اتوار, مارچ 03, 2013

محبت روگ ہے جاناں


محبت روگ ہے جاناں
عجب سنجوگ ہے جاناں
یہ کیسا روگ ہے جاناں
بڑے بوڑھے بتاتے تھے
کئی قصے سناتے تھے
مگر ہم مانتے کب تھے
یہ سب کچھ جانتے کب تھے
بہت پختہ ارادے کس طرح ٹوٹ جاتے ہیں
ہمیں ادراک ہی کب تھا
ہمیں کامل بھروسہ تھا
ہمارے ساتھ کسی صورت بھی ایسا ہو نہیں سکتا
یہ دل کبھی قابو سے بے قابو ہو نہیں سکتا
مگر
پھر یوں ہوا جاناں
نہ جانے کیوں ہوا جاناں
جگر کا خوں ہوا جاناں
ترے ابرو کی اک جنبش پر
ترے قدموں کی آہٹ پر
گلابی مسکراہٹ پر
ترے سر کے اشارے پر
صدائے دلربانہ پر
چہرۂ مصومانہ پر
نگاۂ قاتلانہ پر
ادائے کافرانہ پر
گھائل ہوگئے ہم بھی
بڑے بے باک پھرتے تھے
مائل ہوگئے ہم بھی
سخاوت کرنے آئے تھے
اور
سائل ہوگئے ہم بھی
بڑے بوڑھوں کے ان باتوں کے
قائل ہوگئے ہم بھی
کہ
محبت روگ ہے جاناں
عجب سنجوگ ہے جاناں
یہ کیسا روگ ہے جاناں...!!

وہ کہتا ہے، بتا تیرا درد کیسے سمجھوں؟

وہ کہتا ہے، بتا تیرا درد کیسے سمجھوں؟
میں نے کہا، عشق کر اور کر کے ہار جا!
+==========+


اب کے بار نئے سال میں عجب سی خواہش جاگی ہے
کہ کوئی ٹوٹ کے چاہے اور ہم بے وفا نکلیں
+==========+



یہ واجبات عشق مجھ ہی پے قرض کیوں
وہ بھی ادا کرے محبت اسے بھی تھی

+==========+


اس نے کہا نہ ہونے سے کچھ بھی نہیں بدلا
بس پہلے جہاں دل ہوتا تھا اب وہاں درد ہوتا ہے
+==========+

دل معصوم پہ تیرے قاتلانہ حملے


زخم بھی کوئی نہیں پھر بھی درد کا احساس ہوتا ہے
شاید دل کا کوئی ٹکڑا آج بھی اس کے پاس ہے
……

دل معصوم پہ تیرے قاتلانہ حملے
اپنے نینوں سے کہو ذرا تمیز سے
……

کم بخت مانتا ہی نہیںدل اسے بھلانے کو
میں ہاتھ جوڑتا ہوں تو وہ پاؤں پڑ جاتا ہے
……

اکیلے چلنے لگے ہو
کتنا سنبھل گئے ہو
……

اے سنگ دل سپہ سالار
آ کے دیکھ میرا بھی حوصلہ
تنہا کھڑا ہوں
تیری یادوں کے لشکر کے سامنے
……

ٹوٹے سپنے بکھرے ارمان کیا ہوا حاصل
اے دل تو نے عشق کرکے اچھا نہیں کیا
……

تو ڈھونڈ فلک پر باغ ارم
اپنا تو عقیدہ ہے
جس خاک پے مخلص دوست ملیں
وہ خاک بھی جنت ہوتی ہے
……

جمعہ, مارچ 01, 2013

کاش! یہ بیماری پاکستانیوں کو بھی لگ جائے

واشنگٹن — امریکہ میں روز مرہ سفر کے دوران محسوس ہوا کہ لوگ ایک دوسرے سے بات نہیں کرتے اور لوگوں کی اکثریت دوران سفر سمارٹ فون یا اسی نوعیت کی دوسری ڈیوائسز پر نظریں جمائے رکھتی ہے یا کتابوں میں کھوئی رہتی ہے۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ بات میرے مشاہدے میں آئی کہ سمارٹ فون یا اس طرح کی ڈیوائسز پر بھی اکثر لوگ کسی کتاب کی سافٹ کاپی کا مطالعہ کر رہے ہوتے ہیں۔

چونکہ، پاکستان میں دورانِ سفر مطالعہ کرتے شاذ و نادر ہی کسی کو دیکھا تھا، اس لیے مجھے عجیب لگا کہ یہ بسوں اور ٹرینوں میں ہی کیوں پڑھائی میں لگے رہتے ہیں۔ ​​میں نے انٹرنیٹ پر تلاش شروع کی تو معلوم ہوا کہ امریکہ کی پچاس ریاستوں اور دارالحکومت میں ایک لاکھ اکیس ہزار ایک سو ستر عوامی لائبریریاں ہیں اور حیران کن طور پر تقریباً ایک لاکھ کے قریب سکولز کی ملکیت ہیں۔


ایک ریسرچ کے مطابق 75,76,278 نفوس پر مشتمل ریاست ورجینیا میں سالانہ تین کروڑ پچاس لاکھ افراد لائبریریوں میں جاتے ہیں، جو تقریباً چار وزٹ فی کس کے برابر ہے۔ اور ہر سال یہ تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ لوگوں کی اتنی تعداد کا لائبریریوں کا رخ کرنے کی ایک وجہ یہاں ہر سکول، کالج اور یونیورسٹی میں لائبریری کی موجودگی بھی ہے، جبکہ مقامی سطح پر عوامی لائبریری بنیادی ضروریات زندگی کا حصہ ہے اور حکومت کی بنیادی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔

پاکستان میں بڑی یونیورسٹیوں کے ساتھ تو لائبریریاں ہوتی ہیں، لیکن سکولز کی سطح پر یا عوامی سطح پر ان کا کوئی خاص رحجان نہیں۔ لیکن، سوال یہ بھی ہے کہ لوگوں میں پڑھنے کا شوق کتنا ہے؟ میں نے پاکستان میں گزارے کئی سالوں کے دوران اسلام آباد، لاہور، پشاور، فیصل آباد، گوجرانوالہ، کراچی اور ایبٹ آباد سمیت متعدد شہروں کا سفر کیا۔ لیکن، یہ تجربہ نہیں ہوا کہ لوگ بس سٹاپ پر کھڑے یا بس میں سفر کرتے کتاب کے مطالعہ میں مصروف ہوں.

