جمعہ, جون 29, 2012

وضو اور پانی کا ضیاں

وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْمَاءِ بَشَرًا فَجَعَلَهُ نَسَبًا وَصِهْرًا ۗ وَكَانَ رَبُّكَ قَدِيرًا
ترجمہ: وہ جس نے پانی سے انسان کو پیدا کیا، پھر اسے نسب والا اور سسرالی رشتوں والا کر دیا بلاشبہ آپ کا پروردگار (ہر چیز پر) قادر ہے۔
الفرقان: آیت: ۵۴

مگر افسوس کہ ہم آج اس پیاری نعمت کی قدر نہیں کرتے اور اس کو ضائع کرتے رہتے ہیں اگر پانی ہمیں خریدنا پڑے تو یقیناً ہم اس کا اسراف کرنا برداشت نہ کریں جس طرح‌ منرل واٹر کو ضائع نہیں کرتے، آخر ایسا کیوں ہے کہ جو چیز ہمیں بغیر محنت اور پیسہ خرچ کئے مل جائے ہم اس کی قدر نہیں کرتے؟؟؟؟

اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے؛
ترجمہ: پھر تم سے ضرور بالضرور پوچھ ہونی ہے اس دن ان نعمتوں کے بارے میں۔ (التکاثر: ۸)

اس آیت کی تفسیر احادیث میں بھی وارد ہوئی ہے کہ
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے پاس دو ہی تو چیزیں ہیں پانی اور کھجور۔ پھر ہم سے کن نعمتوں کے بارے میں پوچھا جائے گا؟ دشمن حاضر ہے اور تلواریں ہمارے کاندھوں پر ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہ نعمتیں عنقریب تمہیں ملیں گی۔

جامع ترمذی: جلد دوم: باب: سورۃ تکاثر کی تفسیر

پانی کے اسراف کی ممانعت میں احادیث موجود ہیں مثلاً
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالٰی عنہ راوی ہیں کہ
(ایک مرتبہ) سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر ہوا جب کہ وہ وضو کر رہے تھے (اور وضو میں اسراف بھی کررہے تھے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (یہ دیکھ کر) فرمایا ’’اے سعد! یہ کیا اسراف (زیادتی ہے)؟‘‘ حضرت سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عرض کیا کہ کیا وضو میں بھی اسراف ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ہاں! اگرچہ تم نہر جاری ہی پر (کیوں نہ وضو کر رہے) ہو۔‘‘
(مسند احمد بن حنبل، ابن ماجہ)

مشکوۃ شریف: جلد اول: باب: وضو کی سنتوں کا بیان
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہم فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک شخص کو وضو کرتے دیکھا تو ارشاد فرمایا اسراف نہ کرو، اسراف نہ کرو۔

سنن ابن ماجہ: جلد اول: باب: وضو میں میانہ روی اختیار کرنے اور حد سے بڑھنے کی کراہت

ان احادیث سے واضح ہوا کہ وضو کرتے وقت بھی پانی کے اسراف سے بچنا لازم ہے اور بےشک وضو دریا کے کنارے کیا جائے مگر افسوس صد افسوس کہ ہم وضو کرتے وقت بھی بہت زیادہ پانی ضائع کرتے ہیں۔

جی میل سے یوفون پر مفت ایس ایم ایس

جی میل کے اکاؤنٹ سے یوفون کے کسی بھی نمبر پر مفت ایس ایم ایس جبکہ یوفون سے جی میل پر ایس ایم ایس کرنے کی قیمت 1 روپے ٹیکس کے علاوہ ہے۔

ہم سا جو شکستہ قلب ملا، اُسے دل سے لگا کر چُوم لیا

تعبیر ہو جس کی اچھی سی، کوئی ایسا خواب نہیں دیکھا
کوئی ٹہنی سبز نہیں پائی، کوئی شوخ گلاب نہیں دیکھا

