بدھ, جولائی 04, 2012

بھارتی دلہن کے لیے خصوصی بیت الخلاء کا افتتاح

اتر پردیش کی ایک نئی نویلی دلہن پریانکا بھارتی اس وقت سسرالی گھر چھوڑ کر اپنے میکے چلی گئی، جب اسے یہ پتہ چلا کہ رفع حاجت کے لیے اسے کھلے کھیتوں میں جانا پڑے گا۔

خبر رساں ادارے اے یف پی کے مطابق وِشنو پور کے علاوہ چند ہی دنوں میں یہ ڈرامہ قریبی دیہات میں بھی مشہور ہوگیا۔ دونوں خاندانوں کے بڑوں نے لڑکی کو سسرال واپس جانے کے لیے بہت سمجھایا لیکن لڑکی کا کہنا تھا کہ کھیتوں میں رفع حاجت کے لیے جانا اس کے لیے انتہائی شرمناک بات ہے۔

اس کہانی کے منظر عام پر آنے کے بعد ایک فلاحی تنظیم سُلبھ نے اس بھارتی دلہن کے لیے ایک بیت الخلاء کی تعمیر کا ارادہ کیا اور اب بڑھی ہی دھوم دھام سے اس لیٹرین کا افتتاح کیا گیا ہے۔ افتتاحی تقریب میں دلہن نے بھی شرکت کی۔ اس موقع پر دلہن پریانکا بھارتی کا کہنا تھا، ’’میری ضد تھی کہ میں اُس گھر میں نہیں رہ سکتی، جہاں مجھے ڈر لگا رہے کہ لوگ مجھے رفاہ حاجت کے وقت دیکھ سکتے ہیں‘‘۔

پریانکا بھارتی کے اس احتجاج کو بھارت کی بڑی فلاحی تنظیموں میں شمار ہونے والی آرگنائزیشن سُلبھ نے قابل تعریف قرار دیا ہے۔ اس تنظیم کا کہنا ہے کہ اس طرح کے احتجاج کو عوامی صحت کو فروغ دینے کے طریقے متعارف کروانے کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔

بیت الخلاء کے افتتاح کے موقع پر اس تنظیم کی طرف سے دلہن کو دو لاکھ روپے کا انعام بھی دیا گیا ہے۔ فلاحی تنظیم کی انتظامیہ کا کہنا تھا، ’’ہم نے پریانکا اور دیگر دو خواتین کو انعام کے طور پر دو دو لاکھ روپے دیے ہیں۔ یہ واقعی حوصلے کی بات ہے کہ بیت الخلاء نہ ہونے پر سسرال میں رہنے سے انکار کردیا جائے“۔

سلبھ اب تک بھارت کے غریب دیہاتیوں کو 1.2ملین ٹوائلٹ فراہم کرچکی ہے۔ اس تنظیم نے اعتراف کیا کہ پریانکا اور اس کے اہلخانہ کے لیے تعمیر کردہ ٹوائلٹ پر ایک ہزار ڈالر خرچ ہوئے ہیں تاہم تیس ڈالر سے کم رقم میں بھی ایک سادہ ڈیزائن والا ٹوائلٹ تعمیر کیا جاسکتا ہے۔

بھارت کے دیہی ترقی کے وزیر جے رام رمیش نے حال ہی میں کہا تھا، ’’یہ شرم کی بات ہے کہ 60 سے 70 فیصد عورتیں بیت الخلاء نہ ہونے کی وجہ سے کھلی جگہوں پر رفع حاجت کرنے پر مجبور ہیں“۔ انہوں نے مزید فنڈز کی فراہمی اور اس مسئلے سے نمٹنے کے عزم کا اظہار کیا۔

دو ہزار گیارہ کی مردم شماری کے مطابق بھارت کے تقریباً 131 ملین خاندانوں کے پاس اپنے احاطے میں لیٹرین کی سہولت نہیں ہے۔ آٹھ ملین کے قریب بھارتی ’پبلک بیت الخلاء‘ استعمال کرتے ہیں جبکہ 123 ملین افراد رفع حاجت کے لیے کھلی جگہوں یا پھر کھیتوں کا استعمال کرتے ہیں۔


بھارتی دلہن کے لیے خصوصی بیت الخلاء کا افتتاح

مالی کے شمالی حصے ٹمبکٹو ميں شدت پسند مسلمانوں نے اولياء کے مزيد پانچ قديم مزارات کو توڑ پھوڑ ديا ہے

انصاردين کے جنگجو
شدت پسند تين ماہ قبل ٹمبکٹو اور مالی کے بقيہ شمالی حصے پر قبضہ کرچکے ہيں۔ وہ ان قديم مزارات کو شرک کی علامت سمجھتے ہيں، جہاں قبر پرستی کی جاتی ہے۔ پچھلے دو دنوں ميں وہ سات قبروں کو تباہ کرچکے ہيں۔

ٹمبکٹو ايک قديم صحرائی گذرگاہ اور علم کا مرکز چلا آرہا ہے۔ اُسے ’333 اولياء کا شہر‘ کہا جاتا ہے۔ مالی کی حکومت اور عالمی برادری نے قديم مزارات کی تباہی پر شديد صدمے کا اظہار کيا ہے۔ بين الاقوامی فوجداری عدالت کی وکيل استغاثہ فاتو بنسودا نے ڈاکار ميں خبر ايجنسی اے ايف پی کو انٹرويو ديتے ہوئے کہا: ’’ان مجرمانہ سرگرميوں ميں ملوث افراد کو ميرا پيغام يہ ہے کہ وہ اب مذہبی عمارات کی توڑ پھوڑ کا سلسلہ روک ديں۔ يہ ايک جنگی جرم ہے اور ميرا دفتر اس کی تحقيقات کرے گا۔‘‘

انہوں نے کہا کہ مالی بين الاقوامی فوجداری عدالت کے قيام کے منشور پر دستخط کرنے والا ملک ہے جس کی دفعہ نمبر آٹھ کے مطابق حفاظتی اقدامات نہ رکھنے والی سول عمارتوں پر جان بوجھ کر کيے جانے والے حملے ايک جنگی جرم ہیں۔

شدت پسندوں نے ہفتہ کو سدی محمود، سدی مختار اور الفا مويا کی قبريں تباہ کرديں اور اتوار کو انہوں نے چار مزيد مزارات پر حملہ کيا، جن ميں شيخ الکبير کا مزار بھی شامل ہے۔

علاقے کے شہری بے بسی سے يہ سب کچھ ہوتا ديکھتے رہے۔ ايک صحافی نے اپنا نام خفيہ رکھے جانے کی شرط پر بتايا کہ حملہ آور مسلح تھے اور ہم کچھ بھی نہيں کرسکتے تھے ورنہ ہميں يقيناً ہلاک کرديا جاتا۔ اُس نے بتايا کہ چار قبروں کو مکمل طور پر تباہ کرديا گيا اور اُن کے گرد رکھے ہوئے مٹی کے برتنوں اور دوسری چيزوں کو بھی توڑ پھوڑ ديا گيا۔

ٹمبکٹو کی تين قديم مساجد کے اندر بھی اولياء کی قبور ہيں اور شدت پسندوں نے انہيں بھی تباہ کرنے کی دھمکی دی ہے۔ ٹمبکٹو کی تين سب سے بڑی مساجد ميں سے ايک سدی يحيٰی ہے، جو چودھويں صدی ميں تعمير کی گئی تھی۔

انصار دين نامی يہ گروپ دہشت گرد تنظيم القاعدہ سے منسلک گروپوں ميں شامل ہے، جنہوں نے مارچ ميں ہونے والی ايک بغاوت کے نتيجے ميں پيدا شدہ انتشار کے دوران شمالی مالی پر قبضہ کرليا تھا۔

