بچے لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
بچے لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

منگل, اکتوبر 09, 2012

بھارت؛ شہروں سے لَوٹنے والی بِن بیاہی مائیں

بہت ساری خواتین بچوں کو اپنے گاؤں میں چھوڑکر واپس نہیں آئیں
بڑے شہروں کا چكا چوندھ اور سنہرے مستقبل کا خواب لئے جھارکھنڈ کی ہزاروں قبائلی لڑکیاں بڑے شہروں کا رخ تو کررہی ہیں مگر وہاں سے وہ جاتی ہیں بیماریاں اور گود میں بغیر شادی کے بچے لے کر۔ غیر سرکاری تنظیموں کی طرف سے کی گئی ایک تحقیق کے مطابق جھارکھنڈ سے روزگار کی تلاش میں بڑے شہروں کا رخ کرنے والی لڑکیوں کی تعداد میں تو اضافہ ہورہا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان بچوں کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے جنہیں یہ لڑکیاں واپس لے کر آرہی ہیں اور ریاست کے دور دراز جنگلات میں واقع اپنے گاؤں میں چھوڑ کر واپس جارہی ہیں۔ صورتحال اتنی خطرناک ہوگئی ہے کہ ایک سماجی تنظیم نے ان علاقوں میں ایسے بچوں کے لئے آشرم کھولنے شروع کردیئے ہیں۔

سمڈیگا ضلع کا سانور ٹنگریٹولی گاؤں میں میری ملاقات چھ سالہ پیٹر سے ہوئی۔ پیٹر کی والدہ دلی میں کام کرتی ہیں۔ ایک دن وہ گاؤں لوٹی حاملہ ہوکر اور پیدائش کے بعد پیٹر کو نانا نانی کے پاس چھوڑ کر واپس دلی چلی گئیں۔ پیٹر کے نانا کا کہنا ہے کہ پیدائش کے کچھ ہی مہینوں کے بعد وہ پھر دلی چلی گئی اور اب پانچ سال ہوگئے ہیں اس کا کوئی پتہ نہیں ہے۔ نہ اس نے کبھی فون کیا نا کوئی خط بھیجا اور نہ ہی خرچ کے لیے پیسے۔ وہ کہاں ہیں کسی کو اس کے بارے میں کچھ نہیں معلوم۔

پیٹر اپنے نانا نانی کو اپنا والدین سمجھتا ہے۔ پیٹر کی طرح ہی سمڈیگا ضلع کے دور دراز کے علاقوں میں کئی ایسے بچے ہیں جو اپنی ماں کا انتظار کررہے ہیں۔ لیکن ان کا انتطار لمبا ہوتا جارہا ہے۔ اور اس بات کے امکانات کم ہیں کہ ان مائیں واپس آئیں گی۔ سمڈیگا گاؤں کے حالات کا جائزہ لیتے ہوئے میں شہر کے قریب ’مراکل فاؤنڈیشن‘ پہنچا تو آشرم میں پالنوں ميں ایسے بچوں کو لیٹا دیکھ کر آنکھیں بھر آئیں۔ ان بچوں کی کلکیاروں کی آوازیں تو کہیں ان کے رونے چلانے کی آوازیں مجھے رہ رہ کر ستا رہی ہیں۔ اس آشرم میں تقریباً پچھتر ایسے بچے ہیں جن کے والدین کا کچھ پتہ نہیں۔ ان کی آشرم ان کی دیکھ بھال اور پرورش کا انتظام ہے۔ جھارکھنڈ میں بچوں کے حقوق اور حفاظت کے سرکاری کمیشن کے مطابق صرف سمڈیگا ضلع میں ہی ایسے بچوں کی تعداد دو سو سے زیادہ ہے۔ ایسا ہی حال گوملا، رانچی اور کھووٹی اضلا‏ع میں بھی ہے۔


آشرم کی سربراہ پربھا ٹے ٹے کہتی ہیں ’ آشرم میں نہ صرف ان بچوں کی دیکھ بھال کی جاتی ہے بلکہ ان حاملہ لڑکیوں کی بھی مدد کی جاتی جو اس سے پہلے سماج کے ڈر سے بغیر شادی کے پیدا ہوئے بچوں کو ادھر ادھر پھینک دیتی تھیں۔‘ آشرم کے باہر سڑک کے کنارے ایک پالنا رکھا ہوا جہاں اس طرح کی مائیں بچوں کو رکھ کر چلی جاتی ہیں اور پھر آشرم والے ان بچوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ مگر سمڈيگا ضلع کے گرجا کھیدنٹولی گاؤں کی نومیتا کے بچے خوش قسمت ہیں۔ نومیتا نے اپنے بچوں کا ساتھ نہیں چھوڑا ۔ نومیتا کے تینوں بچے ان کے ساتھ رہتے ہیں۔ حالانکہ نومیتا کو گاؤں کے لوگوں نے بالکل الگ تھلگ کردیا ہے۔ نومیتا بیمار رہتی ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ اس نے دوبارہ شہر جانے کی ہمت نہیں کی۔

جھارکھنڈ کے چائلڈ رائٹ پروٹیکشن کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین سنجے کمار مشر کہتے غیر شادی شدہ ماؤں اور ان کے بچوں کے مسائل سنجیدہ روپ اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ شہر جانے والی زیادہ تر لڑکیوں کا استحصال ہوتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا، ’زیادہ تر لڑکیاں دلالوں کے کہنے میں آ کر دلی یا دیگرشہروں کی پلیس مینٹ ایجنسیوں کے پاس چلی جاتی ہیں۔ پھر جن گھروں میں انہیں کام کرنے بھیجا جاتا ہے وہاں پر وہ جنسی استحصال کا شکار ہوتی ہیں۔‘ سنجے کمار مشرا کہتے ہیں، ’جھارکھنڈ حکومت نے دلی پولیس اور وہاں موجود ایک غیر سرکاری تنظیم کے ساتھ مل کر ایسی لڑکیوں کو بچانے کے لیے ایک ٹاسک فورس تشکیل دی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حالیہ دنوں میں ملک کے مختلف علاقوں سے کئی لڑکیوں کو بچانے میں کامیابی حاصل ہوئی ہے۔‘

