ہفتہ, نومبر 10, 2012

ڈرائیورکی نیند ختم کرنے والی ڈیوائس

چلتی گاڑی میں بیٹھے بیٹھے اگر آپ کی آنکھ لگ جائے اور ایسے میں گردن دائیں بائیں لڑھکنے لگے تو یہ کسی حادثے کا باعث بھی بن سکتا ہے لیکن اب ایک ایسا آلہ بنا یا گیا ہے جو ڈرائیور کو سونے نہیں دے گا۔

سفر کے دوران نیند بہت خطرناک ہو سکتی ہے، کسی بھی خطرناک صورت حال سے بچنے کے لئے امریکی سائنس دانوں نے ایک ایسی انوکھی ڈیوائس تیار کی ہے جس کی مدد سے دورانِ سفر اگر آپ کو نیند آئے تو یہ ڈیواس آپ کو ایک تیز سگنل بھیجے گی جس سے آپ کی نیند ختم ہو جائے گی۔ بس جب بھی آپ کو نیند آنے لگے تو اسے آن کر لیں اور بے فکر ہو جائیں۔ اس کا وزن بھی بہت ہلکا ہے یعنی صرف 16 گرام اور اسے استعمال کرنا بھی بہت آسان ہے۔ اس ڈیوائس کو پہننے والا شخص اپنے آپ کو انتہائی آرام دہ محسوس کرتا ہے۔

محمد آصف دبئی اوپن سنوکر ٹورنامنٹ کے فائنل میں

پاکستان کے محمد آصف نے دبئی اوپن سنوکر ٹورنامنٹ کے فائنل کے لئے کوالیفائی کر لیا ہے۔

دبئی میں جاری سنوکر ٹورنامنٹ کے سیمی فائنل میں محمد آصف نے ہانگ کانگ کے اینڈی لی کے خلاف صفر کے مقابلے میں پانچ فریم سے کامیابی حاصل کی۔ قومی کیوئسٹ نے پہلا سیٹ باون اڑتیس سے جیتا۔ محمد آصف نے شاندار سٹروکس کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے اگلے چاروں سیٹس میں بھی فتح سمیٹی۔

محمد آصف دبئی اوپن سنوکر ٹورنامنٹ کے فائنل میں

خلائی انٹرنیٹ کا تجربہ کامیاب رہا

بین الاقوامی خلائی سٹیشن پر موجود ایک خلا باز نے زمین پر ایک روبوٹ کو ہدایات بھیج کر پہلی بار خلائی انٹرنیٹ استعمال کرنے کا تجربہ کیا ہے۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے ایک تجرباتی ٹیکنالوجی استعمال کی جسے ڈسرپشن ٹولرنٹ نیٹ ورکنگ (ڈی ٹی این) یا ’خلل برداشت کرنے والی نیٹ ورکنگ‘ کہا جاتا ہے۔ اس پروٹوکول کو مستقبل میں مریخ پر موجود خلا بازوں کے ساتھ رابطے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ اگر کوئی مسئلہ ہو جائے تو زمین اور مریخ گاڑی کے درمیان بھیجے گئِے پیغامات ضائع ہو سکتے ہیں لیکن ڈی ٹی این کی مدد سے زیادہ لمبے فاصلوں تک ڈیٹا بھیجا جا سکتا ہے۔ یورپی خلائی ادارے اور ناسا نے اکتوبر میں مل کر اس نئے نظام کا تجربہ کیا تھا۔ بین الاقوامی خلائی سٹیشن پر کمانڈر سنیتا ولیمز نے ایک لیپ ٹاپ پر ڈی ٹی این سافٹ ویئر کی مدد سے جرمنی میں ایک روبوٹ گاڑی چلائی۔

ڈی ٹی این زمینی انٹرنیٹ سے ملتا جلتا ہے، فرق صرف یہ ہے کہ اس کی مدد سے مواصلات میں تاخیر اور خلل کے مسائل سے زیادہ بہتر طریقے سے نمٹا جا سکتا ہے۔ سیاروں، خلائی سٹیشنوں، اور دور دراز سفر کرتے ہوئے خلائی جہازوں میں یہ مسائل عام ہوں گے۔ یہ تاخیر شمسی طوفانوں یا پھر خلائی جہاز کے کسی سیارے کے پیچھے ہونے کی وجہ سے واقع ہوسکتی ہے۔

یورپی خلائی ادارے کے کم نیرگارڈ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اس کا مقصد طویل فاصلوں تک مواصلات کو ممکن بنانا ہے، کیوں کہ عام انٹرنیٹ اس بات کی توقع نہیں کرتا کہ کوئی چیز بھیجنے یا وصول کرنے میں کئی منٹ لگیں۔‘ تاخیر کا مقابلہ کرنے کے لیے اس نظام کے اندر نوڈز، یا کنکنشن پوائنٹس، کا ایک سلسلہ بنایا گیا ہے۔ اگر مواصلات منقطع ہوجاتی ہیں تو ڈیٹا اس وقت تک نوڈ کے اندر سٹور کر لیا جاتا ہے جب تک رابطہ دوبارہ بحال نہ ہو جائے۔ ذخیرہ کرنے اور آگے بھیجنے کے اس نظام کی وجہ سے اس بات کو یقینی بنا لیا جاتا ہے کہ ڈیٹا ضائع نہیں ہو گا اور بتدریج آگے بڑھتا رہے گا۔

