اتوار, اپریل 21, 2013

صحت چاہتے ہیں تو نمک کم استعمال کریں


اتوار, اپریل 07, 2013

منتخب اشعار

​زخم بھی کوئی نہیں پھر بھی درد کا احساس ہوتا ہے
شاید دل کا کوئی ٹکڑا آج بھی اس کے پاس ہے
……
دل معصوم پے تیرے قاتلانہ حملے
اپنے نینوں سے کہو ذرا تمیز سے
……

کم بخت مانتا ہی نہیں
​ ​دل اسے بھلانے کو
میں ہاتھ جوڑتا ہوں تو وہ پاؤں پڑ جاتا ہے
……

اکیلے چلنے لگے ہو
کتنا سنبھل گئے ہو
……

اے سنگ دل سپہ سالار
آ کے دیکھ میرا بھی حوصلہ
تنہا کھڑا ہوں
تیری یادوں کے لشکر کے سامنے
……

ٹوٹے سپنے بکھرے ارمان کیا ہوا حاصل
اے دل تو نے عشق کرکے اچھا نہیں کیا
……

​تو ڈھونڈ فلک پر باغ ارم اپنا تو عقیدہ ہے
جس خاک پے مخلص دوست ملیں وہ خاک بھی جنت ہوتی ہے
……

ہفتہ, اپریل 06, 2013

ہیکرز کی انٹرنیٹ پر اسرائیل کا نام و نشان مٹانے کی دھمکی

opisrael.si  ہیکرز کی جانب سے انٹرنیٹ پر اسرائیل کا نام و نشان مٹانے کی دھمکیمختلف اطلاعات کے مطابق مشہور زمانہ ہیکرز گروپ Anonymous اور دیگر ہیکر تنظیموں کی جانب سے 7 اپریل 2013 کو اسرائیل کے خلاف ایک بڑے سائبر حملے کی تیاری کی جارہی ہے۔ ہیکر تنظیموں نے دھمکی دی ہے کہ وہ انٹرنیٹ پر اسرائیل کے وجود کو مٹا دیں گے۔

آپریشن اسرائیل #OpIsreal نامی یہ مہم ایک ہیکر Anon Ghost نے شروع کی اور بعد ازاں دیگر ہیکرز بھی اس میں شامل ہوگئے۔ اس حوالے سے ہیکرز نے اس ماہ بہت سی اسرائیلی ویب سائیٹس پر حملے کرنا شروع کر دیے ہیں۔ چند روز قبل اسرائیلی حکومت کے 5000 ملازمین کے ذاتی کوائف کو انٹرنیٹ پر لیک کر دیا گیا۔ Anonymous کی جانب سے ٹوئٹر پر دنیا بھر کے ہیکرز کو دعوت دی گئی ہے کہ وہ اس آپریشن میں حصہ لیں اور 7 اپریل کو ایک بڑا حملہ کریں۔ یاد رہے کہ اس سے قبل غزہ پر حالیہ اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں بھی پاکستان سمیت دنیا بھر کے ہیکرز نے اپنی توپوں کے رخ اسرائیل کی جانب موڑ لیے تھے۔

روسی ٹیلی ویژن رشیا ٹوڈے سے گفتگو کرتے ہوئے اسرائیلی سکیورٹی حکام کا کہنا تھا کہ ماضی میں بھی اسرائیلی کی سرکاری اور نجی ویب سائیٹس پر حملے کیے جاتے رہے، مگر اس بار صورت حال کافی سنگین ہے۔ ہیکرز ایک طے شدہ حکمت عملی کے مطابق کام کررہے ہیں تاہم حکومت کی جانب سے ان حملوں کو روکنے کی بھر پور تیاری کرلی گئی ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا Anonymous اور دیگر ہیکرز گروپ 7 اپریل کو اپنے مشن میں کامیاب ہوسکیں گے یا نہیں؟

پیر, مارچ 18, 2013

سام سنگ گلیکسی ایس فور کی رونمائی

سام سنگ کی جانب سے اگلا بڑا فون آ چکا، آج صبح نیو یارک میں سام سنگ گلیکسی ایس IV کی رونمائی ہوگئی۔ فون اپنی انقلابی خصوصیات کے باعث سمارٹ فون انڈسٹری کی تاریخ کے بہترین فونز میں سے ایک ہے۔

4.99 انچ کے فل ایچ ڈی ڈسپلے، 13 میگا پکسل کے کیمرے اور 8 کور پروسیسر کے ساتھ، یہ فون میدان میں موجود ہر فون کو پچھاڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

تفصیلات:
آپریٹنگ سسٹم: اینڈرائیڈ او ایس، ورژن 4.2.2 (جیلی بین)
سی پی یو: کویڈ-کور 1.6 گیگاہرٹز کورٹیکس-اے 15 اور کویڈ کور 1.2 گیگاہرٹز کورٹیکس-اے 7
چپ سیٹ: ایکسی نوس 5 اوکٹا 5410
جی پی یو پاور وی آر ایس جی ایکس 544 ایم پی 3
ڈیزائن:
پیمائش: 5.38 ضرب 2.75 ضرب 0.31 انچ
وزن: 130 گرام
ڈسپلے:
قسم: سپر امولڈ کیپے سیٹو ٹچ اسکرین، 16 ملین رنگ
حجم: 1080 ضرب 1920، 4.99 انچ (~441 پی پی آئی پکسل ڈینسٹی)
پروٹیکشن: کورننگ گوریلا گلاس 3

میموری:
کارڈ سلاٹ: مائیکرو ایس ڈی، 64 جی بی تک
انٹرنل: 16، 32 اور 64 جی بی اسٹوریج، 2 جی بی ریم
کنیکٹیوٹی: جی پی آر ایس، ایج، ایچ ایس ڈی پی اے، 42.2 ایم بی پی ایس؛ ایچ ایس یو پی اے: 5.76 ایم بی پی ایس؛ ایل ٹی ای، کیٹ 3، 50 ایم بی پی ایس یو ایل، 100 ایم بی پی ایس ڈی ایل، وائی فائی 802.11 اے/بی/جی/این/اے سی، وائی فائی ڈائریکٹ، وائی فائی ہاٹ اسپاٹ، بلوٹوتھ، این ایف سی، انفراریڈ پورٹ، مائیکرو یو ایس بی ورژن 2.0 (ایم ایچ ایل)، یو ایس بی آن-دی-گو، یو ایس بی ہوسٹ
بنیادی کیمرہ: 13 میگاپکسل، 4128 ضرب 3096 پکسل، آٹوفوکس، ایل ای ڈی فلیش
خصوصیات: ڈوئیل شوٹ، بیک وقت ایچ ڈی وڈیو اور امیج ریکارڈنگ، جیو-ٹیگنگ، ٹچ فوکس، فیس اور اسمائیل ڈٹیکشن، امیج اسٹیبلائزیشن، ایچ ڈی آر
ثانوی کیمرہ: 2 میگاپکسل
بیٹری: لیتھیم آئیون 2600 ایم اے ایچ بیٹری