ایسا ہے کہ تنہا پھرنے کا کچھ اتنا زیادہ شوق نہیں
تیرے بعد سو ان آنکھوں نے کبھی جشن ِ مہتاب نہیں دیکھا

ہم ہجر زدہ سودائی تھے، جلتے رہے اپنے شعلوں میں
اچھا ہے کہ توُ محفوظ رہا، تُو نے یہ عذاب نہیں دیکھا

بس اتنا ہوا ہم تشنہ دہن لوٹ آئے بھرے دریاؤں سے
کوئی اور فریب نہیں کھایا، کوئی اور سراب نہیں دیکھا

ہم سا جو شکستہ قلب ملا، اُسے دل سے لگا کر چُوم لیا
اس سے بہتر اس سے بڑھ کر کوئی کارِ ثواب نہیں دیکھا

ویکی پیڈیا میں سنگین غلطیاں موجود ہیں

دنیا کے سب سے بڑے انٹرنیٹ انسائیکلوپیڈیا ’’ویکی پیڈیا‘‘ میں پیش کردہ ساٹھ فی صد مضامین میں سنگین غلطیاں موجود ہیں۔ امریکی ماہرین ویکی پیڈیا کے مواد کا جائزہ لے کر اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اس مسئلہ کے حل کے لیے ’’ویکی پیڈیا‘‘ کی حکمت عملی میں تبدیلی ضروری ہے۔

ویکی پیڈیا میں دو سو ستر زبانوں میں دو کروڑ مضامین موجود ہیں۔ چالیس کروڑ افراد ہر ماہ ویکی پیڈیا پڑھتے ہیں۔ تمام انٹرنیٹ صارفین کو مضامین میں تبدیلیاں لانے کا حق حاصل ہے اس لیے حقائق کو دانستہ توڑ مروڑ کر پیش کیا جاسکتا ہے۔ مثال کے طور پر سن دو ہزار چار میں جارج بش جونئر کے بارے میں مضمون میں بش کی تصویر کی بجائے ہٹلر کی تصویر لگا دی گئی تھی۔


سادگی کے لئے ابوبکر اور عمر کے نام پیش کرتا ہوں، گاندھی



غیرمسلموں کے رہنما اپنے حکمرانوں کو حکومت کرنے کے لئے ابتدائی مسلم خلفائے راشدین کی پیروی کی ہدایت کرتے ہیں، تو کیا وجہ ہے موجودہ ہمارے مسلم حکمران اپنے اسلاف کے طرز حکمرانی کی پیروی نہیں کرتے؟ حالاں کہ آج اس بات کی شدت سے ضرورت ہے۔ کیا یہ بہت مشکل ہے؟؟ یا اُس دور کے حالات اور موجودہ حالات میں فرق ہے؟

عادت ہی بنا لی ہے تم نے تو منیر اپنی

بے چین بہت پھرنا گھبرائے ہوئے رہنا
اِک آگ سی جذبوں کی دہکائے ہوئے رہنا

چھلکائے ہوئے چلنا خوشبو لبِ لعلیں کی
اک باغ سا ساتھ اپنے مہکائے ہوئے رہنا

اس حسن کا شیوہ ہے جب عشق نظر آئے
پردے میں چلے جانا، شرمائے ہوئے رہنا

اک شام سی کر رکھنا کاجل کے کرشمے سے
اک چاند سا آنکھوں میں چمکائے ہوئے رہنا

عادت ہی بنا لی ہے تم نے تو منیر اپنی
جس شہر میں بھی رہنا اکتائے ہوئے رہنا

تُساں ساڈے نال مُکا چھوڑی



گلاں چُوں گل تے کوئی نائی

تُساں گل دی گل بنا چھوڑی

اَساں جتنی گل مکاندے رئے

تُساں اُتنی گل ودھا چھوڑی

اَساں نِت خلوص دی چھاں کیتی

تُساں جِھڑکاں نال وَنجا چھوڑی

اَساں لوکاں نال مُکاندے رئے

تُساں ساڈے نال مُکا چھوڑی

اٹلی بھی فٹ بال یورو 2012 کے فائنل میں

یورپی ملکوں کے درمیان فٹ بال کےیورو دو ہزار بارہ کے مقابلوں میں اٹلی کی ٹیم دوسرے سیمی فائنل مقابلے میں جرمنی کو ایک کے مقابلے میں دو گول سے ہرا کر فائنل میں پہنچ گئی ہے۔

