دنیا لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
دنیا لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

جمعرات, جولائی 05, 2012

الجزائر کا پچاسواں یوم آزادی

الجزائر میں آج پچاسواں یوم آزادی منایا جارہا ہے۔ الجزائر کے عوام کے دلوں میں ابھی تک 1954ء سے 1962ء تک جاری رہنے والی اس جنگ کی یادیں تازہ ہیں، جس دوران 1.5 ملین افراد مارے گئے تھے۔ اس جنگ کے بعد اگرچہ الجزائر نے فرانس سے آزادی حاصل کرلی تھی تاہم جنگ اور خونریزی کے انہی کئی سالوں کی وجہ سے دونوں ملکوں کے مابین ایک وسیع خلیج بھی پیدا ہوگئی تھی۔

فرانس کے نئے صدر فرنسوا اولانڈ الجزائر سے ایک خصوصی نسبت اس لیے بھی رکھتے ہیں کہ وہ 1978ء میں وہاں فرانسیسی سفارتخانے میں آٹھ ماہ تک کام کر چکے ہیں۔

الجزائر کے عوام کی ایک بڑی تعداد چاہتی ہے کہ پیرس حکومت الجزائر سے ریاستی سطح پر معافی مانگے۔

فرانس کی سابقہ نوآبادی الجزائر کے ایک وزیر محمد شریف عباس نے خبر رساں ادارے روئٹرز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اب اولانڈ اقتدار میں آچکے ہیں، اس لیے وہ اولانڈ سے عمل اور نتائج کی توقع رکھتے ہیں۔

الجزائر کی ایک خوب صورت مسج  
فرانسیسی صدارتی انتخابات میں کامیابی سے قبل ستاون سالہ اولانڈ نے تجویز کیا تھا کہ فرانس کو الجزائر میں اپنی 132 سالہ تاریخ کو پرکھنے کی ضرورت ہے۔ تاہم انہوں نے الجزائر سے سرکاری طور پر معافی مانگنے کے حوالے سے کوئی تبصرہ نہیں کیا تھا۔ الجزائر کے عوام کی ایک بڑی تعداد چاہتی ہے کہ پیرس حکومت الجزائر سے ریاستی سطح پر معافی مانگے۔

پچاس کی دہائی میں جب الجزائر نے آزادی کی جدوجہد شروع کی تھی تو پیرس حکومت نے وہاں اپنے تسلط کو برقرار رکھنے کے لیے ایک جنگ کا آغاز کردیا تھا۔ ایک اندازے کے مطابق آٹھ برس تک جاری رہنے والی گوریلا طرز کی اس جنگ میں 1.5 ملین انسان لقمہء اجل بنے تھے۔

یہ امر اہم ہے کہ الجزائر کی حکومت نے ابھی تک فرانس سے سرکاری طور پر باقاعدہ معافی کا مطالبہ نہیں کیا ہے۔ اس حوالے سے الجزائر کی سیاسی جماعتوں میں اختلافات پائے جاتے ہیں۔ 2010ء میں الجزائر کی پارلیمان کے 125 ممبران نے ایک بل منظور کروانے کی کوشش کی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ فرانس نے اپنی سابقہ نوآبادی میں بہت ظلم ڈھائے تھے لیکن وہ اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہا تھا۔
الجزائر کی جنگ آزادی کا پہلا روز

ناقدین کے بقول فرانسیسی صدر الجزائر کے ساتھ باہمی تعلقات میں بہتری پیدا کرتے ہوئے سیاسی طور پر بہت کچھ حاصل کرسکتے ہیں۔ پیرس حکومت اس وقت نسلی طور پر الجزائر سے تعلق رکھنے والے فرانسیسی باشندوں کے معاشرے میں بہتر انضمام کی کوششوں میں بھی مصروف ہے۔

الجزائر کا پچاسواں یوم آزادی



شام میں اذیتی کیمپ، ہولناک داستانیں

انسانی حقوق کی علمبردار تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے پتہ چلایا ہے کہ شام میں اذیتی مراکز کا ایک جال پھیلا ہوا ہے۔ اس تنظیم نے ان مراکز کے سابق قیدیوں کے ساتھ انٹرویوز کی دل دہلا دینے والی تفصیلات شائع کی ہیں۔

