جمعرات, ستمبر 27, 2012

سام سنگ کا نیا سمارٹ فون گلیکسی نوٹ ٹو

گیلیکسی نوٹ ٹو کی ٹچ سکرین کا سائز 5.5 انچ ہے
سام سنگ نے اپنا ’اوور سائز‘ سمارٹ فون گلیکسی ٹو کا نیا ورژن متعارف کرا دیا ہے۔ ایپل کے آئی فون فائیو کی فروخت شروع ہونے کے محض ایک ہفتے بعد متعارف کرایا جانے والا گلیکسی نوٹ ٹو دراصل ایپل فون کا مقابلہ کرنے کی کوشش ہے۔

ایپل کمپنی کے آئی فون فائیو کے پہلے ہی ہفتے میں 50 لاکھ یونٹس فروخت ہوئے ہیں۔ ماہرین کے مطابق ایپل کا مقابلہ کرنے کے لیے سام سنگ محض ایک کی بجائے صارفین کے لیے زیادہ سے زیادہ پراڈکٹس مارکیٹ میں لا رہا ہے۔ گلیکسی نوٹ گزشتہ برس نومبر میں متعارف کرایا گیا تھا۔

جنوبی کوریا کی کمپنی سام سنگ کی طرف سے اعلان کیا گیا ہے کہ گلیکسی نوٹ ٹو بہت جلد امریکا سمیت دنیا کے 128 ممالک میں فروخت کے لیے پیش کر دیا جائے گا۔ گلیکسی نوٹ ٹو سام سنگ کے معروف گلیکسی ایس کے مقابلے میں سائز میں کچھ بڑا ہے۔ اس کے ساتھ ایس پین 'S pen' بھی فراہم کیا گیا ہے جس کی مدد سے صارف اپنی اسکرین پر نہ صرف نوٹس تحریر کر سکتا ہے بلکہ ڈرائنگ بھی کر سکتا ہے۔

سام سنگ کے موبائل یونٹ کے سربراہ جے کے شِن J.K. Shin کے مطابق، ’’ہمیں یقین ہے کہ گلیکسی نوٹ ٹو کی فروخت پہلے تین ماہ کے دوران اس کے گزشتہ ورژن کی فروخت کے مقابلے میں دو گنا ہوگی۔‘‘

دنیا کے ٹاپ سمارٹ فون مینوفیکچرر سام سنگ کی طرف سے گلیکسی نوٹ گزشتہ برس نومبر میں متعارف کرایا گیا تھا۔ اس کے بعد سے اب تک اس کے 10 ملین یونٹس فروخت ہوچکے ہیں۔ جبکہ رواں برس مئی کے آخر میں متعارف کرائے جانے والے سام سنگ کے معروف ترین سمارٹ فون گلیکسی ایس تھری کے اب تک 20 ملین سے زائد یونٹس فروخت ہوچکے ہیں۔

شِن کا گلیکسی نوٹ کے حوالے سےکہنا تھا، ’’عالمی مارکیٹ میں اس نئی پراڈکٹ کیٹیگری کے لیے جگہ بنانے میں کچھ وقت ضرور لگا، مگر اب ہمیں ماضی کے مقابلے میں صارفین کا زیادہ بہتر رد عمل مِل رہا ہے۔‘‘

گلیسکی نوٹ ٹو میں گوگل کا اینڈرائڈ آپریٹنگ سسٹم موجود ہے۔ اس میں 1.6 گیگاہرٹز کا کواڈ کور پروسیسر نصب کیا گیا ہے جو نہ صرف گزشتہ ڈوئل کور کے مقابلے میں کہیں زیادہ طاقتور ہے بلکہ اس میں ایک ہی وقت میں کئی ایک ایپلیکیشنز استعمال کی جا سکتی ہیں۔ Galaxy Note II کی ٹچ اسکرین کا سائز 5.5 انچ ہے اس فون کی لمبائی 15.1 سینٹی میٹر (5.9 انچ)، چوڑائی 8 سینٹی میٹر جبکہ موٹائی 9.4 ملی میٹر ہے۔ اس کی ٹچ سکرین کا سائز 5.5 انچ ہے۔ اس میں سکرین کو دو حصوں میں تقسیم کرکے بیک وقت دو پروگرام دیکھنے کی سہولت بھی موجود ہے۔

سام سنگ کے موبائل یونٹ کے سربراہ جے کے شِن J.K. Shin کے مطابق، ’’آپ اپنی ای میل چیک کرتے ہوئے چیٹ میسجز کا جواب بھی دے سکتے ہیں یا بیک وقت ویڈیو کانفرنس بھی جاری رکھ سکتے ہیں۔ یا پھر کسی اہم مقرر کی ویڈیو تقریر دیکھتے ہوئے بیک وقت نوٹس بھی لے سکتے ہیں۔‘‘

گلیکسی کی طرف سے اپنی نئی پراڈکٹ کو ایک ایسے وقت پر لانچ کیا گیا ہے کہ جب اہم سمارٹ فون مینوفیکچررز کی جانب سے یکے بعد دیگرے اپنے نئے ماڈلز متعارف کرائے جا رہے ہیں۔

ایپل کے آئی فون کے علاوہ، سام سنگ کے نسبتاً چھوٹے مدمقابل ایل جی الیکٹرونکس کی طرف سے بھی گزشتہ ہفتے Optimus G بھی متعارف کرایا گیا ہے۔ ایل جی کو امید ہے کہ وہ رواں برس اپنے 80 ملین سمارٹ فون فروخت کرنے کے ہدف کو حاصل کر لے گی۔

سام سنگ کا نیا اسمارٹ فون گلیکسی نوٹ ٹو

180 کلومیٹر لمبا ٹریفک جام

اگلی بار اگر آپ ٹریفک جام کی شکایت کریں تو ایک بار برازیل کے سب سے بڑے شہر ساؤ پالو کے ڈرائیوروں کو ضرور یاد کریں۔ کیونکہ یہ ایک ایسا شہر ہے جس میں سب سے خراب ٹریفک جام ہوتا ہے۔ اور اگر جمعہ کی شام ہو تو بس پھر گاڑي والوں کے لیے وہ سب سے خراب دن ثابت ہوتا ہے۔ برازیل میں ٹریفک حکام کا کہنا ہے ’جمعہ کے دن گاڑیوں کی شہر کے اندر اور باہر اتنی لمبی قطار لگ جاتی ہے کہ 180 کلومیٹر طویل گاڑیوں کا کارواں لگ جاتا ہے۔‘