انصار دين کے ترجمان صاندا بوماما نے کہا: ’’خدا واحد ہے۔ جو يہاں کيا جارہا ہے وہ سب حرام ہے۔‘‘

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے کہا کہ وہ مغربی افريقی ممالک کی برادری کے قيام کی کوششوں کے حامی ہيں اور افريقی يونين اور علاقے کے ممالک کی طرف سے اس تنازعے کو پرامن طور پر حل کرنے کی کوششوں کی حمايت کرتے ہيں۔

اُدھر اسلامی تعاون تنظيم نے آج سعودی عرب ميں ايک بيان جاری کيا ہے جس ميں مالی کے باغيوں کے ہاتھوں پندرھويں صدی کی ايک مسجد کی تباہی کی مذمت کی گئی ہے۔ بيان ميں يہ بھی کہا گيا ہے کہ قديم مساجد مالی کے اسلامی ورثے کا حصہ ہيں اور انہيں تباہ کرنے کی اجازت نہيں دی جانی چاہيے۔ تنظيم کے اس بيان ميں تاريخی مقامات کی حفاظت اور اُنہيں برقرار رکھنے کے ليے ضروری اقدامات کا مطالبہ بھی کيا گيا ہے۔

عالمی برادری کو خوف ہے کہ مالی کا وسيع صحرائی علاقہ دہشت گردوں کی ايک نئی پناہ گاہ بن جائے گا۔ شدت پسندوں نے مالی ميں کسی ممکنہ فوجی مداخلت ميں حصہ لينے والے تمام ممالک کو تنبيہہ کی ہے۔

مالی کے شمالی حصے ٹمبکٹو ميں شدت پسند مسلمانوں نے اولياء کے مزيد پانچ قديم مزارات کو توڑ پھوڑ ديا ہے

لندن اولپمکس کے تمغے انتظامی کمیٹی کے حوالے کر دئیے گئے

لندن میں ہونے والے اولپمک اور پیرالمپک کھیلوں کے تمام تمغے انتظامی کمیٹی کے حوالے کر دئیے گئے ہیں۔ سونے، چاندی اور تانبہ کے تمغے گیارہویں صدی میں تعمیر کردہ قلعے میں ٹاور آف لندن میں اولپمکس کے افتتاحی دن یعنی ستائیس جولائی تک محفوظ رکھے جائیں گے۔ اولپمک تمغے برطانوی شاہی ٹکسال میں ڈھالے گئے ہیں۔ تمغوں کی کل تعداد چار ہزار سات سو ہے۔ یہ اولپمک کھیلوں کی تاریخ میں سب سے بڑے تمغے ہیں، ان کا قطر ساڑھے آٹھ سینٹی میٹر ہے، چوڑائی سات ملی میٹر اور وزن چار سو گرام ہے۔ تمغوں کے ایک طرف فتح کی قدیم یونانی دیوی نیکا کی تصویر کندہ ہے۔

سراغرساں آلہ

روسی سائینسدانوں نے ایک ایسا منفرد آلہ بنا لیا ہے جو کسی چیز میں لپیٹے گئے نشہ آور مواد، دھماکے سے پھٹنے والے مواد اور جعلی اشیاء کا سراغ لگا سکتا ہے۔ یہ آلہ برائے فروخت پیش کردیا گیا ہے۔

یہ لیزر آلہ ”سکولکووو“ کے جوہری ٹکنالوجی کے جھرمٹ میں شامل کمپنی ”رام مکس“ کا تیار کردہ ہے۔ ایک ہی وقت میں مختلف انواع کی مشتبہ اشیاء کی شناخت اس طرح ہوگی کہ آلے میں نصب ”کلر سپیکٹر“ یعنی رنگوں کا طیف، چشم زدن میں اس شے کی شناخت کرلے گا۔ چاہے مادہ کیسی شکل میں ہی کیوں نہ ہو مائع، ٹھوس یا پسی ہوئی شکل میں۔ لیکن یہ آلہ دھات کی شناخت میں ممد نہیں ہے۔ مادہ آنکنے کی خاطر بند شے کو کھولنا ضروری نہیں۔ اب مادے سے متعلق حتمی طور پر طے کیے جانے کی خاطر تجزیے کی ضرورت نہیں ہوگی، کمپنی ”رام مکس“ کے مارکیٹنگ ڈائریکٹر الیکسی ستیبلیو کہتے ہیں، ”ہم نے حقیقتا یہ آلہ اس طرح سے ایجاد نہیں کیا جس طرح دنیا میں ایجاد کے معنی میں لیا جاتا ہے لیکن ہم نے اس میں کچھ منفرد اختراعات ضرور کی ہیں۔ ہم نے اس کی درستگی اس طرح کے بنائے جانے والے دوسرے آلوں کی نسبت بہت بڑھا دی ہے۔ ہم نے اس میں کچھ سود مند اضافے کیے ہیں جیسے لیزر کی کیلیبریشن اور ایڈجسٹمنٹ کی ضرورت نہیں ہے۔ اس میں یہ انتظام بھی کیا گیا ہے کہ یہ رنگوں کے عام طیف کے ساتھ ساتھ دمکنے والے طیف کا تعین بھی کرتا ہے۔ ایسا دنیا کا کوئی اور آلہ نہیں کر پاتا“۔


روس کا بنا یہ آلہ دنیا میں بنائے جانے والے اس قسم کے آلوں کی نسبت قیمت اور حجم میں بھی ممتاز ہے، اس آلے کو بہتر بنا کر پیش کرنے والوں میں سے ایک شخص ایگر کوکوشکن بتاتے ہیں: ”یہ دس ضرب پانچ سنٹی میٹر کا ایک سیاہ مستطیل ڈبہ ہے جسے لیپ ٹاپ، آئی پیڈ یا سمارٹ فون کے ساتھ منسلک کیا جاسکتا ہے۔ بغیر مانیٹر کے اس کا وزن 900 گرام ہے، اس لیے اسے آسانی سے ایک ہاتھ میں تھاما جا سکتا ہے۔ یہ آلہ ایک بٹن دبانے سے کام کرنے لگتا ہے البتہ ایسے شخص کی ضرورت ہوتی ہے جو لیزر کی شعاع کو متعلقہ چیز پر مرکوز کردے، چاہے وہ ہیرا ہو، سیب، دوائی، پانی یا کچھ اور ہو۔ جب متعلقہ شے پر لیزر کی شعاع پڑنے لگے تو انٹر کا بٹن دبا دیا جاتا ہے اور سکرین پر لکھا نمودار ہوجاتا ہے کہ بند شے کی نوعیت کیا ہے اور اس کیمیائی اور ساختیاتی فارمولا کیا ہے۔

