صحت لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
صحت لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

جمعہ, نومبر 09, 2012

جاڑا دھوم مچاتا آیا

گلابی سردیوں کا آغاز ہوچکا ہے۔ ٹھنڈی ہوائیں چلنا شروع ہوگئی ہیں۔ گوکہ ابھی مکمل سردیوں کا موسم شروع نہیں ہوا۔ لیکن ٹھنڈی ہواؤں کی آمد کے ساتھ ہی خواتین نے کمبل، لحاف اور رضائیوں کو دھوپ لگانی شروع کر دی ہے۔ مہینوں سے الماری اور سوٹ کیسوں میں بند سوئٹرز، شالیں، جیٹکس اور اوُنی ٹوپیاں بھی اب وارڈ روب کی زینت بن چکی ہیں۔

سردیوں کے موسم کا حسن ہی الگ ہے، جو مزہ سردیوں میں لحاف میں دبک کر مونگ پھلیاں کھانے میں ہے، وہ مزہ بھلا کسی اور موسم میں کہاں۔ مگر اس کے باوجود سردیوں کی آمد کے ساتھ ہی بیشتر افراد سرد موسم اور ٹھنڈی ہواؤں کے جھونکوں کے زیر اثر فلو، کھانسی، نزلہ ، جوڑوں کے درد یا جلد کی خشکی جیسے مسائل کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ان چھوٹی موٹی بیماریوں اور تکالیف کی وجہ سے سردیوں کے موسم کا لطف نہیں اٹھا پاتے کئی لوگ اسی لیے سردیوں کے موسم کو پسند نہیں کرتے اور سردیوں کی آمد کے ساتھ ہی پریشان ہوجاتے ہیں۔ اگر آپ کا شمار بھی ایسے افراد میں ہوتا ہے تو پریشان ہونا چھوڑیے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں اور ٹوٹکوں پر عمل کرکے آپ سردیوں میں بھی خوش باش رہ سکتی ہیں۔ خصوصاً خواتین بچوں اور گھر کے بزرگوں کی چھوٹی چھوٹی بیماریوں اور تکالیف سے پریشان رہتی ہیں۔ اب بے فکر ہوجائیے، ہماری درج ذیل باتوں پر عمل کیجیے سب آپ کے قائل ہوجائیں گے۔ 

جوڑوں کا درد:
1۔ روزانہ وقت مقرر کرکے واک ضرور کریں۔ دس منٹ پندرہ منٹ سے شروع کریں آہستہ آہستہ اس کو بڑھاتے ہوئے تیس منٹ تک لے جائیں۔

2۔ کچھ وقت سورج کی روشنی میں ضرور گزاریں، اس طرح کے آپ کے متاثرہ جوڑ پر سورج کی روشنی پڑے۔

3۔ اپنی غذا میں دودھ اور دہی کا استعمال بڑھا دیں، مثلاً دو گلاس نیم گرم دودھ اور آدھا کپ دہی۔ دن بھر میں کسی بھی وقت لے لیں، مثلاً ایک گلاس دودھ صبح، دوپہر میں دہی، پھر رات کو ایک گلاس دودھ لے لیجیے۔

4۔ ایک ٹب میں گرم پانی (اتنا گرم ہو کہ آپ کی جلد برداشت کرسکے) اس میں مٹھی بھر کر نمک شامل کرکے اس میں اپنے پیر یا ہاتھ یا متاثرہ جوڑ کچھ دیر اس پانی میں ڈبوئے رکھیں پھر پانی سے نکال کر فوراً تولیے سے خشک کر لیں۔ یہ درد کے لیے مفید ٹوٹکا ہے۔

5۔ زیتون کے تیل سے جوڑوں پر ہلکے ہاتھ سے کچھ دیر مساج کیجیے بہت مفید ہے۔ 

فلو، کھانسی، نزلہ :
1۔ صبح نہار منہ اور رات سوتے وقت ایک کھانے کا چمچہ نیم گرم شہد کھا لیں۔

2۔ ایک کپ پانی میں تھوڑی سی چائے کی پتی، تین چار دانے لونگ، دو چھوٹے ٹکڑے دار چینی اور ایک چھوٹی الائچی ڈال کر ابالیں۔ اتنا پکائیں کہ آدھا کپ رہ جائے پھر چھان کر شہد یا چینی ملا کر صبح نہار منہ پی لیں۔

3۔ دن بھر کی غذا میں سوپ کا استعمال ضرور کریں، مرغی کا سوپ، بکرے کی ہڈیوں کی یخنی، مرغی کی یخنی، سبزی اور گوشت کا سوپ غرض کوئی بھی سوپ ہو اس کا استعمال ضرور کیجئے۔

نزلہ ، زکام ، سینے کی جکڑن میں بھاپ ضرور لیں، کھلے منہ کے دیگچے میں پانی ابال کر اس میں وکس ملالیں اگر وکس بام نہ ہو تو صرف پانی کی بھاپ لے لیں۔

5۔ نیم گرم پانی میں شہد ملا کر صبح اور رات کے وقت پی لیں۔

جلد اور بالوں کی خشکی:
1۔ پانی کا استعمال زیادہ سے زیادہ کریں۔ سردیوں میں عموماً پانی کم پیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے جِلد خشکی کا شکار ہوجاتی ہے۔

2۔ بالوں کی خشکی کے لیے ایک انڈا توڑ کر اس میں ناریل کا تیل ملائیں۔ ناریل کا تیل اپنے بالوں کی لمبائی کے حساب سے کم یا زیادہ ملائیں۔ اب اس کو اپنے بالوں میں لگائیں۔ اچھی طرح تمام بالوں میں لگا کر بالوں کا جوڑا باندھ لیں یا کلپ سے باندھ کر پرانا دوپٹہ چاہے باندھ لیں۔ دو گھنٹے بعد نیم گرم پانی اور شیمپو سے دھولیں نرم ملائم خشکی سے پاک بال ہوجائیں گے۔

3۔ منہ ہاتھ دھونے یا نہانے کے بعد جِلد کو مکمل طور پر خشک نہ کریں۔ جلد میں ہلکی نمی باقی ہو تو لوشن لگالیں۔ اس طرح جلد مکمل خشک ہوجانے سے بچ جاتی ہے۔ یہ عمل نومولود بچوں سے بڑوں تک سب کے لیے فائدہ مند ہے۔

