منگل, اکتوبر 09, 2012

بھارت؛ شہروں سے لَوٹنے والی بِن بیاہی مائیں

بہت ساری خواتین بچوں کو اپنے گاؤں میں چھوڑکر واپس نہیں آئیں
بڑے شہروں کا چكا چوندھ اور سنہرے مستقبل کا خواب لئے جھارکھنڈ کی ہزاروں قبائلی لڑکیاں بڑے شہروں کا رخ تو کررہی ہیں مگر وہاں سے وہ جاتی ہیں بیماریاں اور گود میں بغیر شادی کے بچے لے کر۔ غیر سرکاری تنظیموں کی طرف سے کی گئی ایک تحقیق کے مطابق جھارکھنڈ سے روزگار کی تلاش میں بڑے شہروں کا رخ کرنے والی لڑکیوں کی تعداد میں تو اضافہ ہورہا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان بچوں کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے جنہیں یہ لڑکیاں واپس لے کر آرہی ہیں اور ریاست کے دور دراز جنگلات میں واقع اپنے گاؤں میں چھوڑ کر واپس جارہی ہیں۔ صورتحال اتنی خطرناک ہوگئی ہے کہ ایک سماجی تنظیم نے ان علاقوں میں ایسے بچوں کے لئے آشرم کھولنے شروع کردیئے ہیں۔

سمڈیگا ضلع کا سانور ٹنگریٹولی گاؤں میں میری ملاقات چھ سالہ پیٹر سے ہوئی۔ پیٹر کی والدہ دلی میں کام کرتی ہیں۔ ایک دن وہ گاؤں لوٹی حاملہ ہوکر اور پیدائش کے بعد پیٹر کو نانا نانی کے پاس چھوڑ کر واپس دلی چلی گئیں۔ پیٹر کے نانا کا کہنا ہے کہ پیدائش کے کچھ ہی مہینوں کے بعد وہ پھر دلی چلی گئی اور اب پانچ سال ہوگئے ہیں اس کا کوئی پتہ نہیں ہے۔ نہ اس نے کبھی فون کیا نا کوئی خط بھیجا اور نہ ہی خرچ کے لیے پیسے۔ وہ کہاں ہیں کسی کو اس کے بارے میں کچھ نہیں معلوم۔

پیٹر اپنے نانا نانی کو اپنا والدین سمجھتا ہے۔ پیٹر کی طرح ہی سمڈیگا ضلع کے دور دراز کے علاقوں میں کئی ایسے بچے ہیں جو اپنی ماں کا انتظار کررہے ہیں۔ لیکن ان کا انتطار لمبا ہوتا جارہا ہے۔ اور اس بات کے امکانات کم ہیں کہ ان مائیں واپس آئیں گی۔ سمڈیگا گاؤں کے حالات کا جائزہ لیتے ہوئے میں شہر کے قریب ’مراکل فاؤنڈیشن‘ پہنچا تو آشرم میں پالنوں ميں ایسے بچوں کو لیٹا دیکھ کر آنکھیں بھر آئیں۔ ان بچوں کی کلکیاروں کی آوازیں تو کہیں ان کے رونے چلانے کی آوازیں مجھے رہ رہ کر ستا رہی ہیں۔ اس آشرم میں تقریباً پچھتر ایسے بچے ہیں جن کے والدین کا کچھ پتہ نہیں۔ ان کی آشرم ان کی دیکھ بھال اور پرورش کا انتظام ہے۔ جھارکھنڈ میں بچوں کے حقوق اور حفاظت کے سرکاری کمیشن کے مطابق صرف سمڈیگا ضلع میں ہی ایسے بچوں کی تعداد دو سو سے زیادہ ہے۔ ایسا ہی حال گوملا، رانچی اور کھووٹی اضلا‏ع میں بھی ہے۔


آشرم کی سربراہ پربھا ٹے ٹے کہتی ہیں ’ آشرم میں نہ صرف ان بچوں کی دیکھ بھال کی جاتی ہے بلکہ ان حاملہ لڑکیوں کی بھی مدد کی جاتی جو اس سے پہلے سماج کے ڈر سے بغیر شادی کے پیدا ہوئے بچوں کو ادھر ادھر پھینک دیتی تھیں۔‘ آشرم کے باہر سڑک کے کنارے ایک پالنا رکھا ہوا جہاں اس طرح کی مائیں بچوں کو رکھ کر چلی جاتی ہیں اور پھر آشرم والے ان بچوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ مگر سمڈيگا ضلع کے گرجا کھیدنٹولی گاؤں کی نومیتا کے بچے خوش قسمت ہیں۔ نومیتا نے اپنے بچوں کا ساتھ نہیں چھوڑا ۔ نومیتا کے تینوں بچے ان کے ساتھ رہتے ہیں۔ حالانکہ نومیتا کو گاؤں کے لوگوں نے بالکل الگ تھلگ کردیا ہے۔ نومیتا بیمار رہتی ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ اس نے دوبارہ شہر جانے کی ہمت نہیں کی۔

جھارکھنڈ کے چائلڈ رائٹ پروٹیکشن کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین سنجے کمار مشر کہتے غیر شادی شدہ ماؤں اور ان کے بچوں کے مسائل سنجیدہ روپ اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ شہر جانے والی زیادہ تر لڑکیوں کا استحصال ہوتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا، ’زیادہ تر لڑکیاں دلالوں کے کہنے میں آ کر دلی یا دیگرشہروں کی پلیس مینٹ ایجنسیوں کے پاس چلی جاتی ہیں۔ پھر جن گھروں میں انہیں کام کرنے بھیجا جاتا ہے وہاں پر وہ جنسی استحصال کا شکار ہوتی ہیں۔‘ سنجے کمار مشرا کہتے ہیں، ’جھارکھنڈ حکومت نے دلی پولیس اور وہاں موجود ایک غیر سرکاری تنظیم کے ساتھ مل کر ایسی لڑکیوں کو بچانے کے لیے ایک ٹاسک فورس تشکیل دی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حالیہ دنوں میں ملک کے مختلف علاقوں سے کئی لڑکیوں کو بچانے میں کامیابی حاصل ہوئی ہے۔‘

سمڈیگا میں چرچ بھی ان خواتین کی مدد کے لیے آگے آ رہے ہیں۔ ایسے ہی ایک چرچ سے منسلک نن الیزابیتھ کا کہنا ہے کہ بعض لڑکیاں ایڈز جیسی بیمار کا شکار ہوچکی ہیں۔ انہوں نے کئی لڑکیوں کے نام بتائے جس میں سے ایک لڑکی کی موت ایڈز سے ہوگئی ہے۔ چرچ، حکومت اور غیر سرکاری تنظیمیوں کی کوششیں جاری ہیں لیکن اقتصادی پسماندگی کے سبب جھارکھنڈ کے ایسے بہت سے خاندان ہیں جو روزگار کی تلاش میں اپنی لڑکیوں کو بڑے شہروں میں بھیجنے کے لیے مجبور ہیں۔

قبائلی خواتین کا شہر کا رخ، بن بیاہی ماں بن کر لوٹنا

پیر, اکتوبر 08, 2012

نماز میں قرات واجب

باب: امام اور مقتدی کے لیے قرات کا واجب ہونا، حضر اور سفر ہر حالت میں، سری اور جہری سب نمازوں میں

