منگل, اگست 14, 2012

سعید اجمل کرکٹر آف دی ایئر کے لیے نامزد

سعید اجمل
پاکستانی آف سپنر سعید اجمل کو بین الاقوامی کرکٹ کونسل کے دو ہزار بارہ کے ایوارڈز میں سال کے بہترین کرکٹر کے اعزاز کے لیے نامزد کیا گیا ہے۔

اس ایوارڈ کے لیے ان کا مقابلہ جنوبی افریقہ کے ہاشم آملہ، آسٹریلیا کے کپتان مائیکل کلارک، سری لنکن بلے باز کمارا سنگاکارا، انگلش اوپنر الیسٹر کک اور ویسٹ انڈیز کی خاتون کرکٹ سٹیفنی ٹیلر سے ہوگا۔

سعید اجمل اس کے علاوہ ٹیسٹ اور ایک روزہ کرکٹ کے بہترین کھلاڑی کے ایوارڈ کے لیے بھی نامزد کیے گئے ہیں۔

ایک روزہ کرکٹ کے بہترین نامزد کھلاڑیوں کی فہرست میں ایک اور پاکستانی کرکٹر شاہد آفریدی کا نام بھی شامل ہے۔ ان دونوں کے علاوہ پاکستان کے کپتان محمد حفیظ کو ٹی ٹوئنٹی کی بہترین کارکردگی اور سپرٹ آف کرکٹ ایوارڈ کے لیے نامزدگی ملی ہے۔ پاکستان کے نوجوان فاسٹ بولر جنید خان کو سال کے بہترین ابھرتے ہوئے کھلاڑی کے لیے نامزد کیا گیا ہے۔

امپائرنگ کے شعبے میں پاکستان کے دو امپائر علیم ڈار اور اسد رؤف کو آئی سی سی کی فہرست میں جگہ ملی ہے۔ علیم ڈار تین مرتبہ سال کے بہترین امپائر کی ٹرافی جیت چکے ہیں۔

آئی سی سی ایوارڈز دو ہزار بارہ کی تقریب پندرہ ستمبر کو کولمبو میں منعقد ہوگی۔


سعید اجمل کرکٹر آف دی ایئر کے لیے نامزد

اولمپک میں ناکامی، ”سونا بھی کھوٹا اور سنار بھی“

لندن اولمپکس میں پاکستان کے جن اکیس ایتھلیٹس نے شرکت کی ان میں سے کوئی دوسرے راؤنڈ میں بھی قدم نہ رکھ سکا۔ اس طرح پاکستان دنیا کے ان ایک سو بیس بدقسمت ملک میں سے ایک رہا جن کے دستے لندن سے خالی ہاتھ واپس لوٹ رہے ہیں۔

پاکستان کو لندن کھیلوں میں سب سے زیادہ امیدیں حسب روایت ہاکی سے تھیں جن پر آسٹریلیا کے ہاتھوں گروپ میچ میں سات صفر کی شکست نے پانی پھیر دیا۔

سابق اولمپئنز نے اس سنگین ناکامی پر کھیلوں کے کرتا دھرتاؤں کے احتساب کا مطالبہ کیا ہے۔ سابق اولمپئن قمرابراہیم نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ ہاکی ٹیم کی تیاری پر ہاکی فیڈریشن کی انتظامیہ نے ستر کروڑ خرچ کیے مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات رہا اور ٹیم گزشتہ اولمپکس کے مقابلے میں صرف ایک درجہ بہتری پا کر ساتویں نمبر پر آئی۔ جس کے بعد ہاکی فیڈریشن کو مستعفی ہوجانا چاہیے۔

ایک اور اولمپئن ایاز محمود کا کہنا ہے کہ ہاکی فیڈریشن سمیت کھیلوں کی تنظیموں کی باگ ڈور ان لوگوں کے سپرد کرنی چاہیے جنکی کوئی سیاسی وابستگی نہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ ہاکی فیڈریشن کے صدر قاسم ضیاء اور کوچ اختر رسول وغیرہ سب سیاسی وابستگیوں کے سبب کھیل کے سیاہ و سفید کے مالک بنے ہوئے ہیں اور انہوں نے ہاکی کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ ہاکی کے معاملات چلانا ان کے بس میں نہیں اورحکومت کو ان کو گھر بھیج دینا چاہیے۔

پاکستان ہاکی فیڈریشن نے اولمپکس سے چارماہ پہلے ولندیزی کوچ مشعل وین ڈین کو اچانک برطرف کردیا تھا اور قمر ابراہیم کے مطابق آسٹریلیا اور برطانیہ جیسی ٹیموں کے خلاف دفاعی اور فاروڈ لائن کے جھاگ کی طرح بیٹھنے کا سبب پیشہ ور کوچ کی عدم موجودگی تھی۔ قمر کے بقول مشعل کے کام میں مداخلت ہورہی تھی جس کے بعد وہ دلبرداشتہ ہوکر چلے گئے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے اولمپکس میں ہر پینالٹی کارنر پر صرف ڈائریکٹ گول کرنے کی کوشش کی اور دوسری کوئی منصوبہ بندی نہ کی گئی جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ٹیم کی تیاری نہ ہونے کے برابر تھی۔

پاکستان ہاکی فیڈریشن کی جانب سے لندن اولمپکس میں ٹیم کی کارکردگی کو تسلی بخش قرار دیے جانے کو قمر ابراہیم نے شرمناک قرار دیا۔ 