4۔ ہاتھوں اور پیروں کو خشکی سے بچانے کے لیے لوشن اور ویسلین کا استعمال ضرور کیجیے۔ خصوصاً برتن، کپڑے وغیرہ دھونے کے بعد ہاتھ دھو کر فوراً لوشن لگالیں۔
 

جمعرات, نومبر 08, 2012

سبز چائے کینسر کے خطرات کم کرنے میں مفید

کینیڈا میں کی جانے والی ایک حالیہ تحقیق کے مطابق سبز چائے پینے والی خواتین میں کینسر کے مرض کا خطرہ کم ہوجاتا ہے۔

تحقیق کے مطابق بڑھتی عمر کے ساتھ جو خواتین باقاعدگی سے سبز چائے کا استعمال کرتی ہیں وہ معدے، بڑی آنت اور گلے کے کینسر سے محفوظ رہ سکتی ہیں۔ 

باقاعدگی سے سبز چائے استعمال کرنے والی ستر ہزار چینی خواتین پر کی جانے والی اس تحقیق کے نتائج کے مطابق دیگر خواتین کی نسبت ان میں معدے کے کینسر کا خطرہ چودہ فیصد کم پایا گیا۔ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ کینسر سے محفوظ رہنے کے لیے مناسب غذا کا استعمال اور صحت مند طرز زندگی اپنانا بھی بے حد ضروری ہے۔

سبز چائے پینے سے کینسر کے خطرات کم ہو جاتے ہیں: تحقیق

جمعہ, نومبر 02, 2012

آسٹریلیا میں لڑکے کو نئی زندگی مل گئی

آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں ڈاکٹروں نے اپنی نوعیت کا پہلا سرجیکل آپریشن کرکے ایک بچے کی جان بچالی ہے، جس کا فشار خون ایک غیر معروف بیماری کے اچانک انتہائی بلند ہوجایا کرتا تھا۔ دس سالہ میتھیوگیتروپ اپنی تمام زندگی شدید نوعیت کے تناؤ میں رہا۔ اس کے جگر اور گردے کا ایسا عارضہ لاحق تھا، جسے طب کی زبان میں آٹوسومل ریسیسیو پولیسٹک کڈنی ڈزیز اینڈ کونجینائیٹل ہیپاٹک فائبروسس کہتے ہیں۔ اس کم عم میں اسے ایک بار دل کا دورہ بھی پڑچکا ہے۔ اس اذیت ناک زندگی میں روزانہ تیس طرز کی ادویات کھاتا تھا اور اس کے لیے خوراک بھی اسی مناسبت سےکیا کرتا تھا۔

محض چار برس کی عمر میں اسے نیند میں خلل کا عارضہ بھی لاحق ہوا تھا۔ روایتی طریقے سے اگر میتھیو گیتروپ کا علاج کیا جاتا تو روزانہ کی بنیاد پر اس کا خون تبدیل کرنا پڑتا یعنی ڈائلائسس، اس کا گردہ اور جگر تبدیل کرنا پڑتا اور یہ بھی خدشہ تھا کہ اسے پھر دل کا دورہ پڑ سکتا ہے۔

ایسے میں موناش ہیلتھ انسٹیٹیوٹ کے طبی عملے نے ایک تجرباتی نوعیت کے آپریشن کی ٹھانی۔ ریڈیائی شعاعوں کی تکینک کو اس انداز میں استعمال کیا گیا کہ میتھیو کے گردے کو خون فراہم کرنے والی رگ اور قریبی عضلات کو نشانہ بنایا گیا۔ سرجن ای این میریڈیتھ کے بقول اس کی مدد سے میتھیو گیتروپ کا فشار خون معمول پر آیا اور اس کی بیماری کی علامات بھی کافی حد تک ختم ہوگئیں۔ اس کم عمر لڑکے پر اس طرح رگ کو ناکارہ کرنے کا رینل ڈینرویشن طریقہء کار آزمانے سے پہلے اس کا اخلاقی پہلو سے تین اخلاقی کمیٹیوں نے جائزہ لیا اور پھر اجازت دی۔ یہ طریقہء بالغ افراد پر بھی فی الحال محض تجرباتی بنیادوں پر آزمایا گیا ہے۔

دس سالہ اس بچے کی چھوٹی رگوں کے لیے یہ آلہ ایک امریکی کمپنی نے خصوصی طور پر ڈیزائن کیا۔ گیتروپ کی والدہ ایلکس اپنی بیٹے کی حالت دیکھ کر بہت خوش ہوئیں۔ ان کے بقول ان کا بیٹا اب خاصا پرسکون اور چوکنا رہنے لگا ہے اور اس کا بلند فشار خون بھی معمول پر آ گیا ہے۔  

’’اس نے پھر سے کہانیاں پڑھنا شروع کردی ہیں، یہ سننے میں بہت چھوٹی بات لگتی ہے مگر کافی عرصے تک یہ نہیں کر پارہا تھا، وہ اب سکول پر بھی خوب توجہ دے رہا ہے۔‘‘ وہ پر امید ہیں کہ ان کے بیٹے کو اب تکلیف دہ علاج کی ضرورت نہیں پڑے گی اور وہ ایک نئی اور آسودہ زندگی بسر کر سکے گا۔
 

جمعرات, نومبر 01, 2012

کراچی لاڑکانہ میں ایڈز کے مریضوں میں اضافہ

کراچی: پاکستان میں ایڈز کا مرض تیزی سے پھیل رہا ہے، خصوصاً صوبہ سندھ کے دو شہروں کراچی اور لاڑکانہ میں ایچ آئی وی پوزیٹو اور ایڈز کے مریضوں کی تعداد میں بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ حکومت سندھ کے ایڈز کنٹرول پروگرام کے مطابق اس کی بنیادی وجہ منشیات، مرد و خواتین سیکس ورکرز اور تیسری جنس سے تعلق رکھنے والے ہیں۔

سندھ ایڈز کنٹرول پروگرام کےجون 2012ء تک کے اعداد وشمار کے مطابق کراچی میں ایچ آئی وی پوزیٹو مریضوں کی رجسٹرڈ تعداد سب سے زیادہ رہی جو 3 ہزار 5 سو 69 ہے جبکہ یہاں 57 افراد کو ایڈز کا مرض لاحق ہے۔ دوسرا نمبر لاڑکانہ کا ہے جہاں ایچ آئی وی پوزیٹو مریضوں کی تعداد 238 ہے جبکہ تین افراد ایڈز میں مبتلا ہیں۔ 