حدثنا علي بن عبد الله، قال حدثنا سفيان، قال حدثنا الزهري، عن محمود بن الربيع، عن عبادة بن الصامت، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏”لا صلاة لمن لم يقرأ بفاتحة الكتاب“.‏

ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے زہری نے بیان کیا محمود بن ربیع سے، انھوں نے حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ”جس شخص نے سورہ فاتحہ نہ پڑھی اس کی نماز نہیں ہوئی“۔

صحیح بخاری
صفۃ الصلوٰۃ
( اذان کا بیان (نماز کے مسائل) )

اتوار, اکتوبر 07, 2012

خواتین ٹی ٹوئنٹی میں آسٹریلیا فاتح

آسٹریلیا کی خواتین کرکٹ ٹیم نے عالمی ٹی ٹوئنٹی کپ جیت لیا ہے۔ آئی سی سی کے خواتین کے ٹی ٹوئنٹی عالمی کپ کے فائنل میں آسٹریلیا نے انگلینڈ کو ہرا کر اپنے اعزاز کا دفاع کیا ہے۔ سری لنکا کے دارالحکومت کولمبو میں کھیلے گئے فائنل میں ایک زبردست مقابلے میں آسٹریلیا کی خواتین ٹیم نے انگلینڈ کی ٹیم کو چار رن سے شکست دے دی۔ اس سے قبل دو ہزار دس میں ویسٹ انڈیز میں کھیلے گئے عالمی کپ میں آسٹریلیا نے یہ مقابلہ جیتا تھا۔ واضح رہے کہ گزشتہ پچیس میچوں میں انگلینڈ کی یہ صرف دوسری شکست ہے۔

مکمل سکور کارڈ

انگلینڈ کی خواتین ٹیم کی کپتان شارلٹ ایڈورڈز نے ٹاس جیت کر آسٹریلیا کو بلے بازی کی دعوت دی اور آسٹریلیا نے مقررہ 20 اوروں میں چار وکٹوں کے نقصان پر 142 رنز بنائے۔ آسٹریلیا کی جانب سے جیس کیمرن نے پانچ چوکوں اور ایک چھکے کی مدد سے 45 رنز بنائے۔ انھیں اس عمدہ کارکردگی پر پلیئر آف دی میچ کا اعزاز دیا گیا۔ پلیئر آف دی ٹورنامنٹ کا اعزاز انگلینڈ کی کپتان شارلٹ ایڈورڈز کوملا۔

آسٹریلیا کے مجموعی سکور کے جواب میں انگلینڈ کی کپتان ایڈورڈز نے سب سے زیادہ 28 رنز بنائے اور ان کی ٹیم مقررہ 20 اوروں میں نو وکٹوں کے نقصان پر 138 رنز ہی بنا سکی۔ انگلینڈ کی کوئی بھی کھلاڑی لمبی اننگز نہ کھیل سکیں اور وقفے وقفے سے ان کے وکٹ گرتے رہے۔ آسٹریلیا کی جانب سے جیس جوناسن نے پچیس رنز کے عوض تین وکٹ لیے جبکہ لیزا ستھالیکر اور جولی ہنٹر نے دو دو وکٹ لیے۔

پورے ٹورنامنٹ میں اچھی کار کردگی کے باوجود انگلینڈ کی ٹیم اس میچ سے قبل زیادہ پر امید نظر نہیں آ رہی تھی۔

خواتین ٹی ٹوئنٹی میں آسٹریلیا فاتح

ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ ویسٹ انڈیز نے جیت لیا

کولمبو میں کھیلے جانے والے ٹی ٹوئنٹی کرکٹ ورلڈ کپ کے فائنل میں ویسٹ انڈیز نے سری لنکا کو 36 رنز سے ہرا دیا ہے۔ سری لنکا کی پوری ٹیم اٹھارہ عشاریہ چار اوورز میں آوٹ ہو گئی۔ سری لنکا کے پہلے آوٹ ہونے والے بیٹسمین دلشان تھے جو رام پال کا نشانہ بنے۔ انہوں نے کوئی رن نہیں بنایا۔ اِس کے بعد سنگاکارہ 22 رنز بنا کر آوٹ ہوئے جبکہ تیسرے آوٹ ہونے والے بیٹسمین میتھوس صرف ایک رن بنا سکے۔ مینڈس اور پریرہ نے تین تین رن بنائے۔ کُلاسیکرا نے میچ میں اُس وقت دلچسپی پیدا کردی جب انہوں نے صرف 13 گیندوں پر 26 رنز بنا ڈالے لیکن اُن کے آوٹ ہونے کے بعد سری لنکا کی امیدیں تقریباً ختم ہوگئیں۔

اِس سے پہلے ویسٹ انڈیز نے مقررہ 20 اوورز میں چھ وکٹ کے نقصان پر 137 رن بنائے ہیں۔ اِس طرح سری لنکا کو میچ جیتنے کے لیے 138 رن کا ہدف ملا تھا۔

کلِک میچ کا تفضیلی سکور کارڈ

ویسٹ انڈیز کی اننگ میں پہلے آوٹ ہونے والے کھلاڑی چارلس تھے جنھوں نے کوئی رن نہیں بنایا۔ انہیں کُلاسیکرا نے آوٹ کیا۔ جبکہ کرس گیل مینڈس کے ہاتھوں ایل بی ڈبلیو ہوئے۔ ویسٹ انڈیز کو کرس گیل سے بہت امیدیں تھیں لیکن وہ صرف تین رن بنا سکے۔ سیمیوئل نے شاندار اننگ کھیلتے ہوئے صرف 56 گیندوں پر 78 رن بنائے۔ انہیں دننجے نے آوٹ کیا۔ ویسٹ انڈیز کے دوسرے قابل ذکر کھلاڑی ڈیرن سیمی تھے جنہوں نے 15 گیندوں پر 26 رن بنائے اور آوٹ نہیں ہوئے۔

اِس سے پہلے ویسٹ انڈیز نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا۔ ویسٹ انڈیز سیمی فائنل میں آسٹریلیا جبکہ سری لنکا پاکستان کو ہرا کر فائنل میں پہنچا ہے۔

ٹاس جیتنے کے بعد ویسٹ انڈیز کے کپتان ڈیرن سیمی نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ اُن کی ٹیم یہ میچ جیت جائے گی۔ جبکہ سری لنکا کے کپتان مہیلا جے وردھنے نے کہا کہ انہیں وکٹ اچھی لگ رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ اب تک کا سب سے بڑا میچ ہے جو سری لنکا میں کھیلا جا رہا ہے اور سری لنکا کے عوام کو اپنی ٹیم سے بہت زیادہ امیدیں ہیں۔

ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ ویسٹ انڈیز نے جیت لیا 

خواتین ٹی ٹوئنٹی میں آسٹریلیا فاتح

پاپائے روم کے سابق خانساماں کو 18 ماہ قید کی سزا

ویٹیکن عدالت نے پاپائے روم بینیڈکٹ شانزدہم کے سابق خانساماں پاؤلو گابریئلے کو اٹھارہ ماہ قید کی سزا سنائی ہے۔ مثالی خادم کا درجہ رکھتے والے گابریئلے پر ویٹیکن کی اہم دستاویزات افشا کرنے کا الزام تھا۔

