اسلام لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
اسلام لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

اتوار, اگست 26, 2012

میں جہاں جمعہ پڑھنے جاتا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

‫میں جہاں جمعہ پڑھنے جاتا ہوں وہاں ایک مولوی صاحب ہیں- اب جو مولوی صاحب ہوتے ہیں ان کی اپنی ایک سوچ ہوتی ہے- انھیں سمجھنے کے لیے کسی اور طرح سے دیکھنا پڑتا ہے اور جب آپ ان کی سوچ سمجھ جائیں تو پھر آپ کو ان سے علم ملنے لگتا ہے-

وہ نماز سے پہلے تمام صفوں کے درمیان ایک چار کونوں والا کپڑا پھراتے ہیں جس میں لوگ حسب توفیق یا حسب تمنا کچھ پیسے ڈال دیتے ہیں- اس مرتبہ بڑی عید سے پہلے جو جمعہ تھا، اس میں بھی وہ چو خانوں والا کپڑا پھرایا گیا اور جو اعلان کیا وہ سن کر میں حیران رہ گیا-

وہ اس طرح سے تھا ’’اس مرتبہ دوحا قطر سے کوئی صاحب آئے تھے انھوں نے مجھے پانچ ہزار روپے دیے ہیں- میں نے وہ پیسے دو تین دن رکھے اور پھر ان پیسوں کو 100، 50 کے نوٹوں میں تبدیل کروایا، جنھیں اب میں یہاں لے آیا ہوں جو اس چو خانوں والے کپڑے میں ہیں-
عید قریب ہے ہم سارے کے سارے لوگ صاحب حیثیت نہیں ہیں اور جس بھائی کو بھی ضرورت ہو وہ اس کپڑے میں سے اپنی مرضی کے مطابق نکال لے“-

مولوی صاحب کہتے ہیں کہ ہم پڑھتے ہیں ’’دس دنیا ستر آخرت‘‘

آخر دینے سے کچھ فائدہ ہی ہوتا ہے نا! شاید وہ یہ ٹیسٹ کرنا چاہتا تھا کہ یہ بات جو لکھی ہوئے ہے واقعی درست ہے یا ایسے ہی چلتی چلی آ رہی ہے-

میں نے دیکھا کہ اس کپڑے میں سے کچھ لوگوں نے روپے لیے، ایک نے پچاس کا نوٹ لیا- ایک اور شخص نے سو کا نوٹ لیا- کچھ ڈالنے والوں نے اپنی طرف سے بھی اس کپڑے میں نوٹ ڈالے-

اگلے دن میں مولوی صاحب سے ملا اور ان سے کہا گزشتہ روز آپ کا عجیب و غریب تجربہ تھا- ہم نے تو آج تک ایسا دیکھا نہ سنا-

تو وہ کہنے لگے کہ جناب جب میں نے آخر میں اس رومال یا کپڑے کو کھول کر دیکھا اور گنا تو پونے چھہ ہزار روپے تھے-

اب یہ بات میرے جیسے ’’پڑھے لکھے آدمی‘‘ کے ذہن میں یا ’’دانش مند‘‘ آدمی کے ذہن میں نہیں آئی-

ایک ان پڑھ کبھی کبھی ایسے ماحول یا تجربے سے گزرتا ہے اور پھر ایک ایسا نتیجہ اخذ کرتا ہے جو مجھ کتاب والے کو بھی نہیں ملا-

(از اشفاق احمد زاویہ 2 ان پڑہ سقراط صفحہ 237)

ہفتہ, اگست 25, 2012

استغفار کی فضیلت

استغفراللہ ربی من کل ذنب واتوب الیہ

میرے رب! میں اپنے گناہوں کی مغفرت چاہتا ہوں اور تیری جانب پلٹتا (توبہ کرتا) ہوں

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا ایک سبق آموز واقعہ

ایک بار امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سفرمیں تھے، ایک قصبے میں رات ہوگئی تو نماز کے بعد مسجد میں ہی ٹھہرنے کا ارادہ کرلیا۔ اُن کی عاجزی و انکساری نے یہ گوارا نہ کیا کہ لوگوں کو اپنا تعارف کروا کر خوب آؤ بھگت کروائی جائے۔ مسجد کے خادم نے امام کو نہ پہچانا اور اُن کو مسجد سے باہر نکلنے کا کہا، امام نے سوچا کہ مسجد کے دروازے پر سو جاتا ہوں، لیکن خادم نے وہاں سے بھی کھینچ کر نکالنا چاہا۔

