رابعہ کی شادی اپنے برطانوی نژاد پاکستانی کزن سے ہوئی۔ پاکستان میں اپنے گھر والوں سے بچھڑتے وقت اسے معلوم نہیں تھا کہ اس کا شریکِ سفر پہلے ہی کسی اور لڑکی کی محبت میں گرفتارہے، جس نے شادی ماں باپ کے مجبور کرنے پر محض اُن کی خوشی کی خاطر کی ہے؟ اتنا ہی نہیں۔ سسرال میں اُس کی حیثیت ایک ملازمہ سے زیادہ نہیں؟ پردیس میں اِس حقیقت کا سامنا اُس نے بڑی ہمت سے کیا۔ مگر، اِس قربانی کا صلہ اسے طلاق کی صورت میں ملا۔ آج رابعہ برطانیہ کے علاقے شیفیلڈ میں تنہا دو بچوں کےکونسل کےگھر میں رہتی ہے۔ وہ غیر تعلیم یافتہ ہے اور انگریزی زبان سے ناواقفیت کی وجہ سے روزمرہ کے معاملات کی انجام دہی میں اسےکافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
رابعہ نے ’وی او اے‘ سے اپنی کہانی اِس طرح بیان کی: میری شادی سنہ 2004 میں آصف سےمیر پور میں ہوئی۔ شادی کے چار ماہ بعد وہ برطانیہ بریڈ فورڈ آئی۔ اُن کا سسرال ساس، سسر، تین نندوں؛ ایک دیورانی اُس کی تین بچیوں، نند کے شوہر اور ایک بچے پر مشتمل تھا۔ ایک اچھی بہو کا فرض نبھاتے ہوئے سسرال کے ہر کام میں حصہ لیا مگر کچھ ہی دنوں بعد تمام کاموں کی ذمہ داری مجھے دے دی گئی اور گھر والوں کا سلوک بھی بدل سا گیا۔ ساس کا کہنا تھا کہ آصف شادی کے بعد گھر میں خرچے کے پیسے نہیں دے رہا ہے۔ لہذا، اسے سب گھر والوں کے کھانا کھانے کے بعد بچا ہوا کھانا ملے گا۔ کئی دفعہ کھانا نہیں بچتا تھا اور اکثر اسے بھوکا رہنا پڑتا۔ 2005ء میں میری بیٹی پیدا ہوئی، مگر آصف نے باپ بننے کا بھی فرض پورا نہیں کیا۔ اپنی بچی کی ضرورتوں کے لیے بھی محتاج تھی۔ روز روز کی لڑائی اور پھر نوبت مار پیٹائی تک جا پہنچی۔ سسرال والوں نے بھی کبھی اُس کا ساتھ نہیں دیا۔ بلکہ، کہا جاتا کے جتنی ذلت ہم تمہاری کرتے ہیں اگر ایک کتے کی بھی کریں تو وہ گھر سے چلا جائے۔
رابعہ نے آنکھوں سے نمی صاف کرتے ہوئے کہا، میری زندگی دن بدں دشوار ہوتی جا رہی تھی۔ سنہ 2009 میں جب دوسری بار آٹھ ماہ کی حاملہ تھی تو اپنی نند کو ویکیوم کرنے کے لیے کہنے پر ایسی سزا دی گئی کہ پانچ دن اور رات اسے ایک ہی جگہ پر بٹھا کر رکھا گیا، ساس نے طنزیہ کہا آج سےسب گھر والے اس کی خدمت کریں گے۔ اس دوران کھانا اس طرح لا کر دیا جاتا جیسے کسی جانور کے آگے رکھا جاتا ہے، مگرایک ایسی بات بھی ہوئی کہ جو میں بتانا نہیں چاہتی، جس نے مجھے گھر چھوڑنے پر مجبور کردیا۔ صبح جب سب سو رہے تھےتو میں نے گھر چھوڑ دیا اور اپنی بچی کے سکول جا پہنچی۔ سکول والوں نے میری روداد سننے کے بعد مجھے فلاحی ادارے کے سپرد کردیا۔ سسرال سے میری کوئی خبر نہیں لی گئی۔ میں نے بریڈ فورڈ سے کہیں اور منتقل کرنے کی درخواست ادارے کو دی جس پر مجھے شیفیلڈ کے رفیوجی کیمپ میں منتقل کردیا گیا۔ یہں میرا بیٹا پیدا ہوا۔ اس بات کی اطلاع آصف کو دی گئی مگر اس نے سنگدلی کی انتہا کرتے ہوئے فون بند کردیا۔
