جمعہ, اگست 10, 2012

ابن سینا

ان کا مکمل نام علی الحسین بن عبد اللہ بن الحسن بن علی بن سینا (980 تا 1037 عیسوی) ہے جو کہ دنیائے اسلام کے ممتاز طبیب اور فلسفی ہیں۔ بوعلی سینا کو مغرب میں Avicenna کے نام سے جانا جاتا ہے۔

”الشیخ الرئیس“ ان کا لقب ہے، فلسفی، طبیب اور عالم تھے۔ اسلام کے عظیم تر مفکرین میں سے تھے اور مشرق کے مشہور ترین فلاسفروں اور اطباء میں سے تھے۔ صفر 370 ہجری 980 عیسوی کو فارس کے ایک چھوٹے سے گاؤں ”افنشہ“ میں پیدا ہوئے، ان کی والدہ اسی گاؤں سے تعلق رکھتی تھیں جبکہ ان کے والد ”بلخ“ (اب افغانستان) سے آئے تھے۔ بچپن میں ہی ان کے والدین بخارا (اب ازبکستان) منتقل ہوگئے جہاں ان کے والد کو سلطان نوح بن منصور السامانی کے کچھ مالیاتی امور کی ادارت سونپی گئی۔ بخارا میں دس سال کی عمر میں قرآن ختم کیا اور فقہ، ادب، فلسفہ اور طبی علوم کے حصول میں سرگرداں ہوگئے اور ان میں کمال حاصل کیا۔ کہا جاتا ہے کہ اٹھارہ سال کی عمر میں انہوں نے سلطان نوح بن منصور کے ایک ایسے مرض کا علاج کیا تھا جس سے تمام تر اطباء عاجز آچکے تھے، خوش ہوکر انعام کے طور پر سلطان نے انہیں ایک لائبریری کھول کردی تھی۔ بیس سال کی عمر تک وہ بخارا میں رہے، اور پھر خوارزم چلے گئے جہاں وہ کوئی دس سال تک رہے (392-402 ہجری) خوارزم سے جرجان پھر الری اور پھر ہمذان منتقل ہوگئے جہاں نو سال رہنے کے بعد اصفہان میں علاء الدولہ کے دربار سے منسلک ہوگئے۔ اس طرح گویا انہوں نے اپنی ساری زندگی سفر کرتے گزاری۔ ان کا انتقال ہمذان میں شعبان 427 ہجری 1037 عیسوی کو ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ اپنی زندگی کے آخری ایام میں وہ ”قولنج“ کے مرض میں مبتلا ہوگئے تھے اور جب انہیں اپنا اجل قریب نظر آنے لگا تو انہوں نے غسل کرکے توبہ کی، اپنا مال صدقہ کردیا اور غلاموں کو آزاد کردیا۔

ابن سینا نے علم ومعرفت کے بہت سارے زمروں میں بہت ساری تصانیف چھوڑیں ہیں جن میں اہم یہ ہیں:

ادبی علوم: اس میں منطق، لغت اور شعری تصنیفات شامل ہیں۔

نظری علوم: اس میں طبیعات، ریاضی، علومِ الہی وکلی شامل ہیں۔

عملی علوم: اس میں کتبِ اخلاق، گھر کی تدبیر، شہر کی تدبیر اور تشریع کی تصنیفات شامل ہیں۔

ان اصل علوم کے ذیلی علوم پر بھی ان کی تصنیفات ہیں 
ریاضی کی کتابیں: 
ابن سینا کی کچھ ریاضیاتی کتابیں یہ ہیں: رسالہ الزاویہ، مختصر اقلیدس، مختصر الارتماطیقی، مختصر علم الہیئہ، مختصر المجسطی، اور ”رسالہ فی بیان علہ قیام الارض فی وسط السماء“ (مقالہ بعنوان زمین کی آسان کے بیچ قیام کی علت کا بیان) یہ مقالہ قاہرہ میں 1917 میں شائع ہوچکا ہے۔

طبیعات اور اس کے ذیلی علوم: رسالہ فی ابطال احکام النجوم (ستاروں کے احکام کی نفی پر مقالہ)، رسالہ فی الاجرام العلویہ (اوپری اجرام پر مقالہ)، اسباب البرق والرعد (برق ورعد کے اسباب)، رسالہ فی الفضاء (خلا پر مقالہ)، رسالہ فی النبات والحیوان (پودوں اور جانوروں پر مقالہ)۔

طبی کتب: ابن سینا کی سب سے مشہور طبی تصنیف ”کتاب القانون“ ہے جو نہ صرف کئی زبانوں میں ترجمہ ہوکر شائع ہوچکی ہے بلکہ انیسویں صدی عیسوی کے آخر تک یورپ کی یونیورسٹیوں میں پڑھائی جاتی رہی۔ 
ان کی دیگر طبی تصنیفات یہ ہیں: کتاب الادویہ القلبیہ، کتاب دفع المضار الکلیہ عن الابدان الانسانیہ، کتاب القولنج، رسالہ فی سیاسہ البدن و فضائل الشراب، رسالہ فی تشریح الاعضاء، رسالہ فی الفصد، رسالہ فی الاغذیہ والادویہ، ارجوزہ فی التشریح، ارجوزہ المجربات فی الطب، اور کئی زبانوں میں ترجم ہوکر شائع ہونے والی ”الالفیہ الطبیہ“۔

ابن سینا نے موسیقی پر بھی لکھا، ان کی موسیقی پر تصنیفات یہ ہیں: مقالہ جوامع علم الموسیقی، مقالہ الموسیقی، مقالہ فی الموسیقی۔