استعمال کرنے والا پانچ منٹ میں ہی اسے استعمال کرنا سیکھ سکتا ہے۔ اگر لیزر بیم والا حصہ جل جائے یا خراب ہوجائے تو اسے بدلنے کی خاطر کسی ماہر شخص کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ ہائی ٹیک ہونے کے باوجود یہ آلہ استعمال کیے جانے میں بے حد سادہ ہے، الیکسی ستیبلیوو قائل کن انداز میں کہتے ہیں، ”مثال کے طور پر کسٹمز والوں کو اکثر ضرورت ہوتی ہے کہ وہ اس چیز کے بارے میں جان سکیں جو کوئی شخص لے کر جارہا ہے یا آرہا ہے اور اس کا تطابق بیان کردہ قانون سے کریں۔ ہمارے بنائے گئے آلے کے طفیل کسٹمز والوں کے لیے بہت زیادہ سہولت پیدا ہوجائے گی، انہیں کیمیائی تجزیے اور معلومات کے جھنجھٹ سے نجات مل جائے گی۔ وہ ایک بٹن دبانے سے ہی معلوم کرلیں گے کہ کسی شے میں بند چیز کیا ہے، چینی بورا ہے، کوکین ہے یا کسی قسم کا پھٹنے والا مادہ۔ اس مادے کو تجزیے کی خاطر کہیں نہیں بھجوانا پڑے گا بلکہ اسی مقام پر ہی تعین ہو جایا کرے گا۔ جیسے کہ کوئی شخص کچھ چمکدار پتھر لے کر جا رہا ہے اور کہتا ہے کہ یہ نگینے ہیں لیکن کسٹمز والے اس آلے کے ذریعے ایک سیکنڈ میں معلوم کرلیں گے کہ جنہیں نگینے کہا جارہا ہے وہ اصل میں ہیرے ہیں، چاہے انہوں نے نہ کبھی ہیرے دیکھے ہوں اور نہ ہروں کے بارے میں کچھ جانتے ہوں۔

روس کا یہ آلہ بازار میں بیچی جانے والی نقلی دواؤں کے بارے میں بھی معلوم کرسکتا ہے۔ بس اس کو آنکنے کی خاطر اس آلے کا استعمال کرنا ہوگا۔

اس آلے میں روس اور باہر کے لوگوں نے پہلے ہی دلچسپی لینا شروع کردی ہے اس لیے کمپنی نے طے کیا ہے کہ پانچ سال کے عرصے میں وہ وسیع تعداد میں یہ آلہ بنائیں گے۔


سراغرساں آلہ

روس میں الارم کلاک پروجیکٹ

روس میں ایک دلچسپ پروجیکٹ شروع کیا گیا ہے جس میں دنیا کے کسی بھی ملک میں رہنے والے لوگ حصہ لے سکتے ہیں بشرطیکہ وہ روسی زبان بولنا جانتے ہوں۔

غیرممالک میں اس پروجیکٹ کا کوئی ہم پلہ دوسرا پروجیکٹ نہیں ہے۔ اس کا مقصد ٹیلی فون کے ذریعے لوگوں کو جگانا ہے۔ تمام خواہش مند پروجیٹک کی ویب سائٹ پر درخواست جمع کرا سکتے ہیں کہ انہیں صبح جگایا جائے۔ اپنا نام، جنس، ٹیلی فون نمبر، ایم میل ایڈریس کے بارے میں معلومات فراہم کرکے وقت متعین کردیں جب آپ کو جگانا ہوگا۔ جو لوگ دوسروں کو جگانے میں حصہ لینا چاہیں انہیں سائٹ پر اپنے بارے میں ذاتی معلومات درج کرنے اور وقت بتانے کی ضرورت ہے کہ وہ فون کب کرسکتے ہیں۔ متعینہ وقت پر خودکار مشین جگانے والے شخص سے رابطہ قائم کرکے اسے جگائے جانے والے کے ساتھ منسلک کردیتی ہے۔ یوں جگانے والا دوسرے کو جگانے کے بارے میں اپنا مشن نہیں بھولے گا۔ مزید برآں کسی کو دوسروں کے فون نمبر نہیں دئے جاتے۔ اگر متعینہ وقت پر آپ کو کوئی جگانا نہ چاہے تو روبوٹ آپ کو فون کرکے جگا دے گا۔

پروجیکٹ کے منتظم گراچِک آجامیان کو اس طرح کی سروس شروع کرنے کا خیال سات سال پہلے آیا تھا جب وہ پڑھتے اور کام کرتے تھے۔ انہیں سونے کے لیے زیادہ وقت نہیں ملتا تھا لیکن انہیں بیدار کرنے میں کوئی بھی الارم کلاک مددگار ثابت نہیں ہوا تھا۔ لیکن جب کسی نامعلوم شخص انہیں فون کرتا تو وہ ضرور جاگ جاتے تھے کیونکہ یہ امکانی گاہک ہوسکتا تھا۔

پروجیکٹ کے منتظم کا خیال ہے کہ فون کی سکرین پر کوئی نامعلوم نمبر دیکھ کر آپ فون کرنے والے پر مثبت اثر ڈالنے کی نادانستہ کوشش کرتے ہیں۔ اس لیے آپ نیند سے جلد از جلد بیدار ہونے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ نامعلوم شخص کے ساتھ بات چیت کے بعد آپ دوبارہ نہیں سو پائیں گے۔

کسی کو جگانے کے لیے مختلف طریقے سے کام لیا جاتا ہے۔ کوئی شاعری پڑھ کر سناتا ہے تو کوئی گیت گاتا ہے۔

ماہ جون کے شروع میں اس پروجیکٹ کا دورانیہ بڑھا دیا گیا اور زیادہ لوگ شامل ہوگئے۔ اب دنیا بھر میں رہنے والے لوگ اس سروس سے استفادہ کرسکتے ہیں بشرطیکہ انہیں روسی زبان پر عبور ہو۔ تاہم اندازہ ہے کہ آئندہ چند مہینوں میں انگریزی زبان میں بھی اسی قسم کا پروجیکٹ شروع کیا جائے گا۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ یہ پروجیکٹ شروع کرنے کے لیے منتظمین کو مقبول ترین روسی سوشل نیٹ ورکنگ سائٹ ”و کونتاکتے“ (یعنی ”ان کونکیٹک“) کی طرف سے رقم ملی تھی۔ اس سوشل نیٹ ورکنگ سائٹ کی مالی امداد سے شروع کئے جانے والے سماجی پروجیٹکوں کی تعداد چھہ ہے جن میں سے ایک کا مقصد ایک ایسی سائٹ کھولنا ہے جس کے ذریعے لوگ مختلف اشتہارات اور درخواستیں شائع کروا سکیں۔ مزید برآں ایک نئی سائٹ شروع کی جائے گی جس پر مختلف علوم پر مبنی لیکچرز کی ویڈیو ریکارڈنگ نشر کی جائے گی۔

روس میں الارم کلاک پروجیکٹ

شام کے صدر بشارالاسد ایک شرط پر فوری طور پر اقتدار منتقل کیے جانے کی خاطر تیار

شام کے صدر بشارالاسد نے کہا ہے کہ اگر انہیں پورا یقین ہو کہ شام کا بحران حل ہو جائے گا تو وہ اقتدار فوری طور پر منتقل کر دینے کی خاطر تیار ہیں۔ یہ بات انہوں نے ترکی کے اخبار "جمہوریت" کو دیے گئے انٹرویو میں کہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ واشنگٹن کے اس مطالبے پر کان نہیں دھرتے کہ انہیں مستعفی ہو جانا چاہیے کیونکہ امریکہ شام کا دشمن ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ خود غرضانہ مقاصد کی خاطر صدر نہیں بنے بلکہ وہ اپنے ملک کی خدمت کی خاطر صدر بنے ہیں۔ ہفتے کو جینیوا میں ہونے والی کانفرنس کے نتائج پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ ان نتائج سے مطمئن ہیں کیونکہ اس کے اعلامیے میں یہ لکھا ہوا ہے کہ شام کے مستقبل کے بارے میں شام کے عوام کو ہی طے کرنا ہے۔

ومبلڈن کوارٹر فائنل: مرے کا مقابلہ فیرر سے

برطانوی کھلاڑی اینڈی مرے نے عالمی نمبر پانچ کھلاڑی ڈیوڈ فیرر کے ساتھ ہونے والے کوارٹر فائنل سے قبل کہا ہے کہ ومبلڈن فائنل ابھی بہت دور ہے۔