​​ہمارے نظام تعلیم میں سکول کی سطح سے ہی نصابی کتب کے علاوہ کسی دوسری کتاب کے مطالعہ کو وقت کا ضیاع قرار دیا جاتا ہے اور ہر سطح پر اس کی مخالفت کی جاتی ہے، جبکہ امریکی سکول کی سطح پر ہی بچوں کو غیر نصابی کتب کے مطالعہ کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں بلکہ سہولت فراہم کرتے ہیں۔
میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ تعلیم بطور قوم ہماری ترجیح نہیں، لیکن ہماری کسی بھی حکومت کی ترجیح نہیں رہی۔ امریکہ اپنی کل آمدنی کا 5.7 فیصد تعلیم پر خرچ کرتا ہے جبکہ پاکستان صفر 1.8 فیصد۔ جبکہ ہمارا پڑوسی بھارت اپنی کل آمدنی کا 4.1 فیصد تعلیم پر خرچ کرتا ہے۔

ہر جگہ مطالعے میں گم امریکیوں کو دیکھ کر میں نے اپنے ایک پاکستانی دوست سے کہا کہ ان کو پڑھنے کی بیماری ہے، میرے دوست کا جواب تھا کہ، کاش یہ بیماری پاکستانیوں کو بھی لگ جائے۔ ۔!

کاش! یہ بیماری پاکستانیوں کو بھی لگ جائے

منگل, فروری 26, 2013

چوں چوں کا مربہ، امریکہ


چوں چوں کا مربہ، امریکہ
13 فروری 2013ء

پکڑا جانا آئی ایس آئی کے ہاتھوں بھارتی جاسوس کا


پکڑا جانا آئی ایس آئی کے ہاتھوں بھارتی جاسوس کا
14 فروری 2013ء

را کے خوش رنگ پھندے اور سفارتی اہلکار


”را“ کے خوش رنگ پھندے اور سفارتی اہلکار
13 فروری 2013ء

مفاد پرست کلب

جاوید چوہدری

جاوید چوہدری

علامہ محمد اسد عالم اسلام کے عظیم مفکر اور دانشور تھے‘ یہ یہودی خاندان سے تعلق رکھتے تھے‘ آسٹریا میں 2جولائی 1900ء میں پیدا ہوئے‘ ان کے والد یہودیوں کے ربی تھے‘ والد نے ان کا نام لیوپولڈ وائز رکھا‘ علامہ اسد نے بھی یہودیت کی تعلیم حاصل کی اور یہ بھی یہودی عالم بننا چاہتے تھے لیکن ان کے اندر ایک بے چینی‘ ایک بے قراری پائی جاتی تھی‘ یہ بے قراری انھیں چشمہ ہدایت کی طرف لے گئی اور یوں 1926ء میں لیو پولڈوائز نے اسلام قبول کرلیا اور یہ محمد اسد بن گئے‘ علامہ اسد نے عربی بدوئوں کے ساتھ رہنا شروع کردیا‘ بدوئوں سے عربی سیکھی‘ قرآن مجید کو اصلی عربی کے ساتھ پڑھا‘ صحیح بخاری کا مطالعہ کیا اور اپنی تحریروں کے ذریعے پوری دنیا کو حیران کر دیا‘ شاہ عبدالعزیز علامہ محمد اسد سے بہت متاثر تھے‘ انھوں نے انھیں اپنا منہ بولا بیٹا بنا لیا‘ علامہ صاحب شاہی خاندان کا فرد سمجھے جاتے تھے۔

سعودی شاہی خاندان نے علامہ صاحب کو پوری زندگی عزت بھی دی اور ان کی مالی امداد بھی کی‘ ان کی طبیعت سیلانی تھی‘ یہ 1932ء میں سعودی عرب سے نکل آئے اور اس کے بعد سیاح کی طرح پوری دنیا دیکھ ڈالی‘ یہ برصغیر پاک و ہند پہنچے‘ علامہ اقبال سے ملے‘ دونوں ایک دوسرے کی شخصیت سے متاثر ہوئے اور کئی سال اکٹھے گزار دیے‘ یہ علامہ اقبال کی رحلت کے بعد قیام پاکستان کی تحریک میں شامل ہوگئے‘ علامہ اسد کا خیال تھا پاکستان وہ اسلامی ملک ہو گا جس کا خواب مسلمان 14 سو سال سے دیکھ رہے ہیں‘ علامہ صاحب نے اس خواب کی تکمیل کے لیے دن رات ایک کر دیے‘ اخبار بھی نکالا‘ کتابیں بھی لکھیں‘ مضامین بھی تحریر کیے‘ جیل بھی بھگتی اور بے روزگاری اور غربت بھی دیکھی لیکن یہ مسلم لیگ کے کارکن بن کر کام کرتے رہے‘ پاکستان بنا تو علامہ اسد کراچی آ گئے‘ یہ اس وقت تک آسٹریا کے شہری تھے‘ یہ آسٹریا کے پاسپورٹ پر سفر کرتے تھے‘ علامہ اسد نے اپنی آسٹرین شہریت ترک کی‘ پاکستان کی شہریت اختیار کی اور پاکستان کے پہلے شہری بن گئے‘ یہ حکومت پاکستان کی طرف سے پہلا پاسپورٹ پانے والے پاکستانی بھی تھے لیکن پاکستانیوں اور پاکستانی حکومت نے علامہ صاحب کے ساتھ بڑا برا سلوک کیا‘ علامہ صاحب کو وزارت خارجہ میں اہم منصب دے کر یو این بھجوایا گیا تھا مگر وزارت خارجہ کے بابوئوں نے انھیں اس قدر تنگ کیا کہ علامہ صاحب نے نوکری سے استعفیٰ دے دیا‘ یہ پاکستان چھوڑنے پر بھی مجبور ہوگئے مگر انھوں نے آخری سانس تک پاکستانی شہریت نہیں چھوڑی‘ یہ 23 فروری 1992ء میں 92 سال کی عمر میں انتقال فرما گئے‘ غرناطہ میں دفن ہوئے اور مرنے کے بعد بھی پاکستانی شہری رہے۔