ویٹیکن عدالت کے تین ججوں پر مشتمل پینل کے مطابق پاؤلو گابریئلے پوپ کی ذاتی دستاویزات کی چوری اور انہیں صحافیوں تک پہنچانے جیسے جرم کے مرتکب ہوئے ہیں اور اس سلسلے میں انہیں اٹھارہ ماہ قید کی سزا کے ساتھ ساتھ مقدمے پر اٹھنے والے اخراجات بھی ادا کرنا ہوں گے۔

وکیل استغاثہ کا کہنا تھا کہ گابریئلے کو تین برس قید کی سزا سنائی جائے جبکہ وکیل دفاع کا کہنا تھا کہ ان کے اس اقدام کو ’سنگین چوری‘ کے بجائے ’خیانت‘ قرار دیتے ہوئے انہیں رہا کیا جائے۔

گابریئلے کا ہفتے کے روز کہنا تھا کہ انہوں نے جو کچھ بھی کیا ہے وہ کیتھولک چرچ کی محبت میں کیا ہے، ’’جو چیز میں سب سے زیادہ محسوس کرتا ہوں وہ یہ ہے کہ میں نے جوعمل کیا وہ مسیح اور زمین پر اس کے نمائندوں کی محبت میں کیا ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ میں چور ہوں‘‘۔

اس فیصلے کے فوری بعد ویٹیکن کے ترجمان فریڈریکو لومبارڈی کا کہنا تھا کہ ’کافی امکان‘ ہیں کہ پوپ گابریئلے کو معاف کردیں گے۔

چھیالیس سالہ گابریئلے نے اس وقت ویٹیکن کی چھوٹی سی کمیونٹی کو ہلا کر رکھ دیا تھا، جب انہوں نے اپنے گناہ کا اعتراف کرتے ہوئے ویٹیکن کی اہم دستاویزات افشا کردیں۔ ان کے اس عمل کے باعث لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ انہوں نے ایسا کرکے اپنی آزادی کو خطرے میں کیوں ڈالا؟

گابریئلے کی جانب سے افشا کی گئی معلومات میں ویٹیکن کے ٹیکسوں کے مسائل سے متعلق امور، بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات اور باغیوں کے ساتھ چرچ کے مذاکرات جیسے مبینہ راز شامل ہیں۔

تجزیہ کاروں کے مطابق یہ بات ابھی طے نہیں ہے کہ پاؤلو گابریئلے نے یہ قدم چرچ کی محبت میں اٹھایا یا پھر وہ ایک بڑی سازش کا حصہ بنے، جس کا مقصد ویٹیکن کی طاقتور شخصیات کو ان کے عہدوں سے ہٹوانا تھا۔

تین بچوں کے والد پاؤلو گابریئلے ایک انتہائی ایماندار اور کم گو شخصیت سمجھے جاتے تھے۔ وہ ان چند لوگوں میں سے ایک تھے جن کو پاپائے روم بینیڈکٹ شانزدہم کے نجی کمروں تک رسائی حاصل تھی اور جو پوپ کے صبح سو کر اٹھنے سے رات کو خوابیدہ ہونے تک کے معاملات سے واقف تھے۔ ’پاؤلیٹو‘ کے نام سے مشہور، گابریئلے سن 2006 سے پوپ بینیڈکٹ کے ساتھ تھے اور انہیں پوپ کے دوروں کے موقع پر پوپ کے ہمراہ دیکھا جاتا تھا۔

پاپائے روم کے سابق خانساماں کو 18 ماہ قید کی سزا

’حالات بہتر ہوتے ہی سری لنکن ٹیم پاکستان جائے گی‘

سری لنکا کے صدر مہندا راجا پاکسے کا کہنا ہے کہ پاکستان میں حالات بہتر ہوتے ہی سری لنکن کرکٹ ٹیم وہاں کا دورہ کرے گی۔ واضح رہے کہ 3 مارچ 2009 میں لاہور میں سری لنکن کرکٹ ٹیم پر حملے کے بعد سے پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ نہیں ہوسکی ہے۔

صدر راجا پاکسے نے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کی کوریج کے لیے آئے ہوئے غیرملکی صحافیوں کے اعزاز میں دیے گئے استقبالیے میں غیر رسمی گفتگو کے دوران کہا کہ وہ سری لنکن ٹیم کو پاکستان بھیجنے کا گرین سگنل دے چکے ہیں لیکن دورے کا انحصار پاکستان میں سکیورٹی کی اطمینان بخش صورت حال پر ہے، جیسے ہی وہاں حالات بہتر ہوئے سری لنکا کی ٹیم ضرور پاکستان جائے گی۔ صدر راجا پاکسے کا کہنا تھا کہ سری لنکا کو اپنے یہاں دہشت گردی ختم کرنے میں 30 سال لگ گئے اور اب ملک ترقی کی طرف گامزن ہے۔

صدر راجا پاکسے کرکٹ کے بے حد شوقین ہیں اور گزشتہ سال ورلڈ کپ کے لیے ہمبنٹوٹا میں بننے والا سٹیڈیم اسی شوق کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں پاکستان اور بھارت کا میچ دیکھ چکے ہیں لیکن انہیں یہ میچ غیرجانبدار ہوکر دیکھنا پڑا کیونکہ ان کے ایک جانب پاکستان اور دوسری جانب بھارت کے سفیر موجود تھے۔

انہوں نے ازراہ تفنن کہا کہ فائنل دیکھنے وہ ضرور سٹیڈیم جائیں گے لیکن اس وقت جب سری لنکا کی ٹیم اچھی پوزیشن میں ہوگی۔

’حالات بہتر ہوتے ہی سری لنکن ٹیم پاکستان جائے گی‘

مسلمان دین کو سمجھیں اور پہچانیں، سارہ چودھری


آئن سٹائن سے بھی زیادہ ذہین ۔۔ اولیویا ماننگ

اولیویا ماننگ
برطانیہ کے شہر لیور پول کی 12 سالہ طالبہ نے آئی کیو کے امتحان میں 162 پوائنٹس حاصل کر کے ذہانت کا نیا عالمی ریکارڈ قائم کیا ہے۔ اس کا یہ سکور نظریہ اضافیت کے بانی آئن سٹائن اور موجودہ دور کے عالمی شہرت یافتہ سائنس دان پروفیسر سٹیفن ہاکنگ سے دو پوائنٹ زیادہ ہے۔ اس نئے عالمی ریکارڈ کے بعد اولیویا ماننگ کا نام ذہین ترین افراد کے کلب میں شامل کرلیا گیا ہے۔ ماہرین نفسیات کے اندازے کے مطابق دنیا بھر میں ذہین ترین افراد کی تعداد دو فی صد سے بھی کم ہے۔

​​اولیویا کا تعلق لیور پول کے علاقے ایورٹن سے ہے اور وہ نارتھ لیور پول اکیڈمی کی طالبہ ہیں۔ ذہانت کے امتحان میں انتہائی بلند سکور حاصل کرنے کے بعد وہ اپنے سکول کی انتہائی پسندیدہ شخصیت بن گئی ہیں۔ جب اولیویاسے اس شاندار کامیابی پر ان کے تاثرات پوچھے گئے تو انہوں نے کہا کہ مجھے آئی کیو ٹیسٹ میں اپنا سکور دیکھ کر یقین نہیں آیا اور ایسے لگا جیسے میرے بولنے کی صلاحیت ختم ہوگئی ہے اور میرے پاس کچھ کہنے کو ایک بھی لفظ نہیں تھا۔