ڈیزائن:
فون کا ڈیزائن نوٹ II اور گلیکسی ایس III سے ملتا جلتا ہے۔ یہ بھی “بدنام زمانہ” پولی کاربونیٹ پلاسٹک ہی کا بنا ہوا ہے لیکن بہرحال اس کے اپنے فوائد ہیں۔ یہ وزن کو کم رکھتا ہے اور فون کی پائیداری میں اضافہ کرتا ہے، جوبہت اہم خصوصیات ہیں۔ البتہ فون کے گرد ایک پتلی سی دھاتی تہہ ضرور موجود ہے۔ لیکن پھر بھی بمشکل ہی یہ پریمیم قسم کی چیز ہے۔
فون کی مکمل باڈی کا وزن صرف 130 گرام ہے اور محض 7.9 ملی میٹر کی موٹائی کے ساتھ بہت ہی پتلا ہے۔ لمبائی اور چوڑائی بالترتیب 136.6 اور 69.8 ملی میٹر ہیں۔
ڈسپلے:
ڈسپلے گلیکسی ایس IV کے مضبوط ترین پہلوؤں میں سے ایک ہے۔ یہ 4.99 انچ کی اسکرین اور 1920 ضرب 1080 کے زبردست فل ایچ ڈی ریزولیوشن کا حامل ہے۔ 441 پی پی آئی ہی اپنی نہاد میں ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔ اس میں امولڈ یونٹ بھی ہے اس لیے رنگ بہت شوخ اور مختلف زاویوں سے نظارہ بہت زبردست ہے۔ اسے کورننگ گوریلا گلاس 3 پروٹیکشن بھی حاصل ہے۔
یہ دراصل ایک پینٹائل میٹرک ڈسپلے ہے لیکن اس نے ڈسپلے کو بہت زیادہ متاثر نہیں خصوصاً ریزولیوشن کی وجہ سے۔ لیکن آپ اس امر کو جھٹلا نہیں سکتے کہ یہ پوری فون انڈسٹری میں نیا معیار ہے اور تمام فون کمپنیوں کو اپنے اہم فون اس ڈسپلے کو ذہن میں رکھ کر بنانے ہوں گے۔

آپریٹنگ سسٹم:
سام سنگ کے حالیہ فلیگ شپ فونز کی طرح گلیکسی ایس IV بھی جدید ترین سافٹویئر چلاتا ہے۔ اس میں اینڈرائیڈ 4.2.2 جیلی بین شامل ہے جو گوگل کا جدید ترین اینڈرائیڈ سافٹویئرہے۔
اس پر سام سنگ کے ٹچ وِز یو آئی کا تڑکا بھی لگایا گیا ہے جسے ونیلا اینڈرائیڈ کے مقابلے میں بعض افراد پسند نہیں کرتے لیکن پھر بھی اس میں کچھ انوکھی اور نئی خصوصیات شامل ہیں اس لیے بہرحال اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
گزشتہ سال کی طرح گلیکسی ایس IV بہت شاندار سافٹویئر ٹرکس بھی ساتھ لایا ہے۔ اس میں ایس-وائس شامل ہے جسے آپ اینڈرائیڈ کا سری کہہ سکتے ہیں۔ اسمارٹ پاز اس وقت وڈیو کو روک دیتا ہے جب آپ اسکرین سے نظریں ہٹا لیتے ہیں۔ اسمارٹ اسکرول اس وقت ویب پیجز کو اسکرول کرتا ہے جب آپ بیک وقت ڈیوائس کو جھکاتے اور دیکھتے ہیں۔ اس میں ایس-ہیلتھ اور ایس-ٹرانسلیٹر بھی شامل ہیں۔ ہوائی اشارے بھی ایک حیران کن خاصیت ہیں جو آپ کو اسکرین کے سامنے صرف ہاتھ ہلا کر مختلف کام انجام دینے کی سہولت دیتے ہیں۔ آخر میں ہوور-ٹچ آپ کو ڈسپلے کے اوپر اپنی انگلی پھرانے سے ہی مختلف کاموں کی اجازت دیتا ہے۔ وڈیو/آڈیو کوڈیک سپورٹ بھی بہت زبردست ہے۔

ہارڈویئر:
گلیکسی ایس IV میں بھاری بھرکم ہارڈویئر شامل ہے۔ اس میں 4 کور کے دو پروسیسرز نصب ہیں۔ پہلا 1.6 گیگاہرٹز کا کویڈ-کور کورٹیکس اے 15 پروسیسر ہے۔ جبکہ دوسرا کم گنجائش کا حامل 4 -کور کا 1.2 گیگاہرٹز کویڈکور کورٹیکس اے7 ہے۔ بہرحال پریشان ہونے کی ضرورت نہیں آپ نے اس پر انڈے نہیں تلنے۔ چپ سیٹ ایکسی نوس 5 اوکٹا اور جی پی یو پاور وی آر ایس جی ایکس 544 ایم پی 3 ہے۔
ریم 2 جی بی ہے۔ یہ تین اسٹوریج آپشن رکھتا ہے۔ 16، 32 اور 64 جی بی۔ آپ اسے مائیکرو ایس ڈی کارڈ سلاٹ کے ذریعے مزید 64 جی بی تک بڑھا بھی سکتے ہیں۔
مختصراً یہ کہ گلیکسی ایس IV اس کرۂ ارض پر موجود کئی پی سیز سے زیادہ طاقت رکھتا ہے۔ بس اس کےبارے میں یہی کہنا کافی ہے۔

کیمرے:
اپنے فلیگ شپ فونز میں 8 میگا پکسل کے کیمرے لگانے سے سام سنگ کی وابستگی بالآخر اپنے اختتام کو پہنچی۔ گلیکسی ایس IV مکمل ایچ ڈی وڈيو ریکارڈنگ کے ساتھ 13 میگا پکسل کے کیمرے کا حامل ہے، جبکہ سامنے کے رخ پر 2.1 میگا پکسل کا فل ایچ ڈی کیمرہ بھی ہے۔
صرف یہی نہیں، کیمرے اضافی خصوصیات بھی رکھتے ہیں۔ ان میں ایچ ڈی آر موڈ بھی ہے۔ ایسا موڈ بھی جو بیک وقت سامنے اور پشت پر نصب کیمروں سے وڈیو بنا سکتا ہے۔ ایک ڈراما شوٹ جو 9 تصاویر لے کر انہیں ایک واحد تصویر میں شامل کر سکتا ہے۔ حتیٰ کہ ایک موڈ آپ کی لی گئی تصویر سے کوئی خاص چیز نکال بھی سکتا ہے۔
اس میں سینما فوٹو بھی ہے جو ایک وڈیو شوٹ کر کے اور اس کے مخصوص حصے کو منتخب کر کے GIF تصاویر تخلیق کرنے کی سہولت دیتا ہے۔

