جمعرات, جولائی 05, 2012

شام میں اذیتی کیمپ، ہولناک داستانیں

انسانی حقوق کی علمبردار تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے پتہ چلایا ہے کہ شام میں اذیتی مراکز کا ایک جال پھیلا ہوا ہے۔ اس تنظیم نے ان مراکز کے سابق قیدیوں کے ساتھ انٹرویوز کی دل دہلا دینے والی تفصیلات شائع کی ہیں۔

منگل کو شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں اس تنظیم نے کئی مراکز کا محل وقوع بتایا ہے، ان مراکز کے ڈائریکٹرز کے نام بتائے ہیں، عینی شاہدوں کے بیانات کے حوالے دیے ہیں اور تشدد کے طریقوں کی باقاعدہ خاکوں کی مدد سے وضاحت کی ہے۔ شام میں تشدد کا نشانہ بننے والوں میں عماد ماہو بھی شامل ہے۔ خود پر بیتنے والے حالات کی تفصیل بتاتے ہوئے اُس نے کہا: ”مجھے 9 جون کو میرے والد کے ہمراہ گرفتار کیا گیا تھا۔ چھ سکیورٹی اہلکار میرے والد کی دکان پر آئے، وہ ہمیں اپنے ساتھ دمشق کے ایک ہیڈکوارٹر میں لے گئے، جہاں مجھے ایک کوٹھڑی میں بند کر دیا گیا“۔

ماہو پر یہ سب کچھ گزشتہ سال بیتا۔ اگر اُس کی بتائی ہوئی تفصیلات درست ہیں تو پھر وہ اُن متعدد اذیتی مراکز میں سے ایک میں بند تھا، جن کا ذکر ہیومن رائٹس واچ نے شام سے متعلق اپنی 81 صفحات پر مشتمل ایک تازہ رپورٹ میں کیا ہے۔ البتہ اس رپورٹ میں صرف وہ بیانات شامل کیے گئے ہیں، جن پر ایک سو فیصد اعتبار کیا جاسکتا تھا۔ ان بیانات کو مواصلاتی سیاروں سے لی گئی تصاویر کی مدد سے بھی جانچا گیا اور قیدیوں سے اُن کی کوٹھڑیوں کے خاکے بھی بنوائے گئے۔ عماد ماہو نے اپنی کوٹھڑی کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا: ”مجھےسترہ دیگر شامیوں کے ساتھ بند کردیا گیا تھا۔ جگہ بہت تنگ تھی۔ ہم نہ تو اچھی طرح سے سانس لے سکتے تھے اور نہ ہی لیٹ سکتے تھے“۔

ہیومن رائٹس واچ کے مطابق ان قیدیوں کو بجلی کے جھٹکے لگائے گئے، لاٹھیوں سے مارا پیٹا گیا، جلایا گیا اور موت کی نمائشی سزائیں دے کر ذہنی اذیت سے دوچار کیا گیا۔ الجزیرہ ٹی وی چینل سے باتیں کرتے ہوئے عماد ماہو نے اس حوالے سے اپنے تجربات کچھ یوں بتائے: ”انہوں نے میرے چہرے، کمر اور گھٹنوں پر ضربیں لگائیں اور مجھے بجلی کے جھٹکے دیے۔ پھر وہ میرے والد کو لے کر آئے اور میرے سامنے اُسے مارا پیٹا۔ وہ میری مزاحمت کو ختم کردینا چاہتے تھے“۔

یومن رائٹس واچ کے مطابق شام میں گیارہ گیارہ سال تک کے بچوں کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ عماد ماہو کے مطابق اُس نے قید کے دوران ایک پندرہ سالہ لڑکا بھی دیکھا، جسے بچہ ہونے کے باوجود زدوکوب کیا گیا اور بجلی کے جھٹکے لگائے گئے۔ ماہو کے مطابق اُس بچے کے جسم پر زخموں کے نشان اُس نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھے تھے۔ ماہو نے مزید بتایا: ”وہ مجھ سے یہ اگلوانا چاہتے تھے کہ مَیں انقلاب کے بارے میں کیا جانتا ہوں، اِس تحریک کو کیسے منظم کیا جارہا ہے، کون فلمیں انٹرنیٹ پر جاری کرتا ہے اور کیسے میڈیا کے ساتھ مل کر کام کیا جا رہا ہے“۔

رہائی ملنے کے بعد ماہو فرار ہوکر اردن چلا گیا۔ آیا وہ حقیقت بیان کررہا ہے، اس بات کی تصدیق مشکل ہے۔ ماہو کے مطابق بشار الاسد کو گرفتار کرکے عدالت کے کٹہرے میں لایا جانا چاہیے اور اُس کے کیے کا حساب لیا جانا چاہیے۔

شام میں اذیتی کیمپ، ہولناک داستانیں

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

آپ کی رائے باعث مسرت لیکن موقف کا غیر اخلاقی حصہ حذف کر دیا جائے گا۔