سمڈیگا میں چرچ بھی ان خواتین کی مدد کے لیے آگے آ رہے ہیں۔ ایسے ہی ایک چرچ سے منسلک نن الیزابیتھ کا کہنا ہے کہ بعض لڑکیاں ایڈز جیسی بیمار کا شکار ہوچکی ہیں۔ انہوں نے کئی لڑکیوں کے نام بتائے جس میں سے ایک لڑکی کی موت ایڈز سے ہوگئی ہے۔ چرچ، حکومت اور غیر سرکاری تنظیمیوں کی کوششیں جاری ہیں لیکن اقتصادی پسماندگی کے سبب جھارکھنڈ کے ایسے بہت سے خاندان ہیں جو روزگار کی تلاش میں اپنی لڑکیوں کو بڑے شہروں میں بھیجنے کے لیے مجبور ہیں۔

قبائلی خواتین کا شہر کا رخ، بن بیاہی ماں بن کر لوٹنا

بدھ, ستمبر 26, 2012

بچے اگر خوف سے جاگ جائیں تو کیا کریں؟

کئی بچے سکول جانے سے پہلے کی عمر یا سکول کے ابتدائی دنوں میں رات کو نیند میں شدید خوف کا شکار ہوجاتے ہیں۔ بچوں کی اس حالت کو Night Terror کہتے ہیں اور اب ماہر ڈاکٹروں نے اس سے نمٹنے کا صحیح طریقہ بھی دریافت کرلیا ہے۔

رات کو نیند میں اچانک خوف کا شکار ہونے والے چھوٹے بچے جاگنے کے بعد یک دم چیخنا شروع کردیتے ہیں۔ ماں باپ کے لیے ان کو چپ کرانا انتہائی مشکل ثابت ہوتا ہے۔ ایسے بچے جاگنے اور آنکھیں کھلی ہونے کے باوجود اپنے والدین کی بات نہیں سنتے اور چند واقعات میں تو یہ بچے خود کلامی بھی شروع کردیتے ہیں۔

بچوں کے امراض کے ماہر ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ایسی حالت میں والدین کو بچے کو گود میں لے کر اس سے آہستہ آواز میں بات کرنی چاہیے۔ بچے کو یہ احساس دلانا چاہیے کہ وہ محفوظ ہے اور وہ خوف کی وجہ سے کسی طرح خود کو کوئی نقصان نہ پہنچا لے۔

جرمنی میں بچوں کی بیماریوں کے ماہر ڈاکٹروں کی تنظیم سے تعلق رکھنے والے ایک ماہر اُلرِش فیگےلَیر Ulrich Fegeler بھی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ایسی حالت میں بچوں کو پوری طرح جگانے کی کوشش بھی زیادہ مددگار ثابت نہیں ہوتی۔ اس لیے کہ ’نائٹ ٹیرر‘ کے دوران بچے نیند اور جاگنے کی درمیانی حالت میں ہوتے ہیں۔ انہیں فوری طور پر یہ اندازہ نہیں ہوتا کہ وہ کہاں ہیں اور ان کے لیے دوبارہ سو جانا بھی مشکل ہوتا ہے۔

ڈاکٹر فیگے لَیر کے مطابق بچوں کی اس حالت کو طبی زبان میں پاوور نوکٹُرنس Pavor Nocturnus کہتے ہیں۔ یہ حالت عام طور پر پانچ اور پندرہ منٹ کے درمیان تک رہتی ہے۔ پھر متاثرہ بچہ خود بخود دوبارہ سو جاتا ہے۔ اس حالت کا شکار عام طور پر صرف تین سے لے کر چھ فیصد تک بچے ہوتے ہیں۔ چھوٹے بچوں کو رات کے وقت اچانک شدید خوف کا یہ تجربہ سونے کے بعد ایک گھنٹے سے لے کر چار گھنٹے تک کے عرصے کے درمیان کسی وقت ہوتا ہے۔

طبی ماہرین کہتے ہیں کہ یہ صورتحال کوئی ڈراؤنا خواب دیکھنے کی حالت سے مختلف ہوتی ہے۔ نیند میں اچانک دہشت یا خوف کے شکار بچے صبح جب جاگتے ہیں تو انہیں کچھ یاد نہیں ہوتا۔ نیند میں خرابی کے اس عمل یا disorder کا کسی جسمانی یا نفسیاتی مسئلے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس کے کوئی لمبے عرصے تک باقی رہنے والے اثرات بھی نہیں ہوتے۔

جرمن ماہر Ulrich Fegeler کے بقول یہ حالت اس لیے پیدا ہوتی ہے کہ بچوں کا اعصابی نظام ابھی نشو و نما کے عمل سے گزر رہا ہوتا ہے اور یہ نیند میں بھی بہت فعال ہوتا ہے۔ عام طور پر اس کی وجہ بچوں میں بہت زیادہ تھکاوٹ بھی ہوتی ہے۔ اس کا سبب کوئی نئی دوائی یا معمول سے ہٹ کر کسی مختلف جگہ یا ماحول میں سونا بھی ہو سکتا ہے۔

بچوں کی بیماریوں کے مشہور ڈاکٹر فیگے لَیر کہتے ہیں، ’’ایسی حالت میں بچوں کو پرسکون انداز میں تسلی دنیا اور انہیں کسی بھی خطرے میں نہ ہونے کا احساس دلانا سب سے زیادہ مددگار ثابت ہوتا ہے۔‘‘ جو بچے ایسے واقعات کا شکار ہوتے ہیں، انہیں ایک مقررہ وقت پر سلا دینا چاہیے اور سونے سے پہلے انہیں ہر قسم کے ذہنی دباؤ سے بچانا چاہیے۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر بچوں میں ’نائٹ ٹیرر‘ کے واقعات پھر بھی کم نہ ہوں تو والدین کو کسی چائلڈ اسپیشلسٹ سے مشورہ کرنا چاہیے۔