پندرہ سالہ خاتون پیراک انعم بانڈے کو چار سو میٹر انفرادی میڈلے میں چوتھی پو زیشن ملی
لندن اولمپکس میں پاکستانی خاتون ایتھیلٹس رابعہ عاشق کی آٹھ سو میٹر اور لیاقت علی کی سو میٹر کی دوڑ کوالیفائنگ راؤنڈ میں شروع ہوکر وہیں اختتام کو پہنچ گئی۔ دونوں کچھ اس طرح سے پسپا ہوئے کہ اپنے قومی ریکارڈز کو بھی نہ چھوسکے۔

دستے میں شامل پندرہ سالہ خاتون پیراک انعم بانڈے کو چار سو میٹر انفرادی میڈلے میں چوتھی پوزیشن ملی مگر انہی کے ہم وطن اسرار حسین کو سو میٹر فری سٹائل میں آٹھویں اور آخری نمبر پر اکتفا کرنا پڑا۔ جبکہ واحد شُوٹر خرم انعام کے نشانے سڈنی اور ایتھنز کے بعد لندن میں بھی خطا ہوگئے۔

پاکستانی کھلاڑیوں کی اس ناقص کارکردگی کے بارے میں کھیلوں کے معروف تجزیہ کار وحید خان کہتے ہیں کہ ملک میں کرکٹ اور ہاکی کے علاوہ دیگر کھیلوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔ حکومت کے علاوہ نجی ادارے بھی کرکٹ کے علاوہ کسی کھیل کو سپانسر نہیں کرتے جس کی وجہ سے کھلاڑی ان کھیلوں میں دلچسپی لینا چھوڑ رہے ہیں۔ وحید خان کے مطابق پاکستانی کھلاڑیوں میں اس شوق اور جنون کا بھی فقدان ہے جو اولمپک کی اصل روح ہے۔

پاکستان نے انیس سو چھپن سے انیس سو بانوے تک ہر اولمپک میں میڈل ضرور جیتا مگر اس کے بعد سے اٹھارہ کروڑ آبادی کے اس ملک کے لیے اولمپک پوڈیم اور طلائی تمغے تک رسائی دیوانے کا خواب بنتی جارہی ہے اور اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ اب سونا بھی کھوٹا ہے اور سنار بھی۔

اولمپک میں ناکامی، ”سونا بھی کھوٹا اور سنار بھی“

مریخ کی پہلی مفصل رنگین تصویر

کیوروسٹی نے ایک اونچے مستول پر نصب وائیڈ اینگل کیمرے کی مدد سے متعدد تصاویر لی تھیں جن میں سے کم ریزولیوشن والی تصاویر کا پینوراما ابتدائی طور پر جاری کیا گیا تھا اور بہتر ریزولیوشن والی تصاویر کے زمین پر پہنچنے کے بعد اب یہ رنگین تصویر سامنے آئی ہے۔

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس تصویر سے بظاہر مریخ کی سطح امریکہ کے جنوب مغربی علاقے کی سطح سے مشابہ معلوم ہوتی ہے۔

اس تصویر میں گیل نامی اس گڑھے کا ایک حصہ دکھایا گیا ہے جہاں کیوروسٹی اتری تھی۔ اس گڑھے کی دیوار میں وادیوں کا ایک جال دیکھا جا سکتا ہے جو ممکنہ طور پر باہر سے پانی داخل ہونے کے نتیجے میں بنا ہوگا۔

یہ پہلا موقع ہے کہ زمین پر موجود سائنسدان مریخ کی سطح پر کسی دریا یا ندی کے آثار واضح طور پر دیکھ پائے ہیں۔

سائنسدان کیوروسٹی کے اترنے کی جگہ کے جنوبی علاقے کی تصاویر کا بھی جائزہ لے رہے ہیں۔ یہ وہی علاقہ ہے جہاں واقع ’ماؤنٹ شارپ‘ کے نام سے معروف پہاڑ کی چوٹی کے دامن تک جا کر اس کی چٹانوں کا مطالعہ اس مشن کا کلیدی مقصد ہے۔

اس چوٹی کا دامن کیوروسٹی کے موجودہ مقام سے ساڑھے چھ کلومیٹر دور ہے اور وہاں پہنچنے میں ایک سال لگ سکتا ہے۔

یہ گاڑی اپنے آلات کی مدد سے یہ جاننے کی کوشش کرے گی کہ ماؤنٹ شارپ پر موجود چٹانوں کے بنتے وقت مریخ پر کیا حالات تھے، اور آیا اس سیارے کی تاریخ میں ایسا کوئی دور گزرا ہے جب وہاں کسی قسم کی جراثیمی زندگی موجود ہو۔

کیوروسٹی میں دو کیمرے نصب ہیں جو مل کر سٹیریو یا تھری ڈی تصاویر بنا سکتے ہیں۔ یہ کیمرے مریخ گاڑی کے سائنسی مشن کی منصوبہ بندی اور اس بات کا فیصلہ کرنے میں بے حد اہم ثابت ہوں گے کہ گاڑی کس طرف لے جانی ہے اور کس چٹان پر تحقیق کرنی ہے۔