علامہ محمد اسد 1952ء میں پاکستان سے نکلے‘ ان کی جرمن نژاد تیسری بیگم پولا حمیدہ اسد نے مرنے تک ان کا ساتھ دیا‘ یہ دنیا کے مختلف ملکوں میں رہے‘ یہ اسلام کے بارے میں کتابیں لکھتے رہے‘ لیکچر دیتے رہے‘ تبلیغ کرتے رہے اور اسلام کے بارے میں مغرب میں پائی جانے والی غلط فہمیاں دور کرتے رہے‘ ان کی ایک کتاب ’’روڈ ٹو مکہ‘‘ نے پوری دنیا میں تہلکہ مچا دیا‘ یہ ان کے قبول اسلام سے متعلق کتاب تھی‘ اس کتاب میں عربوں کے رہن سہن‘ رسوم و رواج‘ صحرائی زندگی کی خوبصورتیاں اور اسلام کی خوبیاں بیان کی گئی ہیں‘ یہ کسی نو مسلم مغربی اسکالر کی اس نوعیت کی پہلی کتاب تھی‘ یہ کتاب امریکی پبلشنگ ادارے سائن اینڈ شسٹر نے 1954ء میں شائع کی اور پوری دنیا میں پڑھی گئی‘ یہ آج بھی شائع ہوتی ہے‘ آج بھی پڑھی جاتی ہے اور لوگ آج بھی علامہ صاحب کی خدمات کو سراہتے ہیں۔ ’’روڈ ٹو مکہ‘‘ کے حوالے سے دو حقائق بہت دلچسپ ہیں‘ ایک‘ یہ کتاب اسلام سے متعلق تھی اور نو مسلم مغربی اسکالر نے لکھی تھی لیکن یہ سب سے پہلے امریکی پبلشر نے شائع کی‘ بعد ازاں برطانیہ کے ادارے میکس رائن ہارٹ نے اسے شائع کیا اور اس کے بعد اس کے ترجمے جرمن‘ ولندیزی‘ سویڈش‘ فرانسیسی‘ جاپانی اور کروشین زبانوں میں شائع ہوئے او ریورپ کے تمام پبلشنگ ہومز نے نہ صرف علامہ صاحب کو کتاب کا معاوضہ دیا بلکہ پوری زندگی انھیں اور ان کی اہلیہ کو اس کی رائلٹی بھی ملتی رہی۔

جرمنی نے تو علامہ صاحب کو تین سال اپنا مہمان بھی رکھا‘ انھیں جرمن زبان سکھائی‘ ان سے ’’روڈ ٹو مکہ‘‘ کا ترجمہ کرایا اور پھر یہ کتاب شائع کی‘ جرمنی نے اس پر فلم بھی بنائی جب کہ ان کے مقابلے میں پورے عالم اسلام میں یہ کتاب چھپی مگر کسی پبلشر نے انھیں معاوضہ دیا اور نہ ہی ان سے اشاعت کے لیے تحریری اجازت لی‘ علامہ صاحب کی بیگم پولا حمیدہ اسد نے اپنی یاد داشتوں میں لبنان کے ایک پبلشر کا ذکر کیا جس نے نہ صرف اس کتاب کا بلا اجازت ترجمہ شائع کیا تھا بلکہ اس نے کتاب سے صحرائی حصے بھی ایڈٹ کردیے‘ علامہ صاحب نے جب اس سے اس ایڈیٹنگ کی وجہ پوچھی تو اس نے جواب دیا لبنان کے لوگوں نے کبھی صحرا نہیں دیکھا چنانچہ ان کے لیے یہ حصے فضول تھے‘ پولا حمیدہ نے اس پر ہنس کر کہا صحرا تو یورپ اور امریکا کے لوگوں نے بھی نہیں دیکھا لیکن انھوں نے کتاب کے اس پورشن پر کوئی اعتراض نہیں کیا‘ دوسری حقیقت‘ علامہ صاحب نے 92 سال کی طویل زندگی پائی‘ صدی تک پھیلی اس زندگی میں انھیں مسلمان ہونے کے باوجود یورپ اور امریکا کے علم پرور طبقے پالتے رہے جب کہ مسلمان بالخصوص پاکستانی مسلمان انھیں اذیت دیتے رہے ‘ ہم نے مرنے کے بعد بھی اپنے پہلے شہری کو عزت نہیں دی‘ ہم نے ان کے نام سے کوئی ادارہ بنایا اور نہ ہی کسی سڑک کو ان کے نام سے منسوب کیا‘ ہم نے اپنی کوتاہ فہمی‘ نالائقی‘ سازشی فطرت اور کنوئیں کے مینڈکوں کی جعلی اکڑ کی وجہ سے دنیا کا بہت بڑا اسکالر کھو دیا‘ علامہ صاحب پاکستان کے پہلے شہری اور پہلے پاسپورٹ ہولڈر تھے لیکن ہم ان کی قبر پر پھول تک نہیں چڑھاتے‘ وہ غرناطہ کے گم نام قبرستان کی کسی گم نام قبر میں پڑے ہیں مگر یہ احسان فراموش قوم ان کا نام تک بھول چکی ہے‘ علامہ صاحب اپنے اس ’’انجام‘‘ سے واقف بھی تھے‘ ان کی اہلیہ نے اپنی خودنوشت میں ایک واقعہ لکھا‘ آپ کے یہ واقعہ ملاحظہ کیجیے۔