رافیل ندال کی شکست کے بعد عالمی نمبر چار کھلاڑی اینڈی مرے کا ومبلڈن جیتنے کی امید بڑھ گئی ہے۔ اگر وہ ومبلڈن جیت جاتے ہیں تو وہ اپنا پہلا گرینڈ سلیم حاصل کریں گے۔

اینڈی مرے نے کہا ’ومبلڈن فائنل میں ابھی دیر ہے اور وہ اس کے بارے میں نہیں سوچ رہے۔ فیرر بہت عمدہ کھیل پیش کررہے ہیں اور مجھے بہت اچھا کھیلنا ہوگا۔‘

اینڈی مرے نے سپین کے فیرر کے خلاف دس میچوں میں پانچ جیتے ہیں لیکن آخری دو میچوں میں مرے کو فیرر کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا بشمول فرنچ اوپن کے کوارٹر فائنل کے۔

فیرر نے اینڈی کو کلے کورٹ پر شکست دی ہوئی ہے اور یہ دونوں کھلاڑیوں کا گھاس کے کورٹ پر پہلا مقابلہ ہوگا۔

اینڈی مرے نے کہا ’میرے لیے فیرر کلے کورٹ پر کھیلنے کا ماہر نہیں ہے۔ وہ گھاس کے کورٹ پر لگاتار نو میچ جیت چکا ہے۔ وہ آسٹریلین اوپن، یو ایس اوپن اور فرنچ اوپن کے سیمی فائنل میں پہنچے اور اب وہ گھاس پر بہتر کھیلنے لگ گئے ہیں۔‘

مرے سے جب پوچھا گیا کہ کیا فرنچ اوپن میں فیرر کے ہاتھوں شکست کا آج کے میچ پر اثر ہوگا تو انہوں نے کہا ’ہم دیکھیں گے کہ اثر ہوتا ہے یا نہیں۔‘

’ٹینس میں کارکردگی ہر ہفتے تبدیل ہوتی ہے۔ ایک ہفتے اچھا کھیلنے والے اگلے ہفتے اچھا نہیں کھیلتے۔ پھچلے سال نووک نے ندال کو کبھی شکست نہیں دی تھی لیکن پھر وہ ندال کو ہرانے لگ گیا۔‘


ومبلڈن کوارٹر فائنل: مرے کا مقابلہ فیرر سے

ومبلڈن کا شاہین دوبارہ مل گیا

لندن میں ومبلڈن گرینڈ سلام ٹینس مقابلوں کے دوران کبوتروں کو میدان سے دور رکھنے میں مدد دینے والا شاہین چوری ہونے کے تین دن بعد مل گیا ہے۔

جمعرات کو روفس نامی اس شاہین کو جنوب مشرقی لندن میں اس کے سفری ڈبے سے چوری کیا گیا تھا۔

اس باز کے مالک نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک پیغام میں کہا ہے کہ’روفس کی صحت ٹھیک اور خیریت سے ہے۔ ہمیں اس کے ملنے پر بے انتہا خوشی ہے۔‘

جمعرات کی رات کو روفس چوری ہوا تھا اور جمعہ کی صبح لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے روفس کے سفری ڈبے کے بارے میں اطلاع دی۔

اس سفری ڈبے کو تیار کرنے والے مارٹن انڈروڈ کے مطابق ایک شخص نے انہیں فون کر کے کہا کہ’مجھے ایک ایسی چیز ملی ہے جس کا تعلق آپ سے ہے۔‘

مارٹن انڈروڈ کے مطابق اس وقت تک انہیں یہ معلوم نہیں تھا کہ روفس چوری ہو چکا ہے تاہم اطلاع دینے والا شخص پولیس ملازم یا اس کا تعلق خیراتی ادارے’آر ایس پی سی اے‘ سے تھا۔

لندن پولیس کی ایک ترجمان کے مطابق روفس کو خیراتی ادارے کے جانوروں کے ہسپتال میں حوالے کیا گیا۔

ترجمان کے مطابق’روفس کی ٹانگ پر معمولی زخم ہے اور اسے دوبارہ کام پر جانے سے پہلے چند روز آرام کرنے کی ضرورت ہوگی۔‘

چار سالہ روفس کو ومبلڈن کے مرکزی سٹیڈیم میں صبح کے وقت تماشائیوں کے آنے سے پہلے کبوتروں کو ڈرانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔


ومبلڈن کا شاہین دوبارہ مل گیا

ماریہ شراپووا کی ومبلڈن میں شکست

پیر کے روز عالمی نمبر ایک روس کی ماریہ شراپووا جرمن کھلاڑی سابین لیسکی سے چھ چار اور چھ تین سے شکست کے بعد ومبلڈن ٹورنامنٹ سے باہر ہوگئی ہیں۔

شراپووا نے ایک ماہ قبل ہی کریئر گرینڈ سلیم مکمل کیا تھا۔

خواتین کھلاڑیوں کی درجہ بندی میں پندرہویں نمبر کی لیسکی نے دو ہزار چار کی ومبلڈن چیمیئن کو پہلی بار مات دی ہے۔ اس سے قبل ان کے بیچ تین میچ ہوچکے ہیں جن میں سے ایک گزشتہ سال کا ومبلڈن سیمی فائنل بھی تھا۔

دوسری جانب چار مرتبہ ومبلڈن کی فاتح سرینا ویلیمز اور دفاعی چیمپیئن پترا کوتووا بھی فتح کے ساتھ ٹورنامنٹ کے اگلے مرحلے میں پہنچ گئی ہیں۔

چار مرتبہ گرینڈ سلیم چیمپیئن کم کیلیئسٹرز جرمنی کی ایجلیق کربر سے چھ ایک، چھ ایک سے ہار گئیں۔ کیلیئسٹرز کا کہنا ہے کہ یہ ان کا آخری ومبلڈن ٹورنامنٹ تھا۔

ادھر مردوں کے مقابلوں میں چھ دفعہ ومبلڈن کے فاتح راجر فیڈرر سات چھ، چھ ایک، چار چھ اور چھ تین سے زیویئر مائلیس کو ہرانے میں کامیاب ہوگئے۔

شراپووا سے پہلے اس سال ومبلڈن کا پہلا غیرمتوقع نتیجہ رافائیل نڈال کی گزشتہ ہفتے چیک ریپبلک کے لوکس روسول سے مات تھی۔


ماریہ شراپووا کی ومبلڈن میں شکست

کولمبو ٹیسٹ: سری لنکا 278 پر پانچ آؤٹ

سری لنکا اور پاکستان کے مابین جاری دوسرے ٹیسٹ میچ کے چوتھے روز سری لنکا نے اپنی پہلی اننگز میں 278 رنز سکور کیے تھے اور اس پانچ کھلاڑی آؤٹ ہوئے تھے۔

چوتھے روز کے کھیل میں سری لنکا نے 72 رنز پر ایک وکٹ کے نقصان پر اپنی اننگز دوبارہ شروع کی۔

چوتھے روز کھیل بارش کے باعث میدان گیلا ہونے کی وجہ سے تاخیر سے شروع ہوا۔ سری لنکا کی جانب سے دلشان اور پراناویتانا نے اننگز کا آغاز کیا۔

کلِک میچ کا تفصیلی سکور کارڈ

دلشان اور سنگاکارا نے عمدہ بیٹنگ کرتے ہوئے 164 رنز کا اضافہ کیا۔ سری لنکا کی دوسری وکٹ 236 کے مجموعی سکور پر گری جب دلشان ایک سو اکیس رنز بنا کر آؤٹ ہوئے۔ ان کو جنید نے آؤٹ کیا۔

