واشنگٹن — امریکہ میں روز مرہ سفر کے دوران محسوس ہوا کہ لوگ ایک دوسرے سے بات نہیں کرتے اور لوگوں کی اکثریت دوران سفر سمارٹ فون یا اسی نوعیت کی دوسری ڈیوائسز پر نظریں جمائے رکھتی ہے یا کتابوں میں کھوئی رہتی ہے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ بات میرے مشاہدے میں آئی کہ سمارٹ فون یا اس طرح کی ڈیوائسز پر بھی اکثر لوگ کسی کتاب کی سافٹ کاپی کا مطالعہ کر رہے ہوتے ہیں۔
چونکہ، پاکستان میں دورانِ سفر مطالعہ کرتے شاذ و نادر ہی کسی کو دیکھا تھا، اس لیے مجھے عجیب لگا کہ یہ بسوں اور ٹرینوں میں ہی کیوں پڑھائی میں لگے رہتے ہیں۔ میں نے انٹرنیٹ پر تلاش شروع کی تو معلوم ہوا کہ امریکہ کی پچاس ریاستوں اور دارالحکومت میں ایک لاکھ اکیس ہزار ایک سو ستر عوامی لائبریریاں ہیں اور حیران کن طور پر تقریباً ایک لاکھ کے قریب سکولز کی ملکیت ہیں۔
ایک ریسرچ کے مطابق 75,76,278 نفوس پر مشتمل ریاست ورجینیا میں سالانہ تین کروڑ پچاس لاکھ افراد لائبریریوں میں جاتے ہیں، جو تقریباً چار وزٹ فی کس کے برابر ہے۔ اور ہر سال یہ تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ لوگوں کی اتنی تعداد کا لائبریریوں کا رخ کرنے کی ایک وجہ یہاں ہر سکول، کالج اور یونیورسٹی میں لائبریری کی موجودگی بھی ہے، جبکہ مقامی سطح پر عوامی لائبریری بنیادی ضروریات زندگی کا حصہ ہے اور حکومت کی بنیادی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔
پاکستان میں بڑی یونیورسٹیوں کے ساتھ تو لائبریریاں ہوتی ہیں، لیکن سکولز کی سطح پر یا عوامی سطح پر ان کا کوئی خاص رحجان نہیں۔ لیکن، سوال یہ بھی ہے کہ لوگوں میں پڑھنے کا شوق کتنا ہے؟ میں نے پاکستان میں گزارے کئی سالوں کے دوران اسلام آباد، لاہور، پشاور، فیصل آباد، گوجرانوالہ، کراچی اور ایبٹ آباد سمیت متعدد شہروں کا سفر کیا۔ لیکن، یہ تجربہ نہیں ہوا کہ لوگ بس سٹاپ پر کھڑے یا بس میں سفر کرتے کتاب کے مطالعہ میں مصروف ہوں.
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ بات میرے مشاہدے میں آئی کہ سمارٹ فون یا اس طرح کی ڈیوائسز پر بھی اکثر لوگ کسی کتاب کی سافٹ کاپی کا مطالعہ کر رہے ہوتے ہیں۔
چونکہ، پاکستان میں دورانِ سفر مطالعہ کرتے شاذ و نادر ہی کسی کو دیکھا تھا، اس لیے مجھے عجیب لگا کہ یہ بسوں اور ٹرینوں میں ہی کیوں پڑھائی میں لگے رہتے ہیں۔ میں نے انٹرنیٹ پر تلاش شروع کی تو معلوم ہوا کہ امریکہ کی پچاس ریاستوں اور دارالحکومت میں ایک لاکھ اکیس ہزار ایک سو ستر عوامی لائبریریاں ہیں اور حیران کن طور پر تقریباً ایک لاکھ کے قریب سکولز کی ملکیت ہیں۔
ایک ریسرچ کے مطابق 75,76,278 نفوس پر مشتمل ریاست ورجینیا میں سالانہ تین کروڑ پچاس لاکھ افراد لائبریریوں میں جاتے ہیں، جو تقریباً چار وزٹ فی کس کے برابر ہے۔ اور ہر سال یہ تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ لوگوں کی اتنی تعداد کا لائبریریوں کا رخ کرنے کی ایک وجہ یہاں ہر سکول، کالج اور یونیورسٹی میں لائبریری کی موجودگی بھی ہے، جبکہ مقامی سطح پر عوامی لائبریری بنیادی ضروریات زندگی کا حصہ ہے اور حکومت کی بنیادی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔
پاکستان میں بڑی یونیورسٹیوں کے ساتھ تو لائبریریاں ہوتی ہیں، لیکن سکولز کی سطح پر یا عوامی سطح پر ان کا کوئی خاص رحجان نہیں۔ لیکن، سوال یہ بھی ہے کہ لوگوں میں پڑھنے کا شوق کتنا ہے؟ میں نے پاکستان میں گزارے کئی سالوں کے دوران اسلام آباد، لاہور، پشاور، فیصل آباد، گوجرانوالہ، کراچی اور ایبٹ آباد سمیت متعدد شہروں کا سفر کیا۔ لیکن، یہ تجربہ نہیں ہوا کہ لوگ بس سٹاپ پر کھڑے یا بس میں سفر کرتے کتاب کے مطالعہ میں مصروف ہوں.
ہمارے نظام تعلیم میں سکول کی سطح سے ہی نصابی کتب کے علاوہ کسی دوسری کتاب کے مطالعہ کو وقت کا ضیاع قرار دیا جاتا ہے اور ہر سطح پر اس کی مخالفت کی جاتی ہے، جبکہ امریکی سکول کی سطح پر ہی بچوں کو غیر نصابی کتب کے مطالعہ کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں بلکہ سہولت فراہم کرتے ہیں۔
میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ تعلیم بطور قوم ہماری ترجیح نہیں، لیکن ہماری کسی بھی حکومت کی ترجیح نہیں رہی۔ امریکہ اپنی کل آمدنی کا 5.7 فیصد تعلیم پر خرچ کرتا ہے جبکہ پاکستان صفر 1.8 فیصد۔ جبکہ ہمارا پڑوسی بھارت اپنی کل آمدنی کا 4.1 فیصد تعلیم پر خرچ کرتا ہے۔
ہر جگہ مطالعے میں گم امریکیوں کو دیکھ کر میں نے اپنے ایک پاکستانی دوست سے کہا کہ ان کو پڑھنے کی بیماری ہے، میرے دوست کا جواب تھا کہ، کاش یہ بیماری پاکستانیوں کو بھی لگ جائے۔ ۔!
کاش! یہ بیماری پاکستانیوں کو بھی لگ جائے