بچے اگر خوف سے جاگ جائیں تو کیا کریں؟

پیر, ستمبر 24, 2012

سردرد کی پین کلر مرض میں اضافہ کرسکتی ہے

برطانوی طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ سر درد روکنے کے لئے پین کلر کا استعمال مرض میں اضافے کی وجہ بن سکتا ہے۔

برطانوی ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ سر درد ختم کرنے والی ادویات کا زیادہ استعمال معدے کی خرابی اور دل کی بیماریوں کا سبب بنتا ہے۔ ان بیماریوں کے ساتھ سردرد کی شکایت بھی بڑھ جاتی ہے۔ 

ڈاکٹروں نے درد کش ادویات کا استعمال فوری طور پر یا مرحلہ وار ختم کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق ابتدائی طور پر اس سے سر درد میں اضافہ ہوگا لیکن آہستہ آہستہ صحت بہتر ہوگی اور سر درد ختم ہوتا جائے گا۔

بدھ, ستمبر 19, 2012

بچوں کے پیٹ میں درد کیوں ہوتا ہے؟

ایک تازہ ترین تحقیق کے مطابق تمام بچوں میں سے ایک چوتھائی کے قریب پیٹ میں درد کی بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں لیکن اس کی وجہ اکثر جسمانی نوعیت کی نہیں ہوتی۔

جرمنی میں چھوٹے بچوں کے ڈاکٹروں کی تنظیم سے وابستہ ڈاکٹر اُلرش فیگیلر کا کہنا ہے کہ اکثر بچوں کے پیٹ میں درد کی وجہ خوف یا پھر ذہنی دباؤ ہوتا ہے۔ پیٹ میں درد کی اس قسم کو مزید واضح کرتے ہوئے ڈاکٹر اُلرش بتاتے ہیں کہ یہ درد اکثر بچوں کو سکول کے دنوں میں ہوتا ہے اور چھٹی والے دن غائب ہوسکتا ہے۔

ڈاکٹر اُلرش والدین کو نصحیت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر چھوٹے بچے مسلسل پیٹ میں درد کی شکایت کریں تو والدین کو نوٹ کرنا چاہیے کہ بچے کب یہ شکایت کرتے ہیں اور بچوں سے باقاعدہ یہ پوچھنا چاہیے کہ انہیں یہ درد پیٹ کے کس حصے میں ہوتا ہے؟ ڈاکٹر کے مطابق والدین کا اس طرح کا مشاہدہ بچے کے پیٹ میں درد جیسے مرض کو ختم کرنے یا پھر اس کے حل میں مدد دے سکتا ہے۔

ڈاکٹر الرش کہتے ہیں کہ ناف کے ارد گرد اعصاب اور خون کی باریک نالیوں کا ایک گھنا نیٹ ورک ہوتا ہے اور اگر بچہ مایوس یا فکر مند ہو تو ناف کے ارد گرد کے عضلات میں اکڑاؤ پیدا ہوجاتا ہے، جس سے ایک ناخوش گوار سا احساس پیدا ہوتا ہے اور بچہ پیٹ میں درد محسوس کرنے لگتا ہے۔ 

اگر بچہ پیٹ میں درد کے نتیجے میں نیند سے بیدار
ہوجائے یا پھر یک دم کھیلنا بند کردے
 تو اس کی وجہ جسمانی ہوسکتی ہے
ڈاکٹر اُلرش کے مطابق اگر درد ناف کی بجائے پیٹ کے اوپر والے حصے یا پھر نیچلے حصے میں ہو تو یہ بخار کے ساتھ ساتھ کمزوری کی علامت ہے۔ اور اگر بچہ پیٹ میں درد کے نتیجے میں نیند سے بیدار ہوجائے یا پھر یک دم کھیلنا بند کردے تو اس کی وجہ جسمانی ہوسکتی ہے۔

ڈاکٹر اُلرش نصیحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر بچوں کے پیٹ میں مسلسل درد رہے تو اُنہیں فوری طور پر ڈاکٹر کے پاس لے جانا چاہیے۔ اور اگر درد کی کوئی جسمانی وجہ ثابت نہ بھی ہو تو والدین کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ بچے کی نظر میں یہ پیٹ کا درد ہی ہے۔ ڈاکٹر الرش کے مطابق ایسے میں بچوں کو بہتر توجہ دینی چاہیے اور ان کے خوف یا ذہنی دباؤ کی وجوہات دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس کا ایک متبادل یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بچے کو اُس وقت تک لیٹے رہنے دینا چاہیے، جب تک یہ درد ختم نہیں ہوجاتا۔

بچوں کے پیٹ میں درد کیوں ہوتا ہے؟

جمعرات, ستمبر 06, 2012

پیٹ میں کیڑے پیدا کرنے والے انفیکشن سے بچاؤ

بچوں میں بہت عام پیٹ کی ایک بیماری کا تعلق حفظان صحت سے ہوتا ہے۔ جرمن ماہرین کا کہنا ہے کہ حفظان صحت کے چند بنیادی اصولوں کی پابندی سے بچوں کے پیٹ میں کیڑوں کا سبب بننے والے انفیکشن سے بچا جاسکتا ہے۔

