کراچی میں حجاب کے استعمال میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ حجاب سے مراد خواتین کا دوپٹے یا سکارف سے منہ یا سر کا ڈھکنا، نقاب لگانا یا باقاعدہ برقع اوڑھنا ہے۔ عجب اتفاق ہے کہ ایک دور میں پورے ملک کا فیشن کراچی کو دیکھ کر بدلتا تھا مگر اب یہی شہر ”پردہ“ کرنے میں باقی ملک اور خاص کر سندھ اور پنجاب سے آگے نکل رہا ہے۔
کراچی یونیورسٹی کے شعبہ اسلامک سٹیڈیز کے لیکچرار عبدالرحمن کا ’وی او اے‘ سے خصوصی بات چیت میں کہنا تھا کہ ان کے اندازے کے مطابق شہر میں حجاب استعمال کرنے والی خواتین کی تعداد اگر کچھ سال پہلے تک 25 یا 30 فیصد تک تھی تو اب یہ تعداد تقریباً 50 فیصد ہوگئی ہے۔
عبدالرحمن کا کہنا ہے کہ پہلے ان کے ڈپارٹمنٹ میں پردے میں آنے والی طالبات کی تعداد 100 میں سے 12 یا 13 ہوا کرتی تھی تو اب یہ تعداد 50 فیصد سے بھی زیادہ ہوگئی ہے۔ گزشتہ روز یعنی منگل کو جبکہ ملک بھر میں مقامی طور پر ”یوم حجاب“ منایا گیا ہر جگہ اس دن کے حوالے سے پوسٹرز اور بینرز دکھائی دیئے۔ یہاں تک کہ اخبارات میں بھی اس دن کے حوالے سے خصوصی رپورٹس اور ضمیمے تک شائع ہوئے۔ اسے دیکھتے ہوئے یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ آنے والے سالوں میں حجاب لینے والی خواتین کی تعداد میں مزید اضافہ ہوگا۔ “
’یوم حجاب‘ فرانس میں مسلم خاتون مروہ الشربینی کے حجاب لینے پر چھڑنے والے تنازع اور بعد ازاں اس کے قتل کے سبب پاکستان میں شہرت کی وجہ بنا۔ قتل کا واقعہ کچھ سال پہلے 4 ستمبر کو پیش آیا تھا تب سے ہر سال اسی دن یوم حجاب کے طور پر منایا جاتا ہے۔ پاکستان کی دینی و مذہبی جماعتیں خاص طور پر اس دن کا اہتمام کرتی ہیں۔
یوم حجاب کی مناسبت سے کراچی میں عربی طرز کے برقعے ”عبایا“ عام ہونے لگے ہیں۔ کسی زمانے میں سر تا پاؤں ایک ہی رنگ کا برقع چلا کرتا تھا جسے اس کی بناوٹ کے سبب ”شٹل کاک برقع“ بھی کہا جاتا تھا مگر اب یہ صرف خیبر پختوا یا بلوچستان تک محدود ہوگیا ہے، اس کے مقابلے میں کراچی میں عبایا بہت زیادہ استعمال ہوتا ہے۔
اس وقت شہر کی تقریباً ہر بڑی چھوٹی دکان میں عبایا اور حجاب فروخت ہورہے ہیں۔ یہ مختلف اقسام اور سٹائل کے ہوتے ہیں۔ ان میں کئی قسم کی کڑھائی اور موتیوں کا کام بھی کیا جاتا ہے۔ ایسا عبایا یا سکارف بہت زیادہ مقبول ہے۔ خواتین اور نوجوان لڑکیاں چمک دمک والے اور نت نئے سٹائلز والے عبائے اور سکارف استعمال کررہی ہیں۔
حجاب کی بڑھتی ہوئی مانگ کے سبب بازاروں میں حجاب کی دکانوں میں بھی اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ جو دکانیں پہلے صرف کپڑوں کی ہوا کرتی تھیں اب ان پر صرف عبایا فروخت ہوتے ہیں۔
حجاب کی بڑھتی ہوئی مانگ کی وجہ سے قیمتوں میں بھی اضافہ ہوگیا ہے۔ ایک دکاندار نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ عبائے کی قیمت اس کے کپڑے اور اس کی کڑھائی و موتیوں کے کام پر منحصر ہوتی ہے۔ مارکیٹ میں 2 ہزار سے 8 ہزار تک کے عبائے اور برقعے فروخت ہورہے ہیں۔ انہوں نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ حجاب اور عبائے کے استعمال میں بہت تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔
ایک اور دکاندار نے بتایا کہ ہر خریدار خاتون نئے سے نئے سٹائل والے اور کام والے عبائے مانگتی ہے جس کی وجہ سے عبایا بنانے والے کارخانوں میں اضافہ ہوگیا ہے جبکہ عبائے کے کاریگروں کی مانگ بھی بڑھ رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایک وقت تھا کہ بھاری کام والے کپڑے زیادہ فروخت ہوتے تھے لیکن اب کپڑوں کے ساتھ ساتھ برقعوں اور عبایوں کی خرید و فروخت بڑھ رہی ہے۔