منگل کو شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں اس تنظیم نے کئی مراکز کا محل وقوع بتایا ہے، ان مراکز کے ڈائریکٹرز کے نام بتائے ہیں، عینی شاہدوں کے بیانات کے حوالے دیے ہیں اور تشدد کے طریقوں کی باقاعدہ خاکوں کی مدد سے وضاحت کی ہے۔ شام میں تشدد کا نشانہ بننے والوں میں عماد ماہو بھی شامل ہے۔ خود پر بیتنے والے حالات کی تفصیل بتاتے ہوئے اُس نے کہا: ”مجھے 9 جون کو میرے والد کے ہمراہ گرفتار کیا گیا تھا۔ چھ سکیورٹی اہلکار میرے والد کی دکان پر آئے، وہ ہمیں اپنے ساتھ دمشق کے ایک ہیڈکوارٹر میں لے گئے، جہاں مجھے ایک کوٹھڑی میں بند کر دیا گیا“۔

ماہو پر یہ سب کچھ گزشتہ سال بیتا۔ اگر اُس کی بتائی ہوئی تفصیلات درست ہیں تو پھر وہ اُن متعدد اذیتی مراکز میں سے ایک میں بند تھا، جن کا ذکر ہیومن رائٹس واچ نے شام سے متعلق اپنی 81 صفحات پر مشتمل ایک تازہ رپورٹ میں کیا ہے۔ البتہ اس رپورٹ میں صرف وہ بیانات شامل کیے گئے ہیں، جن پر ایک سو فیصد اعتبار کیا جاسکتا تھا۔ ان بیانات کو مواصلاتی سیاروں سے لی گئی تصاویر کی مدد سے بھی جانچا گیا اور قیدیوں سے اُن کی کوٹھڑیوں کے خاکے بھی بنوائے گئے۔ عماد ماہو نے اپنی کوٹھڑی کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا: ”مجھےسترہ دیگر شامیوں کے ساتھ بند کردیا گیا تھا۔ جگہ بہت تنگ تھی۔ ہم نہ تو اچھی طرح سے سانس لے سکتے تھے اور نہ ہی لیٹ سکتے تھے“۔

ہیومن رائٹس واچ کے مطابق ان قیدیوں کو بجلی کے جھٹکے لگائے گئے، لاٹھیوں سے مارا پیٹا گیا، جلایا گیا اور موت کی نمائشی سزائیں دے کر ذہنی اذیت سے دوچار کیا گیا۔ الجزیرہ ٹی وی چینل سے باتیں کرتے ہوئے عماد ماہو نے اس حوالے سے اپنے تجربات کچھ یوں بتائے: ”انہوں نے میرے چہرے، کمر اور گھٹنوں پر ضربیں لگائیں اور مجھے بجلی کے جھٹکے دیے۔ پھر وہ میرے والد کو لے کر آئے اور میرے سامنے اُسے مارا پیٹا۔ وہ میری مزاحمت کو ختم کردینا چاہتے تھے“۔

یومن رائٹس واچ کے مطابق شام میں گیارہ گیارہ سال تک کے بچوں کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ عماد ماہو کے مطابق اُس نے قید کے دوران ایک پندرہ سالہ لڑکا بھی دیکھا، جسے بچہ ہونے کے باوجود زدوکوب کیا گیا اور بجلی کے جھٹکے لگائے گئے۔ ماہو کے مطابق اُس بچے کے جسم پر زخموں کے نشان اُس نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھے تھے۔ ماہو نے مزید بتایا: ”وہ مجھ سے یہ اگلوانا چاہتے تھے کہ مَیں انقلاب کے بارے میں کیا جانتا ہوں، اِس تحریک کو کیسے منظم کیا جارہا ہے، کون فلمیں انٹرنیٹ پر جاری کرتا ہے اور کیسے میڈیا کے ساتھ مل کر کام کیا جا رہا ہے“۔

رہائی ملنے کے بعد ماہو فرار ہوکر اردن چلا گیا۔ آیا وہ حقیقت بیان کررہا ہے، اس بات کی تصدیق مشکل ہے۔ ماہو کے مطابق بشار الاسد کو گرفتار کرکے عدالت کے کٹہرے میں لایا جانا چاہیے اور اُس کے کیے کا حساب لیا جانا چاہیے۔

شام میں اذیتی کیمپ، ہولناک داستانیں

یاسر عرفات کی موت پلونیئم زہر کے باعث واقع ہوئی؟

یاسر عرفات
سوٹزرلینڈ میں قائم ریڈیو فزکس کے انسٹی ٹیوٹ کے مطابق فلسطینی صدر مرحوم یاسر عرفات کے ذاتی استعمال کی اشیاٴ کا تجزیہ کرنے پر اِن میں ’پلونیئم‘ نامی تاکباری زہر کے عنصر کا پتا چلا ہے۔