سندھ ایڈز کنٹرول پروگرام کے ڈاکٹر سلیمان اووڈھو نے وائس آف امریکہ کے نمائندے کو بتایا کہ سن 2010ء تک ایڈز کے سب سے زیادہ مریض لاڑکانہ میں تھے جبکہ دو سال بعد کراچی لاڑکانہ سے آگے نکل گیا ہے۔ ڈاکٹر اووڈھو کے مطابق ایچ آئی وی پوزیٹو اور ایڈز کے مریضوں کی تعداد میں اضافے کا سبب نوجوانوں میں بہت تیزی سے بڑھتا ہوا منشیات کا استعمال ہے۔ دوسری اہم وجہ غیر محفوظ جنسی تعلقات یا بے راہ روی ہے۔ مریضوں کی بیشتر تعداد اپنی شریک حیات تک محدود نہیں۔ اسی طرح جسم فروشی کرنے والی خواتین خود بھی ایڈز کا شکار ہوجاتی ہیں اور دوسروں کو بھی اس موذی مرض میں مبتلا کردیتی ہیں۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ حالیہ برسوں میں کراچی میں تیسری جنس کے افراد میں بھی بہت تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ اور جنس کے کاروبار میں ان کے ملوث ہونے کا نتیجہ ایچ آئی وی ایڈز کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ کی صورت میں نکل رہا ہے۔ 

کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ لوگوں کا ایڈز اور ایچ آئی وی پوزیٹو کے بارے میں شعور پہلے کے مقابلے میں بہتر ہوا ہے لیکن اب بھی لوگوں کو بڑے پیمانے پر آگاہی کی ضرورت ہے۔
 

جمعہ, اکتوبر 26, 2012

انرجی ڈرنکس صحت کے لیے نقصان دہ

طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ انرجی ڈ رنکس بچوں اور بڑوں کی صحت کونقصان پہنچا سکتے ہیں۔ طبی ماہرین نے بتایا ہے کہ انرجی ڈرنکس میں ایک خاص قسم کا کیمیکل کیفین ہے جو انسانی گردوں اور دل کے لیے نقصان کا باعث ہوتا ہے۔

آدھا چمچ انرجی ڈرنکس کے مشروب میں چھ ملی گرام کیفین ہوتا ہے جو چھ اونس کافی میں ہوتا ہے۔ ایک لیٹر انرجی ڈرنک میں اس کی مقدار ایک ہزار ساٹھ ملی گرام ہوتی ہے جو بچوں اور بڑوں کو بیمار کرنے کے لیے کافی ہے۔ اس سے بلڈ پریشر میں اضافہ ہو جاتا ہے جو فالج اور دل کے دورہ کا باعث بنتا ہے۔ انرجی ڈرنکس کے بڑھتے ہوئے رجحان کی حوصلہ شکنی کے لیے کئی ممالک ایسے مشروبات بنانے والی کمپنیوں پر بھاری ٹیکس عائد کررہے ہیں۔

جمعرات, اکتوبر 25, 2012

چینی کے بغیر دودھ صحت کے لئے سودمند نہیں

ماہرین صحت نے کہا ہے کہ چینی کے بغیر دودھ کا استعمال صحت کے لئے سودمند نہیں ہوتا۔ ایسے بچے جو ماں کا دودھ نہیں پیتے انہیں بکری کا دودھ پلانا چاہیے کیونکہ بکری کا دودھ وٹامن ڈی کے حصول کا بہترین ذریعہ ہے۔

نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر شگفتہ نے کہا کہ دودھ استعمال کرنے کے لئے باقاعدہ ٹائم ٹیبل مرتب کرنا چاہیے اور کھانا کھانے کے کم از کم ایک گھنٹہ بعد دودھ پینا صحت کے لئے انتہائی مفید ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دودھ باقاعدہ ابال کر اور اس میں چینی یا شہد ملا کر پینا چاہیے کیونکہ اس سے چربی میں اضافہ نہیں ہوتا۔

ڈاکٹر شگفتہ نے کہا کہ دودھ میں 230 اقسام کے مختلف بیکٹیریاز ہوتے ہیں جن میں سے صرف تین سے بیماریوں کے خدشات پیدا ہوسکتے ہیں جو قدرتی امر ہے۔ انہوں نے کہا کہ دودھ کی کریم میں چینی یا شہد ملا کر کھانے سے کریم میں شامل فیٹس جسم میں جمع نہیں ہوتے۔ انہوں نے کہا کہ جنک فوڈز انسانی صحت کے لئے انتہائی مضر ہیں اور صحت مند زندگی گزارنے کیلئے سادہ غذا کا استعمال معمول بنانے کی ضرورت ہے۔

پیر, اکتوبر 22, 2012

پھل اور سبزیاں بینائی کے لئے مفید

خوش رنگ، مزیدار اور تر و تازہ پھل اور سبزیاں قدرت کا انمول تحفہ ہیں۔ وٹامنز سے بھرپور پھلوں اور سبزیوں کے استعمال سے بینائی پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ 

امریکہ میں کی گئی تحقیق کے مطابق جو لوگ اپنی خوراک میں ہری بھری سبزیاں اور رس بھرے پھل استعمال کرتے ہیں انہیں آنکھوں کی بیماریوں کا کم سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پھلوں اور سبزیوں کے استعمال سے بڑھتی عمر میں بینائی متاثر ہونے یا بے حد کم ہونے کے امکانات بھی کم سے کم ہوجاتے ہیں۔

انڈا دودھ کے بعد انتہائی مفید غذا

کھا کر تو دیکھو! مزہ نہ آیا تو پیسے واپس
غذائی اہمیت کے اعتبار سے دودھ کے بعد انڈا انتہائی مفید غذا ہے۔ ماہرین کے مطابق انڈا ہر موسم اور ہر عمر میں استعمال کرنا چاہئے جو مقوی ہونے کے ساتھ ساتھ دماغ اور آنکھوں کے لئے بھی انتہائی مفید ہے اور انہیں تقویت دیتا ہے۔ بیماری سے ہونے والی نقاہت ختم کرنے میں بھی انڈا کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ 