ان کی اہم تصانیف میں
- کتاب الشفاء
- القانون فی الطب
- اشارات

یورپ میں ان کی بہت سی کتابوں کے ترجمے ہوئے اور وہاں ان کی بہت عزت کی جاتی ہے۔

ڈاکٹر شکیل آفریدی کے لئے امریکی سنٹرل انٹلی جینس ایجنسی کی طرف سے میڈل آف آنر

’وال سٹریٹ جرنل‘ کہتا ہے کہ امریکی سنٹرل انٹیلی جینس ایجنسی کےلینگ لے کے ہیڈکوارٹر میں کسی جگہ اُس پاکستانی ڈاکٹر کے لئے ایک میڈل آف آنر رکھا ہوا ہے جس نے اس ایجنسی کو ہیپاٹائٹس کےخلاف ایک بوگس سکیم چلا کر ایبٹ آباد میں اوسامہ بن لادن کی پناہ گاہ کا سُراغ لگانے میں مدد کی تھی۔

اخبار کہتا ہے کہ یہ ڈاکٹر شکیل آفریدی شاید عرصہ دراز تک اپنا یہ میڈل حاصل نہ کرسکے، کیونکہ اس وقت وہ پشاور کے سنٹرل جیل میں 33 سال کی قید تنہائی کی سزا بُھگت رہا ہے۔ یہ سزا اُسے بغاوت کے الزام میں مئی میں سُنائی گئی تھی۔

پاکستان کی آئی ایس آئی کی جاری کردہ ایک رپورٹ میں آفریدی کو ایک جہادی تنظیم کا رکن ہونے کا مجرم قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس نے 25 مرتبہ غیرملکی خفیہ ایجنٹوں سے ملاقات کی اور ان سے ہدایات حاصل کیں اور اُنہیں حسّاس نوعیت کی معلومات فراہم کیں یہ جانتے ہوئے کہ ایسا کرکے وہ پاکستان کے مفادات کے خلاف کام کررہا ہے۔

اخبار کہتا ہے کہ شاید اس ڈاکٹر نے ٹیکے لگانے کا ایک جعلی پروگرام شروع کرکے اور پاکستانی اخباری اطلاعات کے مطابق اس کے لئے 61 ہزار ڈالر کی رقم لے کر طبّی پیشے کی ذمّہ داریوں کی خلاف ورزی کی ہو۔

لیکن، اخبار کے خیال میں دلچسپ سوال یہ ہے کہ آئی ایس آئی کے لئے اکیسویں صدی کے بدنام ترین دہشت گرد کے بارے میں معلومات کیونکر حسّاس ہوسکتی ہیں، سوائے اس کے کہ یہ ادارہ یا اس کے عناصر اسے تحفظ فراہم کررہے ہونگے۔ اس سے بھی زیادہ تعجب انگیز بات یہ ہے کہ یہ ادارہ اوسامہ بن لادن کو ہلاک کرنا پاکستان کے مفاد کے خلاف کام کرنے کے مترادف سمجھتا ہے۔

اخبار کہتا ہے کہ امریکی انتظامیہ کے پاکستان کے ساتھ تعلّقات میں حال ہی میں گرمجوشی آئی ہےاور آئی ایس آئی کے ایک نئے سربراہ نے واشنگٹن کی طرف زیادہ تعمیری رویّہ اختیار کیا ہے۔ لیکن یہ مفاہمت اس وقت تک اس سے آگے نہیں بڑھ سکتی جب تک ڈاکٹرآفریدی جیل میں بند ہے۔ بن لادن کو ٹھکانے لگانے والے امریکی افراد کو واپس گھر لایا جا چُکا ہے اور ڈاکٹر آفریدی اُنہیں میں سے ایک تھا۔ اور امریکہ کی امداد کرنے والوں کو یہ اطمینان ہونا چاہئیے کہ جس طرح ہم اپنے فوجیوں کو میدان جنگ میں نہیں چھوڑ آئے اُسی طرح ہم اپنے دوستوں کو اپنے حال پر نہیں چھوڑتے۔

جمعرات, اگست 09, 2012

غصے کا علاج

جب غصہ آئے تو اِن میں سے کوئی بھی ایک یا سارے عمل کر ڈالیے۔

- اعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم پڑھیے
- ولا حول ولا قوۃ الا باللہ پڑھیے
- خاموش ہوجائیے
- وضو کر لیجئے
- ناک میں پانی چڑھائیے
- کھڑے ہیں تو بیٹھ جائیے
- بیٹھے ہیں تو لیٹ جائیے
- خود کو زمین سے ملا لیجئے، (وضو ہو تو سجدہ کرلیں) تاکہ احساس ہو کہ خاک سے بنا ہوں لہذا مجھے کسی شخص پر غصہ کرنا زیب نہیں دیتا۔
- جس پر غصہ آیا ہو اس کے سامنے سے ہٹ جائیے

اگر کسی کو غصے کی حالت میں ڈانٹ دیا ہے تو خصوصیت کے ساتھ سب کے سامنے ہاتھ جوڑ کر اس سے معافی مانگیں اس طرح نفس ذلیل ہوگا اور آئندہ غصہ کرتے وقت ذلت یاد رہے گی۔

اس بات پر غور کیجئے کہ آج میں کسی شخص کی خطا پر غصہ کررہا ہوں اور درگزر کرنے پر تیار نہیں، حالاں کہ میری خطائیں بے شمار ہیں اگر اللہ عز وجل غضب ناک ہوگیا اور اس نے مجھے معاف نہیں کیا تو میرا کیا ہوگا؟