کنیکٹیوٹی:
کنیکٹیوٹی کے معاملے میں بھی یہ فون نمایاں ہے اس میں بلوٹوتھ 4.0، این ایف سی، کارڈ سلاٹ، مائیکرو یو ایس بی 2.0، یو ایس بی-آن-دی-گو، جی پی ایس، ڈوئیل بینڈ وائی فائی اور وائی فائی ہاٹ اسپاٹ ہیں۔ اس میں آئی آر بلاسٹر بھی موجود ہے جو فون کو مہنگے ترین ریموٹ کنٹرول میں تبدیل کر سکتا ہے۔ جی پی آر ایس اور ایج بھی موجود ہے (پاکستانی ٹیلی کام کمپنیوں کے لیے)۔
یہ مائیکروسم کارڈ سلاٹ اور 4جی ایل ٹی ای تک کے کنکشنز کو سپورٹ کرتا ہے۔

دیگر
دیگر کئی خصوصیات بھی اس پتلی سی ڈیوائس میں موجود ہیں۔ سب سے نمایاں اس میں موجود 2600 ایم اے ایچ کی بھاری بھرکم بیٹری ہے جو طویل بیٹری لائف کی ضمانت دے گی۔ یہ وائٹ فروٹ اور بلیک مسٹ رنگوں میں دستیاب ہوگا۔ کئی سوشل نیٹ ورکنگ سروسز بھی دستیاب ہیں۔ سینسرز کی عام فہرست میں ایکسلرومیٹر، گائیرواسکوپ، بیرومیٹر اور دیگر فون کے اندر نصب ہیں۔

قیمت اور دستیابی:
فون رواں سال اپریل سے دستیاب ہوگا۔ قیمت کی تفصیلات ابھی تک معلوم نہیں لیکن گلیکسی ایس III کو مدنظر رکھیں جو پہلی مرتبہ آمد پر آئی فون سے زیادہ قیمت کا پہلا فون تھا، آپ گلیکسی ایس IV کی کم قیمت پر شرط نہیں لگا سکتے۔
اگر آپ خامیوں، جیسا کہ بڑا سائز اور پلاسٹک مواد، کی زیادہ پروا نہیں کرتے تو میں نہیں سمجھتا کہ گلیکسی ایس IV سے زیادہ کوئی چیز آپ کے لیے موزوں ہوگی۔ اینڈرائیڈ کی دنیا کے نئے بادشاہ کو سلام۔

سام سنگ گلیکسی ایس IV کی رونمائی

اتوار, مارچ 03, 2013

مجھے تلاش ہے اس کی جو میرے جیسا ہو

  نہ وہ فرشتہ ہو نہ فرشتوں جیسا ہو
مجھے تلاش ہے اس کی جو میرے جیسا ہو

میرے خلوص کو پہچانتا ہو بس کافی ہے
وہ کوئی بھی ہو کہیں بھی ہو کیسا بھی ہو

میری محبت کو پہچان سکے وہ ایسا ہو
میری خاطر مرنے کا حوصلہ بھی رکھتا ہو

اگر کھبی روٹھ جاؤں میں اس سے تو
مسکرا کے منائے وہ ایسا ہو

جو بات کرے وہ نبھا بھی سکے
ارادوں میں وہ اپنی چٹانوں جیسا ہو

دکھوں میں ہنسنے کا ہنر جانتا ہو
اک ایسا ہمسفر جو سمندر کی طرح گہرا ہو

اس کے پیار کی ٹھنڈک ہو میرے لیے ایسی
کہ وہ تو بالکل آسمان کے چاند جیسا ہو

تُساں ساڈے نال مُکا چھوڑی

گلاں چُوں گل تے کوئی نائی


تُساں گل دی گل بنا چھوڑی


اَساں جتنی گل مکاندے رئے


تُساں اُتنی گل ودھا چھوڑی


اَساں نِت خلوص دی چھاں کیتی


تُساں جِھڑکاں نال وَنجا چھوڑی


اَساں لوکاں نال مُکاندے رئے


تُساں ساڈے نال مُکا چھوڑی

محبت روگ ہے جاناں


محبت روگ ہے جاناں
عجب سنجوگ ہے جاناں
یہ کیسا روگ ہے جاناں
بڑے بوڑھے بتاتے تھے
کئی قصے سناتے تھے
مگر ہم مانتے کب تھے
یہ سب کچھ جانتے کب تھے
بہت پختہ ارادے کس طرح ٹوٹ جاتے ہیں
ہمیں ادراک ہی کب تھا
ہمیں کامل بھروسہ تھا
ہمارے ساتھ کسی صورت بھی ایسا ہو نہیں سکتا
یہ دل کبھی قابو سے بے قابو ہو نہیں سکتا
مگر
پھر یوں ہوا جاناں
نہ جانے کیوں ہوا جاناں
جگر کا خوں ہوا جاناں
ترے ابرو کی اک جنبش پر
ترے قدموں کی آہٹ پر
گلابی مسکراہٹ پر
ترے سر کے اشارے پر
صدائے دلربانہ پر
چہرۂ مصومانہ پر
نگاۂ قاتلانہ پر
ادائے کافرانہ پر
گھائل ہوگئے ہم بھی
بڑے بے باک پھرتے تھے
مائل ہوگئے ہم بھی
سخاوت کرنے آئے تھے
اور
سائل ہوگئے ہم بھی
بڑے بوڑھوں کے ان باتوں کے
قائل ہوگئے ہم بھی
کہ
محبت روگ ہے جاناں
عجب سنجوگ ہے جاناں
یہ کیسا روگ ہے جاناں...!!

