بدھ, ستمبر 19, 2012

تخلیقِ کائنات کا تجربہ دہرانے کی کوشش

واشنگٹن — تخلیقِ کائنات کے رازوں سے پردہ اٹھانا ایک مدت سے سائنس دانوں کی آرزو رہی ہے۔ سائنسی اندازوں کے مطابق تخلیقِ کائنات کا واقعہ لگ بھگ 14 ارب سال پہلے پیش آیا تھا۔ اب اتنے پرانے واقعے کی کھوج لگانا کچھ آسان کام تو ہے نہیں، اسی لیے ماہرینِ فلکیات اور سائنس دان ایک مصنوعی (ورچوئل) کائنات تخلیق دے کر ’بِگ بینگ‘ کا تجربہ دہرانے کی کوشش کررہے ہیں۔

امریکی محکمہ توانائی کی ’ارگون نیشنل لیبارٹری‘ سے منسلک ماہرینِ طبیعات دنیا کے تیسرے تیز ترین کمپیوٹر کی مدد سے ’بِگ بینگ‘ کے اس تجربے کو دوبارہ دہرانے کی کوششوں میں مصروف ہیں جس سے انہیں امید ہے کہ کائنات کی ابتدا کے بارے میں جاننے میں مدد ملے گی۔

ایک مدت تک سائنس دان اور ماہرینِ فلکیات ٹیلی سکوپوں کے ذریعے اندھیرے آسمانوں کا مطالعہ کرتے آئے ہیں اور اس مشق کے ذریعے انہوں نے کائنات کے نقشے تیار کیے ہیں۔ فلکیات کے میدان میں ہونے والی ترقی اور جدید ٹیکنالوجی کے مدد سے کائنات اور کہکشاؤں کے ان نقشوں کو حقیقت سے مزید ہم آہنگ کرنے میں مدد ملی ہے۔

اب انہی آسمانی نقشوں کی مدد سےماہرین نے ’ارگون میرا سپر کمپیوٹر‘ پر ایک مصنوعی کہکشاں تخلیق کی ہے جس پر وہ اب تک کا سب سے ہائی ریزولوشن والا ’بِگ بینگ‘ تجربہ کریں گے اور کائنات میں مادے کی تقسیم کی حقیقت کا کھوج لگائیں گے۔

سلمان حبیب اس منصوبے کے قائدین میں سے ایک ہیں جن کا کہنا ہے کہ ٹیکنالوجی کے میدان میں آنے والی انقلابی تبدیلیوں نے اس بڑے پیمانے پر کائنات کو سمجھنے کی کوشش کرنے کا جواز فراہم کیا ہے۔ سلمان حبیب کے بقول کائنات کی تخلیق کا راز سمجھ میں آجانے سے پوری سائنس سمجھی جاسکتی ہے۔

اس منصوبے کے ایک اور قائد کیٹرن ہیٹمین کے مطابق تجربے کے دوران میں مختلف اوقات میں کائنات کی مختلف ہیئتوں کی تصویروں اور موویز سے مدد لی جائے گی۔

سائنس دانوں کو امید ہے کہ اس تجربے سے ’ڈارک میٹر‘ یا ’تاریک مادے‘ کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننے میں مدد ملے گی۔ ’ڈارک میٹر‘ مادے کی ایک خیالی قسم ہے جس کے بارے میں ماہرین کا گمان ہے کہ کائنات کا بیش تر حصہ اسی پر مشتمل ہے۔

سلمان حبیب کہتے ہیں خلا کے بارے میں ایک عام تاثر یہ ہے کہ یہ یا تو رکی ہوئی ہے یا ایک مخصوص شکل میں موجود ہے، حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نئی خلائیں تخلیق پارہی ہیں۔

سلمان کہتے ہیں کہ کائنات میں توسیع کا فلسفہ آئین سٹائین کی 'تھیوری آف ریلیٹویٹی' سے بھی تقویت پاتا ہے لیکن اس نظریے کے مطابق اس توسیعی عمل کو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سست پڑجانا چاہیے تھا۔

لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے اور 2011ء میں طبعیات کا 'نوبیل انعام' حاصل کرنے والی تحقیق اور دیگر مشاہدوں سے یہ پتا چلا ہے کہ کائنات کی توسیع کے عمل میں تیزی آگئی ہے۔

سلمان حبیب کے مطابق اس راز پر تاحال پردہ پڑا ہوا ہے کہ ایسا کیوں ہورہا ہے لیکن کئی سائنس دانوں نے اس گمان کا اظہار کیا ہے کہ کائنات کی اس توسیعی عمل کے پیچھے درحقیقت 'تاریک توانائی' یا 'ڈارک انرجی' کی قوت موجود ہے۔

'ڈارک میٹر' کی طرح 'ڈارک انرجی' بھی توانائی کی ایسی قسم ہے جس کا کوئی ثبوت دستیاب نہیں۔ لیکن سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ 70 فی صد کائنات اس توانائی پر مشتمل ہے اور امید ہے کہ یہ تجربہ 'ڈارک انرجی' کے بارے میں بھی معلومات فراہم کرے گا۔

تخلیقِ کائنات کا تجربہ دہرانے کی کوشش

اتوار, ستمبر 16, 2012

ترکمانستان میں دوزخ کا دروازہ

دوزخ کسی نے دیکھی ہے اور نہ ہی کوئی دیکھنا چاہے گا تاہم آپ کو ہم دوزخ کا دروازہ ضرور دکھا سکتے ہیں جہاں سالہا سال سے آگ بھڑک رہی ہے۔

ترکمانستان میں واقع یہ جہنمی دروازہ 1971 میں معدنیات کی تلاش کے دوران کھُلا۔ کھدائی کے عمل میں زمین بیٹھ گئی اور اس میں پڑنے والے 70 فٹ چوڑے شگاف سے قدرتی گیس نکلنے لگی۔ کچھ دیر بعد گیس نے آگ پکڑ لی۔ 

حادثے سے بچنے کے لئے شگاف پر مٹی ڈال دی گئی مگر آگ کا الاؤ بدستور بھڑکتا رہا۔ ماہرین کا خیال تھا چند روز میں گیس ختم ہوجانے کے بعد آگ بجھ جائے گی تاہم یہ آج بھی جل رہی ہے۔ 

دوزخ کا دھانہ کہلانے والے اس گڑھے سے نمودار ہوتے آتشیں شعلے کئی میل دور سے دیکھے جا سکتے ہیں۔ چالیس سال سے جلتی آگ نے علاقے کے درجہ حرارت میں بھی اضافہ کردیا ہے اور یہاں سارا سال گرمی کا راج رہتا ہے۔ مقامی قبائل کا عقیدہ ہے کہ اس الاؤ کی گرمی سے گناہ جل جاتے ہیں اور یہ حرارت انسان کوحقیقی جہنم سے محفوظ رکھتی ہے۔ 

یہ آتشیں گڑھا دنیا بھر میں شہرت حاصل کر چکا ہے۔ ہرسال ہزاروں سیاح دوزخ کا دروازہ دیکھنے ترکمانستان کا رخ کرتے ہیں۔

ترکمانستان میں ’دوزخ کا دروازہ‘

500 روپے کے پرانے کرنسی نوٹ 30 ستمبر 2012ء تک تبدیل کرالیں

500 روپے کے پرانے ڈیزائن والے بڑے سائز کے نوٹ ایس بی پی بینکنگ سروسز کارپوریشن کے فیلڈ دفاتر اور تمام بینکوں کی شاخوں سے تبدیل کرانے کی مدت ختم ہونے میں 15 روز باقی رہ گئے ہیں۔

سٹیٹ بینک آف پاکستان اور ایس بی پی بی ایس سی یکم اکتوبر 2012ء کے بعد نہ تو یہ بینک نوٹ تبدیل کرے گا اور نہ ہی اس کی قیمت کسی فرد یا بینک کو ادا کرنے کا ذمہ دار ہوگا چنانچہ سٹیٹ بینک آف پاکستان نے عوام کو ایک بار پھر ہدایت کی ہے کہ وہ 500 روپے کے پرانے ڈیزائن والے بڑے سائز کے نوٹ ملک بھر میں قائم ایس بی پی بینکنگ سروسز کارپوریشن کے فیلڈ دفاتر اور بینکوں کی 10 ہزار سے زائد شاخوں سے یکم اکتوبر 2012ء تک بینکاری اوقات کے دوران تبدیل کرا لیں۔