اگر کوئی زیادتی کرے یا خطا کر دے اور اس پر نفس کی خاطر غصہ آجائے تو معاف کردینا کار ثواب ہے تو کیوں نہ میں اس کو معاف کرکے ثواب کا حق دار بنوں اور ثواب بھی کیسا زبردست کہ قیامت کے دن اعلان کیا جائے گا جس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے وہ اٹھے اور جنت میں داخل ہوجائے۔ پوچھا جائے گا کس کے لئے اجر ہے کہا جائے گا ان لوگوں کے لئے جو معاف کرنے والے ہیں۔

گیارہ سالہ نا بالغ بچی کی 54 سالہ شخص سے شادی کی کوشش ناکام

ٹھٹھہ کے علاقے سجاول میں پولیس نے گیارہ سالہ لڑکی کی شادی 54 سالہ شخص سے ناکام بناکر لڑکی، اُ س کی ماں اور بھائی سمیت 54 سالہ دولھا کو گرفتار کرلیا۔

پاکستان کے ایک موقر انگریزی روزنامے’ڈان‘ کی خبر کے مطابق، اطلاع پر پولیس نے ماچھی گوٹھ کے ایک مکان میں چھاپہ مار کر 54 سالہ شخص کو نابالغ لڑکی سے شادی کرنے کے جرم میں گرفتار کرلیا۔ لڑکی کی ماں اور بھائی نے گیارہ سالہ لڑکی کو پینتس ہزار روپے میں بیچا تھا۔

سجاول تھانے کے ایس ایس پی عثمان غنی نے ایف آئی آر درج کرنے کے بعد لڑکی کی ماں اور اس کے بھائی، نکاح خواں اور گواہوں کے خلاف تفتیش شروع کردی ہے۔ انسانی حقوق سیل کے انچارج رفیق سومرو نے بتایا کہ مزید افراد کو بھی جلد گرفتار کرلیا جائے گا۔

پاکستان میں کم عمری کی شادیوں کے خلاف موجودہ قانون میں لڑکی کی شادی کی کم از کم عمر سولہ جبکہ لڑکے کی اٹھارہ سال ہے، تاہم اس قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بچوں کی کم عمری میں شادی کا رواج موجود ہے۔

گیارہ سالہ نا بالغ بچی کی 54 سالہ شخص سے شادی کی کوشش ناکام

طوطے تین سالہ بچوں کی طرح ذہین

آسٹریا اور جرمنی کے ماہرین حیوانات نے تحقیقات کرکے یہ ندازہ لگایا ہے کہ ژاکو نسل کے طوطے وجہ اور نتیجہ کے درمیان موجود رابطہ کو تین سالہ بچوں کی طرح سمجھ سکتے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق ایسے طوطوں کی منطقی صلاحیت ایک آسان تجربہ کے دوران سامنے آئی۔ محققین نے طوطوں کو دو یکساں پلاسٹک گلاس دکھائے جس کے بعد ایک گلاس میں اخروٹ رکھا گیا جبکہ دوسرا خالی رہا۔ پھر محققین نے دونوں گلاس باری باری ہلا دیئے تاکہ طوطے سن سکیں کہ اخروٹ کون سے گلاس میں ہے۔ بعد میں طوطوں نے صحیح گلاس منتخب کیا۔ جہاں تک بچوں کا سوال ہے تو وہ تین سال کی عمر میں ہی ایسی مشق کرنے کے قابل ہوجاتے ہیں۔

طوطے تین سالہ بچوں کی طرح ذہین ہیں

یورپ میں موسم بے راہ رو ہوگیا

یورپ میں موسم کی چال ڈھال بدلی ہوئی ہے۔ پولینڈ میں شدید آندھی آنے کے باعث ہزاروں مکان منہدم ہوگئے ہیں۔ شدید ہوا کے ساتھ موسلادھار بارش کے باعث کئی شہر ندیوں کی شکل اختیار کرگئے۔ درخت جڑوں سے اکھڑ گئے اور گھروں کی چھتوں پہ جا گرے۔ ناروے میں کل ”فریدہ“ نام کا سمندری طوفان آیا۔ آدھ گھنٹے میں دریاؤں میں پانی کی سطح تقریباً ایک میٹر بلند ہوگئی۔

اس کے برعکس بلقان میں شدید گرمی ہے۔ درجہ حرارت 40 ڈگری سنٹی گریڈ کو چھو رہا ہے۔ شہر میں سڑکوں کی کولتار دھوپ سے پگھل رہی ہے۔ سربیا، رومانیہ، اٹلی اور یونان میں شدید گرمی کے باعث سیاحون نے بھاگنا شروع کردیا ہے۔

رابعہ عاشق کے اولمپک سفر کا اختتام

رابعہ عاشق
پاکستانی خاتون ایتھلیٹ رابعہ عاشق آٹھ سو میٹرز کی ہیٹ میں ہارگئیں۔ رابعہ عاشق کی شکست کے ساتھ ہی پاکستان کا لندن اولمپکس کا سفر ختم ہوگیا ہے۔ وہ اس ایونٹ کی چوتھی ہیٹ میں حصہ لینے والی چھ ایتھلیٹس میں شامل تھیں اور آخری نمبر پر رہیں۔ انہوں نے مقررہ فاصلہ دو منٹ سترہ اعشاریہ تین نو سیکنڈز میں طے کیا۔ رابعہ عاشق کو وائلڈ کارڈ کے ذریعے لندن اولمپکس میں شرکت کا موقع ملا تھا۔