انسٹی ٹیوٹ کے ترجمان ڈرسی کرسچین نے رائٹرز نیوز ایجنسی کو بتایا ہے کہ عرفات کے ذاتی استعمال کی اشیاٴ میں ’حیرت ناک‘ طور پرپلونیئم کے ذرات کی 210 تہہ کی موجودگی کا پتا لگا ہے۔ تاہم، اُنھوں نے اِس بات پر زور دیا کہ تجزیاتی علامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ عرفات کی طبی رپورٹیں پلونیئم کی 210 سطح کی حقیقت سےمطابقت نہیں رکھتیں۔

انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر فرانسواں بش نے الجزیرہ ٹیلی ویژن کو بتایا کہ اِس بات کی تصدیق کا واحد طریقہ آیا فلسطینی راہنما کو، جن کا 2004ء میں انتقال ہوا تھا، پلونیئم زہر دیا گیا تھا، یہی رہ گیا ہے کہ اُن کی قبر کھود کر اُن کے جسم کے متعلقہ اعضا کا لیباریٹری ٹیسٹ کیا جائے۔

عرفات کی بیواہ سوہا نے الجزیرہ کو بتایا کہ وہ اُن کی باڈی کے ٹیسٹ کا مطالبہ کریں گی، جو مغربی کنارے کے قصبے رملہ میں مدفون ہیں۔

عرفات جنھوں نے چار دہائیوں تک آزادی فلسطین کی تنظیم کی قیادت کی تھی، اور جنھیں نوبیل امن انعام سے نوازا گیا تھا، اُن کی موت 75 برس کی عمر میں ہوئی تھی جس سے قبل وہ کئی ہفتوں تک طبی امداد کے لیے پیرس کے ایک اسپتال میں داخل رہے۔

نجی معاملات کو سیغہٴ راز میں رکھنے سے متعلق قوانین کا حوالہ دیتے ہوئےفرانسیسی حکام نے فوتگی کی وجوہات کے بارےمیں کچھ نہیں بتایا، جس کے باعث اُن کی موت سے متعلق خدشات نے جنم لیا تھا۔

بتایا جاتا ہے 2006ء میں لندن میں سابق روسی جاسوس الیگزینڈر لیٹی ننکو کی موت پلونیئم کے باعث ہوئی تھی جِن کے لیے کہا جاتا ہے کہ اُنھیں دانستہ طور پر زہر دیا گیا تھا۔

یاسر عرفات کی موت پلونیئم زہر کے باعث واقع ہوئی؟

بھارت کی طویل ترین شاہراہ، ’ہنوز دلی دور است‘

بھارتی شہر بالیا میں دریائے گنگا کے کنارے گندم کے لہلاتے کھیتوں کے قریب بوسیدگی کا شکار ایک افتتاحی پتھر چار سال سے زائد عرصے سے طویل ترین شاہرہ کا منصوبہ شروع ہونے کا منتظر ہے۔ مگر یہ انتظار تمام ہوتا نظر نہیں آتا۔

آٹھ لین پر مشتمل بھارت کی اس طویل ترین ایکسپریس وے نے ملک کی ایک انتہائی غریب اور آبادی کے لحاظ سے گنجان آباد ترین ریاست اترپردیش کو ملکی دارالحکومت نئی دہلی سے ملانا ہے۔ اس کی کُل لمبائی 1050 کلومیٹر بنتی ہے۔ گنگا ایکسپریس وے کے حامیوں کے مطابق یہ شاہراہ نہ صرف اترپردیش کی قسمت بدلنے میں معاون ہوگی بلکہ سفر کی طوالت کم ہوجانے کے باعث دو کروڑ سے زائد لوگوں اور علاقائی صنعت کو بھی فائدہ پہنچے گا۔

تاہم اس شاہراہ کی تعمیر کی راہ میں بہت سے مشکلات حائل ہیں۔ اس سڑک کی نذر ہونے والی زمینوں کے مالک کسانوں کی مخالفت کے علاوہ ایک بھارتی عدالت کی طرف سے ماحولیات کو پہنچنے والے متوقع نقصانات کے حوالے سے ایک درخواست پر 2009ء میں جاری کردہ حکم امتناعی بھی اس شاہراہ کی تکمیل کے راستے میں حائل ہے۔