طبی ماہرین اور بچوں کے ڈاکٹروں کے اندازوں کے مطابق 5 سے 9 سال تک کی عمر کے قریب 20 تا 40 فیصد بچوں کے پیٹ میں کبھی کبھار کیڑے پیدا ہوجاتے ہیں۔ ان کی مختلف اقسام ہوتی ہیں۔ سب سے زیادہ یا عام طور پر پائے جانے والے کیڑوں کو ’پِن ورمز، راؤنڈ ورمز اور ٹیپ ورمز‘ کہا جاتا ہے۔ مغربی یورپ اور امریکا میں بچوں میں سب سے زیادہ پائی جانے والی پیٹ کی بیماری کو enterobiasis کہا جاتا ہے۔ یہ بڑی آنت میں پایا جانے والا ایسا انفیکشن ہے جو منطقہ معتدلہ میں بسنے والے انسانوں میں ہوتا ہے۔ اس کا شکار سب سے زیادہ بچے ہی ہوتے ہیں۔ یہ بیماری امریکا میں بہت عام ہے۔ اس کے علاوہ ترقی پذیر ممالک کے بچے اس کا بہت زیادہ شکار ہوتے ہیں کیونکہ سکول جانے والے بچوں میں یہ انفیکشن تیزی سے پھیلتا ہے۔

بچوں میں اس عفونت کی علامات پیٹ کا درد اور مقعد سے متعلقہ جائے براز میں خارش ہوتی ہیں۔ اس انفیکشن میں مبتلا بچے کی کیفیت خاص طور پر راتوں کو زیادہ خراب ہوتی ہے۔ ایسے بچے رات میں بہت بے چین رہتے ہیں اور انہیں نیند نہیں آتی اور وہ سکول میں اپنی پڑھائی پر بھی توجہ نہیں دے پاتے۔ اکثر ان بچوں کے فُضلے میں باریک، سفید رنگ کے یہ کیڑے نظر آتے ہیں۔

جرمنی میں بچوں اور نوجوانوں کی بیماریوں کے ماہر ڈاکٹروں کی ایسوسی ایشن کے ترجمان اُلرش فیگلر کا کہنا ہے کہ پیٹ میں پائے جانے والے کیڑوں کے خلاف ادویات گرچہ موجود ہیں اور یہ کار آمد بھی ثابت ہوتی ہیں تاہم حفظان صحت کی خرابی اور صفائی کے چند بنیادی اصولوں کی اگر پابندی نہ کی جائے، تو یہ ادویات بھی افاقے کا باعث نہیں بن سکتیں۔

اس جرمن ماہر کا کہنا ہے کہ پیٹ میں کیڑوں کا سبب بننے والا انفیکشن ایک متعدی مرض ہوتا ہے۔ اس لیے ایسے بچوں کو دوسرے بچوں سے دور رکھنا بھی ضروری ہوتا ہے۔ طبی ماہرین کا مشورہ ہے کہ اس عفونت کے شکار بچوں کے لباس کو ہر روز بدلنا، ان کے جسم کو اچھی طرح دھونا، خاص طور پر ان کے ہاتھوں کو منہ میں لگنے سے پہلے دھونا اور ان کے بستر کو صاف ستھرا رکھنا چند بنیادی اصول ہیں جن کی پابندی ضروری ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ انفیکشن بچوں سے ماؤں کو بھی لگ سکتا ہے۔ ناخنوں کے ذریعے بھی یہ انفیکشن تیزی سے پھیلتا ہے۔ اس لیے ناخن تراشنا اور انہیں صاف کرتے رہنا بھی نہایت ضروری عمل ہے۔

پیٹ میں کیڑے پیدا کرنے والے انفیکشن سے بچاؤ

پیر, اگست 27, 2012

بندر سمجھ کر اپنا ہی بیٹا مار دیا

جنوبی نیپال میں ایک کسان نے غلط فہمی کا شکار ہوکر اپنے ہی بارہ سالہ بیٹے کو گولی مار کر ہلاک کردیا۔ پولیس نے بتایا ہے کہ کسان سمجھا کہ بندر اس کی فصل خراب کررہا تھا۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے بتایا ہے کہ چترا بہادر نامی بارہ سالہ بچہ درخت پر چڑھ کر ان بندروں کا تعاقب کررہا تھا، جو اس کے گھرانے کے لیے پریشانی کی وجہ بنے ہوئے تھے۔ لیکن اس دوران چترا کے پچپن سالہ والد گپتا بہادر نے بندر سمجھ کر جس پر فائر کیا، وہ اس کا اپنا ہی بیٹا تھا۔ گپتا بہادر کے بقول یہ بندر اس کی فصلیں خراب کرتے تھے اور بطور خوراک انہیں لے کر بھاگ جاتے تھے۔

جنوبی نیپال میں آرگھا کھانچی نامی دور دراز علاقےکے پولیس حکام نے بتایا ہے کہ چترا بندروں کا تعاقب کرتے ہوئے درختوں میں چھپا ہوا تھا کہ اس کے والد نے اس غلط فہمی کا شکار ہوتے ہوئے کہ وہ بندر کو نشانہ بنا رہا ہے، اپنے ہی بیٹے پر فائر کھول دیا۔ علاقے کی پولیس کے نائب سربراہ ارون پاؤڈل نے بتایا کہ بچہ موقع پر ہی ہلاک ہوگیا، ’’بچہ درخت پر ٹہنیوں کے پیچھے چھپا ہوا تھا، جو گولی لگنے کے بعد وہیں ہلاک ہوگیا۔‘‘

ابتدائی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ گپتا بہادر کو علم نہیں تھا کہ اس کا بیٹا بندروں کو بھگانے کے لیے کھیتوں میں گیا ہوا ہے، اس لیے اس سے یہ غلطی سرزد ہوئی۔ پولیس نے بتایا کہ گپتا بہادر کو تحویل میں لے لیا گیا ہے اور وہ بندوق بھی برآمد کر لی گئی ہے، جس سے اس نے فائر کیا تھا۔

نیپال کی سرکاری نیوز ایجنسی نے آج اتوار کو بتایا کہ یہ واقعہ جمعے کے روز رونما ہوا۔ گپتا بہادر نے بعد ازاں ذرائع ابلاغ کو بتایا، ’’مجھے اپنی غلطی کا احساس اس وقت ہوا جب فائر کے بعد میرا اپنا ہی بیٹا درخت سے گر کر شاخوں میں پھنس گیا۔‘‘