اپنے دس ماہ کے بیٹے کے ساتھ کار چلا رہی فابیانا کرسٹو دھیرے دھیرے گاڑیوں سے بھری سڑکوں سے اپنی گاڑی نکالتے ہوئے کہتی ہیں ’یہ ایک سمندر ہے، کار کا سمندر۔ میں شہر کے جنوبی حصے میں رہتی تھی اور شہر کے دوسرے سرے پر کام کرتی تھی۔ جب میری شادی ہوئی تو میں نے آفس کے قریب شہر کے شمالی حصے میں رہنے کا فیصلہ کیا کیونکہ ٹریفک میں ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا آپ کی زندگی کو جہنم بنا سکتا ہے‘۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے پہلے بیٹے کی پیدائش کے بعد انہیں اپنے خاندانی کاروبار کو سنبھالنے کے لیے واپس جنوبی حصے میں جانا پڑا اور اب انہیں کام پر جانے کے لیے روز شہر سے گزرنا پڑتا ہے۔ فابیانا کو صرف ایک طرف کا راستہ طے کرنے میں دو گھنٹے لگتے ہیں۔

ٹریفک جام ایک ایسا مسئلہ ہے جو ساؤ پالو ہی نہیں دنیا کے ہر ملک میں ہے۔ اس شہر میں ہر گاڑی چلانے والے کی یہی کہانی ہے اور یہاں مقامی ریڈیو ٹریفک کے بارے میں معلومات فراہم کرتے رہتے ہیں۔ یہاں ایک ریڈیو سٹیشن ’سل امریکہ ٹریفک ریڈیو‘ خاص طور پر ساتوں دن چوبیس گھنٹے لوگوں کو ٹریفک اور متبادل کے طور پر نئے راستے اپنانے کے بارے میں معلومات دینے کا کام کرتا ہے۔ اس ریڈیو سٹیشن کو سننے والوں کی تعداد بھی بہت ہے کیونکہ یہ ریڈیو سٹیشن ان کے لیے رپورٹر کا کام کرتا ہے۔ اگر مصروف وقت ہو تو اس سٹیشن میں کام کرنے والے رپورٹر ہی جام میں پھنس جاتے ہیں اور سٹیشن کے پاس ہیلی کاپٹر کی بھی سہولت ہوتی ہے۔

اس ریڈیو سٹیشن میں کام کرنے والوں میں سے ایک وکٹوریہ ربیرو ہیں جن کا کام ہے شہر میں گھوم کر ٹریفک کا جائزہ لینا۔ ’میں اس سٹیشن کے شروع ہونے سے ہی اس میں کام کر رہی ہوں اور میں نے محسوس کیا ہے کہ ٹریفک کی صورتحال بدتر ہوئی ہے کیونکہ گاڑیوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔‘

گزشتہ ایک دہائی میں برازیل میں گاڑیوں کی صنعت نے ریکارڈ پیداوار کی ہے۔ اس کی وجہ معاشی ترقی کی شرح کی وجہ سے وہاں لاکھوں لوگوں کی تنخواہ میں اضافہ ہے۔

ساؤ پالو میں 180 کلومیٹر لمبا ٹریفک جام

پاکستان کے 5 کروڑ 87 لاکھ افراد غربت کا شکار

پاکستان میں غربت کی شرح میں دن بدن اضافہ دیکھنے میں آربا ہے، جب کہ پاکستان کی ایک تہائی سے زیادہ آبادی غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ غربت کی اِس بڑھتی ہوئی شرح کا اندازہ اِس بات سے لگایا جاسکتا ہےکہ 18 کروڑ آبادی والے ملک کی 33 فیصد آبادی ایسی ہے، جس کے5 کروڑ 87 لاکھ افراد خط غربت سے بھی نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

پاکستان کی غیر سرکاری تنظیم تھنک ٹینک، ’سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ پالیسی انسٹی ٹیوٹ‘ نے پاکستان میں بڑھنےوالی غربت پر تحقیقی رپورٹ جاری کی ہے جِس کے مطابق پاکستان کی ایک تہائی آبادی انتہائی غربت اور مفلسی کا شکار ہے۔

صوبائی لحاظ سے غربت کی یہ شرح صوبہ بلوچستان میں سب سے زیادہ 52 فیصد، صوبہ سندھ میں 33 فیصد، صوبہ خیبر پختونخوا میں 32 اور پنجاب میں سب سے کم، یعنی صرف 19 فیصد ہے۔

موجودہ دور میں پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ غربت ہےجس کی وجہ مہنگائی میں روز بروز اضافہ، دولت کی غیر مساویانہ تقسیم، وسائل میں کمی، بےروزگاری اور بڑھتی ہوئی آبادی ہے۔ دیہی علاقوں کے ساتھ ساتھ شہری آبادی میں بھی غربت میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ تحقیقی اعداد و شمار کے مطابق غربت میں ہونے والا مزید اضافہ جہاں ملک کے لئے تشویش کا باعث ہے وہیں غربت کا شکار افراد بھی کئی نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہیں۔ پاکستان سے غربت کا خاتمہ حکومت کے لئے ایک بڑا چیلنج ہے۔