علامہ اسد 1950ء کی گرمیوں میں بیروت میں تھے‘ ایک شام ڈاکٹر ذاکر حسین ملاقات کے لیے ان کے گھر آئے‘ ڈاکٹر صاحب بھارت کی معروف علمی اور سیاسی شخصیت تھے‘ یہ بعد ازاں بھارت کے صدر بھی بنے‘ ڈاکٹر ذاکر حسین نے اس ملاقات کے دوران علامہ اسد کو یاد دلایا ’’میں نے قیام پاکستان سے قبل آپ سے عرض کیا تھا اگر پاکستان میں ان اصولوں پر عمل کیا گیا جن کے بنیاد پر ملک بنایا جا رہا ہے تو میں آپ کے ساتھ پاکستان جائوں گا لیکن مجھے خطرہ ہے‘ یہ ملک چند لوگوں کے مالی مفادات کے لیے بنایا جا رہا ہے اور آپ کو یہ حقیقت چند برسوں میں معلوم ہو جائے گی‘‘ ڈاکٹر صاحب نے علامہ صاحب کو یہ بات یاد کروائی اور اس کے بعد ان سے پوچھا ’’کیا میری بات غلط تھی‘‘ علامہ صاحب اس پر خاموش رہے مگر تاریخ آج تک بول رہی ہے‘ہم مانیں یا نہ مانیں مگر اس ملک پر65 برسوں سے چند مفاد پرستوں کا قبضہ چلا آ رہا ہے‘ یہ مفاد پرست اپنے فائدے‘ اپنے اقتدار کے لیے تمام حدیں عبور کر جاتے ہیں خواہ انھیں اس کے لیے ملک تک کیوں نہ توڑنا پڑ جائے‘ یہ مفاد پرستوں کا ایک کلب ہے جو اس ملک میں ترقی کی ایک خاص حد چھونے والے ہر شخص کو اپنا ممبر بنا لیتا ہے اور یہ بھی مفاد کا ٹوکا لے کر ملک کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرنے میں جت جاتا ہے‘ مفاد کے اس کلب کے ممبرکس قدر سنگ دل ہیں آپ اس کا اندازہ کوئٹہ اور کراچی کی صورتحال سے لگالیجیے‘ ان کی نظر میں کوئٹہ اور کراچی کی کوئی حیثیت ہے اور نہ ہی ہزارہ کمیونٹی کی ہزار لاشوں اور کراچی کے ساڑھے آٹھ ہزار لوگوں کی اموات کی‘ اگر انھیں کوئی دلچسپی ہے تو وہ پانچ ارب روپے کا محل ہے‘ اپنی مرضی کی نگران حکومت ہے اور اگلے الیکشنز میں کامیابی ہے اور پیچھے رہ گئے۔

عوام تو یہ ماضی میں بھی ان کی ترجیح نہیں تھے‘ یہ آج بھی ترجیح نہیں ہیں اور یہ کل بھی ترجیح نہیں ہوں گے کیونکہ یہ اس ملک کی بنیاد سے لے کر آج کے جمہوری دور تک کبھی ترجیح نہیں رہے‘ یہ محض ووٹر ہیں یا لاشیں ہیں‘ مفاد پرست کلب کے ممبر انتخابی نشانوں پر ان سے انگوٹھا لگواتے ہیں‘ اپنا اقتدار پکا کرتے ہیں‘ پانچ پانچ سال کی باری لگاتے ہیں‘ قوم مایوس ہو جاتی ہے تو خفیہ ادارے شہروں میں نعشوں کی کھیتیاں اگا دیتے ہیں‘ یہ کھیتیاں بو دیتی ہیں تو فوج اقتدار پر قابض ہوجاتی ہے‘ سیاسی جماعتیں فوج کو بھگانے کے لیے اپنے ووٹروں کو لاشوں میں تبدیل کرنے لگتی ہیں‘ یہ لاشیں عالمی ضمیر کے دروازے پر دستک دیتی ہیں تو فوجی آمروں کے سپورٹر پیچھے ہٹ جاتے ہیں اور ملک پر مفاد پرست کلب کے سویلین چہرے قابض ہوجاتے ہیں‘ یہ لوگ بندر بانٹ کے ذریعے پانچ سال پورے کرنے میں جت جاتے ہیں اور اس دوران ملک خواہ قبرستان بن جائے انھیں کوئی غرض نہیں ہوتی‘ یہ صرف اور صرف اپنے اقتدار تک محدود رہتے ہیں‘ آپ کو یقین نہ آئے تو آپ کوئٹہ کی سڑکوں پر پڑی لاشیں دیکھ لیں یا پھر کراچی کی تڑتڑ کی آوازیں اور گرتی ہوئی لاشوں کی چیخیں سن لیں‘ بلوچستان میں سال بھر سے کوئی حکومت موجود نہیں‘ کراچی میںریاست ناکام ہے‘ وہاں آئی جی پولیس بھی رینجرز کی سکیورٹی کے بغیر گھر سے نہیں نکلتا مگر ہمارا مفاد پرست کلب جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کی قرار داد پاس کررہا ہے اور نگران وزیراعظم کے نام پر لڑ رہا ہے‘ آپ صورتحال پر تھوڑا سا غور کریں تو آپ کو محسوس ہوگا‘ ہم اٹھارہ کروڑ لوگ مفاد پرست کلب کے ممبروں کی آسودگی کے لیے انسانی کھاد ہیں‘ ہم پیدا ہی ان لوگوں کے انتخابی نشانوں پر انگوٹھا لگانے کے لیے ہوتے ہیں یا پھر فوجی آمروں کی خواہش اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے جنم لیتے ہیں‘ ہم انگوٹھا لگا دیں تو یہ پانچ ارب کے بم پروف محل سے ہم پر حکمرانی کرتے ہیں نہ لگائیں تو یہ پانچ سال کے لیے ملک سے باہر چلے جاتے ہیں اور ان کی جگہ کوئی بندوق علی خان اقتدار پر قابض ہوجاتا ہے۔

