پیر, اکتوبر 01, 2012

پاکستان کو بھارت اور جنوبی افریقہ کو آسٹریلیا سے شکست

سری لنکا میں جاری ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کرکٹ مقابلوں کے سپرایٹ مرحلے کے میچ میں بھارت نے پاکستان کو اور آسٹریلیا نے جنوبی افریقہ کو شکست دے دی ہے۔ 

کولمبو میں کھیلے جانے والے دوسرے میچ میں ٹاس جیت کر پہلے کھیلتے ہوئے پاکستان کی ساری ٹیم 19.4 اوورز میں 128 رنز بنا کر آؤٹ ہوگئی۔ جواب میں بھارت نے مطلوبہ ہدف دو وکٹوں کے نقصان پر 17 اوورز میں حاصل کرلیا۔ 

پاکستان بھارت کو کبھی بھی ایک روزہ عالمی مقابلوں میں یا ٹی ٹوئنٹی کے عالمی ٹورنامنٹ میں شکست نہیں دے پایا۔

ویرات کوہلی دو چھکوں اور 8 چوکوں کی مدد سے 78 رنز بنا کر ناقابل شکست رہے اور میچ کے بہترین کھلاڑی ٹھہرے۔ بھارت کی جانب سے سہواگ اور گمبھیر نے اننگز کا آغاز کیا تاہم گمبھیر بغیر کوئی رنز بنائے رضا حسن کی گیند پر کیچ آؤٹ ہوگئے۔ جلدی نقصان کے بعد سہواگ اور کوہلی نے عمدہ کھیل کا مظاہرہ کرتے ہوئے 75 رنز کی شراکت قائم کی۔ 75 کے مجموعی سکور پر سہواگ 29 رنز بنا کر شاہد آفریدی کی گیند پر کیچ آؤٹ ہوگئے۔ اس سے پہلے پاکستان کی جانب سے شعیب ملک اٹھائیس رنز بنا کر سب سے نمایاں بلے باز رہے۔ عمر اکمل نے 21 رنز بنائے آفریدی 14، عمران نذیر 8، ناصر جمشید 4، کامران اکمل 5، اور کپتان محمد حفیظ 15 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے۔ پاکستان کی جانب سے محمد حفیظ اور عمران نذیر نے اننگز کا آغاز کیا تو دوسرے اوور میں عمران نذیر ایل بی ڈبلیو ہوگئے۔ انہوں نے 8 رنز بنائے۔ پاکستان نے بیٹنگ آرڈر میں تبدیلی کرتے ہوئے شاہد آفریدی کو تیسری پوزیشن پر بھیجا تھا۔ بھارت کی جانب سے عرفان پٹھان نے ایک، بالاجی نے 3، ایشون اور یووراج سنگھ نے دو دو جبکہ کوہلی نے ایک وکٹ حاصل کی۔

یاد رہے کہ پاکستان کی ٹیم بھارت کو اس ٹورنامنٹ سے پہلے ہونے والے ایک وارم اپ میچ میں ہرا چکی ہے۔

پاکستان نے سپر ایٹ کے اپنے پہلے مقابلے میں دنیا کی مضبوط ترین ٹیموں میں سے ایک جنوبی افریقہ کو سنسنی خیر مقابلے کے بعد دو وکٹوں سے شکست دی تھی جبکہ بھارت کو آسٹریلیا کے ہاتھوں 9 وکٹوں سے شکست اٹھانا پڑی تھی۔

واٹسن نے سینتالیس گیندوں پر 70 رنز بنائے
اس سے قبل پہلے میچ میں آسٹریلیا نے ٹاس جیت کر جنوبی افریقہ کو پہلے بیٹنگ کرنے کی دعوت دی تھی۔ جنوبی افریقہ نے مقررہ 20 اوورز میں 5 وکٹوں کے نقصان پر 146 رنز بنائے تھے جواب میں آسٹریلیا نے ہدف دو وکٹوں کے نقصان پر 4۔17 اووز میں حاصل کرلیا۔ اننگز کے اختتام پر ہسی 45 اور وائٹ 21 رنز کے ساتھ ناٹ آؤٹ رہے۔ جنوبی افریقہ کی طرح آسٹریلیا کو بھی ابتداء میں نقصان اٹھانا پڑا اور اس کی پہلی وکٹ دس کے مجموعی سکور پر گری۔ تاہم بعد میں شین واٹسن اور ہسی نے عمدہ بیٹنگ کا مظاہرہ کیا اور ٹیم کے مجموعی سکور کو 109 رنز تک پہنچا دیا۔ شین واٹسن دو چھکوں اور 8 چوکوں کی مدد سے 70 رنز بنا کر پیٹرسن کی گیند پر کیچ آؤٹ ہوگئے۔

اس سے پہلے جنوبی افریقہ کی اننگز کا آغاز اچھا ثابت نہیں ہوا اور صفر کے سکور پر لیوی بولڈ ہوگئے۔ ٹیم کو دوسرا نقصان آٹھ کے سکور پر کیلس کی صورت میں اٹھانا پڑا، انہوں نے چھ رنز بنائے۔ ہاشم آملہ 17 رنز بنا کر واٹسن کی گیند پر کیچ آؤٹ ہوئے۔ اس کے بعد ڈومینی نے بیٹنگ لائن کو سہارا دیا اور 30 رنز بنا کر کیچ آؤٹ ہوئے۔ اس کے بعد پیٹرسن اور بہار دین نے بالترتیب چھ چوکوں کی مدد سے 32 اور دو چوکوں ایک چھکے کی مدد سے 31 رنز بنائے اور ناٹ آؤٹ رہے۔

یہ میچ جنوبی افریقہ کے لیے انتہائی اہم تھا کیونکہ اس کے لیے مقابلے میں موجود رہنے اور سیمی فائنل میں جانے کی امید برقرار رکھنے کے لیے یہ میچ جیتنا ضروری تھا۔ واضح رہے کہ دو دن قبل جمعہ کو جنوبی افریقہ کی ٹیم ایک سنسنی خیز مقابلے میں پاکستان سے آسان میچ ہار گئی تھی۔

سچی توبہ

اﷲ تعالیٰ کی نازل کردہ تمام آفاقی کتابوں میں اپنے رب کو ایک ماننے کی تعلیم دی گئی ہے اور صرف اسی کی عبادت کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ قرآن حکیم میں بھی بار بار توبہ کرنے کا ذکر آیا ہے۔ اسی طرح احادیث نبوی یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات و فرامین میں بھی اکثر مقامات پر اپنے رب سے اپنی تمام اگلی اور پچھلی غلطیوں، لغزشوں اور گناہوں پر توبہ کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔

حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم علیہ الصلوٰۃ و التسلیم نے ارشاد فرمایا: ’’میں دن میں ستر بار سے بھی زیادہ اﷲ تعالیٰ سے توبہ کرتا ہوں۔‘‘
(بخاری شریف)

اہل ایمان کے لیے حکم ہے کہ وہ توبہ کریں، بار بار کریں اور اس انداز سے کریں جس سے نصیحت و راہ نمائی بھی ملے اور یہ دوسروں کے لیے بھی تقلید کا سبب بنے۔

رسول مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد پاک ہے: ’’اے لوگو! اﷲ تعالیٰ سے توبہ کرو اور اس سے بخشش مانگو، میں دن میں سو بار توبہ کرتا ہوں۔‘‘ (مسلم شریف)

پروردگار عالم اپنے پاک کلام میں ارشاد فرماتا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ صرف صاحبان ایمان ہی توبہ کرتے ہیں، کیوں کہ وہ توبہ کی اہمیت بھی جانتے ہیں اور اس کے فوائد سے بھی آگاہ ہیں۔