پاکستان کے 5 کروڑ 87 لاکھ افراد غربت کا شکار

چیف جسٹس کے خلاف ایک اور ”دھماکے“ کی تیاری

چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری پر ایک اور حملے کی تیاری ہو رہی ہے۔ تیاری کرنے والوں کا کہنا ہے کہ نوّے فیصد کام ہوچکا اور جیسے ہی دس فیصد کمی پوری ہوتی ہے، ”دھماکا“ کردیا جائے گا۔ یہ نہیں بتایا جا رہا کہ ”دھماکا“ ہے کیا مگر چیف جسٹس مخالف لابی پُر امید ہے کہ ایک ہفتہ تک کام مکمل ہوجائے گا۔ ایک صاحب کا فرمانا ہے کہ حملہ اس مرتبہ مکمل اور ناقابل شکست ہوگا اور ثبوت بھی پکے ہوں گے۔ نجانے افتخار چوہدری کے مخالف اب کیا کرنے پر تلے ہوئے ہیں مگر ابھی تک ہم نے دیکھا کہ چیف جسٹس پر اللہ کا خاص کرم ہے۔ جنرل مشرف اور ان کے حواریوں نے کیا کچھ نہیں کیا، کون کون سے ”دھماکے“ نہیں کروائے مگر ہر ”دھماکے“ کے بعد اللہ تعالیٰ نے افتخار محمد چوہدری صاحب کو مزید عزّت دی۔ جو جو بھی چیف جسٹس کو جانتا ہے وہ سب اس بات پر متفق ہیں کہ وہ کرپشن سے ہمیشہ پاک رہے۔ کیا کوئی یہ سوچ سکتا ہے کہ اعلیٰ ترین عدالتوں کا جج ہونے اور بلوچستان ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ آف پاکستان کا چیف جسٹس ہونے کے باوجود کسی شخص کے پاس پاکستان بھر میں رہنے کے لئے اپنا گھر نہ ہو۔ موجودہ حکومت نے حکومتی پالیسی کے تحت چیف جسٹس کو تین کروڑ کا پلاٹ دینے کی کوشش کی مگر اُنہوں نے لینے سے انکار کردیا۔ موجودہ سپریم کورٹ کے کئی اور جج صاحبان نے بھی یہ پلاٹ لینے سے انکار کردیا ہے۔ ریٹائرمنٹ کو ایک سال اور چند ماہ رہ گئے مگر افتخار محمد چوہدری صاحب کو ابھی تک کچھ معلوم نہیں کہ وہ اپنا گھر بنا بھی سکتے ہیں کہ نہیں۔ اعلیٰ حکومتی شخصیت کے ایک قریبی سینیٹر نے بار بار الزام لگایا کہ چیف جسٹس نے ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن کے قواعد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے قرضہ لیا۔ جب ہمارے رپورٹر احمد نورانی نے تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ یہ سراسر جھوٹ ہے۔ مگر ایسے کئی جھوٹ کچھ ٹی وی چینلز پر بار بار پیش کئے گئے تاکہ چیف جسٹس کو بدنام کیا جاسکے۔ ان تمام جھوٹوں کا پول ان شاءاللہ احمد نورانی بہت جلد عوام کے سامنے کھول کر رکھ دینگے۔

مگر یہاں سمجھنے کی یہ بات ہے کہ آخرکار افتخار محمد چوہدری سے ایسا کیا قصور سرزد ہوگیا کہ ہر طاقت ور اُن کا دشمن بن گیا۔ یہ تو وہ شخص ہے جس نے اس ملک کو آزاد عدلیہ دینے کا خواب شرمندہ¿ تعبیر کیا، جو تن تنہا کرپشن اور بدعنوانی کے خلاف لڑ رہا ہے، جو 18-18 گھنٹے کام کرتا ہے تاکہ اس ملک میں قانون کی حکمرانی ہو اور لوگوں کو انصاف ملے، جس کو خریدا نہیں جا سکا اور جھکایا نہیں جا سکا، جو عوام کے لئے آخری امّید کی کرن بن کر ابھرا ہے، جس نے گم شدہ افراد کا معاملہ اٹھایا اور ملٹری سٹیبلشمنٹ تک سے ٹکر لے لی، جس کی کاوشوں سے اس قوم کا کئی سو ارب روپیہ لٹیروں کی جیبوں سے نکالا گیا یا لٹنے سے بچایا گیا۔ ایسے شخص کو سراہنے اور اس کے ساتھ مل کر اپنے ملک کے مستقبل کو سنوارنے کی بجائے اس کے خلاف سازشوں پر سازشیں کی جارہی ہیں۔ چیف جسٹس کا یہی جرم ہے کہ انہوں نے ”بڑے بڑوں“ سے ایکا کرنے کی بجائے عوامی فلاح اور ملکی مفاد میں ہر ”بڑے“ سے ٹکر لینے کی ٹھان لی۔
مگر اللہ نے اس شخص کو اگر ہر شر سے محفوظ رکھا تو آزمائشیں بھی خوب دیں۔ چیف جسٹس کی آزمائشوں کا حال سنیئے کہ ان کے بیٹے کو کرپشن کے جال میں پھنسایا گیا۔ پھنسانے والوں نے کوئی ایف آئی آر کٹوائی اور نہ حکومت نے کارروائی کی۔ سارا زور میڈیا ٹرائل پر تھا۔ چیف جسٹس نے اپنے بیٹے کے خلاف نہ صرف سوموٹو نوٹس لیا بلکہ اسے اپنے گھر میں داخل ہونے سے روک دیا۔ ملک ریاض کے ارسلان کے خلاف الزامات مئی 2012ءمیں سامنے آئے مگر آج تک ارسلان افتخار کو اجازت نہیں کہ وہ اپنے باپ کے گھر جا سکے۔ گزشتہ ماہ عید الفطر کے موقع پر بھی باپ بیٹا نہیں ملے۔ چیف جسٹس نے عید کوئٹہ میں منائی جبکہ ارسلان افتخار نے اپنی ماں اور بہنوں کے ساتھ یہ تہوار لاہور میں منایا۔ اگر بیٹے پر کرپشن کے الزامات ہوں یا وہ کرپٹ ثابت بھی ہوجائے تو کیا اس سے باپ بیٹے کا رشتہ توڑا جا سکتا ہے مگر ہم نے چیف جسٹس کو ایسا کرنے پر مجبور کردیا۔
افتخار محمد چوہدری یقیناً کوئی فرشتہ نہیں مگر ان کے طاقت ور مخالف ان کے خلاف ابھی تک کوئی کیس بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ مشرف نے سارا جہاں چھان مارا مگر پیٹرول کی پرچیوں سے آگے اسے کچھ نہ ملا۔ آج کے طاقت ور کہتے ہیں کہ چیف جسٹس کے بیٹے نے پیسہ کہاں سے کمایا۔ ان کی فیملی نے عام ٹکٹ لے کر پی آئی اے میں فرسٹ کلاس میں کیسے سفر کیا اور نجانے کیا کیا۔ بھئی بیٹے نے اگر غلط کیا تو اُسے پکڑو۔ اگر چیف جسٹس نے قانون کی خلاف ورزی کی تو ان کے خلاف بھی ریفرنس لاؤ مگر یہ کیا کہ بس میڈیا کے ذریعے ”دھماکے“ پر ”دھماکا“ کئے جانا ہے، صرف اس لئے کہ افتخار محمد چوہدری کسی طاقت ور کے سامنے جھکنے کے لئے تیار نہیں اور یہی چیف جسٹس کا سب سے بڑا جرم بن گیا ہے۔ یہاں اپنے قارئین کے ساتھ ایک خبر بھی شیئر کرتا چلوں۔ ذرائع کے مطابق ارسلان کیس میں آئی ایس آئی کا نام آنے پر آرمی چیف جنرل پرویز کیانی نے ان خبروں کا سختی سے نوٹس لیا اور یہ احکامات دیئے کہ پاکستان کے اس پرائم انٹیلی جینس ادارے کو کسی بھی شخص کے مفاد کے لئے استعمال کرنے والے کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ انہی ذرائع کے مطابق جنرل کیانی نے اپنے بھائیوں کے بھی کان کھینچے ہیں جو ان کے لئے بدنامی کا باعث بن رہے تھے اور ان کو تنبیہ کی کہ وہ اپنے کاروباری معاملات میں صاف شفّاف رہیں۔ آئی ایس آئی کو تو کسی غیر قانونی کام سے باز رہنے کا سختی سے کہہ دیا گیا ہے مگر کوئی ہے جو اُن انٹیلی جینس اداروں کو دیکھے جو ججوں، صحافیوں اور دوسرے اہم لوگوں کے فون ریکارڈ کرکے پرائیویٹ طاقت ور افراد کو پہنچاتے ہیں۔

