جمعہ, جولائی 13, 2012

ولی کی اجازت کے بغیر نکاح غیر موثر نہیں ہوسکتا، اسلام آباد ہائی کورٹ

اسلام آباد (خبرنگار) اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اقبال حمید الرحمن نے پسند کی شادی کرنیوالے شخص کیخلاف درج اغواء کا پرچہ خارج کرنے کا حکم دیدیا۔ فاضل چیف جسٹس نے فیصلے میں قرار دیا ہے کہ ولی کی اجازت کے بغیر بالغ کا نکاح غیرموثر قرار نہیں دیا جاسکتا۔ طاہر محمود نامی شخص نے 4 مارچ 2011ء کو تھانہ شہزاد ٹاﺅن میں پرچہ درج کرایا کہ یکم اور دو مارچ کی درمیانی شب محمد اکرام نامی شخص اس کے زیرکفالت یتیم بھتیجی صائمہ شاہین کو اغواء کرکے لے گیا جبکہ ا س موقع پر 7 تولے طلائی زیورات اور 50 ہزار روپے نقدی بھی غائب پائے گئے۔ صائمہ شاہین اور محمد اکرام نے مذکورہ ایف آئی آر کے اخراج کے لئے اسلام آباد ہائی کورٹ رجوع کیا۔ دوران سماعت صائمہ شاہین نے فاضل چیف جسٹس کو بتایا کہ اس نے اپنی مرضی سے محمد اکرام سے شادی کی ہے لہٰذا اس کیخلاف درج اغواء کا پرچہ خارج کرنے کا حکم دیا جائے۔ جمعہ کو عدالت عالیہ کے چیف جسٹس نے درخواست کا فیصلہ سناتے ہوئے ایس ایچ او تھانہ شہزاد ٹاﺅن کو مذکورہ ایف آئی آرخارج کرنے کا حکم دیا ہے۔
 
روزنامہ جنگ 02-04-11

سائنسی سچائیاں جو سچ نہیں

جمیل اختر | واشنگٹن

دنیا بھر میں ایسے بہت سے نظریات ہیں، جنہیں ایک سائنسی حقیقت سمجھتے ہوئے ان پر یقین اور عمل کیا جاتا ہے۔ جب کہ ان کا عموماً سائنس سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، اور اگر کچھ ہوتا بھی ہے تو اسے غلط سیاق و سباق میں پیش کیا گیا ہوتا ہے۔

ہم اپنی روزمرہ زندگی میں بہت سی چیزوں پر انہیں سائنسی حقیقت یاطبی شعبے کی تحقیق سمجھ کر نہ صرف یقین کرلیتے ہیں بلکہ انہیں اپنے لیے فائدہ مند سمجھتے ہوئے عمل بھی کرتے رہتے ہیں۔ جب کہ حقیقت اس سے بہت مختلف ہوتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بہت سے ڈاکٹر اور اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد بھی ایسی کئی سائنسی غلط فہمیوں کو سچ مان کر ان پر عمل کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔

اس مضمون میں ہم چند ایسی سائنسی غلط فہمیوں کا ذکر کررہے ہیں جو ہماری روزمرہ زندگی میں شامل ہوچکی ہیں جنہیں لوگوں کی اکثریت ایک سائنسی حقیقت کے طورپر قبول کرچکی ہے۔

روزانہ پانی کے آٹھ گلاس پینے چاہیں:
آپ نے اکثر یہ پڑھا اور سنا ہوگا کہ اچھی صحت کے لیے روزانہ پانی کے آٹھ گلاس پینے چاہیں۔ جب کہ اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ایک انسان کو روزانہ کتنا پانی درکار ہوتا ہے؟ اس کا انحصار کئی عوامل پر ہے۔ مثلاً اس کی رہائش سرد یا گرم علاقے میں ہے؟ اس کی عمر، وزن اور قد کاٹھ کتنا ہے؟ وغیرہ۔

آٹھ گلاس کے مفروضے کی بنیاد غالباً 1945ء میں نیوٹریشن کونسل کے تحت کی جانے والی ایک سائنسی تحقیق ہے۔ جس میں بتایا گیا تھ کہ ایک بالغ انسان روزانہ 64 اونس یا تقریباً آٹھ گلاس مائع استعمال کرتا ہے۔ مائع سے مراد پانی، چائے، شربت، کھانے، پھلوں، سبزیوں اورخوراک کی دیگر اشیاء میں قدرتی طور پرموجود پانی ہے۔

خیال یہ ہے کہ وقت گذرنے کے ساتھ ’مائع‘ کا لفظ پانی میں بدل گیا اور یہ جملہ کہ ایک بالغ انسان تقریباً آٹھ گلاس مائع روزانہ استعمال کرتا ہے، غلط العام ہوکر یہ بن گیا کہ ایک بالغ انسان کو روزانہ آٹھ گلاس پانی پینا چاہیے۔

کم روشنی میں پڑھنے سے نظر کمزور ہوجاتی ہے:
عموماً ہر گھر میں بچوں کو کم روشنی میں پڑھنے سے روکا جاتا ہے۔ خیال عام یہ ہے کہ کم روشنی میں پڑھنے سے نظر کمزور ہوجاتی ہے۔ یہ مفروضہ اس لیے بھی حقیقت سے قریب لگتا ہے کہ اگرآپ کچھ دیر تک کم روشنی میں مطالعہ کریں تو آپ کو اپنی آنکھوں پر بوجھ محسوس ہوگا اور ممکن ہے کہ الفاظ کچھ دھندلے سے بھی لگیں۔