سپین کی ٹیم پرتگال کو پہلے سیمی فائنل میں ہرا کر پہلے ہی فائنل میں پہنچ چکی ہے۔

اٹلی اور جرمنی کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہوا اور پہلے ہاف میں دونوں ٹیموں نے ایک دوسرے کے گول پر زبردست حملے کیے۔ جرمنی کو کئی ایک موقعے ملے لیکن اٹلی کے گول کپیر بوفن اور اٹلی کے دفاعی کھلاڑی اندرے پرلو جرمنی کی ٹیم اور گول میں ہر مرتبہ حائل رہے۔ جرمنی کے فارورڈز کسی بھی موقعہ پر گیند کو اٹلی کے گول کپیر اور پرلو کی پہنچ سے دور کر کے گول تک نہ پہنچا پائے۔

اٹلی کی طرف سے ماریو بیلوٹلی نے دو گول کیے لیکن اٹلی کے دفاعی کھلاڑی اندرے پرلو نے زبردست کھیل پیش کیا اور جرمنی کے ہر حملے کو ناکام بنا دیا۔

بیلوٹلی نے پہلا گول ایک کارنر سے دیے گئے پاس پر سر مار کیا جب کے دوسرا گول انھوں نے ایک زبردست ہٹ لگا کر کیا جس کو روکنا کسی بھی گول کیپر کے لیے تقریباً ناممکن تھا۔

اٹلی کے ہاتھوں جرمنی کو کسی بڑے بین الاقوامی میچ میں آٹھویں مرتبہ شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

سنہ دو ہزار چھ کے فٹ بال کے عالمی کپ میں بھی پرلو ہی کی مدد سے اضافی وقت میں اٹلی نے جرمنی پر گول کرکے دو صفر سے فتح حاصل کی تھی۔ سنہ دو ہزار چھ کے فٹ بال کے عالمی کپ کی میزبانی بھی جرمنی ہی کررہا تھا۔ جرمنی کی نسبتاً ناتجربہ کار اور نئی ٹیم تھی جسے اب خالی ہاتھ گھر لوٹنا پڑے گا اور اس امید کے ساتھ کے شاید یہ ٹیم سنہ دو ہزار چودہ میں برازیل میں ہونے والی عالمی کپ میں کامیابی حاصل کرسکے۔

کرینہ کپور سیف سے شادی کے لئے مذہب تبدیل نہیں کریں گی

کرینہ کپور، رواں سال اکتوبر میں سیف علی خان سے شادی ضرور کریں گی لیکن اس شادی کے لئے انہوں نے اپنا مذہب تبدیل کرنے سے صاف انکار کردیا ہے۔ حالانکہ، پٹودی خاندان کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو 2 خواتین ایسی ہیں جنہوں نے پٹودی خاندان میں شادی کے لئے اپنا مذہب اور نام دونوں تبدیل کرلئے تھے۔
ان خواتین میں سرفہرست ہیں سیف علی خان کی والدہ شرمیلا ٹیگور جو نواب منصور علی خان پٹودی یعنی سیف علی خان کے والد سے شادی کرنے سے قبل بنگال کے ایک ہندو گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں، جبکہ دوسری خاتون سیف علی خان کی پہلی بیوی امریتا سنگھ ہیں جو شادی سے قبل سکھ مت کی پیروکار تھیں۔