نیرگارڈ کہتے ہیں ’زمین پر اگر انٹرنیٹ کا رابطہ منقطع ہو جائِے تو ہر چیز ازسرِنو بھیجنا پڑتی ہے، ورنہ ڈیٹا ضائع ہو جاتا ہے‘۔ ’لیکن ڈی ٹی این کے اندر خلل کو برداشت کرنے کی صلاحیت موجود ہے، اور یہی اصل فرق ہے۔ یہ جن طویل فاصلوں اور نیٹ ورکس پر کام کرے گا، اسے اتنا ہی مضبوط ہونا چاہیے۔‘ اس وقت مریخ پر موجود روبوٹ گاڑی کیوروسٹی کے ساتھ رابطے کے لیے ناسا اور یورپی ادارہ ’پوائنٹ ٹو پوائنٹ‘ مواصلات کا طریقہ استعمال کرتے ہیں۔ نیرگارڈ کہتے ہیں ’اسے نیٹ ورک کی طرح نہیں بنایا گیا۔ اس وقت مریخ کی سطح پر کئی روبوٹ گاڑیاں موجود ہیں، اور کئی جہاز اس سیارے کے گرد چکر لگا رہے ہیں، لیکن ان سب کو پوائنٹ ٹو پوائنٹ مواصلات سمجھا جاتا ہے‘۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’خلائی انٹرنیٹ کے پیچھے خیال یہ ہے کہ مستقبل میں مریخ پر بھیجی جانے والی گاڑیاں اور جہازوں کو ایک نیٹ ورک کی طرح برتا جائے گا، اور آپ ان تک ڈیٹا ویسے ہی بھیج سکیں گے جیسے آپ زمین پر انٹرنیٹ استعمال کرتے ہوئے بھیجتے ہیں‘۔

ناسا کے بدری یونیز نے کہا کہ تجربہ کامیاب رہا اور اس کی مدد سے ’مواصلات کے ایک نئے طریقے کے استعمال کی افادیت کا مظاہرہ ہوا ہے جس میں کسی سیارے کی سطح پر موجود روبوٹ تک مدار میں چکر کاٹتے جہاز سے احکام بھیجے جا سکتے ہیں اور روبوٹ سے تصویریں اور ڈیٹا وصول کیا جا سکتا ہے‘۔

خلائی انٹرنیٹ کا تجربہ کامیاب رہا

صدر اوباما رو پڑے

امریکی صدر باراک اوباما دوبارہ منتخب ہونے کے بعد نوجوانوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے روپڑے۔ شکاگو میں پارٹی کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے باراک اوباما نے نوجوانوں کا اپنی انتخابی مہم میں انتھک محنت کرنے پرشکریہ ادا کیا۔ 

اس موقع پر باراک اوباما کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے، انہوں نے کہا کہ انہیں انتخابی مہم کے کارکنوں پرفخر ہے اور خاص طور پر نوجوانوں نے جس محنت، محبت اور خلوص سے انتخابی مہم چلائی وہ میرے لئے قابل فخر ہے۔

امریکی صدر باراک اوباما نے کہا کہ نوجوان ہی کسی قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں اورمجھے امید ہے ہم سب مل کرامریکا کی تعمیر و ترقی میں اپنا اپنا بھرپور کردار ادا کریں گے۔

صدر اوباما نوجوانوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے رو پڑے

برسبین ٹیسٹ؛ پروٹیز نے آسٹریلوی پیس بیٹری کا فیوز اڑا دیا

برسبین: وکٹ گنوانے کے بعد پویلین واپس جانے والے جیک کیلس کو 
امپائر اسد رؤف  روک رہے ہیں
نوبال کا علم ہونے پر انھوں نے اپنا فیصلہ تبدیل کرلیا۔ فوٹو: اے ایف پی
برسبین ٹیسٹ کے پہلے روز پروٹیز نے آسٹریلوی پیس بیٹری کا فیوز اڑا دیا، ہاشم آملا ناقابل شکست 90 رنز بنا کر اپنے آخری 4 ٹیسٹ میچز میں تیسری سنچری سے صرف 10 رنز کے فاصلے پر ہیں۔

جیکس کیلس نے بھی میزبان بولرز کا جینا محال بناتے ہوئے 84 رنز ناٹ آئوٹ سکور کیے، دونوں تیسری وکٹ کے لیے سکور میں 136 کا اضافہ کر چکے ہیں، ٹیم نے دن کا اختتام 2 وکٹ پر 255 رنز کے ساتھ کیا، کم روشنی کے سبب کھیل قبل از وقت ختم کرنا پڑا، آملا اور کیلس دونوں کا قسمت نے بھی ساتھ دیا۔ تفصیلات کے مطابق برسبین میں ٹاس ہارنے کے ساتھ ہی آسٹریلیا کی بدقسمتی کا آغاز ہوگیا، میزبان سائیڈ کو توقع تھی کہ جس طرح پیس اٹیک نے گذشتہ برس بھارتی بیٹنگ کو تباہ کیا تھا اس بار بھی ایسا ہی ہوگا، مگر جیمز پیٹنسن، بین ہلفناس اور سڈل کی پروٹیز کے سامنے ایک نہ چل سکی۔ گریم سمتھ (10) کو پیٹنسن نے جلد ہی ایل بی ڈبلیو کر دیا۔

ابتدا میں امپائر بلی بائوڈن نے انھیں ناٹ آئوٹ قرار دیا مگر آسٹریلیا کے ریفرل پر فیصلہ تبدیل ہوگیا، دوسری وکٹ کے لیے میزبان ٹیم کو طویل انتظار کرنا پڑا، الویرو پیٹرسن اور ہاشم آملا نے کینگروز کو سمجھا دیا کہ خفیہ دستاویز افشا ہونے جیسی نفسیاتی جنگ میں الجھانے کا کوئی فائدہ نہیں اصل مقابلہ فیلڈ میں ہوتا ہے، دونوں نے دوسری وکٹ کے لیے 90 رنز جوڑے، پیٹرسن 64 کی اننگز کھیلنے کے بعد لیون کی گیند پر مڈ آن میں ہسی کا کیچ بنے، 51 کے سکور پر وہ ایل بی ڈبلیو ہونے سے بال بال بچے تھے جب ان سوئنگنگ یارکر پر بین ہلفنہاس کی اپیل امپائر کو متاثر نہ کر پائی، آسٹریلوی ریفرل پر ٹی وی امپائر نے فیصلہ آن فیلڈ امپائر پر ہی چھوڑا جس نے کوئی تبدیلی نہ کی۔ بعد میں جیک کیلس کی آمد ہوئی تو میزبان بولرز وکٹ کو ترس گئے، خصوصاً پیٹرسڈل کے پاس سر دھننے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔

انھوں نے کیلس کو جب 43 کے سکور پر مڈ آف پوزیشن میں لیون کا کیچ بنوایا تو اچانک امپائر اسد رؤف نے واپس جاتے بیٹس مین کو روک کر نوبال چیک کی، ری پلیز سے علم ہوا کہ سڈل کا پائوں لائن پر ہی تھا یوں کیلس بچ نکلے، اسی طرح آملا کا سکور جب 74 تھا تو سڈل نے اپنی ہی گیند پر کیچ ڈراپ کر دیا، آملا نے چائے کے وقفے کے بعد کیریئر کی 24 ویں ففٹی مکمل کر لی، سدا بہار کیلس نے 56 ویں نصف سنچری کیلیے صرف 63 بالز کا استعمال کیا، آسمان پر چھائے سیاہ بادلوں کی وجہ سے 82 اوورز کے بعد کھیل کا اختتام کر دیا گیا، آملا 90 اور کیلس 84 پر ناقابل شکست رہے۔ آسٹریلوی کپتان کلارک نے 6 بولرز آزمائے، ان میں سے پیٹنسن اور لیون کو ہی 1،1 وکٹ ملی۔

برسبین ٹیسٹ؛ پروٹیز نے آسٹریلوی پیس بیٹری کا فیوز اڑا دیا

اورِن بُرگ کی شالیں

سائبریا میں واقع روسی شہر اورِن بُرْگ میں بنائی جانے والی شالیں دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ تمام ہی روسی خواتین کو یہ شالیں اوڑھنے کا بے حد شوق ہے۔ دیگر ممالک میں لوگ ایسی شالوں سے کوئی دو سو سال پہلے شناسا ہوئے تھے۔ 

ہوا یہ کہ روسی یوُرال کے علاقے کے کچھ باشندوں نے ملکۂ روس کو ایک شال تحفے میں دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ یہ شال بہت بڑی تھی، اس کا طول اور عرض ڈھائی ڈھائی میٹر تھا۔ لیکن یہ شال انگوٹھی کے حلقے میں سے گزاری جا سکتی تھی کیونکہ کپڑا بہت مہین تھا۔ ملکہ یہ شال دیکھ کر بہت حیران ہوئی تھیں۔ جب انہوں نے یہ ہلکی شال اوڑھی تو حاضرین دربار شال کے حسن سے انتہائی متاثر ہوئے تھے۔

یوں یورال کی دستکار خواتین کی بے مثال مہارت کی خبر روس بھر میں پھیل گئی۔ اور جب کاروباری افراد نے ایک صنعتی نمائش میں یہ شالیں پیش کیں تو وہ دوسرے ملکوں میں بھی مشہور ہو گئیں۔ غیرملکیوں کو بھی اورن برگ کی شالیں بہت پسند آئیں۔ ان شالوں کو لندن اور پیرس میں تمغے د‏یئے گئے۔

ایسی شال بننے کے لیے ایک خاص نسل کی بکریوں کی اون ضروری ہوتی ہے۔ اس اون سے بنے کپڑے کو پھاڑنا مشکل ہوتا ہے، پھر بھی کپڑا نرم بھی ہوتا ہے اس لیے اس اون کو بہترین مانا جاتا ہے۔ اس سے صحت کی حفاظت بھی ہوتی ہے۔ یورال کے علاقے کے باشندے پرانے وقتوں سے زکام، نمونیا اور پشت میں درد کے علاج کے لیے یہ شالیں استعمال کرتے چلے آئے تھے۔

ایسی شالیں بننا آسان کام نہیں۔ اس میں بہت وقت لگتا ہے کیونکہ یہ سارا کام ہاتھوں سے کیا جاتا ہے۔ سب سے پہلے اون سے سخت حصے نکالے جاتے ہیں، پھر ایک خاص کنگھی کے ذریعے اون کو الگ الگ حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے اور اس کے بعد بنائی کا کام شروع ہوتا ہے۔ ہر دستکار عورت یہ کام اپنے طریقے سے کرتی ہے۔ شالوں پر مختلف قسم کے نمونے بنائے جاتے ہیں جن میں ایک جیسے دو نمونے نہیں ہوتے۔

پھر شال کو احتیاط سے دھویا جاتا ہے، اس سے پانی نرمی سے نکالا جاتا ہے۔ پھر اسے ایک فریم پر تان دیتے ہیں۔ ایک شال بننے میں ڈیڑھ دو ماہ لگتے ہیں۔

بہر حال آج روس میں بہت کم عورتیں اورن برگ کی شالیں پہنتی ہیں۔ اب ان شالوں کو فرسودہ لباس سمجھا جاتا ہے جو آج کے فیشن کے مطابق نہیں رہا۔ لیکن ان شالوں کو آج بھی دستکاری کے شاہ کار سمجھا جاتا ہے۔ غیرممالک میں اورن برگ کی شالوں کی بہت مانگ برقرار ہے اور روس سے ایسی بہت زیادہ شالیں برآمد کی جاتی ہیں۔