طبی ماہرین اس مفروضے سے اتفاق نہیں کرتے۔ ان کا کہناہے کہ کم روشنی میں پڑھنے سے آنکھوں کے اعصاب پر دباؤ پڑسکتا ہے جس سے عارضی طور پر لفظ دھندلے دکھائی دے سکتے ہیں۔ لیکن آنکھوں کو کچھ دیر آرام دینے سے اس کے اعصاب اپنی جگہ پر واپس چلے جاتے ہیں اور بینائی اپنی اصل حالت میں لوٹ آتی ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق کم روشنی میں پڑھنے سے نظر پر کوئی مستقل اثر انہیں پڑتا۔ بینائی کی کمزوری کے اسباب کچھ اور ہوتے ہیں۔

شیو کرنے سے بال گھنے اور تیزی سے نکلتے ہیں:
اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ شیو کرنے سے بال نہ صرف تیزی سے نکلتے ہیں، بلکہ وہ گھنے بھی ہوتے ہیں اور ان کی رنگت بھی گہری ہوتی ہے۔ جب کہ اس نظریے کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ اس مفروضے کی سچائی جاننے کے لیے 1928ء میں ایک سائنسی تحقیق کی گئی تھی، جس سے پتا چلا تھا کہ شیو کا بالوں کے بڑھنے کی رفتار، ان کی موٹائی اور رنگت کے گہرا ہونے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ صرف نظر کا دھوکہ ہے۔

ہوتا یوں ہے کہ شیو کرنے کے بعد بال ایک صاف جلد پر نکلتے ہیں جس کی وجہ سے وہ زیادہ نمایاں نظر آتے ہیں اور دیکھنے والے کو یہ لگتا ہے کہ بال پہلے سے گھنے ہوگئے ہیں۔ دوسرا یہ کہ شیو کے دوران بلیڈ عموماً بالوں کو ترچھا کاٹتا ہے اور اپنے نوکیلے سروں کی بنا پر بال گھنے نظر آتے ہیں۔ اسی طرح اگر جلد پر پہلے سے بال موجود ہوں تو ان کے بڑھنے کا احساس ذرا کم ہوتا ہے۔ لیکن صاف جلد پر وہ نمایاں انداز میں بڑھتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ ماہرین نے جب شیو سے قبل اوراس کے بعد ایک مقررہ وقت کے دوران ان کی لمبائی میں اضافے کی پیمائش کی، تو وہ برابر نکلی۔

بالوں کی رنگت کا بھی شیو سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کچھ عرصے تک دن کی روشنی میں رہنے سے بالوں کی رنگت قدرے کم پڑ جاتی ہے کیونکہ سورج کی روشنی میں رنگ کاٹنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ جب کہ صاف جلد پر نئے بال ہمیں اپنے اصلی رنگ میں دکھائی دیتے ہیں، اس لیے ان کا رنگ گہرا لگتا ہے۔

ہم اپنے دماغ کا صرف دس فی صد حصہ استعمال کرتے ہیں:
عام طور یہ سمجھا جاتا ہے کہ ہم اپنے دماغ کا بہت ہی کم حصہ استعمال کرتے ہیں، یعنی زیادہ سے زیادہ دس فی صد اور عام حالات میں محض تین سے پانچ فی صد تک۔ ایک سائنسی تخمینے کے مطابق انسانی دماغ میں ایک کھرب سے زیادہ نیوران ہوتے ہیں۔ نیوران وہ خلیے ہیں جو یاداشت اور دوسرے افعال کی انجام دہی میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔

دماغ کے سٹی سیکن اور اس کی کارکردگی جانچنے کی جدید ٹیکنالوجی کی دستیابی سے قبل ماہرین کا خیال تھا کہ دماغ میں موجود نیوران کی تعداد ہماری ضرورت سے کئی گنا زیادہ ہے اس لیے دماغ کا ایک بڑا حصہ استعمال میں ہی نہیں آتا۔ لیکن اب جدید تحقیق سے پتا چلا ہے کہ انسانی دماغ سو فی صد فعال ہے اور اس کا ہر حصہ مکمل طورپر کام کررہا ہے۔

انسان حواس خمسہ سے کام لیتا ہے:
عام طورپر یہ سمجھا جاتا ہے کہ ایک مکمل انسان کے پاس پانچ قدرتی حواس ہوتے ہیں جن کے سہارے وہ اپنی زندگی گذارتا ہے۔ یعنی، دیکھنے، سننے، چھونے، چکھنے اورسونگھنے کی حس۔ پانچ حواس کا تصور قدیم یونانی مفکر ارسطو نے پیش کیا تھا، جسے ایک سائنسی حقیقت کے طورپر قبول کرلیا گیا۔ مگر سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ خدا نے انسان کو پانچ سے زیادہ حواس دیے ہیں اور مختلف جائزوں کے مطابق ان کی تعداد 9 سے 20 کے لگ بھگ ہے۔ دیگر حواس میں درد، بھوک، پیاس، دباؤ، توازن، رفتار اورحرارت وغیرہ محسوس کرنے کی صلاحیتیں شامل ہیں۔ یہ وہ حواس ہیں جن کے بغیر زندگی گذارنے میں مشکلات پیش آسکتی ہیں۔

کوئی ایک شخص تو یوں ملے کہ سکوں ملے


کوئی ایک شخص تو یوں ملے کہ سکوں ملے
کوئی ایک لفظ تو ایسا ہو کہ قرار ہو
کہیں ایسی رت بھی ملے ہمیں جو بہار ہو
کبھی ایسا وقت بھی آئے کہ ہمیں پیار ہو!