روزنامہ جنگ راولپنڈی

بدھ, ستمبر 26, 2012

A Math puzzle!

1. Grab a calculator. (you won't be able to do this one in your head)

2. Key in the first three digits of your phone number (NOT the area code like 0300 or 0333)

3. Multiply by 80
 

4. Add 1
 

5. Multiply by 250
 

6. Add the last 4 digits of your phone number

7. Add the last 4 digits of your phone number again.
 

8. Subtract 250
9. Divide number by 2
Do you recognize the answer????

بچے اگر خوف سے جاگ جائیں تو کیا کریں؟

کئی بچے سکول جانے سے پہلے کی عمر یا سکول کے ابتدائی دنوں میں رات کو نیند میں شدید خوف کا شکار ہوجاتے ہیں۔ بچوں کی اس حالت کو Night Terror کہتے ہیں اور اب ماہر ڈاکٹروں نے اس سے نمٹنے کا صحیح طریقہ بھی دریافت کرلیا ہے۔

رات کو نیند میں اچانک خوف کا شکار ہونے والے چھوٹے بچے جاگنے کے بعد یک دم چیخنا شروع کردیتے ہیں۔ ماں باپ کے لیے ان کو چپ کرانا انتہائی مشکل ثابت ہوتا ہے۔ ایسے بچے جاگنے اور آنکھیں کھلی ہونے کے باوجود اپنے والدین کی بات نہیں سنتے اور چند واقعات میں تو یہ بچے خود کلامی بھی شروع کردیتے ہیں۔

بچوں کے امراض کے ماہر ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ایسی حالت میں والدین کو بچے کو گود میں لے کر اس سے آہستہ آواز میں بات کرنی چاہیے۔ بچے کو یہ احساس دلانا چاہیے کہ وہ محفوظ ہے اور وہ خوف کی وجہ سے کسی طرح خود کو کوئی نقصان نہ پہنچا لے۔

جرمنی میں بچوں کی بیماریوں کے ماہر ڈاکٹروں کی تنظیم سے تعلق رکھنے والے ایک ماہر اُلرِش فیگےلَیر Ulrich Fegeler بھی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ایسی حالت میں بچوں کو پوری طرح جگانے کی کوشش بھی زیادہ مددگار ثابت نہیں ہوتی۔ اس لیے کہ ’نائٹ ٹیرر‘ کے دوران بچے نیند اور جاگنے کی درمیانی حالت میں ہوتے ہیں۔ انہیں فوری طور پر یہ اندازہ نہیں ہوتا کہ وہ کہاں ہیں اور ان کے لیے دوبارہ سو جانا بھی مشکل ہوتا ہے۔

ڈاکٹر فیگے لَیر کے مطابق بچوں کی اس حالت کو طبی زبان میں پاوور نوکٹُرنس Pavor Nocturnus کہتے ہیں۔ یہ حالت عام طور پر پانچ اور پندرہ منٹ کے درمیان تک رہتی ہے۔ پھر متاثرہ بچہ خود بخود دوبارہ سو جاتا ہے۔ اس حالت کا شکار عام طور پر صرف تین سے لے کر چھ فیصد تک بچے ہوتے ہیں۔ چھوٹے بچوں کو رات کے وقت اچانک شدید خوف کا یہ تجربہ سونے کے بعد ایک گھنٹے سے لے کر چار گھنٹے تک کے عرصے کے درمیان کسی وقت ہوتا ہے۔

طبی ماہرین کہتے ہیں کہ یہ صورتحال کوئی ڈراؤنا خواب دیکھنے کی حالت سے مختلف ہوتی ہے۔ نیند میں اچانک دہشت یا خوف کے شکار بچے صبح جب جاگتے ہیں تو انہیں کچھ یاد نہیں ہوتا۔ نیند میں خرابی کے اس عمل یا disorder کا کسی جسمانی یا نفسیاتی مسئلے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس کے کوئی لمبے عرصے تک باقی رہنے والے اثرات بھی نہیں ہوتے۔

جرمن ماہر Ulrich Fegeler کے بقول یہ حالت اس لیے پیدا ہوتی ہے کہ بچوں کا اعصابی نظام ابھی نشو و نما کے عمل سے گزر رہا ہوتا ہے اور یہ نیند میں بھی بہت فعال ہوتا ہے۔ عام طور پر اس کی وجہ بچوں میں بہت زیادہ تھکاوٹ بھی ہوتی ہے۔ اس کا سبب کوئی نئی دوائی یا معمول سے ہٹ کر کسی مختلف جگہ یا ماحول میں سونا بھی ہو سکتا ہے۔