جمعہ, نومبر 09, 2012

جاڑا دھوم مچاتا آیا

گلابی سردیوں کا آغاز ہوچکا ہے۔ ٹھنڈی ہوائیں چلنا شروع ہوگئی ہیں۔ گوکہ ابھی مکمل سردیوں کا موسم شروع نہیں ہوا۔ لیکن ٹھنڈی ہواؤں کی آمد کے ساتھ ہی خواتین نے کمبل، لحاف اور رضائیوں کو دھوپ لگانی شروع کر دی ہے۔ مہینوں سے الماری اور سوٹ کیسوں میں بند سوئٹرز، شالیں، جیٹکس اور اوُنی ٹوپیاں بھی اب وارڈ روب کی زینت بن چکی ہیں۔

سردیوں کے موسم کا حسن ہی الگ ہے، جو مزہ سردیوں میں لحاف میں دبک کر مونگ پھلیاں کھانے میں ہے، وہ مزہ بھلا کسی اور موسم میں کہاں۔ مگر اس کے باوجود سردیوں کی آمد کے ساتھ ہی بیشتر افراد سرد موسم اور ٹھنڈی ہواؤں کے جھونکوں کے زیر اثر فلو، کھانسی، نزلہ ، جوڑوں کے درد یا جلد کی خشکی جیسے مسائل کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ان چھوٹی موٹی بیماریوں اور تکالیف کی وجہ سے سردیوں کے موسم کا لطف نہیں اٹھا پاتے کئی لوگ اسی لیے سردیوں کے موسم کو پسند نہیں کرتے اور سردیوں کی آمد کے ساتھ ہی پریشان ہوجاتے ہیں۔ اگر آپ کا شمار بھی ایسے افراد میں ہوتا ہے تو پریشان ہونا چھوڑیے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں اور ٹوٹکوں پر عمل کرکے آپ سردیوں میں بھی خوش باش رہ سکتی ہیں۔ خصوصاً خواتین بچوں اور گھر کے بزرگوں کی چھوٹی چھوٹی بیماریوں اور تکالیف سے پریشان رہتی ہیں۔ اب بے فکر ہوجائیے، ہماری درج ذیل باتوں پر عمل کیجیے سب آپ کے قائل ہوجائیں گے۔ 

جوڑوں کا درد:
1۔ روزانہ وقت مقرر کرکے واک ضرور کریں۔ دس منٹ پندرہ منٹ سے شروع کریں آہستہ آہستہ اس کو بڑھاتے ہوئے تیس منٹ تک لے جائیں۔

2۔ کچھ وقت سورج کی روشنی میں ضرور گزاریں، اس طرح کے آپ کے متاثرہ جوڑ پر سورج کی روشنی پڑے۔

3۔ اپنی غذا میں دودھ اور دہی کا استعمال بڑھا دیں، مثلاً دو گلاس نیم گرم دودھ اور آدھا کپ دہی۔ دن بھر میں کسی بھی وقت لے لیں، مثلاً ایک گلاس دودھ صبح، دوپہر میں دہی، پھر رات کو ایک گلاس دودھ لے لیجیے۔

4۔ ایک ٹب میں گرم پانی (اتنا گرم ہو کہ آپ کی جلد برداشت کرسکے) اس میں مٹھی بھر کر نمک شامل کرکے اس میں اپنے پیر یا ہاتھ یا متاثرہ جوڑ کچھ دیر اس پانی میں ڈبوئے رکھیں پھر پانی سے نکال کر فوراً تولیے سے خشک کر لیں۔ یہ درد کے لیے مفید ٹوٹکا ہے۔

5۔ زیتون کے تیل سے جوڑوں پر ہلکے ہاتھ سے کچھ دیر مساج کیجیے بہت مفید ہے۔ 

فلو، کھانسی، نزلہ :
1۔ صبح نہار منہ اور رات سوتے وقت ایک کھانے کا چمچہ نیم گرم شہد کھا لیں۔

2۔ ایک کپ پانی میں تھوڑی سی چائے کی پتی، تین چار دانے لونگ، دو چھوٹے ٹکڑے دار چینی اور ایک چھوٹی الائچی ڈال کر ابالیں۔ اتنا پکائیں کہ آدھا کپ رہ جائے پھر چھان کر شہد یا چینی ملا کر صبح نہار منہ پی لیں۔

3۔ دن بھر کی غذا میں سوپ کا استعمال ضرور کریں، مرغی کا سوپ، بکرے کی ہڈیوں کی یخنی، مرغی کی یخنی، سبزی اور گوشت کا سوپ غرض کوئی بھی سوپ ہو اس کا استعمال ضرور کیجئے۔

نزلہ ، زکام ، سینے کی جکڑن میں بھاپ ضرور لیں، کھلے منہ کے دیگچے میں پانی ابال کر اس میں وکس ملالیں اگر وکس بام نہ ہو تو صرف پانی کی بھاپ لے لیں۔

5۔ نیم گرم پانی میں شہد ملا کر صبح اور رات کے وقت پی لیں۔

جلد اور بالوں کی خشکی:
1۔ پانی کا استعمال زیادہ سے زیادہ کریں۔ سردیوں میں عموماً پانی کم پیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے جِلد خشکی کا شکار ہوجاتی ہے۔

2۔ بالوں کی خشکی کے لیے ایک انڈا توڑ کر اس میں ناریل کا تیل ملائیں۔ ناریل کا تیل اپنے بالوں کی لمبائی کے حساب سے کم یا زیادہ ملائیں۔ اب اس کو اپنے بالوں میں لگائیں۔ اچھی طرح تمام بالوں میں لگا کر بالوں کا جوڑا باندھ لیں یا کلپ سے باندھ کر پرانا دوپٹہ چاہے باندھ لیں۔ دو گھنٹے بعد نیم گرم پانی اور شیمپو سے دھولیں نرم ملائم خشکی سے پاک بال ہوجائیں گے۔

3۔ منہ ہاتھ دھونے یا نہانے کے بعد جِلد کو مکمل طور پر خشک نہ کریں۔ جلد میں ہلکی نمی باقی ہو تو لوشن لگالیں۔ اس طرح جلد مکمل خشک ہوجانے سے بچ جاتی ہے۔ یہ عمل نومولود بچوں سے بڑوں تک سب کے لیے فائدہ مند ہے۔