ہفتہ, ستمبر 15, 2012

کیا برطانیہ کوہ نور آسانی سے لوٹا دے گا؟

بھارت کے جسوندر سنگھ سندھان والیا نے اپنے آپ کو ماہاراجہ دولیپ سنگھ کا وارث قرار دیتے ہوئے برطانیہ کے خلاف دنیا کے سب سے بڑے ھیرے کوہ نور کے سلسلے میں ایک مقدمہ دا ئر کرنے کا فیصلا کیا ہے جو ملکہ برطانیہ کے تاج کو سجا رہا ہے- جسوندر سنگھ کے مطابق ان کے اجداد دولیپ سنگھ بچپن میں ہی سب سے زیادہ قیمتی ہیرے و جواہرات انگریزوں کے حوالے کرنے پر مجبور ہوگئے تھے۔ اس بارے میں تفصیل ہمارے مبصر گیورگی وانیتسا نے لکھی۔

کوہ نور کے بارے میں بہت سی کہانیاں مشہور ہیں- یہ ہیرا مالوی سرتاجوں کا زیور رہا پھر مغلوں کے پاس رہا- اس کے بعد وہ 1793 میں نادر شاہ کے تاج کی زینت بنا اور حقیقت میں اس کا نام بہی نادر شاہ نے ڈالا- اس کے بعد وہ افغانی امیروں کے قبضہ میں آگیا اور پر مہاراجہ سِکھوں کے- 1848 میں دو سکھ قبیلوں کے درمیان جنگ کی وجہ سے سارے قیمتی جواہرات پر انگریزوں کا قبضہ ہوگیا- 29 مارچ 1849 کے معاہدہ کے بعد جس کو لاہور معاہدہ کہا جاتا ہے۔ یہ معاہدہ دولیپ سنگھ اور انگریزی لارڈ دلاہوزی کے درمیان ہوا- اور اسی سال اس کو برطانیہ کی شہزادی کے حوالے کردیا گیا- ابتدا میں یہ ہیرا 186 کیریٹ کا تھا پھر1911 میں شہزادی میری کی تخت نشینی کے وقت اس کو 109 کیریٹ کا کردیا گیا- غرض یہ کہ پچھلے دوروں میں اس ہیرے کے 18 مالک رہ چکے ہیں۔

جسوندر سنگھ کو اس سلسلے میں مقدمہ کرنے کے لئے سب سے پہلے اس ہیرے سے تعلق کو ثابت کرنا ہوگا- اس سلسلے میں وہ 1889 کے خط کا ذکر کررہے ہیں- جسوندر سنگہ کے مطابق ان کا پردادا رشتے کا بھائی تھا اور مہاراجہ کا سوتیلا بیٹا تھا- اس طرح جسوندر سنگھ نے کہا ہے کہ اس سلسلے ميں انڈین کورٹ ان کی مدد کرے گی- اور اگر ان کو یہ واپس مل گیا تو وہ اس کو امرتسر کے گولڈین ٹیمپل کے حوالے کر دیں گے- بھارت میں اس کا بخوشی استقبال کیا جائے گا- واضع رہے کہ کوہ نور کی واپسی کا سوال بھارت میں اکثر اٹھایا جاتا رہا ہے بھارتی پارلیمان میں ایک تحریک بھی شروع کی گئی- لیکن لندن اس کو اور دوسرے قیمتی زیورات واپس کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا ہے- اس بارے میں بھارتی تحقیق کی ماہرہ تاتیانا شاومیان نے کہا کہ بریٹش میوزیم، اور میٹروپولیٹین ایسی اشیا سے بھرے پڑے ہیں جو نوآبدیاتی دور میں مختلف ملکوں سے لے جائے گئے- برطانیہ ان کو شائد ہی واپس کرے گا- بھارت اس کو واپس لے سکے گا، یہ کہنا مشکل ہے- لیکن اگر مصر، یونان، ترکی اور دوسروں کے ساتھ مل کر کوشش کی جائے جن کی نوادرات غائب کی گئی ہیں نوآبادیاتی دور میں اور اگر یہ ممالک ایسی کوئی تحریک شروع کریں گے تب شائد ممکن ہو کہ ان کو اپنی قیمتی نوادرات واپس مل سیکں-

کیا برطانیہ کوہ نور کو آسانی سے لوٹا دے گا؟

پیسیو سموکنگ انسان کی یاد داشت میں کمی کا باعث

جو لوگ تمباکو نوشوں کے ساتھ رہتے ہیں یا ان کے ساتھ زیادہ وقت گزارتے ہیں، ان کی یاد داشت میں کمی کا امکان ہے، برطانیہ کی نارٹومبیا یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے یہ اندازہ لگایا ہے۔ ماہرین نے تمباکو نوشوں کے ایک گروپ، ’پیسیو سموکنگ‘ یعنی غیر فعال سگریٹ نوشی کرنے والوں کے ایک گروپ اور تمباکو نوشی نہ کرنے والے افراد پر مشتمل ایک گروپ کا جائزہ لیا۔ دوسرے گروپ میں شامل لوگ ساڑھے چار سال کے عرصہ میں ہفتے میں پچیس گھنٹے کے لئے تمباکو نوشوں کے ساتھ رہتے تھے۔ پھر تینوں گروپوں میں شامل افراد کی یاد داشت کا جائزہ لیا گیا۔ معلوم ہوا کہ تمباکو نوشی نہ کرنے والوں کی نسبت ’پیسیو سموکنگ‘ کرنے والے افراد بیس فیصد دی گئی معلومات بھول گئے جبکہ تمباکو نوش تیس فیصد۔

پیسیو سموکنگ انسان کی یاد داشت میں کمی کا باعث ہے: سائنس دان

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی پر دستاویزی فلم

مصر کے اسلام پسند حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کے بارے میں دستاویزی فلم بنائیں گے۔ یہ فلم امریکہ میں بنائی گئی ”معصوم مسلمان“ کے نام سے فلم کا جواب ہوگی جس کی وجہ سے عرب ممالک میں احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ مصر کی سلفی مذہبی جماعت ”النور“ کے ترجمان محمد نور نے صحافیوں کے سامنے کہا کہ یہ دستاویزی فلم آدھ گھنٹہ جاری ہوگی۔ اس کا نام ”حضرت محمد کے بغیر ہماری دنیا“ ہوگا۔ یہ فلم عربی زبان میں ہوگی، پھر انگریزی اور فرانسیسی میں اس کا ترجمہ کردیا جائے گا۔

مصر کے اسلام پسند حضرت محمد کی زندگی کے بارے میں دستاویزی فلم بنائیں گے

بابا میں آنا چاہتی ہوں

23 سالہ زویا اس کے چار کزن اور پھوپی کی لاشیں ایدھی سرد خانے میں موجود ہیں، لیکن ان ناقابل شناخت لاشوں میں سے ایک ہی خاندان کے چھ لوگوں کی لاشیں کون سی ہیں یہ پتہ نہیں چل سکا ہے۔

سول ہسپتال میں قائم ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے جمعرات کو زویا کے والد حشمت علی بھی آئے تھے جہاں ان کے خون کا نمونہ حاصل کیا گیا۔ حشمت علی حیدر آباد کے قریب واقعے کوٹری شہر میں رہتے ہیں۔ انہیں اس واقعے کے بارے میں بدھ کی صبح معلوم ہوا تھا اس وقت وہ فیکٹری میں ملازمت پر تھے جہاں سے وہ گھر پہنچے اور بیوی کو لے کر کراچی پہنچ گئے۔

حشمت علی کے مطابق وہ جب فیکٹری پہنچے تو آگ لگی ہوئی تھی اندر ان کی بیٹی زویا، تین بھتیجیاں، بھتیجا اور بہن موجود تھیں، بھتیجا آگ لگنے کے بعد اپنی بہنوں کو بچانے گیا تھا اور خود بھی موت کے منہ میں چلا گیا۔

حشمت علی کے بھائی تین سال پہلے کوٹری سے بلدیہ ٹاؤن منتقل ہوئے تھے جن کے ساتھ ان کی بیٹی زویا بھی آگئی اس نے اپنے کزن کے ساتھ اس فیکٹری میں ملازمت اختیار کرلی۔ بی اے پاس زویا حشمت علی کی بڑی اولاد تھیں۔ ان کا ایک بیٹا اور دو بیٹیاں چھوٹی ہیں، مزدور والد کا ہاتھ بٹانے کے لیے اس نے یہ ملازمت اختیار کی تھی جہاں سے اسے آٹھ ہزار روپے ملا کرتے تھے۔