بندر سمجھ کر اپنا ہی بیٹا مار دیا

نئی دہلی میں یومیہ 12بچے اغوا ہوتے ہیں

حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق، اِس وقت پورے بھارت میں 55000 بچے لاپتا ہیں اور محکمہ پولیس اُن کا سراغ لگانے میں ناکام رہا ہے، جب کہ دارالحکومت دہلی میں روزانہ 12 بچے لاپتا ہوتے ہیں، جِن میں اکثریت لڑکیوں کی ہے۔

اِس سلسلے میں سپریم کورٹ نے مرکز اور تمام ریاستی حکومتوں کو نوٹس جاری کیا ہے۔ اُس نے یہ کارروائی مفادِ عامہ کی ایک عذر داری پر سماعت کے دوران کی، جسے ایک وکیل سرو مِترا نے داخل کیا ہے۔

جسٹس آفتاب عالم کی سربراہی والے بینچ نے اِس بارے میں حکومتوں سے جواب طلب کیا ہے۔ عذر داری میں کہا گیا ہے کہ لاپتا بچے اذیت ناک حالت سے دوچار ہوتے ہیں۔ اُن کو اغوا کرنے والے گروہ کسی بچے کا ایک ہاتھ کاٹ دیتے ہیں تو کسی کا ایک پیر اور کسی کی آنکھ پھوڑ دیتے ہیں۔ پھر اُنھیں بھیک مانگنے پر مجبور کردیا جاتا ہے یا جسم فروشی کے دھندے میں دھکیل دیا جاتا ہے۔

عذرداری میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پولیس محکمہ اغوا کے معاملات کی جانچ کرنے اور لاپتا بچوں کو تلاش کرنے میں ناکام رہا ہے۔ یہ صورت حال اِن معصوم بچوں کو زندہ رہنے کے حق اور آزادی سے محروم کرنے جیسا ہے۔ ایسے بچوں کی خرید و فروخت بھی ہوتی ہے اور اُن کا جنسی استحصال بھی کیا جاتا ہے۔

ادھر، دہلی پولیس کے ریکارڈ کے مطابق دارالحکومت دہلی میں ایک سال کے اندر 3171 بچے لاپتا ہوئے ہیں، جن میں 1652 لڑکیاں اور 1519 لڑکے ہیں۔

یہاں یومیہ 12بچے غائب ہوتے ہیں۔ تاہم، پولیس کا کہنا ہے کہ گذشتہ سال کےمقابلے میں امسال گمشدگی کی شرح کم ہوئی ہے، کیونکہ گذشتہ سال 14بچے یومیہ گم ہورہے تھے۔ لیکن، ایک اعلیٰ پولیس افسر کےمطابق بچوں کی گمشدگی کی کوئی ایک خاص وجہ نہیں ہے۔

جِن بچوں کو تلاش کرلیا گیا ہے اُن کی گمشدگی کی وجوہات میں والدین کا غلط سلوک، دوسرے لوگوں کے ذریعے گمراہ کیا جانا، تعلیم کا بوجھ، دماغی خلل یا کسی کے ساتھ بھاگ جانا شامل ہے۔

نئی دہلی میں یومیہ 12بچے اغوا ہوتے ہیں: پولیس ذرائع

جمعرات, اگست 09, 2012

گیارہ سالہ نا بالغ بچی کی 54 سالہ شخص سے شادی کی کوشش ناکام

ٹھٹھہ کے علاقے سجاول میں پولیس نے گیارہ سالہ لڑکی کی شادی 54 سالہ شخص سے ناکام بناکر لڑکی، اُ س کی ماں اور بھائی سمیت 54 سالہ دولھا کو گرفتار کرلیا۔

پاکستان کے ایک موقر انگریزی روزنامے’ڈان‘ کی خبر کے مطابق، اطلاع پر پولیس نے ماچھی گوٹھ کے ایک مکان میں چھاپہ مار کر 54 سالہ شخص کو نابالغ لڑکی سے شادی کرنے کے جرم میں گرفتار کرلیا۔ لڑکی کی ماں اور بھائی نے گیارہ سالہ لڑکی کو پینتس ہزار روپے میں بیچا تھا۔

سجاول تھانے کے ایس ایس پی عثمان غنی نے ایف آئی آر درج کرنے کے بعد لڑکی کی ماں اور اس کے بھائی، نکاح خواں اور گواہوں کے خلاف تفتیش شروع کردی ہے۔ انسانی حقوق سیل کے انچارج رفیق سومرو نے بتایا کہ مزید افراد کو بھی جلد گرفتار کرلیا جائے گا۔

پاکستان میں کم عمری کی شادیوں کے خلاف موجودہ قانون میں لڑکی کی شادی کی کم از کم عمر سولہ جبکہ لڑکے کی اٹھارہ سال ہے، تاہم اس قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بچوں کی کم عمری میں شادی کا رواج موجود ہے۔

گیارہ سالہ نا بالغ بچی کی 54 سالہ شخص سے شادی کی کوشش ناکام

بدھ, جولائی 11, 2012

بھارت: بچی کو پیشاب پینے کی سزا

بچوں کے استحصال کی رپورٹیں عام نہیں ہو پاتی ہیں
بھارت کی ریاست مغربی بنگال کی وشو بھارتی یونیورسٹی کے ایک سکول میں پانچویں جماعت میں پڑھنے والی ایک بچی کو اپنا ہی پیشاب پینے کی سزا دی گئی ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس لڑکی کے والدین نے بتایا کہ افسوسناک بات یہ ہے کہ اس معاملے کو اٹھانے کی پاداش میں انھیں بھی لاک اپ میں رہنا پڑا۔

واضح رہے کہ والدین کی پولیس میں شکایت کے بعد یونیورسٹی انتظامیہ نے ان پر ہاسٹل میں زبردستی گھسنے کی شکایت کردی تھی۔