4۔ ہاتھوں اور پیروں کو خشکی سے بچانے کے لیے لوشن اور ویسلین کا استعمال ضرور کیجیے۔ خصوصاً برتن، کپڑے وغیرہ دھونے کے بعد ہاتھ دھو کر فوراً لوشن لگالیں۔
 

جمعۃ المبارک کی فضیلت و اہمیت

اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ،

اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ 

 

حکومت کا یو ٹیوب کھولنے پر غور

اسلام آ باد: وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک نے کہا ہے کہ حکومت یو ٹیوب پر سے تمام گستاخانہ مواد ہٹا کر اسے کھولنے پر غور کر رہی ہے۔

اسلام آبادمیں محرم الحرام کےدوران سیکیورٹی کی صورتحال کاجائزہ لینے کے لئےوفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک کے زیر صدارت اعلیٰ سطح کا اجلاس ہوا جس کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یوٹیوب پر سے متنازع مواد ہٹا کر اسے کھولنے پرغور کیا جا رہا ہے۔

رحمان ملک نے کہا کہ یکم دسمبر سے دکانوں پر موبائل سمز کی فروخت بھی بند کر دی جائے گی اور موبائل فون کمپنیوں کے ذریعے سمز متعلقہ پتے پر ارسال کی جائیں گی۔

واضح رہے کہ امریکا میں بنائی جانے والی گستاخانہ فلم کی یو ٹیوب پر ریلیز ہونے کے بعد عالم اسلام میں شدید غم و غصے کا اظہار کیا گیا اور پاکستان سمیت کئی اسلامی ممالک میں احتجاجی مظاہرے بھی کئے گئے۔ یو ٹیوب کی جانب سے متنازع مواد نہ ہٹانے پر حکومت پاکستان نے اس پر پابندی عائد کر دی تھی۔

اظہرالدین پر پابندی غیر قانونی

آندھرا پردیش عدالت نے سابق بھارتی کپتان اظہرالدین پر لگائی گئی پابندی غیر قانونی قرار دیدی ہے۔

عدالت نے بھارتی کرکٹ بورڈ کو حکم دیا ہے کہ اظہرالدین پر پابندی فوراً ہٹائی جائے۔ یاد رہے کہ سابق بھارتی کپتان پر میچ فکسنگ سکینڈل میں ملوث ہونے کے شک پر کرکٹ کھیلنے پر پابندی لگائی گئی تھی۔ آندھرا پردیش عدالت نے کیس کی سماعت کرتے ہوئے پابندی غیر قانونی قرار دی ہے۔

امریکی صدور کی اولاد میں کوئی بیٹا نہیں

آپ کو ایک دلچسپ بات بتاتے چلیں کہ گزشتہ بیس سال میں امریکا پر حکمرانی کرنے والے صدور کی اولاد میں کوئی بیٹا نہیں ہے۔

انیس سو بانوے اور چھیانوے میں دوبار امریکی صدر منتخب ہونے والے بل کلنٹن کی ایک ہی بیٹی ہے۔ 

سن دو ہزار اور دو ہزار چار میں جارج بش امریکا کے صدر بنے ان کی اولاد میں دو بیٹیاں شامل ہیں۔ 

اسی طرح دو ہزار آٹھ اور اس کے بعد حال میں ہی دوبارہ منتخب ہونے والے براک اوباما بھی دو بیٹیوں کے باپ اور بیٹے کی نعمت سے محروم ہیں۔
 

ناران میں موسم سرما کی دوسری برف باری

مانسہرہ کے سیاحتی مقام ناران کی پہاڑیوں اور بابو سر ٹاپ پر موسم سرما کی دوسری برف باری سے شدید سردی کے باعث بابو سر ٹاپ سڑک ہر قسم کی ٹریفک کے لئے بند کردی گئی ہے۔ لینڈ سلائیڈنگ اور موسم کی شدت کے باعث بابو سرٹاپ سے ناران سڑک مکمل بند ہوگئی ہے، راستہ کی بندش اور موسم کی شدت کے باعث گڈی داس اور بیسز کے مقام پر سیاحوں اور مسافروں کی سکیورٹی کے لئے قائم دو پولیس چوکیاں ختم کردی گئی ہیں۔

پاکستان میں امریکی ڈرون حملے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے: روس

روس کے محکمہ خارجہ کی ویب سائٹ پر جاری کردہ وزیر خارجہ سرگئی لاوروو کے اعلان نامہ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں امریکی ڈرون طیاروں کے حملے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ لاوروو نے کہا کہ روس اور پاکستان نے پاک امریکہ تعلقات میں کشیدگی پیدا ہونے سے پہلے دو طرفہ معاشی تعاون کو فروغ دینا شروع کر دیا تھا اور یہ کہ پاکستان کے ساتھ روس کے تعلقات مستحکم ہیں۔ وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ روس پاکستان سے روابط کو ترقی دیتے ہوئے امریکہ کو نقصان نہیں پہنچانا چاہتا۔ ”ہم پاکستان کو انتہائی اہم ملک سمجھتے ہیں جس کے بغیر مسئلہ افغانستان کو حل نہیں کیا جا سکتا، اس لیے ہم پاکستان اور افغاستان کے درمیان مکالمے کا خیرمقدم کرتے ہیں“، روس کے وزیر خارجہ نے کہا۔

پاکستان میں امریکی ڈرون طیاروں کے حملے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے: روس