حشمت علی کے مطابق انہوں نے فیکٹری دیکھی ہے، جو پوری بند تھی گیٹ پر بھی تالا لگا دیا تھا، جس کا کوئی جواز نہ تھا۔ ’اب عورتیں کہاں سے بھاگتیں، اس صورت حال میں مرد ہی نہیں بھاگ سکتے وہ لڑکی کہاں بھاگ سکی ہوگی وہ تو اوپر والی منزل پر تھی۔‘ حشمت علی واقعے کو لاپرواہی کا نتیجہ قرار دیتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اگر حکام دیوار توڑ دیتے تو کافی زندگیاں بچ سکتی تھیں اور آگ بجھانے والے بھی پہنچ سکتے تھے۔

زویا عید پر اپنے گھر آئیں تھیں جس کے بعد والدین سے ٹیلیفون پر رابطہ رہتا تھا۔ حشمت علی کے مطابق واقعے سے ایک روز پہلے زویا نے ان سے رابطہ کرکے کہا تھا کہ ’بابا میں تمہارے پاس آنا چاہتی ہوں میں نے کہا کہ آ جاؤ اسی دوران فیکٹری میں کام بڑھ گیا اور اسے چھٹی نہیں مل سکی‘۔

غلام رسول کو اپنے بھانجے 18 سالہ محمد طفیل کی لاش کی تلاش ہے، وہ ہسپتالوں اور مردہ خانوں کا چکر لگا کر تھک چکے ہیں طفیل کو اس کارخانے میں ملازمت پر سات دن ہوئے تھے جہاں انہیں چھ ہزار تنخواہ ملنی تھی۔

طفیل کے ماموں غلام رسول کا کہنا ہے کہ ہسپتال والے کہہ رہے ہیں کہ ڈی این اے ٹیسٹ کروالیں تو پھر ہی شناخت ہوسکتی ہے کیوں کہ بہت سی لاشیں مسخ ہوچکی ہیں۔

محمد طفیل کا ایک بھائی اور چار بہنیں ہیں، والد ضعیف العمر ہونے کی وجہ سے کام نہیں کرسکتے۔ بڑے بھائی بھی پچھلے دنوں ملازمت سے فارغ کردیے گئے تھے۔ غلام رسول کے مطابق طفیل بے روزگار تھا تو ایک دوست نے کہا کہ میں فیکٹری میں لگا دیتا ہوں۔

بابا میں آنا چاہتی ہوں

آئی فون فائیو: انتظار تمام ہوا

ایپل نے آئی فون فائیو متعارف کروا دیا ہے۔ نیا آئی فون پہلے کے ورژن کے مقابلے میں زیادہ ہلکا، پتلا اور کارکردگی کے لحاظ سے زیادہ طاقتور ہے۔

ایپل کی جانب سے آئی فون فائیو بدھ کو سان فرانسسکو میں ایک تقریب کے دوران متعارف کروایا گیا ہے۔ اس موقع پر ایپل کے چیف ایگزیکٹو ٹِم کُک کا کہنا تھا کہ یہ تعارفی تقریب آئی فون کی تاریخ میں سب سے اہم ہے۔

اس امریکی کمپنی نے اپنے نئے فون کو ’دنیا کا پتلا ترین سمارٹ فون‘ قرار دیا ہے۔ آئی فون فور ایس کے مقابلے میں یہ 18 فیصد پتلا اور 20 فیصد ہلکا ہے۔

اس تقریب کے موقع پر ایپل کے مارکیٹنگ چیف فِل شِلر کا کہنا تھا: ’’نیا آئی فون ایک مکمل نگینہ ہے۔ اس پراڈکٹ کا سافٹ ویئر اور انجنیئرنگ ہماری ٹیم کے لیے اب تک کا سے سب سے چیلنجنگ کام رہا ہے۔‘‘

آئی فون فائیو کے آرڈرز جمعے سے لینا شروع کر دیے جائیں گے۔ امریکا، کینیڈا، برطانیہ، فرانس، جرمنی، آسٹریلیا، ہانگ کانگ، سنگاپور اور جاپان میں اس کی ڈیلیوری 21 ستمبر شروع ہوجائے گی۔

سال کے آخر تک یہ ایک سو ملکوں میں دستیاب ہوگا۔ امریکا میں دو سال کے کانٹریکٹ کے ساتھ اس کی قیمت 199 ڈالر ہوگی۔

پہلے آئی فونز کے مقابلے میں یہ فون سائز میں بڑا ہے۔ شِلر کا کہنا ہے: ’’جب آپ اپنا فون پکڑیں تو یہ بہت خوبصورتی سے آپ کے ہاتھ میں آنا چاہیے، ہم نے یہی سوچتے ہوئے آئی فون فائیو ڈیزائن کیا ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا: ’’اس کی خوبصورت بڑی سکرین پر آپ جو کچھ دیکھتے ہیں وہ بہت حسین دکھائی دیتا ہے۔‘‘

اس فون میں ایپل نے اپنا نیا A6 پروسیسر استعمال کیا ہے۔ شِلر کا کہنا ہے کہ اس پروسیسر کی بدولت ویب گرافکس لوڈ کرنے کی سپیڈ دگنی ہے۔ آئی فون فائیو کی بیٹری بھی زیادہ طاقتور بنا دی گئی ہے، جو موبائل فون اور انٹرنیٹ کے استعمال کے لیے آٹھ گھنٹے ہے اور وائی فائی کے ساتھ استعمال کی صورت میں دس گھنٹے ہے۔ ایپل نے اس میں اپنا میپنگ سافٹ ویئر بھی شامل کیا ہے جبکہ سِری کو اپ گریڈ کردیا گیا ہے جو قبل ازیں آئی فون فور ایس میں متعارف کروایا گیا تھا۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق مورگن سٹینلے کی تجزیہ کار کیٹی ہوبرٹی نے امکان ظاہر کیا ہے کہ ایپل روا‌ں برس کی آخری سہ ماہی میں 48 سے 53 ملین آئی فونز فروخت کرسکتا ہے جبکہ آئندہ برس 266 ملین۔

آئی فون فائیو: انتظار تمام ہوا

جمعہ, ستمبر 14, 2012

پانچ سو روپے کی موت!

بارہ ستمبر کو لاہور اور کراچی کی دو فیکٹریوں میں جل مرنے والے 310 سے زائد محنت کش اگر ان فیکٹریوں میں نا بھی مرتے تو گیٹ سے باہر نکلتے ہی غفلت، بے حسی اور بدعنوانی کی رسیوں سے بٹے موت کے کسی اور جال میں پھنس کر مر جاتے۔

اگر یہ کارکن کسی کوئلہ کان کےمزدور ہوتے تو بغیر حفاظتی آلات کے زیرِ زمین سیاہ دیواروں کا لقمہ بنتے۔ ویسے بھی پاکستان میں کوئلے کی کانوں میں اوسطاً سالانہ ایک سو افراد کا ہلاک ہونا قطعاً غیر معمولی خبرنہیں۔

گذشتہ برس کی ہی تو بات ہے جب بلوچستان میں کوئلے کی ایک کان میں 45 اور دوسری کان میں 15 مزدور پھنس کے مرگئے۔ شاید ہی کوئی مہینہ ہو جو اپنے ساتھ ایک دو کان مزدور نہ لے جاتا ہو۔ زخمی تو کسی شمار قطار میں ہی نہیں۔

اگر یہ مزدور کسی بھی فیکٹری یا کان میں نہ ہوتے اور تلاشِ روزگار میں کسی مسافر ویگن میں جا رہے ہوتے تب بھی زندہ روسٹ ہوجاتے۔ جیسے گذشتہ برس وہاڑی میں ایک مسافر وین کا گیس سلنڈر پھٹنے سے اٹھارہ، خیرپور کے نزدیک سٹھارجہ میں تیرہ، گوجرانوالہ بائی پاس کے قریب چھ، اور شیخوپورہ میں اب سے تین ماہ پہلے سکول وین کا سلنڈر پھٹنے سے پانچ خواتین ٹیچرز اور ایک بچہ زندہ جل گیا۔

اور کسی ایک سال کے دوران گنجان رہائشی علاقوں میں قائم سینکٹروں غیرقانونی دوکانوں میں بکنے والے مائع گیس اور سی این جی سلنڈر پھٹنے کے حادثات سے ہونے والے املاکی و جانی نقصان کا تذکرہ اگر لے بیٹھوں تو یہ مضمون فہرست کی تپش سے ہی جل جائے گا۔

ایسے واقعات پر نگاہ رکھنے والی ایک این جی او سول سوسائٹی فرنٹ کی تازہ رپورٹ کے مطابق سال 2011 میں صرف گیس سلنڈر پھٹنے سے پاکستان میں دو ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ یہ تعداد گذشتہ برس ڈرون حملوں سے مرنے والوں کے مقابلے میں چار گنا زائد ہے۔