بچوں کی بیماریوں کے مشہور ڈاکٹر فیگے لَیر کہتے ہیں، ’’ایسی حالت میں بچوں کو پرسکون انداز میں تسلی دنیا اور انہیں کسی بھی خطرے میں نہ ہونے کا احساس دلانا سب سے زیادہ مددگار ثابت ہوتا ہے۔‘‘ جو بچے ایسے واقعات کا شکار ہوتے ہیں، انہیں ایک مقررہ وقت پر سلا دینا چاہیے اور سونے سے پہلے انہیں ہر قسم کے ذہنی دباؤ سے بچانا چاہیے۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر بچوں میں ’نائٹ ٹیرر‘ کے واقعات پھر بھی کم نہ ہوں تو والدین کو کسی چائلڈ اسپیشلسٹ سے مشورہ کرنا چاہیے۔

بچے اگر خوف سے جاگ جائیں تو کیا کریں؟

برائلر مرغیوں کی خوراک میں مہلک اجزا ہیپاٹائٹس اور بانجھ پن کا باعث

چین: طیارہ بردار بحری جہاز بحریہ میں شامل

چین کی وزارتِ دفاع کا کہنا ہے کہ ملک کے پہلے طیارہ بردار بحری جہاز کو باقاعدہ طور پر بحریہ میں شامل کر لیا گیا ہے۔ تین سو میٹر لمبے اس بحری جہاز کو لیاوننگ کا نام دیا گیا ہے اور صوبہ لیاوننگ میں ہی تیار کیا گیا۔ چین نے سابق سوویت یونین کے جنگی بحری جہاز کو یوکرائن سے خریدنے کے بعد دوبارہ کارآمد بنایا ہے۔ 

چین کا کہنا ہے کہ طیارہ بردار بحری جہاز کو سخت سمندری آزمائش سے گزارا گیا ہے اور اس سے ملکی مفادات کے دفاع کے حوالے سے صلاحتیوں میں اضافہ ہوگا۔ لیاوننگ نامی بحری جہاز آپریشنل نہیں ہوگا اور اسے صرف تربیتی مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے گا۔

چین کے سرکاری خبر رساں ادارے زنہوا نیوز کے مطابق ڈالین کی بندرگاہ پر منعقد ہونے والی ایک تقریب میں سیاسی رہنماؤں کی موجودگی میں لیاوننگ کو بحریہ کے حوالے کیا گیا۔ ایک ایسے وقت لیاوننگ کو بحریہ کے حوالے کیا گیا ہے جب جاپان سمیت متعدد ہسمایہ ممالک نے چین کی بڑھتی ہوئی بحری طاقت پر خدشات کا اظہار کیا ہے۔

چینی وزارتِ دفاع کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’طیارہ بردار بحری جہاز کی بحریہ میں شمولیت سے مجموعی طور پر بحریہ کی جدید پیمانے پر جنگی صلاحتیوں میں غیر معمولی اضافہ ہوگا‘۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’بحری جہاز کی شمولیت سے دفاعی صلاحتیوں میں اضافہ ہوگا، ملک کو کھلے سمندر میں غیر روایتی سکیورٹی خطرات سے نمٹنے کی صلاحیت حاصل ہوگی اور یہ ملکی خودمختاری کے تحفظ میں موثر ثابت ہوگا‘۔

چینی بحریہ میں شامل کیے جانے والے اس بحری جہاز کو سابق سوویت یونین نے سنہ 1980 میں اپنی بحریہ کے لیے تیار کرنا شروع کیا تھا اور اس کا نام وریاگ رکھا گیا تھا۔ لیکن اس وقت سوویت یونین اسے مکمل نہیں کر پایا اور سنہ 1991 میں یونین کے ٹوٹنے کے وقت نامکمل بحری جہاز یوکرائن کی بندرگاہ پر خستہ حالت میں کھڑا تھا۔ جب سابق سوویت یونین کے بحری جنگی جہازوں کو سکریپ کرنا شروع کیا گیا تو اس وقت وریاگ نامی بحری جہاز کو چین کی پیپلز لبریشن آرمی سے تعلق رکھنے والی ایک کمپنی نے یہ کہہ کر خرید لیا کہ وہ اس جہاز کو ماکویا میں ایک تیرتے ہوئے کسینو کے طور پر استعمال کرے گی۔ خریداری کے چند سال بعد یہ چینی کمپنی بحری جہاز کو کھینچ کر چین لے آئی اور پھر ڈالین کی بندرگاہ پر منتقل کردیا گیا۔ گزشتہ سال جون میں چین کی پیپلز لبریشن آرمی نے پہلی بار تصدیق کی تھی کہ وہ بحریہ کا پہلا ائر کرافٹ کیرئیر تیار کررہا ہے۔

چین: طیارہ بردار بحری جہاز بحریہ میں شامل

خواتین ٹی ٹوئنٹی عالمی کرکٹ ٹورنامنٹ کا آج آغاز

اسلام آباد — تیسرے آئی سی سی ویمنز ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ کا آغاز بدھ سے سری لنکا میں ہوگا جس میں آسٹریلوی ٹیم اپنے ٹائٹل کا دفاع کرے گی۔ 26 ستمبر سے 7 اکتوبر تک جاری رہنے والے اس میگا ایونٹ میں 8 ٹیمیں مد مقابل ہوں گی جن کو دو گروپوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ 

گروپ اے میں دفاہی چیمپیئن آسٹریلیا، انگلینڈ، روائتی حریف پاکستان اور بھارت جبکہ گروپ بی میں نیوزی لینڈ، ویسٹ انڈیز، سری لنکا اور جنوبی افریقہ شامل ہیں۔ پاکستانی ٹیم اپنا پہلا گروپ میچ 27 ستمبر کو انگلینڈ کے خلاف گال میں کھیلے گی۔