اولمپکس میں آنے سے قبل رابعہ عاشق نے اس امید کا اظہار کیا تھا کہ وہ آٹھ سو میٹرز میں نیا قومی ریکارڈ قائم کرنے میں کامیاب ہوجائیں گی لیکن وہ اپنے ساتھ لندن آئی ہوئی کوچ بشری پروین کا قومی ریکارڈ جو دو منٹ صفر اعشاریہ آٹھ سکینڈز ہے نہ توڑسکیں۔ نہ صرف یہ بلکہ وہ اپنے ہی بہترین وقت کے قریب نہ آسکیں جو دو منٹ دس سیکنڈز ہے۔

رابعہ عاشق کی شکست کے ساتھ ہی پاکستان کا لندن اولمپکس کا سفر ختم ہوگیا ہے۔ ان سے پہلے ایتھلیٹ لیاقت علی۔ تیراک اسرارحسین، انعم بانڈے اور شوٹرخرم انعام مقابلوں سے باہر ہوچکے ہیں جبکہ پاکستانی ہاکی ٹیم جمعرات کو جنوبی کوریا کے خلاف ساتویں پوزیشن کا میچ کھیلے گی۔

ہاکی کے علاوہ تمام کھلاڑی وائلڈ کارڈ پر لندن آئے ہوئے ہیں۔

رابعہ عاشق کے اولمپک سفر کا اختتام

بدھ, اگست 08, 2012

محبت کی انوکھی داستان

جاوید اور ریحانہ (کرسٹینا) 2006 میں ملے اور 2010 میں ان کی شادی ہوئی
جاوید اور کرسٹینا کی محبت اور شادی کی داستان کسی فلم سے کم نہیں۔ جاوید بھارت کی گلیوں اور فٹ پاتھوں پر پلے بڑھے لیکن انہیں امریکی سیاح کرسٹینا سے محبت ہو گئی۔ دونوں کی شادی ہو چکی ہے اور اب وہ امریکی شہر اٹلانٹا میں رہتے ہیں۔

اب جاوید نیند میں بھی انگریزی میں ہی بڑبڑاتے ہیں جس سے ان کی بیوی کو لگتا ہے کہ وہ اپنے نئے ملک سے ہم آہنگ ہورہے ہیں۔

لیکن وہ کہتی ہیں ’وہ آج بھی جاوید ہے اور آج بھی بھارتی ہے‘۔

جاوید کا تعلق بھارتی ریاست بہار کے مونگیر ضلع سے ہے۔ وہ بچپن میں ہی گھر سے بھاگ کر پہلے ممبئی اور پھر دلی گئے جہاں انہیں نشے اور جوئے کی عادت پڑ گئی۔ اس وقت انہیں آوارہ بچوں کی سماجی آباد کاری کے لیے کام کرنے والے ’سلام بالک‘ نامی ٹرسٹ نے بچایا۔

جاوید کی ملاقات کرسٹینا سے پہلی بار سنہ دوہزار چھ میں اس وقت ہوئی جب کرسٹینا نے سلام بالک ٹرسٹ کے زیرِ انتظام دہلی کی سیر کے لیے آئیں۔

دو سال قبل کرسٹینا اور جاوید کی شادی ہوچکی ہے اور جاوید اٹلانٹا میں فارمیسی کے کورس میں داخلہ لینے کی کوشش کررہے ہیں۔

کرسٹینا کہتی ہیں کہ میں جاوید کی اس وقت مدد کرتی ہوں جب وہ انگریزی میں اپنے خیالات کا اظہار نہیں کر پاتے ہیں۔

جاوید اور کرسٹینا کی شادی کی تصاویر آج سلام بالک ٹرسٹ کے دفاتر میں لگی ہوئی ہیں۔ وہاں لوگ جاوید کو بہت محبت بھرے الفاظ میں یاد کرتے ہیں اور جاوید اور کرسٹینا کی محبت کی داستانیں سناتے ہیں۔

ٹرسٹ میں کام کرنے والے ایک کارکن اے کے تیواری کا کہنا ہے ’وہ ایک بہت خوش مزاج بچہ تھا، وہ اپنے گھر واپس نہیں جانا چاہتا تھا، وہ دہلی یونیورسٹی سے بی اے کیا اور ایک سماجی کارکن بن گیا۔ اور پھر اس کی کرسٹینا سے ملاقات ہوئی‘۔

یہ محبت کی داستان دہلی میں پہاڑ گنج کے علاقے میں شروع ہوئی جہاں جاوید ایک سیاحی رہنماء کے طور پر کام کررہے تھے۔ وہ سیاحوں کو اپنی کہانی سنایا کرتےکہ وہ کیسے نشے کے عادی ہوتے تھے اور کس طرح سلام بالک نے انہیں ان لعنتوں سے بچایا۔

جاوید کی کہانی سننے والوں میں ایک کرسٹینا بھی تھیں۔

بعد میں کرسٹینا نے ٹرسٹ میں رضاکارانہ طور پر کام کیا اور وہ بھاگے ہوئے بچوں کے لیے تصویریں بناتیں، بچوں کو کہانیاں سناتیں اور ان کو لکھنا سکھاتیں۔ کرسٹینا کے اپنے والدین طلاق شدہ تھے جس کی وجہ سے انہیں پیار کی اہمیت کا اندازہ تھا۔

جاوید کی کہانی سن کر کرسٹینا کہتی کہ یہ غیرمعمولی کہانی ہے کیونکہ امریکہ میں ایسا نہیں ہوتا۔ کرسٹینا کو جاوید کی مسکراہٹ اور اس کی آنکھوں کی چمک بے حد پسند تھی۔