مگر ڈرنے کا بھی کوئی فائدہ نہیں۔ آپ اگر سی این جی سے چلنے والی بسوں اور ویگنوں میں سفر نہ بھی کریں یا گنجان آبادی میں مائع گیس یا آتش بازی کا سامان فروخت کرنے والی موت کی دوکانوں سے بچ کر بھی گذر جائیں تب بھی شاید جہان سے گذر جائیں۔ زندہ رہنے کے لئے ضروری ہے کہ آپ سڑک بھی پار نہ کریں، موٹر سائیکل بھی نہ چلائیں اور کار سے بھی اتر جائیں۔ اگر کسی بدمست مسافر ویگن، بس یا مال بردار ٹرک نے کچل دیا یا کسی ٹرالر کا کنٹینر آپ پر پھسل گیا تو قاتل ڈرائیور پر زیادہ سے زیادہ غفلت کا مقدمہ قائم ہوجائے گا۔ آپ نے ایسے کتنے ڈرائیوروں پر 302 کا کیس بنتے دیکھا یا سنا ہے؟ آخر پاکستان کی سڑکوں پر ہر سال آٹھ سے دس ہزار آپ جیسے یونہی تو نہیں مرجاتے۔

لیکن آپ سڑک بھی پار نہ کریں، کسی سی این جی والی وین میں بھی نہ بیٹھیں اور صرف ایک عام سی بس میں سفر کریں تو بچنے کا کوئی امکان ہے؟ یاد کریں گذشتہ برس ستمبر میں کلر کہار موٹر وے پر فیصل آباد کے سکولی بچوں کو پکنک سے واپس لانے والی بس کے ساتھ کیا ہوا۔ کیا 70 مسافروں کی گنجائش والے اس گردشی تابوت میں 110 بچے اور اساتذہ نہیں ٹھونسے گئے تھے؟ اور جب فٹنس سرٹیفکیٹ یافتہ اس تیس برس پرانی بس کے بریک جواب دے گئے اور وہ کھائی میں گر گئی تو اس کھائی سے 37 لاشیں اور 70 زخمی کیسے نکالے گئے؟ اس واقعے کو ایک برس ہوگیا۔ اس دوران اگر کسی کو سزا ملی ہو یا مقدمے میں کوئی پیش رفت ہوئی ہو تو مطلع فرما کے شکریے کا موقع دیں۔

اب آئیے نجی و سرکاری عمارات میں آتش زدگی سے بچاؤ کی سہولتوں کی طرف۔ پاکستان کے اقتصادی و افرادی انجن یعنی کراچی میں اس وقت جتنی بھی قانونی و غیرقانونی کمرشل یا رہائشی عمارات کھڑی ہیں، ان میں سے 65 فیصد عمارات میں نہ باہر نکلنے کے ہنگامی دروازے ہیں، نہ ہی آگ بجھانے کے آلات۔ جن عمارات میں آگ بجھانے کے سرخ سلنڈر نمائشی انداز میں لٹکے ہوئے ہیں، ان عمارات کے بھی سو میں سے ننانوے مکین نہیں بتا سکتے کہ بوقتِ ضرورت یہ آلات کیسے استعمال کیے جاتے ہیں یا ان آلات کو استعمال کرنے کے ذمہ دار کون کون ہیں یا فائر ڈرل کس جانور کا نام ہے۔ ذرا سوچئے اگر کراچی ایسا ہے تو باقی کیسا ہوگا؟

رہی بات صنعتی سیکٹر کی تو پاکستان میں اس وقت کم ازکم 70 لاکھ مزدور کارخانوں، ورکشاپوں اور اینٹوں کے بھٹوں میں ملازم ہیں۔ ان میں سے لگ بھگ 20 فیصد مزدور ہی ایسے ہوں گے جنہیں نافذ صنعتی قوانین کے تحت بنیادی مراعات اور حادثات سے تحفظ کے ازالے کی سہولت حاصل ہے۔ باقی بندگانِ محنت پھوٹی قسمت کے رحم و کرم پر ہیں۔

بظاہر جس صنعتی یونٹ میں بھی دس سے زائد ورکر ہوں اس یونٹ کا محکمہ لیبر میں رجسٹریشن لازمی ہے تاکہ یہ صنعتی یونٹ مروجہ حفاظتی و مراعاتی قوانین پر عمل درآمد کا پابند ہوجائے۔ اس وقت پاکستان میں قائم کتنے صنعتی یونٹ رجسٹرڈ یا غیر رجسٹرڈ ہیں اس بارے میں جتنے محکمے اتنے اندازے۔ جو یونٹ رجسٹرڈ بھی ہیں ان کے اکثر مالکان اور اکثر لیبر انسپکٹرز کے درمیان بڑا پکا زبانی معاہدہ ہوتا ہے کہ ہم تمہارے اور تم ہمارے۔ 

کراچی میں جو صنعتی یونٹ 300 کے لگ بھگ مزدوروں کا جہنم بن گیا وہ بھی تو ایک رجسٹرڈ یونٹ ہے۔ مگر اس میں ہنگامی طور پر باہر نکلنے کا ایک بھی دروازہ نہ تھا۔ شاید کسی بھی لیبر انسپکٹر کو سیٹھ کے کمرے میں کھلنے والے دروازے کے سوا کوئی اور دروازہ دیکھنے کی کیا پڑی۔ یہی حالت کم و بیش دیگر ہزاروں فیکٹریوں کی ہے۔ مگر وہ تب تک بالکل محفوظ ہیں جب تک آگ نہیں لگ جاتی۔

اور آگ بھی لگ جائے تو زیادہ سے زیادہ کیا ہوگا؟ وفاقی حکومت کے محنت و افرادی قوت ڈویژن کے اعداد و شمار کے مطابق فیکٹریز لاء مجریہ 1934 کے ترمیمی مسودے مجریہ 1997 کے تحت رجسٹرڈ صنعتی یونٹوں میں دو ہزار چار سے نو کے درمیان ڈھائی ہزار کے لگ بھگ چھوٹے بڑے صنعتی حادثات ہوئے۔ ان میں 252 کارکن جاں بحق، 570 شدید زخمی اور ڈیڑھ ہزار سے زائد معمولی زخمی ہوئے۔ گویا پاکستان میں رجسٹرڈ صنعتی یونٹوں میں ہر سال اوسطاً تقریباً پانچ سو صنعتی حادثات ہوتے ہیں۔ مگر ہزاروں غیر رجسٹرڈ صنعتی یونٹوں میں کتنے حادثات ہوتے اور کتنے کارکن مرتے ہیں۔ یہ واقعات و اموات و زخم کس کھاتے میں درج ہوتے ہیں۔ معاوضہ کون، کتنا طے کرتا اور کسے دیتا ہے۔ یہ راز خدا جانے، فیکٹری مالک جانے یا زندہ درگور خاندان جانے۔

کیا روک تھام یا کمی ہوسکتی ہے، کیا لیبر کورٹس کے ذریعے کسی کی حقیقی گرفت کبھی ممکن ہے؟ فیکٹریز ایکٹ کے تحت کارکنوں کے جانی و مالی تحفظ سے غفلت برتنے والے صنعتی یونٹ کے مالکان کے لئے سزا کیا ہے؟ کیا آپ جانتے ہیں؟

فی خلاف ورزی پانچ سو سے ساڑھے سات سو روپے جرمانہ ۔۔

پانچ سو روپے کی موت!

