہ کرسکتا ہے‘، راجہ پرویز اشرف نے کہا تھا۔

پاکستان خود اپنے بل پر بھی بغیر پائلٹ کے لڑاکا طیارے بنانے کی کوششیں کررہا ہے۔ ایک پاکستانی عسکری افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی خواہش پر بتایا کہ اس مقامی ڈرون صنعت میں سویلین افراد بھی اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔

ایک سویلین جسے اس خفیہ منصوبے کا علم ہے نے بتایا کہ اب سے سات یا آٹھ ماہ قبل پاکستان نے اپنے ملک میں استعمال ہونے والے اٹلی کے ڈرون، فالکو میں راکٹ لے جانے کے لئے چند تبدیلیاں کیں۔ انہوں نے بتایا کہ عسکری حکام ملک میں تیار شدہ تازہ ترین ڈرون، شہپر کے ساتھ بھی اسی قسم کے تجربات میں مصروف ہیں۔ واضح رہے کہ شہپر کا غیر بمبار لڑاکا ورژن پہلی مرتبہ کراچی میں آئیڈیاز نمائش میں رکھا گیا تھا۔ اسی سویلین ماہر نے بتایا کہ چند طیاروں پر ہی اسلحے کی آزمائش کی گئی ہے اور لڑائی میں کوئی حملہ نہیں کیا گیا ہے۔

درستگی میں کمی
پاکستان کے پاس ہیل فائر جیسے لیزر گائیڈڈ میزائل بھی نہیں ہیں جو امریکی پریڈیٹر اور ریپر جیسے جدید ترین ڈرونز میں ایڈوانس ٹارگٹ سسٹم کے ساتھ استعمال ہوتے ہیں۔ اسی لئے پاکستانی افواج گائیڈ کے بغیر راکٹ استعمال کررہی ہے جن کا نشانہ بہت اچھا نہیں۔ پاکستانی میزائلوں میں غلطی کی گنجائش تیس میٹر تک ہے اور اگر ہوا ذیادہ تیز چل رہی ہو تو یہ ٹارگٹ سے تین سو میٹر دور بھی گرسکتے ہیں۔ سویلین ماہر نے بتایا۔ اور اگرپاکستان کو جدید ہیل فائر میزائل اور گائیڈنس سسٹم مل بھی جائے تب بھی ان کا وزن پاکستان میں تیار ہونے والے چھوٹے ڈرون کے لئے بہت بڑا چیلنج ثابت ہوگا۔ پاکستان میں تیارشدہ سب سے بڑے ڈرون، شہپر کے بازووں کا گھیر سات میٹر ہے جو پچاس کلوگرام وزن لے جاسکتا ہے۔ جبکہ امریکی ڈرون پریڈیٹر جو ایک وقت میں دو ہیل فائر میزائل لے جاسکتا ہے اس کے پروں کا گھیر اس سے دوگنا ہے اور وہ اس سے چار گنا ذیادہ وزن کے ہتھیار لے جاسکتا ہے۔ پھر شہپر ریڈیو نشریات پر کام کرتا ہے جبکہ پریڈیٹر عسکری سیٹلائٹ سے مدد لیتے ہیں۔ شہپر صرف ڈھائی سو کلومیٹر کا فاصلہ طے کرسکتا ہے جبکہ پریڈیٹر ڈرون اس سے پانچ گنا ذیادہ فاصلے تک جا سکتا ہے۔

چین کے ڈرونز
چینی حکومت نے پاکستان کو سی ایچ تھری نامی لڑاکا ڈرون کی پیشکش کی ہے جو ایک وقت میں دو لیزر گائیڈڈ میزائل یا بم کو اپنے ہدف تک لے جاسکتا ہے۔ چین نے پاکستان کو اپنے قدرے جدید سی ایچ فور ڈرون کی بھی پیشکش کی ہے جو امریکی ڈرون ریپر سے ملتا جلتا ہے اور ایک وقت میں چار میزائل یا بم لے جاسکتا ہے۔ یہ بات لائی زیاولی نے بتائی جو سی ایچ تھری اور فور بنانے والی سرکاری کپمنی ایئروسپیس لانگ مارچ انٹرنیشنل کے نمائندے ہیں۔ پاکستان کو چینی ڈرون کی خریداری سے قبل ان کی صلاحیتوں کے بارے میں جانچ کرنے کی ضرورت ہے لیکن شاید مستقبل میں یہ ممکن ہوسکے۔