کوئی ایک شخص تو یوں ملے ۔۔۔
کہ چراغِ جاں اسے نور دے، اسے تاب دے، بنے کہکشاں
کوئی غم ہو جس كو كہا کریں غمِ جاوداں
کوئی یوں قدم کو ملائے کہ بنے کارواں

کوئی ایک شخص تو یوں ملے ۔۔۔ کہ قرار ہو
میری راہِ گزرِ خیال میں کوئی پھول ہو
میں سفر میں ہوں مرے پاؤں پہ کبھی دھول ہو
مجھے شوق ہے مجھ سے بھی کبھی کوئی بھول ہو
غمِ ہجر ہو، شبِ تار ہو، بڑا طول ہو۔۔۔

کوئی ایک شخص تو یوں ملے ۔۔۔ کہ قرار ہو
کہ جو عکسِ ذات ہو، ہو بہو میرا آئینہ، میرے رو برو
کوئی ربط کہ جس میں نا مَیں، نہ تُو
سرِ خامشی کوئی گفتگو ۔۔۔

کوئی ایک شخص تو یوں ملے کہ سکوں ملے

امریکہ نے پاکستان سے کھل کر معافی نہیں مانگی

افغانستان میں متعین نیٹو فورسز کو پاکستان کے راستے سپلائی لائن کی بحالی میں امریکی وزیر ہلیری کلنٹن اور پاکستانی صدر آصف زرداری کی ملاقات نے اہم کر دار ادا کیا، جس دوران امریکی معذرت اور ٹرانزٹ فیس کے معاملات طے پائے۔

گزشتہ برس ایک امریکی حملے میں 24 پاکستانی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد اسلام آباد حکومت نے سات ماہ سے بھی زائد عرصے تک نیٹو کی سپلائی لائن بند رکھی تھی۔ سپلائی کی بحالی کے لیے مئی میں پاکستانی صدر زرداری اور امریکی وزیرخارجہ کلنٹن کی شکاگو میں منعقدہ ملاقات فیصلہ کن ثابت ہوئی۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اپنے 24 فوجیوں کی ہلاکت کے معاملے پر اسلام آباد حکومت نے خوب احتجاج کیا اور بالآخر امریکہ کو معذرت پر مجبور کیا تاہم واشنگٹن نے بھی براہ راست معافی مانگنے کے بجائے نہایت سلیقہ مندی سے معذرت کے الفاظ چُنے۔

اس ضمن میں یہ احتیاط برتی گئی کہ اسلام آباد کی خواہش بھی پوری ہو اور رواں سال ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات جیسے نازک مرحلے میں صدر باراک اوباما پر اندرون خانہ تنقید کے سلسلے کا آغاز بھی نہ ہو۔ ذرائع کے مطابق وزیردفاع لیون پنیٹا کے اس بیان نے بھی امریکی انتظامیہ کو معافی کے ردعمل سے کسی حد تک بچایا، جس میں انہوں نے متبادل سپلائی روٹ کے بدلے ہر ماہ واشنگٹن کو پہنچنے والے اضافی ایک سو ملین ڈالر کے اخراجات کا ذکر کیا۔ امریکی ذرائع کے مطابق وزیر دفاع پنیٹا اور جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل مارٹن ڈیمپسی جیسے عہدیدار پاکستان سے معافی نہ مانگنے کے حق میں تھے۔

روئٹرز نے امریکی حکام کے حوالے سے بتایا کہ شکاگو میں صدر زرداری کے ہمراہ پاکستانی وزیرخزانہ عبد الحفیظ شیخ بھی امریکی عہدیداروں سے ملے اور بعد میں انہوں نے ہلیری کلنٹن کے ایک نائب تھومس نائڈس کے ساتھ طویل رابطہ کاری کے بعد ٹرانزٹ فیس اور معافی نامے کے معاملات طے کیے۔ امریکی ذرائع کے مطابق پاکستان نے نیٹو کو گزرگاہ فراہم کرنے کے لیے اضافی فیس کے مطالبے سے بھی دستبرداری اختیار کی۔

روئٹرز کے مطابق یہ دونوں اتحادی ممالک سپلائی لائن کی بحالی کو دو طرفہ تعلقات کے حوالے سے خاصا اہم خیال کررہے تھے۔ امریکی ذرائع کے مطابق ایوان اقتدار سے منسلک بہت سے عہدیدار پاکستان سے معانگی مانگنے کی اس لیے مخالفت کررہے تھے کہ وہ اسے خطے کے ایسے ملک کے طور پر دیکھ رہے ہیں جو وسیع امریکی امداد وصول کرکے بھی امریکی مفادات کو نقصان پہنچا رہا ہے۔

ایک امریکی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پاکستان سے کھل کر معافی نہیں مانگی گئی، ’’یہ افسوس کے اظہار کا ایک بیان تھا، جس میں معافی سے منسلک الفاظ استعمال کیے گئے۔‘‘ ایسے امکانات موجود تھے کہ اگر سپلائی لائن کی بحالی سے متعلق پاکستان کے ساتھ تصفیہ نہ ہوپاتا تو امریکی قانون ساز اسلام آباد کی مالی معاونت میں بڑے پیمانے پر کمی کر دیتے۔

”امریکہ نے پاکستان سے کھل کر معافی نہیں مانگی“

جمعرات, جولائی 12, 2012

حقیقی پاکستانی ننجا سٹائل ۔۔۔۔۔ ضرور دیکھیں


دیکھیں تو بہت مزہ آئے گا

ٹی وی سکرین کے پیچھے کچھ مناظر کی جھلک دیکھیں

ہالینڈ: ”میتسوبیشی موٹرس“ کا کارخانہ ایک یورو میں فروخت ہوگیا

جاپانی موٹر ساز کمپنی ”میتسوبیشی“ نے ہالینڈ میں واقع اپنا اسبملنگ پلانٹ ایک یورو میں فروخت کردیا ہے۔ ہالینڈ کی کمپنی ”وی ڈی ایل“ نے یہ پلانٹ خرید لیا، اب وہاں لائسنس کے مطابق بی ایم ڈبلیو گاڑیاں بنائی جائیں گی۔ کمپنی ”میتسوبیشی“ کا منصوبہ ہے کہ یورپی یونین میں اپنے کارخانے بند کرکے روس سمیت دوسرے ملکوں میں اپنی سرگرمیوں میں تیزی لائے۔ ایک یورو میں پلانٹ کی فروخت کی شرط یہ تھی کہ ڈیڑھ سو مزدوروں میں سے ایک بھی مزدور کو نہ نکالا جائے۔ اس پلانٹ میں منی کاریں اور جیپیں اسمبل کی جاتی تھیں لیکن مالی بحران کے پیش نظر مغربی یورپ میں ایسی کاروں کی مانگ میں انتہائی کمی آ چکی ہے۔