یہ روبوٹک گاڑی اس علاقے کا معائنہ بھی کرے گی جہاں اس کے اترنے کے عمل کے دوران چلنے والے راکٹ کی وجہ سے کچھ چٹانیں ابھر کر سامنے آئی ہیں۔

کیوروسٹی مریخ گاڑی کا مشن امریکی شہر پیسا ڈینا کی جیٹ پروپلشن لیبارٹری سے چلایا جارہا ہے اور سائنس دانوں کی ایک بڑی ٹیم گاڑی کے مستقبل میں کیے جانے والے کام کی منصوبہ بندی کررہی ہیں۔

اس ٹیم نے گاڑی کی لینڈنگ سائیٹ کے آس پاس کے علاقے کو ایک اعشاریہ تین ضرب ایک اعشاریہ تین کلومیٹر کے ٹکڑوں میں بانٹ رکھا ہے جن کا تفصیلی نقشہ، اور ان کے اندر موجود چٹانوں کے خدوخال مرتب کیے جارہے ہیں۔

سب کو ’یوم‘ ”قیام پاکستان“ مبارک





جیوے جیوے جیوے پاکستان
پاکستان پاکستان جیوے پاکستان

یا اللہ ہمارے پیارے ”پاکستان“ کو شاد آباد اور دشمنوں کی میلی آنکھوں سے محفوظ رکھنا۔  آمین ثم آمین۔ ہماری اللہ سے دعا ہے کہ ہمارے ملک میں امن، خوشحالی اور استحکام ہو!

راولپنڈی میں اس وقت رات کے تقریباً 11 بجے خوب گھما گھمی ہے، لوگ بچوں اور خواتین کے ساتھ مری روڈ یعنی بے نظیر شہید روڈ پر گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں کو سجائے اور قومی پرچم لئے لطف اندوز ہورہے ہیں۔ 

پیر, اگست 13, 2012

27 ویں اولمپک ، رنگارنگ تقریب، امریکا کی برتری کے ساتھ اختتام پذیر

اختتامی تقریب کا منظر
27 ویں اولمپک گیمز اتوار کو رنگارنگ اور دلکش تقریب میں امریکا کی برتری کے ساتھ ختم ہوگئے ہیں۔ امریکا نے 46 گولڈ، 29 سلور اور 29 برانز میڈلز کے ساتھ مجموعی طور پر 104 تمغے حاصل کئے، چین 38 گولڈ، 27 سلور، 22 برانز میڈل کے ساتھ دوسرے نمبرپر رہا، میزبان برطانیہ 29 گولڈ، 17 سلور اور 19 برانز میڈل حاصل کرکے تیسرے نمبر پر رہا۔ ان کھیلوں میں پاکستان کوئی تمغہ حاصل نہیں کرسکا اور اس کے ارکان خالی ہاتھوں کے ساتھ 15 اگست کو وطن واپس آئیں گے۔ ہاکی میں پاکستان نے ساتویں پوزیشن حاصل کی۔ امریکا کے پیراک مائیکل فیلپس نے سب سے زیادہ 6 طلائی تمغے حاصل کئے۔ جمیکا کے ایتھلیٹ یوسین بولٹ نے 3 طلائی تمغے حاصل کئے۔ سونے کے تمغوں پر امریکا اور چین کی واضح برتری میں ہونے والی دلفریب اختتامی تقریب میں اگلے اولمپک گیمز 2016 کے میزبان شہر ری ڈی جینرو کے نیر ایڈورڈ وپاٹس کے حوالے کیا گیا۔ 

3 گھنٹے پر محیط خوب صورت اور دل لبھا تقریب میں برطانوی موسیقی کے 50 سالہ سفر پر روشنی ڈالی گئی۔ 36 ہزار فنکاروں نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ لندن اولمپک گیمز میں حصہ لینے والے ملکوں کے ایک ایک ایتھلیٹ اپنے ملکوں کے قومی پرچم تھامے اختتامی مارچ پاسٹ میں شریک ہوئے۔ پاکستان کا پرچم قومی ہاکی ٹیم کے کپتان سہیل عباس کے ہاتھ میں تھا۔ اختتامی تقریب میں آتش بازی کے دلکش مظاہرے نے سٹیڈیم میں موجود شائقین اور ٹی وی پر دیکھنے والے اربوں ناظرین کو دم بخود کردیا۔ اختتامی تقریب کے موقع پر سیکورٹی کے کڑے انتظامات کئے گئے تھے۔ ہزاروں تماشائی ہدایت کے مطابق تقریب کے آغاز سے 3 گھنٹے قبل سٹیڈیم پہنچ گئے تھے۔ 

لورا اسا دواس
کھیلوں کے آخری روز 15 گولڈ میڈلز کا فیصلہ ہوا۔ مجموعی طور پر 302 گولڈ میڈلزکا فیصلہ کیا گیا۔ لندن اولمپک کا پہلا تمغہ چین کی شوٹر ای سلنگ اور آخری تمغہ لیتھونیا کی لورا اسا دواس کینی کے حصے میں آیا۔ انہوں نے ماڈرن پینٹاتھلون میں حاصل کیا۔ لندن اولمپک کا پہلا اور آخری تمغہ خواتین کے حصے میں آیا، یہ واحد اولمپک گیمز تھے جس میں خواتین کی تعداد 40 فیصد سے زیادہ رہی۔ دنیا کے ہر ملک کی خواتین کھلاڑیوں نے پہلی بار اولمپک کھیلوں میں حصہ لیا۔