کائنات کا خالق اس وقت بڑی خوشی کا اظہار فرماتا ہے جب اس کے ایمان والے بندے توبہ کرکے اپنی اصلاح کرلیتے ہیں اور فرماں برداروں میں شامل ہوجاتے ہیں۔ اس وقت باری تعالیٰ اپنے ان بندوں کی توبہ قبول کرلیتا ہے اور پھر وہ لوگ اپنے گناہوں سے ایسے پاک صاف ہوجاتے ہیں جیسے ماں کے پیٹ سے آج ہی پیدا ہوئے ہوں۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’وہ مومن توبہ کرنے والے، عبادت کرنے والے، حمد کرنے والے، سفر کرنے والے، رکوع کرنے والے، سجدہ کرنے والے، پسندیدہ باتوں کی تلقین کرنے والے، ناپسندیدہ باتوں سے منع کرنے والے اور اﷲ کی حدوں کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ (اور اے نبی) آپ ان مومنوں کو خوش خبری دے دیجیے۔‘‘
(سورۃ التوبہ آیت112)

اس آیۂ مبارکہ میں اﷲ رب العزت نے مومن یعنی اہل ایمان انہی لوگوں کو قرار دیا ہے جو اﷲ رب العزت کے وجود کو تسلیم کرتے ہیں اور اس کی وحدانیت پر ایمان لاتے ہیں۔

جب وہ اﷲ رب العزت کو اپنا خالق تسلیم کرلیتے ہیں تو پھر ان پر لازم ہوجاتا ہے کہ وہ اسی پالنے والے کی عبادت کریں، اسی کے آگے اپنا سر جھکائیں، اسی سے فریاد کریں اور اسی کے سامنے دست طلب دراز کریں۔ اہل ایمان جب دل سے ایمان والے ہوجاتے ہیں تو پھر انھیں کچھ حدود اور پابندیوں کا بھی خیال رکھنا پڑتا ہے۔

مثال کے طور پر ایمان لانے کے بعد ان کا فرض ہوجاتا ہے کہ وہ تمام اچھی اور پسندیدہ باتوں کو عوام الناس میں پھیلائیں اور دوسروں کو بھی ان پر عمل کرنے کی ہدایت کریں۔ اس کے ساتھ ان پر یہ فرض بھی عائد ہوجاتا ہے کہ وہ خود بھی ناپسندیدہ باتوں سے بچیں اور دوسروں کو بھی ان سے بچنے کی نصیحت کریں، بلکہ عملی طور پر انھیں ناپسندیدہ باتوں سے بچائیں۔

اس کے ساتھ ساتھ ایمان والوں کی ایک اور نشانی یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ وہ اﷲ کی حدود کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ اس سے مراد یہ ہے کہ اہل ایمان صرف اس حد تک جاتے ہیں جہاں تک جانے کی اجازت ان کے پروردگار نے دی ہے اور اس حد کو عبور کرنے کی کوئی کوشش نہیں کرتے۔ جس کام کی اجازت ان کا رب دے رہا ہے، وہ کام یہ لوگ خوشی سے کرتے ہیں اور جس کام سے رکنے کا حکم دے رہا ہے، اس سے رک جاتے ہیں۔

چناں چہ اس موقع پر اﷲ تعالیٰ ان لوگوں کے لیے خوشی اور مسرت کا اظہار کرتے ہوئے اپنے پیغمبر حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مخاطب ہوکر ارشاد فرماتا ہے:’’(اور اے نبی) آپ ان مومنوں کو خوش خبری دے دیجیے۔‘‘

خوش خبری کس بات کی؟ اس بات کی کہ انہوں نے جس طرح اﷲ رب العزت کے احکام کی تعمیل کی اور اس کی فرماں برداری کی، اس سے خوش ہوکر اﷲ ان سے راضی ہوگیا اور اب انہیں اخروی کام یابی عطا ہوگی۔ یہ خوش خبری بھی ہمارا مالک اپنے رسول، ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے دے رہا ہے۔ اہل ایمان کے لیے اس سے بڑی سعادت اور کیا ہوگی۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’جو شخص مغرب کی طرف سے طلوع آفتاب سے پہلے پہلے توبہ کرلے، اﷲ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرماتا ہے۔‘‘ (مسلم شریف)

یہاں مغرب کی طرف سے سورج طلوع ہونے کا جو حوالہ دیا گیا ہے، اس سے مراد یہ ہے کہ یہ منظر صرف روز قیامت ہی طلوع ہوگا، اور اس قیامت کے بعد نہ کسی کی توبہ قبول ہوگی اور نہ ہی اس کا وقت ہی باقی رہے گا، اس لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اہل ایمان کو مذکورہ بالا حدیث کے ذریعے یہ ہدایت فرمائی ہے کہ وہ توبہ کا وقت گزرنے سے پہلے توبہ کرلیں تاکہ بعد کے پچھتاوے سے بچ سکیں۔

کتاب مبین میں ایک اور جگہ ارشاد ہوتا ہے:’’کچھ شک نہیں کہ اﷲ تعالیٰ توبہ کرنے والوں اور پاک صاف رہنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔‘‘ (سورۂ بقرہ222)

یہاں بھی وہی بات دہرائی گئی ہے کہ جو لوگ اﷲ تعالیٰ سے توبہ کرتے ہیں، اس کے آگے سر جھکاتے ہیں اور اس کے حکم کے مطابق خود کو پاک اور صاف رکھتے ہیں، گندگی اور غلاظت سے بچتے ہیں، ایسے لوگوں کا شمار اﷲ کے پسندیدہ لوگوں میں ہوتا ہے اور ایسے لوگ اﷲ کے دوست ہیں۔

بے شک وہ ایسے ہی دوستوں سے خوش ہوتا ہے اور انھیں اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے جنت کی بشارت دیتا ہے۔

سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں جب دعوت حق کا سلسلہ شروع ہوا تو عرب معاشرے کے ایسے ایسے لوگوں نے صدق دل سے اسلام قبول کیا جن کا ماضی اچھا نہیں تھا۔ وہ لوگ ہر طرح کی معاشرتی برائیوں میں پھنسے ہوئے تھے۔ مگر جب وہ اسلام کی دولت سے مالا مال ہوئے اور نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لائے تو ان کی دنیا ہی بدل گئی۔

انھوں نے خلوص دل سے اپنے داغ دار ماضی کے لیے اﷲ رب العزت سے توبہ کی اور آئندہ کے لیے راہ راست پر رہنے کا عہد کیا۔ اس کے بعد اﷲ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول کرلی اور پھر ان کے درجات ایسے بلند ہوئے کہ وہ صحابۂ کرام کے منصب پر فائز ہوئے یعنی رسول کریمصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھی کہلائے۔

ہمارے بزرگ اور دوست ذرا اس بات پر غور فرمائیں کہ اس پالن ہار نے کس طرح ان عربوں کی کایا پلٹی جس کے نتیجے میں یہ معاملہ بنا کہ اﷲ ان سے راضی ہوا اور وہ اﷲ سے راضی ہوگئے۔ اﷲ جن سے راضی ہوجائے، پھر وہ اسی کے ہوجاتے ہیں، اس کی پناہ میں آجاتے ہیں۔ وہی ان کا محافظ ہوتا ہے اور وہی ان کا مددگار! ان کا پروردگار انہیں ہر طرح کی پریشانیوں سے بچالیتا ہے اور انہیں سکینہ کی کیفیت کا بے مثال تحفہ عطا فرمادیتا ہے۔

سکینہ کیا ہے؟ سکینہ ایک ایسی کیفیت ہے جو انسان کو تمام مشکلات اور پریشانیوں سے نجات دلا دیتی ہے۔ اس کیفیت میں مبتلا ہونے والے خوش قسمت افراد کے اندر کی بے چینی اور اضطراب مکمل طور پر ختم ہوجاتا ہے۔ وہ قلبی سکون اور سلامتی کے احساس سے سرشار ہوجاتے ہیں۔