عدالت سے ضمانت پر رہا ہونے کے بعد پیر کو اس دس سالہ بچی کے والد منوج مستری نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں اس واقعے کا علم اس وقت ہوا جب ان کی اہلیہ نے اپنی بچی کی خیریت جاننے کے لیے وارڈن کو فون کیا۔

انھوں نے بتایا: ’مجھے اس واقعے سے کافی صدمہ پہنچا ہے کہ یہ ربندرناتھ ٹیگور کے قائم کیے ہوئے ادارے میں ہوا ہے۔ میں اپنی بچی کے ساتھ کھڑا ہوں۔ یہاں اب اپنی بچی کو رکھوں گا یا نہیں اس کا فیصلہ میں اپنی اہلیہ کے ساتھ صلاح مشورے کے بعد ہی کروں گا۔‘

پولیس کو اپنی شکایت میں لڑکی کے والدین نے بتایا کہ یہ واقعہ سنیچر کی رات کا ہے جب ان کی بچی نے بستر گیلا کردیا تھا۔

انھوں نے بتایا کہ اس سکول کی وارڈن نے خود ہی انھیں بتایا کہ ’اس خراب عادت کو چھڑانے کے لیے انھوں نے بچی کو پیشاب پلایا۔‘

مبینہ طور پر یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اس کے گیلے بستر پر نمک چھرک کر لڑکی سے اسے چاٹنے کی سزا دی گئی۔

لڑکی کے والد نے یہ بھی بتایا کہ اس واقعے کے بہت سارے گواہ ہیں۔

شانتی نکیتن وشوبھارتی کی انتظامیہ نے بی بی سی کو بتایا کہ اس معاملے کی جانچ کے لیے ایک چار رکنی کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہےلیکن وہ اس بابت مزید کچھ کہنے سے گریز کررہے ہیں۔

قومی کمیشن برائے تحفظ حقوق اطفال کی چیئر پرسن شانتا سنہا نے کہا کہ اس واقعے سے پورے ملک میں ‏غصہ پایا جاتا ہے اور ان کے کمیشن نے سکول سے جواب طلب کیا ہے۔

انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ایسے واقعات پہلے بھی ہوتے رہے ہیں لیکن لوگوں میں بیداری اور میڈیا کی مدد سے یہ باتیں سامنے آرہی ہیں۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’افسوس کی بات یہ ہے کہ شانتی نکیتن جیسے ادارے میں جسے رابندر ناتھ جیسے عظیم شخص نے تعمیر کیا تھا وہاں اس قسم کے واقعات رونما ہوں۔‘

بچی کو پیشاب پینے کی سزا

ہفتہ, جولائی 07, 2012

سیاسی قیدیوں کے بچے چُرانے پر قید کی سزا

یہ دونوں افسر فوجی حکومت کے دوران کئے گئے دیگر جرائم کے لئے پہلے ہی جیل میں ہیں۔
بیونس آئرس کی ایک عدالت نے جارج وائڈیلا کو پچاس سال اور رینالڈو، بِگنون کو پندرہ سال کی سزا سنائی ہے۔ اُن پر الزام تھا کہ انہوں نے سنہ انیس سو چھہتر سے انیس سو تراسی کے دوران بڑے منظم انداز سے، سیاسی قیدیوں کے چار سو بچے، اُن سے چھین کر الگ کردیئے۔

بچوں کی چوری کا الزام کل گیارہ لوگوں پر عائد کیا گیا ہے جن میں زیادہ تر سابق فوجی افسران یا پولیس افسر ہیں۔ وائڈیلا اور بگنون سمیت نو افراد کو چونتیس بچے چرانے کے لئے سزا دی گئی ہے جبکہ دو افراد کو مجرم نہیں پایا گیا ہے۔ وائڈیلا کو زیادہ سے زیادہ سزا سنائی گئی ہے کیونکہ ان کے خلاف بیس بچوں کو چرانے کی مجرمانہ سازش ثابت ہوئی۔

وائڈیلا کو دو ہزار دس میں اکتیس مخالفین کو پریشان کرکے مارنے کے الزام میں اور بگنون کو اپریل دو ہزار گیارہ میں سیاسی مخالفین کو پریشان کرکے انہیں مارنے کے الزام میں عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

اغوا کیے جانے والے ان بیشتر بچوں کا آج بھی کچھ پتہ نہیں کہ فوجی حکمرانوں نے انہیں کہاں غائب کیا۔ سو کے قریب بچے ایسے تھے جنہیں فوج اور پولیس کے اہلکاروں کی سرپرستی میں دیا گیا۔ صرف انہیں اپنے اصلی ماں باپ تک بالآخر پہنچایا جاسکا تاہم باقی اپنے خاندانوں سے نہ مل سکے۔

ارجنٹائن کے فوجی دور میں تین ہزار کے لگ بھگ سیاسی کارکن، لاپتہ ہوئے تھے اور اب عدالتیں، ایک ایک کرکے وہ مقدمات کھول رہی ہیں۔
 

اتوار, جولائی 01, 2012

چیونگ گم یادداشت کے لیے خطرناک ہے

مغربی یورپی سائنس دان تین ہزار طلباء کا معائنہ کرکے اس نتیجے میں پہنچے ہیں کہ چیونگ گم یادداشت کے لیے خطرناک ہے۔ طلباء کو دو گروپوں میں منقسم کردیا گیا تھا جن میں سے ایک گروپ کے شرکاء نے معائنہ کے دوران چیونگ گم استعمال کی جبکہ دوسرے گروپ کے شرکاء اس سے گریزاں رہے۔ معلوم ہوا کہ چیونگ گم کا استعمال طلباء کو متوجہ ہونے اور معلومات یاد رکھنے سے روک دیتا ہے۔ مزید برآں سائنس دانوں نے بتایا کہ پیڑ ہلانے اور اونگلیوں سے دستک دینے جیسی بلا سوچے کئے جانے حرکتوں سے بھی یادداشت کے اعمال پر منفی اثر پڑتا ہے۔