سری لنکا کو اس کے بعد یکے بعد دیگرے نقصان ہوا جب جے وردھنے اور سماراویرا صفر پر آؤٹ ہوئے جبکہ رندیو پانچ رنز بنا کر آؤٹ ہوئے۔

پاکستان کی جانب سے جنید نے تین اور سعید اجمل اور رحمان نے ایک ایک وکٹ حاصل کی۔

سری لنکا کے شہر کولمبو میں کھیلے جانے اس ٹیسٹ میچ کے تیسرے دن پاکستان نے اپنی پہلی اننگز پانچ سو اکیاون رنز پر ڈکلیئر کردی تھی۔

پیر کو پاکستان نے چھ وکٹوں کے نقصان پر پانچ سو اکیاون رنز پر اننگز ڈکلیئر کی تو اس وقت کپتان مصباح الحق چھیاسٹھ اور عبدالرحمان اٹھارہ رنز پر ناٹ آؤٹ تھے۔

اس سے پہلے اتوار کو میچ کے دوسرے دن کے اختتام پر پاکستان نے پہلی اننگز میں چار وکٹوں کے نقصان پر چار سو اٹھاسی رنز بنائے تھے۔

دوسرے دن کا کھیل بارش کی وجہ سے جلد ختم کردیا گیا تھا اور جب کھیل روکا گیا تو کپتان مصباح الحق انتیس اور اسد شفیق ایک رن بنا کر کریز پر موجود تھے۔

پیر کو میچ کے آغاز پر اسد شفیق دو رنز بنا کر دلشان کے ہاتھوں رن آؤٹ ہو گئے۔

اس کے بعد چھٹی وکٹ وکٹ کیپر عدنان اکمل کی گری جو صرف پانچ رنز بنا کر ہیراتھ کی گیند پر دلشان کے ہاتھوں کیچ آؤٹ ہوگئے۔

میچ کے دوسرے روز محمد حفیظ چار رنز کی کمی سے اپنی ڈبل سنچری مکمل نہ کر سکے اور ہیراتھ کی گیند پر بولڈ ہوگئے۔

اظہر علی ٹیسٹ کرکٹ میں اپنی تیسری سنچری مکمل کرنے میں کامیاب رہے اور ایک سو ستاون رنز بنانے کے بعد سورج راندیو کی گیند پر کیچ ہوگئے۔

یونس خان نے بتیس رنز اور توفیق عمر نے 65 رنز بنائے۔

سنیچر کو شروع ہونے والے ٹیسٹ میچ میں سری لنکا نے ٹاس جیت کر پاکستان کو پہلے بیٹنگ کرنے کی دعوت دی تھی۔

تین ٹیسٹ میچوں پر مشتمل سیریز میں سری لنکا کو ایک صفر کی برتری حاصل ہے۔

گال میں کھیلے جانے والے پہلے ٹیسٹ میچ میں سری لنکا نے پاکستان کو دو سو نو رنز سے شکست دے دی تھی۔

اس سے پہلے پاکستان اس دورے پر سری لنکا سے ایک روزہ میچوں کی سیریز تین ایک سے ہار چکا ہے۔


کولمبو ٹیسٹ: سری لنکا 278 پر پانچ آؤٹ

آسٹریا: اسلام سو برس سے تسلیم شدہ مذہب

مسلمانوں سے تعلقات کی بات ہو تو آسٹریا کی تاریخ کچھ زیادہ شفاف نہیں لیکن وہاں اسلام کے بارے میں قدیم قانون کو رواداری کی نشانی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

اس قانون کے تحت اسلام کے پیروکاروں کو کیتھولک ازم، لوتھرن ازم، جوڈازم اور بدھ ازم جیسے ملک کے سرکاری طور پر تسلیم شدہ مذاہب کے ماننے والوں کے برابر حقوق دیے گئے تھے۔

اختتامِ ہفتہ پر آسٹرین حکام اور ملک کے اسلامی برادری نے اس قانون کے سو سال کی تکمیل پر منعقدہ تقریبات میں شرکت کی۔

یوں اب آسٹریا میں اسلام اب سو سال سے سرکاری طور پر ایک تسلیم شدہ مذہب ہے۔

تاہم یہاں کے زیادہ تر عوام ایک اور تاریخی واقعے کے بارے میں زیادہ جانتے ہیں۔ یہ واقعہ سنہ سولہ سو تراسی میں ویانا کا محاصرہ ہے، جب مسلمانوں کی سلطنتِ عثمانیہ کی عیسائیوں کے زیرِ تسلط یورپ کی جانب پیش قدمی روک دی گئی تھی۔

حالیہ چند برس میں آسٹریا کے انتہائی دائیں بازوں کے خیالات کے حامی سیاستدانوں کے اسلام مخالف بیانات شہ سرخیوں میں رہے ہیں۔
 
باہمی احترام

آسٹریا کی اسلامی برادری اپنے مذہب کے بارے میں اس قانون کو نادر قرار دیتی ہے۔ اس قانون کے تحت مسلمانوں کو ملک میں سرکاری سکولوں میں مذہبی تعلیم کے حصول اور عوامی مقامات پر عبادت کی آزادی سمیت کئی حقوق دیے گئے ہیں۔

ویانا کے نیوگوتھک ٹاؤن ہال میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے آسٹریا کی اسلامی برادری کے سربراہ فواد سناک نے اس قانون کو بقیہ یورپ کے لیے ایک مثال قرار دیا اور کہا کہ آسٹریا میں اسلام کو زیادہ تر عوام نے ایک خطرے کے طور پر نہیں دیکھا۔

آسٹریا کے صدر ہینز فشر نے اسی تقریب میں پرامن اور باہمی احترام پر مبنی تعلقات پر زور دیا۔ انہوں نے زور دیا کہ آسٹریا کے سرکاری مذاہب اپنے قانونی رتبے کی وجہ سے ملک کے قوانین کا احترام کرنے اور انہیں تسلیم کرنے کے پابند ہیں۔

دارالحکومت ویانا کے کونسلر عمر الراوی کا کہنا تھا کہ یہ قانون مسلمانوں کو آسٹریائی معاشرے میں ضم میں ہونے میں مدد دیتا ہے اور انہیں یہ احساس دیتا ہے کہ معاشرہ انہیں قبول کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’اسلام کے بارے میں آسٹریا یورپ میں ایک مثالی نمونہ ہے لیکن آسٹریا کے مسلمان بھی یورپی مسلمانوں کا نمونہ ہیں اور وہ اپنے حقوق و فرائض کے بارے میں جانتے ہیں‘۔

عمر الراوی کے مطابق ’آسٹریائی مسلمان دنیا بھر میں اپنی شناخت بطور آسٹرین کرواتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم اس ملک سے تعلق رکھتے ہیں جس نے ہمیں احترام، پہچان اور بہت سی سہولیات دیں جو کچھ مسلم ممالک کے عوام کو بھی میسر نہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ ہم یہ کہنے میں فخر محسوس کرتے ہیں کہ ہم آسٹرین ہیں‘۔

آسٹریا میں اسلام سے متعلق یہ قانون سنہ انیس سو بارہ میں ہیبسبرگ خاندان کے بادشاہ فرانز جوزف کے دور میں اس وقت لایا گیا تھا جبکہ آسٹریا نے بوسنیا ہرزیگووینا کو اپنی سلطنت میں شامل کیا تھا۔

اس قانون کے نفاذ کی وجہ بوسنیائی مسلم فوجیوں کی آسٹریائی بادشاہ کی فوج میں شمولیت کی راہ ہموار کرنا تھی۔ ابتدائی طور پر اس قانون کے تحت صرف حنفی فرقے کے سنّی مسلمان آتے تھے لیکن بعدازاں اس میں شیعہ اور سنّی دونوں فرقوں کو شامل کر لیا گیا تھا۔