ہالینڈ: "میتسوبیشی موٹرس" کا کارخانہ ایک یورو میں فروخت ہوگیا

دنیا کی آبادی سات ارب نفوس سے تجاوز کرگئی

اس وقت دنیا کی آبادی سات ارب پانچ کروڑ چھہتر لاکھ آٹھ ہزار افراد ہے۔ اس بارے میں کل دنیا کی آبادی کی جرمن فاؤنڈیشن کے ترجمان اوٹے شٹال مائسٹر نے بتایا ہے۔ ان کے مطابق دنیا کی آبادی میں اضافے کا موجب ترقی پذیر ملک ہیں۔ اس صدی میں افریقہ کی آبادی میں ساڑھے تین ارب افراد کا اضافہ ہو چکا ہے، وہاں ابادی میں زیادہ اضافہ صحارا کے جنوب میں دیکھنے میں آیا ہے، جہاں اوسطا" ہر عورت پانچ بچوں کو جنم دیتی ہے۔ کلی طور پر دنیا کی آبادی میں ہر برس 8 کروڑ نفوس کا اضافہ ہو رہا ہے یعنی جتنی آج جرمنی کی آبادی ہے، شٹال مائسٹڑ نے کہا۔

دنیا کی آبادی سات ارب نفوس سے تجاوز کرگئی

کشمالہ طارق کا رپورٹر کے سوال پر روایتی سیاست دان کا انداز

کشمالہ طارق کا تعلق پاکستان کی سیاسی جماعت پاکستان مسلم لیگ ہم خیال گروپ سے ہے۔ کشمالہ طارق تعلیم یافتہ سیاست دان اور رکن قومی اسمبلی ہیں لیکن ٹی وی رپورٹر کے سوال پر ان کا انداز بھی پاکستان کے روایتی سیاست دانوں جیسا ہے

The Undertaker Vs Triple H (Hell in a cell) Wrestlemania 28 Full Match

One of the best match in history of WWE i ever had seen but Shawn vs Undertaker is still much better because that was a classic pure wrestling match no chairs, no sledge hammer, no tools.

پالیکیلے ٹیسٹ، اظہر علی کی عمدہ بیٹنگ ... پاکستان کی اٹھاسی رنز کی برتری

اظہر علی تیرہ چوکوں کی مدد سے ایک سو چھتیس رنز بنا کر آؤٹ ہوئے
سری لنکا کے شہر پالیکیلے میں کھیلے جانے والے ٹیسٹ میچ کے چوتھے روز پاکستان کو سری لنکا پر ایک سو اٹھاسی رنز کی برتری حاصل ہوگئی ہے۔

پاکستان نے دن کے اختتام پر آٹھ وکٹوں کے نقصان پر دو سو ننانوے رنز مکمل کر لیے اور ابھی اس کی دو وکٹیں باقی ہیں۔

میچ کے اختتام پر اسد شفیق پچپن اور وکٹ کیپر عدنان اکمل صفر پر کھیل رہے تھے۔

اس سے پہلے پاکستان نے اپنی پہلی اننگز میں دو سو چھبیس رنز بنائے جبکہ سری لنکا نے تین سو سینتیس رنز بنائے تھے۔

بدھ کو میچ کے چوتھے روز پاکستان نے ایک وکٹ کے نقصان پر ستائیس رنز سے اپنی دوسری اننگز کا دوبارہ آغاز کیا۔

اظہر علی نے چھ اور محمد حفیظ آٹھ رنز پر اپنی اننگز دوبارہ شروع کی۔

محمد حفیظ 52 رنز اور اظہر علی ایک سو چھتیس رنز بنا کر آؤٹ ہوئے۔ اس کے علاوہ یونس خان نے انیس، کپتان مصباالحق نے پانچ، محمد سمیع تین، عمر گل صفر اور سعید اجمل نے پانچ رنز بنائے۔

سری لنکا کی جانب سے ہیراتھ چار وکٹوں کے ساتھ نمایاں بالر رہے جب کہ فرنینڈو نے تین اور کالوسیکرا نے ایک وکٹ حاصل کی۔

ٹیسٹ میچ کے دوسرے روز بارش کی وجہ سے کھیل شروع نہیں ہوسکا تھا۔

تین ٹیسٹ میچوں کی سیریز میں سری لنکا کو ایک صفر سے برتری حاصل ہے۔

گال میں کھیلے جانے والے پہلے ٹیسٹ میچ میں سری لنکا نے پاکستان کو دو سو نو رنز سے شکست دی تھی جبکہ کولمبو میں کھیلا جانے والا دوسرا ٹیسٹ میچ ڈرا ہوگیا تھا۔

اس سے پہلے پاکستان سری لنکا سے ایک روزہ میچوں کی سیریز تین ایک سے ہار چکا ہے۔



پالیکیلے ٹیسٹ، اظہر علی کی عمدہ بیٹنگ

’جینڈر ٹیسٹ کے دوران ہاتھ پیر باندھے گئے‘

پنکی پرمانک
بھارت کی خاتون ایتھلیٹ پنکی پرمانک کا کہنا ہے کہ پچیس دن بعد ضمانت پر رہائی ملنے پر وہ خوش ہیں اور ان پر ایک سازش کے تحت الزامات لگائے جارہے ہیں۔