وہ کہتا ہے، بتا تیرا درد کیسے سمجھوں؟

وہ کہتا ہے، بتا تیرا درد کیسے سمجھوں؟
میں نے کہا، عشق کر اور کر کے ہار جا!
+==========+


اب کے بار نئے سال میں عجب سی خواہش جاگی ہے
کہ کوئی ٹوٹ کے چاہے اور ہم بے وفا نکلیں
+==========+



یہ واجبات عشق مجھ ہی پے قرض کیوں
وہ بھی ادا کرے محبت اسے بھی تھی

+==========+


اس نے کہا نہ ہونے سے کچھ بھی نہیں بدلا
بس پہلے جہاں دل ہوتا تھا اب وہاں درد ہوتا ہے
+==========+

دل معصوم پہ تیرے قاتلانہ حملے


زخم بھی کوئی نہیں پھر بھی درد کا احساس ہوتا ہے
شاید دل کا کوئی ٹکڑا آج بھی اس کے پاس ہے
……

دل معصوم پہ تیرے قاتلانہ حملے
اپنے نینوں سے کہو ذرا تمیز سے
……

کم بخت مانتا ہی نہیںدل اسے بھلانے کو
میں ہاتھ جوڑتا ہوں تو وہ پاؤں پڑ جاتا ہے
……

اکیلے چلنے لگے ہو
کتنا سنبھل گئے ہو
……

اے سنگ دل سپہ سالار
آ کے دیکھ میرا بھی حوصلہ
تنہا کھڑا ہوں
تیری یادوں کے لشکر کے سامنے
……

ٹوٹے سپنے بکھرے ارمان کیا ہوا حاصل
اے دل تو نے عشق کرکے اچھا نہیں کیا
……

تو ڈھونڈ فلک پر باغ ارم
اپنا تو عقیدہ ہے
جس خاک پے مخلص دوست ملیں
وہ خاک بھی جنت ہوتی ہے
……

جمعہ, مارچ 01, 2013

کاش! یہ بیماری پاکستانیوں کو بھی لگ جائے

واشنگٹن — امریکہ میں روز مرہ سفر کے دوران محسوس ہوا کہ لوگ ایک دوسرے سے بات نہیں کرتے اور لوگوں کی اکثریت دوران سفر سمارٹ فون یا اسی نوعیت کی دوسری ڈیوائسز پر نظریں جمائے رکھتی ہے یا کتابوں میں کھوئی رہتی ہے۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ بات میرے مشاہدے میں آئی کہ سمارٹ فون یا اس طرح کی ڈیوائسز پر بھی اکثر لوگ کسی کتاب کی سافٹ کاپی کا مطالعہ کر رہے ہوتے ہیں۔

چونکہ، پاکستان میں دورانِ سفر مطالعہ کرتے شاذ و نادر ہی کسی کو دیکھا تھا، اس لیے مجھے عجیب لگا کہ یہ بسوں اور ٹرینوں میں ہی کیوں پڑھائی میں لگے رہتے ہیں۔ ​​میں نے انٹرنیٹ پر تلاش شروع کی تو معلوم ہوا کہ امریکہ کی پچاس ریاستوں اور دارالحکومت میں ایک لاکھ اکیس ہزار ایک سو ستر عوامی لائبریریاں ہیں اور حیران کن طور پر تقریباً ایک لاکھ کے قریب سکولز کی ملکیت ہیں۔


ایک ریسرچ کے مطابق 75,76,278 نفوس پر مشتمل ریاست ورجینیا میں سالانہ تین کروڑ پچاس لاکھ افراد لائبریریوں میں جاتے ہیں، جو تقریباً چار وزٹ فی کس کے برابر ہے۔ اور ہر سال یہ تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ لوگوں کی اتنی تعداد کا لائبریریوں کا رخ کرنے کی ایک وجہ یہاں ہر سکول، کالج اور یونیورسٹی میں لائبریری کی موجودگی بھی ہے، جبکہ مقامی سطح پر عوامی لائبریری بنیادی ضروریات زندگی کا حصہ ہے اور حکومت کی بنیادی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔

پاکستان میں بڑی یونیورسٹیوں کے ساتھ تو لائبریریاں ہوتی ہیں، لیکن سکولز کی سطح پر یا عوامی سطح پر ان کا کوئی خاص رحجان نہیں۔ لیکن، سوال یہ بھی ہے کہ لوگوں میں پڑھنے کا شوق کتنا ہے؟ میں نے پاکستان میں گزارے کئی سالوں کے دوران اسلام آباد، لاہور، پشاور، فیصل آباد، گوجرانوالہ، کراچی اور ایبٹ آباد سمیت متعدد شہروں کا سفر کیا۔ لیکن، یہ تجربہ نہیں ہوا کہ لوگ بس سٹاپ پر کھڑے یا بس میں سفر کرتے کتاب کے مطالعہ میں مصروف ہوں.

​​ہمارے نظام تعلیم میں سکول کی سطح سے ہی نصابی کتب کے علاوہ کسی دوسری کتاب کے مطالعہ کو وقت کا ضیاع قرار دیا جاتا ہے اور ہر سطح پر اس کی مخالفت کی جاتی ہے، جبکہ امریکی سکول کی سطح پر ہی بچوں کو غیر نصابی کتب کے مطالعہ کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں بلکہ سہولت فراہم کرتے ہیں۔
میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ تعلیم بطور قوم ہماری ترجیح نہیں، لیکن ہماری کسی بھی حکومت کی ترجیح نہیں رہی۔ امریکہ اپنی کل آمدنی کا 5.7 فیصد تعلیم پر خرچ کرتا ہے جبکہ پاکستان صفر 1.8 فیصد۔ جبکہ ہمارا پڑوسی بھارت اپنی کل آمدنی کا 4.1 فیصد تعلیم پر خرچ کرتا ہے۔

ہر جگہ مطالعے میں گم امریکیوں کو دیکھ کر میں نے اپنے ایک پاکستانی دوست سے کہا کہ ان کو پڑھنے کی بیماری ہے، میرے دوست کا جواب تھا کہ، کاش یہ بیماری پاکستانیوں کو بھی لگ جائے۔ ۔!

کاش! یہ بیماری پاکستانیوں کو بھی لگ جائے

منگل, فروری 26, 2013

چوں چوں کا مربہ، امریکہ


چوں چوں کا مربہ، امریکہ
13 فروری 2013ء

پکڑا جانا آئی ایس آئی کے ہاتھوں بھارتی جاسوس کا


پکڑا جانا آئی ایس آئی کے ہاتھوں بھارتی جاسوس کا
14 فروری 2013ء

را کے خوش رنگ پھندے اور سفارتی اہلکار


”را“ کے خوش رنگ پھندے اور سفارتی اہلکار
13 فروری 2013ء

مفاد پرست کلب

جاوید چوہدری

جاوید چوہدری

علامہ محمد اسد عالم اسلام کے عظیم مفکر اور دانشور تھے‘ یہ یہودی خاندان سے تعلق رکھتے تھے‘ آسٹریا میں 2جولائی 1900ء میں پیدا ہوئے‘ ان کے والد یہودیوں کے ربی تھے‘ والد نے ان کا نام لیوپولڈ وائز رکھا‘ علامہ اسد نے بھی یہودیت کی تعلیم حاصل کی اور یہ بھی یہودی عالم بننا چاہتے تھے لیکن ان کے اندر ایک بے چینی‘ ایک بے قراری پائی جاتی تھی‘ یہ بے قراری انھیں چشمہ ہدایت کی طرف لے گئی اور یوں 1926ء میں لیو پولڈوائز نے اسلام قبول کرلیا اور یہ محمد اسد بن گئے‘ علامہ اسد نے عربی بدوئوں کے ساتھ رہنا شروع کردیا‘ بدوئوں سے عربی سیکھی‘ قرآن مجید کو اصلی عربی کے ساتھ پڑھا‘ صحیح بخاری کا مطالعہ کیا اور اپنی تحریروں کے ذریعے پوری دنیا کو حیران کر دیا‘ شاہ عبدالعزیز علامہ محمد اسد سے بہت متاثر تھے‘ انھوں نے انھیں اپنا منہ بولا بیٹا بنا لیا‘ علامہ صاحب شاہی خاندان کا فرد سمجھے جاتے تھے۔