امریکہ واپس آنے کے ایک سال بعد کرسٹینا نے لکھا کہ معلوم نہیں کہ وہ جاوید کو یاد بھی ہیں یا نہیں۔ یاد دہانی کے لیے انہوں نے لکھا کہ میں وہی ہوں جو ایک کالے کتے کے ساتھ بچوں کو کھیلاتی تھی۔ 

انھوں نے لکھا کہ حالانکہ میں تم بہت دور ہوں لیکن میں تمہیں بتانا چاہتی ہوں کہ میں زندگی میں تم جیسے کسی ایسے آدمی سے نہیں ملی (امریکہ میں بھی نہیں) جس کے لیے میرے دل میں اتنی جگہ ہو۔۔۔

جاوید نے اس ای میل کو کئی بار پڑھا۔ اسے وہ لڑکی بخوبی یاد تھی لیکن اسے اس بات کا احساس تھا کہ کہاں وہ گلیوں اور سڑکوں والا اور کہاں وہ پردیسی!

جاوید نے جواب میں لکھا کہ میں تو ’کچھ بھی نہیں مگر تم تو سب کچھ ہو‘۔

جاوید اور ریحانہ (کرسٹینا) اب امریکی شہر اٹلانٹا میں رہ رہے ہیں
اس کے بعد کرسٹینا نو بار بھارت آئیں اور جاوید سے ملتی رہیں۔ جاوید نے اپنے والدین کو کرسٹینا کے بارے میں بتایا تو وہ ان سے ملنے دہلی آئے۔

دونوں کی شادی جاوید کے گاؤں میں سنہ دو ہزار دس میں ہوئی۔ کرسٹینا نے شادی پر لال ساڑی پہنی اور ہاتھوں میں مہندی لگائی۔ انہوں نے اپنا نام تبدیل کرکے ریحانہ خاتون رکھا اور کئی دنوں تک جشن کا ماحول رہا۔

جب کرسٹینا کو پتہ چلا کہ جاوید کے والدین کی شادی چالیس سال پرانی ہے تو اسے بڑی حیرت ہوئی۔ اس کی خواہش ہے کہ اس کی بھی شادی اسی طرح قائم رہے۔

کرسٹینا کے والد امریکی ایئر لائن ڈلٹا میں پائلٹ ہیں اور وہ جاوید سے ملنے دو بار ہندوستان آچکے ہیں۔ شادی کے بعد کرسٹینا نے کہا کہ وہ جاوید کو امریکہ میں قسمت آزمائی کا ایک موقعہ دیں اور اگر انہیں پسند نہیں آیا تو وہ واپس بھارت آجائیں گے۔

کرسٹینا نے کہا سب اتنا اچھا ہوا کہ یقین نہیں آتا۔ ’یہ محبت کی عجیب داستان ہے، لوگ ہمیں اس پر کتاب لکھنے کی ترغیب دیتے ہیں‘۔

محبت کی انوکھی داستان

پالیکیلے: ٹی ٹوئنٹی میچ میں بھی بھارت فاتح

بھارتی کھلاڑیوں کے خوشی کا اظہار
پالیکیلے میں کھیلے جانے والے واحد ٹی ٹوئنٹی میچ میں بھارت نے سری لنکا کو انتالیس رنز سے شکست دے دی۔ سری لنکا کی پوری ٹیم مطلوبہ ہدف کے تعاقب میں اٹھارہ اوورز میں صرف ایک سو سولہ رنز بناکر آؤٹ ہوگئی۔ سری لنکا کی جانب سے میتھیوز نے اکتیس جے وردھنے نے چھبیس اور تھرمین نے بیس رنز بنائے۔ ان تینوں بلے بازوں کے علاوہ سری لنکا کے کھلاڑی نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ نہ کرسکے اور ان کی وکٹیں وقفے وقفے سے گرتی رہیں۔ سری لنکا کے سات بلے بازوں کا سکور دوسرے ہندے تک نہ پہنچ سکا۔ بھارت کی جانب سے اشوک ڈینڈا نے چار اور عرفان پٹھان نے تین کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔

اس سے پہلے بھارت نے مقررہ بیس اوورز میں تین وکٹوں کے نقصان پر ایک سو پچپن رنز بنائے۔ بھارت کی جانب سے ویرات کوہلی نے اڑسٹھ جبکہ رائینہ نے چونتیس رنز بنائے۔ سری لنکا کی جانب سے ایرنگا نے دو اور مینڈس نے ایک کھلاڑی کو آؤٹ کیا۔

پالیکیلے: ٹی ٹوئنٹی میچ میں بھی بھارت فاتح

سنکیانگ میں روزے پر پابندی

چین کے شہر کاشغر کی ایک مسجد میں نماز ادا کرتے ایغور مسلمان
چین کے نیم خود مختار مغربی صوبے سنکیانگ کے مسلمانوں نے شکوہ کیا ہے کہ چینی حکومت نے ان پر رمضان کے مہینے میں بے جا پابندیاں عائد کردی ہیں اور انہیں آزادانہ طور پر اپنی مذہبی رسومات کی ادائی کی اجازت نہیں دی جارہی۔

واضح رہے کہ صوبے کے کئی سرکاری دفاتر اور سکولوں کی ویب سائٹوں پر گزشتہ ہفتے جاری کیے گئے ایک سرکاری بیان میں حکمران جماعت ’کمیونسٹ پارٹی‘ کے ارکان، سرکاری ملازمین، طلبہ اور اساتذہ کو پابند کیا گیا تھا کہ وہ رمضان میں روزے رکھنے اور دیگر مذہبی سرگرمیوں میں شرکت سے اجتناب برتیں۔

