اﷲ تعالیٰ کی نازل کردہ تمام آفاقی کتابوں میں اپنے رب کو ایک ماننے کی تعلیم دی گئی ہے اور صرف اسی کی عبادت کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ قرآن حکیم میں بھی بار بار توبہ کرنے کا ذکر آیا ہے۔ اسی طرح احادیث نبوی یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات و فرامین میں بھی اکثر مقامات پر اپنے رب سے اپنی تمام اگلی اور پچھلی غلطیوں، لغزشوں اور گناہوں پر توبہ کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔
حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم علیہ الصلوٰۃ و التسلیم نے ارشاد فرمایا: ’’میں دن میں ستر بار سے بھی زیادہ اﷲ تعالیٰ سے توبہ کرتا ہوں۔‘‘
(بخاری شریف)
اہل ایمان کے لیے حکم ہے کہ وہ توبہ کریں، بار بار کریں اور اس انداز سے کریں جس سے نصیحت و راہ نمائی بھی ملے اور یہ دوسروں کے لیے بھی تقلید کا سبب بنے۔
رسول مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد پاک ہے: ’’اے لوگو! اﷲ تعالیٰ سے توبہ کرو اور اس سے بخشش مانگو، میں دن میں سو بار توبہ کرتا ہوں۔‘‘ (مسلم شریف)
پروردگار عالم اپنے پاک کلام میں ارشاد فرماتا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ صرف صاحبان ایمان ہی توبہ کرتے ہیں، کیوں کہ وہ توبہ کی اہمیت بھی جانتے ہیں اور اس کے فوائد سے بھی آگاہ ہیں۔
کائنات کا خالق اس وقت بڑی خوشی کا اظہار فرماتا ہے جب اس کے ایمان والے بندے توبہ کرکے اپنی اصلاح کرلیتے ہیں اور فرماں برداروں میں شامل ہوجاتے ہیں۔ اس وقت باری تعالیٰ اپنے ان بندوں کی توبہ قبول کرلیتا ہے اور پھر وہ لوگ اپنے گناہوں سے ایسے پاک صاف ہوجاتے ہیں جیسے ماں کے پیٹ سے آج ہی پیدا ہوئے ہوں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’وہ مومن توبہ کرنے والے، عبادت کرنے والے، حمد کرنے والے، سفر کرنے والے، رکوع کرنے والے، سجدہ کرنے والے، پسندیدہ باتوں کی تلقین کرنے والے، ناپسندیدہ باتوں سے منع کرنے والے اور اﷲ کی حدوں کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ (اور اے نبی) آپ ان مومنوں کو خوش خبری دے دیجیے۔‘‘
(سورۃ التوبہ آیت112)
اس آیۂ مبارکہ میں اﷲ رب العزت نے مومن یعنی اہل ایمان انہی لوگوں کو قرار دیا ہے جو اﷲ رب العزت کے وجود کو تسلیم کرتے ہیں اور اس کی وحدانیت پر ایمان لاتے ہیں۔
جب وہ اﷲ رب العزت کو اپنا خالق تسلیم کرلیتے ہیں تو پھر ان پر لازم ہوجاتا ہے کہ وہ اسی پالنے والے کی عبادت کریں، اسی کے آگے اپنا سر جھکائیں، اسی سے فریاد کریں اور اسی کے سامنے دست طلب دراز کریں۔ اہل ایمان جب دل سے ایمان والے ہوجاتے ہیں تو پھر انھیں کچھ حدود اور پابندیوں کا بھی خیال رکھنا پڑتا ہے۔
مثال کے طور پر ایمان لانے کے بعد ان کا فرض ہوجاتا ہے کہ وہ تمام اچھی اور پسندیدہ باتوں کو عوام الناس میں پھیلائیں اور دوسروں کو بھی ان پر عمل کرنے کی ہدایت کریں۔ اس کے ساتھ ان پر یہ فرض بھی عائد ہوجاتا ہے کہ وہ خود بھی ناپسندیدہ باتوں سے بچیں اور دوسروں کو بھی ان سے بچنے کی نصیحت کریں، بلکہ عملی طور پر انھیں ناپسندیدہ باتوں سے بچائیں۔
اس کے ساتھ ساتھ ایمان والوں کی ایک اور نشانی یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ وہ اﷲ کی حدود کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ اس سے مراد یہ ہے کہ اہل ایمان صرف اس حد تک جاتے ہیں جہاں تک جانے کی اجازت ان کے پروردگار نے دی ہے اور اس حد کو عبور کرنے کی کوئی کوشش نہیں کرتے۔ جس کام کی اجازت ان کا رب دے رہا ہے، وہ کام یہ لوگ خوشی سے کرتے ہیں اور جس کام سے رکنے کا حکم دے رہا ہے، اس سے رک جاتے ہیں۔