بھول سکتا ہے بھلا کون یہ پیاری آنکھیں


بھول سکتا ہے بھلا کون یہ پیاری آنکھیں
رنگ میں ڈوبی ہوئی ، نیند سے بھاری آنکھیں

میری ہر سوچ نے، ہر سانس نے چاہا ہے تمہیں
جب سے دیکھا ہے تمہیں، تب سے سراہا ہے تمہیں
بس گئی ہیں میری آنکھوں میں، تمہاری آنکھیں

تم جو نظروں کو اٹھاؤ تو ستارے جھک جائیں
تم جو پلکوں کو جھکاؤ تو زمانے رک جائیں
کیوں نہ بن جائیں ان آنکھوں کی پجاری آنکھیں

جاگتی راتوں کو سپنوں کا خزانہ مل جائے
تم جو مل جاؤ تو جینے کا بہانہ مل جائے
اپنی قسمت پہ کریں ناز ہماری آنکھیں


ساحر لدھیانوی

اتوار, اگست 12, 2012

عرب شہزادوں کو شکار کی اجازت ملنے پر اظہار تشویش

اسلام آباد (آئی این پی) قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے ماحولیاتی تبدیلی نے عرب ممالک کے شاہی خاندانوں کو تلور کے شکار کی اجازت دینے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے وزارت خارجہ سے تلور کے شکار کے لیے دیے گئے لائسنسوں پر جواب طلب کرلیا۔ تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے موسمیاتی تبدیلی کا اجلاس چیئرمین کمیٹی غلام میر سمیجھو کی زیر صدارت منگل کو پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا۔ اجلاس میں اراکین کمیٹی سمیت وفاقی سیکرٹری، وزارت موسمیاتی تبدیلی محمود عالم، ڈی جی این ڈی ایم اے تار سمیت اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔ 

آئی جی فارسٹ سید محمود ناصر نے کمیٹی کو بتایا کہ پاکستان میں پودوں کی 10ہزار جبکہ جانوروں اور پرندوں کی 4 ہزار سے زائد اقسام کی حیات کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ شاہی خاندانوں کو پاکستان میں تلور کے شکار کے لائسنس جاری ہونے سے تلور کی نسل ناپید ہونے کا خطرہ ہے۔ آئی جی فاریسٹ نے بتایا کہ عرب شاہی خاندان کے پاکستان شکار کے لیے آنے والے ایک شخص کو 100 تلور شکار کرنے کی اجازت ہوتی ہے تاہم وہ اس سے کئی گنا زیادہ پرندے شکار کرتے ہیں۔ وزارت خارجہ نے شاہی خاندانوں کو یومیہ 700 جانوروں اور پرندوں تک کے شکارکرنے کے لائسنس جاری کیے ہیں۔

قائمہ کمیٹی کا عرب شہزادوں کو شکار کی اجازت ملنے پر اظہار تشویش

مکروہ اوقات نماز

گزشتہ دنوں محلے کی مسجد کے امام صاحب نے مندجہ ذیل اہم مسائل بیان کیے ہیں؛

انہوں نے بتایا کہ طلوع صبح صادق یعنی جس وقت فجر کی نماز کا وقت شروع ہوجائے اس وقت سے لے کر طلوع آفتاب یعنی سورج نکلنے تک، فجر کی نماز کے لئے دو رکعت سنتوں کے علاوہ کوئی اور نفل نماز ادا نہیں کی جاسکتی۔ اس کے علاوہ نماز عصر کے فرائض ادا کرنے کے بعد سے لے کر غروب آفتاب یعنی سورج غروب ہونے تک نفل نماز ادا کرنا ممنوع ہے۔

جس وقت سورج طلوع ہورہا ہو اور زوال کے وقت یعنی جس وقت سورج نصف النہار پر ہو اور عین سورج غروب ہوتے وقت نماز ادا کرنا مکروہ عمل ہے۔

ایران میں زلزلے، ایک سو اسّی ہلاکتیں

ایرانی حکام کا کہنا ہے ملک کے شمال مغربی علاقے میں آنے والے دو زلزلوں میں کم از کم ایک سو اسّی افراد ہلاک اور تیرہ سو سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔

امریکی ارضیاتی سروے کے مطابق تبریز کے خطے میں آنے والے دو زلزلوں کی شدت چھ اعشاریہ چار اور چھ اعشاریہ تین تھی۔

ایرانی حکام کے مطابق پہلا زلزلہ ایران کے شہر تبریز جبکہ دوسرا زلزلہ اھر قصبے کے قریب آیا۔ تہران یونیورسٹی کے زلزلہ پیما مرکز کے مطابق دونوں زلزلے یکے بعد دیگرے آئے۔ حکام کا کہنا ہے کہ زیادہ نقصان تبریز اور اھر کے مضافاتی علاقوں میں ہوا ہے۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق مشرقی آذربائیجان صوبے کی ہنگامی امداد کی مقامی کمیٹی کے سربراہ کے مطابق سب سے زیادہ نقصان حارث اور ورزقاب نامی قصبات میں ہوا ہے۔

حکام کے مطابق زلزلے سے چار دیہات مکمل طور پر تباہ ہوگئے ہیں جبکہ ساٹھ دیہات میں ساٹھ سے ستّر فیصد تباہی ہوئی ہے۔