اس سوال کے جواب میں ذہانت کا اعلیٰ ترین مقام حاصل کرنے کے بعد ان کی زندگی میں کیا تبدیلی آئی ہے تو اولیویا نے مسکراتے ہوئے کہا کہ سکول کے بہت ساتھیوں نے اب یہ کہنا شروع کردیا ہے کہ میں ہوم ورک میں ان کی مدد کیا کروں۔ انہوں نے بتایا کہ انہیں چیلنجز کا سامنا کرنا پسند ہے اور سوچ بچار کرنا اچھا لگتا ہے۔

سکول کی پرنسپل کے سکیو نے اولیویا کی شاندار کامیابی کو اپنے سکول کے لیے ایک بڑا اعزاز قرار دیتے ہوئے کہا کہ دنیا کے انتہائی ذہین افراد کے کلب میں ہمارے سکول کی ایک طالبہ کی شمولیت یہ ظاہر کرتی ہے کہ نئی نسل میں بہت ٹیلنٹ ہے اور وہ مستقبل میں دنیا کو آگے لے جانے اور بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

لیور پول کے علاقے ناریس گرین ہاؤسنگ سٹیٹ رہنے والی اولیویا کے والدین کا کہنا ہے کہ ان کی بیٹی کو مطالعے کا بہت شوق ہے۔ اولیویا نے بتایا کہ ان کی یاداشت بہت اچھی ہے۔ جو چیز ان کی نظر سے گذرتی ہے فوراً یاد ہوجاتی ہے۔ اولیویا اس ٹیم کی رکن ہیں جو سکول کا وقت ختم ہونے کےبعد طالب علموں کو پڑھائی میں مدد فراہم کرتی ہے۔ اولیویا دوسرے طالب علموں کو خاص طور پر ریاضی کے سوال حل کرنے میں مدد دیتی ہیں۔ وہ سکول کی ڈرامہ کلب کی بھی ممبر ہیں ان کے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ وہ اپنے ڈائیلاگ دوسروں کے مقابلے میں بہت جلد اور کم وقت میں ازبر کرلیتی ہیں۔

اسی سکول کی ایک اور طالبہ لورین گانن نے، جن کی عمر 12 سال ہے، آئی کیو کے ٹیسٹ میں 151 پوانٹس حاصل کیے ہیں ان کا نام بھی دنیا کے ذہین ترین افراد کی فہرست میں شامل ہوگیا ہے۔

آئی کیو کیا ہے؟
آئی کیو ذہانت کی پیمائش کا ایک ٹیسٹ ہے۔ یہ انگریزی الفاظ Intelligence quotient کا مخفف ہے۔ کئی مراحل پر مشتمل اس امتحان میں ریاضی، روزمرہ سائنس، زبان، سماجی سوجھ بوجھ، پیچیدہ مسائل کے حل کی صلاحیت اور دیگر کئی شعبوں میں مہارت کا جائزہ لے کر ذہانت کی عمومی سطح کا تخمینہ لگایا جاتا ہے۔ ذہانت کا اوسط معیار ایک سو پوائٹس ہیں۔ سو سے کم سکور حاصل کرنے والے ذہنی لحاظ سے کمزور تصور کیے جاتے ہیں، جب کہ پوانٹس سو کے ہندسے سے جتنے آگے بڑھتے جاتے، اسے اتنا ہی ذہین سمجھا جاتا ہے۔

نفسیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ لوگوں کی اکثریت کا آئی کیو سکور 70 اور 130 کے درمیان ہوتا ہے۔ اس گروپ کے افراد کی تعداد دنیا کی کل آبادی کا تقریباً 95 فی صد ہے۔ دنیا کی کل آبادی کے دو تہائی افراد کا آئی کیو 85 اور 115 کے درمیان ہے، جب کہ ذہانت کے پیمانے پر 130 سے زیادہ پوانٹس حاصل کرنے والے محض دو فی صد ہیں۔

ذہانت کے مروجہ امتحانوں کا آغاز 1905ء کے لگ بھگ ہوا جسے ایک فرانسیسی ماہر نفسیات الفرڈ برنٹ نے ترتیب دیا تھا، جس میں بعدازاں دوسرے ماہرین نے کئی اضافے کیے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ذہانت کا خواندگی سے گہرا تعلق ہے۔ خواندہ معاشروں میں آئی کیو کا عمومی اوسط زیادہ ہوتا ہے۔ ان کا یہ بھی کہناہے کہ الیکٹرانک میڈیا کی ترقی آئی کیو ذہانت کے اوسط معیار میں اضافہ کررہی ہے اور گذشتہ چند عشروں سے ہر دس سال میں اوسط آئی کیو تین پوائنٹ بڑھ رہا ہے۔

​​آئن سٹائن نے کبھی آئی کیو ٹیسٹ نہیں دیا۔ مگر ان کے علم اور ذہنی صلاحتیوں کی بنا پر ماہرین نفسیات کا خیال ہے کہ ان کا سکور کم ازکم 160 تھا۔

اچھے آئی کیو کا حامل شخص عموماً ایک کامیابی زندگی گذارتا ہے کیونکہ اس میں حالات کا سامنا کرنے کی بہتر صلاحیت ہوتی ہے۔ لیکن آئی کیو کا اچھا سکور ہمیشہ ہی کامیابی کی ضمانت نہیں ہوتا کیونکہ کامیاب زندگی گذرانے میں کئی اور عوامل بھی اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ اسی طرح کم آئی کیو کے حامل افراد بھی ہمیشہ ناکام نہیں رہتے، بلکہ اکثراوقات وہ زیادہ کامیاب زندگی گذارتے ہیں۔ آئی کیو ٹیسٹ صرف مخصوص ذہنی صلاحیتوں کو پرکھتے ہیں۔ یہ ٹیسٹ زیادہ تر انگریزی میں ہیں۔ دوسری زبانیں بولنے والے افراد محض انگریزی میں کم مہارت کی وجہ سے وہ سکور حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں جس کے وہ مستحق ہوتے ہیں۔ تاہم یہ ٹیسٹ کسی بھی شخص کی ذہانت کا ایک عمومی خاکہ پیش کرتے ہیں اور اس پیمانے پر اکثر لوگ پورے اترتے ہیں۔

آئن سٹائن سے بھی زیادہ ذہین ۔۔ اولیویا ماننگ

ہفتہ, اکتوبر 06, 2012

سویڈن میں لاؤڈ سپیکر پر اذان دینے کی درخواست منظور

سٹاک ہوم (عارف کسانہ) سویڈن کی فضاؤں میں پہلی بار اذان سنائی دے گی۔ سٹاک ہوم کی ایک میونسپیلیٹی بوتشرکا کی کونسل نے فتیا میں قائم ترک جامع مسجد کی انتظامیہ کی جانب سے مسجد کے مینار سے لاؤڈ سپیکر سے اذان دینے کی درخواست منظور کرلی ہے۔ مقامی کونسل کی تمام سیاسی جماعتوں ماسوائے کرسچین ڈیموکریٹ پارٹی نے درخواست کی حمایت میں ووٹ دیا۔ اب مقامی پولیس سے اجازت ملنے کے بعد اذان لاؤڈ سپیکر سے دی جاسکے گی۔ یہ فیصلہ ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے اور اس کو بنیاد بنا کر سویڈن کی دیگر مساجد میں بھی سپیکر سے اذان دینے کی اجازت طلب کی جا سکتی ہیں۔ مقامی مسلمانوں نے اس فیصلہ پر خوشی کا اظہار کیا ہے۔