یہ تمام منظر ایک نانبائی نے دیکھ لیا جو مسجد کے قریب ہی تھا، اُس نانبائی نے امام کو اپنے گھر رات ٹھہرنے کی پیشکش کردی جبکہ وہ امام کو جانتا بھی نہیں تھا۔ امام جب اُس کے گھر تشریف لے گئے تو دیکھا کہ نانبائی کام کے دوران بھی کثرت سے استغفار (استغفر اللہ) کررہا ہے۔
امام نے استفسار کیا: کیا تمہیں اس قدر استغفار کرنے کا پھل ملا ہے؟
نانبائی نے جواب دیا: میں نے جو بھی مانگا اللہ مالکُ المُلک نے عطا کیا۔۔۔۔ ہاں ایک دعا ہے جو ابھی تک قبول نہیں ہوئی۔
امام نے پوچھا: وہ کونسی دعا ہے؟
نانبائی بولا: میرے دل میں کچھ دنوں سے یہ خواہش مچل رہی ہے کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے ملنے کا شرف حاصل کروں۔
امام فرمانے لگے: میں ہی احمد بن حنبل ہوں۔ اللہ نے نا صرف تمہاری دُعا سُنی بلکہ مجھے تمہارے دروازے تک کھینچ لایا۔
(الجمعہ میگزین، والیم 19، جلد 7)

ایک اور حکایت:
حضرت حسن بصری رحمہ اللہ سے کسی نے قحط سالی کی شکایت کی۔
فرمایا: استغفار کرو،
دوسرے نے تنگدستی کی شکایت کی،
فرمایا: استغفار کرو،
تیسرے آدمی نے اولاد نہ ہونے کی شکایت کی،
فرمایا: استغفار کرو،
چوتھے نے شکایت کی کہ پیداوارِ زمین میں کمی ہے،
فرمایا: استغفار کرو،
پوچھا گیا کہ آپ نے ہر شکایت کا ایک ہی علاج کیسے تجویز فرمایا؟
تو انہوں یہ آیت تلاوت فرمائی:
”استغفرو ربکم انہ کان غفاراً یرسل السماء علیکم مدراراً ویمدد کم باموال وبنین ویجعل لکم جنت ویجعل لکم انہارا۔“ (سورۃ نوح: 10-11-12)
ترجمہ:۔ ”استغفار کرو اپنے رب سے بے شک وہ ہے، بخشنے والا، وہ کثرت سے تم پر بارش بھیجے گا اور تمہارے مال اور اولاد میں ترقی دے گا اور تمہارے لئے باغات بنا دے گا اور تمہارے لئے نہریں جاری فرما دے گا۔“

واضح ہے کہ استغفار پر اللہ تعالٰی نے جن جن انعامات کا اس آیت میں اعلان فرمایا ہے تو ان چاروں کو انہی کی حاجات درپیش تھیں، لہذا حضرت حسن بصری رحمہ اللہ نے سب کو استغفار ہی کی تلقین فرمائی۔

”استغفر اللہ الذی لا الہ الا ھو الحی القیوم و اتوب الیہ“

بدھ, اگست 15, 2012

روس میں اسلامی ٹی وی چینل کا افتتاح

روس میں پہلے اسلامی ٹی وی چینل کا افتتاح عیدالفطر کے روز انیس اگست کو ہوگا۔ یہ ٹی وی چینل کیبل ٹیلی ویژن کے اس پیکج میں شامل ہوں گی جس میں آرتھوڈکس عیسائیت سے منسوب دو ٹی وی چینل پہلے سے شامل ہیں۔ اسلامی ٹی وی چینل کا نام ”آل آر ٹی وی“ رکھا گیا ہے۔ توقع ہے کہ اس کے ناظرین کی تعداد کروڑوں میں ہوگی، ٹی وی اور ریڈیو سے متعلق یویشین اکادمی کے صدر اور نئے اسلامی ٹی وی چینل کے مدیر اعلٰی رستم عارف جانوو نے کہا۔ روس میں مسلمانوں اور اسلام میں دلچسپی لینے والے افراد کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ مزید برآں اندازہ ہے کہ نئے ٹی وی چینل کی نشریات سی آئی ایس کے دیگر رکن ممالک بالخصوص قزاخستان، آذربائجان اور کرغیزستان میں بھی پیش کی جائیں گی جہاں کی آبادی کو روسی زبان پر عبور حاصل ہے۔ ”آل آر ٹی وی“ چینل کے پروگرام یوکرینی جزیرہ نما کرائیمہ میں بھی دکھائے جائیں گے جہاں مسلمان اقلیت آباد ہے۔