پھر وہ مرحلہ آجاتا ہے کہ سکینہ سے فیض یاب ہونے والوں کو اپنے پالن ہار کے سوا اور کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ وہ صرف اﷲ کی یاد میں مگن ہوجاتے ہیں اور دنیاوی دکھوں و پریشانیوں کے حصار سے نکل جاتے ہیں۔ اس وقت انھیں یہ اندازہ ہوجاتا ہے کہ دنیا کا کوئی دکھ ہو یا پریشانی، کوئی تکلیف ہو یا آزمائش، اس میں مبتلا کرنے والی بھی اﷲ کی ذات ہے اور اس سے نکالنے والی بھی یہی ذات ہے۔

جب یہ احساس فروغ پاجائے تو پھر انسان اپنے دکھ درد یا پریشانی کا ذمہ دار کسی انسان کو نہیں سمجھتا، بلکہ اسے اپنے رب کا حکم سمجھ کر اس پر راضی ہوجاتا ہے۔ سکینہ کا انعام اﷲ تعالیٰ کی جانب سے صرف پسندیدہ بندوں کو ہی عطا کیا جاتا ہے۔

آج ہمارے معاشرے کا حال بہ حیثیت مجموعی کچھ ایسا ہوگیا ہے کہ ہر انسان دوسرے انسان سے پریشان ہے، اس سے ڈر رہا ہے، اس سے خوف کھارہا ہے۔ ہر فرد دوسرے فرد کو شک کی نظر سے دیکھ رہا ہے۔

اسے کسی پر بھی اعتبار نہیں رہا ہے۔ ہر شخص دوسرے شخص کو اپنا استحصالی سمجھ رہا ہے اور سوچ رہا ہے کہ کہیں یہ میرا مال یا میری جائیداد ہڑپ نہ کرلے، کہیں میرا مال و متاع نہ چھین لے، کہیں میرا عہدہ، میری کرسی نہ چھین لے، کہیں میری عزت کے درپے نہ ہوجائے۔

کسی کو بھی اس بات کا احساس نہیں ہے کہ اس کے ذہن میں جتنے بھی خیالات آرہے ہیں، جتنے اندیشے، وسوسے اور خدشات اسے پریشان کررہے ہیں، یہ سب پروردگار عالم کی طرف سے اس کے لیے آزمائش ہیں۔ وہ جب چاہے گا، انھیں خود ہی دور کردے گا۔ وہ کسی کے حکم کا پابند نہیں ہے۔

لیکن وہ اپنے محبوب بندوں کی جائز خواہشات اور تمناؤں سے واقف ہے اور اگر انھیں مناسب سمجھتا ہے تو عطا کردیتا ہے ورنہ بعد کے لیے یعنی آخرت کے لیے ذخیرہ کردیتا ہے۔ لیکن وہ اپنے رحم و کرم سے اپنے بندوں کو سکینہ کا تحفہ ضرور عطا کرتا ہے جو بلاشبہہ مقدر والوں کو ہی نصیب ہوتا ہے۔

حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’اﷲ تعالیٰ بندے کی توبہ قبول کرتا ہے جب تک حالت نزع نہ طاری ہوجائے۔‘‘ (ترمذی) امام ترمذی نے اسے احسن کہا ہے۔

اس حدیث پاک میں بھی ایک نصیحت اور ایک وارننگ ہے۔ ارشاد ہورہا ہے کہ اﷲ رب العزت اپنے بندے کی توبہ صرف اس وقت تک قبول کرتا ہے جب تک اس پر نزع طاری نہ ہوجائے یعنی وہ مرض الموت کی کیفیت میں مبتلا نہ ہوجائے، گویا اﷲ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ اسی وقت تک قبول فرماتا ہے جب تک وہ اپنے ہوش و حواس میں رہتا ہے، لیکن جیسے ہی وہ اس نزاعی کیفیت میں مبتلا ہوجاتا ہے جس کے بعد اسے بہرصورت مرنا ہوتا ہے تو پھر توبہ کے دروازے بند ہوجاتے ہیں۔

اﷲ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ سبھی مسلمانوں کو یہ توفیق عطا فرمائے کہ وہ ہر وقت اس سے توبہ کرتے رہیں، نہ جانے کب موت سر پر آن پہنچے اور انہیں توبہ کرنے کی مہلت بھی نہ ملے۔

دل کا خیال رکھیں

اسلام آباد — دنیا بھر میں ہر سال تقریباً ایک کروڑ ستر لاکھ سے زائد افراد دل کی بیماریوں کے باعث موت کا شکار ہوجاتے ہیں اور عالمی ادارہ صحت کے مطابق 2030ء تک یہ تعداد دو کروڑ 40 لاکھ تک پہنچ جائے گی۔

ماہرین صحت کا کہنا ہے پاکستان میں بھی امراض قلب اموات کی ایک بڑی وجہ ہیں لیکن صحت مندانہ طرز زندگی اپنا کر امراض قلب پر بہت حد تک قابو پایا جاسکتا ہے۔

وفاقی دارالحکومت کے ہسپتال پولی کلینک میں شعبہ امراض قلب کے سربراہ ڈاکٹر شہباز احمد قریشی کا کہنا ہے کہ ایسے افراد جن کے خاندان میں دل کے مریض پہلے سے موجود ہوں یا جن میں ذیابیطس اور بلند فشار خون یعنی ہائی بلڈ پریشر کا عارضہ پایا جاتا ہو انھیں دل کی بیماریوں کا خطرہ دوسرے لوگوں کی نسبت زیادہ ہوتا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے امراض قلب کی تعریف کچھ یوں بیان کی۔ ’’جسم کو خون پہنچانے والی شریانیں پیدائش کے وقت چائنز سلک کی طرح ہوتی ہیں جیسے جیسے ہم غلط غذائیں کھاتے ہیں، بلڈ پریشر کو زیادہ رکھتے ہیں، تمباکو نوشی کرتے ہیں تو یہ اندر سے کھردری ہونا شروع ہوجاتی ہیں اور وہ کھردرا پن بنیاد بنتا ہے، شریان تنگ ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ تو پھر ایک وقت آتا ہے کہ اس شریان کے ذریعے خون جسم کے جس حصے کو پہنچنا چاہیے وہ نہیں پہنچتا۔‘‘

امراض قلب کی عام علامات میں سینے میں درد جو کہ بازوؤں کی طرف پھیلے، جبڑوں میں درد، سینے کی پچھلی جانب درد اور دباؤ اور ساتھ ہی پسینہ آنا شامل ہیں۔ طبی ماہرین کہتے ہیں کہ ایسی کسی علامت کے ظاہر ہونے پر فوراً معالج سے رابطہ کرنا چاہیے۔

ڈاکٹر شہباز قریشی کہتے ہیں چند احتیاطی تدابیر کے ذریعے دل کی بیماریوں سے بچا جاسکتا ہے اور جن کو یہ بیماری لاحق ہوچکی ہے وہ ان کے بقول اس سے بہتر طور پر نمٹ سکتے ہیں۔

’’صحت مندانہ طرز زندگی اپنائی جائے، روزانہ ورزش کی جائے، اپنے بلڈ پریشر کا خیال رکھا جائے، نمک کا استعمال کم سے کم کیا جائے، کولیسٹرول اور اپنے وزن پر دھیان دیا جائے اور خاص طور پر کمر یا پیٹ کے گرد چربی کو بڑھنے سے روکا جائے۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ بچوں کو شروع ہی سے صحت بخش غذا اور ان کے معمولات کو صحت مندانہ رکھنے اور ان کی خوراک میں روزانہ ایک سیب شامل کرنے سے آئندہ سالوں میں انھیں اس بیماری سے بچانے میں بہت مدد مل سکتی ہے۔

دل کا خیال رکھیں

ہفتہ, ستمبر 29, 2012

حج کی مختصر اور جامع معلومات

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکتہ

حج بیت اللہ کے لئے حجاز مقدس جانے اور حج کی ادائیگی سے متعلق ضروری باتیں ذہہن نشین کرلینی چاہیے۔ حج کے مخصوص ایام میں جو کام کرنا لازمی ہیں ان کی مختصر اور جامع تفصیل درج ذیل ہے۔