آسٹریا میں نئے انٹرنیٹ نیٹ ورک کا تجربہ

واشنگٹن — آسٹریا سے تعلق رکھنے والے کمپیوٹر پروگرامرز اور ہیکرز کے ایک گروپ نے مختلف آبادیوں میں انٹرنیٹ کے استعمال کو فروغ دینے کا ایک سستا متبادل تیار کرلیا ہے۔

ان پروگرامرز نے اپنے اس نئے نیٹ ورک کو ’فنک فیوور‘ کا نام دیا ہے جس کا جرمن زبان میں مطلب ہے ’نیٹ ورک فائر‘۔ اس وائرلیس نیٹ ورک کی تخلیق میں روزمرہ کی ٹیکنالوجی استعمال کی گئی ہے جس کے ذریعے کمپنیوں یا حکومت کی مداخلت کے بعد ایک فرد سے دوسرے کو ڈیٹا منتقل کیا جاسکتا ہے۔

بیشتر صارفین کے لیے انٹرنیٹ بھی فون سروس یا بجلی کی طرح کی ایک ’یوٹیلٹی‘ ہے۔ صارف انٹرنیٹ تک رسائی کے لیے اپنی فون سروس یا ٹی وی کیبل کمپنی کو رقم ادا کرتے ہیں۔ لیکن ویانا کی چھتوں پہ نصب ’فنک فیوور‘ کے آلات اس معمول کی نظام سے ذرا مختلف ہیں۔

یہ نیٹ ورک ’وائی فائی‘ کی طرح کا ’اوپن ریڈیو سپیکٹرم‘ استعمال کرتے ہوئے وائرلیس انٹرنیٹ کی سہولت فراہم کرتا ہے۔ لیکن گھروں اور دفاتر میں استعمال ہونے والے روایتی چھوٹے ’وائی فائی‘ نیٹ ورکس کے برخلاف ’فنک فیوور‘ زیادہ وسیع علاقے تک کارآمد ہوتا ہے۔

اس نیٹ ورک کی وسعت کا انحصار اس کے استعمال کرنے والوں پر ہوتا ہے جو ہر دوسرے صارف کے لیے رائوٹر اور اینٹینے کا کام دیتے ہیں۔ اگر کوئی ایک بھی صارف انٹرنیٹ سے کنیکٹ ہے تو ’فنک فیوور‘ سے جڑے تمام صارفین اس کےذریعے انٹرنیٹ تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔

کئی لوگ اس ٹیکنالوجی کو حکومتوں کی جانب سے انٹرنیٹ کی بڑھتی ہوئی نگرانی اور قدغنوں کے ایک اچھے توڑ کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔

نیٹ ورک کے خالق ایرون کیپلن کہتے ہیں کہ اس نیٹ ورک کو شٹ ڈائون کرنا بہت مشکل ہے کیوں کہ آپ کو اس کے ایک ایک صارف تک جا کر اس کی انٹرنیٹ تک رسائی منقطع کرنی ہوگی۔

 ان کے بقول، ”اس لیے یہ ایک آسان کام نہیں۔ ماضی کی طرح اب ایسا نہیں ہوسکتا کہ آپ کسی ایک ’آئی ایس پی‘ (انٹرنیٹ سروس پرووائڈر) کے پاس جائیں اور اسے کہیں کہ سسٹم بند کردے۔ اس نیٹ ورک میں ایسا کچھ نہیں ہوسکتا کیوں کہ یہ عدم مرکزیت کا حامل ہے جہاں ہر چیز ایک دوسرے سے جدا آزادانہ حیثیت میں کام کر رہی ہے“۔

اس نیٹ ورک کے تخلیق کاروں کا کہنا ہے کہ وہ اسے ایک شہر ہی نہیں بلکہ پورے پورے ملکوں تک توسیع دے سکتے ہیں اور گو کہ یہ کام آسان نہیں، لیکن ایسا کرنا بالکل ممکن ہے۔

آسٹریا میں نئے انٹرنیٹ نیٹ ورک کا تجربہ

ٹی وی کیمرے کی آنکھ نے لاپتا والدہ کو ڈھونڈ لیا

چھوٹی سکرین کا بڑا نام، کاظم پاشا
فوٹو: فائل
یہ دنیا کارخانۂ عجائب ہے۔ یہاں وقت کی رفتار میں گُم ہوتے لمحات انوکھے، پُراسرار واقعات اور تعجب خیز اتفاقات سے گندھے ہوئے ہیں، جو ہمارے لیے تحیر و تجسس کا سامان کرتے ہیں۔ کہتے ہیں امکانات کبھی معدوم نہیں ہوتے اور زندگی میں ایسے واقعات جنم لیتے ہیں، جن میں عقل کو دخل نہیں ہوتا۔ ہم انھیں اتفاق کے عدسے سے دیکھتے ہیں۔

کاظم پاشا کا نام اور کام کسی تعارف اور حوالے کا محتاج نہیں۔ آپ نے پاکستان ٹیلی ویژن (پی ٹی وی) کو اپنی وابستگی کے دوران شان دار سیریلز دیے۔ آپ کے مقبول ترین ڈراموں میں سیڑھیاں، منڈی، جانگلوس، تھوڑا سا آسمان، کشکول، چھاؤں، کشش، الجھن، رات، ریت اور ہوا شامل ہیں۔ آج انھیں رجحان ساز ڈائریکٹر مانا جاتا ہے، رواں برس مارچ کے مہینے میں ڈراما پروڈکشن کے شعبے میں بہترین کارکردگی پر انھیں صدارتی تمغۂ امتیاز سے نوازا گیا، جب کہ مشہورِ زمانہ ’کیمبرج‘ نے رواں سال انٹلکچوئلز کی اپنی مرتب کردہ فہرست میں ان کا نام اپنے شعبے کے بہترین دماغ کے طور پر شامل کیا، اور ’اعزازی لیٹر‘ ان کے نام بھیجا۔ کاظم پاشا نے اپنی زندگی کے یہ دو واقعات ’بھلا نہ سکے‘ کے لیے ہمیں کچھ یوں سنائے۔

’’یہ 1985 کا واقعہ ہے۔ حج کا موقع تھا اور ہمارے چند قریبی عزیز عازمینِ حج کے ایک گروپ کے ساتھ کعبۃ اﷲ کے طواف کی غرض سے جارہے تھے۔ میرے والد اُن دنوں بیمار تھے اور والدہ حج کی سعادت حاصل کرنے کی آرزو مند تھیں۔ ہم نے انھیں عازمینِ حج کے اُس کارواں کے ساتھ کردیا، جس میں ہمارے رشتے دار بھی شامل تھے۔

مقررہ تاریخ پر تمام افراد سرزمینِ حجاز کے لیے روانہ ہوئے اور خیریت کے ساتھ اپنی منزل پر پہنچ گئے۔ یہاں میری یادداشت ساتھ نہیں دے رہی، شاید، تیسرا دن تھا جب یہ اطلاع ملی کہ میری والدہ وہاں پہنچنے کے بعد لاپتا ہوگئی ہیں۔‘‘

’’گھر کا ہر فرد والدہ کے لیے فکر مند تھا، میرے بھائی ان دنوں ’قطر‘ میں تھے، انھیں اس واقعے کے بارے میں بتایا، سعودی عرب میں مقیم اپنے رشتے داروں، احباب سے رابطہ کرکے اپنی والدہ کو تلاش کرنے کی درخواست کی۔‘‘

والدہ کی گُم شدگی پر کاظم پاشا کا سخت ذہنی اذیت اور فکر میں مبتلا ہونا فطری امر تھا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی تشویش بڑھتی جارہی تھی۔

طوافِ کعبہ، دیگر عبادات اور اس عظیم الشان اجتماع سے متعلق انتظامات کی دنیا بھر میں ذرایع ابلاغ کی بدولت تشہیر ہوتی ہے اور اُس مرتبہ بھی ٹیلی ویژن چینلز پر عازمینِ حج سے متعلق رپورٹس نشر کی جارہی تھیں۔ اپنی والدہ کی گُم شدگی پر دل گیر کاظم پاشا کے لیے حج سے متعلق روزناموں کی ہر خبر اور ٹیلی ویژن رپورٹ اہمیت حاصل کر گئی تھی اور ایک روز عجیب اتفاق ہوا، جس کا انھیں گمان تک نہ تھا!

اُس روز ٹیلی ویژن پر کیمرے کی آنکھ سے مکّہ میں ہر طرف ہجوم، گلیوں، بازاروں میں بھیڑ اور انتظامات کے مناظر دکھائے جارہے تھے، جو پاکستان میں بیٹھے کاظم پاشا اور ان کی اہلیہ کی نظروں سے گزر رہے تھے، اسی رپورٹ میں خیموں سے سجا ہوا عرفات کا میدان دکھایا گیا، وہاں سیکڑوں چہروں سے گزرتی ہوئی کیمرے کی آنکھ ایک خاتون پر جا کر ٹھیر گئی، اور ’کلوز اپ‘ لیا، یہ کاظم پاشا کی والدہ تھیں!!