روس میں اسلامی ٹی وی چینل کا افتتاح

اتوار, اگست 12, 2012

مکروہ اوقات نماز

گزشتہ دنوں محلے کی مسجد کے امام صاحب نے مندجہ ذیل اہم مسائل بیان کیے ہیں؛

انہوں نے بتایا کہ طلوع صبح صادق یعنی جس وقت فجر کی نماز کا وقت شروع ہوجائے اس وقت سے لے کر طلوع آفتاب یعنی سورج نکلنے تک، فجر کی نماز کے لئے دو رکعت سنتوں کے علاوہ کوئی اور نفل نماز ادا نہیں کی جاسکتی۔ اس کے علاوہ نماز عصر کے فرائض ادا کرنے کے بعد سے لے کر غروب آفتاب یعنی سورج غروب ہونے تک نفل نماز ادا کرنا ممنوع ہے۔

جس وقت سورج طلوع ہورہا ہو اور زوال کے وقت یعنی جس وقت سورج نصف النہار پر ہو اور عین سورج غروب ہوتے وقت نماز ادا کرنا مکروہ عمل ہے۔

بدھ, جولائی 25, 2012

مشہور نیپالی اداکارہ کا قبول اسلام

نیپال کی مشہور اداکارہ، ماڈل اور گلو کارہ 28 سالہ پوجا لاما نے پانچ ماہ قبل اسلام قبول کرکے بدھ سماج کو حیرت میں ڈال دیا تھا۔ بدھ خاندان میں پرورش و پرداخت پانے والی پوجا نے دبئی و قطر کے ایک مختصر دورے سے لوٹنے کے بعد کاٹھمانڈو میں اپنے اسلام کا اعلان کیا، پیش ہے ان سے کی گئی بات چیت کے اہم اجزاء-

 سوال: اسلام کی کون سی خصوصیت نے آپ کو قبول اسلام پر آمادہ کیا؟

جواب: میں بدھ خاندان سے تھی، بدھ مت میرے رگ رگ میں سرایت تھا، ایک سال پہلے میرے ذہن میں خیال آیا کہ دوسرے مذاہب کا مطالعہ کیا جائے، ہندو مت، عیسائیت اور اسلام کا تقابلی مطالعہ شروع کیا، مطالعہ کے دوران دبئی و قطر کا سفر بھی ہوا، وہاں کے اسلامی تہذیب و تمدن سے میں بہت متاثر ہوئی، اسلام کی جو سب سے بڑی خصوصیت ہے، وہ توحید ہے، ایک اللہ پر ایمان و یقین کا جو مضبوط عقیدہ یہاں دیکھنے کو ملا، وہ کسی اور دھرم میں نہیں مل سکا۔

سوال: عالمی میڈیا نے اسلام کے خلاف محاذ کھول رکھا ہے، اسلام کو دہشت کے انداز میں پیش کیا جارہا ہے، کیا آپ اس سے متاثر نہیں ہوئیں؟

جواب: اسلام کے خلاف پروپگنڈہ نے مجھے اسلام سے قریب کردیا، اس لیے کہ مطالعہ میں اس کے برعکس پایا، اور اب میں پورے دعوے کے ساتھ کہہ سکتی ہوں کہ اسلام دنیا کا واحد مذہب ہے جو انسانیت کے مسائل کا عادلانہ و پُرامن حل پیش کرتا ہے۔

سوال: پوجا جی! آپ کا تعلق فلمی دنیا سے رہا ہے، اور آپ ہی سے متعلق میڈیا میں کئی سکینڈل منظر عام پر آئے، جس سے آپ کو صدمہ لاحق ہوا، اور ایک مرتبہ آپ نے خود کشی کی ناکام کوشش بھی کی، کچھ بتائیں گی؟

جواب: میں نہیں چاہتی تھی کہ میری ذاتی زندگی کے تعلق سے میڈیا تہمت تراشی کرے، تبصرے شائع کرے، مجھے بدنام کرے، میں آپ کو یہ بتادینا ضروری سمجھتی ہوں کہ اب تک میری تین شادیاں ہوچکی ہیں، مختصر وقفے کے بعد سب سے علحدگی ہوتی گئی، پہلے شوہر سے ایک بیٹا ہے جو میری ماں کے ساتھ رہتا ہے، انہی امور کے متعلق میڈیا نے کچھ نامناسب چیزیں اچھال دیں، جس سے مجھے بے حد تکلیف ہوئی، لوگ مجھ پر الزام لگاتے ہیں کہ شہرت کے لیے میں نے یہ سب کیا، حقیقت یہ ہے کہ میں بدحال تھی خودکشی کرنا چاہتی تھی، مجھے میرے دوستوں نے سنبھالا، مذہبی کتابوں کے مطالعہ پر اکسایا، پھر اسلام قبول کیا، میں اپنا ماضی بھول جانا چاہتی ہوں، اس لیے کہ میں اب ایک پرسکون و باوقار زندگی بسر کررہی ہوں۔