پہلی جنگِ عظیم کے بعد جب آسٹرین سلطنت کا خاتمہ ہوا تو ملک میں مسلمانوں کی تعداد چند سو رہ گئی۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد اس میں اُس وقت اضافہ شروع ہوا جب انیس سو ساٹھ کی دہائی میں ترک اور یوگوسلاو کارکن اور پھر نوّے کی دہائی میں بوسنیائی پناہ گزین آسٹریا آئے۔

اس وقت آسٹریا میں تقریباً پانچ لاکھ مسلمان آباد ہیں جو کہ ملک کی کل آبادی کا چھ فیصد ہیں۔ درالحکومت ویانا میں اسلام رومن کیتھولکس کے بعد دوسرا بڑا مذہب ہے۔

آسٹریا کی اسلامی برادری کے مطابق اس وقت ملک میں ساٹھ ہزار مسلمان بچے مذہبی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ یہ تعلیم جرمن زبان میں فراہم کی جاتی ہے۔


آسٹریا: اسلام سو برس سے تسلیم شدہ مذہب

’ فوجیوں‘ سے دوائی لے کر ہی آرام آتا ہے

بطور صحافی پاکستان میں فوجی افسروں سے بات کرنا ہمیشہ ہی مشکل رہا ہے اور میں نے اس مشکل کا حل یوں نکالا کہ میں ایک مریض کا روپ دھار کر فوجی ڈاکٹر کے پاس چلا گیا۔

یہ فوجی ڈاکٹر لاہور کے سروسز ہسپتال میں ہڑتال کرنے والے ڈاکٹروں کی جگہ کام کررہے ہیں۔

مریض کا روپ دھارنے کی بنیادی وجہ فوجی ڈاکٹروں کا صحافیوں سے گفتگو سے اجتناب کرنا تھا کیونکہ ہسپتال میں موجود ساتھی صحافیوں نے بتایا کہ فوجی ڈاکٹر میڈیا سے بات نہیں کررہے۔

کمرے میں داخل ہوتے ہی فوجی ڈاکٹرز نظر آئے جن میں سے کچھ یونیفارم اور کچھ سویلین کپڑوں میں ملبوس بیٹھے تھے۔

سویلین کپڑوں میں ملبوس فوجی ڈاکٹروں نے اپنی شاخت کے لیے بازوں پر’پاک آرمی‘ کی پٹی لگائی ہوئی تھی۔

سروسز ہسپتال میں ڈیوٹی دینے والی آرمی کی خواتین ڈاکٹرز اپنی روایتی یونیفارم ’خاکی ساڑھی‘ کی بجائے عام لباس میں دکھائی دیں۔

میرا طبی معائنہ فوجی وردری میں ملبوس باریش ڈاکٹر نے کیا اور پوچھا کہ کیا مسئلہ ہے؟

میں نے مرض بتانے کے بجائے کہا کہ یہ پہلا موقع ہے کہ میں کسی فوجی ڈاکٹر سے میڈیکل چیک اپ کروا رہا ہوں اور ساتھ ہی سوال پوچھ ڈالا کہ آپ کا سرکاری سویلین ہسپتال میں کام کرنے کا تجربہ کیسا رہا؟

فوجی ڈاکٹر نے مختصر سا جواب دیا کہ تجربہ اچھا ہے اور میں اس سے پہلے بھی اس قسم کی ڈیوٹی کرچکا ہوں۔

میں نے نسخہ لکھنے کے دوران فوجی ڈاکٹر سے ایک اور سوال کردیا کہ سویلین ہسپتال میں کام کرنا آسان ہے یا ان کے ادارے کے ہسپتالوں میں۔ فوجی ڈاکٹر نے جواب دیا کہ سویلین ہسپتال میں کام کرنا آسان ہے اور یہاں آنے والے مریضوں کی تعداد بھی نسبتاً کم ہے۔

فوجی ڈاکٹر سے مختصر گفتگو کرنے کے بعد میں نے دوبارہ پرچی بنوائی اور ایک دوسرے کمرے کی جانب چلاگیا لیکن یہاں کوئی فوجی ڈاکٹر موجود نہیں تھا۔

اسی دوران ہسپتال کے ایک ملازم نے بتایا کہ آج جتنے بھی مریض چیک اپ کے لیے ہسپتال آئے ان میں سے تقریباً ہر ایک نے یہ کوشش کی کہ وہ سویلین ڈاکٹر کے بجائے فوجی ڈاکٹر سے اپنا معائنہ کرائے اور یہی وجہ ہے کہ سویلین ڈاکٹر کسی حد تک فارغ بیٹھے رہے۔

جہاں فوجی ڈاکٹروں کے لیے سویلین ہسپتال کا ماحول انجان تھا وہیں یہ فوجی ڈاکٹر خود بھی ہسپتال میں اجنبی لگ رہے تھے۔

ہسپتال کے ایک اہلکار نے بتایا کہ فوجی اور سویلین ڈاکٹر میں ویسے تو کوئی خاص فرق نہیں ہے لیکن فوجی ڈاکٹر مریضوں کا معائنہ کرتے وقت گپپیں نہیں مارتے اور ان کا زیادہ زور مریضوں کے چیک اپ پر رہا۔

کیا فوجی ڈاکٹروں نے سویلین ڈاکٹروں کی نسبت تیزی سے کام کیا اس سوال پر ہسپتال کے اہلکاروں کی رائے منقسم تھی اور ان میں کچھ کا خیال تھا کہ فوجی ڈاکٹر تیزی سے کام کرتے ہیں جبکہ دیگر اہلکاروں کا کہنا ہے کہ ابھی یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کیونکہ آج معمول سے کم رش تھا اس لیے یہ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ فوجی ڈاکٹر تیزی سے کام کرتے ہیں یا پھر سویلین۔

فوجی ڈاکٹروں کے ساتھ کام والے ہسپتال کے سویلین اہلکاروں کی رائے جو بھی ہو البتہ مریضوں کو اس بات کا اطمینان تھا کہ ان کا چیک اپ بہت اچھا ہوا اور تسلی سے ان کی بات سنی گئی ہے۔

سروسز ہسپتال کے آوٹ ڈور کے مرکزی گیٹ پر ڈیوٹی دینے والے اہلکار کا کہنا ہے کہ آج مریض بہت خوش گئے ہیں کہ ان کا معائنہ ماہر تجربہ کار فوجی ڈاکٹروں نے کیا۔

فوجی ڈاکٹر جس طرح صبح فوج کی بس کے ذریعے ہسپتال پہنچے تھے بالکل اسی طرح دوپہر کو دوبارہ اکٹھے بس میں سوار ہوکر پولیس سکواڈ کے ساتھ واپس چلے گئے۔

اہلکار کی بات سن کر میرے پاس کھڑے ایک چینل کے رپورٹر نے کہا کہ ہمارے لوگوں کو ’فوجیوں‘ سے دوائی لے کر ہی آرام آتا ہے۔

عام لوگ تو فوجی ڈاکٹروں سے چیک اپ سے مطمئن ہیں لیکن یہ بات تو طے ہے کہ ڈیڑھ ہزار سے زائد ڈاکٹروں کی کمی ڈیڑھ سو فوجی ڈاکٹر پورا نہیں کرسکتے۔

’ فوجیوں‘ سے دوائی لے کر ہی آرام آتا ہے

Love and Hate for the Sake of Allah

 Narrated AbuDharr:

The Prophet (peace_be_upon_him) said: The best of the actions is to love for the sake of Allah and to hate for the sake of Allah.