ایران کی ہنگامی سروسز کے ادارے کے سربراہ غلام رضا معصومی کا کہنا تھا کہ ’مواصلاتی نظام کو نقصان پہنچنے کی وجہ سے حکام کو ہلاکتوں کی درست تعداد کا تعین کرنے میں مشکلات پیش آ رہی ہیں‘۔

تبریز کی ایک رہائشی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’زلزلے کے جھٹکوں نے شہریوں میں شدید خوف و ہراس پھیلا دیا اور بہت سے لوگ اپنے مکانوں سے باہر نکل آئے ہیں۔ ایمبولینسوں کا رش ہر جگہ ہے‘۔

ایران میں زلزلے، ایک سو اسّی ہلاکتیں

بنگلہ دیش: مسجد پر بجلی گرنے سے تیرہ ہلاک

بنگلہ دیش میں پولیس کا کہنا ہے کہ ملک کے ایک شمال مشرقی گاؤں میں ایک مسجد پر بجلی گرنے سے کم از کم تیرہ افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔
 
اطلاعات کے مطابق سیلہت ضلع میں لوگوں نے رمضان کی خصوصی نمازیں ابھی مکمل ہی کی تھیں کہ ٹین سے بنی اس عارضی عمارت پر بجلی گر گئی۔

عینی شاہدین کا کہنا تھا کہ ایسا معلوم ہوا کہ بجلی گرنے سے مسجد کی پوری عمارت میں بجلی دوڑ گئی۔ اس واقعے میں مسجد کے امام بھی ہلاک ہونے والوں میں شامل ہیں۔ 

اولمپک ہاکی فائنل، جرمنی نے ہالینڈ کو شکست دے دی

جیت کی خوشی
اولمپک 2012ء کے ہاکی فائنل میچ میں جرمنی نے ہالینڈ کو 1 کے مقابلے میں 2 گول سے شکست دے کر سونے کا تمغہ جیت لیا ہے۔ اس سے قبل آسٹریلیا کی ٹیم نے برطانیہ کی ٹیم کو 1 کے مقابلے میں 3 گول سے شکست دے کر تیسری پوزیشن حاصل کی اور کانسی کا تمغہ جیتا۔

یاد رہے کہ جرمنی کی ٹیم نے مسلسل تیسری مرتبہ اولمپکس میں سونے کا تمغہ جیت کر ہیٹ ٹرک مکمل کرلی ہے۔

خواتین کے مقابلوں میں ہالینڈ کی ٹیم نے سونے، ارجنٹائن کی ٹیم نے چاندی اور برطانیہ کی ٹیم نے کانسی کا تمغہ جیتا۔ 

ہفتہ, اگست 11, 2012

ہاکی اولمپکس: جرمنی اور ہالینڈ آج فائنل کھیلیں گے

لندن اولمپکس 2012ء کے مردوں کے ہاکی مقابلوں میں جرمنی اور ہالینڈ فائنل میں پہنچ گئے ہیں جہاں وہ آج ہفتہ کو میدان میں اتریں گے۔

جمعرات کو ہونے والے سیمی فائنلز میں جرمنی نے سنسنی خیز مقابلے کے بعد عالمی نمبر ایک آسٹریلیا کو جب کہ ہالینڈ نے برطانیہ کو شکست دی۔

پہلے سیمی فائنل میں آسٹریلیا نے کھیل کے ابتدائی مرحلے سے دباؤ برقرار رکھا اور دو ایک کی خاصی دیر تک برتری برقرار رکھی۔ تاہم اختتامی مرحلے میں جرمنی نے سنسنی خیز انداز میں تین گول کرکے فائنل کے لیے کوالی فائی کرلیا۔

دوسرے سیمی فائنل میں برطانیہ کو ہالینڈ کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ ہالینڈ نے شروع ہی سے کھیل پر اپنی گرفت مضبوط رکھی اور میچ کے اختتام پر نو، دو سے فتح حاصل کرتے ہوئے فائنل میں جگہ بنالی۔

ہاکی اولمپکس: جرمنی اور ہالینڈ فائنل میں

صنوبر کے 100 درختوں کا خاکستر ہونا باعث تشویش

پاکستان میں اگرچہ جنگلات عالمی سطح پر متعین کردہ کم از کم حد سے بہت تھوڑے رقبے پر واقع ہیں لیکن قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہاں دنیا کے دوسرے بڑے صنوبر کے جنگلات موجود ہیں۔

صنوبر کو سب سے قدیم اور سب سے طویل عمر پانے والے درختوں میں شمار کیا جاتا ہے جوکہ بعض اندازوں کے مطابق تین ہزار سال تک محیط ہوسکتا ہے۔ علاوہ ازیں سطح سمندر سے دو سے تین ہزار میٹر بلندی پر شدید موسم میں افزائش بھی اس کی انفرادیت ہے۔

پاکستان میں صنوبر کے جنگلات شمال مغرب اور جنوب مغرب میں پائے جاتے ہیں۔

گزشتہ دنوں گلگت بلتستان کے علاقے رحیم آباد میں صنوبر کے جنگلات میں آگ بھڑک اٹھی تھی جس سے بہت سے درخت متاثر ہوئے۔