وہ بتاتے ہیں،’’ہم نے اُنھیں اسکرین پر دیکھا، اور جانیے کہ زندگی ہماری طرف لوٹ آئی۔ میں نے فوراً سعودی عرب میں اپنے ایک عزیز کو اس بارے میں بتایا، وہ انھیں خیموں میں تلاش کرنے نکلے جو کہ ایک انتہائی مشکل کام تھا، اس سلسلے میں انھوں نے وہاں پاکستانی عازمینِ حج کے کاؤنٹر سے رابطہ کیا اور ان سے مدد چاہی، لیکن والدہ تک نہیں پہنچ سکے۔ امید ٹونٹے لگی تھی۔ تاہم انھیں صحیح سلامت دیکھ کر قدرے اطمینان ضرور ہوگیا تھا اور میں خیال کررہا تھا کہ تھوڑی کوشش کرکے ہم ان کا کھوج لگا لیں گے۔‘‘

وہ عجیب لمحات تھے، نہایت عجیب اور متضاد کیفیات سے لبریز، والدہ کو صحیح سلامت دیکھ لینے پر خوشی، مکّہ میں ان کی موجودگی کا اطمینان اور دوسری طرف اس جگہ تلاش کے باوجود ان کا نہ ملنا میری پریشانی بڑھا رہا تھا۔ اہلِ خانہ کا بھی یہی حال تھا کہ اسی عرصے میں شہرِ مدینہ سے میرے ایک کزن کی فون کال موصول ہوئی۔ انھوں نے بتایا کہ والدہ اُن کے ساتھ ہیں اور خیریت سے ہیں اور یوں میں اُن کیفیات سے آزاد ہوا۔

مجھے آج بھی اس بات پر حیرت ہے کہ کیمرے نے میری ہی والدہ کو ’کلوز اپ‘ کیا۔ آپ جانتے ہیں کہ ہر سال عازمین حج کی تعداد پچیس لاکھ تک جا پہنچتی ہے اور میدانِ عرفات دنیا بھر کے مسلمانوں سے آباد ہوتا ہے، لیکن اُس روز کیمرے کا لاکھوں کے مجمع میں ایک ایسی خاتون پر جا کر ٹھیرنا، جو اپنے اہلِ خانہ کے لیے ’لاپتا‘ تھیں، شاید، کسی کے نزدیک محض اتفاق ہو، لیکن میں اسے ’غیبی تسلی‘ تصور کرتا ہوں۔ اس عجیب اور غیرمتوقع صورتِ حال کا تانا بانا قدرت نے مجھے اس بے سکونی اور پریشانی سے نجات دلانے کے لیے بنا تھا، جو والدہ کی گُم شدگی کے باعث تھی۔‘‘

کاظم پاشا کے مطابق والدہ سے بعد میں اس پر بات ہوئی تو معلوم ہوا کہ انھیں اس تمام عرصے میں اپنے گروپ کے اراکین سے بچھڑ جانے کا احساس تک نہ تھا۔ وہ خیمہ گاہ سے مدینہ جانے کے ارادے سے نکلی تھیں اور ایک بس کے ذریعے مسجدِ نبوی پہنچ گئیں، جہاں ایک اور اتفاق نے جنم لیا۔ وہاں اُن کی نظر کاظم پاشا کے کزن پر پڑی، جنھیں انھوں نے خود آواز دے کر اپنی جانب متوجہ کیا، اور یوں وہ کاظم پاشا اور ان کے اہلِ خانہ کے لیے ’گُم شدہ‘ نہ رہیں۔

کاظم پاشا نے اپنی زندگی کا ایک اور واقعہ کچھ یوں سنایا۔

’’ پاکستان ٹیلی ویژن کی طرف سے میری تعیناتی کوئٹہ میں تھی۔ ایک روز رات کے وقت ٹیلی فون کی گھنٹی بجی، دوسری طرف میری اہلیہ تھیں، جو ایک روز قبل ہی کوئٹہ سے کراچی گئی تھیں۔ انھوں نے بتایا کہ دورانِ نماز تخت سے گرنے کے بعد میری والدہ کا انتقال ہوگیا ہے۔ یہ سن کر میں نے بڑی مشکل سے خود کو سنبھالا اور کوئٹہ میں اپنے جنرل مینیجر کو اس کی اطلاع دی۔ وہ مجھے اپنے گھر لے گئے اور اس موقعے پر میری غم گساری کی۔

مجھے والدہ کی تدفین پر کراچی جانا تھا اور یہ فوری نوعیت کا معاملہ تھا۔ صبح کا وقت ہورہا تھا، میں سیٹ بک کروانے کے لیے اپنے جی ایم کے ساتھ ایئرپورٹ گیا، لیکن اس روز موسم انتہائی خراب تھا۔ ابر اور شدید دھند کی وجہ سے فضائی آپریشن میں دشواری کا سامنا تھا، مجھے بتایا گیا کہ ’سیٹ‘ نہیں ہے۔ میں غم سے نڈھال تھا اور اس بات نے مجھے پریشانی اور کرب میں مبتلا کردیا۔ میرے ساتھ موجود جی ایم صاحب نے میری ہمت بندھائی اور کہا کہ مایوس نہ ہوں۔ مجھے کوئی امید، کوئی راستہ نظر نہیں آرہا تھا، لیکن جی ایم کوششوں میں مصروف رہے اور ان کی بھاگ دوڑ رنگ لائی، مجھے ’سیٹ‘ مل گئی، لیکن فلائٹ کی روانگی مطلع صاف ہونے سے مشروط تھی۔

میں آب دیدہ بیٹھا ہوا تھا، والدہ کا چہرہ میری نظروں کے سامنے تھا، ان کی باتیں یاد آرہی تھیں۔ اسی دکھ اور پریشانی کے عالم میں کافی وقت گزر گیا اور میری بے چینی بڑھ رہی تھی، کیوں کہ دو مرتبہ مسافر بس جہاز سے لگی اور پھر اسے واپس کردیا گیا، دراصل خراب موسم کی وجہ سے جہاز کو پرواز کی اجازت نہیں مل رہی تھی۔ تیسری مرتبہ بھی یہی ہوا۔ اُس بار موسم کی خرابی کے باعث جہاز کے پرواز نہ کرنے کا اعلان سُننے کے بعد میرے دل سے دُعا نکلی کہ پروردگار تُو میرے کراچی جانے کی کوئی سبیل کردے، اس گھڑی میرا ہاتھ تھام لے کہ میں اپنی ماں کو لحد میں اتار سکوں۔‘‘

اس دعا کے ساتھ وقت کچھ اور آگے بڑھ گیا، اس اناؤنسمینٹ کے بعد کپتان سمیت فضائی عملے کی طرف سے مکمل خاموشی تھی۔ تھوڑا وقت مزید گزرا تھا کہ کپتان کی آواز سنائی دی۔ اس مرتبہ ڈھارس بندھاتے اور امید جگاتے الفاظ کاظم پاشا کی سماعت سے ٹکرائے تھے۔ پرواز کی اجازت مل گئی تھی۔

ان لمحوں کی بابت کاظم پاشا بتاتے ہیں، ’’وہ قبولیت کی گھڑی تھی، میرے دعا مانگنے کے چند ہی لمحوں کے بعد کپتان نے کراچی کے لیے پرواز کرنے کا اعلان کردیا۔ فلائٹ پرواز کر گئی، دورانِ سفر میں نے سبّی سے گزرتے ہوئے باہر کی طرف دیکھا تو ہر طرف دھند چھائی ہوئی تھی۔ موسم بہت خراب تھا، لیکن وہ فلائٹ تمام مسافروں کے ساتھ بہ خیریت کراچی پہنچی۔ کراچی میں ایئرپورٹ پر میرے ایک عزیز موجود تھے، جن کے ساتھ سیدھا قبرستان پہنچا۔ وہاں میری والدہ کا جنازہ موجود تھا۔ میں باری تعالیٰ کا جتنا شکر ادا کروں کم ہے کہ اس نے میری دعا قبول کی اور مجھے وقت پر کراچی پہنچ کر اپنی والدہ کا آخری دیدار کرنے اور انھیں اپنے ہاتھوں سے قبر میں اُتارنے کی سعادت نصیب ہوئی۔

ٹی وی کیمرے کی آنکھ نے لاپتا والدہ کو ڈھونڈ لیا

جمعرات, ستمبر 13, 2012

آئی فون فائیو آج متعارف کرایا جا رہا ہے

معروف امریکی کمپیوٹر ساز کمپنی ایپل کی طرف سے ایک میڈیا ایونٹ کا انعقاد آج کیا جارہا ہے۔ عالمی وقت کے مطابق رات 10 بجے ہونے والے اس ایونٹ میں توقع کی جارہی ہے کہ آئی فون کا نیا ورژن متعارف کرایا جائے گا۔

آئی فون فائیو کی متوقع تعارفی تقریب میں اب چند گھنٹوں کا وقفہ رہ گیا ہے۔ نئے آئی فون کے فیچرز اور اس کی قیمت کے حوالے سے افواہوں اور خفیہ معلومات مبینہ طور پر عام کرنے کا سلسلہ ابھی تک زور و شور سے جاری ہے۔