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ان کی جنس کے تعین کا ٹیسٹ زبردستی ان کے ہاتھ پاؤں باندھ کر لیا گیا۔

عدالت نے منگل کو پنکی پرمانک کی رہائی کے احکامات جاری کیے تھے۔ پنکی پرمانک کو عصمت دری کے الزام میں پچیس دن قبل گرفتار کیا گیا تھا۔

بدھ کی صبح کولکاتہ کی دم دم جیل سے رہائی کے بعد صحافیوں سے بات کرتے ہوئے پنکی پرمانک نے اپنے اوپر لگے الزامات کو ایک سازش بتایا اور کہا کہ وہ معصوم ہیں۔

بی بی سی کے نامہ نگار امیتابھ بھٹاسالی سے بات کرتے ہوئے پنکی پرمانک نے کہا: ’رہائی کے بعد میں خوش ہوں۔ بدقسمتی سے مجھے غلط الزام میں پھنسایا گیا ہے۔ اور اب بھی پھنسانے کی کوشش جاری ہے۔‘

ایک نجی ٹی وی چینل این ڈی ٹی وی سے بات چیت میں پنکی نے بتایا کہ ’جینڈر ٹیسٹ کے دوران میں اپنے آپ کو سنبھال نہیں پا رہی تھی۔ میرے ہاتھ پیر باندھ کر زبردستی ٹیسٹ لیا گیا۔‘

سنہ دو ہزار چھ کے ایشیائی کھیلوں میں طلائی تمغہ حاصل کرنے والی بھارتی ایتھلیٹ پنکی پرمانک کو عصمت دری کے الزام میں گزشتہ ماہ ریاست مغربی بنگال سے گرفتار کیا گیا تھا۔ قید کے دوران پنکی پرمانک کا جینڈر ٹیسٹ کیا گیا جس سے یہ معلوم ہوجائے گا کہ پنکی ایک مرد ہیں یا خاتون۔

’جینڈر ٹیسٹ کے دوران ہاتھ پیر باندھے گئے‘

بدھ, جولائی 11, 2012

دوہری تلوار

پاکستان میں ایک نیا نیٹو مخالف مظاہرہ ہوا۔ تقریباً تیس ہزار افراد نے اسلام آباد میں نیٹو کے امدادی سامان کے لیے راستہ کھولے جانے کے خلاف احتجاج کیا۔ پارلیمنٹ کے سامنے جلسہ کیا، امریکہ مخالف نعرے لگائے اور بنیاد پرست اجتماع ”دفاع پاکستان کونسل“ کے پلے کارڈوں کی نمائش کی۔

اس مظاہرے کا اہتمام مذہبی سیاسی جماعتوں اور امریکہ و ہندوستان مخالف مذہبی گروہوں کے اتحاد ”دفاع پاکستان کونسل“ نے کیا تھا، جس نے 16-17 جولائی کو ایک اور مارچ کرنے کا اعلان بھی کیا ہے۔ ”یہ تحریک ان مقامات پر توجہ دے گی، جہاں سے نیٹو کے لیے ٹرک افغانستان میں داخل ہوتے ہیں“۔ مذکورہ اتحاد کے چیئرمین مولانا سمیع الحق نے کہا، ”ہم کوئٹہ سے چمن تک اور پشاور سے ظورخم تک مارچ کریں گے“۔ انہوں نے کہا۔

پرہجوم مظاہرے اور سخت مطالبے حکومت کو مشکل میں ڈال سکتے ہیں۔ ایک جانب سے تو افغانستان میں نیٹو کے دستوں کے لیے امدادی سامان بھیجے جانے کی خاطر راستہ کھولا جانا حکومت کی خارجہ پالیسی کی کامیابی تصور ہوتا ہے۔ واشنگٹن نے نرم الفاظ میں ہی سہی لیکن پاکستانی چیک پوسٹ پر حملہ کرنے پر افسوس کا اظہار کیا ہے، جس کا پاکستان نے تقاضا کیا تھا۔ امریکہ نے پاکستان کو دی جانے والی امداد کے منجمد کردہ ایک ارب بیس کروڑ ڈالر واگذار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پھر راستہ کھولے جانے سے بہت سے لوگوں کو روزگار میسر آئے گا اور اس طرح اضافی آمدنی خزانے میں جائے گی۔ ”امریکہ اور پاکستان نے ماضی کی کشیدگی کو پس پشت ڈالنے کی ہمت کرتے ہوئے مستقبل کو دیکھنے کی راہ اپنا لی ہے“۔ امریکہ کی سیکریٹری آف سٹیٹ ہیلیری کلنٹن نے کہا۔

دوسری جانب راستہ پھر سے کھولے جانے کے باعث حکومت کی مقبولیت میں کمی آسکتی ہے اور سیاسی بحران مزید گہرا ہوسکتا ہے، ماسکو میں کارنیگی فاؤنڈیشن کے ماہر پیوتر تاپیچکانوو کہتے ہیں، ”امریکہ سے اتفاق کرنے کے باعث لوگ حکومت کے مخالف ہوجائیں گے کیونکہ امریکہ کے خلاف منفی جذبات بھڑک سکتے ہیں۔ پاکستان کی موجودہ حکومت بہت زیادہ پاپولسٹ ہے۔ اسے عوام کی بھرپور حمایت درکار ہے۔ اگلے سال پاکستان میں پارلیمانی انتخابات ہونے ہیں۔ ملک میں انتخابی مہم کے سے حالات ہیں۔ پاکستان کے لیے اچھا ہوتا اگر امریکہ ان کی سرزمین سے گذرنے والے راستے کو نیٹو سپلائی کی خاطر استعمال کرنے سے انکار کردیتا“۔