چیونگ گم یادداشت کے لیے خطرناک ہے

ہفتہ, جون 30, 2012

نوزائیدہ بچے کو دودھ پلانا

بچے کی ولادت کے پہلے ہفتے کے دوران ماؤں کو اپنا دودھ پلانے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ خاص طور پر ان ماؤں کے لئے جن کا پہلا بچہ ہو۔ ایک ہفتہ تک ماں کو بچے کی پوزیشن گود میں لینے کے طریقے سے آشنائی حاصل کرنا پڑتی ہے تو دوسری جانب بچے کو دودھ پینے کی پریکٹس سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس عرصہ کے دوران اگر صبر وتحمل کے ساتھ کام لیا جائے تو بچہ دودھ پینا کامیابی سے سیکھ لیتا ہے۔ 

جریدے ”برٹش“ میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ چھاتی سے دودھ پلانے کی مختلف تکنیکس اور معلومات کے متعلق ماؤں کو قبل از وقت آگاہی حاصل کرنی چاہے۔ طبی ماہرین نے کہا ہے کہ پہلے ہفتے کسی بھی مصنوعی طریقے سے بچے کو دودھ پلانے کی کوشش بچے کی صحت پر منفی اثرات مرتب کر سکتی ہے۔

موٹی خواتین کے ہاں جنم لینے والے بچوں کی صحت

جدید طبی تحقیق کے مطابق موٹی خواتین کے ہاں جنم لینے والے بچے دبلی پتلی خواتین کے بچوں کی نسبت کم صحت مند ہوتے ہیں۔ موٹی خواتین کو دوران زچگی زیادہ مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس سے پیدا ہونے والے بچوں میں ہونٹ اور تالو کے نقائص، دل اور سانس کی بیماریاں، ہڈیوں کے ڈھانچے میں نقائص، نشوونما کی شرح میں کمی اور سماعت و بصارت کے مسائل جنم لیتے ہیں۔ 

امریکن جنرل ایسوسی ایشن کے جریدے میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں واضح کیا گیا ہے کہ موٹاپا صحت کا بڑا دشمن ہے جو زچہ بچہ کیلئے مہلک ثابت ہوسکتا ہے۔ نیوکسیٹیل یونیورسٹی اور کتھیرینا سٹور ٹرڈ کے تعاون سے منعقد ہونے والی اس تحقیق میں زیادہ وزن والی ماؤں کو خبردار کیا ہے کہ ”نیچرل ٹیوب ڈیفیکٹ“ کی وجہ سے پیدا ہونے والے بچوں میں دماغی معذوری اور ریڑھ کی ہڈی میں نقص سے جسمانی معذوری کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔

بزرگوں کے زیر سایہ پرورش پانے والے بچے

جدید طبی اور نفسیاتی تحقیق کے مطابق چائلڈ کیئر سنٹر اور نرسری میں پرورش پانے والے بچوں کی نسبت گھروں میں دادا، دادی، نانا، نانی، یا کسی بزرگ کے زیر سایہ پرورش پانے بچے زیادہ ذہین اور مستعد ہوتے ہیں۔ ۳ سال سے کم عمر بچوں پر کی جانے والی تحقیق میں بچوں کے رویوں میں تبدیلی سے متعلق مسائل اور جسمانی نشوونما کو دیکھا گیا تھا۔ 

ماہرین نے اس خیال سے اتفاق کیا ہے کہ گھر کے بزرگ زیادہ توجہ اور شفقت سے بچوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ ۴۸۰۰ بچوں پر یہ تحقیق انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشن یونیورسٹی آف لندن میں شروع کی گئی تھی۔ اس تحقیق کے پہلے مرحلے میں ایک سے تین سال، دوسرے مرحلے میں تین سے ۱۳سال اور آخر میں ۱۴سے ۲۰ سال کے نوجوانوں کے رویوں کا تعلق بچپن میں پرورش سے جوڑ کر دیکھا گیا تھا۔

بچوں کے لئے دودھ سے تیار شدہ خوراک کا استعمال

بچوں کے لئے دودھ سے تیار شدہ خوراک کا استعمال نہایت ضروری ہے، اس لئے کہ سکول جانے سے پہلے اور سکول جانے کے دوران بچوں کو دن میں دو یا دو سے زائد مرتبہ دودھ سے تیار کی گئی خوراک کھلانے سے ان کی ہڈیاں مضبوط ہوتی ہیں اور وہ کھیل کود میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ 

طبی ماہرین کے مطابق ۵ سال تک اس عمل کو جاری رکھنے سے ہڈیوں کی بنیادی تیاری مکمل ہوجاتی ہے۔ 

طبی ماہرین نے اس تحقیق کے دوران دیکھا کہ جو بچے دودھ سے تیار شدہ مصنوعات کا استعمال کم کرتے ہیں یا دودھ نہیں پیتے ان کی ہڈیوں کی نشوونما میں کمی رہ جاتی ہے۔ طبی ماہرنی نے اپنی تحقیق میں پروٹین، کیلشیم، فاسفورس اور وٹامن ڈی کی سطح کو بنیاد بنایا تھا۔