ورلڈ وائڈ فنڈ فار نیچر پاکستان کے کنزرویشن مینیجر محمد ظفر خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ تقریباً ایک مربع کلومیٹر رقبے پر واقع صنوبر کے جنگل کو آتشزدگی سے نقصان پہنچا اور لگ بھگ 100 درخت جل گئے۔

’’ان درختوں کی افزائش بہت سست ہوتی ہے۔ ایک درخت کو میچور ہونے میں سو سال لگ جاتے ہیں۔ یہاں پر گلگت بلتستان میں جونی پر (صنوبر) کے جنگلات ٹکڑیوں میں پائے جاتے ہیں تو اس (آتشزدگی) سے اس پیچ کو نقصان پہنچا ہے‘‘۔

انھوں نے بتایا کہ رحیم آباد اور اس کے گرد و نواح کے علاقے میں مارخور کی استوری نسل کے جانوروں کا مسکن ہے اور صنوبر کے جنگلات کو پہنچنے والے نقصان سے یہ مارخور بھی بالواسطہ طور پر متاثر ہو سکتے ہیں۔

محمد ظفر نے بتایا کہ یہاں کی مقامی آبادی کی ایندھن کی ضروریات بھی جنگلات سے حاصل ہونے والی لکڑی پر منحصر ہوتی ہیں جس سے قدرتی درختوں کے ذخائر پر ایک اضافی بوجھ پڑتا ہے۔

’’گلگت بلتستان کے محکمہ جنگلات نے گو کہ جنگلات سے لکڑی کاٹنے پر پابندی عائد کر رکھی ہے لیکن یہاں کے لوگوں کا انحصار اس پر ہے ... تو ورلڈ وائڈ فنڈ فار نیچر نے دیگر متعلقہ اداروں کے ساتھ مل کر یہاں لوگوں کی زرعی اراضی میں تیزی سے بڑھنے والے درخت لگانے کا منصوبہ شروع کر رکھا ہے تاکہ قدرتی جنگلات پر پڑنے والے بوجھ کو کم کیا جاسکے‘‘۔

ان کے بقول رواں سال اب تک یہاں ڈیڑھ لاکھ تیزی سے بڑھنے والے پودے جن میں سفیدہ، کیکر اور بید شامل ہیں لگائے جاچکے ہیں۔

عالمی سطح پر کسی بھی ملک کے تقریباً 20 سے 25 فیصد رقبے پر جنگلات کا ہونا ضروری ہے جب کہ پاکستان میں 4.8 چار فیصد رقبے پر ہی درختوں کے ذخائر ہیں۔

صنوبر کے 100 درختوں کا خاکستر ہونا باعث تشویش

جمعہ, اگست 10, 2012

ابن سینا

ان کا مکمل نام علی الحسین بن عبد اللہ بن الحسن بن علی بن سینا (980 تا 1037 عیسوی) ہے جو کہ دنیائے اسلام کے ممتاز طبیب اور فلسفی ہیں۔ بوعلی سینا کو مغرب میں Avicenna کے نام سے جانا جاتا ہے۔

”الشیخ الرئیس“ ان کا لقب ہے، فلسفی، طبیب اور عالم تھے۔ اسلام کے عظیم تر مفکرین میں سے تھے اور مشرق کے مشہور ترین فلاسفروں اور اطباء میں سے تھے۔ صفر 370 ہجری 980 عیسوی کو فارس کے ایک چھوٹے سے گاؤں ”افنشہ“ میں پیدا ہوئے، ان کی والدہ اسی گاؤں سے تعلق رکھتی تھیں جبکہ ان کے والد ”بلخ“ (اب افغانستان) سے آئے تھے۔ بچپن میں ہی ان کے والدین بخارا (اب ازبکستان) منتقل ہوگئے جہاں ان کے والد کو سلطان نوح بن منصور السامانی کے کچھ مالیاتی امور کی ادارت سونپی گئی۔ بخارا میں دس سال کی عمر میں قرآن ختم کیا اور فقہ، ادب، فلسفہ اور طبی علوم کے حصول میں سرگرداں ہوگئے اور ان میں کمال حاصل کیا۔ کہا جاتا ہے کہ اٹھارہ سال کی عمر میں انہوں نے سلطان نوح بن منصور کے ایک ایسے مرض کا علاج کیا تھا جس سے تمام تر اطباء عاجز آچکے تھے، خوش ہوکر انعام کے طور پر سلطان نے انہیں ایک لائبریری کھول کردی تھی۔ بیس سال کی عمر تک وہ بخارا میں رہے، اور پھر خوارزم چلے گئے جہاں وہ کوئی دس سال تک رہے (392-402 ہجری) خوارزم سے جرجان پھر الری اور پھر ہمذان منتقل ہوگئے جہاں نو سال رہنے کے بعد اصفہان میں علاء الدولہ کے دربار سے منسلک ہوگئے۔ اس طرح گویا انہوں نے اپنی ساری زندگی سفر کرتے گزاری۔ ان کا انتقال ہمذان میں شعبان 427 ہجری 1037 عیسوی کو ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ اپنی زندگی کے آخری ایام میں وہ ”قولنج“ کے مرض میں مبتلا ہوگئے تھے اور جب انہیں اپنا اجل قریب نظر آنے لگا تو انہوں نے غسل کرکے توبہ کی، اپنا مال صدقہ کردیا اور غلاموں کو آزاد کردیا۔