سعودی شاہی خاندان نے علامہ صاحب کو پوری زندگی عزت بھی دی اور ان کی مالی امداد بھی کی‘ ان کی طبیعت سیلانی تھی‘ یہ 1932ء میں سعودی عرب سے نکل آئے اور اس کے بعد سیاح کی طرح پوری دنیا دیکھ ڈالی‘ یہ برصغیر پاک و ہند پہنچے‘ علامہ اقبال سے ملے‘ دونوں ایک دوسرے کی شخصیت سے متاثر ہوئے اور کئی سال اکٹھے گزار دیے‘ یہ علامہ اقبال کی رحلت کے بعد قیام پاکستان کی تحریک میں شامل ہوگئے‘ علامہ اسد کا خیال تھا پاکستان وہ اسلامی ملک ہو گا جس کا خواب مسلمان 14 سو سال سے دیکھ رہے ہیں‘ علامہ صاحب نے اس خواب کی تکمیل کے لیے دن رات ایک کر دیے‘ اخبار بھی نکالا‘ کتابیں بھی لکھیں‘ مضامین بھی تحریر کیے‘ جیل بھی بھگتی اور بے روزگاری اور غربت بھی دیکھی لیکن یہ مسلم لیگ کے کارکن بن کر کام کرتے رہے‘ پاکستان بنا تو علامہ اسد کراچی آ گئے‘ یہ اس وقت تک آسٹریا کے شہری تھے‘ یہ آسٹریا کے پاسپورٹ پر سفر کرتے تھے‘ علامہ اسد نے اپنی آسٹرین شہریت ترک کی‘ پاکستان کی شہریت اختیار کی اور پاکستان کے پہلے شہری بن گئے‘ یہ حکومت پاکستان کی طرف سے پہلا پاسپورٹ پانے والے پاکستانی بھی تھے لیکن پاکستانیوں اور پاکستانی حکومت نے علامہ صاحب کے ساتھ بڑا برا سلوک کیا‘ علامہ صاحب کو وزارت خارجہ میں اہم منصب دے کر یو این بھجوایا گیا تھا مگر وزارت خارجہ کے بابوئوں نے انھیں اس قدر تنگ کیا کہ علامہ صاحب نے نوکری سے استعفیٰ دے دیا‘ یہ پاکستان چھوڑنے پر بھی مجبور ہوگئے مگر انھوں نے آخری سانس تک پاکستانی شہریت نہیں چھوڑی‘ یہ 23 فروری 1992ء میں 92 سال کی عمر میں انتقال فرما گئے‘ غرناطہ میں دفن ہوئے اور مرنے کے بعد بھی پاکستانی شہری رہے۔

علامہ محمد اسد 1952ء میں پاکستان سے نکلے‘ ان کی جرمن نژاد تیسری بیگم پولا حمیدہ اسد نے مرنے تک ان کا ساتھ دیا‘ یہ دنیا کے مختلف ملکوں میں رہے‘ یہ اسلام کے بارے میں کتابیں لکھتے رہے‘ لیکچر دیتے رہے‘ تبلیغ کرتے رہے اور اسلام کے بارے میں مغرب میں پائی جانے والی غلط فہمیاں دور کرتے رہے‘ ان کی ایک کتاب ’’روڈ ٹو مکہ‘‘ نے پوری دنیا میں تہلکہ مچا دیا‘ یہ ان کے قبول اسلام سے متعلق کتاب تھی‘ اس کتاب میں عربوں کے رہن سہن‘ رسوم و رواج‘ صحرائی زندگی کی خوبصورتیاں اور اسلام کی خوبیاں بیان کی گئی ہیں‘ یہ کسی نو مسلم مغربی اسکالر کی اس نوعیت کی پہلی کتاب تھی‘ یہ کتاب امریکی پبلشنگ ادارے سائن اینڈ شسٹر نے 1954ء میں شائع کی اور پوری دنیا میں پڑھی گئی‘ یہ آج بھی شائع ہوتی ہے‘ آج بھی پڑھی جاتی ہے اور لوگ آج بھی علامہ صاحب کی خدمات کو سراہتے ہیں۔ ’’روڈ ٹو مکہ‘‘ کے حوالے سے دو حقائق بہت دلچسپ ہیں‘ ایک‘ یہ کتاب اسلام سے متعلق تھی اور نو مسلم مغربی اسکالر نے لکھی تھی لیکن یہ سب سے پہلے امریکی پبلشر نے شائع کی‘ بعد ازاں برطانیہ کے ادارے میکس رائن ہارٹ نے اسے شائع کیا اور اس کے بعد اس کے ترجمے جرمن‘ ولندیزی‘ سویڈش‘ فرانسیسی‘ جاپانی اور کروشین زبانوں میں شائع ہوئے او ریورپ کے تمام پبلشنگ ہومز نے نہ صرف علامہ صاحب کو کتاب کا معاوضہ دیا بلکہ پوری زندگی انھیں اور ان کی اہلیہ کو اس کی رائلٹی بھی ملتی رہی۔