ہم پاکستانیوں کا پاکستان کب بنے گا‘ ہم کب آزاد ہوں گے۔

مفاد پرست کلب

جمعـہ 22 فروری 2013

منگل, فروری 12, 2013

’سوال آپ نہیں بلکہ عدالت کرے گی‘

تحریک منہاج القرآن کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری پاکستان کے الیکشن کمیشن کی تحلیل کے لیے اپنی درخواست کی پیروی کے لیے ان چند افراد میں شامل تھے جو عدالت کا وقت شروع ہوتے ہی سپریم کورٹ پہنچ گئے تھے۔ کمرۂ عدالت نمبر ایک میں طاہرالقادری اپنے حماتیوں کے ہمراہ داخل ہوئے اور زیادہ تر نشتوں پر اُن کے حامیوں کا ہی قبضہ تھا جبکہ وکلاء اور اپنے مقدمات کی پیروی کے لیے آنے والے افراد کے پاس کھڑے رہنے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں تھا۔ مقامی وقت کے مطابق ساڑھے نو بجے عدالت میں پہنچنے والے ڈاکٹر طاہرالقادری کو پانچ گھنٹے کے بعد یعنی دوپہر ڈھائی بجے کے قریب روسٹم پر آنے کو کہا گیا۔ کمرۂ عدالت میں موجود افراد یہ چہ مگوئیاں بھی کر رہے تھے کہ احتجاجی دھرنے کے دوران حکومت کو پانچ منٹ میں اسمبلیاں تحلیل کرنے کا حکم دینے والے طاہرالقادری کمرۂ عدالت میں بےبس دکھائی دے رہے ہیں۔

سپریم کورٹ نے پیر کو ’ریگولر مقدمات‘ کی سماعت کرنے کے بعد سپلیمنٹری کاز لسٹ میں شامل طاہرالقادری کو دلائل دینے کو کہا۔ سپریم کورٹ نے جب طاہرالقادری کو روسٹم پر آنے کو کہا تو ان کے ہمراہ آئے ہوئے اُن کے حمایتی بھی روسٹم پر ان کے پیچھے کھڑے ہو گئے جس پر عدالت نے برہمی کا اظہار کیا اور باقی افراد کو اپنی سیٹوں پر بیٹھنے کا حکم دیا۔

طاہرالقادری نے اپنی درخواست کے حق میں دلائل شروع ہی کیے تھے کہ تین رکنی بینچ نے ان کی شہریت سے متعلق سوالات کی بوچھاڑ کردی۔ درخواست گزار بجائے اس کہ وہ اپنی درخواست کے متعلق کچھ دلائل دیتے انہوں نے کینیڈا کی شہریت حاصل کرنے سے متعلق صفائی دینی شروع کردی اور انہوں نے سماعت کرنے والے ججوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’مائی لارڈز میرا سوال ہے‘ جس پر بینچ میں شامل جسٹس عظمت سعید کا کہنا تھا کہ سوال آپ نہیں بلکہ عدالت آپ سے کرے گی اور عدالت کو مطمئین کرنا آپ کی ذمہ داری ہے۔ منہاج القرآن کے سربراہ نے عدالت سے دو منٹ میں اپنی بات مکمل کرنے کی استدعا کی جسے عدالت نے مسترد کردیا اور کہا کہ وہ تحریری شکل میں جواب دیں۔

جمعہ, فروری 01, 2013

بلیوں پر لگا قتل کا الزام

واشنگٹن — بلی بظاہر ایک معصوم اور بے ضرر نظر آنے والا جانور ہے جسے بچے اور بڑے یکساں طور پر پسند کرتے ہیں لیکن امریکہ میں ان پر سالانہ چوبیس ارب پرندوں اور چھوٹے جانوروں کے قتل کا الزام عائد کیا گیا ہے۔

’نیچر کمیونیکیشن‘ نامی ایک آن لائن میگزین میں منگل کے روز، بلیوں کے جنگلی حیات پر اثرات، کے عنوان سے شائع ہونے والی ایک تحقیقی رپورٹ میں اس بات کا انکشاف کیا گیا ہے ہے کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں آوارہ بلیاں سالانہ 3.7 ارب پرندوں اور 20.7 ارب چھوٹے جانوروں کی موت کی وجہ ہیں۔

خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق تحقیق میں کہا گیا ہے کہ پرندوں کی اموات کی سب سے بڑی وجہ بغیر مالک کےآوارہ بلیاں ہیں جو دن بھر انہی چھوٹے جانوروں اور پرندوں کے شکار میں سرگرم رہتی ہیں۔

جنگلی حیات کے تحفظ اور امریکی ادارہ برائے فشریز و جنگلی حیات کی تحقیقی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکی ریاست الاسکا اور ہوائی میں آوارہ بلیاں اپنی خوراک کے لیے چوہوں پر اکتفا کرتی ہیں لیکن دوسری امریکی ریاستوں میں ان بلیوں کا نشانہ پرندے اور دوسرے چھوٹے جانور بنتے ہیں۔