دو سال کچھ ہمسائیوں کی مدد سے اپنی زندگی کی جنگ لڑی۔ تاہم، اکیلے پن سے گھبرا کر ایک دن آصف کو فون کیا۔ آصف بھی مجھ سے ملاقات کے لیےتیار ہوگیا، جبکہ اس کے دل میں اس ملاقات کے پیچھے کوئی اور ہی مقصد تھا، نا کہ میری اور میرے بچوں کی محبت۔ اُس نے شیفیلڈ کے معزز افراد کے سامنے قرآن پر ہاتھ رکھا اور کہا کہ وہ میرا اور اپنے بچوں کا خیال رکھے گا۔ اس وعدے کے ساتھ وہ ہمیں گھر واپس لے آیا۔ رابعہ نے بتایا کہ اس نے یہ فیصلہ پاکستان میں اپنے خاندان کی مرضی کے خلاف کیا تھا جس کی وجہ سے وہ ابھی تک اس سے ناراض ہیں۔ تاہم، ان کے خدشات درست ثابت ہوئے۔ آصف کچھ عرصہ ہی اپنی بات نبھا سکا اور پھر اپنی پرانی روش پر آگیا۔ ایک دن اچانک آصف نے بتایا کہ اس کی ایک گرل فرینڈ ہے جو ماں بنے والی ہے اور وہ اس سے شادی کرنا چاہتا ہے تا کہ سوسائٹی میں بچے کو اپنا نام دے سکے۔ مجھے ایک بار پھر نئی آزمائش کا سامنا تھا۔ اس کی نظر میری چوڑیوں پر تھی میں نے اسے وہ چوڑیاں اتار کردیں تو وہ میرا شکریہ ادا کرنے لگا۔ شادی کے کچھ عرصے تک آصف حسب وعدہ بچوں سے ملنے آتا اور ان کے لیے کچھ رقم بھی دینے لگا۔ ایک دن آصف نے کہا کہ وہ ایک اچھی گاڑی خریدنا چاہتا ہے اور اس کے پاس تھوڑے ہی پیسے کم ہیں۔ کیا میں اس کی مدد کر سکتی ہوں۔ مجھے اس بار بھی اندازا نہیں ہوا کہ اب اس کی نظر میرے ان پیسوں پر ہے جو میں نے پچھلے دو سالوں میں اکیلے رہتے ہوئے بچائے تھے۔ اس دفعہ میں ایک مرتبہ پھر اس کے لہجے سے دھوکا کھا گئی، اور اپنی آخری جمع پو نجی بھی اس کے حوالے کر بیٹھی۔ مگر اس کی گاڑی میں بیٹھنا ہمارا مقدر نہیں تھا۔ اگلے ہی دن آصف سے جھگڑا ہوا کہ وہ وعدے کے مطابق ہمیں زیادہ وقت نہیں دیتا، جس پر وہ مشتعل ہوگیا۔ پہلے اُس نے مجھے دھکا دیا پھرمارا پیٹا۔ اُسی غصے میں اس نے مجھے تیں طلاقیں دیں۔ اور ہمیشہ کے لیے رشتہ ختم کردیا۔ مجھے اس مقام پر لا کر چھوڑا جہاں نہ تو میرے پاس پیسے تھے اور نہ ہی ٹھکانہ۔ ایک طرح سے میں سڑک پر آگئی تھی۔
ایک بار پھر مجھے سٹی کونسل کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑا۔ سنہ 2012 میں دوبارہ شیفیلڈ واپس آگئی۔ یہاں سٹی کونسل کی جانب سے گھر دیا گیا ہے اور ماہانہ اخراجات کے لیے رقم بھی دی جاتی ہے ۔ وہ کہتی ہے کہ برطانیہ میں عورتوں کے لیے بہت سی تنظیمیں کام کررہی ہیں۔ روشنی نام کی ایسی ہی ایک تنظیم نے اس کی ہر طرح سے مدد کی ہے۔ وہ اپنے گھر سے خالی ہاتھ آئی تھی، کونسل کے ذریعے سامان کا تقاضا آصف سے کیا تو تنگ کرنے کی غرض سے ٹی وی کا ریموٹ، کمپیوٹر کا چارجر، حتٰی کہ بچے کی گاڑی کے ریموٹ جیسی چیزیں بھی واپس نہیں کیں اور کہا کہ میں تمھیں اتنی ذہنی اذیت دوں گا کہ تم اپنا دماغی توازن کھو دو گی۔ تب میں آسانی سے اپنے بچے حاصل کرلوں گا۔ وہ تحریری طلاق دینے پر بھی آمادہ نہیں اور چاہتا ہے کہ طلاق میری طرف سے دائر کی جائے۔ میرے دونوں بچے، ماہین 7 سال اور بیٹا حسن 3 سال اپنے باپ کو بہت یاد کرتے ہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ طلاق کا کیا مطلب ہے اور ضد کرتے ہیں کے انھیں واپس اپنے گھر جانا ہے۔ مجھے قدم قدم پر پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بس کا سفر، سکول، بینک، شاپنگ، بلوں کی ادائیگی غرض باہر کی دنیا کا سامنا کرنا میرے لیے کسی امتحان سے کم نہیں۔ فون پر بات کرنا ہو توکسی کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ میں آج کل انگریزی سیکھ رہی ہوں جس میں میری بیٹی میری کافی مدد کررہی ہے۔ اس کے بعد ڈرائیونگ سیکھنا چاہتی ہوں، تاکہ جلد از جلد اپنے پیروں پر کھڑی ہوکرمیں بھی برطانوی معاشرے کے ساتھ چل سکوں۔ اپنے بچوں کا بہتر مستقبل میری اولین ترجیح ہے۔ میں اپنی بیٹی کو ڈاکٹر اور بیٹے کو وکیل بنانا چاہتی ہوں۔
اکثر دیکھا گیا ہے کہ جب مغرب میں بسنے والی ایشیائی اور بالخصوص پاکستانی گھرانے اپنے بچوں کی شادی کرنا چاہتے ہیں تو وہ پاکستان سے داماد ا ور بہو لانے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ اِس کی وجوہات کئی ہیں جن میں اپنے خاندان، ذات اور برادری سے لڑکی یا لڑکا لانا، تاکہ خاندان سے رشتہ جڑا رہے، کبھی کبھی مفت کی ملازمہ کا حصول یا پھر اپنےکسی سگے رشتہ دار کو باہر بلا کر سیٹ کرنا شامل ہے۔ اکثر اپنے بگڑے ہوئے بچوں کو راہِ راست پر لانے کے لیے بھی ایسی شادیاں کی جاتی ہیں۔ اپنے اس فیصلے سے والدین اپنے بچوں کے ساتھ تو زیادتی کرتے ہیں۔ ساتھ ہی، کسی بے گناہ کی زندگی بھی برباد کردیتے ہیں۔ برطانیہ کے بہت سےپاکستانی گھروں میں بچوں کو جبرٍاًٍ شادی کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔
رابعہ کی اِس کہانی میں قصور وار کون ہے؟
آپ خود ہی فیصلہ کریں۔
مشرقی عورت کے مغربی مسائل
رابعہ نے ’وی او اے‘ سے اپنی کہانی اِس طرح بیان کی: میری شادی سنہ 2004 میں آصف سےمیر پور میں ہوئی۔ شادی کے چار ماہ بعد وہ برطانیہ بریڈ فورڈ آئی۔ اُن کا سسرال ساس، سسر، تین نندوں؛ ایک دیورانی اُس کی تین بچیوں، نند کے شوہر اور ایک بچے پر مشتمل تھا۔ ایک اچھی بہو کا فرض نبھاتے ہوئے سسرال کے ہر کام میں حصہ لیا مگر کچھ ہی دنوں بعد تمام کاموں کی ذمہ داری مجھے دے دی گئی اور گھر والوں کا سلوک بھی بدل سا گیا۔ ساس کا کہنا تھا کہ آصف شادی کے بعد گھر میں خرچے کے پیسے نہیں دے رہا ہے۔ لہذا، اسے سب گھر والوں کے کھانا کھانے کے بعد بچا ہوا کھانا ملے گا۔ کئی دفعہ کھانا نہیں بچتا تھا اور اکثر اسے بھوکا رہنا پڑتا۔ 2005ء میں میری بیٹی پیدا ہوئی، مگر آصف نے باپ بننے کا بھی فرض پورا نہیں کیا۔ اپنی بچی کی ضرورتوں کے لیے بھی محتاج تھی۔ روز روز کی لڑائی اور پھر نوبت مار پیٹائی تک جا پہنچی۔ سسرال والوں نے بھی کبھی اُس کا ساتھ نہیں دیا۔ بلکہ، کہا جاتا کے جتنی ذلت ہم تمہاری کرتے ہیں اگر ایک کتے کی بھی کریں تو وہ گھر سے چلا جائے۔