جرمنی نے تو علامہ صاحب کو تین سال اپنا مہمان بھی رکھا‘ انھیں جرمن زبان سکھائی‘ ان سے ’’روڈ ٹو مکہ‘‘ کا ترجمہ کرایا اور پھر یہ کتاب شائع کی‘ جرمنی نے اس پر فلم بھی بنائی جب کہ ان کے مقابلے میں پورے عالم اسلام میں یہ کتاب چھپی مگر کسی پبلشر نے انھیں معاوضہ دیا اور نہ ہی ان سے اشاعت کے لیے تحریری اجازت لی‘ علامہ صاحب کی بیگم پولا حمیدہ اسد نے اپنی یاد داشتوں میں لبنان کے ایک پبلشر کا ذکر کیا جس نے نہ صرف اس کتاب کا بلا اجازت ترجمہ شائع کیا تھا بلکہ اس نے کتاب سے صحرائی حصے بھی ایڈٹ کردیے‘ علامہ صاحب نے جب اس سے اس ایڈیٹنگ کی وجہ پوچھی تو اس نے جواب دیا لبنان کے لوگوں نے کبھی صحرا نہیں دیکھا چنانچہ ان کے لیے یہ حصے فضول تھے‘ پولا حمیدہ نے اس پر ہنس کر کہا صحرا تو یورپ اور امریکا کے لوگوں نے بھی نہیں دیکھا لیکن انھوں نے کتاب کے اس پورشن پر کوئی اعتراض نہیں کیا‘ دوسری حقیقت‘ علامہ صاحب نے 92 سال کی طویل زندگی پائی‘ صدی تک پھیلی اس زندگی میں انھیں مسلمان ہونے کے باوجود یورپ اور امریکا کے علم پرور طبقے پالتے رہے جب کہ مسلمان بالخصوص پاکستانی مسلمان انھیں اذیت دیتے رہے ‘ ہم نے مرنے کے بعد بھی اپنے پہلے شہری کو عزت نہیں دی‘ ہم نے ان کے نام سے کوئی ادارہ بنایا اور نہ ہی کسی سڑک کو ان کے نام سے منسوب کیا‘ ہم نے اپنی کوتاہ فہمی‘ نالائقی‘ سازشی فطرت اور کنوئیں کے مینڈکوں کی جعلی اکڑ کی وجہ سے دنیا کا بہت بڑا اسکالر کھو دیا‘ علامہ صاحب پاکستان کے پہلے شہری اور پہلے پاسپورٹ ہولڈر تھے لیکن ہم ان کی قبر پر پھول تک نہیں چڑھاتے‘ وہ غرناطہ کے گم نام قبرستان کی کسی گم نام قبر میں پڑے ہیں مگر یہ احسان فراموش قوم ان کا نام تک بھول چکی ہے‘ علامہ صاحب اپنے اس ’’انجام‘‘ سے واقف بھی تھے‘ ان کی اہلیہ نے اپنی خودنوشت میں ایک واقعہ لکھا‘ آپ کے یہ واقعہ ملاحظہ کیجیے۔

علامہ اسد 1950ء کی گرمیوں میں بیروت میں تھے‘ ایک شام ڈاکٹر ذاکر حسین ملاقات کے لیے ان کے گھر آئے‘ ڈاکٹر صاحب بھارت کی معروف علمی اور سیاسی شخصیت تھے‘ یہ بعد ازاں بھارت کے صدر بھی بنے‘ ڈاکٹر ذاکر حسین نے اس ملاقات کے دوران علامہ اسد کو یاد دلایا ’’میں نے قیام پاکستان سے قبل آپ سے عرض کیا تھا اگر پاکستان میں ان اصولوں پر عمل کیا گیا جن کے بنیاد پر ملک بنایا جا رہا ہے تو میں آپ کے ساتھ پاکستان جائوں گا لیکن مجھے خطرہ ہے‘ یہ ملک چند لوگوں کے مالی مفادات کے لیے بنایا جا رہا ہے اور آپ کو یہ حقیقت چند برسوں میں معلوم ہو جائے گی‘‘ ڈاکٹر صاحب نے علامہ صاحب کو یہ بات یاد کروائی اور اس کے بعد ان سے پوچھا ’’کیا میری بات غلط تھی‘‘ علامہ صاحب اس پر خاموش رہے مگر تاریخ آج تک بول رہی ہے‘ہم مانیں یا نہ مانیں مگر اس ملک پر65 برسوں سے چند مفاد پرستوں کا قبضہ چلا آ رہا ہے‘ یہ مفاد پرست اپنے فائدے‘ اپنے اقتدار کے لیے تمام حدیں عبور کر جاتے ہیں خواہ انھیں اس کے لیے ملک تک کیوں نہ توڑنا پڑ جائے‘ یہ مفاد پرستوں کا ایک کلب ہے جو اس ملک میں ترقی کی ایک خاص حد چھونے والے ہر شخص کو اپنا ممبر بنا لیتا ہے اور یہ بھی مفاد کا ٹوکا لے کر ملک کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرنے میں جت جاتا ہے‘ مفاد کے اس کلب کے ممبرکس قدر سنگ دل ہیں آپ اس کا اندازہ کوئٹہ اور کراچی کی صورتحال سے لگالیجیے‘ ان کی نظر میں کوئٹہ اور کراچی کی کوئی حیثیت ہے اور نہ ہی ہزارہ کمیونٹی کی ہزار لاشوں اور کراچی کے ساڑھے آٹھ ہزار لوگوں کی اموات کی‘ اگر انھیں کوئی دلچسپی ہے تو وہ پانچ ارب روپے کا محل ہے‘ اپنی مرضی کی نگران حکومت ہے اور اگلے الیکشنز میں کامیابی ہے اور پیچھے رہ گئے۔

عوام تو یہ ماضی میں بھی ان کی ترجیح نہیں تھے‘ یہ آج بھی ترجیح نہیں ہیں اور یہ کل بھی ترجیح نہیں ہوں گے کیونکہ یہ اس ملک کی بنیاد سے لے کر آج کے جمہوری دور تک کبھی ترجیح نہیں رہے‘ یہ محض ووٹر ہیں یا لاشیں ہیں‘ مفاد پرست کلب کے ممبر انتخابی نشانوں پر ان سے انگوٹھا لگواتے ہیں‘ اپنا اقتدار پکا کرتے ہیں‘ پانچ پانچ سال کی باری لگاتے ہیں‘ قوم مایوس ہو جاتی ہے تو خفیہ ادارے شہروں میں نعشوں کی کھیتیاں اگا دیتے ہیں‘ یہ کھیتیاں بو دیتی ہیں تو فوج اقتدار پر قابض ہوجاتی ہے‘ سیاسی جماعتیں فوج کو بھگانے کے لیے اپنے ووٹروں کو لاشوں میں تبدیل کرنے لگتی ہیں‘ یہ لاشیں عالمی ضمیر کے دروازے پر دستک دیتی ہیں تو فوجی آمروں کے سپورٹر پیچھے ہٹ جاتے ہیں اور ملک پر مفاد پرست کلب کے سویلین چہرے قابض ہوجاتے ہیں‘ یہ لوگ بندر بانٹ کے ذریعے پانچ سال پورے کرنے میں جت جاتے ہیں اور اس دوران ملک خواہ قبرستان بن جائے انھیں کوئی غرض نہیں ہوتی‘ یہ صرف اور صرف اپنے اقتدار تک محدود رہتے ہیں‘ آپ کو یقین نہ آئے تو آپ کوئٹہ کی سڑکوں پر پڑی لاشیں دیکھ لیں یا پھر کراچی کی تڑتڑ کی آوازیں اور گرتی ہوئی لاشوں کی چیخیں سن لیں‘ بلوچستان میں سال بھر سے کوئی حکومت موجود نہیں‘ کراچی میںریاست ناکام ہے‘ وہاں آئی جی پولیس بھی رینجرز کی سکیورٹی کے بغیر گھر سے نہیں نکلتا مگر ہمارا مفاد پرست کلب جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کی قرار داد پاس کررہا ہے اور نگران وزیراعظم کے نام پر لڑ رہا ہے‘ آپ صورتحال پر تھوڑا سا غور کریں تو آپ کو محسوس ہوگا‘ ہم اٹھارہ کروڑ لوگ مفاد پرست کلب کے ممبروں کی آسودگی کے لیے انسانی کھاد ہیں‘ ہم پیدا ہی ان لوگوں کے انتخابی نشانوں پر انگوٹھا لگانے کے لیے ہوتے ہیں یا پھر فوجی آمروں کی خواہش اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے جنم لیتے ہیں‘ ہم انگوٹھا لگا دیں تو یہ پانچ ارب کے بم پروف محل سے ہم پر حکمرانی کرتے ہیں نہ لگائیں تو یہ پانچ سال کے لیے ملک سے باہر چلے جاتے ہیں اور ان کی جگہ کوئی بندوق علی خان اقتدار پر قابض ہوجاتا ہے۔