ایونٹ کے افتتاحی روز دو میچ کھیلے جائیں گے، پہلے میچ میں سری لنکا کی ٹیم جنوبی افریقہ کے مدمقابل ہوگی جبکہ دوسرا میچ نیوزی لینڈ اور ویسٹ انڈیز کی ٹیموں کے درمیان کھیلا جائے گا، میگا ایونٹ کے تمام گروپ میچز انٹرنیشنل کرکٹ سٹیڈیم گال میں کھیلے جائیں گے جن میں شائقین کا داخلہ مفت ہوگا۔ سیمی فائنلز اور فائنل آر پریما داسا کرکٹ سٹیڈیم کولمبو میں کھیلا جائیں گے۔

دونوں گروپوں سے بہترین کار کردگی کا مظاہرہ کرنے والی 4 ٹیمیں سیمی فائنل میں پہنچیں گی جن کے درمیان پہلا سیمی فائنل 4 اکتوبر اور دوسرا 5 اکتوبر کو کھیلا جائیگا۔ میگا ایونٹ کا فائنل 7 اکتوبر کو کھیلا جائیگا۔

خواتین ٹی ٹوئنٹی عالمی کرکٹ ٹورنامنٹ کا آغاز

برمنگھم سے کشمیر تک بس سروس

پاکستانی کشمیر کی حکومت کے ایک اعلان کے مطابق 4000 میل لمبی سڑک کے ذریعے اب برمنگھم سے کشمیر ’میر پور‘ تک کا سفر خصوصی بس سروس کے ذریعے ممکن ہوگا۔

اس خصوصی بس کا آغازجلد ہی متوقع ہے، یہ اہم بات ہے کہ بس کا کرایہ صرف 130 پاؤنڈ ہوگا، جبکہ برمنگھم سے کشمیر تک کا یہ سفر 7 ملکوں پر محیط ہوگا، اور مسافروں کو 12 روزہ سفر کے بعد یہ ان کی منزل مقصود تک پہنچائے گا۔ اس خصوصی بس کے کو ئٹہ، افغان بارڈر ایجنسی ا یران کے شہر تہران میں سٹاپ ہیں۔

کشمیر کے وزیر ٹرانسپورٹ طاہر کوکب کا کہنا ہے، اس لمبے سفر کے دوران بس انتظامیہ کی جانب سے کیمپنگ، ریسٹورنٹ اور خوبصورت مناظر کی تصویر کشی کی سہولت بھی مسافروں کو فراہم کی جائے گی۔ جس سے یہ ایک دلچسپ اور یادگار سفر ثابت ہوگا۔

سیکیورٹی خدشات کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ کوئٹہ کے کچھ مقامات اس ضمن میں حساس ہیں جبکہ مجموعی طور پر سفر کے لیے حالات ساز گار ہیں۔

لندن کے مقامی جریدے میں چھپنے والی خبر کے مطابق برمنگھم پارلیمنٹ کے ممبر خالد محمود نے کہا، ’یہ راستہ میر پور اور برمنگھم کو ایک دوسرے کے قریب لانے کا ذریعے ثابت ہو گا‘۔ ان کے خیال میں یہ بس سروس جلد ہی مقبول ہوجائے گی کیونکہ برطانیہ سے پاکستان تک ہوائی سفر پر اوسطاً 600 پاؤنڈ خرچ ہوتے ہیں۔ ٹرانسپورٹ کی دنیا میں یہ اقدام انقلابی تصور کیا جارہا ہے۔

برمنگھم سے کشمیر تک بس سروس

ٹی 20 ورلڈ کپ: پاکستان ’سپر-8‘ مرحلے میں پہنچ گیا

واشنگٹن — سری لنکا میں کھیلے جانے والے ’ٹی20 ورلڈ کپ 2012ء‘ کے 12ویں میچ میں پاکستان نے بنگلہ دیش کو 8 وکٹوں سے ہرا کر ’سپر -8‘ مرحلے کے لیے کوالیفائی کرلیا ہے۔

منگل کو پالی کیلے میں کھیلے گئے گروپ ڈی کے میچ میں بنگلہ دیش نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا اور مقررہ 20 اوورز میں 6 وکٹوں کے نقصان پر 175 رنز بنائے۔ جواباً پاکستان نے 176 رنز کا بظاہر مشکل ہدف 19 ویں اوور میں صرف دو وکٹوں کے نقصان پر حاصل کرلیا۔ میچ میں پاکستان نے ٹی 20 کرکٹ فارمیٹ میں ہدف کے تعاقب کا نیا ریکارڈ بھی قائم کیا۔ اس سے قبل پاکستان نے 2007ء میں آسٹریلیا کے خلاف 164 رنز کا ہدف حاصل کیا تھا جو ایک ریکارڈ تھا۔

پاکستان کی فتح میں ابتدائی بلے بازوں کپتان محمد حفیظ اور عمران نذیر نے مرکزی کردار ادا کیا اور پہلی وکٹ کی شراکت میں پاکستان کو 124 رنز کی مضبوط بنیاد فراہم کی۔ عمران نذیر 36 گیندوں پر 72 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے۔ انہوں نے اپنا یہ سکور 3 چھکوں اور 9 چوکوں کی مدد سے بنایا اور میچ کے بہترین کھلاڑی قرار پائے۔ کپتان محمد حفیظ نے 45 رنز بنائے۔ ناصر جمشید 29 اور کامران اکمل 22 رنز کے ساتھ ناٹ آؤٹ رہے۔

'سپر-8' مرحلے میں پاکستان کا مقابلہ 28 ستمبر کو جنوبی افریقہ، 30 ستمبر کو روایتی حریف بھارت اور 2 اکتوبر کو آسٹریلیا سے ہوگا۔

منگل کے میچ میں بنگلہ دیش کے بلے بازوں نے پاکستانی بالروں کو ناکوں چنے چبوائے اور پاکستانی بالنگ اور فیلڈنگ بنگال ٹائیگرز کے سامنے بے بس نظر آئی۔ بنگلہ دیشی کھلاڑیوں کی جارحانہ بیٹنگ اور 175 رنز کے بڑے ہدف کے پیشِ نظر پاکستان کا جیتنا مشکل لگ رہا تھا لیکن قومی ٹیم کی بیٹنگ لائن نے اس ہدف کا حصول ممکن بنا دیا۔