سویڈن میں لاؤڈ سپیکر پر اذان دینے کی درخواست منظور

ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ: ویسٹ انڈیز نے آسٹریلیا کو ’کچل دیا‘

ویسٹ انڈیز نے ٹی ٹوئنٹی کرکٹ ورلڈکپ کے دوسرے سیمی فائنل میں آسٹریلیا کو 74 رنز سے شکست دی دے ہے۔ اب فائنل میں اتوار کو اس کا سامنا سری لنکا سے ہوگا۔ ویسٹ انڈیز اور آسٹریلیا کی کرکٹ ٹیمیں ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے دوسرے سیمی فائنل کے لیے جمعے کو کولمبو میں میدان میں اتریں۔ ویسٹ انڈیز نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے چار وکٹوں کے نقصان پر 205 رنز بنائے۔ آسٹریلیا کے لیے مشکل ہدف کھڑا کرنے میں کرس گیل اور کیرن پولارڈ نے اہم کردار ادا کیا۔ گیل نے 41 گیندوں کا سامنا کرتے ہوئے چھ چھکوں اور پانچ چوکوں کی بدولت 75 رنز بنائے اور ناقابلِ شکست رہے۔ پولارڈ نے اننگز کے آخری اوور میں لگاتار تین چھکے لگائے اور مجموعی سکور 200 سے اوپر لے گئے۔ ان کا انفرادی سکور 38 رہا۔ ڈوین براوو نے 31 گیندوں کا سامنا کرتے ہوئے تین چھکوں کی بدولت 37 رنز بنائے۔ آسٹریلیا کے پیٹ کمنس نے 36 رنز کے عوض دو وکٹیں لیں۔

مشکل ہدف کا پیچھا کرتے ہوئے آسٹریلیا کو اپنے بڑے بیٹسمینوں کی جانب سے غیرمعمولی کارکردگی درکار تھی، جس کا مظاہرہ وہ نہ کر سکے۔ کپتان جارج بیلے 29 گیندوں میں 63 رنز بناتے ہوئے نمایاں بیٹسمین رہے جبکہ دوسرا کوئی بیٹسمین قابلِ ذکر کھیل پیش نہ کرسکا۔

اس کے برعکس ویسٹ انڈیز کے بولروں نے اپنی ٹیم کے ہدف کا کامیابی سے دفاع کیا۔ روی رام پال نے 16 رنز کے عوض 3 سیموئل بیدری نے 27 رنز دے کر 2 وکٹیں لیں، سنیل نارائن نے سترہ رنز کے عوض دو جبکہ پولارڈ نے چھ رنز کے عوض دو وکٹیں لیں۔

29 کے مجموعی سکور پر آسٹریلوی ٹیم اپنی تین وکٹیں گنوا چکی تھی اور اس کے بعد اسے سنبھلنے کا موقع نہ مل سکا اور وہ محض 131 رنز ہی بنا پائی۔

قبل ازیں جمعرات کو میزبان سری لنکا نے ٹورنامنٹ کے پہلے سیمی فائنل میں پاکستان کو شکست دی تھی۔ اب سری لنکا اور ویسٹ انڈیز اتوار کو فائنل میں آمنے سامنے ہوں گے۔

ویسٹ انڈیز سے شکست کے بعد آسٹریلوی ٹیم کے کپتان جارج بیلے نے سری لنکا کو خبردار کیا ہے کہ فائنل میں جیت کے لیے انہیں کرس گیل کو جلد آؤٹ کرنا ہوگا۔ انہوں نے تسلیم کیا ہے کہ جمعے کے میچ میں گیل کے چھ چھکوں کے سامنے ان کی ٹیم ’بے بس‘ ہوگئی تھی۔ انہوں نے کہا: ’’کیا ہم بے بس تھے؟ شاید کرس گیل آپ (سری لنکا) کے ساتھ بھی ایسا ہی کرسکتا ہے۔ جب وہ چل جاتا ہے، تو خوبصورتی سے آگے بڑھتا ہے۔‘‘

ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ: ویسٹ انڈیز نے آسٹریلیا کو ’کچل دیا‘

پیر, اکتوبر 01, 2012

پاکستان کو بھارت اور جنوبی افریقہ کو آسٹریلیا سے شکست

سری لنکا میں جاری ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کرکٹ مقابلوں کے سپرایٹ مرحلے کے میچ میں بھارت نے پاکستان کو اور آسٹریلیا نے جنوبی افریقہ کو شکست دے دی ہے۔ 

کولمبو میں کھیلے جانے والے دوسرے میچ میں ٹاس جیت کر پہلے کھیلتے ہوئے پاکستان کی ساری ٹیم 19.4 اوورز میں 128 رنز بنا کر آؤٹ ہوگئی۔ جواب میں بھارت نے مطلوبہ ہدف دو وکٹوں کے نقصان پر 17 اوورز میں حاصل کرلیا۔ 

پاکستان بھارت کو کبھی بھی ایک روزہ عالمی مقابلوں میں یا ٹی ٹوئنٹی کے عالمی ٹورنامنٹ میں شکست نہیں دے پایا۔

ویرات کوہلی دو چھکوں اور 8 چوکوں کی مدد سے 78 رنز بنا کر ناقابل شکست رہے اور میچ کے بہترین کھلاڑی ٹھہرے۔ بھارت کی جانب سے سہواگ اور گمبھیر نے اننگز کا آغاز کیا تاہم گمبھیر بغیر کوئی رنز بنائے رضا حسن کی گیند پر کیچ آؤٹ ہوگئے۔ جلدی نقصان کے بعد سہواگ اور کوہلی نے عمدہ کھیل کا مظاہرہ کرتے ہوئے 75 رنز کی شراکت قائم کی۔ 75 کے مجموعی سکور پر سہواگ 29 رنز بنا کر شاہد آفریدی کی گیند پر کیچ آؤٹ ہوگئے۔ اس سے پہلے پاکستان کی جانب سے شعیب ملک اٹھائیس رنز بنا کر سب سے نمایاں بلے باز رہے۔ عمر اکمل نے 21 رنز بنائے آفریدی 14، عمران نذیر 8، ناصر جمشید 4، کامران اکمل 5، اور کپتان محمد حفیظ 15 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے۔ پاکستان کی جانب سے محمد حفیظ اور عمران نذیر نے اننگز کا آغاز کیا تو دوسرے اوور میں عمران نذیر ایل بی ڈبلیو ہوگئے۔ انہوں نے 8 رنز بنائے۔ پاکستان نے بیٹنگ آرڈر میں تبدیلی کرتے ہوئے شاہد آفریدی کو تیسری پوزیشن پر بھیجا تھا۔ بھارت کی جانب سے عرفان پٹھان نے ایک، بالاجی نے 3، ایشون اور یووراج سنگھ نے دو دو جبکہ کوہلی نے ایک وکٹ حاصل کی۔

یاد رہے کہ پاکستان کی ٹیم بھارت کو اس ٹورنامنٹ سے پہلے ہونے والے ایک وارم اپ میچ میں ہرا چکی ہے۔

پاکستان نے سپر ایٹ کے اپنے پہلے مقابلے میں دنیا کی مضبوط ترین ٹیموں میں سے ایک جنوبی افریقہ کو سنسنی خیر مقابلے کے بعد دو وکٹوں سے شکست دی تھی جبکہ بھارت کو آسٹریلیا کے ہاتھوں 9 وکٹوں سے شکست اٹھانا پڑی تھی۔