اس شاہراہ کے حوالے سے مشاورت فراہم کرنے والے ادارے ’بین ایک کمپنی‘ سے تعلق رکھنے والے گوپال شرما کے مطابق، ’’یہ ان منصوبوں میں سے ایک ہے جو علاقے کا ترقیاتی نقشہ ہی بدل کر رکھ سکتے ہیں۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ ان لوگوں کو اپنی وہ زمینیں فروخت کرنے پر کیسے راضی کیا جائے جنہیں ان کے آباؤ اجداد کئی صدیوں سے آباد کیے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ ان زمینوں کے عوض مالی فائدہ حاصل کرنے کی بجائے اپنا روایتی لائف اسٹائل جاری رکھنا چاہتے ہیں۔‘‘

بھارت کی طویل ترین شاہراہ، ’ہنوز دلی دور است‘

بدھ, جولائی 04, 2012

روس میں الارم کلاک پروجیکٹ

روس میں ایک دلچسپ پروجیکٹ شروع کیا گیا ہے جس میں دنیا کے کسی بھی ملک میں رہنے والے لوگ حصہ لے سکتے ہیں بشرطیکہ وہ روسی زبان بولنا جانتے ہوں۔

غیرممالک میں اس پروجیکٹ کا کوئی ہم پلہ دوسرا پروجیکٹ نہیں ہے۔ اس کا مقصد ٹیلی فون کے ذریعے لوگوں کو جگانا ہے۔ تمام خواہش مند پروجیٹک کی ویب سائٹ پر درخواست جمع کرا سکتے ہیں کہ انہیں صبح جگایا جائے۔ اپنا نام، جنس، ٹیلی فون نمبر، ایم میل ایڈریس کے بارے میں معلومات فراہم کرکے وقت متعین کردیں جب آپ کو جگانا ہوگا۔ جو لوگ دوسروں کو جگانے میں حصہ لینا چاہیں انہیں سائٹ پر اپنے بارے میں ذاتی معلومات درج کرنے اور وقت بتانے کی ضرورت ہے کہ وہ فون کب کرسکتے ہیں۔ متعینہ وقت پر خودکار مشین جگانے والے شخص سے رابطہ قائم کرکے اسے جگائے جانے والے کے ساتھ منسلک کردیتی ہے۔ یوں جگانے والا دوسرے کو جگانے کے بارے میں اپنا مشن نہیں بھولے گا۔ مزید برآں کسی کو دوسروں کے فون نمبر نہیں دئے جاتے۔ اگر متعینہ وقت پر آپ کو کوئی جگانا نہ چاہے تو روبوٹ آپ کو فون کرکے جگا دے گا۔

پروجیکٹ کے منتظم گراچِک آجامیان کو اس طرح کی سروس شروع کرنے کا خیال سات سال پہلے آیا تھا جب وہ پڑھتے اور کام کرتے تھے۔ انہیں سونے کے لیے زیادہ وقت نہیں ملتا تھا لیکن انہیں بیدار کرنے میں کوئی بھی الارم کلاک مددگار ثابت نہیں ہوا تھا۔ لیکن جب کسی نامعلوم شخص انہیں فون کرتا تو وہ ضرور جاگ جاتے تھے کیونکہ یہ امکانی گاہک ہوسکتا تھا۔

پروجیکٹ کے منتظم کا خیال ہے کہ فون کی سکرین پر کوئی نامعلوم نمبر دیکھ کر آپ فون کرنے والے پر مثبت اثر ڈالنے کی نادانستہ کوشش کرتے ہیں۔ اس لیے آپ نیند سے جلد از جلد بیدار ہونے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ نامعلوم شخص کے ساتھ بات چیت کے بعد آپ دوبارہ نہیں سو پائیں گے۔

کسی کو جگانے کے لیے مختلف طریقے سے کام لیا جاتا ہے۔ کوئی شاعری پڑھ کر سناتا ہے تو کوئی گیت گاتا ہے۔

ماہ جون کے شروع میں اس پروجیکٹ کا دورانیہ بڑھا دیا گیا اور زیادہ لوگ شامل ہوگئے۔ اب دنیا بھر میں رہنے والے لوگ اس سروس سے استفادہ کرسکتے ہیں بشرطیکہ انہیں روسی زبان پر عبور ہو۔ تاہم اندازہ ہے کہ آئندہ چند مہینوں میں انگریزی زبان میں بھی اسی قسم کا پروجیکٹ شروع کیا جائے گا۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ یہ پروجیکٹ شروع کرنے کے لیے منتظمین کو مقبول ترین روسی سوشل نیٹ ورکنگ سائٹ ”و کونتاکتے“ (یعنی ”ان کونکیٹک“) کی طرف سے رقم ملی تھی۔ اس سوشل نیٹ ورکنگ سائٹ کی مالی امداد سے شروع کئے جانے والے سماجی پروجیٹکوں کی تعداد چھہ ہے جن میں سے ایک کا مقصد ایک ایسی سائٹ کھولنا ہے جس کے ذریعے لوگ مختلف اشتہارات اور درخواستیں شائع کروا سکیں۔ مزید برآں ایک نئی سائٹ شروع کی جائے گی جس پر مختلف علوم پر مبنی لیکچرز کی ویڈیو ریکارڈنگ نشر کی جائے گی۔