لوگ انڈے کو موسم سرما کی غذا تصور کرتے ہیں جبکہ یہ گرمیوں میں بھی مفید ہے۔ انڈے میں پروٹینز، فاسفورس اور کیلشیم کی کثیر مقدار پائی جاتی ہے جو انسانی صحت اور جسم کے لئے انتہائی ضروری اجزاء ہیں۔ انڈے غذا کا لازمی حصہ بنانے سے صحت اور جسم پر انتہائی اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

افسردگی دور کرنے والی ادویات سے دماغی عارضے کا خدشہ

افسردگی دور کرنے والی ادویات antidepressants کی ایک مخصوص قسم استعمال کرنے والے افراد میں دماغ کے اندر خون رسنے کی بیماری کے شکار ہونے کے خدشات زیادہ ہیں۔

یہ بات کینیڈا کے طبی محققین نے قریب 5 لاکھ افراد پر کی گئی تحقیق کے بعد کہی ہے تاہم بعض طبی ماہرین اب بھی ان ادویات کو محفوظ قرار دیتے ہیں۔ ان ادویات کو SSRIs یعنی Selective Serotonin Reuptake Inhibiors کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس کی چند مثالیں بڑے پیمانے پر استعمال ہونے والی مانع افسردگی ادویات جیسےfluoxetine ،sertraline ، citalopram اور paroxetine ہیں۔ ان ادویات کے سبب معدے سے خون کے رساؤ کی شکایات تو پہلے ہی کی جاتی تھیں تاہم یہ بعد اب سے پہلے تک یہ بات وثوق کے ساتھ نہیں کہی جاسکتی تھی کہ آیا SSRIs دماغ میں خون کے رساؤ یعنی hemorrhagic سٹروکس کا بھی باعث بنتی ہے!

اس تحقیق کے لیے کینیڈین طبی محقیقن نے ایسے سولہ سابقہ تحقیقوں کی جانچ کی، جن میں ایسے 5 لاکھ افراد کا جائزہ لیا گیا جن میں سے بعض SSRIs استعمال کررہے تھے اور بعض نہیں۔ مانع افسردگی ادویات کے بارے میں عمومی تاثر یہی ہے کہ ان کا استعمال کرنے والے چالیس تا پچاس فیصد مریضوں میں دماغ کے اندر یا اطراف میں خون کے رساؤ کا خطرہ موجود رہتا ہے۔

اس تحقیقی دستے میں شامل پروفیسر ڈینیئل ہیکم البتہ کہتے ہیں کہ اگرچہ یہ اعداد و شمار کافی زیادہ دکھائی دیتے ہیں تاہم کسی ایک مریض کے لیے خطرہ ’بہت ہی کم‘ ہے۔ اس تحقیق میں شامل کیے گئے افراد کی تناسب کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ ایک سال سے زائد عرصے تک SSRI استعمال کرنے والے والے دس ہزار مریضوں میں سے محض ایک کو hemorrhagic سٹروکس کا سامنا ہو سکتا ہے۔

پروفیسر ڈینیئل نے ایک اور نکتے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ فی الحال یہ ثابت نہیں ہوا کہ مانع افسردگی ادویات براہ راست دماغ میں خون کے رساؤ کا سبب بنتی ہیں، ’’یہ ممکن ہے کہ یہ ادویات استعمال کرنے والے افراد دیگر کے مقابلے میں ویسے ہی زیادہ علیل ہوں اور ہوسکتا ہے کہ ان کی ایسی عادات ہوں جو دماغ کے عارضے کا سبب بنتی ہوں۔‘‘ کینیڈین محقیقن نے ان امور پر بھی توجہ مرکوز رکھی مگر ان کے زیر مطالعہ بعض سٹڈیز میں زیر مشاہدہ افراد کی تمباکو نوشی، شراب نوشی یا ذبابیطیس سے متعلق معلومات موجود نہیں تھیں۔ اس بنیاد پر پروفیسر ڈینیئل کہتے ہیں کہ مانع افسردگی ادویات کو محفوظ تصور کیا جاسکتا ہے۔

افسردگی دور کرنے والی ادویات سے دماغی عارضے کا خدشہ

اتوار, اکتوبر 14, 2012

ملالہ یوسفزئی: ’اہم اعضاء ٹھیک ہیں‘

پاکستان کی فوج کا کہنا ہے کہ طالبان کے حملے میں شدید زخمی ہونے والی بچی ملالہ یوسفزئی کی صحت بدستور اطمینان بخش ہے اور ان کے اہم اعضاء بالکل ٹھیک ہیں۔ بی بی سی اردو سروس کے پروگرام سیربین میں گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کی فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ آئی ایس پی آر کے ترجمان میجر جنرل عاصم باجواہ نے کہا ہے کہ ملالہ یوسفزئی کے دل کی دھڑکن، نبض اور بلڈ پریشر صحیح ہے اور مجموعی طور پر اُن کی حالت تسلی بخش ہے۔ اہم اعضاء میں دل، پھیپھڑے، گردے اور دماغ شمار ہوتے ہیں۔ بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ ابھی بھی مصنوعی تنفس یا وینٹیلیٹر پر ہیں۔

ادھر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے ان واقعات کے بعد ملالہ یوسفزئی کے والدین کو ایک ذاتی خط لکھا ہے جس میں انھوں نے ’ان کی بہادر بیٹی کی جلد صحت یابی‘ کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ سیکرٹری جنرل نے یہ خط اقوام متحدہ میں پاکستان کے نئے سفیر مسعود خان کو جمعے کے روز نیویارک میں اقوام متحدہ کے صدر دفتر میں دیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ ’ملالہ صرف آپ کے ملک (پاکستان) کے لیے ہی نہیں بلکہ ساری دنیا کے لیے مثال ہے۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ تعلیم ہر کسی کا بنیادی حق ہے۔