9to5Mac.com نامی ویب سائٹ کے مطابق امریکا کے لیے نئے آئی فون کی قیمت وہی ہوگی جو موجودہ آئی فون فور ایس کی ہے۔ یعنی دو برس کے موبائل فون کانٹریکٹ کے ساتھ 16GB کے لیے 199 ڈالرز، 32GB کے لیے 299 جبکہ 64GB کے لیے 399 ڈالرز۔ دوسری طرف اندازے لگائے جارہے ہیں کہ آئی فون فائیو کی فروخت شروع ہونے کے ایک ہفتے کے اندر اس کے چھ ملین سے 10ملین تک یونٹس فروخت ہوں گے۔

اطلاعات کے مطابق نئے آئی فون کی سکرین چار انچ ہوگی جبکہ یہ فور ایس کے مقابلے میں قدرے پتلا بھی ہوگا۔ 2007ء میں آئی فون متعارف کرائے جانے کے بعد سے اس کی سکرین کا سائز 3.5 انچ رہا ہے۔ یہ پہلا موقع ہوگا کہ اس کی سکرین کا سائز تبدیل ہوگا۔

ایپل کی طرف سے آئی فون فور دو برس قبل یعنی 2010ء میں متعارف کرایا گیا تھا۔ بتایا گیا ہے کہ نئے آئی فون کے ڈیزائن میں اس وقت کے بعد سے کی جانے والی یہ سب سے بڑی تبدیلی ہوگی۔

آئی فون متعارف کرائے جانے کے بعد سے ایپل کو دیگر حریف کمپنیوں کی طرف سے سخت مقابلے کا سامنا ہے۔ ان میں سام سنگ سب سے نمایاں ہے۔ ان کمپنیوں کی طرف سے اس دوران ایسی ڈیوائسز متعارف کرائی گئیں جو ماہرین کے مطابق نہ صرف سکرین سائز بلکہ ٹیکنیکل صلاحیتوں کے حوالے سے بھی آئی فون پر سبقت رکھتی ہیں۔ 

حال ہی میں ایک امریکی مارکیٹ ریسرچ کمپنی IDC کی طرف سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ سام سنگ رواں برس کی دوسری سہ ماہی میں 51 ملین ڈیوائسز فروخت کرکے سمارٹ فون تیار کرنے والی اب سرفہرست کمپنی بن گئی ہے۔ یہ تعداد سمارٹ فونز کے کُل مارکیٹ شیئر کا 32 فیصد بنتا ہے۔ ایپل کی طرف سے اسی مدت کے دوران 26 ملین آئی فونز فروخت کیے گئے اور اس طرح اس کے حصے میں عالمی مارکیٹ کا 16.9 فیصد حصہ آیا۔

سام سنگ کی طرف سے چند روز قبل بتایا گیا تھا کہ اس کے نئے سمارٹ فون گلیکسی ایس تھری کی فروخت شروع ہونے کے پہلے ایک سو دنوں کے دوران 20 ملین یونٹس فروخت ہوئے ہیں۔

Glaxy S-III کی سکرین کا سائز 4.8 انچ ہے۔ یہ فون اینڈرائڈ فور آئس کریم سینڈوچ آپریٹنگ سسٹم کا حامل ہے۔ اس کی پچھلی جانب آٹھ میگا پکسل جبکہ سامنے کی جانب 1.9 میگا پکسل کا کیمرہ نصب ہے۔ سام سنگ کے مطابق یہ اس کا اب تک کا سب سے زیادہ فروخت ہونے والا فون ہے۔

رواں برس کے آغاز میں کوریا کی کمپنی سام سنگ نے دنیا کی سب سے زیادہ فون بنانے والی کمپنی ہونے کا اعزاز 14 برس بعد نوکیا سے چھین لیا تھا۔

آئی فون فائیو آج متعارف کرایا جا رہا ہے

خون کی کمی اور نایاب بلڈ گروپ: ننھی کلی کے مرجھانے کا خطرہ

تھیلیسیمیا کی مریض 8 سالہ عفیفہ بہت خاص بچی ہے۔ اس کے خون کا گروپ hh ہے جو بہت نایاب ہے۔ ہر مہینے اس کو دو بوتل خون کی ضرورت ہوتی ہے۔

تھیلیسیمیا کی مریض آٹھ سالہ عفیفہ بہت خاص بچی ہے۔ اس کے خون کا گروپ hh ہے جو بہت نایاب ہے۔ پوری دنیا میں ہر 10 لاکھ میں سے صرف چار ایسے لوگ ہونگے جن کا بلڈ گروپ hh ہوگا۔ خون فراہم کرنے والے ادارے کہتے ہیں پورے پاکستان میں اب تک محض 14 لوگ خون کے اس گروپ کے ساتھ دریافت ہوپائے ہیں اور کراچی میں تو صرف سات ہی لوگ hh گروپ کا خون رکھتے ہیں۔ ایسے لوگ کسی کو بھی اپنے خون کا عطیہ دے سکتے ہیں لیکن پھر ان کے اپنے لیے خون کا عطیہ کوئی نہیں دے سکتا۔ ان کا خون صرف اپنے ہی گروپ والے خون کو قبول کرتا ہے۔ ایسے میں سوچئے اگر کسی کو خون کی ضرورت ہو تو کیا کرے۔

عفیفہ کی دوسری خاص بات یہ ہے کہ اس کو خون کی بہت ضرورت پڑتی ہے۔ یہ ننھی سی بچی پچھلے چار سال سے تھیلیسیمیا کی مریض ہے اور اس کو ہر مہینے دو بوتل خون کی ضرورت پڑتی ہے۔ اب اتنے نایاب خون کی دو بوتلیں ہر مہینے حاصل کرنا عفیفہ کے والدین کیلئے جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔

کچھ عرصے پہلے تک تو صرف دو ہی ایسے نیک لوگ تھے جو عفیفہ کیلئے خون دیا کرتے تھے اور اب بھی یہ عطیہ دینے والوں کی تعداد صرف تین ہوپائی ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ ان میں سے کوئی بھی عطیہ دینے والا اپنے خون کے پیسے نہیں لیتا بلکہ دو لوگ تو عفیفہ کو خون دینے کیلئے امریکہ اور دبئی سے اپنے خرچے پر خاص طور پر پاکستان آتے ہیں۔
پاکستان میں عموماّّ یہ معلوم بھی نہیں ہوتا کہ کس کے خون کا گروپ کیا ہے جب تک کسی کو خون کی ضرورت خود نہ پڑ جائے۔ یورپی ممالک میں بھی، جہاں یہ معلومات پیدائش کے وقت ہی دستاویزات میں محفوظ کرلی جاتی ہیں hh گروپ کے خون والے لوگ بہت کم ہیں۔ دستیاب اعداد و شمار کے مطابق وہاں ہر 10 لاکھ میں صرف ایک شخص ایسا ہوگا جو خون کے اس نایاب گروپ سے تعلق رکھتا ہوگا۔ بھارت اور خاص طور پر ممبئی میں جہاں یہ گروپ اب سے پچاس سال پہلے سب سے پہلے دریافت ہوا تھا 10 لاکھ میں سے 100 افراد ایسے مل سکتے ہیں جو ایسا گروپ والا خون رکھتے ہوں۔

مگر ڈاکٹر کہتے ہیں کہ اگر عفیفہ کا تھیلیسیمیا کا علاج ہوجائے تو ایسا خون رکھنا از خود کوئی بیماری نہیں۔ اب تک صرف ایک ہی راستہ نظر آیا ہے اور وہ بھی خاصہ مشکل۔ عفیفہ کی والدہ کی ہڈیوں کا گودا اگر عفیفہ کو مل سکے تو اس bone marrow transplant operation کے ذریعے عفیفہ کا تھیلیسیمیا ختم ہوسکتا ہے۔ مگر یہ آپریشن نہ صرف مہنگا ہوگا بلکہ خطرناک بھی۔ اس میں عفیفہ کی جان بھی جاسکتی ہے۔


عفیفہ بڑے ہوکر ڈاکٹر بننا چاہتی ہے۔ لیکن ڈاکٹر کہتے ہیں کہ یہ مشکل ہوگا۔ جب تک عفیفہ کے لئے خون دینے والے اتنی بڑی تعداد میں جمع نہ ہوجائیں کہ ہر مہینے اس کو دو بوتل خون مل سکے یا پھر کسی طور اس کے تھیلیسیمیا کا علاج ہوسکے یہ ایک بہت مشکل کام ہوگا۔ عفیفہ کو البتہ ابھی بھی امید ہے، دنیا میں اس کے خون کا گروپ نایاب صحیح، نیکی ابھی بھی نایاب نہیں ہوئی ہے۔