چینی حکام کا کہنا ہے کہ مذکورہ پابندی عوام کی صحت کو درپیش خطرات کے پیشِ نظر عائد کی گئی ہے۔ حکام کے بقول وہ علاقے کے رہائشیوں کی حوصلہ افزائی کررہے ہیں کہ وہ ”اپنی ملازمتوں اور تعلیم کی ذمہ داریاں بہتر طور پر ادا کرنے کی غرض سے مناسب خوراک استعمال کریں“۔
واضح رہے کہ چین کے اس دور دراز صوبے میں مسلمانوں سمیت کئی نسلی اقلیتیں موجود ہیں اور ایغور نسل کے مسلمان صوبے کی آبادی کا لگ بھگ 45 فی صد ہیں۔

سنکیانگ کی ایک مسجد میں قرآن کی تعلیم
 جلاوطن ایغور باشندوں کی تنظیم ’ورلڈ ایغور کانگریس‘ کے ترجمان دلشاد رسیت نے چند روز قبل ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بتایا تھا کہ سنکیانگ کی مقامی حکومت نے رمضان کے دوران علاقے میں سیکیورٹی اور استحکام برقرار رکھنے کی غرض سے کئی نئے منصوبے شروع کیے ہیں۔

دلشاد رسیت کے مطابق ان منصوبوں کے تحت سیکیورٹی اہلکاروں کو مساجد کی نگرانی کے علاوہ سرکاری سطح پر تقسیم کیے جانے والے مذہبی لٹریچر، نجی طور پر شائع ہونے والے کتب و رسائل کی ضبطی کے لیے گھروں کی تلاشی کے اختیارات دے دیے گئے ہیں۔

’ورلڈ ایغور کانگریس‘ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ سنکیانگ کی علاقائی حکومت نے خطے کی مساجد میں نمازیوں کی ’کمیونسٹ پارٹی‘ کے عہدیداران کے ساتھ ”فکری نشستوں“ کی منظوری بھی دی ہے۔

مزید پڑھنے کے لئے نیچے لنک پر کلک کریں

اولمپکس ہاکی: آسٹریلیا نے پاکستان کو سات گول سے ہرا دیا

لندن اولمپکس کے ہاکی مقابلوں میں منگل کو آسٹریلیا نے پاکستان کو سات، صفر سے ہرا دیا جس کے ساتھ ہی پاکستانی ٹیم میڈل کی دوڑ سے باہر ہوگئی ہے۔

عالمی نمبر ایک آسٹریلیا کی ٹیم میچ کے آغاز سے ہی کھیل پر چھائی رہی اور جلد ہی یکے بعد دیگرے دو گول کرکے مخالف ٹیم پر دباؤ برقرار رکھنے میں کامیاب رہی۔

پہلے ہاف میں اسے پاکستانی ٹیم پر چار، صفر سے برتری حاصل تھی۔ دوسرے ہاف میں بھی آسٹریلوی ٹیم نے میچ پر گرفت مضبوط رکھی اور جارحانہ کھیل پیش کرتے ہوئے مزید تین گول کیے۔

سیمی فائنل تک رسائی حاصل کرنے کے لیے پاکستان کو یہ میچ جیتنا بہت ضروری تھا۔

گروپ اے میں شامل آسٹریلیا سیمی فائنل کے لیے کوالی فائی کرگیا ہے اور اب تک اپنے گروپ میں پوائنٹس ٹیبل پر سرفہرست ہے۔

اولمپکس ہاکی: آسٹریلیا نے پاکستان کو سات گول سے ہرا دیا

مریخ کی سطح کی پہلی رنگین تصویر موصول

خلائی گاڑی کی جانب سے بھیجی گئی مریخ کی سطح کی پہلی رنگین تصویر
امریکی خلائی ادارے ’ناسا‘ کو مریخ پر اترنے والی اپنی خلائی گاڑی سے مریخ کی سطح کی پہلی رنگین تصویر موصول ہوگئی ہے۔

’ناسا‘ کی جانب سے منگل کو جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ دور سے لی گئی سرخی مائل بھورے رنگ کی یہ تصویر مریخ کی سطح پر موجود ایک گڑھے کی شمالی دیوار اور دہانے کی ہے جسے سائنس دانوں نے ’گال کریٹر‘ کا نام دے رکھا ہے۔

’ناسا‘ کے مطابق تصویر خلائی گاڑی ’کیوریوسٹی‘ کے روبوٹک بازو میں نصب کیمرے نے کھینچی ہے۔

یاد رہے کہ ’کیوریوسٹی‘ آٹھ ماہ طویل خلائی سفر کے بعد اتوار کی شب کامیابی سے مریخ کی سطح پر اتر گئی تھی۔ اس سے قبل خلائی گاڑی کے نیچے نصب کیمروں نے اس کے اترنے کے عمل کے دوران میں مریخ کی سطح کی سیکڑوں تصاویر کھینچ کر ’ناسا‘ کو روانہ کی تھیں تاہم سیارے پر اترنے کے بعد خلائی گاڑی کی جانب سے لی گئی یہ پہلی تصویر ہے۔

گو کہ یہ تصویر دھندلی ہے لیکن ’ناسا‘ کے سائنس دانوں نے امید ظاہر کی ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ’کیوریوسٹی‘ میں نصب کیمرے ’ہائی ریزو لوشن‘ تصاویر بھی لینے لگیں گے۔

