ہفتہ, جولائی 07, 2012

قذاق آنکھیں، گلاب چہرہ، بدن پے سلوٹ نشان کو ترسے

قذاق آنکھیں، گلاب چہرہ، بدن پے سلوٹ نشان کو ترسے
لپٹتا آنچل، سمٹتا دامن، لمس میں تیرے ایمان کو ترسے

نشیلی بانہیں، اٹھیں جو تیرے، بدن کو ایسے کمان کردیں
ہر اک قافی، ہر اک کویتا، اثر میں تیرے بیان کو ترسے

کوئی مہکتا گرم تنفس، کوئی چٹکتا سریلا نغمہ
دھڑکتے سینے کے ساحلوں میں، کوئی لہر طوفان کو ترسے

نمود کومل، وجود ریشم، تھکن کو چنتی آغوشِ نسواں
میرے مچلتے غیور جذبے، دعا میں تیرے امان کو ترسے

وہ نیلی نس میں سیال جیسی، نشے کو جپتی نبض کی مالا
شراب جیسے گاہک کو ڈھونڈے، خمار سود و زیاں کو ترسے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

آپ کی رائے باعث مسرت لیکن موقف کا غیر اخلاقی حصہ حذف کر دیا جائے گا۔