روس میں الارم کلاک پروجیکٹ

شام کے صدر بشارالاسد ایک شرط پر فوری طور پر اقتدار منتقل کیے جانے کی خاطر تیار

شام کے صدر بشارالاسد نے کہا ہے کہ اگر انہیں پورا یقین ہو کہ شام کا بحران حل ہو جائے گا تو وہ اقتدار فوری طور پر منتقل کر دینے کی خاطر تیار ہیں۔ یہ بات انہوں نے ترکی کے اخبار "جمہوریت" کو دیے گئے انٹرویو میں کہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ واشنگٹن کے اس مطالبے پر کان نہیں دھرتے کہ انہیں مستعفی ہو جانا چاہیے کیونکہ امریکہ شام کا دشمن ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ خود غرضانہ مقاصد کی خاطر صدر نہیں بنے بلکہ وہ اپنے ملک کی خدمت کی خاطر صدر بنے ہیں۔ ہفتے کو جینیوا میں ہونے والی کانفرنس کے نتائج پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ ان نتائج سے مطمئن ہیں کیونکہ اس کے اعلامیے میں یہ لکھا ہوا ہے کہ شام کے مستقبل کے بارے میں شام کے عوام کو ہی طے کرنا ہے۔

اتوار, جولائی 01, 2012

بیس مارچ کو یوم خوشی قرار دیا گیا

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بیس مارچ کو یوم خوشی قرار دیا ہے۔ اس تنظیم کے تمام 193 رکن ممالک نے متفقہ طور پر بھوٹان کی متعلقہ تجویز کو منظور کرلیا۔ جنرل اسمبلی کی قرارداد کے مطابق اس تقریب کے موقع پر بالخصوص مختلف تعلیمی پروگرام منعقد کئے جانے ہوں گے۔

جمعہ, جون 29, 2012

روسی لوگ بہت کم سوتے ہیں

روس کے بہت کم لوگ دیر تک سو پاتے ہيں۔ ایک سروے کے مطابق صرف دو فی صد رائے دہندگان نے کہا کہ ان کی نیند پوری ہوتی ہے۔ آٹھ فی صد کے مطابق ان کی نیند تین ماہ میں ایک بار سے زیادہ پوری نہیں ہوتی، اور پچیس فی صد کے لیے مہینے میں کئی مرتبہ صبح کو اٹھنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ ایک تہائی افراد کی نیند ہفتے میں چند بار پوری ہوتی ہے جبکہ اتنے ہی زيادہ افراد ہر رات بہت کم سوتے ہیں۔

زیادہ تر لوگوں کا خیال ہے کہ کام کی پریشانیاں ان کی نیند خراب کرتی ہیں۔ پچیس فی صد نے تسلیم کیا کہ وہ وقت پر نظر نہیں رکھ سکتے۔ کچھ لوگ گھر کی مصروفیات یا اپنے پسندیدہ مشغلات میں لگے رہتے ہیں اور چار فی صد افراد کو پیار کی وجہ سے نیند نہیں آتی۔ جبکہ کچھ لوگوں کو خراب صحت کے باعث نیند نہیں آسکتی۔

پچاس فی صد سے زیادہ روسیوں کو یقین ہے کہ نیند کی کمی سے ان کی کارکردگی پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ تیس فی صد رائے دہندگان نے کہا کہ وہ نیند پوری نہ ہونے کے باوجود بہت زیادہ کام کرتے ہیں۔ لیکن پچیس فی صد نے تسلیم کیا کہ نیند پوری نہ ہو تو ان کی کارکدگی خراب ہوجاتی ہے۔

بیشتر روسی ایام کار کے دوران نیند کی کمی پوری کرنے کے لیے ہفتے اور اتوار کو بہت زیادہ سوتے ہیں۔ پچیس فی صد افراد ہر روز ایک ہی وقت پر سو جانے کی کوشش کرتے ہیں۔