ہم پاکستانیوں کا پاکستان کب بنے گا‘ ہم کب آزاد ہوں گے۔

مفاد پرست کلب

جمعـہ 22 فروری 2013

منگل, فروری 12, 2013

’سوال آپ نہیں بلکہ عدالت کرے گی‘

تحریک منہاج القرآن کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری پاکستان کے الیکشن کمیشن کی تحلیل کے لیے اپنی درخواست کی پیروی کے لیے ان چند افراد میں شامل تھے جو عدالت کا وقت شروع ہوتے ہی سپریم کورٹ پہنچ گئے تھے۔ کمرۂ عدالت نمبر ایک میں طاہرالقادری اپنے حماتیوں کے ہمراہ داخل ہوئے اور زیادہ تر نشتوں پر اُن کے حامیوں کا ہی قبضہ تھا جبکہ وکلاء اور اپنے مقدمات کی پیروی کے لیے آنے والے افراد کے پاس کھڑے رہنے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں تھا۔ مقامی وقت کے مطابق ساڑھے نو بجے عدالت میں پہنچنے والے ڈاکٹر طاہرالقادری کو پانچ گھنٹے کے بعد یعنی دوپہر ڈھائی بجے کے قریب روسٹم پر آنے کو کہا گیا۔ کمرۂ عدالت میں موجود افراد یہ چہ مگوئیاں بھی کر رہے تھے کہ احتجاجی دھرنے کے دوران حکومت کو پانچ منٹ میں اسمبلیاں تحلیل کرنے کا حکم دینے والے طاہرالقادری کمرۂ عدالت میں بےبس دکھائی دے رہے ہیں۔

سپریم کورٹ نے پیر کو ’ریگولر مقدمات‘ کی سماعت کرنے کے بعد سپلیمنٹری کاز لسٹ میں شامل طاہرالقادری کو دلائل دینے کو کہا۔ سپریم کورٹ نے جب طاہرالقادری کو روسٹم پر آنے کو کہا تو ان کے ہمراہ آئے ہوئے اُن کے حمایتی بھی روسٹم پر ان کے پیچھے کھڑے ہو گئے جس پر عدالت نے برہمی کا اظہار کیا اور باقی افراد کو اپنی سیٹوں پر بیٹھنے کا حکم دیا۔

طاہرالقادری نے اپنی درخواست کے حق میں دلائل شروع ہی کیے تھے کہ تین رکنی بینچ نے ان کی شہریت سے متعلق سوالات کی بوچھاڑ کردی۔ درخواست گزار بجائے اس کہ وہ اپنی درخواست کے متعلق کچھ دلائل دیتے انہوں نے کینیڈا کی شہریت حاصل کرنے سے متعلق صفائی دینی شروع کردی اور انہوں نے سماعت کرنے والے ججوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’مائی لارڈز میرا سوال ہے‘ جس پر بینچ میں شامل جسٹس عظمت سعید کا کہنا تھا کہ سوال آپ نہیں بلکہ عدالت آپ سے کرے گی اور عدالت کو مطمئین کرنا آپ کی ذمہ داری ہے۔ منہاج القرآن کے سربراہ نے عدالت سے دو منٹ میں اپنی بات مکمل کرنے کی استدعا کی جسے عدالت نے مسترد کردیا اور کہا کہ وہ تحریری شکل میں جواب دیں۔

جمعہ, فروری 01, 2013

بلیوں پر لگا قتل کا الزام

واشنگٹن — بلی بظاہر ایک معصوم اور بے ضرر نظر آنے والا جانور ہے جسے بچے اور بڑے یکساں طور پر پسند کرتے ہیں لیکن امریکہ میں ان پر سالانہ چوبیس ارب پرندوں اور چھوٹے جانوروں کے قتل کا الزام عائد کیا گیا ہے۔

’نیچر کمیونیکیشن‘ نامی ایک آن لائن میگزین میں منگل کے روز، بلیوں کے جنگلی حیات پر اثرات، کے عنوان سے شائع ہونے والی ایک تحقیقی رپورٹ میں اس بات کا انکشاف کیا گیا ہے ہے کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں آوارہ بلیاں سالانہ 3.7 ارب پرندوں اور 20.7 ارب چھوٹے جانوروں کی موت کی وجہ ہیں۔

خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق تحقیق میں کہا گیا ہے کہ پرندوں کی اموات کی سب سے بڑی وجہ بغیر مالک کےآوارہ بلیاں ہیں جو دن بھر انہی چھوٹے جانوروں اور پرندوں کے شکار میں سرگرم رہتی ہیں۔

جنگلی حیات کے تحفظ اور امریکی ادارہ برائے فشریز و جنگلی حیات کی تحقیقی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکی ریاست الاسکا اور ہوائی میں آوارہ بلیاں اپنی خوراک کے لیے چوہوں پر اکتفا کرتی ہیں لیکن دوسری امریکی ریاستوں میں ان بلیوں کا نشانہ پرندے اور دوسرے چھوٹے جانور بنتے ہیں۔

تحقیقی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ شہر کے مضافاتی اور دیہی علاقوں میں بلیاں خرگوش، چوہے، بٹیر، گلہری کو خوراک کے لیے نشانہ بناتی ہیں تاہم گنجان آباد علاقوں میں جہاں جنگلی حیات کم ہوتی ہے بلیاں چوہوں پر ہی اکتفا کرتی ہیں۔

ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں بلیوں کی ایک سو سے زائد اقسام گھریلو بلیوں کے طور پر متعارف کروائی جا چکی ہیں لیکن ان کی بڑی تعداد ابھی تک آوارہ ہے جن پر مقامی، ریاستی یا وفاقی سطح پر توجہ نہیں دی جا رہی۔