واٹسن نے سینتالیس گیندوں پر 70 رنز بنائے
اس سے قبل پہلے میچ میں آسٹریلیا نے ٹاس جیت کر جنوبی افریقہ کو پہلے بیٹنگ کرنے کی دعوت دی تھی۔ جنوبی افریقہ نے مقررہ 20 اوورز میں 5 وکٹوں کے نقصان پر 146 رنز بنائے تھے جواب میں آسٹریلیا نے ہدف دو وکٹوں کے نقصان پر 4۔17 اووز میں حاصل کرلیا۔ اننگز کے اختتام پر ہسی 45 اور وائٹ 21 رنز کے ساتھ ناٹ آؤٹ رہے۔ جنوبی افریقہ کی طرح آسٹریلیا کو بھی ابتداء میں نقصان اٹھانا پڑا اور اس کی پہلی وکٹ دس کے مجموعی سکور پر گری۔ تاہم بعد میں شین واٹسن اور ہسی نے عمدہ بیٹنگ کا مظاہرہ کیا اور ٹیم کے مجموعی سکور کو 109 رنز تک پہنچا دیا۔ شین واٹسن دو چھکوں اور 8 چوکوں کی مدد سے 70 رنز بنا کر پیٹرسن کی گیند پر کیچ آؤٹ ہوگئے۔

اس سے پہلے جنوبی افریقہ کی اننگز کا آغاز اچھا ثابت نہیں ہوا اور صفر کے سکور پر لیوی بولڈ ہوگئے۔ ٹیم کو دوسرا نقصان آٹھ کے سکور پر کیلس کی صورت میں اٹھانا پڑا، انہوں نے چھ رنز بنائے۔ ہاشم آملہ 17 رنز بنا کر واٹسن کی گیند پر کیچ آؤٹ ہوئے۔ اس کے بعد ڈومینی نے بیٹنگ لائن کو سہارا دیا اور 30 رنز بنا کر کیچ آؤٹ ہوئے۔ اس کے بعد پیٹرسن اور بہار دین نے بالترتیب چھ چوکوں کی مدد سے 32 اور دو چوکوں ایک چھکے کی مدد سے 31 رنز بنائے اور ناٹ آؤٹ رہے۔

یہ میچ جنوبی افریقہ کے لیے انتہائی اہم تھا کیونکہ اس کے لیے مقابلے میں موجود رہنے اور سیمی فائنل میں جانے کی امید برقرار رکھنے کے لیے یہ میچ جیتنا ضروری تھا۔ واضح رہے کہ دو دن قبل جمعہ کو جنوبی افریقہ کی ٹیم ایک سنسنی خیز مقابلے میں پاکستان سے آسان میچ ہار گئی تھی۔

سچی توبہ

اﷲ تعالیٰ کی نازل کردہ تمام آفاقی کتابوں میں اپنے رب کو ایک ماننے کی تعلیم دی گئی ہے اور صرف اسی کی عبادت کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ قرآن حکیم میں بھی بار بار توبہ کرنے کا ذکر آیا ہے۔ اسی طرح احادیث نبوی یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات و فرامین میں بھی اکثر مقامات پر اپنے رب سے اپنی تمام اگلی اور پچھلی غلطیوں، لغزشوں اور گناہوں پر توبہ کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔

حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم علیہ الصلوٰۃ و التسلیم نے ارشاد فرمایا: ’’میں دن میں ستر بار سے بھی زیادہ اﷲ تعالیٰ سے توبہ کرتا ہوں۔‘‘
(بخاری شریف)

اہل ایمان کے لیے حکم ہے کہ وہ توبہ کریں، بار بار کریں اور اس انداز سے کریں جس سے نصیحت و راہ نمائی بھی ملے اور یہ دوسروں کے لیے بھی تقلید کا سبب بنے۔

رسول مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد پاک ہے: ’’اے لوگو! اﷲ تعالیٰ سے توبہ کرو اور اس سے بخشش مانگو، میں دن میں سو بار توبہ کرتا ہوں۔‘‘ (مسلم شریف)

پروردگار عالم اپنے پاک کلام میں ارشاد فرماتا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ صرف صاحبان ایمان ہی توبہ کرتے ہیں، کیوں کہ وہ توبہ کی اہمیت بھی جانتے ہیں اور اس کے فوائد سے بھی آگاہ ہیں۔

کائنات کا خالق اس وقت بڑی خوشی کا اظہار فرماتا ہے جب اس کے ایمان والے بندے توبہ کرکے اپنی اصلاح کرلیتے ہیں اور فرماں برداروں میں شامل ہوجاتے ہیں۔ اس وقت باری تعالیٰ اپنے ان بندوں کی توبہ قبول کرلیتا ہے اور پھر وہ لوگ اپنے گناہوں سے ایسے پاک صاف ہوجاتے ہیں جیسے ماں کے پیٹ سے آج ہی پیدا ہوئے ہوں۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’وہ مومن توبہ کرنے والے، عبادت کرنے والے، حمد کرنے والے، سفر کرنے والے، رکوع کرنے والے، سجدہ کرنے والے، پسندیدہ باتوں کی تلقین کرنے والے، ناپسندیدہ باتوں سے منع کرنے والے اور اﷲ کی حدوں کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ (اور اے نبی) آپ ان مومنوں کو خوش خبری دے دیجیے۔‘‘
(سورۃ التوبہ آیت112)

اس آیۂ مبارکہ میں اﷲ رب العزت نے مومن یعنی اہل ایمان انہی لوگوں کو قرار دیا ہے جو اﷲ رب العزت کے وجود کو تسلیم کرتے ہیں اور اس کی وحدانیت پر ایمان لاتے ہیں۔

جب وہ اﷲ رب العزت کو اپنا خالق تسلیم کرلیتے ہیں تو پھر ان پر لازم ہوجاتا ہے کہ وہ اسی پالنے والے کی عبادت کریں، اسی کے آگے اپنا سر جھکائیں، اسی سے فریاد کریں اور اسی کے سامنے دست طلب دراز کریں۔ اہل ایمان جب دل سے ایمان والے ہوجاتے ہیں تو پھر انھیں کچھ حدود اور پابندیوں کا بھی خیال رکھنا پڑتا ہے۔

مثال کے طور پر ایمان لانے کے بعد ان کا فرض ہوجاتا ہے کہ وہ تمام اچھی اور پسندیدہ باتوں کو عوام الناس میں پھیلائیں اور دوسروں کو بھی ان پر عمل کرنے کی ہدایت کریں۔ اس کے ساتھ ان پر یہ فرض بھی عائد ہوجاتا ہے کہ وہ خود بھی ناپسندیدہ باتوں سے بچیں اور دوسروں کو بھی ان سے بچنے کی نصیحت کریں، بلکہ عملی طور پر انھیں ناپسندیدہ باتوں سے بچائیں۔

اس کے ساتھ ساتھ ایمان والوں کی ایک اور نشانی یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ وہ اﷲ کی حدود کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ اس سے مراد یہ ہے کہ اہل ایمان صرف اس حد تک جاتے ہیں جہاں تک جانے کی اجازت ان کے پروردگار نے دی ہے اور اس حد کو عبور کرنے کی کوئی کوشش نہیں کرتے۔ جس کام کی اجازت ان کا رب دے رہا ہے، وہ کام یہ لوگ خوشی سے کرتے ہیں اور جس کام سے رکنے کا حکم دے رہا ہے، اس سے رک جاتے ہیں۔