الفاظ کے چناؤ پر کافی کے اثرات

ہر روز کافی کی دو تین پیالیاں پینے سے دماغ مثبت الفاظ کے چناؤ کے سلسلے میں مستعد ہوجاتا ہے لیکن کافی کا منفی یا بلا معانی الفاظ کے چناؤ کا انتخاب کرنے پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ یہ تحقیق جرمنی کے سائنسدانوں نے کی ہے۔ روہر یونیورسٹی جرمنی کے سائنس دانوں نے پہلی بار ثابت کیا ہے کہ 30 منٹ میں 200 ملی گرام کافی پینے سے امتحان کے دوران دماغ عقل پر مبنی الفاظ کے چناؤ کو تیز تر کردیتا ہے تاہم جذبات سے وابستہ یا بے مقصد الفاظ کے چناؤ پر اس کا کوئی اثر مرتب نہیں ہوتا۔

کافی کا الفاظ کے چناؤ پہ اثرات

امریکی ڈرون پر ایران کی فائرنگ

امریکہ کی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ خلیج پر پرواز کرنے والے ڈرون پر ایرانی جیٹ فائٹرز سے فائرنگ کی ہے۔ وزارت دفاع کے ترجمان جارج لٹل نے کہا کہ فائرنگ سے ڈرون کو کوئی نقصان نہیں ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایرانی جیٹ فائٹرز نے بین الاقوامی فضائی حدود میں ڈرون پر فائرنگ کی۔ وزارت دفاع کا مزید کہنا ہے کہ یہ واقعہ یکم نومبر کو پیش آیا۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ امریکی صدر کو اس واقعے کے بارے میں مطلع کردیا گیا ہے۔

یاد رہے کہ پچھلے سال ایران نے ایرانی فضائی حدود میں پرواز کرنے والا ڈرون مار گرایا تھا اور امریکہ کو واپس کرنے سے انکار کیا تھا۔ تاہم امریکہ نے دعویٰ کیا تھا کہ ڈرون فنی خرابی کے باعث گرا تھا۔ 

جارج لٹل کا کہنا ہے کہ یکم نومبر کے واقعے کے بعد امریکہ ڈرون کے ذریعے خلیج کی نگرانی کے لیے پروازیں جاری رکھے گا۔ ’امریکہ نے ایران کو مطلع کر دیا ہے کہ امریکہ خلیج میں بین الاقوامی فضائی حدود میں نگرانی کے لیے پروازیں جاری رکھے گا۔‘ وزارت دفاع کے ترجمان نے کہا کہ ڈرون ایران کی فضائی حدود میں داخل نہیں ہوا تھا۔ امریکی وزارت دفاع کے مطابق ’ایران کے دو ایس یو 25 لڑاکا طیاروں نے ڈرون پر فائر کیا۔ یہ فائر ڈرون کو نہیں لگے اور ڈرون کو واپس اڈے پر بلا لیا گیا۔‘ جارج لٹل نے مزید کہا ’ہمارے پاس اپنے فوجی اثاثے اور سکیورٹی فورسز کو محفوظ رکھنے کے لیے بہت سی آپشنز ہیں جن میں سفارتی بھی ہیں اور فوجی بھی۔ جو بھی ضروری ہوگا وہ ہم کریں گے۔‘ امریکی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ پالیسی کے تحت عام طور پر نگرانی کے مشن کی معلومات منظرِ عام پر نہیں لائی جاتیں لیکن اس بار وہ یہ معلومات عام کریں گے کیونکہ میڈیا کے کئی سوالات ہیں۔

امریکی وزارت دفاع کے مطابق ایران کے دو جنگی طیارے ایس یو 25 فروگ فٹ نے یکم نومبر کو آٹھ بج کر پچاس منٹ پر (جی ایم ٹی) امریکلی ڈرون طیارے پر فائرنگ کی۔ امریکی ڈرون معمول کی نگرانی کی پرواز پر ایران کے ساحل سے سولہ ناٹاکل میل دور تھا۔ جارج لٹل نے بتایا کہ بین الاقوامی فضائی حدود بارہ ناٹیکل میل کے بعد سے شروع ہوتی ہے اور ڈرون ایرانی حدود میں کسی وقت بھی داخل نہیں ہوا تھا۔ ’اس سے پہلے کبھی بھی ایسا واقعہ پیش نہیں آیا جہاں ایرانی جنگی طیاروں نے ڈرون پر فائر کیا ہو۔‘ جارج لٹل نے کہا کہ ہمارے خیال میں ایرانی جیٹ طیاروں نے دو بار فائر کیا۔ ’پہلی بار فائر کرنے کے بعد یہ طیارے گھوم کر واپس آئے اور فائر کیا۔ اس کے بعد بھی ایرانی جیٹ طیاروں نے ڈرون کا پیچھا کیا لیکن فائر نہیں کیا۔‘ دوسری جانب امریکی وزارت خارجہ نے ایران پر مزید پابندیوں کا اعلان کیا ہے۔ نئی پابندیوں میں ایران کے وزیر مواصلات اور وزارت ثقافت کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ وزیر مواصلات پر پابندیاں اس لیے عائد کی گئی ہیں کہ انہوں نے انٹرنیشنل سیٹیلائٹ ٹی وی چینلز کی نشریات کو جیم کرنے اور انٹرنیٹ کی رسائی محدود کرنے کا حکم دیا ہے۔

امریکی ڈرون پر ایرانی جیٹ طیاروں کی فائرنگ

ٹیپو سلطان کی جاسوس پڑپوتی

دوسری عالمی جنگ میں برطانیہ کے لیے جاسوسی کرنے والی ٹیپو سلطان کی پڑپوتی نور عنایت خان کے مجسمے کی نقاب کشائی لندن کے معروف گورڈن سکوائر میں ہونے والی ہے۔ میسور کے سابق حکمراں ٹیپو سلطان کی پڑ پوتی نور عنایت خان نے دوسری جنگ عظیم کے دوران برطانیہ کا ساتھ دیا تھا۔ انہوں نے زبردست بہادری اور جرات مندی کا ثبوت دیا جس پر ان کی سوانح نگار شربانی باسو نے انہیں ’جاسوس شہزادی‘ کا خطاب دیا ہے۔ نور عنایت روس میں پیدا ہوئیں لیکن ان کی تربیت برطانیہ اور فرانس میں ہوئی۔ ان کا تعلق بھارت کے بہت ہی مشہور شاہی خاندان سے تھا۔ نور خان کو فرنچ زبان میں بھی عبور تھا اور سنہ 1942 میں انہیں برطانیہ کے ’سپیشل آپریشنز ایگزیکیٹیو‘ ( ایس او ای) نے پیرس میں کام کرنے کے لیے بطور ریڈیو آپریٹر بھرتی کیا تھا۔