سوال: پوجا جی! قبول اسلام کے بعد آپ کے طرز زندگی میں بڑی تبدیلیاں آئی ہیں، آپ کے سر پر سکارف بندھا ہوا ہے، کیا شراب و تمباکو نوشی سے بھی توبہ کرلیا؟

جواب: براہ مہربانی مجھے پوجا نہ پکاریں، پوجا میرا ماضی تھا اور اب میں آمنہ فاروقی ہوں، قبول اسلام سے پہلے تناؤ  بھرے لمحات میں شراب و سگریٹ میرا سہارا تھے، کبھی اس قدر پی لیتی کہ بے ہوش ہوجاتی تھی۔ ڈپریشن کا شکار ہوچکی تھی، میرے چاروں طرف اندھیرا ہی اندھیرا تھا، لیکن قبول اسلام کے بعد سکھ کا سانس لیا ہے، شراب، سگریٹ سے توبہ کرلی ہے، صرف حلال گوشت ہی کھاتی ہوں۔

سوال: اسلام نے خواتین کو جسمانی نمائش، ناچ گانا اور سازو سرود سے روکا ہے، آپ کس حد تک متفق ہیں؟

جواب: میرے مسلمان ہونے کے بعد سارے پروڈیوسروں نے مجھ سے ناطہ توڑ لیا ہے، چونکہ سنگیت میرے نس نس میں سمایا ہوا ہے، اس لیے کبھی کبھار تھمیل ( کاٹھمانڈو کا پوش علاقہ) کے ایک ریستوران میں گیت گانے چلی جاتی ہوں، برقع (مکمل پردہ) پہننے کی بھی عادت ڈال رہی ہوں، کوشش کروں گی کہ گانے کا سلسلہ بھی ختم ہوجائے۔

سوال: قبول اسلام کے محرکات کیا تھے؟

جواب: چونکہ میرے کئی بدھ ساتھی اسلام قبول کرچکے تھے، جب وہ مجھے پریشان دیکھتے تو اسلام کی طرف رغبت دلاتے، اس کی تعلیمات بتاتے، میں نے مطالعہ شروع کیا، ایک دن مجھے ایک مسلم دوست نے لیکچر دے ڈالا، اس کا ایک جملہ میرے دل میں پیوست ہوگیا کہ کوئی بھی غلط کام انسانوں کے ڈر سے نہیں بلکہ اللہ کے ڈر سے نہیں کرنا چاہئے، چنانچہ اسی وقت اسلام کے دامن میں پناہ لینے کا فیصلہ کیا۔

سوال: قبول اسلام کے بعد آپ کے خاندان کا کیا ردعمل رہا؟

جواب: اسلام کو گلے لگانے کے بعد میں نے اپنے خاندان کو اطلاع دی، جو دار جلنگ میں رہتا ہے، میری ماں نے بھر پور تعاون کیا، انہوں نے جب مجھے دیکھا تو پھولے نہیں سمائیں، کہنے لگیں ”واہ بیٹا! تو نے صحیح راہ چنا، تمہیں خوش دیکھ کر مجھے چین مل گیا ہے“۔ میری عادتیں بدل گئی ہیں، اس لیے خاندان کے دوسرے لوگوں نے بھی سراہا۔

سوال: میڈیا نے شک ظاہر کیا ہے کہ کہیں آپ کسی مسلمان کی محبت میں گرفتار ہیں اور اس سے شادی کے لیے آپ نے اسلام قبول کیا ہے؟

جواب: بالکل بے بنیاد خبر، میرے کئی دوست مسلمان ہیں، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں کسی کی محبت میں گرفتار ہوں اور اس سے شادی کے لیے اسلام لائی ہوں، ہاں اب میں مسلمان ہوں، لہذا میری شادی بھی کسی مسلمان سے ہی ہوگی، اور جب اس کا فیصلہ کروں گی تو سب کو پتہ چل جائے گا۔