دوسری جانب صدر آصف علی زرداری نے حکام کو ہدایت کی ہے کہ ملالہ پر حملے کے دوران زخمی ہونے والی دو اور طالبات شازیہ اور کائنات کو بھی مفت صحت کی سہولیات فراہم کی جائیں۔ شازیہ پشاور سی ایم ایچ میں زیرِ علاج ہیں اور کائنات کو سوات کے مقامی ہسپتال میں علاج کے بعد گھر بھیج دیا گیا ہے۔ صدر کے ترجمان فرحت اللہ بابر نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ صدر زرداری نے ان دونوں بچیوں کی صحت کے بارے میں دریافت کیا۔ بیان کے مطابق صدر زرداری نے اِن بچیوں کو قومی اثاثہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ پاکستان کے حقیقی چہرے کی نمائندگی کرتی ہیں اور انھوں نے دہشت گردوں اور شدت پسندوں کے مظالم کے خلاف قوم کا مجموعی شعور بیدار کیا ہے۔ بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ صدر زرداری نے ملالہ، شازیہ اور کائنات کی جلد صحت یابی کے لیے دعا کی۔

ملالہ یوسفزئی: ’اہم اعضاء ٹھیک ہیں‘

ہفتہ, اکتوبر 13, 2012

ملالہ کی تمام رپورٹس کلیئر، 48 گھنٹے اہم

راولپنڈي: آرمڈ فورسز انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں ملالہ کے میڈیکل ٹیسٹ کیے گئے جس کے بعد ڈاکٹروں نے تمام رپورٹس کلیئر قرار دے دیں۔ ایکسپریس نیوز کے مطابق گولی نے دماغ کو متاثر نہیں کیا لیکن گولی لگنے سے سر کو شدید جھٹکا لگا جس کے باعث ملالہ شاک ویو میں چلی گئیں۔ ڈاکٹروں کا پینل ملالہ کو شاک ویو سے واپس لانے کی کوشش کررہا ہے۔ رپورٹس کے مطابق ملالہ کے دل کی دھڑکن اور بلڈ پریشر بھی نارمل ہے اور حادثے کے بعد معجزانہ طور پر حرام مغز بھی محفوظ رہا۔ اس سے قبل ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ نے کہا تھا کہ ملالہ یوسف زئی کی صحت کے لئے 36 سے 48 گھنٹے اہم ہیں۔

ڈاکٹروں نے ملالہ یوسف زئی کی تمام میڈیکل رپورٹس کلیئر قرار دیدیں

بدھ, اکتوبر 10, 2012

کراچی میں دماغ خور کیڑے امیبا کے سبب 10 ہلاکتیں

اسلام آباد — عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے تصدیق کی ہے کہ انسانی دماغ کھانے والا ایک ’امیبیا‘ جولائی سے اب تک کراچی میں دس افراد کی موت کا سبب بن چکا ہے۔ نیگلیریا فاؤلری نامی اس یک خلیائی کیڑے سے متاثرہ افراد کی شرح اموات 98 فیصد سے بھی زائد ہے۔ انسانی آنکھ سے نظر نا آنے والا یہ کیڑا ناک کے ذریعے گندا پانی جسم میں داخل ہونے سے منتقل ہوتا ہے اور کسی ایک شخص سے دوسرے شخص میں منتقل نہیں ہوسکتا۔

عالمی ادارہ صحت کے پاکستان میں ایک متعلقہ عہدے دار نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ یہ واضح نہیں کہ اس بیماری سے متاثرہ تمام مریضوں نے ہسپتالوں سے رجوع کیا ہے یا نہیں کیونکہ عام لوگ اس بیماری سے آگاہ نہیں جبکہ ہسپتال پہلے ہی محدود وسائل کا شکار ہیں۔

امیبیا نھتنوں کی جھلیوں سےگزر کردماغ تک پہنچتا ہے اور ابتدائی مراحل میں اس کی علامات اتنی شدید نہیں ہوتیں۔ ان میں سر درد، گردن میں اکڑاؤ، بخار اور مریض کے پیٹ میں درد کی شکایات شامل ہیں۔ اس بیماری کا شکار ہونے کے بعد مریض پانچ سے سات دن کے اندر دم توڑ دیتا ہے۔

پاکستانی حکام نے صحت عامہ کے کارکنوں اور عوام میں اس بیماری کے بارے میں آگاہی مہم چلانے کا منصوبہ بنایا ہے، جبکہ اکثر صحت کے مراکز کو پہلے ہی چوکنا کردیا گیا ہے۔

پاکستان: دماغ خور کیڑا 10 افراد کی موت کا سبب

پیر, اکتوبر 01, 2012

دل کا خیال رکھیں

اسلام آباد — دنیا بھر میں ہر سال تقریباً ایک کروڑ ستر لاکھ سے زائد افراد دل کی بیماریوں کے باعث موت کا شکار ہوجاتے ہیں اور عالمی ادارہ صحت کے مطابق 2030ء تک یہ تعداد دو کروڑ 40 لاکھ تک پہنچ جائے گی۔

ماہرین صحت کا کہنا ہے پاکستان میں بھی امراض قلب اموات کی ایک بڑی وجہ ہیں لیکن صحت مندانہ طرز زندگی اپنا کر امراض قلب پر بہت حد تک قابو پایا جاسکتا ہے۔

وفاقی دارالحکومت کے ہسپتال پولی کلینک میں شعبہ امراض قلب کے سربراہ ڈاکٹر شہباز احمد قریشی کا کہنا ہے کہ ایسے افراد جن کے خاندان میں دل کے مریض پہلے سے موجود ہوں یا جن میں ذیابیطس اور بلند فشار خون یعنی ہائی بلڈ پریشر کا عارضہ پایا جاتا ہو انھیں دل کی بیماریوں کا خطرہ دوسرے لوگوں کی نسبت زیادہ ہوتا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے امراض قلب کی تعریف کچھ یوں بیان کی۔ ’’جسم کو خون پہنچانے والی شریانیں پیدائش کے وقت چائنز سلک کی طرح ہوتی ہیں جیسے جیسے ہم غلط غذائیں کھاتے ہیں، بلڈ پریشر کو زیادہ رکھتے ہیں، تمباکو نوشی کرتے ہیں تو یہ اندر سے کھردری ہونا شروع ہوجاتی ہیں اور وہ کھردرا پن بنیاد بنتا ہے، شریان تنگ ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ تو پھر ایک وقت آتا ہے کہ اس شریان کے ذریعے خون جسم کے جس حصے کو پہنچنا چاہیے وہ نہیں پہنچتا۔‘‘