بھارت کا صوبہ کیرالہ

تصویر میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ حیرت انگیز طور پر بھارتی صوبہ کیرالہ کا نقشہ مشہور و معروف سبزی کریلے جیسا ہے۔ اگرچہ کریلے کا ذائقہ کچھ کڑوا ہوتا ہے لیکن یہ صحت کے لیے انتہائی مفید چیز ہے۔ یہ انسانی جسم کی بہت ساری بیماریوں کے لیے ایک دوا کا کام بھی کرتی ہے۔ کریلہ کھانے والے کو پھنسیاں یا دانے بہت کم نکلتے ہیں۔ لیکن کیرالہ کے بارے جان کر آپ کو یقینآ خوشی ہوگی۔ بھارت کے صوبے کیرالہ کی زبان مالیالم ہے، رقبہ 38,863 مربع کلومیٹر اور آبادی 31,838,619 ہے۔


کیرالہ - تاریخ وتہذیب کے آئینہ میں
SAFI AKHTAR

کیرالہ میں مسجدوں کی کثرت کا یہ عالم ہے کہ ہر سڑک پر تھوڑی تھوڑی دور پر چھوٹی بڑی مساجد ملیں گی۔ یہاں جب آپ مسجد تلاش کریں گے تو اس کے لئے آپ کو زیادہ تلاش و جستجو کی ضرورت نہیں کرنی پڑے گی۔ راستوں پر مسجدیں جس اہتمام کے ساتھ آباد ہیں، ایسا لگتا ہے کہ کسی خالص اسلامی حکومت نے منظم منصوبہ بندی کے تحت انہیں تعمیر کیا ہو، یہاں کی مساجد کا یہ امتیاز ہے کہ یہ صرف مسجد نہیں ہوتی بلکہ دینی تعلیم و تربیت کا گہوارہ بھی ہوتی ہے۔ ہزاروں مسجدوں میں مکاتب اور مدارس چل رہے ہیں۔ کالی کٹ سے کوچین کا فاصلہ کوئی تین سو کلو میٹر کے قریب ہے۔ اس راستے میں اہم ترین زیارت گاہیں ہیں جن میں حضرت حبیب بن مالک دینار کی مسجد و مزار اور حضرت شیخ زین العابدین مخدومی فنانی کی مسجد و مقبرہ قابل ذکر ہیں۔ حضرت مالک بن حبیب کی مسجد جس علاقہ میں واقع ہے، اس کا نام کدنگلور ہے۔ مذکورہ مقام کوچین سے کوئی پچاس کلو میٹر دور ہے جو تھریسور ضلع میں واقع ہے اور یہ مسجد ’چیرامن جامع مسجد‘ کے نام سے مشہور ہے۔ یہ مسجد ہندوستان کی پہلی مسجد ہے اور یہ اس مقام پر 6ھ یعنی حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں تعمیر ہوئی۔ بہت ممکن ہے کہ یہ ہندوستان کی پہلی مسجد ہولیکن اس کی تاریخ 6ھ ہے اس کا اب تک کوئی دستاویزی ثبوت نہیں ہے۔ ’کدنگلو‘ عہد رسالت میں ملیباری دارالسلطنت تھا، یہاں ایک غیر مسلم بادشاہ جس کا نام ’چیرامن پیرامل‘ تھا، جسے ’فرماض‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ اس بادشاہ نے عہد رسالت میں اپنے دارالسلطنت سے ہی ”معجزہ شق القمر“ کا ٹھیک اسی وقت مشاہدہ کیا تھا جب وہ رات کے کھانے کے بعد اپنی شریک حیات کے ساتھ اپنے محل کی چھت پر تفریح کررہا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس واقعہ سے متاثر ہوکر وہ مشرف بہ اسلام ہوا، وہ اپنے اہل و عیال کو چھوڑ کر عرب سے آئے چند تجار/ سیاح کے ساتھ بارگاہ رسالت میں حاضری کی نیت سے چل پڑا اور حضور پاک کی بارگاہ میں حاضر ہوکر دیدار سے مشرف ہوا، وہی چیرا من بعد کو تاج الدین کے نام سے معروف ہوا۔ جب واپس آنے لگا تو اس کی گزارش پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے چند صحابہ کرام کو ان کی رفاقت میں بھیج دیا تاکہ وہ مالا بار میں اسلام کی تبلیغ و اشاعت کا کام کرسکیں۔ یہ قافلہ واپس چلا تو کسی قریبی ”ظفار“ نامی بندرگاہ تک پہنچ کر وہ بادشاہ بیمار ہوگیا، وہیں سے انہوں نے اپنے اہلکاروں کو نصیحت آمیز خطوط بھیجے جس میں یہ حکم کر رکھا تھا کہ انہوں نے مالا بار میں تبلیغ اسلام کے جس کام کا قصد کر رکھا ہے اس کو ترک نہ کریں۔ اگر میں انتقال کر جاﺅں تو میرے انتقال کی خبر لوگوں کو دینے سے پہلے آنے والی نورانی جماعت کے ساتھ اچھا برتاﺅ کریں، انہیں یہ بھی نصیحت کی کہ ان حضرات کا شاہانہ عزت و شوکت کے ساتھ استقبال کیا جائے پھر وہیں وہ آسودہ خاک ہوگئے، شاید اسی نصیحت کا یہ اثر ہے کہ آج بھی مالا بار کا خطہ ان برکات سے عطر بیز ہے۔
کسی شہر کی تہذیب و ثقافت کا اندازہ کرنا ہو تو وہاں کے لوگوں کے رہن سہن کے ساتھ ساتھ بازاروں کا جائزہ لیجئے اور دیکھئے کہ وہاں کی مستورات کس طرح شاپنگ کررہی ہوتی ہیں۔ مگر کیرالہ میں مغربی تہذیب کے بالمقابل ایک شرافت نظر آئے گی، یہ عفت مآب خواتین عموماً گھروں میں ہوتی ہیں اور باعزت اور حیادار ہیں۔ اسلام نے جس طرح مستورات کو شرم و حیا اور گھریلو ماحول میں زندگی گزارنے کا حکم دیا ہے، الحمدللہ ان کا عقل و شعور اور فکر و نظر بھی ان برائیوں سے عموماً گریز کا ہے اور مغربی تہذیب کے برخلاف اپنے والدین اور خاوندوں کے حسب حکم وہ گھروں میں ہوتی ہیں۔ یہاں کے زیادہ تر لوگوں کا ذریعہ معاش تجارت ہے، ملازمت اگر اپنی ریاست میں مل گئی تو یہاں رکے، ورنہ کوئی خاندان ایسا نہیں جن کا کوئی فرد خلیجی ملکوں میں نہ ہو، نتیجہ یہ ہے کہ بڑے بڑے مکانات یوں ہی خالی پڑے رہ جاتے ہیں۔ یہاں کے لوگوں کی معاشی حالت اطمینان بخش ہے، عرب ملکوں میں جانے کا رجحان عام ہے، لوگ ترک وطن تو نہیں کرتے مگر بیرون ممالک میں رہتے اور مکان سازی یہاں کرتے ہیں۔ یہاں مختلف مذاہب کے حاملین بشمول ہندو مذہب کے ماننے والے بھی مسلمانوں کا بے حد احترام کرتے ہیں۔ یہاں کے لوگ اعتدال فطرت اور سلامت ذوق کے عادی ہیں، دعوت و تحریک زندگی کے اجتماعی اور انفرادی عمل میں نمایاں ہے۔ توازن فکر کے نتیجے میں جماعت دعوت و تبلیغ ہو کہ جماعت اسلامی یا جمعیت اہلحدیث، پوری زندگی ”خیرالامور اوسطہا“ کی عملی تعبیر اور تفسیر ہے۔ ریاست کے ادبی و ثقافتی شہر ملاپورم کے Perntalmanna میں جو کہ اوٹی روڈ پر واقع ہے، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا اسپیشل سنٹر ہے، جسے اے ایم یو ملاپورم سنٹر کہتے ہیں۔
یوروپی نو آبادیاتی نظام کے خلاف کیرالہ کے مسلمانوں کی داستان شجاعت کی ابتدا 1500ء میں پرتگالیوں کے خلاف جنگ سے ہوتی ہے۔ مسلم رہنماﺅں نے کیرالہ میں پرتگالیوں کے ذریعہ نو آبادی قائم کرنے کی کوششوں کی حتی المقدور مخالفت کی، حالانکہ پرتگالی کیرالہ کے چند محدود علاقوں کو اپنے قبضے میں لے چکے تھے۔ لیکن اس کے باوجود مالا بار میں ان کے توسیع پسندانہ منصوبے مسلمانوں کی کوششوں کے سبب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکے۔ گوا پر قبضے کے باوجود 18ویں صدی کے اختتام تک مالا بار ایک آزاد علاقہ رہا جہاں علاقائی تہذیب اور زبان و ادب کو پھلنے پھولنے کے مواقع حاصل تھے۔ نو آبادیاتی نظام کے تسلط کے باوجود مالا بار نے اپنی شناخت بڑی حد تک قائم رکھی اور یہاں ذیلی قومیت کا وہ نظریہ بھی جڑ پکڑ چکا تھا جس نے بعد میں ہندوستانی قومیت کا ایک حصہ بن کر انگریزوں کا مقابلہ کیا۔