برطانوی آثار قدیمہ کے ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ وہ وائر لیس آپریٹ کرنے والے پہلی خاتون تھیں اور دوسری عالمی جنگ کے دوران نازیوں نے فرانس کے جس علاقے پر قبضہ کر لیا تھا وہاں انہیں کام کے لیے بھیجا گیا تھا۔ نور خان کو لکھنے کا بھی شوق تھا اور انہوں نے بچوں کے لیے کہانیاں بھی لکھیں۔ انہیں موسیقی میں بھی دلچسپی تھی لیکن میدان جنگ میں وہ ایک شیرنی تھیں۔ جاسوس کی حیثیت سے وہ تین ماہ تک تو قید سے بچتی رہیں لیکن پھر وہ قید ہوئیں اور ان پر تشدد کیاگیا ۔ 1944 میں جرمن فوجیوں نے انہیں گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ کہتے ہیں کہ آخری لمحات میں جب جرمن فوجیوں نے ان پر بندوق تانی تو شہزادی نور خان نے’ آزادی‘ کا نعرہ لگایا تھا۔

ان کی سوانخ نگار شربینا باسو کا کہنا ہے کہ آزادی ان کے لیے بہت اہم تھی جس سے انہیں زندگي بھر لگاؤ رہا۔ اسی بہادری کے سبب انہیں ’جارج کراس‘ کے اعزاز سے نوازا گیا تھا۔ فرانس میں انہیں ’ کروسکس ڈی گوئرا‘ کا اعزاز بخشا گیا۔ بعد میں ان کی برسی کے یاد میں بھی دو یادگاریں قائم کی گئیں اور ایک سالانہ تقریب کا اہتمام بھی کیا گيا۔ کہتے ہیں کہ جنگ میں اس طرح کی شجاعت کا مظاہرہ اس لیے نہیں کیا کہ انہیں برطانیہ سے بہت پیار تھا بلکہ اس لیے کہ انہیں فسطائیت اور آمریت سے سخت نفرت تھی۔ ان کے والد ایک موسیقی کار اور صوفی موسیقی کے استاد تھے۔ نور خان کو زندگی کے بہترین آداب سکھائے گئے۔ سبرینا باسو کہتی ہیں کہ ’ وہ کسی ملک پر دوسرے کا قبضہ برداشت نہیں کر پاتی تھیں اور یہ ایک ایسا خیال تھا جو انہیں خاندانی طور پر ورثے میں ملا تھا۔

ان کے پڑدادا ٹیپو سلطان، جو اس وقت کی بھارتی ریاست میسور کے حکمراں تھے، انگریزوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ انہوں نے انگریزوں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے سے انکار کردیا اور ان کے ساتھ لڑتے ہوئے سنہ 1799 میں جنگ میں مارے گئے۔ نور خان یکم جنوری 1914میں روس میں پیدا ہوئی تھیں۔ ان کے والد بھارتی اور ماں امریکی نژاد تھیں۔ ان کی دوشیزگی کا وقت لندن میں گزرا تھا۔ لیکن بچپن میں ان کا خاندان چونکہ فرانس منتقل ہوگیا تھا اس لیے بچپن وہیں گزرا جہاں انہوں دوران تعلیم فرینچ زبان سیکھی۔ انہوں نے طب اور موسیقی دونوں کی تعلیم لی تھی۔ 1939 میں بچوں کے لیے کہانیوں پر مبنی ان کی ایک کتاب ’ ٹوئنٹی چٹکا ٹیلز‘ شائع ہوئی تھی۔ جب سنہ انتالیس میں عالمی جنگ شروع ہوئی تو نور عنایت خان نے فرینچ ریڈ کراس کے ساتھ بطور نرس تربیت پائی۔ نومبر سنہ چالیس میں جرمن فوجیوں کے سامنے حکومت کے ہتھیار ڈالنے سے پہلے ہی وہ ملک چھوڑ کر ایک کشتی میں سوار ہوکر اپنی ماں اور بہن کے ساتھ لندن پہنچ گئیں۔ برطانیہ آنے کے فوراً بعد انہوں نے ’وومنز آکزیلری ایئر فورس‘ میں وائر لیس آپریٹر کے طور پر شمولیت اختیار کر لی۔ تبھی ان پر ایس او ای کی نظر پڑی۔ اس وقت وہ نورا بیکر کے نام سے معروف ہوئی اور انہوں نے سنہ 1942 میں برطانوی خفیہ سروس جوائن کیا۔ اسی خفیہ سروس کے تحت بعد میں انہیں فرانس میں تعینات کیا گیا لیکن ایک رپورٹ کے بعد انہیں واپس بھیجنے کو بھی کہا گیا۔ اس بات کا شک ہوا کہ شاید نیٹ ورک میں جرمن نے دراندازی کر لی ہے اور انہیں جرمن گرفتار کرسکتے ہیں لیکن وہ اس کے باوجود برطانیہ واپس نہیں آئیں۔