چناں چہ اس موقع پر اﷲ تعالیٰ ان لوگوں کے لیے خوشی اور مسرت کا اظہار کرتے ہوئے اپنے پیغمبر حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مخاطب ہوکر ارشاد فرماتا ہے:’’(اور اے نبی) آپ ان مومنوں کو خوش خبری دے دیجیے۔‘‘
خوش خبری کس بات کی؟ اس بات کی کہ انہوں نے جس طرح اﷲ رب العزت کے احکام کی تعمیل کی اور اس کی فرماں برداری کی، اس سے خوش ہوکر اﷲ ان سے راضی ہوگیا اور اب انہیں اخروی کام یابی عطا ہوگی۔ یہ خوش خبری بھی ہمارا مالک اپنے رسول، ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے دے رہا ہے۔ اہل ایمان کے لیے اس سے بڑی سعادت اور کیا ہوگی۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’جو شخص مغرب کی طرف سے طلوع آفتاب سے پہلے پہلے توبہ کرلے، اﷲ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرماتا ہے۔‘‘ (مسلم شریف)
یہاں مغرب کی طرف سے سورج طلوع ہونے کا جو حوالہ دیا گیا ہے، اس سے مراد یہ ہے کہ یہ منظر صرف روز قیامت ہی طلوع ہوگا، اور اس قیامت کے بعد نہ کسی کی توبہ قبول ہوگی اور نہ ہی اس کا وقت ہی باقی رہے گا، اس لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اہل ایمان کو مذکورہ بالا حدیث کے ذریعے یہ ہدایت فرمائی ہے کہ وہ توبہ کا وقت گزرنے سے پہلے توبہ کرلیں تاکہ بعد کے پچھتاوے سے بچ سکیں۔
کتاب مبین میں ایک اور جگہ ارشاد ہوتا ہے:’’کچھ شک نہیں کہ اﷲ تعالیٰ توبہ کرنے والوں اور پاک صاف رہنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔‘‘ (سورۂ بقرہ222)
یہاں بھی وہی بات دہرائی گئی ہے کہ جو لوگ اﷲ تعالیٰ سے توبہ کرتے ہیں، اس کے آگے سر جھکاتے ہیں اور اس کے حکم کے مطابق خود کو پاک اور صاف رکھتے ہیں، گندگی اور غلاظت سے بچتے ہیں، ایسے لوگوں کا شمار اﷲ کے پسندیدہ لوگوں میں ہوتا ہے اور ایسے لوگ اﷲ کے دوست ہیں۔
بے شک وہ ایسے ہی دوستوں سے خوش ہوتا ہے اور انھیں اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے جنت کی بشارت دیتا ہے۔
سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں جب دعوت حق کا سلسلہ شروع ہوا تو عرب معاشرے کے ایسے ایسے لوگوں نے صدق دل سے اسلام قبول کیا جن کا ماضی اچھا نہیں تھا۔ وہ لوگ ہر طرح کی معاشرتی برائیوں میں پھنسے ہوئے تھے۔ مگر جب وہ اسلام کی دولت سے مالا مال ہوئے اور نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لائے تو ان کی دنیا ہی بدل گئی۔
انھوں نے خلوص دل سے اپنے داغ دار ماضی کے لیے اﷲ رب العزت سے توبہ کی اور آئندہ کے لیے راہ راست پر رہنے کا عہد کیا۔ اس کے بعد اﷲ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول کرلی اور پھر ان کے درجات ایسے بلند ہوئے کہ وہ صحابۂ کرام کے منصب پر فائز ہوئے یعنی رسول کریمصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھی کہلائے۔
ہمارے بزرگ اور دوست ذرا اس بات پر غور فرمائیں کہ اس پالن ہار نے کس طرح ان عربوں کی کایا پلٹی جس کے نتیجے میں یہ معاملہ بنا کہ اﷲ ان سے راضی ہوا اور وہ اﷲ سے راضی ہوگئے۔ اﷲ جن سے راضی ہوجائے، پھر وہ اسی کے ہوجاتے ہیں، اس کی پناہ میں آجاتے ہیں۔ وہی ان کا محافظ ہوتا ہے اور وہی ان کا مددگار! ان کا پروردگار انہیں ہر طرح کی پریشانیوں سے بچالیتا ہے اور انہیں سکینہ کی کیفیت کا بے مثال تحفہ عطا فرمادیتا ہے۔