تحقیقی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ شہر کے مضافاتی اور دیہی علاقوں میں بلیاں خرگوش، چوہے، بٹیر، گلہری کو خوراک کے لیے نشانہ بناتی ہیں تاہم گنجان آباد علاقوں میں جہاں جنگلی حیات کم ہوتی ہے بلیاں چوہوں پر ہی اکتفا کرتی ہیں۔

ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں بلیوں کی ایک سو سے زائد اقسام گھریلو بلیوں کے طور پر متعارف کروائی جا چکی ہیں لیکن ان کی بڑی تعداد ابھی تک آوارہ ہے جن پر مقامی، ریاستی یا وفاقی سطح پر توجہ نہیں دی جا رہی۔

امریکہ میں پرندوں کے تحفظ کے ادارے کے ترجمان رابرٹ جانس نے کہا ہے کہ بلیاں بہت پیاری ہوتی ہیں اور ہم ان سے پیار کرتے ہیں لیکن انہیں اس بات کی مزید اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ ماحول کی خوبصورتی کا سبب بننے والے پرندوں کا خاتمہ کر دیں۔

ادھر بلیوں کی تحفظ حیات کے ایک ادارے کے سابق صدر کیرول باربی نےآوارہ بلیوں کے خلاف ممکنہ کارروائی پر اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ ان بلیوں کے خاتمے سے چوہے اور دیگر موزی جانور جو ان بلیوں کا نشانہ بنتے ہیں، انسانون کے لیے مسائل پیدا کر سکتے ہیں۔
انھوں نے اس نئی تحقیق اور اس کی سفارشات پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئےکہا ہے کہ بلیاں کبی کبھار پرندوں کا شکار ضرور کرتی ہیں لیکن وہ ذاتی طور پر اس سے اتفاق نہیں کرتے کہ پرندوں کی موت کی سب سے بڑی وجہ بلیاں ہی ہیں۔

منگل, جنوری 29, 2013

والدین بچوں سے کیا جھوٹ بولتے ہیں

چین اور امریکہ میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق اپنی اولاد کی پرورش میں بچوں کا رویہ تبدیل کرنے کے لیے بیشتر والدین جھوٹ بولتے ہیں۔ عام جگہوں پر والدین اپنے بچوں کو اکثر دھمکی دیتے ملیں گے کہ اگر وہ اپنی حرکت سے باز نہیں آئے تو انہیں تنہا چھوڑ کر چلے جائیں گے جو اس کی ایک واضح مثال یہ ہے۔ اس کے لیے کئی بار پرانی کہانیوں کا بھی سہارا لیا جاتا ہے۔ بچوں کو بعض خاص چیز کھانے کے لیے راضی کرنے کے لیے کہا جاتا ہے کہ اگر آپ فلانی سبزی نہیں کھائیں گے تو اندھے ہوسکتے ہیں۔ اس تجزیاتی رپورٹ کو نفسیات سے متعلق ایک عالمی میگزین ’انٹرنیشنل جرنل آف سائیکالوجی‘ میں شائع کیا گيا ہے جس میں اس طرح کے جھوٹ کا جائزہ لیا گيا ہے۔ تقریباً دو سو خاندانوں کے ساتھ انٹرویو پر مبنی اس رپورٹ کے مطابق امریکہ اور چین دونوں ملکوں میں والدین کی ایک بڑی اکثریت بچوں کو راہ راست پر لانے کے لیے اس طرح کے جھوٹ کا سہارا لیتی ہے۔

اس کی ایک بہت عام مثال یہ ہے کہ بچے کئی بار ایک جگہ سے نہیں جانا چاہتے یا بہت شرارت کرتے ہیں تو انہیں تنہا چھوڑنے کی دھمکی دی جاتی ہے۔ رپورٹ میں کہا گيا ہے ’اس نوعیت کا جھوٹ دنیا بھر ان تمام والدین میں عام ہے جو اپنے بچوں کی مرضی کے خلاف اس جگہ سے جانا چاہتے۔‘ ایک اور جھوٹ، جو بہت عام ہے، یہ کہ جب بچے کھلونا دلانے کی ضد کرتے ہیں تو والدین بچوں سے یہ کہ کر کر جھوٹا وعدہ کرتے ہیں کہ ہاں وہ مستقل میں اسے لے دیں گے۔

محقیقین نے ایسے بہت سے جھوٹوں کو جمع کیا ہے۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ جب بچے شرارت کرتے ہیں تو ان سے کہا جاتا ہے کہ ’اگر باز نہیں آ‏ئے تو میں پولیس کو کال کرونگا‘۔ یا بعض دفعہ کہا جاتا ہے کہ اگر وہ رویہ نہیں بدلتے تو ’پھر وہ جو خاتون وہاں پر کھڑی ہیں وہ آپ سے بہت ناراض ہو جائیں گي‘۔ بعض دفعہ والدین جھوٹ بول کر بچوں کو منانے میں اس سے بھی آگے بڑھ جاتے ہیں۔ ایسے ہی ایک واقعے میں یہ کہتے سنا گيا ’اگر تم میرے ساتھ نہیں چلوگے تو پھر ایک اغوا کرنے والا آئے گا اور تمہیں یرغمال بناکر لے جائےگا‘۔