بہرحال گھنیرے ناریل کے درختوں، پہاڑوں، گھاٹیوں اور کوہستانوں کے شہر منجیری کے لئے ہمارا یہ سفر تھا۔ 10 دسمبر کو جمعہ کی نماز پڑھنے کے لئے الگ الگ مساجد میں لوگ جا رہے تھے، ہم بھی ایک مسجد میں گئے، اکثر مساجد کی تعمیر یہاں روایتی انداز پر ہوئی ہے۔ منجیری کا موسم نسبتاً پرسکون اور مناظر پرکشش ہیں۔ موسم سرما میں بھی درجہ حرارت 20-24 سے زائد نہیں ہوتا۔ ملاپورم اور کالی کٹ میں ایک گھنٹہ کی دوری ہے۔ یہ سارے مراکز سیاحتی انداز کے ہیں۔ یہ خطہ رہائش کے لئے بے حد موزوں ہے۔ یہاں کوئی مسلکی ٹکراﺅ اور مکاتب فکر کی آویزش نہیں ہے۔ اسلام نے ہر طرح کی جاہلانہ نخوت کو مٹایا اور تمام انسانوں کے لئے حقیقی مساوات کے ایسے اصول ذکر کئے ہیں جن کی بلندی تک تہذیب و تمدن کے دعوﺅں کے باوجود آج تک دنیا نہیں پہنچ سکی ہے۔ اسلام کی نظر میں انسانیت کی حیثیت ایک کشادہ باغیچہ کی ہے جس میں رنگ برنگ کے پھول پروان چڑھتے ہیں اور سب مل کر باغیچے کی رونق کو بڑھاتے ہیں۔ کسی کا سفید ہونا یا سیاہ ہونا، آب و ہوا اور اس ماحول کا رہین منت ہے جس میں وہ جنم لیتا ہے، کیرالہ کے لوگ سانولے ضرور ہوتے ہیں مگر بنی نوع انسان کی وحدت نسل، زبان و رنگ سے بالاتر ہے۔ خدا نے آب و ہوا کے فرق اور رنگ کے امتیاز کو اپنی نشانیوں میں شمار کیا ہے۔ اس لئے یہ چیز نہ تو کسی کی برتری کا ذریعہ بن سکتی ہے اور نہ پستی کا۔ اسلام نے ہر فرد کو اس کے اپنے عمل کا ذمہ دار قرار دیا ہے اور ان باتوں کی شروع سے بنیاد ہی ختم کردی ہے جو غیراختیاری طور پر انسانوں کو حاصل ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر حسن و جمال یا چہرہ بشرہ کا رنگ اور کسی مخصوص خاندان میں پیدا ہونے کی بنیاد پر کسی انسان کو اسلامی تعلیمات کی رو سے کوئی برتری حاصل نہیں ہوتی، بلکہ خود اس کا اپنا کردار اسے خوبیوں کا مجموعہ یا خرابیوں کا پتلا بناتا ہے، محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت گورے اور کالے کے امتیاز کے بغیر تمام انسانوں کے لئے عام ہے، وہ لوگ جو آباء و اجداد پر فخر کرتے ہیں یا تو اس سے باز آجائیں ورنہ وہ خدا کی نظر میں کیڑے مکوڑوں سے بھی کم حیثیت ہوں گے۔

بدھ, جون 27, 2012

چین: خواتین کو نازیبا لباس سے گریز کی ہدایت

شنگھائی (اے ایف پی) چین کے صنعتی شہر سنگھائی کے سب وے آپریٹر نے خواتین سے کہا ہے کہ وہ باوقار لباس پہنیں تاکہ کوئی مرد انہیں ہراساں نہ کرے اور وہ لوگوں کی بدنظر سے محفوظ رہیں۔ آپریٹر نے اپنے بلاگ پر کم لباس والی ایک خاتون کی تصویر لگائی ہے اور خواتین سے کہاہے کہ خود اپنا احترام کرتے ہوئے نازیبا لباس پہننے سے گریز کریں۔

دنیا اور عورت آزمائش