کراچی میں حجاب کے استعمال میں اضافہ، ’باپردہ‘ خواتین کی کثرت
کراچی یونیورسٹی کے شعبہ اسلامک سٹیڈیز کے لیکچرار عبدالرحمن کا ’وی او اے‘ سے خصوصی بات چیت میں کہنا تھا کہ ان کے اندازے کے مطابق شہر میں حجاب استعمال کرنے والی خواتین کی تعداد اگر کچھ سال پہلے تک 25 یا 30 فیصد تک تھی تو اب یہ تعداد تقریباً 50 فیصد ہوگئی ہے۔
عبدالرحمن کا کہنا ہے کہ پہلے ان کے ڈپارٹمنٹ میں پردے میں آنے والی طالبات کی تعداد 100 میں سے 12 یا 13 ہوا کرتی تھی تو اب یہ تعداد 50 فیصد سے بھی زیادہ ہوگئی ہے۔ گزشتہ روز یعنی منگل کو جبکہ ملک بھر میں مقامی طور پر ”یوم حجاب“ منایا گیا ہر جگہ اس دن کے حوالے سے پوسٹرز اور بینرز دکھائی دیئے۔ یہاں تک کہ اخبارات میں بھی اس دن کے حوالے سے خصوصی رپورٹس اور ضمیمے تک شائع ہوئے۔ اسے دیکھتے ہوئے یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ آنے والے سالوں میں حجاب لینے والی خواتین کی تعداد میں مزید اضافہ ہوگا۔ “
’یوم حجاب‘ فرانس میں مسلم خاتون مروہ الشربینی کے حجاب لینے پر چھڑنے والے تنازع اور بعد ازاں اس کے قتل کے سبب پاکستان میں شہرت کی وجہ بنا۔ قتل کا واقعہ کچھ سال پہلے 4 ستمبر کو پیش آیا تھا تب سے ہر سال اسی دن یوم حجاب کے طور پر منایا جاتا ہے۔ پاکستان کی دینی و مذہبی جماعتیں خاص طور پر اس دن کا اہتمام کرتی ہیں۔
یوم حجاب کی مناسبت سے کراچی میں عربی طرز کے برقعے ”عبایا“ عام ہونے لگے ہیں۔ کسی زمانے میں سر تا پاؤں ایک ہی رنگ کا برقع چلا کرتا تھا جسے اس کی بناوٹ کے سبب ”شٹل کاک برقع“ بھی کہا جاتا تھا مگر اب یہ صرف خیبر پختوا یا بلوچستان تک محدود ہوگیا ہے، اس کے مقابلے میں کراچی میں عبایا بہت زیادہ استعمال ہوتا ہے۔
اس وقت شہر کی تقریباً ہر بڑی چھوٹی دکان میں عبایا اور حجاب فروخت ہورہے ہیں۔ یہ مختلف اقسام اور سٹائل کے ہوتے ہیں۔ ان میں کئی قسم کی کڑھائی اور موتیوں کا کام بھی کیا جاتا ہے۔ ایسا عبایا یا سکارف بہت زیادہ مقبول ہے۔ خواتین اور نوجوان لڑکیاں چمک دمک والے اور نت نئے سٹائلز والے عبائے اور سکارف استعمال کررہی ہیں۔
حجاب کی بڑھتی ہوئی مانگ کے سبب بازاروں میں حجاب کی دکانوں میں بھی اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ جو دکانیں پہلے صرف کپڑوں کی ہوا کرتی تھیں اب ان پر صرف عبایا فروخت ہوتے ہیں۔
حجاب کی بڑھتی ہوئی مانگ کی وجہ سے قیمتوں میں بھی اضافہ ہوگیا ہے۔ ایک دکاندار نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ عبائے کی قیمت اس کے کپڑے اور اس کی کڑھائی و موتیوں کے کام پر منحصر ہوتی ہے۔ مارکیٹ میں 2 ہزار سے 8 ہزار تک کے عبائے اور برقعے فروخت ہورہے ہیں۔ انہوں نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ حجاب اور عبائے کے استعمال میں بہت تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔
ایک اور دکاندار نے بتایا کہ ہر خریدار خاتون نئے سے نئے سٹائل والے اور کام والے عبائے مانگتی ہے جس کی وجہ سے عبایا بنانے والے کارخانوں میں اضافہ ہوگیا ہے جبکہ عبائے کے کاریگروں کی مانگ بھی بڑھ رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایک وقت تھا کہ بھاری کام والے کپڑے زیادہ فروخت ہوتے تھے لیکن اب کپڑوں کے ساتھ ساتھ برقعوں اور عبایوں کی خرید و فروخت بڑھ رہی ہے۔
کراچی میں حجاب کے استعمال میں اضافہ، ’باپردہ‘ خواتین کی کثرت