رابعہ نے آنکھوں سے نمی صاف کرتے ہوئے کہا، میری زندگی دن بدں دشوار ہوتی جا رہی تھی۔ سنہ 2009 میں جب دوسری بار آٹھ ماہ کی حاملہ تھی تو اپنی نند کو ویکیوم کرنے کے لیے کہنے پر ایسی سزا دی گئی کہ پانچ دن اور رات اسے ایک ہی جگہ پر بٹھا کر رکھا گیا، ساس نے طنزیہ کہا آج سےسب گھر والے اس کی خدمت کریں گے۔ اس دوران کھانا اس طرح لا کر دیا جاتا جیسے کسی جانور کے آگے رکھا جاتا ہے، مگرایک ایسی بات بھی ہوئی کہ جو میں بتانا نہیں چاہتی، جس نے مجھے گھر چھوڑنے پر مجبور کردیا۔ صبح جب سب سو رہے تھےتو میں نے گھر چھوڑ دیا اور اپنی بچی کے سکول جا پہنچی۔ سکول والوں نے میری روداد سننے کے بعد مجھے فلاحی ادارے کے سپرد کردیا۔ سسرال سے میری کوئی خبر نہیں لی گئی۔ میں نے بریڈ فورڈ سے کہیں اور منتقل کرنے کی درخواست ادارے کو دی جس پر مجھے شیفیلڈ کے رفیوجی کیمپ میں منتقل کردیا گیا۔ یہں میرا بیٹا پیدا ہوا۔ اس بات کی اطلاع آصف کو دی گئی مگر اس نے سنگدلی کی انتہا کرتے ہوئے فون بند کردیا۔
دو سال کچھ ہمسائیوں کی مدد سے اپنی زندگی کی جنگ لڑی۔ تاہم، اکیلے پن سے گھبرا کر ایک دن آصف کو فون کیا۔ آصف بھی مجھ سے ملاقات کے لیےتیار ہوگیا، جبکہ اس کے دل میں اس ملاقات کے پیچھے کوئی اور ہی مقصد تھا، نا کہ میری اور میرے بچوں کی محبت۔ اُس نے شیفیلڈ کے معزز افراد کے سامنے قرآن پر ہاتھ رکھا اور کہا کہ وہ میرا اور اپنے بچوں کا خیال رکھے گا۔ اس وعدے کے ساتھ وہ ہمیں گھر واپس لے آیا۔ رابعہ نے بتایا کہ اس نے یہ فیصلہ پاکستان میں اپنے خاندان کی مرضی کے خلاف کیا تھا جس کی وجہ سے وہ ابھی تک اس سے ناراض ہیں۔ تاہم، ان کے خدشات درست ثابت ہوئے۔ آصف کچھ عرصہ ہی اپنی بات نبھا سکا اور پھر اپنی پرانی روش پر آگیا۔ ایک دن اچانک آصف نے بتایا کہ اس کی ایک گرل فرینڈ ہے جو ماں بنے والی ہے اور وہ اس سے شادی کرنا چاہتا ہے تا کہ سوسائٹی میں بچے کو اپنا نام دے سکے۔ مجھے ایک بار پھر نئی آزمائش کا سامنا تھا۔ اس کی نظر میری چوڑیوں پر تھی میں نے اسے وہ چوڑیاں اتار کردیں تو وہ میرا شکریہ ادا کرنے لگا۔ شادی کے کچھ عرصے تک آصف حسب وعدہ بچوں سے ملنے آتا اور ان کے لیے کچھ رقم بھی دینے لگا۔ ایک دن آصف نے کہا کہ وہ ایک اچھی گاڑی خریدنا چاہتا ہے اور اس کے پاس تھوڑے ہی پیسے کم ہیں۔ کیا میں اس کی مدد کر سکتی ہوں۔ مجھے اس بار بھی اندازا نہیں ہوا کہ اب اس کی نظر میرے ان پیسوں پر ہے جو میں نے پچھلے دو سالوں میں اکیلے رہتے ہوئے بچائے تھے۔ اس دفعہ میں ایک مرتبہ پھر اس کے لہجے سے دھوکا کھا گئی، اور اپنی آخری جمع پو نجی بھی اس کے حوالے کر بیٹھی۔ مگر اس کی گاڑی میں بیٹھنا ہمارا مقدر نہیں تھا۔ اگلے ہی دن آصف سے جھگڑا ہوا کہ وہ وعدے کے مطابق ہمیں زیادہ وقت نہیں دیتا، جس پر وہ مشتعل ہوگیا۔ پہلے اُس نے مجھے دھکا دیا پھرمارا پیٹا۔ اُسی غصے میں اس نے مجھے تیں طلاقیں دیں۔ اور ہمیشہ کے لیے رشتہ ختم کردیا۔ مجھے اس مقام پر لا کر چھوڑا جہاں نہ تو میرے پاس پیسے تھے اور نہ ہی ٹھکانہ۔ ایک طرح سے میں سڑک پر آگئی تھی۔