امراض قلب کی عام علامات میں سینے میں درد جو کہ بازوؤں کی طرف پھیلے، جبڑوں میں درد، سینے کی پچھلی جانب درد اور دباؤ اور ساتھ ہی پسینہ آنا شامل ہیں۔ طبی ماہرین کہتے ہیں کہ ایسی کسی علامت کے ظاہر ہونے پر فوراً معالج سے رابطہ کرنا چاہیے۔

ڈاکٹر شہباز قریشی کہتے ہیں چند احتیاطی تدابیر کے ذریعے دل کی بیماریوں سے بچا جاسکتا ہے اور جن کو یہ بیماری لاحق ہوچکی ہے وہ ان کے بقول اس سے بہتر طور پر نمٹ سکتے ہیں۔

’’صحت مندانہ طرز زندگی اپنائی جائے، روزانہ ورزش کی جائے، اپنے بلڈ پریشر کا خیال رکھا جائے، نمک کا استعمال کم سے کم کیا جائے، کولیسٹرول اور اپنے وزن پر دھیان دیا جائے اور خاص طور پر کمر یا پیٹ کے گرد چربی کو بڑھنے سے روکا جائے۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ بچوں کو شروع ہی سے صحت بخش غذا اور ان کے معمولات کو صحت مندانہ رکھنے اور ان کی خوراک میں روزانہ ایک سیب شامل کرنے سے آئندہ سالوں میں انھیں اس بیماری سے بچانے میں بہت مدد مل سکتی ہے۔

دل کا خیال رکھیں

پیر, ستمبر 24, 2012

سردرد کی پین کلر مرض میں اضافہ کرسکتی ہے

برطانوی طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ سر درد روکنے کے لئے پین کلر کا استعمال مرض میں اضافے کی وجہ بن سکتا ہے۔

برطانوی ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ سر درد ختم کرنے والی ادویات کا زیادہ استعمال معدے کی خرابی اور دل کی بیماریوں کا سبب بنتا ہے۔ ان بیماریوں کے ساتھ سردرد کی شکایت بھی بڑھ جاتی ہے۔ 

ڈاکٹروں نے درد کش ادویات کا استعمال فوری طور پر یا مرحلہ وار ختم کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق ابتدائی طور پر اس سے سر درد میں اضافہ ہوگا لیکن آہستہ آہستہ صحت بہتر ہوگی اور سر درد ختم ہوتا جائے گا۔

بدھ, ستمبر 19, 2012

بچوں کے پیٹ میں درد کیوں ہوتا ہے؟

ایک تازہ ترین تحقیق کے مطابق تمام بچوں میں سے ایک چوتھائی کے قریب پیٹ میں درد کی بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں لیکن اس کی وجہ اکثر جسمانی نوعیت کی نہیں ہوتی۔

جرمنی میں چھوٹے بچوں کے ڈاکٹروں کی تنظیم سے وابستہ ڈاکٹر اُلرش فیگیلر کا کہنا ہے کہ اکثر بچوں کے پیٹ میں درد کی وجہ خوف یا پھر ذہنی دباؤ ہوتا ہے۔ پیٹ میں درد کی اس قسم کو مزید واضح کرتے ہوئے ڈاکٹر اُلرش بتاتے ہیں کہ یہ درد اکثر بچوں کو سکول کے دنوں میں ہوتا ہے اور چھٹی والے دن غائب ہوسکتا ہے۔

ڈاکٹر اُلرش والدین کو نصحیت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر چھوٹے بچے مسلسل پیٹ میں درد کی شکایت کریں تو والدین کو نوٹ کرنا چاہیے کہ بچے کب یہ شکایت کرتے ہیں اور بچوں سے باقاعدہ یہ پوچھنا چاہیے کہ انہیں یہ درد پیٹ کے کس حصے میں ہوتا ہے؟ ڈاکٹر کے مطابق والدین کا اس طرح کا مشاہدہ بچے کے پیٹ میں درد جیسے مرض کو ختم کرنے یا پھر اس کے حل میں مدد دے سکتا ہے۔

ڈاکٹر الرش کہتے ہیں کہ ناف کے ارد گرد اعصاب اور خون کی باریک نالیوں کا ایک گھنا نیٹ ورک ہوتا ہے اور اگر بچہ مایوس یا فکر مند ہو تو ناف کے ارد گرد کے عضلات میں اکڑاؤ پیدا ہوجاتا ہے، جس سے ایک ناخوش گوار سا احساس پیدا ہوتا ہے اور بچہ پیٹ میں درد محسوس کرنے لگتا ہے۔ 

اگر بچہ پیٹ میں درد کے نتیجے میں نیند سے بیدار
ہوجائے یا پھر یک دم کھیلنا بند کردے
 تو اس کی وجہ جسمانی ہوسکتی ہے
ڈاکٹر اُلرش کے مطابق اگر درد ناف کی بجائے پیٹ کے اوپر والے حصے یا پھر نیچلے حصے میں ہو تو یہ بخار کے ساتھ ساتھ کمزوری کی علامت ہے۔ اور اگر بچہ پیٹ میں درد کے نتیجے میں نیند سے بیدار ہوجائے یا پھر یک دم کھیلنا بند کردے تو اس کی وجہ جسمانی ہوسکتی ہے۔

ڈاکٹر اُلرش نصیحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر بچوں کے پیٹ میں مسلسل درد رہے تو اُنہیں فوری طور پر ڈاکٹر کے پاس لے جانا چاہیے۔ اور اگر درد کی کوئی جسمانی وجہ ثابت نہ بھی ہو تو والدین کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ بچے کی نظر میں یہ پیٹ کا درد ہی ہے۔ ڈاکٹر الرش کے مطابق ایسے میں بچوں کو بہتر توجہ دینی چاہیے اور ان کے خوف یا ذہنی دباؤ کی وجوہات دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس کا ایک متبادل یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بچے کو اُس وقت تک لیٹے رہنے دینا چاہیے، جب تک یہ درد ختم نہیں ہوجاتا۔