لیکن، کرینہ کپور ایسا نہیں کریں گی۔ خود سیف علی خان کا مقامی میڈیا سے گفتگو کے دوران کہنا تھا کہ وہ شادی کے لئے مذہب کی تبدیلی ضروری نہیں سمجھتے۔ اس لئے انہیں اس بات سےکوئی دلچسپی نہیں کہ کرینہ شادی سے پہلے اسلام قبول کرتی ہیں یا نہیں۔

سیف کا کہنا ہے کہ وہ کبھی بھی یہ نہیں چاہیں گے کہ کرینہ اپنا مذہب تبدیل کریں۔ انہوں نے حکومت کو تجویز دی کہ اسے’اسپیشل میریج ایکٹ‘ میں ترمیم کرنی چاہئیے جس کے تحت 2 مختلف مذاہب کے ماننے والوں کو آپس میں شادی کرنے سے پہلے اپنا مذہب تبدیل نا کرنا پڑے۔

 سیف کی والدہ شرمیلا نے 43 سال قبل اسلام قبول کرتے ہوئے اپنا نام عائشہ بیگم رکھ لیا تھا جبکہ امریتا سنگھ بھی سکھ مت چھوڑ کر مسلمان ہوگئی تھیں۔

بیک ٹو سکول ۔۔۔۔ 97 سال کی عمر میں میٹرک پاس

ریاست اوہائیو کی بزرگ کولیسجونی نے 80 سال کی غیر حاضری کے بعد سکول پاس کرنے کا خواب شرمندہ تعبیر کردیا۔ کولیسجونی کی طرح بہت سے لوگ امریکہ میں عمر کے کسی بھی حصے میں تعلیم مکمل کرنے کا سوچتے ہیں اور عمر کو اس راہ میں آڑے نہیں آنے دیتے۔ 



روسی لوگ بہت کم سوتے ہیں

روس کے بہت کم لوگ دیر تک سو پاتے ہيں۔ ایک سروے کے مطابق صرف دو فی صد رائے دہندگان نے کہا کہ ان کی نیند پوری ہوتی ہے۔ آٹھ فی صد کے مطابق ان کی نیند تین ماہ میں ایک بار سے زیادہ پوری نہیں ہوتی، اور پچیس فی صد کے لیے مہینے میں کئی مرتبہ صبح کو اٹھنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ ایک تہائی افراد کی نیند ہفتے میں چند بار پوری ہوتی ہے جبکہ اتنے ہی زيادہ افراد ہر رات بہت کم سوتے ہیں۔

زیادہ تر لوگوں کا خیال ہے کہ کام کی پریشانیاں ان کی نیند خراب کرتی ہیں۔ پچیس فی صد نے تسلیم کیا کہ وہ وقت پر نظر نہیں رکھ سکتے۔ کچھ لوگ گھر کی مصروفیات یا اپنے پسندیدہ مشغلات میں لگے رہتے ہیں اور چار فی صد افراد کو پیار کی وجہ سے نیند نہیں آتی۔ جبکہ کچھ لوگوں کو خراب صحت کے باعث نیند نہیں آسکتی۔

پچاس فی صد سے زیادہ روسیوں کو یقین ہے کہ نیند کی کمی سے ان کی کارکردگی پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ تیس فی صد رائے دہندگان نے کہا کہ وہ نیند پوری نہ ہونے کے باوجود بہت زیادہ کام کرتے ہیں۔ لیکن پچیس فی صد نے تسلیم کیا کہ نیند پوری نہ ہو تو ان کی کارکدگی خراب ہوجاتی ہے۔

بیشتر روسی ایام کار کے دوران نیند کی کمی پوری کرنے کے لیے ہفتے اور اتوار کو بہت زیادہ سوتے ہیں۔ پچیس فی صد افراد ہر روز ایک ہی وقت پر سو جانے کی کوشش کرتے ہیں۔