امریکہ میں پرندوں کے تحفظ کے ادارے کے ترجمان رابرٹ جانس نے کہا ہے کہ بلیاں بہت پیاری ہوتی ہیں اور ہم ان سے پیار کرتے ہیں لیکن انہیں اس بات کی مزید اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ ماحول کی خوبصورتی کا سبب بننے والے پرندوں کا خاتمہ کر دیں۔

ادھر بلیوں کی تحفظ حیات کے ایک ادارے کے سابق صدر کیرول باربی نےآوارہ بلیوں کے خلاف ممکنہ کارروائی پر اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ ان بلیوں کے خاتمے سے چوہے اور دیگر موزی جانور جو ان بلیوں کا نشانہ بنتے ہیں، انسانون کے لیے مسائل پیدا کر سکتے ہیں۔
انھوں نے اس نئی تحقیق اور اس کی سفارشات پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئےکہا ہے کہ بلیاں کبی کبھار پرندوں کا شکار ضرور کرتی ہیں لیکن وہ ذاتی طور پر اس سے اتفاق نہیں کرتے کہ پرندوں کی موت کی سب سے بڑی وجہ بلیاں ہی ہیں۔

منگل, جنوری 29, 2013

والدین بچوں سے کیا جھوٹ بولتے ہیں

چین اور امریکہ میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق اپنی اولاد کی پرورش میں بچوں کا رویہ تبدیل کرنے کے لیے بیشتر والدین جھوٹ بولتے ہیں۔ عام جگہوں پر والدین اپنے بچوں کو اکثر دھمکی دیتے ملیں گے کہ اگر وہ اپنی حرکت سے باز نہیں آئے تو انہیں تنہا چھوڑ کر چلے جائیں گے جو اس کی ایک واضح مثال یہ ہے۔ اس کے لیے کئی بار پرانی کہانیوں کا بھی سہارا لیا جاتا ہے۔ بچوں کو بعض خاص چیز کھانے کے لیے راضی کرنے کے لیے کہا جاتا ہے کہ اگر آپ فلانی سبزی نہیں کھائیں گے تو اندھے ہوسکتے ہیں۔ اس تجزیاتی رپورٹ کو نفسیات سے متعلق ایک عالمی میگزین ’انٹرنیشنل جرنل آف سائیکالوجی‘ میں شائع کیا گيا ہے جس میں اس طرح کے جھوٹ کا جائزہ لیا گيا ہے۔ تقریباً دو سو خاندانوں کے ساتھ انٹرویو پر مبنی اس رپورٹ کے مطابق امریکہ اور چین دونوں ملکوں میں والدین کی ایک بڑی اکثریت بچوں کو راہ راست پر لانے کے لیے اس طرح کے جھوٹ کا سہارا لیتی ہے۔

اس کی ایک بہت عام مثال یہ ہے کہ بچے کئی بار ایک جگہ سے نہیں جانا چاہتے یا بہت شرارت کرتے ہیں تو انہیں تنہا چھوڑنے کی دھمکی دی جاتی ہے۔ رپورٹ میں کہا گيا ہے ’اس نوعیت کا جھوٹ دنیا بھر ان تمام والدین میں عام ہے جو اپنے بچوں کی مرضی کے خلاف اس جگہ سے جانا چاہتے۔‘ ایک اور جھوٹ، جو بہت عام ہے، یہ کہ جب بچے کھلونا دلانے کی ضد کرتے ہیں تو والدین بچوں سے یہ کہ کر کر جھوٹا وعدہ کرتے ہیں کہ ہاں وہ مستقل میں اسے لے دیں گے۔

محقیقین نے ایسے بہت سے جھوٹوں کو جمع کیا ہے۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ جب بچے شرارت کرتے ہیں تو ان سے کہا جاتا ہے کہ ’اگر باز نہیں آ‏ئے تو میں پولیس کو کال کرونگا‘۔ یا بعض دفعہ کہا جاتا ہے کہ اگر وہ رویہ نہیں بدلتے تو ’پھر وہ جو خاتون وہاں پر کھڑی ہیں وہ آپ سے بہت ناراض ہو جائیں گي‘۔ بعض دفعہ والدین جھوٹ بول کر بچوں کو منانے میں اس سے بھی آگے بڑھ جاتے ہیں۔ ایسے ہی ایک واقعے میں یہ کہتے سنا گيا ’اگر تم میرے ساتھ نہیں چلوگے تو پھر ایک اغوا کرنے والا آئے گا اور تمہیں یرغمال بناکر لے جائےگا‘۔

لیکن اس سلسلے میں اس طرح کے بھی بہت سے جھوٹ ہیں جو بچوں کے احساسات کے تحفظ کو خیال کرکے مثبت اثر کے لیے بولے جاتے ہیں۔ جیسے یہ کہنا کہ ’آپ کا پالتو، کتا یا بلی، آپ کے انکل کے فارم میں رہنے گيا ہے جہاں اسے کھیلنے کودنے کے لیے زیادہ وسیع جگہ ملے گي‘۔ کئي بار دکان پر بچوں سے یہ جھوٹ بولا جاتا ہے کہ ’آج پیسے نہیں لایا ہوں اور اس کے لیے کسی اور روز واپس آئیں گے‘۔ اس رپورٹ میں یہ بات واضح نہیں کی گئی ہے کہ اس سلسلے میں ماں اور باپ کے جھوٹ بولنے میں کیا فرق ہے۔ ریسرچ کرنے والے ماہرین کا تعلق امریکہ میں کیلیفورنیا یونیورسٹی، چین میں زیجنگ نیشنل یونیورسٹی اور یونیورسٹی آف کینیڈا کے شعبہ نسفیات سے ہے۔ امریکہ اور چین دونوں میں اس طرح کے جھوٹ عام بات ہے لیکن امریکہ کے بہ نسبت چین میں یہ کچھ زیادہ ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق بچوں کے رویہ میں تبدیلی کے لیے اس طرح کے جھوٹ کو سماج میں قبول کر لیا گيا ہے۔ مثال کے طور پر بچوں کو سبزی یا صلاد کھانے کی ترغیب دینے کے لیے کہا جاتا ہے کہ وہ اگر بروکلی کھائیں گے تو زیادہ لمبے ہوں گے۔

اس رپورٹ میں کہا گيا ہے کہ بچوں کے ساتھ یہ رویہ رکھنے پر بڑے ہونے پر والدین اور ان کے درمیان تعلقات متاثر ہوسکتے ہیں۔اور بچوں میں اس سے جھوٹ بولنے کی بھی عادت پڑ جاتی ہے۔

والدین بچوں سے کیا جھوٹ بولتے ہیں