بنگلہ دیش کی جانب سے اتنا بڑا ہدف دینے میں شکیب الحسن نے اہم کردار ادا کیا جنہوں نے 54 گیندوں پر 84 رنز بنائے اور ٹاپ سکورر رہے۔ پاکستان کی جانب سے یاسر عرفات نے 3 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا جب کہ سہیل تنویر اور شاہد آفریدی نے ایک، ایک وکٹ حاصل کی۔

یاد رہے کہ عالمی کپ کے اپنے پہلے گروپ میچ میں پاکستان نے نیوزی لینڈ کو 13 رنز سے شکست دی تھی۔

ٹی 20 ورلڈ کپ: پاکستان ’سپر-8‘ مرحلے میں پہنچ گیا

پیر, ستمبر 24, 2012

نابینا خاندان نے محلہ روشن کردیا

پاکستان کے سب سے بڑے صوبے، پنجاب کے شہر دیپالپور (اوکاڑہ) میں محلہ ڈھکی کے میں ایک نابینا خاندان اندھیروں میں زندگی بسر کررہا ہے۔ لیکن، معذوری کے باوجود، نابینا خاندان خیرات اور صدقات کا طلب گار نہیں، بلکہ خود اپنے زور بازو پر روزگار کمانا جانتا ہے۔

​اِس نابینا خاندان کا سربراہ، عبدالرحمٰن مالش اور مساج کرتا ہے اور اس کا نابینا بھائی عبدالمنان چائے کے ہوٹل پر ملازم ہے۔ بڑی ماں نظیراں بی بی کو الله پاک نے اولاد کی نعمت سے نوازا۔ بڑے بیٹے عبدالخالق کے علاوہ تین بچے آنکھوں کی دولت سے محروم ہیں۔ شکیلہ بی بی، عبدالرحمٰن اور عبدالمنان نابینا ہیں اور حیرانگی کی بات یہ ہے کہ یہ بچے بچپن سے نابینا نہ تھے، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بینائی سے محروم ہوتے گئے۔

نابینا بھائیوں نے آنکھوں کی معذوری کے باوجود بھکاریوں کا روپ اختیار نہیں کیا، بلکہ اپنی جمع پونجی سے قسطوں پر جنریٹر خریدا اور پورے محلے کو بجلی کا کنکشن دے کر نہ صرف خود روزگار کمایا، بلکہ محلہ کو لوڈشیڈنگ کے عذاب سے بچایا۔ اہل محلہ اس نابینا خاندان کا مشکور ہے اور ان کی آنکھوں کے علاج کے لیےدعا گو ہے۔ 

’وائس آ ف امریکہ‘ کے ساتھ انٹرویو میں نابینا خاندان کے سربراہ عبدالرحمٰن نے کہا کے بچپن میں بس اور ٹرین میں پکوڑے وغیرہ بیچا کرتا تھا، پھر میں نے گھر کے ساتھ ایک چھوٹی سی دکان میں مالش اور مساج کا کام شروع کیا۔ میرا چھوٹا بھائی عبدالمنان چائے کے ہوٹل پر ملازم ہے، اور وہ بھی آنکھوں سے محروم ہے۔

اوکاڑہ کا نابینا خاندان
اُن کے الفاظ میں: ’میری بڑی بہن بھی آنکھوں سے محتاج ہے۔ لیکن پھر بھی، گھر میں جھاڑو پوچا لگاتی ہے، جبکہ میری والدہ 80 سال کی بوڑھی خاتون ہے۔ میری شادی بھی ایک نابینا لڑکی سے ہوئی۔ اب گھر میں یہ حالات ہیں کہ ہانڈی روٹی پکانے والا کوئی نہیں۔ ہم بازار سے کھانا منگوا کر کھاتے ہیں‘۔

عبدالرحمٰن کے چھوٹے بھائی عبدالمنان نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ’ہمیں لوگ خیرات صدقات دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن، ہمیں یہ اچھا نہیں لگتا، کیوں کہ ہم خود روزگار کمانا جانتے ہیں۔ بس ہماری یہ خواہش ہے کہ کسی طرح ہماری بینائی واپس آ جائے۔

عبدالرحمٰن اور عبدالمنان کی بڑی بہن شکیلہ نےکہا کہ اُن کی شادی نہ ہونے کی وجہ اُن کی آنکھوں کی محتاجی ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ اُن کا کھانا پکانے کو دل کرتا ہے۔ لیکن، وہ ایسا نہیں کر سکتیں۔ اُنھیں اپنے دونوں بھائیوں پر فخر ہے کہ وہ آنکھوں کی محتاجی کے باوجود گھر کا خرچ چلا رہے ہیں۔

نابینا خاندان نے پورا محلہ روشن کردیا

دنیا کا مہمان نواز ترین ملک

کریملن سے دو قدم دور، روس کی گورنمنٹ لائیبریری کے مشرقی ادب کے مرکز میں روس کے معروف فوٹو گرافر ایوان دیمینتی ایوسکی اور صحافی سرگئی بائیکو، جنہوں نے پاکستان کے شمالی علاقے گلگت بلتستان کا ایک غیر معمولی دورہ کیا تھا، کے کام پہ مبنی نمائش کا افتتاح ہوا ہے۔ آرام کو بھلا کر اور اپنے کنبے کے افراد کو ماسکو چھوڑ کر وہ مہم جوئی اور تصویریں کھینچنے کی خاطر نکل کھڑے ہوئے، ایسی تصویریں جو روح پہ چھا جائیں۔