مریخ پر اتاری جانے والی گاڑی کیوریاسٹی
 اپنے دو سال طویل مشن کے دوران ایک ٹن وزنی اور ایک گاڑی کے حجم کے برابر مکمل طور پر خودکار ’کیوریوسٹی‘ مریخ کی سطح، موسم اور وہاں موجود تابکاری کی مقدار کے جائزے کا کام انجام دے گی۔

سائنس دانوں کو امید ہے کہ ڈھائی ارب ڈالرز مالیت کے اس منصوبے سے اس قدیم سوال کا جواب تلاش کرنا ممکن ہوپائے گا کہ کیا مریخ پر کبھی زندگی موجود تھی اور آیا اس سرخ سیارے پر مستقبل میں کبھی زندگی گزارنے کا امکان ہے یا نہیں۔

مریخ کی سطح کی پہلی رنگین تصویر موصول

وسکانسن گوردوارے پر فائرنگ سابق امریکی فوجی نے کی

امریکی حکام نے ریاست وسکانسن کے سکھ گوردوارے میں اتوار کو فائرنگ کے ذریعے چھ عبادت گذاروں کو ہلاک کرنے والے شخص کی شناخت ایک سابق امریکی فوجی کے طورپر کی ہے۔

تفتیش کاروں نے پیر کے روز کہا کہ فائرنگ کرنے والے سابق فوجی کا نام ویڈ مائیکل پیج تھا اور اس کی عمر 40 سال تھی۔ اس نے 1990ء میں نوکری سے نکالے جانے سے قبل فوج میں 7 سات سال تک خدمات انجام دیں تھیں۔

تفتش کاروں نے بتایا کہ فوجی کے جسم میں متعدد ٹیٹو بنے ہوئے تھے جن میں سے ایک ٹیٹو 11-9 تھا جو 2001ء کے اس مہلک دہشت گرد حملے کی تاریخ ہے جس میں 3000 سے زیادہ افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

حکام کا کہنا ہے کہ اتوار کی صبح مل واکی شہر کے قریب واقع گوردوارے پر حملہ مقامی دہشت گردی کا واقعہ ہے یا پھر وہ نفرت پر مبنی جرم ہے۔

امریکہ میں آباد جو سکھ پگڑیاں پہنتے ہیں اور داڑھیاں رکھتے ہیں، انہیں غلطی سے مسلمان سمجھ کر نشانہ بنایا جاتا ہے۔

ایک ایسی ہی غلطی فہمی کے نتیجے میں 2001ء کے حملوں کے چار دن بعد ایری زونا میں ایک سکھ کو ہلاک کردیا گیا تھا۔

پولیس نے فائرنگ کی وجوہ کا کھوج لگانے کے لیے پیج کے اپارٹمنٹ کی تلاشی لی مگر وہاں سے کچھ نہیں ملا۔

بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ نے کہا ہے کہ انہیں اس حملے کا سن کر دھچکا لگا اور بہت دکھ ہوا اور انہوں نے اسے ایک انتہائی بزدلانہ واقعہ قرار دیا۔ دنیا بھر میں سب سے زیادہ سکھ بھارت میں آباد ہیں۔

حملہ آور کو پولیس نے گولی مار کر ہلاک کردیا تھا۔

وسکانسن گوردوارے پر فائرنگ سابق امریکی فوجی نے کی

'لندن اولمپکس' کی واحد افغان خاتون ایتھلیٹ

گزشتہ ہفتے جب ’لندن اولمپکس‘ میں خواتین کی 100 میٹر دوڑ کے ابتدائی مرحلے میں تہمینہ کوہستانی نے ’فِنش لائن‘ پار کی تو ان کی آنکھوں میں آنسو تھے۔

لیکن یہ آنسو اس وجہ سے نہیں تھے کہ وہ اس مقابلے میں سب سے آخری نمبرپر آئی تھیں۔ بلکہ ان کے آبدیدہ ہونے کی وجہ یہ تھی کہ وہ ’لندن اولمپکس‘ میں اپنے ملک افغانستان کی نمائندگی کرنے والی واحد خاتون ایتھلیٹ تھیں۔

اس 23 سالہ نوجوان ایتھلیٹ نے پیر کو ’وائس آف امریکہ – اردو سروس‘ کے لندن میں موجود نمائندے عادل شاہ زیب کو انٹرویو میں ان مشکل حالات کا تذکرہ کیا جن سے گزر کر وہ اس مقام تک پہنچیں۔

تہمینہ نے بتایا کہ وہ افغانستان کے دارالحکومت کابل کے جس سٹیڈیم میں دوڑنے کی مشق کیا کرتی تھیں وہاں نہ صرف انہیں لوگوں کی چبھتی ہوئی نگاہوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا بلکہ ان پر آوازیں بھی کسی جاتی تھیں۔ تہمینہ کے بقول ان میں سے اکثر لوگ چاہتے تھے کہ وہ گھر ہی سے باہر نہ نکلیں۔

کابل کے ایک ٹیکسی ڈرائیور نے یہ سن کر انہیں سٹیڈیم تک لے جانے سے انکار کردیا تھا کہ وہ لندن میں ہونے والے ’لندن اولمپکس‘ کے مقابلوں میں افغانستان کی نمائندگی کرنے والی واحد خاتون ایتھلیٹ ہوں گی۔

تہمینہ کے بقول اس ٹیکسی ڈرائیور نے انہیں کہا، ”میری ٹیکسی سے اتر جاؤ میں تمہیں تمہاری منزل تک نہیں لے جانا چاہتا کیوں کہ یہ ٹھیک نہیں۔ تم صحیح لڑکی نہیں ہو“۔