راستہ پھر سے کھولے جانے کے بعد پاکستان میں انتہا پسند بنیاد پرست گروہ زیادہ فعال ہوچکے ہیں۔ پاکستان کے کئی خطوں مین دھماکے ہوچکے ہیں۔ اتوار کے روز چمن کے راستے میں ایک زوردار دھماکہ کیا گیا۔ یہ ہی وہ راستہ ہے جہاں سے نیٹو کے لیے سامان لے جانے والے ٹرک افغانستان کی جانب جاتے ہیں۔ اس دھماکے میں 18 افراد لقمہ اجل بن گئے۔ ایک دوسرے دیشت گردانہ واقعے میں جو مرکزی پنجاب کے شہر گجرات کے نزدیک ہوا کم سے کم سات فوجی تب شہید ہوگئے جب حملہ آورون نے ان پر فائر کھول دیا۔

نیٹو کے لیے سپلائی روٹ پھر سے کھولا جانا حکومت مخالف لوگوں کے ہاتھ میں ترپ کا پتیہ بن سکتا ہے۔ گیلانی کے وزارت عظمٰی سے ہٹائے جانے کے بعد کا بحران ایک نیا موڑ لے سکتا ہے۔ قبل از وقت انتخابات کرائے جانے کا امکان حقیقت میں ڈھلنے کے نزدیک پہنچ چکا ہے، چنانچہ ایسے میں اس سوال کا جواب دیا جانا دشوار ہے آیا نیٹو کے لیے سپلائی روٹ پھر سے کھولا جانا حکومت کی کامیابی ثابت ہوگا یا ناکامی؟


دوہری تلوار

کھیل اور مذہبی جذبات

لندن میں ہونے والے اولمپک کھیلوں میں مسلمان کھلاڑی خواتین حجاب کا استعمال کرسکیں گی۔ بین الاقوامی اولمپک کمیٹی نے بھی فیفا کے نقش قدم پر چلتے ہوئے لڑکیوں کو یہ رعائت دے دی ہے تاہم فرانس کی قومی فٹ بال ایسوسی ایشن اب بھی پہلے کی طرح اڑی ہوئی ہے کہ فرانسیسی مسلمان خواتین حجاب نہیں کرسکتیں۔ فیفا نے مسلمان خواتین سے حجاب استعمال نہ کرنے کی پابندی گذشتہ ہفتے ہی اٹھائی ہے۔ اس سے پہلے وہ اسے پنوں کے باعث خطرناک تصور کرتی تھی لیکن بغیر پن کے حجاب کھلاڑیوں کے کھیل کے بالکل آڑے نہیں آتا۔ اب بہت سے ایشیائی ملکوں کی لڑکیوں کو اولمپک کھیلوں سمیت عالمی سطح کے کھیلوں میں شامل ہونے کا موقع ملتا ہے۔ ممکن ہے کہ لندن میں ہونے والے اولمپک کھیلوں میں ہمیں باحجاب خواتین کو کھیلتے ہوئے دیکھنے کا موقع ملے۔

بیجنگ میں ہوئی اولمپک میں بھی مذہبی لباس پر پابندی نہیں تھی لیکن اس اجازت کا اطلاق صرف لائٹ اتھلیٹکس پر ہوتا تھا۔ بحرین کی دوڑ کی کھلاڑی رقیہ القصرٰی نے ایک مخصوص مرکب لباس اور حجاب میں دوڑ کر کھیل جیت لیا تھا۔ یہ ایک مثال تھی اور اب اس نوع کے مرکّب لباس میں سعودی عرب کی لڑکیاں اولمپک کھیلوں میں شریک ہونگی۔

اس تبدیلی کے باوجود فرانس بہر حال اڑا ہوا ہے کہ کھیل میں اسلامی لباس نہیں چلے گا۔ یہ فرانس کے قانون کے خلاف ہے، ماسکو کے سرکاری انسٹیٹیوٹ برائے بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر یوگینی ابیچکن بتاتے ہیں، ”فرانس میں نقل مکانی کرکے آنے والوں کا ماحول میں ڈھل جانے کا مسئلہ بہت شدید ہے۔ اس ملک میں ہر ساتواں شخص تارکین وطن کی اولاد ہے۔ ملک میں مسلمان مذہب کے حوالے سے دوسرے مقام پر آتے ہین جن کی تعداد ستّر لاکھ ہے۔ ملک میں کیتھولک عقیدے کے حامل عیسائیوں کے بعد مسمان آتے ہیں، پروٹسٹنٹ عیسائی فرقہ تعداد میں ان سے کم ہوچکا ہے۔ اس وجہ سے انہیں فرانس کے ماحول میں جذب کرنے کا پروگرام تیار کیا گیا تھا، جس کے سلسلے میں سابق صدر فرانس نکولیا سارکوزی بہت فعال تھے تاکہ مسلمانوں کو فرانس کی تمام رسموں کا پابند بنائیں۔ اس کے لیے ہی عام مقامات پر مذہب کے حوالے سے زیب تن کی جانے والی ہر شےکو ممنوع قرار دے دیا گیا تھا۔ صرف حجاب ہی نہیں، عیسائیوں کو صلیب پہننے سے اور یہودیوں کو مخصوص ٹوپی پہننے سے روک دیا گیا تھا“۔
 
بہرحال عمومی رجحان یہ ہے کہ کھیل قومی ثقاقت سے ہم آہنگ رہیں۔ حجاب پہننے کی اجازت ملنے سے ان لڑکیوں کے لیے نئے امکانات کھلیں گے جن کی سرگرمیاں مذہبی لباس کی وجہ سے محدودو تھیں۔ لباس یا بظاہر نظر آنے کو کھلاڑیوں کی راہ میں حائل نہیں ہونا چاہیے، کھیلوں کے مبصر گریگوری توالتوادزے نے کہا، ”یہ کہنا مشکل ہے کہ حجاب پہن کر کھیلا جانا کتنا اہم ہے۔ یہ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ کوئی حجاب پہن کر غوطہ لگائے۔ اس کا نتیجہ کیا ہوگا، اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ کھیل سیاست کی نظر ہونے لگے ہیں۔ یہ صحیح نہیں ہے۔ کھیل کھیل ہوتا ہے، جس کا اولین حصہ انسان کی جسمانی خوبصورتی ہوتا ہے“۔