ابن سینا نے علم ومعرفت کے بہت سارے زمروں میں بہت ساری تصانیف چھوڑیں ہیں جن میں اہم یہ ہیں:

ادبی علوم: اس میں منطق، لغت اور شعری تصنیفات شامل ہیں۔

نظری علوم: اس میں طبیعات، ریاضی، علومِ الہی وکلی شامل ہیں۔

عملی علوم: اس میں کتبِ اخلاق، گھر کی تدبیر، شہر کی تدبیر اور تشریع کی تصنیفات شامل ہیں۔

ان اصل علوم کے ذیلی علوم پر بھی ان کی تصنیفات ہیں 
ریاضی کی کتابیں: 
ابن سینا کی کچھ ریاضیاتی کتابیں یہ ہیں: رسالہ الزاویہ، مختصر اقلیدس، مختصر الارتماطیقی، مختصر علم الہیئہ، مختصر المجسطی، اور ”رسالہ فی بیان علہ قیام الارض فی وسط السماء“ (مقالہ بعنوان زمین کی آسان کے بیچ قیام کی علت کا بیان) یہ مقالہ قاہرہ میں 1917 میں شائع ہوچکا ہے۔

طبیعات اور اس کے ذیلی علوم: رسالہ فی ابطال احکام النجوم (ستاروں کے احکام کی نفی پر مقالہ)، رسالہ فی الاجرام العلویہ (اوپری اجرام پر مقالہ)، اسباب البرق والرعد (برق ورعد کے اسباب)، رسالہ فی الفضاء (خلا پر مقالہ)، رسالہ فی النبات والحیوان (پودوں اور جانوروں پر مقالہ)۔

طبی کتب: ابن سینا کی سب سے مشہور طبی تصنیف ”کتاب القانون“ ہے جو نہ صرف کئی زبانوں میں ترجمہ ہوکر شائع ہوچکی ہے بلکہ انیسویں صدی عیسوی کے آخر تک یورپ کی یونیورسٹیوں میں پڑھائی جاتی رہی۔ 
ان کی دیگر طبی تصنیفات یہ ہیں: کتاب الادویہ القلبیہ، کتاب دفع المضار الکلیہ عن الابدان الانسانیہ، کتاب القولنج، رسالہ فی سیاسہ البدن و فضائل الشراب، رسالہ فی تشریح الاعضاء، رسالہ فی الفصد، رسالہ فی الاغذیہ والادویہ، ارجوزہ فی التشریح، ارجوزہ المجربات فی الطب، اور کئی زبانوں میں ترجم ہوکر شائع ہونے والی ”الالفیہ الطبیہ“۔

ابن سینا نے موسیقی پر بھی لکھا، ان کی موسیقی پر تصنیفات یہ ہیں: مقالہ جوامع علم الموسیقی، مقالہ الموسیقی، مقالہ فی الموسیقی۔

ان کی اہم تصانیف میں
- کتاب الشفاء
- القانون فی الطب
- اشارات

یورپ میں ان کی بہت سی کتابوں کے ترجمے ہوئے اور وہاں ان کی بہت عزت کی جاتی ہے۔

ڈاکٹر شکیل آفریدی کے لئے امریکی سنٹرل انٹلی جینس ایجنسی کی طرف سے میڈل آف آنر

’وال سٹریٹ جرنل‘ کہتا ہے کہ امریکی سنٹرل انٹیلی جینس ایجنسی کےلینگ لے کے ہیڈکوارٹر میں کسی جگہ اُس پاکستانی ڈاکٹر کے لئے ایک میڈل آف آنر رکھا ہوا ہے جس نے اس ایجنسی کو ہیپاٹائٹس کےخلاف ایک بوگس سکیم چلا کر ایبٹ آباد میں اوسامہ بن لادن کی پناہ گاہ کا سُراغ لگانے میں مدد کی تھی۔

اخبار کہتا ہے کہ یہ ڈاکٹر شکیل آفریدی شاید عرصہ دراز تک اپنا یہ میڈل حاصل نہ کرسکے، کیونکہ اس وقت وہ پشاور کے سنٹرل جیل میں 33 سال کی قید تنہائی کی سزا بُھگت رہا ہے۔ یہ سزا اُسے بغاوت کے الزام میں مئی میں سُنائی گئی تھی۔

پاکستان کی آئی ایس آئی کی جاری کردہ ایک رپورٹ میں آفریدی کو ایک جہادی تنظیم کا رکن ہونے کا مجرم قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس نے 25 مرتبہ غیرملکی خفیہ ایجنٹوں سے ملاقات کی اور ان سے ہدایات حاصل کیں اور اُنہیں حسّاس نوعیت کی معلومات فراہم کیں یہ جانتے ہوئے کہ ایسا کرکے وہ پاکستان کے مفادات کے خلاف کام کررہا ہے۔

اخبار کہتا ہے کہ شاید اس ڈاکٹر نے ٹیکے لگانے کا ایک جعلی پروگرام شروع کرکے اور پاکستانی اخباری اطلاعات کے مطابق اس کے لئے 61 ہزار ڈالر کی رقم لے کر طبّی پیشے کی ذمّہ داریوں کی خلاف ورزی کی ہو۔