مسجد میں نماز کے انتظار میں بیٹھنے کی فضیلت

صحیح بخاری
کتاب الاذان
(اذان کے مسائل کے بیان میں)
باب: جو شخص مسجد میں نماز کے انتظار میں بیٹھے اس کا بیان اور مساجد کی فضیلت
حدیث نمبر: 659
حدثنا عبد الله بن مسلمة، عن مالك، عن أبي الزناد، عن الأعرج، عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏”الملائكة تصلي على أحدكم ما دام في مصلاه ما لم يحدث اللهم اغفر له، اللهم ارحمه‏.‏ لا يزال أحدكم في صلاة ما دامت الصلاة تحبسه، لا يمنعه أن ينقلب إلى أهله إلا الصلاة“.‏
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا امام مالک سے، انھوں نے ابوالزناد سے، انھوں نے اعرج سے، انھوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”ملائکہ تم میں سے اس نمازی کے لیے اس وقت تک یوں دعا کرتے رہتے ہیں۔ جب تک (نماز پڑھنے کے بعد) وہ اپنے مصلے پر بیٹھا رہے کہ اے اللہ! اس کی مغفرت کر۔ اے اللہ! اس پر رحم کر۔ تم میں سے وہ شخص جو صرف نماز کی وجہ سے رکا ہوا ہے۔ گھر جانے سے سوا نماز کے اور کوئی چیز اس کے لیے مانع نہیں، تو اس کا (یہ سارا وقت) نماز ہی میں شمار ہوگا۔


جو شخص مسجد میں نماز کے انتظار میں بیٹھے اس کا بیان اور مساجد کی فضیلت

جمعہ, ستمبر 28, 2012

گستاخانہ فلم کی ہیروئن کا فلمساز، یو ٹیوب اور گوگل کے خلاف عدالت میں درخواست

گستاخانہ فلم میں کام کرنے والی ہیروئن سنڈی لی گارسیا نے فلمساز، یو ٹیوب اور گوگل کے خلاف امریکی وفاقی عدالت میں درخواست دائر کردی ہے۔ گزشتہ ہفتے لاس اینجلس کی اعلیٰ عدلیہ نے اداکارہ کی درخواست مسترد کردی تھی جس میں استدعا کی گئی تھی کہ یو ٹیوب کو عارضی طور پر اس فلم کو چلانے سے روک دیا جائے۔ اداکارہ نے وفاقی عدالت میں دائر اپنی درخواست میں کاپی رائٹ کی خلاف ورزی کے ساتھ ساتھ فلمساز پر دھوکہ دہی کا الزام بھی عائد کیا ہے۔ گارسیا کے مطابق فلمساز نکولا باسلے نے سام باسیلی کے فرضی نام سے کام کیا اور مجھے اور دیگر اداکاروں کو دھوکا دیا کہ ہم صحرائی جنگجو نامی فلم میں کام کررہے ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ میرے ڈائیلاگ پر ڈبنگ بھی کی گئی۔ اداکارہ نے کہا کہ اس سے ایسا لگتا ہے کہ فلم میں سب کچھ میں نے خود سے کیا، اس کے بعد میری زندگی کو خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔

یو ٹیوب کا بائیکاٹ؛ گوگل رینکنگ میں تیسرے نمبر پر

کمپنی کو ناقابل تلافی نقصان، روزانہ 30 لاکھ صارفین کی کمی کا سامنا ہے

دنیا بھر میں یو ٹیوب کے بائیکاٹ کی وجہ سے گوگل کو نا قابل تلافی نقصان کا سامنا ہے، کمپنی رینکنگ پہلے نمبر سے تیسرے نمبر پر آ گئی ہے اور اسے روزانہ 30 لاکھ صارفین کی کمی کا سامنا ہے۔

انٹرنیٹ کی ٹریفک رینکنگ پر نظر رکھنے والے پورٹل ’الیکسا‘ نے اپنی حالیہ رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ گزشتہ ایک ہفتے سے مسلمان ملکوں میں معروف سرچ انجن گوگل اور اس کی ملکیتی یو ٹیوب کے بائیکاٹ نے کمپنی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ یو ٹیوب سے گستاخانہ فلم نہ ہٹانے پر گوگل کے بائیکاٹ کی وجہ سے کمپنی رینکنگ میں پہلے نمبر سے تیسرے پر آ گئی ہے۔ سائبر سپیس پر حکمرانی کرنے والی گوگل کمپنی یومیہ 30 لاکھ وزیٹرز سے محروم ہو رہی ہے۔ الیکسا کے مطابق گوگل پچھلے آٹھ برسوں سے انٹرنیٹ سرچ انجن کی دنیا میں پہلے نمبر پر رہا ہے، لیکن صارفین کے حالیہ بائیکاٹ سے کمپنی پہلے، دوسرے اور اب تیسرے نمبر پر چلی گئی ہے۔ 

اردن سے شائع ہونے والے ”الدستور“ اخبار نے گوگل کی گرتی ساکھ سے متعلق اپنی رپورٹ میں مغربی میڈیا کے حوالے سے بتایا کہ ’متنازع مواد‘ بلاک نہ کرنے کے باعث انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں نے گوگل سرچ انجن کا متبادل تلاش کرنا شروع کردیا ہے۔ گوگل کی مقبولیت میں تیزی سے کمی کا فائدہ کمپنی سے کاروباری مسابقت رکھنے والے سرچ انجن اٹھا رہے ہیں۔


جمعرات, ستمبر 27, 2012

سام سنگ کا نیا سمارٹ فون گلیکسی نوٹ ٹو

گیلیکسی نوٹ ٹو کی ٹچ سکرین کا سائز 5.5 انچ ہے
سام سنگ نے اپنا ’اوور سائز‘ سمارٹ فون گلیکسی ٹو کا نیا ورژن متعارف کرا دیا ہے۔ ایپل کے آئی فون فائیو کی فروخت شروع ہونے کے محض ایک ہفتے بعد متعارف کرایا جانے والا گلیکسی نوٹ ٹو دراصل ایپل فون کا مقابلہ کرنے کی کوشش ہے۔

ایپل کمپنی کے آئی فون فائیو کے پہلے ہی ہفتے میں 50 لاکھ یونٹس فروخت ہوئے ہیں۔ ماہرین کے مطابق ایپل کا مقابلہ کرنے کے لیے سام سنگ محض ایک کی بجائے صارفین کے لیے زیادہ سے زیادہ پراڈکٹس مارکیٹ میں لا رہا ہے۔ گلیکسی نوٹ گزشتہ برس نومبر میں متعارف کرایا گیا تھا۔

جنوبی کوریا کی کمپنی سام سنگ کی طرف سے اعلان کیا گیا ہے کہ گلیکسی نوٹ ٹو بہت جلد امریکا سمیت دنیا کے 128 ممالک میں فروخت کے لیے پیش کر دیا جائے گا۔ گلیکسی نوٹ ٹو سام سنگ کے معروف گلیکسی ایس کے مقابلے میں سائز میں کچھ بڑا ہے۔ اس کے ساتھ ایس پین 'S pen' بھی فراہم کیا گیا ہے جس کی مدد سے صارف اپنی اسکرین پر نہ صرف نوٹس تحریر کر سکتا ہے بلکہ ڈرائنگ بھی کر سکتا ہے۔

سام سنگ کے موبائل یونٹ کے سربراہ جے کے شِن J.K. Shin کے مطابق، ’’ہمیں یقین ہے کہ گلیکسی نوٹ ٹو کی فروخت پہلے تین ماہ کے دوران اس کے گزشتہ ورژن کی فروخت کے مقابلے میں دو گنا ہوگی۔‘‘