محترمہ باسو نے ان کی زندگی پر آٹھ برس ریسرچ کے بعد کتاب لکھی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ نور خان بچوں کی کہانیوں کی نفیس لکھاری اور موسیقی کار تھیں لیکن ان میں تبدیلی آئی۔ وہ میدان جنگ میں ایک شیرنی کی طرح تھیں‘۔ ان کی ٹیم کے بہت سے لوگ جرمنوں کے ہاتوں قید ہوتے رہے لیکن نور عنایت خان جب تک ممکن ہوا ان کے ریڈیو پیغامات کو درمیان میں سن سن کر برطانیہ کو بھیجتی رہیں۔ ان کے کمانڈر انہیں انگلینڈ واپس جانے پو زور دیتے رہے لیکن وہ تن تنہا بھیس اور مقامات بدل بدل کر جاسوسوں کی ایک خفیہ مہم تین ماہ تک چلاتی رہیں۔ کہتے ہیں جرمن فوجیوں نے انہیں دس ماہ تک قید کر کے تشدد کیا لیکن انہوں نے جرمن فوج کو کوئی معلومات فراہم نہیں۔بالآحر انہیں سنہ چوالیس میں تیرہ ستمبر کو قتل کر دیا گیا۔

بھارتی شہزادی نور کی شجاعت مندی پر اعزاز

روہنگیا مسلمان ہجرت کر کے کشمیر پہنچ گئے

میانمار میں مسلمانوں کے خلاف پر تشدد حملوں کے بعد وہاں سے ہجرت کرنے والے روہنگیا مسلمانوں کی بڑی تعداد نے بھارت کے زیرانتظام کشمیر میں پناہ لے لی ہے۔ جنوب مشرقی ایشا کے بودھ اکثریتی ملک میانمار میں مسلم کش آپریشن کے دوران پینتیس سالہ سید الاسلام بیوی اور آٹھ بچوں کو لے کر بنگلہ دیش سرحد کی طرف بھاگ نکلے۔ راستے میں بودھ نوجوانوں نے ان کا سامان لوٹ لیا اور ان پر خنجروں سے وار کیے۔ وہ کسی طرح جان بچا کر نکلے اور بنگلہ دیش ہوتے ہوئے بھارت کے کولکتہ شہر پہنچے۔ وہاں سے وہ سات دن کا سفر کرکے کشمیر کے جنوبی ضلع جموں پہنچے۔

جموں کے کئی علاقوں میں روہنگیا مسلمانوں نے جھگیوں میں پناہ لے لی ہے۔ سید الاسلام سو سے زائد روہنگیا مسلم خاندانوں کے ساتھ نروال قصبہ کے کرانی تلاب کے پاس رہتے ہیں۔ یہاں منشاد بیگم نے اپنی چار کنال زمین روہنگیا مسلمانوں کی رہائش کے لئے وقف کی ہے۔ زمین کے اس رقبہ میں یہ مہاجر خاندان بازار سے جمع کی گئی شیشے کی پیکنگ اور گتے سے بنائی گئی جھگیوں میں رہتے ہیں۔ اسی طرح کی عارضی مسجد اور ایک سکول بھی ہے۔

سید الاسلام میانمار کی فوجی حکومت کے مظالم بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’پیدائش پر ٹیکس لگتا ہے، کوئی مر جائے اور اس کے رشتہ داروں سے ہرجانہ وصول کیا جاتا ہے، کوئی نہ دے تو اس پر قتل کا مقدمہ چلایا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ جانور کا بچھڑا ہوجائے تو اس پر ہزاروں روپے کا ٹیکس لیا جاتا ہے۔‘ لیکن نروال کے اس عارضی رفیوجی کیمپ میں روہنگیا مسلمانوں کے نوزائدہ بچوں کا اندراج سرکاری طور پر ہوتا ہے۔ تاہم انہیں قبرستان کا مسئلہ درپیش ہے۔ اس کے لیے فی الوقت ایک پہاڑی پر عارضی انتظام ہے۔

سیدالاسلام کے ایک پڑوسی عبداللہ کہتے ہیں میانمار کی فوجی حکومت روہنگیا مسلمانوں کی بستیوں پر باقاعدہ چڑھائی کرتی ہے۔ ’رات کے دوران بستی خالی کرنے کا حکم دیا جاتا ہے اور بستی میں آگ لگا دی جاتی ہے۔‘ ایک اور مہاجر ضیاء الدین کہتے ہیں: ’جوان لڑکیوں کو تھانے طلب کیا جاتا ہے۔ مردوں اور عمر رسیدہ عورتوں کو فوجی بارکوں میں بغیر اُجرت کے کام کروایا جاتا ہے۔‘ نروال کے کیمپ میں رہائش پذیر روہنگیا مسلمانوں کے رہنما زاہد حسین خان کہتے ہیں کہ جن مسلمانوں نے فوجی حکومت کے ظلم کے خلاف آواز اُٹھائی تھی انہیں دہشت گردی کے الزام میں قید کرلیا گیا اور بیشتر کو قتل کیا گیا۔ زاہد حسین کا کہنا ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کو میانمار میں شہریت نہیں دی جاتی، انہیں ایک شناختی کارڈ ملتا ہے جس پر انہیں ’مہمان‘ بتایا جاتا ہے۔ زاہد حسین نے بھارت میں باقاعدہ پناہ کے لیے حکومت ہند کے بعض نمائندوں کے ساتھ بات چیت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے: ’بھارت میں افغانستان، ایران یہاں تک کہ میانمار کے غیرمسلم شہری بھی رہتے ہیں۔ انہیں رفیوجیوں کے حقوق حاصل ہیں۔ ہم چاہتے ہیں میانمار میں جمہوریت کی بحالی تک ہمارے ساتھ بھی ایسا سلوک کیا جائے۔‘ 

واضح رہے میانمار میں کئی دہائیوں سے فوجی حکومت ہے اور وہاں کی مسلم اقلیتوں کے خلاف فوج نے آپریشن شروع کیا ہے۔

میانمار: روہنگیا مسلمان ہجرت کر کے کشمیر پہنچ گئے