لیکن، اخبار کے خیال میں دلچسپ سوال یہ ہے کہ آئی ایس آئی کے لئے اکیسویں صدی کے بدنام ترین دہشت گرد کے بارے میں معلومات کیونکر حسّاس ہوسکتی ہیں، سوائے اس کے کہ یہ ادارہ یا اس کے عناصر اسے تحفظ فراہم کررہے ہونگے۔ اس سے بھی زیادہ تعجب انگیز بات یہ ہے کہ یہ ادارہ اوسامہ بن لادن کو ہلاک کرنا پاکستان کے مفاد کے خلاف کام کرنے کے مترادف سمجھتا ہے۔

اخبار کہتا ہے کہ امریکی انتظامیہ کے پاکستان کے ساتھ تعلّقات میں حال ہی میں گرمجوشی آئی ہےاور آئی ایس آئی کے ایک نئے سربراہ نے واشنگٹن کی طرف زیادہ تعمیری رویّہ اختیار کیا ہے۔ لیکن یہ مفاہمت اس وقت تک اس سے آگے نہیں بڑھ سکتی جب تک ڈاکٹرآفریدی جیل میں بند ہے۔ بن لادن کو ٹھکانے لگانے والے امریکی افراد کو واپس گھر لایا جا چُکا ہے اور ڈاکٹر آفریدی اُنہیں میں سے ایک تھا۔ اور امریکہ کی امداد کرنے والوں کو یہ اطمینان ہونا چاہئیے کہ جس طرح ہم اپنے فوجیوں کو میدان جنگ میں نہیں چھوڑ آئے اُسی طرح ہم اپنے دوستوں کو اپنے حال پر نہیں چھوڑتے۔

جمعرات, اگست 09, 2012

غصے کا علاج

جب غصہ آئے تو اِن میں سے کوئی بھی ایک یا سارے عمل کر ڈالیے۔

- اعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم پڑھیے
- ولا حول ولا قوۃ الا باللہ پڑھیے
- خاموش ہوجائیے
- وضو کر لیجئے
- ناک میں پانی چڑھائیے
- کھڑے ہیں تو بیٹھ جائیے
- بیٹھے ہیں تو لیٹ جائیے
- خود کو زمین سے ملا لیجئے، (وضو ہو تو سجدہ کرلیں) تاکہ احساس ہو کہ خاک سے بنا ہوں لہذا مجھے کسی شخص پر غصہ کرنا زیب نہیں دیتا۔
- جس پر غصہ آیا ہو اس کے سامنے سے ہٹ جائیے

اگر کسی کو غصے کی حالت میں ڈانٹ دیا ہے تو خصوصیت کے ساتھ سب کے سامنے ہاتھ جوڑ کر اس سے معافی مانگیں اس طرح نفس ذلیل ہوگا اور آئندہ غصہ کرتے وقت ذلت یاد رہے گی۔

اس بات پر غور کیجئے کہ آج میں کسی شخص کی خطا پر غصہ کررہا ہوں اور درگزر کرنے پر تیار نہیں، حالاں کہ میری خطائیں بے شمار ہیں اگر اللہ عز وجل غضب ناک ہوگیا اور اس نے مجھے معاف نہیں کیا تو میرا کیا ہوگا؟

اگر کوئی زیادتی کرے یا خطا کر دے اور اس پر نفس کی خاطر غصہ آجائے تو معاف کردینا کار ثواب ہے تو کیوں نہ میں اس کو معاف کرکے ثواب کا حق دار بنوں اور ثواب بھی کیسا زبردست کہ قیامت کے دن اعلان کیا جائے گا جس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے وہ اٹھے اور جنت میں داخل ہوجائے۔ پوچھا جائے گا کس کے لئے اجر ہے کہا جائے گا ان لوگوں کے لئے جو معاف کرنے والے ہیں۔

گیارہ سالہ نا بالغ بچی کی 54 سالہ شخص سے شادی کی کوشش ناکام

ٹھٹھہ کے علاقے سجاول میں پولیس نے گیارہ سالہ لڑکی کی شادی 54 سالہ شخص سے ناکام بناکر لڑکی، اُ س کی ماں اور بھائی سمیت 54 سالہ دولھا کو گرفتار کرلیا۔

پاکستان کے ایک موقر انگریزی روزنامے’ڈان‘ کی خبر کے مطابق، اطلاع پر پولیس نے ماچھی گوٹھ کے ایک مکان میں چھاپہ مار کر 54 سالہ شخص کو نابالغ لڑکی سے شادی کرنے کے جرم میں گرفتار کرلیا۔ لڑکی کی ماں اور بھائی نے گیارہ سالہ لڑکی کو پینتس ہزار روپے میں بیچا تھا۔

سجاول تھانے کے ایس ایس پی عثمان غنی نے ایف آئی آر درج کرنے کے بعد لڑکی کی ماں اور اس کے بھائی، نکاح خواں اور گواہوں کے خلاف تفتیش شروع کردی ہے۔ انسانی حقوق سیل کے انچارج رفیق سومرو نے بتایا کہ مزید افراد کو بھی جلد گرفتار کرلیا جائے گا۔

پاکستان میں کم عمری کی شادیوں کے خلاف موجودہ قانون میں لڑکی کی شادی کی کم از کم عمر سولہ جبکہ لڑکے کی اٹھارہ سال ہے، تاہم اس قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بچوں کی کم عمری میں شادی کا رواج موجود ہے۔

گیارہ سالہ نا بالغ بچی کی 54 سالہ شخص سے شادی کی کوشش ناکام