جمعہ, جون 29, 2012

باپ کا نہ ہونا بچوں میں شدید قسم کا احساس محرومی

کراچی (جنگ نیوز) شوہر کے بغیر بچوں کی پرورش آسان نہیں۔ باپ کے بغیر بچوں کو معاشرے میں بہت سی دشواریوں، پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سکول، کالج، گھر اور تقاریب میں باپ کا نہ ہونا بچوں میں شدید قسم کا احساس محرومی پیدا کرتا ہے۔ ان خیالات کا اظہار جیو ٹی وی کے مارننگ شو ”اٹھو جاگو پاکستان“ کے شرکاء نے میزبان شائستہ واحدی کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ پروگرام میں اس اہم اور حساس موضوع پر بات ہوئی کہ ”والدین میں سے کسی ایک کی موت سے بچوں پر کیا اثرات ہوتے ہیں اور ایسے بچوں کے لئے کیا کرنا چاہئے“؟ اٹھو جاگو پاکستان میں ان حادثات سے گزرنے والے خاندان اپنے بچوں کے ہمراہ شریک ہوئے اور اپنے تاثرات ناظرین سے شیئر کئے۔ ایک بچے کا کہنا تھا کہ ابو کی باتیں بہت یاد آتی ہیں، خاص طور پر انعام ملے تو پپا یاد آتے ہیں۔ دوسرے بھائی نے بتایا کہ عید کے موقع پر اپنے والد بہت یاد آتے ہیں۔ کپڑوں کا نہ ہونا مسئلہ نہیں، والد کا نہ ہونا رُلاتا ہے۔ پروگرام میں ایک خاتون فرزانہ بھی موجود تھیں۔ فرزانہ کے میاں کاانتقال ہوگیا ہے اور وہ اب اپنے6 بچوں کی کفالت تنہا کررہی ہیں۔ فرزانہ نے شوہر کے بغیر زندگی کے بارے میں کہا کہ گھریلو مشکلات بہت آتی ہیں۔

پیر, جون 25, 2012

گھر میں بچوں کے حوالے سے احتیاطی تدابیر

بچے چھوٹے ہوں یا بڑے آرام سے نہیں بیٹھتے، ہر وقت کچھ نہ کچھ کرنے کی جستجو میں رہتے ہیں، اسی لئے خواتین خاص طور پر مائیں چھوٹے بچوں کے بارے میں کافی پریشان رہتی ہیں، کیوں کہ ناسمجھی کی بنا پر وہ کچھ بھی کرسکتے ہیں جو نہ صرف ان کی ذات کے لئے نقصان دہ ہوسکتا ہے بلکہ بڑوں کے لئے بھی پریشانی کا باعث بھی ہوتا ہے۔ گھر میں بچوں کو مختلف اشیاء سے دور رکھنا بہت ضروری ہے۔ تھوڑی سی بے احتیاطی سے بڑے نقصان کا بہت زیادہ اندیشہ ہوسکتا ہے۔

 بچوں کے حوالے سے گھر میں بعض کاموں میں احتیاط بہت ضروری ہوتی ہے۔ جیسے ادویات اور دیگر گھریلو استعمال کی چیزیں بچوں کی پہنچ سے دور رکھنا نہایت ضروری ہے۔ ادویات کے لیبل پر لکھا ہوتا ھے کہ ’’دوائی بچوں کی پہنچ سے دور رکھیں‘‘، کوئی بھی دوائی یا گولیاں اتنا انچا رکھنی چاہئے کہ بچوں کا ہاتھ اس تک نہ پہنچے۔ دوائی کے علاوہ اور بھی بہت سی احتیاطی تدابیر ہیں جو نہ کرنے سے چھوٹے یا ناسمجھ بچوں کو نقصان کا اندیشہ ہوسکتا ہے۔ جیسے کچن میں چُھری بے احتیاطی میں ایسی جگہ رکھ دینا جہاں سے بچے اٹھا سکتے ہیں۔ خواتین کھانا بناتے وقت چُھری، چمچ وغیرہ رومال پر رکھ دیتی ہیں یا ان اشیاء کا نوک دار حصہ باہر کی طرف کرکے رکھ دیتی ہیں، یا اسی طرح کمرے میں یا کام کرنے کی جگہ قینچی کا نوک دار حصہ باہر کی طرف رکھ دیتی ہیں۔ اس طرح بے دھیانی میں بچوں کو نقصان ہوسکتا ہے۔ ان اشیاء کے علاوہ سٹیل کی دیگر ایسی اشیاء جو نقصان دہ ہوتی ہیں کا رُخ یا منہ ہمیشہ دیوار کی طرف ہونا چاہئے۔ گھروں میں چار کونوں والی میز بھی بچوں کے لئے خطرناک ہوسکتی ھے۔ تھوڑی سی بے احتیاطی یا لاپرواہی سے نتیجہ بہت غلط نکل سکتا ہے اس لئے اس طرف توجہ کی ضرورت ہے۔

بچے عموماً ہر چیز کھانے اور منہ میں ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں اس لئے بچوں کو کھیلنے کے لئے ہر گز ایسی کوئی چیز نہ دیں جو اس کے منہ میں پھنس جانے کا خطرہ ہو۔ جب بھی خواتین کوئی کام کررہی ہوں تو انہیں چاہیے کہ کام میں دھیان کے ساتھ ساتھ اپنی توجہ بچوں پر بھی رکھیں تاکہ بچہ کوئی ایسی حرکت نہ کر بیٹھے جو اس کے لئے نقصان دہ اور بڑوں کے لئے پریشانی کا باعث بن جائے۔

اس کے علاوہ گرم ماچس، لائٹر برتن، اشیاء اور مائع یعنی پانی اور دودھ وغیرہ ہمیشہ اونچی جگہ رکھیں اور یہ یقین کرلیں کہ بچوں کا ہاتھ وہاں نہ پنچ سکے گا، اس حوالے سے معمولی بے احتیاطی نہ کریں یا رسک نہ لیں کہ بچے کھیل رہے ہیں یا سوئے ہوئے ہیں۔

بہت چھوتے بچے جنہوں نے ابھی چلنا شروع کیا ہے، ان کے حوالے سے یہ احتیاط بہت ضروری ہے کہ بالٹی یا ٹب پانی سے بھر کر کھلی جگہ نہ رکھا جائے۔ اگر مجبوراً ایسا کرنا پڑے تو بالٹی ڈھکن کے ساتھ سختی سے بند کرکے یا کسی کمرے میں رکھیں اور دروازہ بند کرکے لاک کردیں۔