بلاشبہ کھیلوں کا ایک ڈریس کوڈ ہوتا ہے۔ شطرنج کی کھلاڑی لڑکیوں کے لیے گھٹنوں سے اوپر سکرٹ پہننا ممنوع ہے، لازماً بند جوتی استعمال کریں گی اور گریبان زیادہ کھلا نہیں رکھیں گی۔

کھیل اور مذہبی جذبات

روس: سیلاب نے شہر کریمسک کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا

سات جولائی کو آنے والے سیلاب نے صوبہ کراسنودار کے شہر کریمسک کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا ہے، صوبائی گورنر الیکساندر تکاچوو کے اعلان نامہ میں کہا گیا۔ گورنر نے کہا کہ گزشتہ چند دنوں سے صوبہ کراسنودار ایک سنگین ترین آزمائش سے گزر رہا ہے۔ ساتھ ہی گورنر نے یقین دہانی کرائی کہ سبھی متاثرین کو لازمی طور پر مدد دی جائے گی اور سردی آنے تک ان کے لیے نئے گھر تعمیر کردئے جائیں گے۔ ہم ہر ممکن کوشش کریں گے تاکہ معمول کی زندگی کو بحال کرسکیں، صوبائی گورنر نے کہا۔ انہوں نے متاثرین کی مدد و حمایت کرنے والوں کا شکریہ ادا کیا ہے۔ اس وقت روس بھر سے متاثرین کے لیے امدادی اشیاء بھیجی جا رہی ہیں۔

یاد رہے کہ سات جولائی کو آئے سیلاب کے نتیجے میں صوبہ کراسنودار میں ایک سو باہتر افراد ہلاک ہوگئے اور پانچ ہزار گھر منہدم ہوگئے۔

سیلاب نے شہر کریمسک کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا

بھارتی ہمالیہ میں ویاگرا کا ’سستا متبادل‘

جنسی قوت بڑھانے والی دوا ویاگرا کے خریداروں کے لیے ہمالیہ کے علاقے میں پائی جانے والی پھپھوند کی ایک قسم ایک ارزاں متبادل کے طور پر سامنے آئی ہے۔

اس نایاب پھپھوند کو مقامی آبادی نے ’بھارتی ویاگرا‘ کا نام دے دیا ہے اور آج کل ہمالیہ کے بعض علاقوں کی مقامی معیشت میں آنے والی مثبت تبدیلی اسی جڑی بوٹی کی مرہونِ منت ہے۔

تاہم اب اس قیمتی فصل کے ساتھ اس کے بعض کاٹنے والوں کو اپنی حفاظت کے لیے ہتھیاروں سے لیس ہو کر اس جڑی بوٹی کی حفاظت کرنی پڑتی ہے۔

شمالی بھارت میں اس پھپھوند کو ’کیڑا جڑی‘ کہا جاتا ہے اور یہ بھارتی ہمالیہ میں پائی جانے والی سنڈیوں پر حملہ آور ہوتی ہے۔

چین میں ’کیڑا جڑی‘ کا استعمال بطور شہوت انگیز دوا کے کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ایتھلیٹس اسے کارکردگی بڑھانے والی دوا کے طور پر بھی استعمال کرتے رہے ہیں لیکن ہندوستانی ہمالیہ کے رہائشیوں کے لیے یہ آمدن کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔

گزشتہ پانچ برس میں ان علاقوں کے لوگوں نے یہ پھپھوند اکھٹی کر کے مقامی خریداروں کو فروخت کرنی شروع کی ہے جو بعد ازاں اسے دارالحکومت دلی میں فروخت کرتے ہیں جہاں سے یہ ہمسایہ ممالک نیپال اور چین جاتی ہے۔

گاؤں میں فروخت کے وقت پھپھوند کا ایک ٹکڑا ایک سو پچاس بھارتی روپے میں فروخت ہوتی ہے جو کہ ایک یومیہ اجرت پر کام کرنے والے کے معاوضہ سے زیادہ ہے اور کچھ لوگ روزانہ چالیس ٹکڑے تک اکھٹے کرلیتے ہیں۔

چوبیس سالہ پریم سنگھ بھی قسمت آزمائی کے لیے بلند پہاڑی علاقوں میں دو ہفتے گزار کر آئے ہیں۔ پریم اس سفر پر اکیلے گئے تھے اور صرف چاول، گندم اور دال کھانے کے طور پر ساتھ لے کر گئے تھے۔

 

 تلاش کے تاریک پہلو

اس دوران انہوں نے پانچ ہزار میٹرز کی بلندی پر بھی کیمپ لگایا۔ پہلے تین دن انہیں کچھ نہیں ملا مگر پھر ان کی قسمت جاگی اور وہ اپنے گاؤں پھپھوند کے دو سو ٹکڑوں کے ساتھ لوٹے۔ اب وہ اپنی آمدن سے ایک شاندار دو منزلہ مکان تعمیر کروا رہے ہیں۔

اس طرح کی آمدن کی بات سن کر کئی لوگ جو پہلے کام کاج کے لیے شہر کا رخ کرتے تھے اب گاؤں میں ہی رہتے ہیں یا گاؤں واپس آرہے ہیں۔ پریم کی مطابق ’میں دلی کیوں ہجرت کروں جہاں ایک ہوٹل میں کام کر کے اتنے پیسے دو سال میں نہیں کما سکتا جتنے میں یہاں دو ہفتے میں کما سکتا ہوں‘۔