دنیا میں برطانیہ، امریکہ اور اسرائیل جیسے چند ممالک ہی ہیں جن کے بمبار ڈرون جنگوں میں کامبیابی سے آزمائے گئے ہیں۔

جے وردنے اور میتھیوز کی شاندار بلے بازی

گال: سری لنکا کے کپتان مہیلا جے وردنے اور اینجلو میتھیوز کی شاندار بیٹنگ کی بدولت پہلی اننگ میں نیوزی لینڈ پر 26 رنز کی برتری حاصل کر لی جبکہ دوسری اننگ میں نیوزی لینڈ نے برینڈن میک کولم کا نقصان اٹھا کر میچ میں نو رنز کی سبقت حاصل کر لی ہے۔

گال انٹرنیشنل سٹیڈیم پر نیوزی لینڈ اور سری لنکا کے درمیان کھیلے جانے والے پہلے ٹیسٹ میچ کے دوسرے دن کے کھیل کا آغاز ہوا تو سری لنکا کا سکور ایک وکٹ پر نو رن تھا، تھارنگا پرانا ویتانا صفر اور سورج رندیو نو رن پر بیٹنگ کر رہے تھے۔ سری لنکا کے لیے دن کا آغاز انتہائی مایوس کن تھا اور اسے دن کی ابتدا میں پہلا نقصان اس وقت اٹھانا پڑا جب پرانا ویتانا مجموعی سکور میں کسی رن کا اضافہ کیے بغیر پویلین لوٹ گئے، انہیں ٹم ساؤتھی نے بولڈ کیا۔ سکور میں ابھی نو رن کا ہی اضافہ ہوا تھا کہ رندیو بھی نو رن بنا کر پویلین لوٹ گئے، آؤٹ ہونے سے ایک گیند قبل برینڈن میک کولم نے ان کا کیچ بھی چھوڑا تھا۔ سری لنکا کو اصل جھٹکا اس وقت لگا جب تجربہ کار اور ان فارم بلے باز کمار سنگاکارا بیس کے مجموعی سکور پر پانچ رنز بنانے کے بعد ٹرینٹ بولٹ کا شکار بن گئے۔ بیس رنز پر چار وکٹیں کھونے کے بعد سری لنکن ٹیم مشکلات کا شکار تھی، اس موقع پر کپتان مہیلا جے وردنے اور تھیلان سمارا ویرا نے سکور 50 تک پہچایا تاہم اسی مجموعے پر سماراویرا کو ساؤتھی نے ایل بی ڈبلیو کر دیا۔ وہ صرف سترہ رنز بنا سکے۔ 50 رنز پر پانچ وکٹیں کھونے کے بعد ایسا لگتا تھا کہ شاید سری لنکن ٹیم کو پہلی اننگ میں بڑے خسارے کا سامنا کرنا پڑ جائے تاہم نئے بلے باز اور نائب کپتان اینجلو میتھیوز نے کپتان جے وردنے کے ساتھ شاندار 156 رنز کی شراکت قائم کر کے نیوزی لینڈ کے سبقت حاصل کرنے کے سپنے کو چور چور کردیا۔ دو سو چھ کے مجموعی سکور پر میتھیوز 79 رنز کی شاندار اننگ کھیلنے کے بعد آؤٹ ہوگئے، اس دوران انہوں نے بارہ چوکے اور ایک چھکا بھی جڑا۔ سکور میں نو رن کے اضافے سے وکٹ کیپر پرسانا جے وردنے چار رنز بنا کر جیتن پٹیل کا شکار بن گئے۔ دو سو انتیس کے مجموعی سکور پر سری لنکن کپتان مہیلا جے وردنے گیارہ چوکوں اور ایک چھلے سے مزین 91 رنز کی دلکش اننگ کھیلنے کے بعد اننگ میں پٹیل کی دوسری وکٹ بن گئے۔ نوان کالاسیکرا 242 کے سکور پر آٹھ رنز بنانے کے بعد پٹیل کی گیند پر پویلین لوٹ گئے، سری لنکا کی آخری وکٹ 247 رنز کے مجموعے پر شمندا ایرانگا کی صورت میں گری۔ نیوزی لینڈ کی جانب سے ساؤتھی نے چار، پٹیل نے تین اور بولٹ نے دو وکٹیں حاصل کیں۔ سری لنکا نے نیوزی لینڈ پر پہلی اننگ میں 26 رنز کی سبقت حاصل کی۔

