وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْمَاءِ بَشَرًا فَجَعَلَهُ نَسَبًا وَصِهْرًا ۗ وَكَانَ رَبُّكَ قَدِيرًا
ترجمہ: وہ جس نے پانی سے انسان کو پیدا کیا، پھر اسے نسب والا اور سسرالی رشتوں والا کر دیا بلاشبہ آپ کا پروردگار (ہر چیز پر) قادر ہے۔
الفرقان: آیت: ۵۴
مگر افسوس کہ ہم آج اس پیاری نعمت کی قدر نہیں کرتے اور اس کو ضائع کرتے رہتے ہیں اگر پانی ہمیں خریدنا پڑے تو یقیناً ہم اس کا اسراف کرنا برداشت نہ کریں جس طرح منرل واٹر کو ضائع نہیں کرتے، آخر ایسا کیوں ہے کہ جو چیز ہمیں بغیر محنت اور پیسہ خرچ کئے مل جائے ہم اس کی قدر نہیں کرتے؟؟؟؟
اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے؛
ترجمہ: پھر تم سے ضرور بالضرور پوچھ ہونی ہے اس دن ان نعمتوں کے بارے میں۔ (التکاثر: ۸)
اس آیت کی تفسیر احادیث میں بھی وارد ہوئی ہے کہ
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے پاس دو ہی تو چیزیں ہیں پانی اور کھجور۔ پھر ہم سے کن نعمتوں کے بارے میں پوچھا جائے گا؟ دشمن حاضر ہے اور تلواریں ہمارے کاندھوں پر ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہ نعمتیں عنقریب تمہیں ملیں گی۔
جامع ترمذی: جلد دوم: باب: سورۃ تکاثر کی تفسیر
ترجمہ: وہ جس نے پانی سے انسان کو پیدا کیا، پھر اسے نسب والا اور سسرالی رشتوں والا کر دیا بلاشبہ آپ کا پروردگار (ہر چیز پر) قادر ہے۔
الفرقان: آیت: ۵۴
مگر افسوس کہ ہم آج اس پیاری نعمت کی قدر نہیں کرتے اور اس کو ضائع کرتے رہتے ہیں اگر پانی ہمیں خریدنا پڑے تو یقیناً ہم اس کا اسراف کرنا برداشت نہ کریں جس طرح منرل واٹر کو ضائع نہیں کرتے، آخر ایسا کیوں ہے کہ جو چیز ہمیں بغیر محنت اور پیسہ خرچ کئے مل جائے ہم اس کی قدر نہیں کرتے؟؟؟؟
اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے؛
ترجمہ: پھر تم سے ضرور بالضرور پوچھ ہونی ہے اس دن ان نعمتوں کے بارے میں۔ (التکاثر: ۸)
اس آیت کی تفسیر احادیث میں بھی وارد ہوئی ہے کہ
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے پاس دو ہی تو چیزیں ہیں پانی اور کھجور۔ پھر ہم سے کن نعمتوں کے بارے میں پوچھا جائے گا؟ دشمن حاضر ہے اور تلواریں ہمارے کاندھوں پر ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہ نعمتیں عنقریب تمہیں ملیں گی۔
جامع ترمذی: جلد دوم: باب: سورۃ تکاثر کی تفسیر
پانی کے اسراف کی ممانعت میں احادیث موجود ہیں مثلاً
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالٰی عنہ راوی ہیں کہ
(ایک مرتبہ) سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر ہوا جب کہ وہ وضو کر رہے تھے (اور وضو میں اسراف بھی کررہے تھے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (یہ دیکھ کر) فرمایا ’’اے سعد! یہ کیا اسراف (زیادتی ہے)؟‘‘ حضرت سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عرض کیا کہ کیا وضو میں بھی اسراف ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ہاں! اگرچہ تم نہر جاری ہی پر (کیوں نہ وضو کر رہے) ہو۔‘‘
(مسند احمد بن حنبل، ابن ماجہ)
مشکوۃ شریف: جلد اول: باب: وضو کی سنتوں کا بیان
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہم فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک شخص کو وضو کرتے دیکھا تو ارشاد فرمایا اسراف نہ کرو، اسراف نہ کرو۔
سنن ابن ماجہ: جلد اول: باب: وضو میں میانہ روی اختیار کرنے اور حد سے بڑھنے کی کراہت
ان احادیث سے واضح ہوا کہ وضو کرتے وقت بھی پانی کے اسراف سے بچنا لازم ہے اور بےشک وضو دریا کے کنارے کیا جائے مگر افسوس صد افسوس کہ ہم وضو کرتے وقت بھی بہت زیادہ پانی ضائع کرتے ہیں۔