بھارت کا صوبہ کیرالہ

تصویر میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ حیرت انگیز طور پر بھارتی صوبہ کیرالہ کا نقشہ مشہور و معروف سبزی کریلے جیسا ہے۔ اگرچہ کریلے کا ذائقہ کچھ کڑوا ہوتا ہے لیکن یہ صحت کے لیے انتہائی مفید چیز ہے۔ یہ انسانی جسم کی بہت ساری بیماریوں کے لیے ایک دوا کا کام بھی کرتی ہے۔ کریلہ کھانے والے کو پھنسیاں یا دانے بہت کم نکلتے ہیں۔ لیکن کیرالہ کے بارے جان کر آپ کو یقینآ خوشی ہوگی۔ بھارت کے صوبے کیرالہ کی زبان مالیالم ہے، رقبہ 38,863 مربع کلومیٹر اور آبادی 31,838,619 ہے۔


کیرالہ - تاریخ وتہذیب کے آئینہ میں
SAFI AKHTAR

کیرالہ میں مسجدوں کی کثرت کا یہ عالم ہے کہ ہر سڑک پر تھوڑی تھوڑی دور پر چھوٹی بڑی مساجد ملیں گی۔ یہاں جب آپ مسجد تلاش کریں گے تو اس کے لئے آپ کو زیادہ تلاش و جستجو کی ضرورت نہیں کرنی پڑے گی۔ راستوں پر مسجدیں جس اہتمام کے ساتھ آباد ہیں، ایسا لگتا ہے کہ کسی خالص اسلامی حکومت نے منظم منصوبہ بندی کے تحت انہیں تعمیر کیا ہو، یہاں کی مساجد کا یہ امتیاز ہے کہ یہ صرف مسجد نہیں ہوتی بلکہ دینی تعلیم و تربیت کا گہوارہ بھی ہوتی ہے۔ ہزاروں مسجدوں میں مکاتب اور مدارس چل رہے ہیں۔ کالی کٹ سے کوچین کا فاصلہ کوئی تین سو کلو میٹر کے قریب ہے۔ اس راستے میں اہم ترین زیارت گاہیں ہیں جن میں حضرت حبیب بن مالک دینار کی مسجد و مزار اور حضرت شیخ زین العابدین مخدومی فنانی کی مسجد و مقبرہ قابل ذکر ہیں۔ حضرت مالک بن حبیب کی مسجد جس علاقہ میں واقع ہے، اس کا نام کدنگلور ہے۔ مذکورہ مقام کوچین سے کوئی پچاس کلو میٹر دور ہے جو تھریسور ضلع میں واقع ہے اور یہ مسجد ’چیرامن جامع مسجد‘ کے نام سے مشہور ہے۔ یہ مسجد ہندوستان کی پہلی مسجد ہے اور یہ اس مقام پر 6ھ یعنی حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں تعمیر ہوئی۔ بہت ممکن ہے کہ یہ ہندوستان کی پہلی مسجد ہولیکن اس کی تاریخ 6ھ ہے اس کا اب تک کوئی دستاویزی ثبوت نہیں ہے۔ ’کدنگلو‘ عہد رسالت میں ملیباری دارالسلطنت تھا، یہاں ایک غیر مسلم بادشاہ جس کا نام ’چیرامن پیرامل‘ تھا، جسے ’فرماض‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ اس بادشاہ نے عہد رسالت میں اپنے دارالسلطنت سے ہی ”معجزہ شق القمر“ کا ٹھیک اسی وقت مشاہدہ کیا تھا جب وہ رات کے کھانے کے بعد اپنی شریک حیات کے ساتھ اپنے محل کی چھت پر تفریح کررہا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس واقعہ سے متاثر ہوکر وہ مشرف بہ اسلام ہوا، وہ اپنے اہل و عیال کو چھوڑ کر عرب سے آئے چند تجار/ سیاح کے ساتھ بارگاہ رسالت میں حاضری کی نیت سے چل پڑا اور حضور پاک کی بارگاہ میں حاضر ہوکر دیدار سے مشرف ہوا، وہی چیرا من بعد کو تاج الدین کے نام سے معروف ہوا۔ جب واپس آنے لگا تو اس کی گزارش پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے چند صحابہ کرام کو ان کی رفاقت میں بھیج دیا تاکہ وہ مالا بار میں اسلام کی تبلیغ و اشاعت کا کام کرسکیں۔ یہ قافلہ واپس چلا تو کسی قریبی ”ظفار“ نامی بندرگاہ تک پہنچ کر وہ بادشاہ بیمار ہوگیا، وہیں سے انہوں نے اپنے اہلکاروں کو نصیحت آمیز خطوط بھیجے جس میں یہ حکم کر رکھا تھا کہ انہوں نے مالا بار میں تبلیغ اسلام کے جس کام کا قصد کر رکھا ہے اس کو ترک نہ کریں۔ اگر میں انتقال کر جاﺅں تو میرے انتقال کی خبر لوگوں کو دینے سے پہلے آنے والی نورانی جماعت کے ساتھ اچھا برتاﺅ کریں، انہیں یہ بھی نصیحت کی کہ ان حضرات کا شاہانہ عزت و شوکت کے ساتھ استقبال کیا جائے پھر وہیں وہ آسودہ خاک ہوگئے، شاید اسی نصیحت کا یہ اثر ہے کہ آج بھی مالا بار کا خطہ ان برکات سے عطر بیز ہے۔
کسی شہر کی تہذیب و ثقافت کا اندازہ کرنا ہو تو وہاں کے لوگوں کے رہن سہن کے ساتھ ساتھ بازاروں کا جائزہ لیجئے اور دیکھئے کہ وہاں کی مستورات کس طرح شاپنگ کررہی ہوتی ہیں۔ مگر کیرالہ میں مغربی تہذیب کے بالمقابل ایک شرافت نظر آئے گی، یہ عفت مآب خواتین عموماً گھروں میں ہوتی ہیں اور باعزت اور حیادار ہیں۔ اسلام نے جس طرح مستورات کو شرم و حیا اور گھریلو ماحول میں زندگی گزارنے کا حکم دیا ہے، الحمدللہ ان کا عقل و شعور اور فکر و نظر بھی ان برائیوں سے عموماً گریز کا ہے اور مغربی تہذیب کے برخلاف اپنے والدین اور خاوندوں کے حسب حکم وہ گھروں میں ہوتی ہیں۔ یہاں کے زیادہ تر لوگوں کا ذریعہ معاش تجارت ہے، ملازمت اگر اپنی ریاست میں مل گئی تو یہاں رکے، ورنہ کوئی خاندان ایسا نہیں جن کا کوئی فرد خلیجی ملکوں میں نہ ہو، نتیجہ یہ ہے کہ بڑے بڑے مکانات یوں ہی خالی پڑے رہ جاتے ہیں۔ یہاں کے لوگوں کی معاشی حالت اطمینان بخش ہے، عرب ملکوں میں جانے کا رجحان عام ہے، لوگ ترک وطن تو نہیں کرتے مگر بیرون ممالک میں رہتے اور مکان سازی یہاں کرتے ہیں۔ یہاں مختلف مذاہب کے حاملین بشمول ہندو مذہب کے ماننے والے بھی مسلمانوں کا بے حد احترام کرتے ہیں۔ یہاں کے لوگ اعتدال فطرت اور سلامت ذوق کے عادی ہیں، دعوت و تحریک زندگی کے اجتماعی اور انفرادی عمل میں نمایاں ہے۔ توازن فکر کے نتیجے میں جماعت دعوت و تبلیغ ہو کہ جماعت اسلامی یا جمعیت اہلحدیث، پوری زندگی ”خیرالامور اوسطہا“ کی عملی تعبیر اور تفسیر ہے۔ ریاست کے ادبی و ثقافتی شہر ملاپورم کے Perntalmanna میں جو کہ اوٹی روڈ پر واقع ہے، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا اسپیشل سنٹر ہے، جسے اے ایم یو ملاپورم سنٹر کہتے ہیں۔