جواب میں نیوزی لینڈ نے اپنی اننگ کا آغاز کیا تو اٹھارہ کے سکور پر برینڈن میک کولم تیرہ رنز بنانے کے بعد رنگانا ہیراتھ کی گیند پر کولا سیکرا کے ہاتھوں کیچ ہو گئے۔ نئے آنے والے بلے باز کین ولیمسن اور مارٹن گپٹل نے دن کے اختتام تک مزید کوئی وکٹ نہ گرنے دی، جب دوسرے دن کا کھیل ختم ہوا تو نیوزی لینڈ نے ایک وکٹ کے نقصان پر 35 رنز بنائے تھے۔ نیوزی لینڈ کو دوسری اننگ میں سری لنکا پر نو رنز کی سبقت حاصل ہے جبکہ ابھی اس کی نو وکٹیں باقی ہیں۔

اداکاری کرنا چاہتی ہوں، ساتھی فنکار مخالف بن گئے، روحی بانو

لاہور: معروف اداکارہ روحی بانو کو پی ٹی وی سمیت پرائیویٹ چینلز اور ماضی میں ساتھ کام کرنے والے فنکاروں کے رویوں نے دلبرداشتہ کر دیا ہے۔

ایک طرف پی ٹی وی سمیت پرائیویٹ چینلز کی عدم توجہی ہے تو دوسری طرف ماضی میں بہت سے لازوال ڈراموں میں ان کے ساتھ کام کرنے والے فنکاروں کی بے حسی پر ان کی آنکھیں نم رہنے لگی ہیں۔ گزشتہ روز ایک ملاقات کے دوران ’’ایکسپریس‘‘ کوخصوصی انٹرویو دیتے ہوئے روحی بانو کا کہنا تھا کہ میں اداکاری کرنا چاہتی ہوں مگر پی ٹی وی والے اور پرائیویٹ چینلز کے لوگ جان بوجھ کر مجھے کام کے لیے نہیں بلاتے۔

اس کے علاوہ اداکار عابد علی اور فردوس جمال جیسے ’’بڑے‘‘ فنکار بھی میری مخالفت کرتے رہتے ہیں۔ ایسے حالات میں، میں کس طرح کام کرسکتی ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر اپنے گھر میں رہتی ہوں اور فٹنس کے لیے صبح و شام واک کے لیے جاتی ہوں۔ انھوں نے بتایا کہ سڑک پر چلتے چلتے اگر کوئی پرانا ساتھی فنکار مل جائے تو خیریت دریافت کر لیتا ہے مگر کوئی خاص طور پر ملاقات کے لیے کبھی نہیں آتا۔ جبکہ میرے پرستار ملتے ہیں تو ان کا رسپانس دیکھ کر میرا دل چاہتا ہے کہ پھر سے اداکاری کروں اور اپنی فنی صلاحیتوں کا بھرپور طریقہ سے اظہار کروں مگر میں بے بس اور مجبور ہوں۔

پی ٹی وی اور پرائیویٹ چینلز کے پالیسی میکر نا جانے مجھ سے کیوں خفاء ہیں۔ ان لوگوں کا یہی رویہ دیکھ کر میرا دل خون کے آنسو روتا ہے۔ کل تک جو لوگ مجھے سائن کرنے کے لیے آگے پیچھے ہوتے تھے آج وہ نگاہیں چرا کر دوسرے راستے پر چلنے لگتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اگر مجھے آج بھی اچھا کام ملے تو میں ضرور کرونگی اور ناظرین میرے کام کو دیکھ کر ماضی کی طرح پسند کرینگے۔