لیکن اس سارے سلسلے کے بعض تاریک پہلو بھی ہیں۔ سبھی لوگ اپنی تلاش میں کامیاب نہیں ہوتے اور کئی بیمار ہوکر لوٹتے ہیں۔ پھپھوند ڈھونڈنے کے لیے برف میں کہنیوں کے زور اور سینے کے بل پر لیٹنا پڑتا ہے۔ اس دوران بعض اوقات شدید سردی اور تیز ہواؤں کی وجہ پھیپھڑے درد کرتے ہیں جس کی وجہ سے لوگ اکثر جوڑوں اور سانس کی تکلیف کے ساتھ واپس لوٹتے ہیں۔

اب تک ایک شخص اونچائی کی وجہ سے ان بیماریوں کا شکار ہوکر ہلاک ہوچکا ہے۔

پھپھوند کا یہ کاروبار دشمنی کا باعث بھی بن رہا ہے خاص طور پر دو گاؤں جو کہ ایک دوسرے سے ایک پہاڑی قطعہ کی وجہ سے برسر پیکار ہیں جہاں بظاہر یہ پھپھوند کثرت سے ہے۔ یہاں اسے ڈھونڈنے والوں کو اب ہتھیار ساتھ لے کر جانا پڑتا ہے۔

اہم بات یہ ہے کہ اس پھپھوند کو اکھٹا کرنا قانونی طور پر جائز ہے مگر اس کی فروخت ناجائز ہے جو اسے تلاش کرنے والوں اور بیچنے والوں کے لیے مذید خطرات پیدا کرتا ہے۔

بھارتی ہمالیہ میں ویاگرا کا ’سستا متبادل‘

افغانستان کی تاریخ، قبروں کی زبانی

دنیا میں بہت کم ایسے ممالک ہیں جہاں مسلسل کوئی نہ کوئی بیرونی طاقت حملے کرتی رہی ہو۔ افغانستان کی کہانی میں یہ ایک اہم عنصر رہا ہے۔

ان حملوں کے نتیجے میں افغانستان میں مختلف ممالک کے فوجی اور شہری ہلاک ہوئے اور ان کے لیے افغانستان کے شہر کابل میں ’قبرہ گورہ‘ نامی ایک مخصوص قبرستان موجود ہے۔

اس قبرستان میں مختلف نسلوں سے تعلق رکھنے والے فوجی و شہری آرام کی نیند سو رہے ہیں۔ یہ قبرستان انیسوی صدی میں برطانیہ کی جانب سے کیے گئے حملوں کے دوران بنایا گیا تھا۔

کہا جاتا ہے کہ اُس جنگ میں ہلاک ہوئے کم از کم ایک سو ساٹھ فوجی یہاں دفن ہیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ افغانستان میں مختلف جنگوں اور بیرونی حملوں کے دوران جتنی ہلاکتیں ہوئی ہیں اس کے مقابلے یہ تعداد کچھ بھی نہیں۔

جب آپ اس قبرستان کے لکڑی کے پرانے دروازوں سے گزر کر اندر داخل ہوتے ہیں تو کابل کا شور و غل جیسے خاموش لگنے لگتا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ کسی نئی دنیا میں آگئے ہیں۔


یادگاریں

امریکی قیادت میں افغانستان پر سنہ دو ہزار ایک میں ہونے والے حملے کی ہلاکتوں کا ابھی یہاں ریکارڈ مکمل نہیں کیا گیا ہے تاہم نیٹو افواج کے مختلف ممالک سے آنے والے فوجیوں کے لیے یہاں بہت سی یادگاریں بنائی گئیں ہیں۔

ان فوجیوں کے ساتھ یہاں چند کہانیاں بھی محفوظ ہیں۔ 9th کوئینز رائل لانسرز کے کوئی لوٹیننٹ جان ہیرسی تھے جنہیں دسمبر انیس سو انہتر میں دل میں گولی لگی۔ افغان گولیوں کی بوچھاڑ سے مٹے 67th فٹ ریجمنٹ کے درجنوں بےنام جوان بھی یہاں آپ کو ملیں گے۔

واضح رہے کہ برطانیہ نے سب سے پہلے سنہ 1839 میں کابل پر حملہ کیا۔اس حملے کا مقصد روس کو افغانستان میں داخل ہونے سے روکنا تھا لیکن دھیرے دھیرے افغانستان میں برطانوی حکومت کے خلاف عوامی احتجاج نے زور پکڑا اور دو برسوں کے اندر برطانوی فوجوں کو ملک سے باہر نکلنا پڑا۔ تاہم برطانوی فوج اُسی سال واپس کابل آئی اور بدلے میں بیشتر کابل کو تباہ کردیا۔

برطانیہ نے شاید اس جنگ سے یہ سبق سیکھا کہ افغانستان میں مداخلت کرنا تو آسان لیکن افغانستان پر قبضہ کرنا بے حد مہنگا سودا ہے۔

امریکی قیادت میں افغانستان پر سنہ دو ہزار ایک میں ہونے والے حملے کی ہلاکتوں کا ابھی یہاں ریکارڈ مکمل نہیں کیا گیا ہے تاہم نیٹو افواج کے مختلف ممالک سے آنے والے فوجیوں کے لیے یہاں بہت سی یادگاریں بنائی گئیں ہیں۔

یہ قبرستان صرف فوجیوں کے لیے نہیں ہے۔ یہاں صحافی، امدادی کارکن بلکہ ساٹھ کی دہائی کے چند سیاح بھی موجود ہیں۔

شاید اس کا افغان نام ’قبرہ گورہ‘ یعنی غیرملکیوں کا قبرستان ہی موضوں ہے۔

افغانستان کی تاریخ، قبروں کی زبانی