بچوں کے پیٹ میں درد کیوں ہوتا ہے؟

ہفتہ, ستمبر 15, 2012

پیسیو سموکنگ انسان کی یاد داشت میں کمی کا باعث

جو لوگ تمباکو نوشوں کے ساتھ رہتے ہیں یا ان کے ساتھ زیادہ وقت گزارتے ہیں، ان کی یاد داشت میں کمی کا امکان ہے، برطانیہ کی نارٹومبیا یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے یہ اندازہ لگایا ہے۔ ماہرین نے تمباکو نوشوں کے ایک گروپ، ’پیسیو سموکنگ‘ یعنی غیر فعال سگریٹ نوشی کرنے والوں کے ایک گروپ اور تمباکو نوشی نہ کرنے والے افراد پر مشتمل ایک گروپ کا جائزہ لیا۔ دوسرے گروپ میں شامل لوگ ساڑھے چار سال کے عرصہ میں ہفتے میں پچیس گھنٹے کے لئے تمباکو نوشوں کے ساتھ رہتے تھے۔ پھر تینوں گروپوں میں شامل افراد کی یاد داشت کا جائزہ لیا گیا۔ معلوم ہوا کہ تمباکو نوشی نہ کرنے والوں کی نسبت ’پیسیو سموکنگ‘ کرنے والے افراد بیس فیصد دی گئی معلومات بھول گئے جبکہ تمباکو نوش تیس فیصد۔

پیسیو سموکنگ انسان کی یاد داشت میں کمی کا باعث ہے: سائنس دان

جمعرات, ستمبر 13, 2012

خون کی کمی اور نایاب بلڈ گروپ: ننھی کلی کے مرجھانے کا خطرہ

تھیلیسیمیا کی مریض 8 سالہ عفیفہ بہت خاص بچی ہے۔ اس کے خون کا گروپ hh ہے جو بہت نایاب ہے۔ ہر مہینے اس کو دو بوتل خون کی ضرورت ہوتی ہے۔

تھیلیسیمیا کی مریض آٹھ سالہ عفیفہ بہت خاص بچی ہے۔ اس کے خون کا گروپ hh ہے جو بہت نایاب ہے۔ پوری دنیا میں ہر 10 لاکھ میں سے صرف چار ایسے لوگ ہونگے جن کا بلڈ گروپ hh ہوگا۔ خون فراہم کرنے والے ادارے کہتے ہیں پورے پاکستان میں اب تک محض 14 لوگ خون کے اس گروپ کے ساتھ دریافت ہوپائے ہیں اور کراچی میں تو صرف سات ہی لوگ hh گروپ کا خون رکھتے ہیں۔ ایسے لوگ کسی کو بھی اپنے خون کا عطیہ دے سکتے ہیں لیکن پھر ان کے اپنے لیے خون کا عطیہ کوئی نہیں دے سکتا۔ ان کا خون صرف اپنے ہی گروپ والے خون کو قبول کرتا ہے۔ ایسے میں سوچئے اگر کسی کو خون کی ضرورت ہو تو کیا کرے۔

عفیفہ کی دوسری خاص بات یہ ہے کہ اس کو خون کی بہت ضرورت پڑتی ہے۔ یہ ننھی سی بچی پچھلے چار سال سے تھیلیسیمیا کی مریض ہے اور اس کو ہر مہینے دو بوتل خون کی ضرورت پڑتی ہے۔ اب اتنے نایاب خون کی دو بوتلیں ہر مہینے حاصل کرنا عفیفہ کے والدین کیلئے جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔

کچھ عرصے پہلے تک تو صرف دو ہی ایسے نیک لوگ تھے جو عفیفہ کیلئے خون دیا کرتے تھے اور اب بھی یہ عطیہ دینے والوں کی تعداد صرف تین ہوپائی ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ ان میں سے کوئی بھی عطیہ دینے والا اپنے خون کے پیسے نہیں لیتا بلکہ دو لوگ تو عفیفہ کو خون دینے کیلئے امریکہ اور دبئی سے اپنے خرچے پر خاص طور پر پاکستان آتے ہیں۔
پاکستان میں عموماّّ یہ معلوم بھی نہیں ہوتا کہ کس کے خون کا گروپ کیا ہے جب تک کسی کو خون کی ضرورت خود نہ پڑ جائے۔ یورپی ممالک میں بھی، جہاں یہ معلومات پیدائش کے وقت ہی دستاویزات میں محفوظ کرلی جاتی ہیں hh گروپ کے خون والے لوگ بہت کم ہیں۔ دستیاب اعداد و شمار کے مطابق وہاں ہر 10 لاکھ میں صرف ایک شخص ایسا ہوگا جو خون کے اس نایاب گروپ سے تعلق رکھتا ہوگا۔ بھارت اور خاص طور پر ممبئی میں جہاں یہ گروپ اب سے پچاس سال پہلے سب سے پہلے دریافت ہوا تھا 10 لاکھ میں سے 100 افراد ایسے مل سکتے ہیں جو ایسا گروپ والا خون رکھتے ہوں۔

مگر ڈاکٹر کہتے ہیں کہ اگر عفیفہ کا تھیلیسیمیا کا علاج ہوجائے تو ایسا خون رکھنا از خود کوئی بیماری نہیں۔ اب تک صرف ایک ہی راستہ نظر آیا ہے اور وہ بھی خاصہ مشکل۔ عفیفہ کی والدہ کی ہڈیوں کا گودا اگر عفیفہ کو مل سکے تو اس bone marrow transplant operation کے ذریعے عفیفہ کا تھیلیسیمیا ختم ہوسکتا ہے۔ مگر یہ آپریشن نہ صرف مہنگا ہوگا بلکہ خطرناک بھی۔ اس میں عفیفہ کی جان بھی جاسکتی ہے۔


عفیفہ بڑے ہوکر ڈاکٹر بننا چاہتی ہے۔ لیکن ڈاکٹر کہتے ہیں کہ یہ مشکل ہوگا۔ جب تک عفیفہ کے لئے خون دینے والے اتنی بڑی تعداد میں جمع نہ ہوجائیں کہ ہر مہینے اس کو دو بوتل خون مل سکے یا پھر کسی طور اس کے تھیلیسیمیا کا علاج ہوسکے یہ ایک بہت مشکل کام ہوگا۔ عفیفہ کو البتہ ابھی بھی امید ہے، دنیا میں اس کے خون کا گروپ نایاب صحیح، نیکی ابھی بھی نایاب نہیں ہوئی ہے۔