لیکن اس سلسلے میں اس طرح کے بھی بہت سے جھوٹ ہیں جو بچوں کے احساسات کے تحفظ کو خیال کرکے مثبت اثر کے لیے بولے جاتے ہیں۔ جیسے یہ کہنا کہ ’آپ کا پالتو، کتا یا بلی، آپ کے انکل کے فارم میں رہنے گيا ہے جہاں اسے کھیلنے کودنے کے لیے زیادہ وسیع جگہ ملے گي‘۔ کئي بار دکان پر بچوں سے یہ جھوٹ بولا جاتا ہے کہ ’آج پیسے نہیں لایا ہوں اور اس کے لیے کسی اور روز واپس آئیں گے‘۔ اس رپورٹ میں یہ بات واضح نہیں کی گئی ہے کہ اس سلسلے میں ماں اور باپ کے جھوٹ بولنے میں کیا فرق ہے۔ ریسرچ کرنے والے ماہرین کا تعلق امریکہ میں کیلیفورنیا یونیورسٹی، چین میں زیجنگ نیشنل یونیورسٹی اور یونیورسٹی آف کینیڈا کے شعبہ نسفیات سے ہے۔ امریکہ اور چین دونوں میں اس طرح کے جھوٹ عام بات ہے لیکن امریکہ کے بہ نسبت چین میں یہ کچھ زیادہ ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق بچوں کے رویہ میں تبدیلی کے لیے اس طرح کے جھوٹ کو سماج میں قبول کر لیا گيا ہے۔ مثال کے طور پر بچوں کو سبزی یا صلاد کھانے کی ترغیب دینے کے لیے کہا جاتا ہے کہ وہ اگر بروکلی کھائیں گے تو زیادہ لمبے ہوں گے۔

اس رپورٹ میں کہا گيا ہے کہ بچوں کے ساتھ یہ رویہ رکھنے پر بڑے ہونے پر والدین اور ان کے درمیان تعلقات متاثر ہوسکتے ہیں۔اور بچوں میں اس سے جھوٹ بولنے کی بھی عادت پڑ جاتی ہے۔

والدین بچوں سے کیا جھوٹ بولتے ہیں

پیر, جنوری 21, 2013

جس عورت کا خاوند موجود نہ ہو اس کے گھر جانے کا بیان


قتیبہ بن سعید، لیث، یزید بن ابی حبیب، ابوالخیر، عقبہ بن عامر کہتے ہیں کہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

عورتوں کے گھر (تنہائی میں) جانے سے پرہیز کرو،

ایک انصاری شخص نے کہا کہ دیور کے متلعق آپ کا کیا حکم ہے،

آپ نے فرمایا دیور تو موت ہے (یعنی اس سے زیادہ بچنا چاہئے) ۔

---------------------------------------------
Narrated 'Uqba bin 'Amir
Allah's Apostle said, "Beware of entering upon the ladies." A man from the Ansar said, "Allah's Apostle! What about Al-Hamu the in-laws of the wife (the brothers of her husband or his nephews etc.)?" The Prophet replied: The in-laws of the wife are death itself

----------------------------------------------

صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 217

حدیث مرفوع مکررات 5 متفق علیہ 4

رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

ابو لہب جو مشہور کافر تھا اور سید دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا رشتہ میں چچا تھا۔ جب رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت مبارک ہوئی تو ابو لہب کی لونڈی ثویبہ نے آپ کی ولادت باسعادت کی خوش خبری اپنے مالک ابو لہب کو سنائی تو ابولہب نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی خوشی میں اپنی لونڈی کو آزاد کردیا۔

جب ابو لہب مرگیا تو کسی نے خواب میں دیکھا اور حال دریافت کیا تو اس نے کہا کہ کفر کی وجہ سے دوزخ کے عذاب میں گرفتار ہوں مگر اتنی بات ہے کہ ہر پیر کی رات عذاب میں تخفیف ہوجاتی ہے اور جس انگلی کے اشارے سے میں نے اپنی لونڈی کو آزاد کیا تھا اس سے مجھے پانی ملتا ہے جب میں انگلی چوستا ہوں۔

ابن جوزی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں جب ابو لہب کافر (جس کی مذمت میں سورہ لہب نازل ہوئی) کو یہ انعام ملا تو بتاؤ اس مسلمان کو کیا صلہ ملے گا جو اپنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی خوشی منائے۔ اس کی جزا اللہ کریم سے یہی ہوگی کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل عمیم سے اسے جنات النعیم میں داخل فرمائے گا۔ الحمدللہ ربّ العالمین۔

میلاد کرنا اور اس سے محبت کرنا ایمان کی علامت ہے اور میلاد پاک کا ثبوت قرآن مجید، احادیث شریفہ اور اقوال بزرگانِ دین سے ہے۔ میلاد شریف میں ہزاروں برکتیں ہیں۔ اس کو بدعت کہنا دین سے ناواقفیت پر مبنی ہے۔

لَقَدْ جَآءَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُوْمِنِیْنَ رَؤُوْفٌ الرَّحِیْم (پ ١١ سورۃ توبہ ١٢٨)
ترجمہ: بے شک تمہارے پاس تشریف لائے تم میں سے وہ رسول جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا گراں ہے۔ تمہاری بھلائی کے بہت چاہنے والے ہیں اور مسلمانوں پر کمال مہربان۔ (کنزالایمان)

اس آیت شریفہ میں پہلے اللہ جل شانہ، نے فرمایا کہ ”مسلمانو تمہارے پاس عظمت والے رسول تشریف لائے“ یہاں تو اپنے حبیب پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت شریفہ بیان فرمائی پھر فرمایا کہ ”وہ رسول تم میں سے ہیں“ اس میں اپنے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کا نسب شریف بیان فرمایا ہے پھر فرمایا ”تمہاری بھلائی کے بہت چاہنے والے اور مسلمانوں پر کرم فرمانے والے مہربان ہیں“ یہاں اپنے محبوب پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی نعت بیان فرمائی۔

اللہ تعالیٰ حکم فرما رہا ہے؛
قُلْ بِفَضْلِ اللّٰہِ وَ بِرَحْمَتِہ فَبِذٰلِکَ فَلْیَفْرَحُوْا ہُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ (پ ١١، سورۃ یونس، ٥٨)
ترجمہ: تم فرماؤ اللہ ہی کے فضل اور اسی کی رحمت، اسی پر چاہئے کہ خوشی کریں، وہ ان کے سب دھن دولت سے بہتر ہے۔ (کنزالایمان)