دنیا کے ٹاپ سمارٹ فون مینوفیکچرر سام سنگ کی طرف سے گلیکسی نوٹ گزشتہ برس نومبر میں متعارف کرایا گیا تھا۔ اس کے بعد سے اب تک اس کے 10 ملین یونٹس فروخت ہوچکے ہیں۔ جبکہ رواں برس مئی کے آخر میں متعارف کرائے جانے والے سام سنگ کے معروف ترین سمارٹ فون گلیکسی ایس تھری کے اب تک 20 ملین سے زائد یونٹس فروخت ہوچکے ہیں۔

شِن کا گلیکسی نوٹ کے حوالے سےکہنا تھا، ’’عالمی مارکیٹ میں اس نئی پراڈکٹ کیٹیگری کے لیے جگہ بنانے میں کچھ وقت ضرور لگا، مگر اب ہمیں ماضی کے مقابلے میں صارفین کا زیادہ بہتر رد عمل مِل رہا ہے۔‘‘

گلیسکی نوٹ ٹو میں گوگل کا اینڈرائڈ آپریٹنگ سسٹم موجود ہے۔ اس میں 1.6 گیگاہرٹز کا کواڈ کور پروسیسر نصب کیا گیا ہے جو نہ صرف گزشتہ ڈوئل کور کے مقابلے میں کہیں زیادہ طاقتور ہے بلکہ اس میں ایک ہی وقت میں کئی ایک ایپلیکیشنز استعمال کی جا سکتی ہیں۔ Galaxy Note II کی ٹچ اسکرین کا سائز 5.5 انچ ہے اس فون کی لمبائی 15.1 سینٹی میٹر (5.9 انچ)، چوڑائی 8 سینٹی میٹر جبکہ موٹائی 9.4 ملی میٹر ہے۔ اس کی ٹچ سکرین کا سائز 5.5 انچ ہے۔ اس میں سکرین کو دو حصوں میں تقسیم کرکے بیک وقت دو پروگرام دیکھنے کی سہولت بھی موجود ہے۔

سام سنگ کے موبائل یونٹ کے سربراہ جے کے شِن J.K. Shin کے مطابق، ’’آپ اپنی ای میل چیک کرتے ہوئے چیٹ میسجز کا جواب بھی دے سکتے ہیں یا بیک وقت ویڈیو کانفرنس بھی جاری رکھ سکتے ہیں۔ یا پھر کسی اہم مقرر کی ویڈیو تقریر دیکھتے ہوئے بیک وقت نوٹس بھی لے سکتے ہیں۔‘‘

گلیکسی کی طرف سے اپنی نئی پراڈکٹ کو ایک ایسے وقت پر لانچ کیا گیا ہے کہ جب اہم سمارٹ فون مینوفیکچررز کی جانب سے یکے بعد دیگرے اپنے نئے ماڈلز متعارف کرائے جا رہے ہیں۔

ایپل کے آئی فون کے علاوہ، سام سنگ کے نسبتاً چھوٹے مدمقابل ایل جی الیکٹرونکس کی طرف سے بھی گزشتہ ہفتے Optimus G بھی متعارف کرایا گیا ہے۔ ایل جی کو امید ہے کہ وہ رواں برس اپنے 80 ملین سمارٹ فون فروخت کرنے کے ہدف کو حاصل کر لے گی۔

سام سنگ کا نیا اسمارٹ فون گلیکسی نوٹ ٹو

180 کلومیٹر لمبا ٹریفک جام

اگلی بار اگر آپ ٹریفک جام کی شکایت کریں تو ایک بار برازیل کے سب سے بڑے شہر ساؤ پالو کے ڈرائیوروں کو ضرور یاد کریں۔ کیونکہ یہ ایک ایسا شہر ہے جس میں سب سے خراب ٹریفک جام ہوتا ہے۔ اور اگر جمعہ کی شام ہو تو بس پھر گاڑي والوں کے لیے وہ سب سے خراب دن ثابت ہوتا ہے۔ برازیل میں ٹریفک حکام کا کہنا ہے ’جمعہ کے دن گاڑیوں کی شہر کے اندر اور باہر اتنی لمبی قطار لگ جاتی ہے کہ 180 کلومیٹر طویل گاڑیوں کا کارواں لگ جاتا ہے۔‘

اپنے دس ماہ کے بیٹے کے ساتھ کار چلا رہی فابیانا کرسٹو دھیرے دھیرے گاڑیوں سے بھری سڑکوں سے اپنی گاڑی نکالتے ہوئے کہتی ہیں ’یہ ایک سمندر ہے، کار کا سمندر۔ میں شہر کے جنوبی حصے میں رہتی تھی اور شہر کے دوسرے سرے پر کام کرتی تھی۔ جب میری شادی ہوئی تو میں نے آفس کے قریب شہر کے شمالی حصے میں رہنے کا فیصلہ کیا کیونکہ ٹریفک میں ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا آپ کی زندگی کو جہنم بنا سکتا ہے‘۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے پہلے بیٹے کی پیدائش کے بعد انہیں اپنے خاندانی کاروبار کو سنبھالنے کے لیے واپس جنوبی حصے میں جانا پڑا اور اب انہیں کام پر جانے کے لیے روز شہر سے گزرنا پڑتا ہے۔ فابیانا کو صرف ایک طرف کا راستہ طے کرنے میں دو گھنٹے لگتے ہیں۔

ٹریفک جام ایک ایسا مسئلہ ہے جو ساؤ پالو ہی نہیں دنیا کے ہر ملک میں ہے۔ اس شہر میں ہر گاڑی چلانے والے کی یہی کہانی ہے اور یہاں مقامی ریڈیو ٹریفک کے بارے میں معلومات فراہم کرتے رہتے ہیں۔ یہاں ایک ریڈیو سٹیشن ’سل امریکہ ٹریفک ریڈیو‘ خاص طور پر ساتوں دن چوبیس گھنٹے لوگوں کو ٹریفک اور متبادل کے طور پر نئے راستے اپنانے کے بارے میں معلومات دینے کا کام کرتا ہے۔ اس ریڈیو سٹیشن کو سننے والوں کی تعداد بھی بہت ہے کیونکہ یہ ریڈیو سٹیشن ان کے لیے رپورٹر کا کام کرتا ہے۔ اگر مصروف وقت ہو تو اس سٹیشن میں کام کرنے والے رپورٹر ہی جام میں پھنس جاتے ہیں اور سٹیشن کے پاس ہیلی کاپٹر کی بھی سہولت ہوتی ہے۔

اس ریڈیو سٹیشن میں کام کرنے والوں میں سے ایک وکٹوریہ ربیرو ہیں جن کا کام ہے شہر میں گھوم کر ٹریفک کا جائزہ لینا۔ ’میں اس سٹیشن کے شروع ہونے سے ہی اس میں کام کر رہی ہوں اور میں نے محسوس کیا ہے کہ ٹریفک کی صورتحال بدتر ہوئی ہے کیونکہ گاڑیوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔‘

گزشتہ ایک دہائی میں برازیل میں گاڑیوں کی صنعت نے ریکارڈ پیداوار کی ہے۔ اس کی وجہ معاشی ترقی کی شرح کی وجہ سے وہاں لاکھوں لوگوں کی تنخواہ میں اضافہ ہے۔

ساؤ پالو میں 180 کلومیٹر لمبا ٹریفک جام

پاکستان کے 5 کروڑ 87 لاکھ افراد غربت کا شکار

پاکستان میں غربت کی شرح میں دن بدن اضافہ دیکھنے میں آربا ہے، جب کہ پاکستان کی ایک تہائی سے زیادہ آبادی غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ غربت کی اِس بڑھتی ہوئی شرح کا اندازہ اِس بات سے لگایا جاسکتا ہےکہ 18 کروڑ آبادی والے ملک کی 33 فیصد آبادی ایسی ہے، جس کے5 کروڑ 87 لاکھ افراد خط غربت سے بھی نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

پاکستان کی غیر سرکاری تنظیم تھنک ٹینک، ’سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ پالیسی انسٹی ٹیوٹ‘ نے پاکستان میں بڑھنےوالی غربت پر تحقیقی رپورٹ جاری کی ہے جِس کے مطابق پاکستان کی ایک تہائی آبادی انتہائی غربت اور مفلسی کا شکار ہے۔