خون کی کمی اور نایاب بلڈ گروپ: ننھی کلی کے مرجھانے کا خطرہ

ہفتہ, ستمبر 08, 2012

پاکستانی ماہرین کی 10 سالہ تحقیق: تھیلیسمیا کا علاج دریافت کرلیا گیا


پاکستانی ماہرین نے دوا کے ذریعے تھیلے سیمیا کا علاج دریافت کرلیا۔ یہ کامیابی پاکستانی ڈاکٹروں نے 10 سالہ تحقیق کے بعد حاصل کی ہے۔ معروف امراض خون ڈاکٹر طاہر سلطان شمسی اور ڈاکٹر ثاقب حسین انصاری کے مطابق Hydronyurea دوا کے استعمال کروانے سے (جو کہ کسی دوسرے مرض میں استعمال کروائی جاتی ہے) تھیلے سیمیا کے مرض میں مبتلا بچوں میں خون چڑھانے کا انحصار کم یا بالکل ختم دیکھا گیا۔ تحقیق میں پاکستان میں تھیلے سیمیا کا باعث بننے والی جنیاتی خرابیوں میں سے 5 کی موجودگی میں د وا کے حوصلہ افزاءنتائج نظر آئے۔ پاکستان میں نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف بلڈ ڈیزیز (این آئی بی ڈی) میں تھیلے سیمیا کے 152 مریضوںمیں سے 41 فیصد کو خون چڑھانے سے نجات مل گئی جبکہ 39 فیصد مریضوں میں انتقال خون کی ضرورت نصف رہ گئی جبکہ باقی 20 فیصد مریضوں میں اس دوا کی وجہ سے کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوئی۔ یہ تحقیق امریکا سے شائع ہونے والے طبی جریدے ”جنرل آف پیڈیاٹرک ہیماٹولوجی آن کالوجی“ میں 2011ء میں شائع ہوچکی ہے۔ ماہر امراض خون برائے اطفال ڈاکٹر ثاقب حسین انصاری نے اس تحقیق کا آغاز اپریل 2003ء میں 23 مریضورں میں اس دوا کے استعمال سے کیا جبکہ انہوں نے اپنی پی ایچ ڈی اسی تحقیق پر کی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ دوا خون کی بیماری SICK-E-CELL-DISEASES کے لئے گزشتہ 20 سالوں سے امریکی ادارے (ایف ڈی اے) سے منظور شدہ ہے اس دوا کے استعمال سے این آئی بی ڈی میں تھیلے سیمیا کے 152 مریض بچوں میں سے 41 فیصد کو خون چڑھانے سے نجات مل گئی جبکہ 39 مریضوں میں انتقال خون کی ضرورت نصف رہ گئی تاہم 20 فیصد مریضوں میں اس دوا کی وجہ سے کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوسکی۔ اس دوا کے استعمال کے بعد خون نہ لگنے کی و جہ سے کسی بھی مریض کی تلی (Spleen) یا جگر کے حجم میں اضافہ نہیں دیکھا گیا جبکہ چہرے کی بناوٹ میں بہتری، کھیل کود میں بچوں کی دلچسپی، بھوک اور وزن میں بھی اضافہ ہوا۔ مزید تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ پاکستان میں الفا تھیلے سیمیا اور بی ٹا تھیلے سیمیا (خلیوں کے اندر موجود پروٹین کا نام) کے امراض کی ایک ہی شخص میں موجودگی 37 فیصد سامنے آئی ہے۔ الفا تھیلے سیمیا کے اعداد و شمار اس سے قبل پاکستان میں دستیاب نہیں تھے۔ اس تحقیق کے بعد تھیلے سیمیا کے مریض کی جنیاتی تشخیص لازمی قرار دی جانی چاہئے۔ اگر جنیاتی طور پر بی ٹا تھیلے سیمیا کی جنین میں تبدیلی یا الفا تھیلے سیمیا کی موجودگی پائی جائے تو اس دوا کے استعمال سے انتقال خون کے عمل کو بند یا کم کیا جاسکتا ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان میں ہر سال پانچ سے 8 ہزار تک بی ٹا تھیلے سیمیا کے مریض پیدا ہوتے ہیں جبکہ 9.8 ملین (carrier) جو خود تو صحت مند ہوتے ہیں مگر ان کے اندر یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ اپنے آنے و الے بچوں میں یہ شدید بیماری منتقل کرسکتے ہیں موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب تک یہ دوا بین الاقوامی اداروں سے منظوری حاصل نہیں کرلیتی ہے اس دوا کا استعمال صرف اور صرف تحقیق کے لئے خون کے امراض کے ماہر ڈاکٹرز کی نگرانی میں ہونا چاہئے۔ 

ڈاکٹر طاہر سلطان شمسی کے مطابق تھیلے سیمیا کے مریضوں میں جین میں پائی جانے و الی خرابی کا مطالعہ کرکے ہی تھیلے سیمیا کے مریضوں کا بہتر علاج ممکن ہوسکتا ہے۔ ہیموگلوبین ایف کے اضافے کے بعد روزمرہ کی زندگی کو بہتر، انتقال خون کی ضرورت میں کمی اور جسم میں فولاد میں کمی واقع ہوسکتی ہے اس موضوع پر مزید تحقیقی عمل جاری ہے۔ ڈاکٹر ثاقب حسین انصاری نے جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے تھیلے سیمیا کے متعلق بتایا کہ خون کے سرخ خلیوں میں ہیموگلوبین کے بننے کی صلاحیت متاثر ہونے سے 6 ماہ کی عمر تک خون کی شدید کمی واقع ہوجاتی ہے چنانچہ ان بچوں کو زندہ رہنے کے لئے مستقل خون چڑھانا پڑتا ہے۔ یہ عمل ساری ز ندگی جاری رہتا ہے۔ مستقل خون چڑھنے یا چڑھانے کی وجہ سے ان بچوں کے خون میں فولاد کی زیادتی، ہیپاٹائٹس بی، سی اور ایچ آئی وی / ایڈز جیسے مرض ہوسکتے ہیں چنانچہ اگر خون لگانے کی بجائے تھیلے سیمیا یعنی سرخ خلیوںمیں ہیموگلوبین بننے کی صلاحیت پیدا کرنے کے لئے دوا دی جائے تو متاثرہ بچے درج بالا پیچیدگیوں (جو خون چڑھانے سے پیدا ہوتی ہیں) سے بچ سکتا ہے اور وہ نسبتاً صحت مند لمبی عمر حاصل کرسکتا ہے۔