انٹرویو: عبد الصبور ندوی

abdussaboor5@gmail.com

 مشہور نیپالی اداکارہ پوجا لاما کا قبول اسلام

جمعہ, جولائی 13, 2012

ولی کی اجازت کے بغیر نکاح غیر موثر نہیں ہوسکتا، اسلام آباد ہائی کورٹ

اسلام آباد (خبرنگار) اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اقبال حمید الرحمن نے پسند کی شادی کرنیوالے شخص کیخلاف درج اغواء کا پرچہ خارج کرنے کا حکم دیدیا۔ فاضل چیف جسٹس نے فیصلے میں قرار دیا ہے کہ ولی کی اجازت کے بغیر بالغ کا نکاح غیرموثر قرار نہیں دیا جاسکتا۔ طاہر محمود نامی شخص نے 4 مارچ 2011ء کو تھانہ شہزاد ٹاﺅن میں پرچہ درج کرایا کہ یکم اور دو مارچ کی درمیانی شب محمد اکرام نامی شخص اس کے زیرکفالت یتیم بھتیجی صائمہ شاہین کو اغواء کرکے لے گیا جبکہ ا س موقع پر 7 تولے طلائی زیورات اور 50 ہزار روپے نقدی بھی غائب پائے گئے۔ صائمہ شاہین اور محمد اکرام نے مذکورہ ایف آئی آر کے اخراج کے لئے اسلام آباد ہائی کورٹ رجوع کیا۔ دوران سماعت صائمہ شاہین نے فاضل چیف جسٹس کو بتایا کہ اس نے اپنی مرضی سے محمد اکرام سے شادی کی ہے لہٰذا اس کیخلاف درج اغواء کا پرچہ خارج کرنے کا حکم دیا جائے۔ جمعہ کو عدالت عالیہ کے چیف جسٹس نے درخواست کا فیصلہ سناتے ہوئے ایس ایچ او تھانہ شہزاد ٹاﺅن کو مذکورہ ایف آئی آرخارج کرنے کا حکم دیا ہے۔
 
روزنامہ جنگ 02-04-11

بدھ, جولائی 04, 2012

مالی کے شمالی حصے ٹمبکٹو ميں شدت پسند مسلمانوں نے اولياء کے مزيد پانچ قديم مزارات کو توڑ پھوڑ ديا ہے

انصاردين کے جنگجو
شدت پسند تين ماہ قبل ٹمبکٹو اور مالی کے بقيہ شمالی حصے پر قبضہ کرچکے ہيں۔ وہ ان قديم مزارات کو شرک کی علامت سمجھتے ہيں، جہاں قبر پرستی کی جاتی ہے۔ پچھلے دو دنوں ميں وہ سات قبروں کو تباہ کرچکے ہيں۔

ٹمبکٹو ايک قديم صحرائی گذرگاہ اور علم کا مرکز چلا آرہا ہے۔ اُسے ’333 اولياء کا شہر‘ کہا جاتا ہے۔ مالی کی حکومت اور عالمی برادری نے قديم مزارات کی تباہی پر شديد صدمے کا اظہار کيا ہے۔ بين الاقوامی فوجداری عدالت کی وکيل استغاثہ فاتو بنسودا نے ڈاکار ميں خبر ايجنسی اے ايف پی کو انٹرويو ديتے ہوئے کہا: ’’ان مجرمانہ سرگرميوں ميں ملوث افراد کو ميرا پيغام يہ ہے کہ وہ اب مذہبی عمارات کی توڑ پھوڑ کا سلسلہ روک ديں۔ يہ ايک جنگی جرم ہے اور ميرا دفتر اس کی تحقيقات کرے گا۔‘‘

انہوں نے کہا کہ مالی بين الاقوامی فوجداری عدالت کے قيام کے منشور پر دستخط کرنے والا ملک ہے جس کی دفعہ نمبر آٹھ کے مطابق حفاظتی اقدامات نہ رکھنے والی سول عمارتوں پر جان بوجھ کر کيے جانے والے حملے ايک جنگی جرم ہیں۔

شدت پسندوں نے ہفتہ کو سدی محمود، سدی مختار اور الفا مويا کی قبريں تباہ کرديں اور اتوار کو انہوں نے چار مزيد مزارات پر حملہ کيا، جن ميں شيخ الکبير کا مزار بھی شامل ہے۔

علاقے کے شہری بے بسی سے يہ سب کچھ ہوتا ديکھتے رہے۔ ايک صحافی نے اپنا نام خفيہ رکھے جانے کی شرط پر بتايا کہ حملہ آور مسلح تھے اور ہم کچھ بھی نہيں کرسکتے تھے ورنہ ہميں يقيناً ہلاک کرديا جاتا۔ اُس نے بتايا کہ چار قبروں کو مکمل طور پر تباہ کرديا گيا اور اُن کے گرد رکھے ہوئے مٹی کے برتنوں اور دوسری چيزوں کو بھی توڑ پھوڑ ديا گيا۔

ٹمبکٹو کی تين قديم مساجد کے اندر بھی اولياء کی قبور ہيں اور شدت پسندوں نے انہيں بھی تباہ کرنے کی دھمکی دی ہے۔ ٹمبکٹو کی تين سب سے بڑی مساجد ميں سے ايک سدی يحيٰی ہے، جو چودھويں صدی ميں تعمير کی گئی تھی۔

انصار دين نامی يہ گروپ دہشت گرد تنظيم القاعدہ سے منسلک گروپوں ميں شامل ہے، جنہوں نے مارچ ميں ہونے والی ايک بغاوت کے نتيجے ميں پيدا شدہ انتشار کے دوران شمالی مالی پر قبضہ کرليا تھا۔