Dawud :: Book 40 : Hadith 4582
=================================================
Dawud :: Book 40 : Hadith 4664
Narrated AbuUmamah:

The Prophet (peace_be_upon_him) said: If anyone loves for Allah's sake, hates for Allah's sake, gives for Allah's sake and withholds for Allah's sake, he will have perfect faith.

پیر, جولائی 02, 2012

آسٹریلوی ماہر نے پاکستان میں نئی ہند یورپی زبان کا سراغ لگا لیا

ماہرین زبان نے معلوم کرلیا ہے کہ پاکستان کے شمال میں بولی جانے والی بروشسکی زبان کا ماخذ ہند یورپی ہے اور اس کی قدیم فریگیائی زبان سے قربت ہے، جو ایک وقت میں یونان کے ایک علاقے میں بولی جاتی تھی۔

باوجود بے تحاشا تحقیق کے بروشسکی زبان کا ماخذ اب تک معلوم نہیں کیا جاسکا تھا۔ ایک اندازہ یہ تھا کہ بروشسکی کا تعلق عنیقیائی زبان سے ہے۔ آسٹریلوی محقق پروفیس ایلیا چیشول کا خیال ہے کہ اس زبان کی بنت اور گرامر ہند یورپی زبانوں سے ہم آہنگ ہے۔ ان کے مطابق قدیم زمانے میں یہ زبان بولنے والے فریگیا سے پاکستان کے شمالی علاقوں میں پہنچے تھے۔ 
بروشسکی زبان کی اس زبان سے بہت مماثلت لگتی ہے۔ اس کی تصدیق اس زبان کے بولنے والون کے اس دعوے سے بھی ہوتی ہے کہ وہ سکندر مقدونی کے وارث ہیں۔ اس وقت دنیا میں ہند یورپی زبانیں بہت سے علاقوں میں بولی جاتی ہیں۔ اس گروپ سے وابستہ زبانیں بولنے والوں کی تعداد ڈھائی ارب افراد بتائی جاتی ہے۔

پاکستان میں مقبول ترین سیاستدان

پاکستان میں اس وقت مقبول ترین سیاستدان کرکٹ کے سابق کھلاڑی اور موجودہ "تحریک انصاف" کے رہنما عمران خان ہیں۔ سب سے زیادہ غیر مقبول صدر آصف علی زرداری ہیں۔ سماجی آراء شماری کے معروف امریکی ادارے پیو ریسرچ سنٹر کی پاکستان میں کی گئی تازہ ترین آراء شماری کے نتائج یہی ہیں۔

یہ نہیں کہنا چاہیے کہ ان نتائج کو دیکھ کر اچنبھا ہوا ہے: زرداری کو پسند کرنے والوں کی شرح 14 % رہی جو گذشتہ برس کی شرح 11% سے کچھ ہی زیادہ ہے لیکن تب کی نسبت جب وہ اس عہدے کے لیے چنے گئے تھے خوفناک حد تک کم ہے کیونکہ یہ شرح تب 64 % تھی۔ دلچسب بات یہ ہے کہ کچھ عرصہ پیشتر نااہل کردیے جانے والے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی مقبولیت کی شرح 36 % ہے یعنی موجودہ صدر، جن کا کہ گیلانی آخری لمحے تک تحفظ کرتے رہے، کی ریٹنگ سے ڈھائی گنا سے بھی کچھ زیادہ ہے۔ روس کے انسٹیٹیوٹ برائے تزویری تحقیق کے ایک ماہر بورس وولہونسکی کی اس بارے میں رائے یوں ہے،"ان نتائج کو آنکنے کے لیے مدنظر رکھنا ہوگا کہ پاکستان میں متنوع گروہ، قبیلے اور برادریاں ہیں اس لیے کسی طرح کی بھی رائے شماری کو آنکنے کی خاطر بہت زیادہ احتیاط برتے جانے کی ضرورت ہے۔ اس قسم کی شرحیں انتخابات پر براہ راست اثرانداز نہیں ہونگی، چاہے وہ 2013 میں ہوں یا معینہ مدت سے قبل اسی برس کے اواخر میں۔

علاوہ ازیں پارلیمانی انتخاب کا اکثریتی نظام اور صدر کا بالواسطہ انتخاب پارٹیوں کے اندر افسرشاہانہ ڈھانچے کے کردار کو کہیں فزوں تر بنا دیتا ہے۔ یوں عمران خان کی ذاتی مقبولیت اور ان کی پارٹی میں کئی نامور سیاستدانون کے شامل ہونے کے باوجود "تحریک انصاف" کی حیثیت اتنی مضبوط نہیں ہے جتنی روائتی پارٹیوں کی، تاحتٰی غیر مقبول صدر زرداری کی پاکستان پیپلز پارٹی سے بھی۔"

فہرست میں دوسرے مقام پر مقبول ترین سیاستدان، سابق وزیر اعظم اور مسلم لیگ نون کے سربراہ نواز شریف کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ان کی مقبولیت 2009 کی نسبت جب کہ یہ شرح 79% تھی، خاصی گر کر 62% ہوچکی ہے لیکن اس کے باوجود بہت بلند شرح ہے، بورس وولہونسکی کہتے ہیں:"وہ گذشتہ سالوں سے حزب اختلاف میں ہیں اور موجودہ حکومت کے اس بدنام ڈھانچے سے علیحدہ، جس نے ملک کو موجودہ سیاسی بحران سے دوچار کردیا ہے۔ سب سے مضبوط صوبے پنجاب کی بااثر اشرافیہ نواز شریف کے حق میں ہے۔ پھر وہ مغرب اور سب سے بڑی بات یہ کہ امریکہ کی نظر میں خاصے قابل اعتبار سیاستدان ہیں۔ 2006-2007 میں جب پاکستان کے صدر پرویز مشرف کے ساتھ مغرب کے تعلقات زیادہ کشیدہ ہوگئے تھے تب مغربی ذرائع ابلاغ نے ان کی ہی امیدواری کو عوام میں پھیلایا تھا۔ اب جبکہ تعلقات تاریخ میں بدترین حیثیت اختیار کرچکے ہیں، تب نواز شریف واحد شخصیت ہیں جو ان تعلقات کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ اس کے لیے ضرورت ہے کہ وہ تمام باتیں بھلا دی جائیں، جب ان پر 1990 کی دہائی میں بدعنوانی کے الزامات لگائے گئے تھے۔"

مذکورہ آراء شماری کے نتائج میں مسلح افواج کی مقبولیت بہت زیادہ پائی گئی ہے جو سول اداروں کی مقبولیت سے کہیں زیادہ ہے، موازنے کے طور پر ذرائع ابلاغ عامہ کی مقبولیت کی شرح 66 %، عدلیہ کی 58 % اور انتظامیہ و پولیس کی محض 24% ہے۔

فوج کے موجودہ سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کے لیے کئی مواقع تھے کہ وہ حکومت میں مداخلت کر لیتے لیکن انہوں نے ایک بار بھی ایسے ارادے کا اظہار نہین کیا۔ فوج کی مقبولیت کی انتہائی بلند شرح اس بات کی غمّاز ہے کہ اگر فوج نے کار سرکار میں مداخلت کی تو اسے لوگوں کا اعتماد حاصل ہوگا۔

پاکستان سے غربت کا خاتمہ، یورپی نوجوان بھی میدان میں

ترقی یافتہ ملکوں کی طرف سے سرکاری طور پر ترقی پذیر ملکوں میں غربت کے خاتمے کے لئے تعاون کی خبریں تو ملتی رہتی ہیں۔ ان فلاحی منصوبوں میں تعاون کا سلسلہ اب غیر سرکاری سطح پر بھی فروغ پا رہا ہے۔