یوروپی نو آبادیاتی نظام کے خلاف کیرالہ کے مسلمانوں کی داستان شجاعت کی ابتدا 1500ء میں پرتگالیوں کے خلاف جنگ سے ہوتی ہے۔ مسلم رہنماﺅں نے کیرالہ میں پرتگالیوں کے ذریعہ نو آبادی قائم کرنے کی کوششوں کی حتی المقدور مخالفت کی، حالانکہ پرتگالی کیرالہ کے چند محدود علاقوں کو اپنے قبضے میں لے چکے تھے۔ لیکن اس کے باوجود مالا بار میں ان کے توسیع پسندانہ منصوبے مسلمانوں کی کوششوں کے سبب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکے۔ گوا پر قبضے کے باوجود 18ویں صدی کے اختتام تک مالا بار ایک آزاد علاقہ رہا جہاں علاقائی تہذیب اور زبان و ادب کو پھلنے پھولنے کے مواقع حاصل تھے۔ نو آبادیاتی نظام کے تسلط کے باوجود مالا بار نے اپنی شناخت بڑی حد تک قائم رکھی اور یہاں ذیلی قومیت کا وہ نظریہ بھی جڑ پکڑ چکا تھا جس نے بعد میں ہندوستانی قومیت کا ایک حصہ بن کر انگریزوں کا مقابلہ کیا۔
بہرحال گھنیرے ناریل کے درختوں، پہاڑوں، گھاٹیوں اور کوہستانوں کے شہر منجیری کے لئے ہمارا یہ سفر تھا۔ 10 دسمبر کو جمعہ کی نماز پڑھنے کے لئے الگ الگ مساجد میں لوگ جا رہے تھے، ہم بھی ایک مسجد میں گئے، اکثر مساجد کی تعمیر یہاں روایتی انداز پر ہوئی ہے۔ منجیری کا موسم نسبتاً پرسکون اور مناظر پرکشش ہیں۔ موسم سرما میں بھی درجہ حرارت 20-24 سے زائد نہیں ہوتا۔ ملاپورم اور کالی کٹ میں ایک گھنٹہ کی دوری ہے۔ یہ سارے مراکز سیاحتی انداز کے ہیں۔ یہ خطہ رہائش کے لئے بے حد موزوں ہے۔ یہاں کوئی مسلکی ٹکراﺅ اور مکاتب فکر کی آویزش نہیں ہے۔ اسلام نے ہر طرح کی جاہلانہ نخوت کو مٹایا اور تمام انسانوں کے لئے حقیقی مساوات کے ایسے اصول ذکر کئے ہیں جن کی بلندی تک تہذیب و تمدن کے دعوﺅں کے باوجود آج تک دنیا نہیں پہنچ سکی ہے۔ اسلام کی نظر میں انسانیت کی حیثیت ایک کشادہ باغیچہ کی ہے جس میں رنگ برنگ کے پھول پروان چڑھتے ہیں اور سب مل کر باغیچے کی رونق کو بڑھاتے ہیں۔ کسی کا سفید ہونا یا سیاہ ہونا، آب و ہوا اور اس ماحول کا رہین منت ہے جس میں وہ جنم لیتا ہے، کیرالہ کے لوگ سانولے ضرور ہوتے ہیں مگر بنی نوع انسان کی وحدت نسل، زبان و رنگ سے بالاتر ہے۔ خدا نے آب و ہوا کے فرق اور رنگ کے امتیاز کو اپنی نشانیوں میں شمار کیا ہے۔ اس لئے یہ چیز نہ تو کسی کی برتری کا ذریعہ بن سکتی ہے اور نہ پستی کا۔ اسلام نے ہر فرد کو اس کے اپنے عمل کا ذمہ دار قرار دیا ہے اور ان باتوں کی شروع سے بنیاد ہی ختم کردی ہے جو غیراختیاری طور پر انسانوں کو حاصل ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر حسن و جمال یا چہرہ بشرہ کا رنگ اور کسی مخصوص خاندان میں پیدا ہونے کی بنیاد پر کسی انسان کو اسلامی تعلیمات کی رو سے کوئی برتری حاصل نہیں ہوتی، بلکہ خود اس کا اپنا کردار اسے خوبیوں کا مجموعہ یا خرابیوں کا پتلا بناتا ہے، محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت گورے اور کالے کے امتیاز کے بغیر تمام انسانوں کے لئے عام ہے، وہ لوگ جو آباء و اجداد پر فخر کرتے ہیں یا تو اس سے باز آجائیں ورنہ وہ خدا کی نظر میں کیڑے مکوڑوں سے بھی کم حیثیت ہوں گے۔