نمائش دیکھنے کی خاطر آنے والوں کا استقبال، روس میں پاکستان کے سفیر محمد خالد خٹک نے کیا جنہوں نے گلگت بلتستان کے اپنے ذاتی سفر کی یادیں سنائیں، جہاں کے نظاروں نے فوٹو گرافر ایوان دیمنتی ایوسکی کو اپنی جانب کھینچا تھا۔ سفیر محترم نے کہا کہ انہیں یہ جگہ خود تو پسند ہے ہی لیکن باقی سب کو بھی وہ وہاں جانے کا مشورہ دیتے ہیں، ”فوٹو کھینچنے والے اس سے پہلے نیپال، بھارت اور بھوٹان کے دشوار گذار سفر کئی بار کر چکے ہیں۔ انہوں نے یہ سفر مشکل حالات میں کندھوں پر رک سیک رکھ کر اور راتیں خیموں میں بسر کرتے ہوئے کیے ہیں۔۔ ایوان دیمنتی ایوسکی پاکستان کے مقامی لوگوں، مقامی تہواروں اور کھیلوں سے وابستہ واقعات اور خاص طور پر ہمالیہ کی تصویریں بنانے کی خاطر پاکستان گئے تھے۔ ان عظیم پہاڑوں سے انہیں پیار ہوگیا اور انہوں نے بہتر تصویر کشی کی خاطر خطرات مول لینا قبول کرلیا۔ پاکستان میں ان کا خیمہ پھسلتی برف کی زد میں آگیا..........
یہ دلچسپ مکمل تحریر پڑھنے کے لئے نیچے لنک پر کلک کریں

دنیا کا مہمان نواز ترین ملک

پاکستان کی پہلی نابینا پی ایچ ڈی: فرزانہ سلیمان پونا والا

بینائی سے محروم ہونے کےباوجود، ڈاکٹر فرزانہ سلیمان پونا والا فلسفے اور اسلامک سٹڈیز میں ڈبل ایم اے اور پی ایچ ڈی ہیں۔ اُنھیں گذشتہ سال ’تمغہ حسن کارکردگی‘ مل چکا ہے۔ وہ پچھلے بیس برسوں سےکراچی کے ’پی اِی سی ایچ ایس کالج‘ میں اسلامک سٹڈیز کی لیکچرر ہیں۔ وہ ایک باہمت اور رول ماڈل خاتون ہیں، جِنھیں قابلِ قدر خداداد صلاحیتوں کے باعث معاشرے میں ایک تعظیم و احترام کا درجہ حاصل ہے۔

’وائس آف امریکہ‘ کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں اُنھوں نے بتایا کہ وہ پیدائشی طور پر نابینا نہیں تھیں، بلکہ جب وہ آٹھویں جماعت کی طالبہ تھیں، اُنھیں ٹائفائڈ ہوا اور حادثاتی طور پرنظر جاتی رہی۔

فرزانہ پونا والا

اُنھوں نے کہا کہ شروع میں اُن کویہ مسئلہ درپیش تھا کہ اُن کے لیے کون اتنا وقت نکالے گا، وہ تعلیم کیسے جاری رکھ سکیں گی اور اُنھیں کون پڑھ کر سنائے گا؟ لیکن، اُنھوں نے اپنےگھر والوں سے لے کر دوست، احباب، طالب علموں اور اساتذہ سب کا شکریہ ادا کیا، جنھوں نے، اُن کے بقول، میرے لیے آسانیاں پیدا کیں، جس کے باعث یہ ممکن ہوا کہ میں تعلیم اور پھر ملازمت جاری رکھ سکوں۔ 

ڈاکٹر فرزانہ نےبتایا کہ وہ کراچی کے ناظم آباد علاقے میں رہتی تھیں اور اُن کی معلمہ تدریس کی غرض سے لانڈھی سے آیا کرتی تھیں۔

پاکستان کی پہلی نابینا پی ایچ ڈی: فرزانہ سلیمان پونا والا

سردرد کی پین کلر مرض میں اضافہ کرسکتی ہے

برطانوی طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ سر درد روکنے کے لئے پین کلر کا استعمال مرض میں اضافے کی وجہ بن سکتا ہے۔

برطانوی ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ سر درد ختم کرنے والی ادویات کا زیادہ استعمال معدے کی خرابی اور دل کی بیماریوں کا سبب بنتا ہے۔ ان بیماریوں کے ساتھ سردرد کی شکایت بھی بڑھ جاتی ہے۔ 

ڈاکٹروں نے درد کش ادویات کا استعمال فوری طور پر یا مرحلہ وار ختم کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق ابتدائی طور پر اس سے سر درد میں اضافہ ہوگا لیکن آہستہ آہستہ صحت بہتر ہوگی اور سر درد ختم ہوتا جائے گا۔

ٹی 20 ورلڈ کپ: ویسٹ انڈیز اور آئرلینڈ میں آج مقابلہ ہوگا

آئی سی سی ٹی ٹوئنٹی کرکٹ ورلڈ کپ میں آج ویسٹ انڈیز کی ٹیم آئرلینڈ کے مدمقابل آئے گی، آئرش ٹیم کو میگا ایونٹ میں رہنے کے لئے ڈیرن سمیی الیون کو لازمی شکست دینا ہوگی۔

آئی سی سی ٹی ٹوئنٹی کرکٹ ورلڈ کپ کے گروپ بی میں ویسٹ انڈیز اپنے دوسرے میچ میں آئرلینڈ سے ٹکرائے گی۔ آر پریما داسا کرک گراؤنڈ میں کھیلے جانے والے میچ میں کامیابی کے لئے ویسٹ انڈیز فیورٹ ہے۔ دونوں ٹیموں کا میگا ایونٹ میں یہ دوسرا میچ ہے۔ دونوں ٹیموں کو اپنے اپنے افتتاحی میچ میں آسٹریلیا کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ میچ میں فتح حاصل کرنے والی ٹیم، ٹی ٹوئنٹی کرکٹ ورلڈ کپ کے سپر ایٹ مرحلے میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوجائے گی۔

کاغان کے پہاڑوں پر سرما کی پہلی برفباری

ملک کے شمالی علاقوں کاغان، ناران، شوگراں، بابو سر ٹاپ میں موسم سرما کی پہلی برفباری سے موسم شدید سرد ہوگیا ہے۔ سیکڑوں سیاح موسلا دھار بارش کے باعث رابطہ سڑکیں بند ہونے کی وجہ سے مختلف مقامات پر پھنس کر رہ گئے ہیں۔

ہفتہ اور اتوار کی درمیانی شب ملک کے سب سے خوب صورت سیاحتی اور صحت افزاء مقامات وادی کاغان اور ناران اور دیگر علاقوں میں موسلا دھار بارش ہوئی، بارش کے ساتھ برفباری بھی ہوئی جس کی وجہ سے علاقے میں سردی کا آغاز ہوگیا۔