خون کی کمی اور نایاب بلڈ گروپ: ننھی کلی کے مرجھانے کا خطرہ

پیر, ستمبر 10, 2012

کمبوڈیا: حیرت انگیز خوبیوں کے مالک 3 سالہ بچے کے کارنامے

کمبوڈیا میں 3 سال کا بچہ لوگوں کا ایسا علاج کرتا ہے کہ سالوں سے بیمار افراد صحت یاب ہونے لگے ہیں۔ سیکڑوں افراد علاج کرانے کے لئے تین سال کے بچے کے پاس آ رہے ہیں اور اسے سونے کے لئے وقت ملنا بھی مشکل ہوگیا ہے۔

کمبوڈیا کے صوبے پرے وینگ کے ایک گاؤں میں 3 سال کے بچے کی صلاحیتوں کا اندازہ اس وقت لوگوں کو ہوا جب اس کی ایک آنٹی کو بیماری کے بعد ڈاکٹروں نے جواب دے دیا، مگر گھر واپسی پر 3 سال کے رے رونگ نے علاقائی جڑی بوٹیاں منگوائیں اور گرم پانی میں ابال کر بیمار خاتون کو پلا دیں۔ کچھ ہی عرصے میں خاتون صحت یاب ہونے لگی۔ جیسے ہی خاتون صحت یاب ہوئی یہ خبر پورے گاؤں میں پھیل گئی اور پھر دور دور سے لوگ اس 3 سال کے بچے کو حیرت انگیز خوبیوں کا مالک قرار دے کر علاج کی غرض سے اس کے پاس آتے ہیں۔ بچے کے گھر والوں کا کہنا ہے کہ لوگوں کی اتنی بڑی تعداد علاج کرانے آرہی ہے کہ رے رونگ کو سونے کا وقت بھی نہیں ملتا۔

یو ایس اوپن ٹینس فائنل: سرینا ولیمز نے جیت لیا

سال کے آخری گرینڈ سلیم ایونٹ یو ایس اوپن ٹینس ویمنز سنگلز کا فائنل مقابلہ امریکی کھلاڑی سرینا ولیمز نے عالمی نمبر ایک وکٹوریا آزارینکا کو شکست دے کر جیت لیا۔

سرینا ولیمز نے پہلا سیٹ 6-2 سے جیتا، دوسرے سیٹ میں وکٹوریا آزارینکا نے 6-2 سے کامیابی حاصل کی جبکہ تیسرے سیٹ میں سخت مقابلے کے بعد سرینا ولیمز نے آزارینکا کو 7-5 سے شکست دی اور ٹائٹل اپنے نام کرلیا۔

تیسرا ٹی 20: پاکستان آسٹریلیا آج مد مقابل ہوں گے

پاکستان اورآسٹریلیا کے درمیان ٹی 20 سیریز کا آخری مقابلہ آج دبئی میں ہوگا۔ پاکستانی وقت کے مطابق میچ رات 9 بجے شروع ہوگا۔ پاکستانی ٹیم پہلے ہی سیریز دو صفر سے اپنے نام کرچکی ہے۔

ٹی 20 سیریز کے تیسرے اور آخری میچ کے لئے پاکستانی ٹیم مینجمنٹ دیگر کھلاڑیوں کو کھیلنے کا موقع دے گی، آل راؤنڈر شاہد آفریدی زخمی ہونے کی وجہ سے ابتدائی دو میچز نہیں کھیل سکے تھے۔ آخری میچ میں ان کی شمولیت کا فیصلہ فٹنس رپورٹ کے بعد کیا جائے گا۔

یاسر عرفات، اسد شفیق اور محمد سمیع کو ٹیم میں شامل کیے جانے کا امکان ہے۔

برما: روہنگیا مسلم اقلیت کے خلاف مظاہرے

گذشتہ ہفتے برما کے بدھ بھکشوؤں کی طرف سے مسلمان روہنگیا (Rohingy) اقلیت کے خلاف مظاہروں پر بہت سے مبصرین کو حیرت ہوئی ہے۔ تجزیہ کار کہتےہیں کہ ملک کی بدھسٹ آبادی کی طرف سے حب الوطنی کا یہ جارحانہ مظاہرہ، برما کے حکام کی قومی تشخص کو اجاگر کرنے کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ لیکن اس تشویش کا اظہار بھی کیا جارہا ہے کہ یہ کوششیں قابو سے باہر ہوسکتی ہیں۔

برما میں فوجی حکومت کے خلاف 2007 ءکی تحریک کے بعد، گذشتہ ہفتے بدھ بھکشوؤں نے پہلی بار اتنی بڑی تعداد میں احتجاجی مظاہرے کیے۔ لیکن سنہ 2007 کی تحریک اور ان مظاہروں کے درمیان ایک نمایاں فرق تھا۔

2007ء کی تحریک میں جسے Saffron Revolution کا نام دیا گیا ہے، محبت اور جمہوریت کا پیغام دیا گیا تھا، لیکن گذشتہ ہفتے Mandalay میں مارچ کرنے والے سیکڑوں بھکشوؤں نے روہنگیا کو ملک سے نکالنے کا مطالبہ کیا۔ روہنگیا کا شمار دنیا کی مظلوم ترین اقلیتوں میں ہوتا ہے۔

یہ بھکشو صدر Thein Sein کی اس تجویز کی حمایت کررہے تھے کہ اس مسلمان اقلیت کو جس کی تعداد تقریباً دس لاکھ ہے، عام آبادی سے الگ کردیا جائے اور ملک بدر کردیا جائے۔

فرقہ وارانہ کشیدگی اتنی زیادہ ہے کہ یہ بات بھی نظر انداز کر دی گئی ہے کہ 2007 میں جب فوجی حکومت نے بدھ بھکشوؤں کے خلاف پُر تشدد کارروائی کی تھی، اس وقت صدرتھائین سائن برما کے وزیرِاعظم تھے ۔

لندن اسکول آف اکنامکس کے محقق، Maung Zarni کہتے ہیں کہ حکام بدھوں کی قوم پرستی کے جذبات کو ہوا دے رہے ہیں۔ ان کےبقول، اُن جنرلوں کو بھکشوؤں کا قاتل سمجھا جاتا ہے۔ دنیا نے وہ مناظر دیکھے ہیں جب Saffron Revolution کے دوران، فوجیوں نے بدھ بھکشوؤں پر گولیاں چلائی تھیں۔ اب انھوں نے بڑی کامیابی سے خود کو بدھ مت کے چیمپین، اور مغربی برما میں بدھ آبادیوں کے محافظ بناکر پیش کیا ہے۔ یہ در اصل انتہائی عیاری پر مبنی، لیکن خطرناک، سیاسی چال ہے۔

سنہ1988 میں طالب علموں نے جمہوریت کی حمایت میں جو مظاہرے کیے تھے ، بدھ بھکشوؤں نے ان کی بھی زبردست حمایت کی تھی ۔ فوج نے اس احتجاج کو بھی طاقت کے زور پر کچل دیا تھا ۔

اگرچہ ان تمام مظاہروں اور احتجاجوں کے مقاصد عظیم تھے، لیکن تجزیہ کار کہتےہیں کہ تاریخی طور پر برما میں بدھ مت نسلی قوم پرستی کے جذبے سے متاثر ہوا ہے جو کبھی کبھی سر اٹھاتا رہتا ہے ۔

برما کی آبادی میں 90 فیصد لوگ بدھ مت کے ماننے والے ہیں اور نسلی طور پر برمی ہیں، لیکن بقیہ آبادی 100 سے زیادہ مختلف نسلی اور مذہبی اقلیتوں پر مشتمل ہے۔

Vahu Development Institute کی آنگ تھو نائین کہتی ہیں کہ حکام ایک طویل عرصے سے برمی اکثریت کے خیالات کو پوری آبادی پر مسلط کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں تاکہ اقلیتوں کو اقتدار سے باہر رکھا جاسکے۔ ان کے الفاظ میں، تحریری شکل میں تو ایسے قوانین اور ضابطے موجود نہیں ہیں، لیکن عملاً، اگر آپ عیسائی ہیں، یا مسلمان ہیں، تو آپ کو فوج میں کسی بڑے عہدے پر ترقی نہیں دی جائے گی ۔ فوج میں آپ کوئی اہم عہدہ حاصل نہیں کر سکتے۔

برما کے میڈیا نے اطلاع دی ہے کہ اگرچہ حکام نے بھکشوؤں کو تین روز مظاہروں کی اجازت دے دی تھی، لیکن جب وہ بہت زیادہ بڑھنے لگے، تو انھوں ان کی حوصلہ شکنی کی کوشش کی۔

برما: روہنگیا اقلیت کے خلاف مظاہرے