تیس برس کے بعد پاکستانی جیل سے حال ہی میں رہا ہونے والے بھارتی جاسوس سرجیت سنگھ بھارت واپس آئے ہیں جن سے بی بی سی کی نامہ نگار گیتا پانڈے نے ریاست پنجاب کے ایک گاؤں فڈّا میں ان کے گھر جا کر ان سے ملاقات کی اور ان کی کہانی سنی۔
یہ دسمبر سنہ انیس سو اکیاسی کی بات ہے جب سرجیت سنگھ اپنی بیوی سے یہ کہہ کر گھر سے نکلے تھے کہ وہ جلد ہی واپس آجائیں گے لیکن دوبارہ ملاقات کرنے میں انہیں تیس برس چھ مہینے لگے جب سرجیت سنگھ کی کالی داڑھی پوری طرح سفید ہوچکی تھی۔
ایک طرف سرجیت جاسوسی کے جرم میں لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں قید کر دیےگئے تو دوسری جانب ان کے اہل خانہ نے یہ سمجھ کر امید چھوڑ دی کہ شاید وہ اس دنیا میں نہیں رہے۔ وہ قید تنہائي میں رہے۔ ان کی ملاقات کے لیے نہ تو کوئي آيا اور نہ ہی کوئي خط ان تک پہنچا۔ انہیں موت کی سزا سنائی گئی تھی اور موت کے انتظار میں ہی وقت گزار لیکن اس کے باوجود ان کا یقین اور اعتماد ان کے ساتھ رہا۔
وہ کہتے ہیں ’بس یہ سب اوپر والے کا احسان و کرم ہے جس نے ان طویل برسوں کے دوران ہماری مدد کی۔‘ اس قید کے دوران ہی سرجیت سنگھ کے بڑے بیٹے، ان کے چار بھائیوں، ایک بہن اور والد کا انتقال ہوگيا۔
تہّتر برس کی عمر میں سرجیت سنگھ جب واہگہ بارڈر سے بھارت واپس پہنچے تو خاندان میں بہت کچھ بدل چکا تھا۔ اپنے ملک واپس پہنچتے ہی ان کے اس انکشاف نے سب کو حیرت میں ڈال دیا کہ وہ پاکستان بھارت کے لیے جاسوسی کرنے گئے تھے۔
دوسری جانب بھارت سمیت پاکستان سے آنے والا ہر قیدی سرجیت سنگھ کے جاسوس ہونے کا ہمیشہ سے انکار کرتا رہا ہے۔
سرجیت سنگھ بھارت کے اس انکار سے بہت نالاں ہیں کہ انہوں نے ملک کے لیے اتنی بڑی قربانی دی لیکن اس کا کوئی صلہ نہیں ملا۔ وہ کہتے ہیں ’بھارتی حکومت نے مجھے پاکستان بھیجا تھا اور میں وہاں خود نہیں گیا تھا۔‘
سرجیت نے ایسی باتوں کو پوری طرح سے ردّ کیا کہ وہ اہمیت جتانے کے لیے یا اپنے آپ کو بڑا دکھانے کے لیے جاسوسی کا دعویٰ کرتے ہیں۔
سرجیت سنگھ کا کہنا ہے کہ ان کی غیر موجودگی میں فوج نے ان کے اہل خانہ کو ڈیڑھ سو روپے ماہانہ کے حساب سے پینشن مہیا کی۔ ’اگر میں نے ان کے لیے کام نہیں کیا تو پھر انہوں نے میرے گھر والوں کو یہ رقم کیوں ادا کی۔‘
سرجیت سنگھ کا کہنا ہے کہ حکومت کا سلوک ان کے ساتھ غیر منصفانہ ہے اور وہ اپنے حقوق کے لیے لڑائی لڑیں گے۔ ایک سوال کے جواب میں کہ اگر حکومت ان کے دعوے کو مسترد کرتی رہیگي تو پھر وہ کیا کریں گے، ان کا کہنا تھا ’میرے پاس دستاویزی ثبوت ہیں اور پھر میں اپنے حقوق کے لیے سپریم کورٹ کا سہارا لوں گا۔‘
مسٹر سنگھ نے وہ ثبوت دکھانے سے منع کیا اور یہ واضح نہیں کہ آخر وہ ثبوت کیا ہوں گے۔ وہ کہتے ہیں کہ نوجوانی میں انہوں نے بی ایس ایف ( بارڈر سکیورٹی فورسز) میں کام کیا تھا پھر سنہ انیس سو انہتر میں اسے چھوڑ کر وہ کسان بن گئے۔ ان کے مطابق ستّر کے عشرے میں فوج نے ان سے جاسوس بننے کی پیش کش کی اور اس کے لیے انہیں دوبارہ بھرتی کیا۔
وہ کہتے ہیں ’میں نے پاکستان کا پچاسی بار دورہ کیا۔ میں پاکستان جاتا تھا اور وہاں سے فوج کے لیے دستاویز لے کر آتا تھا۔ میں ہمیشہ دوسرے روز واپس آجاتا اور اس میں کبھی کوئی مشکل پیش نہیں آئی۔‘
لیکن وہ کہتے ہیں کہ آخری دورے پر سب کچھ گڑ بڑ ہوگیا۔ ’میں سرحد پار کر کے ایک پاکستانی ایجنٹ کو بھرتی کرنے گيا تھا۔ جب میں اس کے ساتھ واپس آيا تو سرحد پر تعینات ایک بھارتی افسر نے اس کی بےعزتی کردی۔ افسر نے اس ایجنٹ کو ایک تھّپڑ مارا اور اسے اندر نہیں آنے دیا۔ وہ ایجنٹ بہت پریشان تھا تو میں اسے دوبارہ ساتھ پاکستان لے کر گيا۔ لاہور میں اس نے پاکستانی حکام کو میری شناخت بتا دی۔‘
بس اس کے بعد سرجیت سنگھ کو گرفتار کرکے لاہور میں فوج کی ایک سیل میں تفتیش کے لیے لے جایا گيا۔ سنہ انیس سو پچاسی میں ایک فوجی عدالت نے انہیں موت کی سزا سنائي۔ سنہ نواسی میں پاکستان کے صدر غلام اسحاق خان نے ان کی رحم کی اپیل منظور کی اور ان کی موت کی سزا کو عمر قید میں بدل دیا۔
وہ کہتے ہیں ’شروع میں تو مجھے گھر واپسی کی کوئي امید نہیں تھی۔ جب میں موت کی سزا کاٹ رہا تھا تو مجھے لگا کہ بس اب سب ختم ہے۔ لیکن جب اسے عمر قید میں بدلا گیا تو میری امید جاگي۔‘