صوبائی لحاظ سے غربت کی یہ شرح صوبہ بلوچستان میں سب سے زیادہ 52 فیصد، صوبہ سندھ میں 33 فیصد، صوبہ خیبر پختونخوا میں 32 اور پنجاب میں سب سے کم، یعنی صرف 19 فیصد ہے۔

موجودہ دور میں پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ غربت ہےجس کی وجہ مہنگائی میں روز بروز اضافہ، دولت کی غیر مساویانہ تقسیم، وسائل میں کمی، بےروزگاری اور بڑھتی ہوئی آبادی ہے۔ دیہی علاقوں کے ساتھ ساتھ شہری آبادی میں بھی غربت میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ تحقیقی اعداد و شمار کے مطابق غربت میں ہونے والا مزید اضافہ جہاں ملک کے لئے تشویش کا باعث ہے وہیں غربت کا شکار افراد بھی کئی نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہیں۔ پاکستان سے غربت کا خاتمہ حکومت کے لئے ایک بڑا چیلنج ہے۔

پاکستان کے 5 کروڑ 87 لاکھ افراد غربت کا شکار

چیف جسٹس کے خلاف ایک اور ”دھماکے“ کی تیاری

چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری پر ایک اور حملے کی تیاری ہو رہی ہے۔ تیاری کرنے والوں کا کہنا ہے کہ نوّے فیصد کام ہوچکا اور جیسے ہی دس فیصد کمی پوری ہوتی ہے، ”دھماکا“ کردیا جائے گا۔ یہ نہیں بتایا جا رہا کہ ”دھماکا“ ہے کیا مگر چیف جسٹس مخالف لابی پُر امید ہے کہ ایک ہفتہ تک کام مکمل ہوجائے گا۔ ایک صاحب کا فرمانا ہے کہ حملہ اس مرتبہ مکمل اور ناقابل شکست ہوگا اور ثبوت بھی پکے ہوں گے۔ نجانے افتخار چوہدری کے مخالف اب کیا کرنے پر تلے ہوئے ہیں مگر ابھی تک ہم نے دیکھا کہ چیف جسٹس پر اللہ کا خاص کرم ہے۔ جنرل مشرف اور ان کے حواریوں نے کیا کچھ نہیں کیا، کون کون سے ”دھماکے“ نہیں کروائے مگر ہر ”دھماکے“ کے بعد اللہ تعالیٰ نے افتخار محمد چوہدری صاحب کو مزید عزّت دی۔ جو جو بھی چیف جسٹس کو جانتا ہے وہ سب اس بات پر متفق ہیں کہ وہ کرپشن سے ہمیشہ پاک رہے۔ کیا کوئی یہ سوچ سکتا ہے کہ اعلیٰ ترین عدالتوں کا جج ہونے اور بلوچستان ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ آف پاکستان کا چیف جسٹس ہونے کے باوجود کسی شخص کے پاس پاکستان بھر میں رہنے کے لئے اپنا گھر نہ ہو۔ موجودہ حکومت نے حکومتی پالیسی کے تحت چیف جسٹس کو تین کروڑ کا پلاٹ دینے کی کوشش کی مگر اُنہوں نے لینے سے انکار کردیا۔ موجودہ سپریم کورٹ کے کئی اور جج صاحبان نے بھی یہ پلاٹ لینے سے انکار کردیا ہے۔ ریٹائرمنٹ کو ایک سال اور چند ماہ رہ گئے مگر افتخار محمد چوہدری صاحب کو ابھی تک کچھ معلوم نہیں کہ وہ اپنا گھر بنا بھی سکتے ہیں کہ نہیں۔ اعلیٰ حکومتی شخصیت کے ایک قریبی سینیٹر نے بار بار الزام لگایا کہ چیف جسٹس نے ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن کے قواعد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے قرضہ لیا۔ جب ہمارے رپورٹر احمد نورانی نے تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ یہ سراسر جھوٹ ہے۔ مگر ایسے کئی جھوٹ کچھ ٹی وی چینلز پر بار بار پیش کئے گئے تاکہ چیف جسٹس کو بدنام کیا جاسکے۔ ان تمام جھوٹوں کا پول ان شاءاللہ احمد نورانی بہت جلد عوام کے سامنے کھول کر رکھ دینگے۔

مگر یہاں سمجھنے کی یہ بات ہے کہ آخرکار افتخار محمد چوہدری سے ایسا کیا قصور سرزد ہوگیا کہ ہر طاقت ور اُن کا دشمن بن گیا۔ یہ تو وہ شخص ہے جس نے اس ملک کو آزاد عدلیہ دینے کا خواب شرمندہ¿ تعبیر کیا، جو تن تنہا کرپشن اور بدعنوانی کے خلاف لڑ رہا ہے، جو 18-18 گھنٹے کام کرتا ہے تاکہ اس ملک میں قانون کی حکمرانی ہو اور لوگوں کو انصاف ملے، جس کو خریدا نہیں جا سکا اور جھکایا نہیں جا سکا، جو عوام کے لئے آخری امّید کی کرن بن کر ابھرا ہے، جس نے گم شدہ افراد کا معاملہ اٹھایا اور ملٹری سٹیبلشمنٹ تک سے ٹکر لے لی، جس کی کاوشوں سے اس قوم کا کئی سو ارب روپیہ لٹیروں کی جیبوں سے نکالا گیا یا لٹنے سے بچایا گیا۔ ایسے شخص کو سراہنے اور اس کے ساتھ مل کر اپنے ملک کے مستقبل کو سنوارنے کی بجائے اس کے خلاف سازشوں پر سازشیں کی جارہی ہیں۔ چیف جسٹس کا یہی جرم ہے کہ انہوں نے ”بڑے بڑوں“ سے ایکا کرنے کی بجائے عوامی فلاح اور ملکی مفاد میں ہر ”بڑے“ سے ٹکر لینے کی ٹھان لی۔
مگر اللہ نے اس شخص کو اگر ہر شر سے محفوظ رکھا تو آزمائشیں بھی خوب دیں۔ چیف جسٹس کی آزمائشوں کا حال سنیئے کہ ان کے بیٹے کو کرپشن کے جال میں پھنسایا گیا۔ پھنسانے والوں نے کوئی ایف آئی آر کٹوائی اور نہ حکومت نے کارروائی کی۔ سارا زور میڈیا ٹرائل پر تھا۔ چیف جسٹس نے اپنے بیٹے کے خلاف نہ صرف سوموٹو نوٹس لیا بلکہ اسے اپنے گھر میں داخل ہونے سے روک دیا۔ ملک ریاض کے ارسلان کے خلاف الزامات مئی 2012ءمیں سامنے آئے مگر آج تک ارسلان افتخار کو اجازت نہیں کہ وہ اپنے باپ کے گھر جا سکے۔ گزشتہ ماہ عید الفطر کے موقع پر بھی باپ بیٹا نہیں ملے۔ چیف جسٹس نے عید کوئٹہ میں منائی جبکہ ارسلان افتخار نے اپنی ماں اور بہنوں کے ساتھ یہ تہوار لاہور میں منایا۔ اگر بیٹے پر کرپشن کے الزامات ہوں یا وہ کرپٹ ثابت بھی ہوجائے تو کیا اس سے باپ بیٹے کا رشتہ توڑا جا سکتا ہے مگر ہم نے چیف جسٹس کو ایسا کرنے پر مجبور کردیا۔
افتخار محمد چوہدری یقیناً کوئی فرشتہ نہیں مگر ان کے طاقت ور مخالف ان کے خلاف ابھی تک کوئی کیس بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ مشرف نے سارا جہاں چھان مارا مگر پیٹرول کی پرچیوں سے آگے اسے کچھ نہ ملا۔ آج کے طاقت ور کہتے ہیں کہ چیف جسٹس کے بیٹے نے پیسہ کہاں سے کمایا۔ ان کی فیملی نے عام ٹکٹ لے کر پی آئی اے میں فرسٹ کلاس میں کیسے سفر کیا اور نجانے کیا کیا۔ بھئی بیٹے نے اگر غلط کیا تو اُسے پکڑو۔ اگر چیف جسٹس نے قانون کی خلاف ورزی کی تو ان کے خلاف بھی ریفرنس لاؤ مگر یہ کیا کہ بس میڈیا کے ذریعے ”دھماکے“ پر ”دھماکا“ کئے جانا ہے، صرف اس لئے کہ افتخار محمد چوہدری کسی طاقت ور کے سامنے جھکنے کے لئے تیار نہیں اور یہی چیف جسٹس کا سب سے بڑا جرم بن گیا ہے۔ یہاں اپنے قارئین کے ساتھ ایک خبر بھی شیئر کرتا چلوں۔ ذرائع کے مطابق ارسلان کیس میں آئی ایس آئی کا نام آنے پر آرمی چیف جنرل پرویز کیانی نے ان خبروں کا سختی سے نوٹس لیا اور یہ احکامات دیئے کہ پاکستان کے اس پرائم انٹیلی جینس ادارے کو کسی بھی شخص کے مفاد کے لئے استعمال کرنے والے کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ انہی ذرائع کے مطابق جنرل کیانی نے اپنے بھائیوں کے بھی کان کھینچے ہیں جو ان کے لئے بدنامی کا باعث بن رہے تھے اور ان کو تنبیہ کی کہ وہ اپنے کاروباری معاملات میں صاف شفّاف رہیں۔ آئی ایس آئی کو تو کسی غیر قانونی کام سے باز رہنے کا سختی سے کہہ دیا گیا ہے مگر کوئی ہے جو اُن انٹیلی جینس اداروں کو دیکھے جو ججوں، صحافیوں اور دوسرے اہم لوگوں کے فون ریکارڈ کرکے پرائیویٹ طاقت ور افراد کو پہنچاتے ہیں۔