انصار دين کے ترجمان صاندا بوماما نے کہا: ’’خدا واحد ہے۔ جو يہاں کيا جارہا ہے وہ سب حرام ہے۔‘‘

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے کہا کہ وہ مغربی افريقی ممالک کی برادری کے قيام کی کوششوں کے حامی ہيں اور افريقی يونين اور علاقے کے ممالک کی طرف سے اس تنازعے کو پرامن طور پر حل کرنے کی کوششوں کی حمايت کرتے ہيں۔

اُدھر اسلامی تعاون تنظيم نے آج سعودی عرب ميں ايک بيان جاری کيا ہے جس ميں مالی کے باغيوں کے ہاتھوں پندرھويں صدی کی ايک مسجد کی تباہی کی مذمت کی گئی ہے۔ بيان ميں يہ بھی کہا گيا ہے کہ قديم مساجد مالی کے اسلامی ورثے کا حصہ ہيں اور انہيں تباہ کرنے کی اجازت نہيں دی جانی چاہيے۔ تنظيم کے اس بيان ميں تاريخی مقامات کی حفاظت اور اُنہيں برقرار رکھنے کے ليے ضروری اقدامات کا مطالبہ بھی کيا گيا ہے۔

عالمی برادری کو خوف ہے کہ مالی کا وسيع صحرائی علاقہ دہشت گردوں کی ايک نئی پناہ گاہ بن جائے گا۔ شدت پسندوں نے مالی ميں کسی ممکنہ فوجی مداخلت ميں حصہ لينے والے تمام ممالک کو تنبيہہ کی ہے۔

مالی کے شمالی حصے ٹمبکٹو ميں شدت پسند مسلمانوں نے اولياء کے مزيد پانچ قديم مزارات کو توڑ پھوڑ ديا ہے

آسٹریا: اسلام سو برس سے تسلیم شدہ مذہب

مسلمانوں سے تعلقات کی بات ہو تو آسٹریا کی تاریخ کچھ زیادہ شفاف نہیں لیکن وہاں اسلام کے بارے میں قدیم قانون کو رواداری کی نشانی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

اس قانون کے تحت اسلام کے پیروکاروں کو کیتھولک ازم، لوتھرن ازم، جوڈازم اور بدھ ازم جیسے ملک کے سرکاری طور پر تسلیم شدہ مذاہب کے ماننے والوں کے برابر حقوق دیے گئے تھے۔

اختتامِ ہفتہ پر آسٹرین حکام اور ملک کے اسلامی برادری نے اس قانون کے سو سال کی تکمیل پر منعقدہ تقریبات میں شرکت کی۔

یوں اب آسٹریا میں اسلام اب سو سال سے سرکاری طور پر ایک تسلیم شدہ مذہب ہے۔

تاہم یہاں کے زیادہ تر عوام ایک اور تاریخی واقعے کے بارے میں زیادہ جانتے ہیں۔ یہ واقعہ سنہ سولہ سو تراسی میں ویانا کا محاصرہ ہے، جب مسلمانوں کی سلطنتِ عثمانیہ کی عیسائیوں کے زیرِ تسلط یورپ کی جانب پیش قدمی روک دی گئی تھی۔

حالیہ چند برس میں آسٹریا کے انتہائی دائیں بازوں کے خیالات کے حامی سیاستدانوں کے اسلام مخالف بیانات شہ سرخیوں میں رہے ہیں۔
 
باہمی احترام

آسٹریا کی اسلامی برادری اپنے مذہب کے بارے میں اس قانون کو نادر قرار دیتی ہے۔ اس قانون کے تحت مسلمانوں کو ملک میں سرکاری سکولوں میں مذہبی تعلیم کے حصول اور عوامی مقامات پر عبادت کی آزادی سمیت کئی حقوق دیے گئے ہیں۔

ویانا کے نیوگوتھک ٹاؤن ہال میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے آسٹریا کی اسلامی برادری کے سربراہ فواد سناک نے اس قانون کو بقیہ یورپ کے لیے ایک مثال قرار دیا اور کہا کہ آسٹریا میں اسلام کو زیادہ تر عوام نے ایک خطرے کے طور پر نہیں دیکھا۔

آسٹریا کے صدر ہینز فشر نے اسی تقریب میں پرامن اور باہمی احترام پر مبنی تعلقات پر زور دیا۔ انہوں نے زور دیا کہ آسٹریا کے سرکاری مذاہب اپنے قانونی رتبے کی وجہ سے ملک کے قوانین کا احترام کرنے اور انہیں تسلیم کرنے کے پابند ہیں۔