اس کی تازہ مثال یورپ سے تعلق رکھنے والے وہ نوجوان ہیں جو آج کل پاکستان کا دورہ کر رہے ہیں۔ جرمنی سے تعلق رکھنے والے رومان لینز اور ہالینڈ کے ڈیوڈ اِکِنک کوہ پیمائی کا شوق رکھتے ہیں۔ انہوں نے اپنے اس شوق کو سماجی بھلائی کے کاموں کے ساتھ وابستہ کر رکھا ہے۔ انھوں نے سات بر اعظموں کی بلند ترین چوٹیوں کو سر کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ کوہ پیمائی کے دوران ملنے والی شہرت اور وسائل کو وہ فلاحی منصوبوں کے حوالے سے آگاہی پھیلانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

رومان اور ڈیوڈ پاکستان میں چھوٹے قرضوں کے ذریعے غربت کے خاتمے کے لیے جدو جہد کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم اُخوّت کی دعوت پر پاکستان پہنچے ہیں۔ ان کے آٹھ روزہ دورے کا مقصد اُخوّت کی سرگرمیوں اور اس کے فلاحی منصوبوں کے لیے معاونت کے امکانات کا جائزہ لینا تھا۔

لاہور میں اپنے قیام کے دوران ان یورپی نوجوانوں نے اُخوّت سے بلا سود قرضہ حاصل کرنے والوں، اُخوّت کو عطیات دینے والوں اور اُخوّت کے لیے کام کرنے والے رضاکاروں سے ملاقاتیں کیں۔ لاہور میں منعقدہ ایک تقریب میں انھوں نے اُخوّت کے لیے دو لاکھ روپے کے پہلے عطیے کا بھی اعلان کیا۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ ان یورپی نوجوانوں نے ایک غیر سرکاری تنظیم "نو ماونٹین از ٹو ہائی" بھی بنا رکھی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کوہ پیمائی کی طرح دنیا میں انسانی بھلا ئی کا کوئی بھی منصوبہ ناممکن نہیں ہے۔ ہر آدمی محنت اور کوشش سے اپنے مقاصد حاصل کر سکتا ہے۔

ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئےجرمن نوجوان رومان نے بتایا کہ وہ اور ان کا دوست ڈیوڈ آج کل سٹوڈنٹ ویزے پر امریکا میں مقیم ہیں اور ہاورڈ یونیورسٹی میں پڑھ رہے ہیں، انہیں اُخوّت کے بارے میں بوسٹن میں مقیم ایک پاکستانی نوجوان کے ذریعے پتہ چلا تھا۔ ان کے مطابق وہ ترقی پذیر ملکوں میں عوامی بھلائی کے منصوبوں میں معاونت کے خواہاں ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ وہ آنے والے دنوں میں مغربی ملکوں میں اُخوّت کے لیے عطیات اکٹھے کریں گے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ چھوٹے قرضوں کے ذریعے غربت کے خاتمے کا اُخوّت کا ماڈل اس وقت امریکا اور برطانیہ کے کئی تعلیمی اداروں میں کیس سٹڈی کے طور پر پڑھایا جا رہا ہے۔

ڈیوڈ نامی نوجوان نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ بعض عالمی ذرائع ابلاغ میں پائے جانے والے تاثر کے برعکس انہیں پاکستان کے لوگ محنتی اور مہمان نواز لگے ہیں۔

اخوت کے ڈائریکٹر ہمایوں احسان نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ یورپی نوجوانوں کا اُخوّت کے ماڈل کو سمجھنے کے لیے پاکستان آنا ان کے لیے خوشی کا باعث ہے اور اس سے اُخوّت کو اپنے کامیاب ماڈل کو دنیا کے سامنے ایک مثال کے طور پر پیش کرنے کا موقع ملا ہے۔ ہمایوں احسان کے بقول اس طرح کے رابطے مشرق اور مغرب کے لوگوں میں باہمی تعاون کو فروغ دینے اور ان کے مابین فاصلے کم کرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔

پاکستانی اولمپکس ہاکی سکواڈ میں سینیئرز کی واپسی

پاکستان ہاکی فیڈریشن نے لندن اولمپکس کے لیے بیس رکنی پاکستانی ہاکی سکواڈ کا اعلان کردیا ہے۔

پنلٹی کارنر سپیشلسٹ سہیل عباس ٹیم کی قیادت کریں گے اور انہیں مئی میں اذلان شاہ ہاکی ٹورنامنٹ میں قومی ٹیم کی مایوس کن کارکردگی کے باوجود کپتانی پر برقرار رکھا گیا ہے۔

ستائیس جولائی سے شروع ہونے والے اولمپکس مقابلوں میں شرکت کے لیے لندن روانگی سے قبل ٹیم مینجمنٹ بیس میں سے اٹھارہ کھلاڑیوں کا انتخاب کرے گی۔

حالیہ میچوں میں ٹیم کی خراب کارکردگی کے بعد سلیکٹرز نے ایک مرتبہ پھر پرانے اور تجربہ کار کھلاڑیوں پر انحصار کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور ٹیم میں سنٹر فارورڈ ریحان بٹ، محمد وسیم اور سابق کپتان شکیل عباسی کی واپسی ہوئی ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق سکواڈ کے ناموں کا اعلان کرتے ہوئے چیف سلیکٹر حنیف خان نے کہا کہ ’ہم نے تجربہ کار کھلاڑیوں کو ٹیم میں شامل کیا ہے تاکہ باقی کھلاڑی ان کے تجربے سے مستفید ہوسکیں‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے حال ہی میں چند جونیئر کھلاڑیوں کو بھی آزمایا اور یہ سکواڈ جونیئر اور سینیئر کھلاڑیوں کا مجموعہ ہے‘۔

پاکستان ماضی میں تین مرتبہ اولمپکس میں ہاکی کے مقابلوں میں طلائی تمغہ جیت چکا ہے اور آخری مرتبہ اس نے یہ اعزاز اٹھائیس برس قبل لاس اینجلس اولمپکس میں حاصل کیا تھا۔

اولمپکس میں ہاکی کے کھیل میں پاکستان کو آخری تمغہ سنہ انیس سو بانوے میں ملا تھا جب اس نے تیسری پوزیشن حاصل کی تھی۔

بیجنگ اولمپکس میں پاکستان نے ان مقابلوں میں اپنی بدترین کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے آٹھویں پوزیشن حاصل کی تھی۔

لندن اولمپکس میں پاکستان کی ہاکی ٹیم کی شمولیت دو ہزار دس کا ایشیا کپ جیتنے کی وجہ سے یقینی ہوئی تھی اور ان مقابلوں میں اسے گروپ اے میں آسٹریلیا، برطانیہ، سپین، ارجنٹائن اور جنوبی افریقہ کے ہمراہ رکھا گیا ہے۔

چیف سلیکٹر حنیف خان کے مطابق اگر پاکستانی ٹیم لندن اولمپکس میں وکٹری سٹینڈ پر بھی پہنچ جاتی ہے تو وہ بھی کسی طلائی تمغے سے کم نہیں ہوگا۔

لندن اولمپکس کے لیے پاکستانی سکواڈ یہ ہے: سہیل عباس ( کپتان)، عمران شاہ، عمران بٹ، محمد عرفان، محمد عمران، کاشف شاہ، فرید احمد، راشد محمود، محمد رضوان جونیئر، محمد توثیق، وسیم احمد، ریحان بٹ، شکیل عباسی، محمد وقاص، عمر بھٹہ، علی شاہ، محمد زبیر، عبدالحثیم خان،محمد رضوان اور شفقت رسول