سنہ 1990 کی دہائی میں طالبان حکومت کے دوران میں افغان عورتوں کو ملازمت کرنے، تعلیم حاصل کرنے حتی کہ کسی مرد کے بغیر کہیں آنے جانے کی اجازت بھی نہیں تھی۔

گوکہ 2001ء میں امریکی حملے کے نتیجے میں طالبان حکومت کے خاتمے کےبعد سے افغان عورتوں کی زندگی میں خاصی تبدیلی آئی ہے، افغان معاشرے میں خواتین کے سرگرم کردار کے خلاف موجود مزاحمت اب بھی شدید ہے۔

لیکن اس کے باوجود تہمینہ کوہستانی کا عزم پختہ ہے اور اپنی ہم وطن عورتوں کے لیے ان کا پیغام ہے کہ وہ گھروں سے نکلیں، ایک دوسرے سے رابطے بڑھائیں اور افغان معاشرے میں خود کو درپیش مشکلات کا مل جل کر مقابلہ کریں۔

گوکہ تہمینہ ’لندن اولمپکس‘ میں اپنے وطن کے لیے کوئی تمغہ تو نہیں جیت پائیں، لیکن ان کا کہنا ہے کہ کھیلوں کی دنیا کے ان سب سے بڑے مقابلوں میں ان کی شرکت سے افغان عورتوں کے لیے امید کا ایک نیا در در ضرور وا ہوا ہے۔

'لندن اولمپکس' کی واحد افغان خاتون ایتھلیٹ

پیر, اگست 06, 2012

ماں

موت کی آغوش میں جب تھک کے سو جاتی ہے ماں
تب کہیں جا کر رضا تھوڑا سکوں پاتی ہے ماں

فکر میں بچوں کی کچھ اس طرح گُھل جاتی ہے ماں
نوجوان ہوتے ہوئے بوڑھی نظر آتی ہے ماں

کب ضرورت ہو مری بچے کو، اتنا سوچ کر
جاگتی رہتی ہیں آنکھیں اور سو جاتی ہے ماں

پہلے بچوں کو کھلاتی ہے سکون اور چَین سے
بعد میں جو کچھ بچا وہ شوق سے کھاتی ہے ماں

مانگتی ہی کچھ نہیں اپنے لیے اللہ سے
اپنے بچوں کے لیے دامن کو پھیلاتی ہے ماں

پیار کہتے ہیں کسے اور مامتا کیا چیز ہے
کوئی اُن بچوں سے پوچھے جن کی مر جاتی ہے ماں

پھیر لیتے ہیں نظر جس وقت بیٹے اور بہو
اجنبی اپنے ہی گھر میں ہائے بن جاتی ہے ماں

ہم نے یہ بھی تو نہیں سوچا الگ ہونے کے بعد
جب دیا ہی کچھ نہیں ہم نے تو کیا کھاتی ہے ماں

ضبط تو دیکھو کہ اتنی بے رخی کے باوجود
بد دعا دیتی ہے ہرگز اور نہ پچھتاتی ہے ماں

سال بھر میں یا کبھی ہفتے میں جمعرات کو
زندگی بھر کا صلہ اک پاتی ہے ماں

اس نے دنیا کو دیے معصوم رہبر اس لیے
عظمتوں میں ثانی قرآن کہلاتی ہے ماں

بعد مر جانے کے پھر بیٹے کی خدمت کے لیے
بھیس بیٹی کا بدل کر گھر میں آ جاتی ہے ماں

استاد کی عظمت

فاتح عالم سکندر ایک مرتبہ اپنے استاد ارسطو کے ساتھ گھنے جنگل سے گزر رہا تھا۔ راستے میں ایک بہت بڑا برساتی نالہ آگیا۔ نالہ بارش کی وجہ سے طغیانی پر آیا ہوا تھا۔ استاد اور شاگرد کے درمیان بحث ہونے لگی کہ خطرناک نالہ پہلے کون پار کرے گا۔ سکندر بضد تھا کہ پہلے وہ جائے۔ آخر ارسطو نے اس کی بات مان لی۔ پہلے سکندر نے نالہ پار کیا، ارسطو نے نالہ عبور کرکے سکندر سے پوچھا ”کیا تم نے پہلے نالہ عبور کرکے میری بے عزتی نہیں کی“؟

سکندر نے جواب دیا، ”استاد مکرم! میں نے اپنا فرض ادا کیا ہے، ارسطو رہے گا تو ہزاروں سکندر تیار ہوسکتے ہیں لیکن سکندر ایک بھی ارسطو تیار نہیں کرسکتا“۔

آئن سٹائن کے باپ کو بھی نہیں سوجھی

ممتاز دانشور ڈاکٹر عبداللہ چغتائی، علامہ اقبال کے بڑے بے تکلف دوستوں میں سے تھے۔ علامہ اقبال گپ شپ لگانے کے لئے ان کے منتظر رہتے تھے۔ اک دن وہ تشریف لائے تو علامہ اقبال نے فوراً پوچھا ”عبداللہ اتنے دنوں سے کہاں تھے“؟

چغتائی صاحب نے جواب دیا، ”کیا عرض کروں۔ آج کل اس قدر مصروفیت ہوتی ہے کہ فرصت ہی نہیں ملتی اور فرصت ملتی ہے تو وقت نہیں ملتا“۔

علامہ اقبال کو ان کی اس بات پر بے اختیار ہنسی آگئی۔ وہ قہقہہ لگاتے ہوئے بولے ”عبداللہ! تم نے آج وہ بات کہی ہے جو آئن سٹائن کے باپ کو بھی نہیں سوجھی ہوگی“۔