سکینہ کیا ہے؟ سکینہ ایک ایسی کیفیت ہے جو انسان کو تمام مشکلات اور پریشانیوں سے نجات دلا دیتی ہے۔ اس کیفیت میں مبتلا ہونے والے خوش قسمت افراد کے اندر کی بے چینی اور اضطراب مکمل طور پر ختم ہوجاتا ہے۔ وہ قلبی سکون اور سلامتی کے احساس سے سرشار ہوجاتے ہیں۔
پھر وہ مرحلہ آجاتا ہے کہ سکینہ سے فیض یاب ہونے والوں کو اپنے پالن ہار کے سوا اور کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ وہ صرف اﷲ کی یاد میں مگن ہوجاتے ہیں اور دنیاوی دکھوں و پریشانیوں کے حصار سے نکل جاتے ہیں۔ اس وقت انھیں یہ اندازہ ہوجاتا ہے کہ دنیا کا کوئی دکھ ہو یا پریشانی، کوئی تکلیف ہو یا آزمائش، اس میں مبتلا کرنے والی بھی اﷲ کی ذات ہے اور اس سے نکالنے والی بھی یہی ذات ہے۔
جب یہ احساس فروغ پاجائے تو پھر انسان اپنے دکھ درد یا پریشانی کا ذمہ دار کسی انسان کو نہیں سمجھتا، بلکہ اسے اپنے رب کا حکم سمجھ کر اس پر راضی ہوجاتا ہے۔ سکینہ کا انعام اﷲ تعالیٰ کی جانب سے صرف پسندیدہ بندوں کو ہی عطا کیا جاتا ہے۔
آج ہمارے معاشرے کا حال بہ حیثیت مجموعی کچھ ایسا ہوگیا ہے کہ ہر انسان دوسرے انسان سے پریشان ہے، اس سے ڈر رہا ہے، اس سے خوف کھارہا ہے۔ ہر فرد دوسرے فرد کو شک کی نظر سے دیکھ رہا ہے۔
اسے کسی پر بھی اعتبار نہیں رہا ہے۔ ہر شخص دوسرے شخص کو اپنا استحصالی سمجھ رہا ہے اور سوچ رہا ہے کہ کہیں یہ میرا مال یا میری جائیداد ہڑپ نہ کرلے، کہیں میرا مال و متاع نہ چھین لے، کہیں میرا عہدہ، میری کرسی نہ چھین لے، کہیں میری عزت کے درپے نہ ہوجائے۔
کسی کو بھی اس بات کا احساس نہیں ہے کہ اس کے ذہن میں جتنے بھی خیالات آرہے ہیں، جتنے اندیشے، وسوسے اور خدشات اسے پریشان کررہے ہیں، یہ سب پروردگار عالم کی طرف سے اس کے لیے آزمائش ہیں۔ وہ جب چاہے گا، انھیں خود ہی دور کردے گا۔ وہ کسی کے حکم کا پابند نہیں ہے۔
لیکن وہ اپنے محبوب بندوں کی جائز خواہشات اور تمناؤں سے واقف ہے اور اگر انھیں مناسب سمجھتا ہے تو عطا کردیتا ہے ورنہ بعد کے لیے یعنی آخرت کے لیے ذخیرہ کردیتا ہے۔ لیکن وہ اپنے رحم و کرم سے اپنے بندوں کو سکینہ کا تحفہ ضرور عطا کرتا ہے جو بلاشبہہ مقدر والوں کو ہی نصیب ہوتا ہے۔
حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’اﷲ تعالیٰ بندے کی توبہ قبول کرتا ہے جب تک حالت نزع نہ طاری ہوجائے۔‘‘ (ترمذی) امام ترمذی نے اسے احسن کہا ہے۔
اس حدیث پاک میں بھی ایک نصیحت اور ایک وارننگ ہے۔ ارشاد ہورہا ہے کہ اﷲ رب العزت اپنے بندے کی توبہ صرف اس وقت تک قبول کرتا ہے جب تک اس پر نزع طاری نہ ہوجائے یعنی وہ مرض الموت کی کیفیت میں مبتلا نہ ہوجائے، گویا اﷲ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ اسی وقت تک قبول فرماتا ہے جب تک وہ اپنے ہوش و حواس میں رہتا ہے، لیکن جیسے ہی وہ اس نزاعی کیفیت میں مبتلا ہوجاتا ہے جس کے بعد اسے بہرصورت مرنا ہوتا ہے تو پھر توبہ کے دروازے بند ہوجاتے ہیں۔
اﷲ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ سبھی مسلمانوں کو یہ توفیق عطا فرمائے کہ وہ ہر وقت اس سے توبہ کرتے رہیں، نہ جانے کب موت سر پر آن پہنچے اور انہیں توبہ کرنے کی مہلت بھی نہ ملے۔