دارالحکومت ویانا کے کونسلر عمر الراوی کا کہنا تھا کہ یہ قانون مسلمانوں کو آسٹریائی معاشرے میں ضم میں ہونے میں مدد دیتا ہے اور انہیں یہ احساس دیتا ہے کہ معاشرہ انہیں قبول کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’اسلام کے بارے میں آسٹریا یورپ میں ایک مثالی نمونہ ہے لیکن آسٹریا کے مسلمان بھی یورپی مسلمانوں کا نمونہ ہیں اور وہ اپنے حقوق و فرائض کے بارے میں جانتے ہیں‘۔

عمر الراوی کے مطابق ’آسٹریائی مسلمان دنیا بھر میں اپنی شناخت بطور آسٹرین کرواتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم اس ملک سے تعلق رکھتے ہیں جس نے ہمیں احترام، پہچان اور بہت سی سہولیات دیں جو کچھ مسلم ممالک کے عوام کو بھی میسر نہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ ہم یہ کہنے میں فخر محسوس کرتے ہیں کہ ہم آسٹرین ہیں‘۔

آسٹریا میں اسلام سے متعلق یہ قانون سنہ انیس سو بارہ میں ہیبسبرگ خاندان کے بادشاہ فرانز جوزف کے دور میں اس وقت لایا گیا تھا جبکہ آسٹریا نے بوسنیا ہرزیگووینا کو اپنی سلطنت میں شامل کیا تھا۔

اس قانون کے نفاذ کی وجہ بوسنیائی مسلم فوجیوں کی آسٹریائی بادشاہ کی فوج میں شمولیت کی راہ ہموار کرنا تھی۔ ابتدائی طور پر اس قانون کے تحت صرف حنفی فرقے کے سنّی مسلمان آتے تھے لیکن بعدازاں اس میں شیعہ اور سنّی دونوں فرقوں کو شامل کر لیا گیا تھا۔

پہلی جنگِ عظیم کے بعد جب آسٹرین سلطنت کا خاتمہ ہوا تو ملک میں مسلمانوں کی تعداد چند سو رہ گئی۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد اس میں اُس وقت اضافہ شروع ہوا جب انیس سو ساٹھ کی دہائی میں ترک اور یوگوسلاو کارکن اور پھر نوّے کی دہائی میں بوسنیائی پناہ گزین آسٹریا آئے۔

اس وقت آسٹریا میں تقریباً پانچ لاکھ مسلمان آباد ہیں جو کہ ملک کی کل آبادی کا چھ فیصد ہیں۔ درالحکومت ویانا میں اسلام رومن کیتھولکس کے بعد دوسرا بڑا مذہب ہے۔

آسٹریا کی اسلامی برادری کے مطابق اس وقت ملک میں ساٹھ ہزار مسلمان بچے مذہبی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ یہ تعلیم جرمن زبان میں فراہم کی جاتی ہے۔


آسٹریا: اسلام سو برس سے تسلیم شدہ مذہب

ہفتہ, جون 30, 2012

سورۃُ الملک عذاب قبر سے بچانے والی

قبروں سے آواز آرہی ہے: اے دنیا میں رہنے والو! تم نے ایسا گھر آباد کررکھا ہے جو بہت جلد تم سے چھن جائے گا اور اس گھر کو اجاڑ رکھا ہے جن میں تم تیزی سے منتقل ہونے والے ہو۔ تم نے ایسے گھر آباد کررکھے ہیں جن میں دوسرے رہیں گے اور فائدہ اٹھائیں گے اور وہ گھر اجاڑ رکھے ہیں جن میں تمہیں دائمی زندگی گزارنی ہے۔ دنیا دوڑ دھوپ کرنے اور کھیتی کی پیداوار مہیا کرنے کا گھر ہے اور قبر عبرتوں کا مقام ہے یہ یا تو جنت کا کوئی باغ ہے یا جہنم کا کوئی خطرناک گڑھا!
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ کا بیان ہے کہ ایک صحابی نے لاعلمی میں ایک قبر پر خیمہ گاڑھ لیا۔ اندر سے سورہ ملک پڑھنے کی آواز آئی۔ صاحب قبر نے اول سے آخر تک اس سورہ کی تلاوت کی۔ آپ نے رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آکر یہ واقعہ بیان کیا۔ فرمایا۔ یہ سورہ عذاب قبر کو روکنے والی اور اس سے نجات دینے والی ہے۔ 
(ترمذی)

حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ایک شخص سے کہا: کیا میں تمہیں ایک حدیث بطور تحفہ نہ سناؤں، تم اسے سن کر خوش ہوگے؟ وہ شخص بولا: ضرور سنائیے۔ فرمایا: سورہ ملک پڑھا کرو اسے تم بھی یاد کرلو اور اپنے بیوی بچوں کو بھی یاد کرادو اور اپنے گھر والوں اور پاس پڑوس کے بچوں کو بھی یاد کرادو، کیونکہ یہ نجات دلانے والی اور جھگڑنے والی ہے۔ یہ قیامت والے دن اپنے پڑھنے والے کے لئے رب سے جھگڑے کرے گی۔ اگر وہ جہنم میں ہوگا تو رب سے درخواست کرے گی کہ آپ اسے جہنم کے عذاب سے بچا دیں۔ اللہ پاک اس کی وجہ سے عذاب قبر سے محفوظ رکھتا ہے۔ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میری تمنا ہے کہ سورہ ملک میری امت کے ہر فرد کو یاد ہو (عبد بن حمید) 
یہ صحیح حدیث ہے کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ۳۰ آیتوں والی سورہ ملک نے اپنے پڑھنے والے کی یہاں تک سفارش کی حق تعالیٰ نے اسے بخش دیا۔ (ابن عبدلبر)

جمعہ, جون 29, 2012

وضو اور پانی کا ضیاں

وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْمَاءِ بَشَرًا فَجَعَلَهُ نَسَبًا وَصِهْرًا ۗ وَكَانَ رَبُّكَ قَدِيرًا
ترجمہ: وہ جس نے پانی سے انسان کو پیدا کیا، پھر اسے نسب والا اور سسرالی رشتوں والا کر دیا بلاشبہ آپ کا پروردگار (ہر چیز پر) قادر ہے۔
الفرقان: آیت: ۵۴

مگر افسوس کہ ہم آج اس پیاری نعمت کی قدر نہیں کرتے اور اس کو ضائع کرتے رہتے ہیں اگر پانی ہمیں خریدنا پڑے تو یقیناً ہم اس کا اسراف کرنا برداشت نہ کریں جس طرح‌ منرل واٹر کو ضائع نہیں کرتے، آخر ایسا کیوں ہے کہ جو چیز ہمیں بغیر محنت اور پیسہ خرچ کئے مل جائے ہم اس کی قدر نہیں کرتے؟؟؟؟

اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے؛
ترجمہ: پھر تم سے ضرور بالضرور پوچھ ہونی ہے اس دن ان نعمتوں کے بارے میں۔ (التکاثر: ۸)

اس آیت کی تفسیر احادیث میں بھی وارد ہوئی ہے کہ
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے پاس دو ہی تو چیزیں ہیں پانی اور کھجور۔ پھر ہم سے کن نعمتوں کے بارے میں پوچھا جائے گا؟ دشمن حاضر ہے اور تلواریں ہمارے کاندھوں پر ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہ نعمتیں عنقریب تمہیں ملیں گی۔

جامع ترمذی: جلد دوم: باب: سورۃ تکاثر کی تفسیر

پانی کے اسراف کی ممانعت میں احادیث موجود ہیں مثلاً
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالٰی عنہ راوی ہیں کہ
(ایک مرتبہ) سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر ہوا جب کہ وہ وضو کر رہے تھے (اور وضو میں اسراف بھی کررہے تھے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (یہ دیکھ کر) فرمایا ’’اے سعد! یہ کیا اسراف (زیادتی ہے)؟‘‘ حضرت سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عرض کیا کہ کیا وضو میں بھی اسراف ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ہاں! اگرچہ تم نہر جاری ہی پر (کیوں نہ وضو کر رہے) ہو۔‘‘
(مسند احمد بن حنبل، ابن ماجہ)

مشکوۃ شریف: جلد اول: باب: وضو کی سنتوں کا بیان
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہم فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک شخص کو وضو کرتے دیکھا تو ارشاد فرمایا اسراف نہ کرو، اسراف نہ کرو۔

سنن ابن ماجہ: جلد اول: باب: وضو میں میانہ روی اختیار کرنے اور حد سے بڑھنے کی کراہت

ان احادیث سے واضح ہوا کہ وضو کرتے وقت بھی پانی کے اسراف سے بچنا لازم ہے اور بےشک وضو دریا کے کنارے کیا جائے مگر افسوس صد افسوس کہ ہم وضو کرتے وقت بھی بہت زیادہ پانی ضائع کرتے ہیں۔

سادگی کے لئے ابوبکر اور عمر کے نام پیش کرتا ہوں، گاندھی



غیرمسلموں کے رہنما اپنے حکمرانوں کو حکومت کرنے کے لئے ابتدائی مسلم خلفائے راشدین کی پیروی کی ہدایت کرتے ہیں، تو کیا وجہ ہے موجودہ ہمارے مسلم حکمران اپنے اسلاف کے طرز حکمرانی کی پیروی نہیں کرتے؟ حالاں کہ آج اس بات کی شدت سے ضرورت ہے۔ کیا یہ بہت مشکل ہے؟؟ یا اُس دور کے حالات اور موجودہ حالات میں فرق ہے؟