چناں چہ اس موقع پر اﷲ تعالیٰ ان لوگوں کے لیے خوشی اور مسرت کا اظہار کرتے ہوئے اپنے پیغمبر حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مخاطب ہوکر ارشاد فرماتا ہے:’’(اور اے نبی) آپ ان مومنوں کو خوش خبری دے دیجیے۔‘‘

خوش خبری کس بات کی؟ اس بات کی کہ انہوں نے جس طرح اﷲ رب العزت کے احکام کی تعمیل کی اور اس کی فرماں برداری کی، اس سے خوش ہوکر اﷲ ان سے راضی ہوگیا اور اب انہیں اخروی کام یابی عطا ہوگی۔ یہ خوش خبری بھی ہمارا مالک اپنے رسول، ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے دے رہا ہے۔ اہل ایمان کے لیے اس سے بڑی سعادت اور کیا ہوگی۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’جو شخص مغرب کی طرف سے طلوع آفتاب سے پہلے پہلے توبہ کرلے، اﷲ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرماتا ہے۔‘‘ (مسلم شریف)

یہاں مغرب کی طرف سے سورج طلوع ہونے کا جو حوالہ دیا گیا ہے، اس سے مراد یہ ہے کہ یہ منظر صرف روز قیامت ہی طلوع ہوگا، اور اس قیامت کے بعد نہ کسی کی توبہ قبول ہوگی اور نہ ہی اس کا وقت ہی باقی رہے گا، اس لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اہل ایمان کو مذکورہ بالا حدیث کے ذریعے یہ ہدایت فرمائی ہے کہ وہ توبہ کا وقت گزرنے سے پہلے توبہ کرلیں تاکہ بعد کے پچھتاوے سے بچ سکیں۔

کتاب مبین میں ایک اور جگہ ارشاد ہوتا ہے:’’کچھ شک نہیں کہ اﷲ تعالیٰ توبہ کرنے والوں اور پاک صاف رہنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔‘‘ (سورۂ بقرہ222)

یہاں بھی وہی بات دہرائی گئی ہے کہ جو لوگ اﷲ تعالیٰ سے توبہ کرتے ہیں، اس کے آگے سر جھکاتے ہیں اور اس کے حکم کے مطابق خود کو پاک اور صاف رکھتے ہیں، گندگی اور غلاظت سے بچتے ہیں، ایسے لوگوں کا شمار اﷲ کے پسندیدہ لوگوں میں ہوتا ہے اور ایسے لوگ اﷲ کے دوست ہیں۔

بے شک وہ ایسے ہی دوستوں سے خوش ہوتا ہے اور انھیں اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے جنت کی بشارت دیتا ہے۔

سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں جب دعوت حق کا سلسلہ شروع ہوا تو عرب معاشرے کے ایسے ایسے لوگوں نے صدق دل سے اسلام قبول کیا جن کا ماضی اچھا نہیں تھا۔ وہ لوگ ہر طرح کی معاشرتی برائیوں میں پھنسے ہوئے تھے۔ مگر جب وہ اسلام کی دولت سے مالا مال ہوئے اور نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لائے تو ان کی دنیا ہی بدل گئی۔

انھوں نے خلوص دل سے اپنے داغ دار ماضی کے لیے اﷲ رب العزت سے توبہ کی اور آئندہ کے لیے راہ راست پر رہنے کا عہد کیا۔ اس کے بعد اﷲ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول کرلی اور پھر ان کے درجات ایسے بلند ہوئے کہ وہ صحابۂ کرام کے منصب پر فائز ہوئے یعنی رسول کریمصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھی کہلائے۔

ہمارے بزرگ اور دوست ذرا اس بات پر غور فرمائیں کہ اس پالن ہار نے کس طرح ان عربوں کی کایا پلٹی جس کے نتیجے میں یہ معاملہ بنا کہ اﷲ ان سے راضی ہوا اور وہ اﷲ سے راضی ہوگئے۔ اﷲ جن سے راضی ہوجائے، پھر وہ اسی کے ہوجاتے ہیں، اس کی پناہ میں آجاتے ہیں۔ وہی ان کا محافظ ہوتا ہے اور وہی ان کا مددگار! ان کا پروردگار انہیں ہر طرح کی پریشانیوں سے بچالیتا ہے اور انہیں سکینہ کی کیفیت کا بے مثال تحفہ عطا فرمادیتا ہے۔

سکینہ کیا ہے؟ سکینہ ایک ایسی کیفیت ہے جو انسان کو تمام مشکلات اور پریشانیوں سے نجات دلا دیتی ہے۔ اس کیفیت میں مبتلا ہونے والے خوش قسمت افراد کے اندر کی بے چینی اور اضطراب مکمل طور پر ختم ہوجاتا ہے۔ وہ قلبی سکون اور سلامتی کے احساس سے سرشار ہوجاتے ہیں۔

پھر وہ مرحلہ آجاتا ہے کہ سکینہ سے فیض یاب ہونے والوں کو اپنے پالن ہار کے سوا اور کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ وہ صرف اﷲ کی یاد میں مگن ہوجاتے ہیں اور دنیاوی دکھوں و پریشانیوں کے حصار سے نکل جاتے ہیں۔ اس وقت انھیں یہ اندازہ ہوجاتا ہے کہ دنیا کا کوئی دکھ ہو یا پریشانی، کوئی تکلیف ہو یا آزمائش، اس میں مبتلا کرنے والی بھی اﷲ کی ذات ہے اور اس سے نکالنے والی بھی یہی ذات ہے۔

جب یہ احساس فروغ پاجائے تو پھر انسان اپنے دکھ درد یا پریشانی کا ذمہ دار کسی انسان کو نہیں سمجھتا، بلکہ اسے اپنے رب کا حکم سمجھ کر اس پر راضی ہوجاتا ہے۔ سکینہ کا انعام اﷲ تعالیٰ کی جانب سے صرف پسندیدہ بندوں کو ہی عطا کیا جاتا ہے۔

آج ہمارے معاشرے کا حال بہ حیثیت مجموعی کچھ ایسا ہوگیا ہے کہ ہر انسان دوسرے انسان سے پریشان ہے، اس سے ڈر رہا ہے، اس سے خوف کھارہا ہے۔ ہر فرد دوسرے فرد کو شک کی نظر سے دیکھ رہا ہے۔

اسے کسی پر بھی اعتبار نہیں رہا ہے۔ ہر شخص دوسرے شخص کو اپنا استحصالی سمجھ رہا ہے اور سوچ رہا ہے کہ کہیں یہ میرا مال یا میری جائیداد ہڑپ نہ کرلے، کہیں میرا مال و متاع نہ چھین لے، کہیں میرا عہدہ، میری کرسی نہ چھین لے، کہیں میری عزت کے درپے نہ ہوجائے۔

کسی کو بھی اس بات کا احساس نہیں ہے کہ اس کے ذہن میں جتنے بھی خیالات آرہے ہیں، جتنے اندیشے، وسوسے اور خدشات اسے پریشان کررہے ہیں، یہ سب پروردگار عالم کی طرف سے اس کے لیے آزمائش ہیں۔ وہ جب چاہے گا، انھیں خود ہی دور کردے گا۔ وہ کسی کے حکم کا پابند نہیں ہے۔