باپ کا نہ ہونا بچوں میں شدید قسم کا احساس محرومی

کراچی (جنگ نیوز) شوہر کے بغیر بچوں کی پرورش آسان نہیں۔ باپ کے بغیر بچوں کو معاشرے میں بہت سی دشواریوں، پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سکول، کالج، گھر اور تقاریب میں باپ کا نہ ہونا بچوں میں شدید قسم کا احساس محرومی پیدا کرتا ہے۔ ان خیالات کا اظہار جیو ٹی وی کے مارننگ شو ”اٹھو جاگو پاکستان“ کے شرکاء نے میزبان شائستہ واحدی کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ پروگرام میں اس اہم اور حساس موضوع پر بات ہوئی کہ ”والدین میں سے کسی ایک کی موت سے بچوں پر کیا اثرات ہوتے ہیں اور ایسے بچوں کے لئے کیا کرنا چاہئے“؟ اٹھو جاگو پاکستان میں ان حادثات سے گزرنے والے خاندان اپنے بچوں کے ہمراہ شریک ہوئے اور اپنے تاثرات ناظرین سے شیئر کئے۔ ایک بچے کا کہنا تھا کہ ابو کی باتیں بہت یاد آتی ہیں، خاص طور پر انعام ملے تو پپا یاد آتے ہیں۔ دوسرے بھائی نے بتایا کہ عید کے موقع پر اپنے والد بہت یاد آتے ہیں۔ کپڑوں کا نہ ہونا مسئلہ نہیں، والد کا نہ ہونا رُلاتا ہے۔ پروگرام میں ایک خاتون فرزانہ بھی موجود تھیں۔ فرزانہ کے میاں کاانتقال ہوگیا ہے اور وہ اب اپنے6 بچوں کی کفالت تنہا کررہی ہیں۔ فرزانہ نے شوہر کے بغیر زندگی کے بارے میں کہا کہ گھریلو مشکلات بہت آتی ہیں۔

ان پڑھ ھو

سنو ہمدم !
؛
بہت ی ڈگریاں لے کر
ہنر پر دسترس پا کر
نصابِ چاھتِ دل کے
چمکتے لفظ
آنکھوں سے
اگر پڑھنے سے قاصر ھو
تو
۔۔
ان پڑھ ھو

تین خواہشیں

کسی بھی شخص کی یہ تین خواہشیں ہوسکتی ہیں

1۔ کاش اتنا خوب صورت ہوتا جتنا اپنی ماں کو نظر آتا ہے

2۔ کاش اتنا امیر ہوتا جتنا اس کے بچے سمجھتے ہیں

3۔ کاش اتنے افیئرز ہوتے جتنے بیوی سمجھتی ہے

صبر کی صورتیں

صبر کی دو صورتیں ہیں

1۔ جو ناپسند ہو وہ برداشت کرنا

اور

2۔ جو پسند ہو اس کا انتظار کرنا

۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔

زرداری برداشت کرو

اور

بجلی کا انتظار کرو

Sea

sea is common for all
some take pearls
some take fish

&

some come out with just wet legs

thus
world is common to all, but we get
what we try