روزنامہ جنگ راولپنڈی

بدھ, ستمبر 26, 2012

A Math puzzle!

1. Grab a calculator. (you won't be able to do this one in your head)

2. Key in the first three digits of your phone number (NOT the area code like 0300 or 0333)

3. Multiply by 80
 

4. Add 1
 

5. Multiply by 250
 

6. Add the last 4 digits of your phone number

7. Add the last 4 digits of your phone number again.
 

8. Subtract 250
9. Divide number by 2
Do you recognize the answer????

بچے اگر خوف سے جاگ جائیں تو کیا کریں؟

کئی بچے سکول جانے سے پہلے کی عمر یا سکول کے ابتدائی دنوں میں رات کو نیند میں شدید خوف کا شکار ہوجاتے ہیں۔ بچوں کی اس حالت کو Night Terror کہتے ہیں اور اب ماہر ڈاکٹروں نے اس سے نمٹنے کا صحیح طریقہ بھی دریافت کرلیا ہے۔

رات کو نیند میں اچانک خوف کا شکار ہونے والے چھوٹے بچے جاگنے کے بعد یک دم چیخنا شروع کردیتے ہیں۔ ماں باپ کے لیے ان کو چپ کرانا انتہائی مشکل ثابت ہوتا ہے۔ ایسے بچے جاگنے اور آنکھیں کھلی ہونے کے باوجود اپنے والدین کی بات نہیں سنتے اور چند واقعات میں تو یہ بچے خود کلامی بھی شروع کردیتے ہیں۔

بچوں کے امراض کے ماہر ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ایسی حالت میں والدین کو بچے کو گود میں لے کر اس سے آہستہ آواز میں بات کرنی چاہیے۔ بچے کو یہ احساس دلانا چاہیے کہ وہ محفوظ ہے اور وہ خوف کی وجہ سے کسی طرح خود کو کوئی نقصان نہ پہنچا لے۔

جرمنی میں بچوں کی بیماریوں کے ماہر ڈاکٹروں کی تنظیم سے تعلق رکھنے والے ایک ماہر اُلرِش فیگےلَیر Ulrich Fegeler بھی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ایسی حالت میں بچوں کو پوری طرح جگانے کی کوشش بھی زیادہ مددگار ثابت نہیں ہوتی۔ اس لیے کہ ’نائٹ ٹیرر‘ کے دوران بچے نیند اور جاگنے کی درمیانی حالت میں ہوتے ہیں۔ انہیں فوری طور پر یہ اندازہ نہیں ہوتا کہ وہ کہاں ہیں اور ان کے لیے دوبارہ سو جانا بھی مشکل ہوتا ہے۔

ڈاکٹر فیگے لَیر کے مطابق بچوں کی اس حالت کو طبی زبان میں پاوور نوکٹُرنس Pavor Nocturnus کہتے ہیں۔ یہ حالت عام طور پر پانچ اور پندرہ منٹ کے درمیان تک رہتی ہے۔ پھر متاثرہ بچہ خود بخود دوبارہ سو جاتا ہے۔ اس حالت کا شکار عام طور پر صرف تین سے لے کر چھ فیصد تک بچے ہوتے ہیں۔ چھوٹے بچوں کو رات کے وقت اچانک شدید خوف کا یہ تجربہ سونے کے بعد ایک گھنٹے سے لے کر چار گھنٹے تک کے عرصے کے درمیان کسی وقت ہوتا ہے۔

طبی ماہرین کہتے ہیں کہ یہ صورتحال کوئی ڈراؤنا خواب دیکھنے کی حالت سے مختلف ہوتی ہے۔ نیند میں اچانک دہشت یا خوف کے شکار بچے صبح جب جاگتے ہیں تو انہیں کچھ یاد نہیں ہوتا۔ نیند میں خرابی کے اس عمل یا disorder کا کسی جسمانی یا نفسیاتی مسئلے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس کے کوئی لمبے عرصے تک باقی رہنے والے اثرات بھی نہیں ہوتے۔

جرمن ماہر Ulrich Fegeler کے بقول یہ حالت اس لیے پیدا ہوتی ہے کہ بچوں کا اعصابی نظام ابھی نشو و نما کے عمل سے گزر رہا ہوتا ہے اور یہ نیند میں بھی بہت فعال ہوتا ہے۔ عام طور پر اس کی وجہ بچوں میں بہت زیادہ تھکاوٹ بھی ہوتی ہے۔ اس کا سبب کوئی نئی دوائی یا معمول سے ہٹ کر کسی مختلف جگہ یا ماحول میں سونا بھی ہو سکتا ہے۔

بچوں کی بیماریوں کے مشہور ڈاکٹر فیگے لَیر کہتے ہیں، ’’ایسی حالت میں بچوں کو پرسکون انداز میں تسلی دنیا اور انہیں کسی بھی خطرے میں نہ ہونے کا احساس دلانا سب سے زیادہ مددگار ثابت ہوتا ہے۔‘‘ جو بچے ایسے واقعات کا شکار ہوتے ہیں، انہیں ایک مقررہ وقت پر سلا دینا چاہیے اور سونے سے پہلے انہیں ہر قسم کے ذہنی دباؤ سے بچانا چاہیے۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر بچوں میں ’نائٹ ٹیرر‘ کے واقعات پھر بھی کم نہ ہوں تو والدین کو کسی چائلڈ اسپیشلسٹ سے مشورہ کرنا چاہیے۔

بچے اگر خوف سے جاگ جائیں تو کیا کریں؟

برائلر مرغیوں کی خوراک میں مہلک اجزا ہیپاٹائٹس اور بانجھ پن کا باعث

چین: طیارہ بردار بحری جہاز بحریہ میں شامل

چین کی وزارتِ دفاع کا کہنا ہے کہ ملک کے پہلے طیارہ بردار بحری جہاز کو باقاعدہ طور پر بحریہ میں شامل کر لیا گیا ہے۔ تین سو میٹر لمبے اس بحری جہاز کو لیاوننگ کا نام دیا گیا ہے اور صوبہ لیاوننگ میں ہی تیار کیا گیا۔ چین نے سابق سوویت یونین کے جنگی بحری جہاز کو یوکرائن سے خریدنے کے بعد دوبارہ کارآمد بنایا ہے۔ 