ایک بار پھر مجھے سٹی کونسل کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑا۔ سنہ 2012 میں دوبارہ شیفیلڈ واپس آگئی۔ یہاں سٹی کونسل کی جانب سے گھر دیا گیا ہے اور ماہانہ اخراجات کے لیے رقم بھی دی جاتی ہے ۔ وہ کہتی ہے کہ برطانیہ میں عورتوں کے لیے بہت سی تنظیمیں کام کررہی ہیں۔ روشنی نام کی ایسی ہی ایک تنظیم نے اس کی ہر طرح سے مدد کی ہے۔ وہ اپنے گھر سے خالی ہاتھ آئی تھی، کونسل کے ذریعے سامان کا تقاضا آصف سے کیا تو تنگ کرنے کی غرض سے ٹی وی کا ریموٹ، کمپیوٹر کا چارجر، حتٰی کہ بچے کی گاڑی کے ریموٹ جیسی چیزیں بھی واپس نہیں کیں اور کہا کہ میں تمھیں اتنی ذہنی اذیت دوں گا کہ تم اپنا دماغی توازن کھو دو گی۔ تب میں آسانی سے اپنے بچے حاصل کرلوں گا۔ وہ تحریری طلاق دینے پر بھی آمادہ نہیں اور چاہتا ہے کہ طلاق میری طرف سے دائر کی جائے۔ میرے دونوں بچے، ماہین 7 سال اور بیٹا حسن 3 سال اپنے باپ کو بہت یاد کرتے ہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ طلاق کا کیا مطلب ہے اور ضد کرتے ہیں کے انھیں واپس اپنے گھر جانا ہے۔ مجھے قدم قدم پر پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بس کا سفر، سکول، بینک، شاپنگ، بلوں کی ادائیگی غرض باہر کی دنیا کا سامنا کرنا میرے لیے کسی امتحان سے کم نہیں۔ فون پر بات کرنا ہو توکسی کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ میں آج کل انگریزی سیکھ رہی ہوں جس میں میری بیٹی میری کافی مدد کررہی ہے۔ اس کے بعد ڈرائیونگ سیکھنا چاہتی ہوں، تاکہ جلد از جلد اپنے پیروں پر کھڑی ہوکرمیں بھی برطانوی معاشرے کے ساتھ چل سکوں۔ اپنے بچوں کا بہتر مستقبل میری اولین ترجیح ہے۔ میں اپنی بیٹی کو ڈاکٹر اور بیٹے کو وکیل بنانا چاہتی ہوں۔
اکثر دیکھا گیا ہے کہ جب مغرب میں بسنے والی ایشیائی اور بالخصوص پاکستانی گھرانے اپنے بچوں کی شادی کرنا چاہتے ہیں تو وہ پاکستان سے داماد ا ور بہو لانے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ اِس کی وجوہات کئی ہیں جن میں اپنے خاندان، ذات اور برادری سے لڑکی یا لڑکا لانا، تاکہ خاندان سے رشتہ جڑا رہے، کبھی کبھی مفت کی ملازمہ کا حصول یا پھر اپنےکسی سگے رشتہ دار کو باہر بلا کر سیٹ کرنا شامل ہے۔ اکثر اپنے بگڑے ہوئے بچوں کو راہِ راست پر لانے کے لیے بھی ایسی شادیاں کی جاتی ہیں۔ اپنے اس فیصلے سے والدین اپنے بچوں کے ساتھ تو زیادتی کرتے ہیں۔ ساتھ ہی، کسی بے گناہ کی زندگی بھی برباد کردیتے ہیں۔ برطانیہ کے بہت سےپاکستانی گھروں میں بچوں کو جبرٍاًٍ شادی کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔
رابعہ کی اِس کہانی میں قصور وار کون ہے؟
آپ خود ہی فیصلہ کریں۔
مشرقی عورت کے مغربی مسائل