لیکن وہ اپنے محبوب بندوں کی جائز خواہشات اور تمناؤں سے واقف ہے اور اگر انھیں مناسب سمجھتا ہے تو عطا کردیتا ہے ورنہ بعد کے لیے یعنی آخرت کے لیے ذخیرہ کردیتا ہے۔ لیکن وہ اپنے رحم و کرم سے اپنے بندوں کو سکینہ کا تحفہ ضرور عطا کرتا ہے جو بلاشبہہ مقدر والوں کو ہی نصیب ہوتا ہے۔

حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’اﷲ تعالیٰ بندے کی توبہ قبول کرتا ہے جب تک حالت نزع نہ طاری ہوجائے۔‘‘ (ترمذی) امام ترمذی نے اسے احسن کہا ہے۔

اس حدیث پاک میں بھی ایک نصیحت اور ایک وارننگ ہے۔ ارشاد ہورہا ہے کہ اﷲ رب العزت اپنے بندے کی توبہ صرف اس وقت تک قبول کرتا ہے جب تک اس پر نزع طاری نہ ہوجائے یعنی وہ مرض الموت کی کیفیت میں مبتلا نہ ہوجائے، گویا اﷲ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ اسی وقت تک قبول فرماتا ہے جب تک وہ اپنے ہوش و حواس میں رہتا ہے، لیکن جیسے ہی وہ اس نزاعی کیفیت میں مبتلا ہوجاتا ہے جس کے بعد اسے بہرصورت مرنا ہوتا ہے تو پھر توبہ کے دروازے بند ہوجاتے ہیں۔

اﷲ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ سبھی مسلمانوں کو یہ توفیق عطا فرمائے کہ وہ ہر وقت اس سے توبہ کرتے رہیں، نہ جانے کب موت سر پر آن پہنچے اور انہیں توبہ کرنے کی مہلت بھی نہ ملے۔

دل کا خیال رکھیں

اسلام آباد — دنیا بھر میں ہر سال تقریباً ایک کروڑ ستر لاکھ سے زائد افراد دل کی بیماریوں کے باعث موت کا شکار ہوجاتے ہیں اور عالمی ادارہ صحت کے مطابق 2030ء تک یہ تعداد دو کروڑ 40 لاکھ تک پہنچ جائے گی۔

ماہرین صحت کا کہنا ہے پاکستان میں بھی امراض قلب اموات کی ایک بڑی وجہ ہیں لیکن صحت مندانہ طرز زندگی اپنا کر امراض قلب پر بہت حد تک قابو پایا جاسکتا ہے۔

وفاقی دارالحکومت کے ہسپتال پولی کلینک میں شعبہ امراض قلب کے سربراہ ڈاکٹر شہباز احمد قریشی کا کہنا ہے کہ ایسے افراد جن کے خاندان میں دل کے مریض پہلے سے موجود ہوں یا جن میں ذیابیطس اور بلند فشار خون یعنی ہائی بلڈ پریشر کا عارضہ پایا جاتا ہو انھیں دل کی بیماریوں کا خطرہ دوسرے لوگوں کی نسبت زیادہ ہوتا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے امراض قلب کی تعریف کچھ یوں بیان کی۔ ’’جسم کو خون پہنچانے والی شریانیں پیدائش کے وقت چائنز سلک کی طرح ہوتی ہیں جیسے جیسے ہم غلط غذائیں کھاتے ہیں، بلڈ پریشر کو زیادہ رکھتے ہیں، تمباکو نوشی کرتے ہیں تو یہ اندر سے کھردری ہونا شروع ہوجاتی ہیں اور وہ کھردرا پن بنیاد بنتا ہے، شریان تنگ ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ تو پھر ایک وقت آتا ہے کہ اس شریان کے ذریعے خون جسم کے جس حصے کو پہنچنا چاہیے وہ نہیں پہنچتا۔‘‘

امراض قلب کی عام علامات میں سینے میں درد جو کہ بازوؤں کی طرف پھیلے، جبڑوں میں درد، سینے کی پچھلی جانب درد اور دباؤ اور ساتھ ہی پسینہ آنا شامل ہیں۔ طبی ماہرین کہتے ہیں کہ ایسی کسی علامت کے ظاہر ہونے پر فوراً معالج سے رابطہ کرنا چاہیے۔

ڈاکٹر شہباز قریشی کہتے ہیں چند احتیاطی تدابیر کے ذریعے دل کی بیماریوں سے بچا جاسکتا ہے اور جن کو یہ بیماری لاحق ہوچکی ہے وہ ان کے بقول اس سے بہتر طور پر نمٹ سکتے ہیں۔

’’صحت مندانہ طرز زندگی اپنائی جائے، روزانہ ورزش کی جائے، اپنے بلڈ پریشر کا خیال رکھا جائے، نمک کا استعمال کم سے کم کیا جائے، کولیسٹرول اور اپنے وزن پر دھیان دیا جائے اور خاص طور پر کمر یا پیٹ کے گرد چربی کو بڑھنے سے روکا جائے۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ بچوں کو شروع ہی سے صحت بخش غذا اور ان کے معمولات کو صحت مندانہ رکھنے اور ان کی خوراک میں روزانہ ایک سیب شامل کرنے سے آئندہ سالوں میں انھیں اس بیماری سے بچانے میں بہت مدد مل سکتی ہے۔

دل کا خیال رکھیں

ہفتہ, ستمبر 29, 2012

حج کی مختصر اور جامع معلومات

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکتہ

حج بیت اللہ کے لئے حجاز مقدس جانے اور حج کی ادائیگی سے متعلق ضروری باتیں ذہہن نشین کرلینی چاہیے۔ حج کے مخصوص ایام میں جو کام کرنا لازمی ہیں ان کی مختصر اور جامع تفصیل درج ذیل ہے۔


مسجد میں نماز کے انتظار میں بیٹھنے کی فضیلت

صحیح بخاری
کتاب الاذان
(اذان کے مسائل کے بیان میں)
باب: جو شخص مسجد میں نماز کے انتظار میں بیٹھے اس کا بیان اور مساجد کی فضیلت
حدیث نمبر: 659
حدثنا عبد الله بن مسلمة، عن مالك، عن أبي الزناد، عن الأعرج، عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏”الملائكة تصلي على أحدكم ما دام في مصلاه ما لم يحدث اللهم اغفر له، اللهم ارحمه‏.‏ لا يزال أحدكم في صلاة ما دامت الصلاة تحبسه، لا يمنعه أن ينقلب إلى أهله إلا الصلاة“.‏
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا امام مالک سے، انھوں نے ابوالزناد سے، انھوں نے اعرج سے، انھوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”ملائکہ تم میں سے اس نمازی کے لیے اس وقت تک یوں دعا کرتے رہتے ہیں۔ جب تک (نماز پڑھنے کے بعد) وہ اپنے مصلے پر بیٹھا رہے کہ اے اللہ! اس کی مغفرت کر۔ اے اللہ! اس پر رحم کر۔ تم میں سے وہ شخص جو صرف نماز کی وجہ سے رکا ہوا ہے۔ گھر جانے سے سوا نماز کے اور کوئی چیز اس کے لیے مانع نہیں، تو اس کا (یہ سارا وقت) نماز ہی میں شمار ہوگا۔


جو شخص مسجد میں نماز کے انتظار میں بیٹھے اس کا بیان اور مساجد کی فضیلت