چین کا کہنا ہے کہ طیارہ بردار بحری جہاز کو سخت سمندری آزمائش سے گزارا گیا ہے اور اس سے ملکی مفادات کے دفاع کے حوالے سے صلاحتیوں میں اضافہ ہوگا۔ لیاوننگ نامی بحری جہاز آپریشنل نہیں ہوگا اور اسے صرف تربیتی مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے گا۔

چین کے سرکاری خبر رساں ادارے زنہوا نیوز کے مطابق ڈالین کی بندرگاہ پر منعقد ہونے والی ایک تقریب میں سیاسی رہنماؤں کی موجودگی میں لیاوننگ کو بحریہ کے حوالے کیا گیا۔ ایک ایسے وقت لیاوننگ کو بحریہ کے حوالے کیا گیا ہے جب جاپان سمیت متعدد ہسمایہ ممالک نے چین کی بڑھتی ہوئی بحری طاقت پر خدشات کا اظہار کیا ہے۔

چینی وزارتِ دفاع کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’طیارہ بردار بحری جہاز کی بحریہ میں شمولیت سے مجموعی طور پر بحریہ کی جدید پیمانے پر جنگی صلاحتیوں میں غیر معمولی اضافہ ہوگا‘۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’بحری جہاز کی شمولیت سے دفاعی صلاحتیوں میں اضافہ ہوگا، ملک کو کھلے سمندر میں غیر روایتی سکیورٹی خطرات سے نمٹنے کی صلاحیت حاصل ہوگی اور یہ ملکی خودمختاری کے تحفظ میں موثر ثابت ہوگا‘۔

چینی بحریہ میں شامل کیے جانے والے اس بحری جہاز کو سابق سوویت یونین نے سنہ 1980 میں اپنی بحریہ کے لیے تیار کرنا شروع کیا تھا اور اس کا نام وریاگ رکھا گیا تھا۔ لیکن اس وقت سوویت یونین اسے مکمل نہیں کر پایا اور سنہ 1991 میں یونین کے ٹوٹنے کے وقت نامکمل بحری جہاز یوکرائن کی بندرگاہ پر خستہ حالت میں کھڑا تھا۔ جب سابق سوویت یونین کے بحری جنگی جہازوں کو سکریپ کرنا شروع کیا گیا تو اس وقت وریاگ نامی بحری جہاز کو چین کی پیپلز لبریشن آرمی سے تعلق رکھنے والی ایک کمپنی نے یہ کہہ کر خرید لیا کہ وہ اس جہاز کو ماکویا میں ایک تیرتے ہوئے کسینو کے طور پر استعمال کرے گی۔ خریداری کے چند سال بعد یہ چینی کمپنی بحری جہاز کو کھینچ کر چین لے آئی اور پھر ڈالین کی بندرگاہ پر منتقل کردیا گیا۔ گزشتہ سال جون میں چین کی پیپلز لبریشن آرمی نے پہلی بار تصدیق کی تھی کہ وہ بحریہ کا پہلا ائر کرافٹ کیرئیر تیار کررہا ہے۔

چین: طیارہ بردار بحری جہاز بحریہ میں شامل

خواتین ٹی ٹوئنٹی عالمی کرکٹ ٹورنامنٹ کا آج آغاز

اسلام آباد — تیسرے آئی سی سی ویمنز ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ کا آغاز بدھ سے سری لنکا میں ہوگا جس میں آسٹریلوی ٹیم اپنے ٹائٹل کا دفاع کرے گی۔ 26 ستمبر سے 7 اکتوبر تک جاری رہنے والے اس میگا ایونٹ میں 8 ٹیمیں مد مقابل ہوں گی جن کو دو گروپوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ 

گروپ اے میں دفاہی چیمپیئن آسٹریلیا، انگلینڈ، روائتی حریف پاکستان اور بھارت جبکہ گروپ بی میں نیوزی لینڈ، ویسٹ انڈیز، سری لنکا اور جنوبی افریقہ شامل ہیں۔ پاکستانی ٹیم اپنا پہلا گروپ میچ 27 ستمبر کو انگلینڈ کے خلاف گال میں کھیلے گی۔

ایونٹ کے افتتاحی روز دو میچ کھیلے جائیں گے، پہلے میچ میں سری لنکا کی ٹیم جنوبی افریقہ کے مدمقابل ہوگی جبکہ دوسرا میچ نیوزی لینڈ اور ویسٹ انڈیز کی ٹیموں کے درمیان کھیلا جائے گا، میگا ایونٹ کے تمام گروپ میچز انٹرنیشنل کرکٹ سٹیڈیم گال میں کھیلے جائیں گے جن میں شائقین کا داخلہ مفت ہوگا۔ سیمی فائنلز اور فائنل آر پریما داسا کرکٹ سٹیڈیم کولمبو میں کھیلا جائیں گے۔

دونوں گروپوں سے بہترین کار کردگی کا مظاہرہ کرنے والی 4 ٹیمیں سیمی فائنل میں پہنچیں گی جن کے درمیان پہلا سیمی فائنل 4 اکتوبر اور دوسرا 5 اکتوبر کو کھیلا جائیگا۔ میگا ایونٹ کا فائنل 7 اکتوبر کو کھیلا جائیگا۔

خواتین ٹی ٹوئنٹی عالمی کرکٹ ٹورنامنٹ کا آغاز

برمنگھم سے کشمیر تک بس سروس

پاکستانی کشمیر کی حکومت کے ایک اعلان کے مطابق 4000 میل لمبی سڑک کے ذریعے اب برمنگھم سے کشمیر ’میر پور‘ تک کا سفر خصوصی بس سروس کے ذریعے ممکن ہوگا۔

اس خصوصی بس کا آغازجلد ہی متوقع ہے، یہ اہم بات ہے کہ بس کا کرایہ صرف 130 پاؤنڈ ہوگا، جبکہ برمنگھم سے کشمیر تک کا یہ سفر 7 ملکوں پر محیط ہوگا، اور مسافروں کو 12 روزہ سفر کے بعد یہ ان کی منزل مقصود تک پہنچائے گا۔ اس خصوصی بس کے کو ئٹہ، افغان بارڈر ایجنسی ا یران کے شہر تہران میں سٹاپ ہیں۔

کشمیر کے وزیر ٹرانسپورٹ طاہر کوکب کا کہنا ہے، اس لمبے سفر کے دوران بس انتظامیہ کی جانب سے کیمپنگ، ریسٹورنٹ اور خوبصورت مناظر کی تصویر کشی کی سہولت بھی مسافروں کو فراہم کی جائے گی۔ جس سے یہ ایک دلچسپ اور یادگار سفر ثابت ہوگا۔

سیکیورٹی خدشات کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ کوئٹہ کے کچھ مقامات اس ضمن میں حساس ہیں جبکہ مجموعی طور پر سفر کے لیے حالات ساز گار ہیں۔

لندن کے مقامی جریدے میں چھپنے والی خبر کے مطابق برمنگھم پارلیمنٹ کے ممبر خالد محمود نے کہا، ’یہ راستہ میر پور اور برمنگھم کو ایک دوسرے کے قریب لانے کا ذریعے ثابت ہو گا‘۔ ان کے خیال میں یہ بس سروس جلد ہی مقبول ہوجائے گی کیونکہ برطانیہ سے پاکستان تک ہوائی سفر پر اوسطاً 600 پاؤنڈ خرچ ہوتے ہیں۔ ٹرانسپورٹ کی دنیا میں یہ اقدام انقلابی تصور کیا جارہا ہے۔

برمنگھم سے کشمیر تک بس سروس