مفسرینِ کرام مثلاً علامہ ابن جوزی (م ۔٥٩٧ھ)، امام جلال الدین سیوطی (م۔ ٩١١ھ) علامہ محمود آلوسی (م۔ ١٢٧٠ھ) اور دیگر نے متذکرہ آیت مقدسہ کی تفسیر میں ”فضل اور رحمت“ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مراد لیا ہے (حوالے کے لئے دیکھیں: زاد المسیر، جلد ٤، صفحہ ٤٠، تفسیر درِّ منثور، جلد ٤، صفحہ ٣٦٨، تفسیر روح المعانی، جلد ٦، صفحہ ٢٠٥) مفسرینِ کرام کی وضاحت و صراحت کے بعد یہ ثابت ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و رحمت کے عموم میں کائنات اور اس کے لوازمات بھی شمار ہونگے لیکن فضل و رحمت سے مطلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مراد ہوگی کہ جملہ کائنات کی نعمتیں اسی نعمتِ عظمیٰ کے طفیل ہیں اور اس ذات کی تشریف آوری کا یوم بھی فضل و رحمت سے معمور ہے، پس ثابت ہوا کہ یومِ میلاد، آپ ہی کی ذاتِ با برکات کے سبب اس قابل ہوا کہ اسی دن اللہ کے حکم کے مطابق خوشی منائی جائے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ میلاد کی خوشیوں کےلئے یوم کا تعین کیا جاسکتا ہے۔

میلاد بیان کرنا سنت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: بعض لوگ لا علمی کی بنا پر میلاد شریف کا انکار کردیتے ہیں ۔ حالانکہ محبوب کبریا صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنا میلاد بیان کیا ہے۔ سیدنا حضرت عباس رضی اللہ عنہ، فرماتے ہیں کہ سید العرب و العجم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اطلاع ملی کہ کسی گستاخ نے آپ کے نسب شریف میں طعن کیا ہے تو ،

فَقَالَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم عَلَی الْمِنْبَرِ فَقَالَ مَنْ اَنَا فَقَا لُوْ اَنْتَ رَسُوْلُ اللّٰہِ۔۔ قَالَ اَنَا مُحَمَّدُ ابْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدُ الْمُطَّلِبْ اِنَّ اللّٰہَ خَلَقَ الْخَلْقَ فَجَعَلْنِیْ فِیْ خَیْرِ ہِمْ ثُمَّ جَعَلَہُمْ فِرْقَتَیْنِ فَجَعَلْنِیْ فِیْ خَیْرِ ہِمْ فِرْقَۃً ثُمَّ جَعَلَہُمْ قَبَائِلَ فَجَعَلْنِیْ فِیْ خَیْرِ ہِمْ قَبِیْلَۃً ثُمَّ جَعَلَہُمْ بُیُوْتًا فَاَنَا خَیْرُ ہُمْ نَفْسًا وَخَیْرُہُمْ بَیْتًا
 

(رواہ الترمذی ، مشکوٰۃ شریف رضی اللہ تعالی عنہ ٥١٣)
ترجمہ: پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ممبر پر تشریف لائے اور فرمایا کہ میں کون ہوں؟ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کیا کہ آپ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں ۔ فرمایا میں عبدالمطلب کے بیٹے کا بیٹا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے مخلوق پیدا کی ان میں سب سے بہتر مجھے بنایا پھر مخلوق کے دو گروہ کئے ان میں مجھے بہتر بنایا پھر ان کے قبیلے کئے اور مجھے بہتر قبیلہ بنایا پھر ان کے گھرانے بنائے مجھے ان میں بہتر بنایا تو میں ان سب میں اپنی ذات کے اعتبار اور گھرانے کے اعتبار سے بہتر ہوں۔



اس حدیث شریف سے ثابت ہو اکہ حضور پر نور شافع یوم النشور صلی اللہ علیہ وسلم نے بذاتِ خود محفلِ میلاد منعقد کی جس میں اپنا حسب و نسب بیان فرمایا ۔ نیز یہ بھی ثابت ہوا کہ محفل میلاد کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ اس مجلس و محفل میں ان لوگوں کا رد کیا جائے جو آپ کی بدگوئی کرتے ہوں۔

اعلیٰ حضرت امام اہلسنت علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں

سارے اچھوں میں اچھا سمجھئے جسے

ہے اس اچھے سے اچھا ہمارا نبی صلی اللہ علیہ وسلم

سارے اونچوں سے اونچا سمجھئے جسے

ہے اس اونچے سے اونچا ہمارا نبی صلی اللہ علیہ وسلم

تعیّن تاریخ پر قرآنی دلیل:
وَزَکِّرْہُمْ بِاَ یَّامِ اللّٰہِ ط (پ ١٣۔ سورۃ ابراہیم)

اے موسیٰ ان کو یاد دلاؤ اللہ تعالیٰ کے دن

ہر عام و خاص جانتا ہے کہ ہر دن اور رات اللہ تعالیٰ ہی کے ہیں۔ پھر اللہ کے دنوں سے کیا مراد ہے؟ ۔۔۔۔۔۔ ان دنوں سے مراد خدا تعالیٰ کے وہ مخصوص دن ہیں جن میں اس کی نعمتیں بندوں پر نازل ہوئی ہیں۔ چنانچہ اس آیت کریمہ میں سیدنا حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حکم ہوا کہ آپ اپنی قوم کو وہ دن یاد دلائیں جن میں اللہ جل شانہ، نے بنی اسرائیل پر من و سلویٰ نازل فرمایا۔

مقام غوریہ ہے کہ اگر من و سلوٰی کے نزول کا دن بنی اسرائیل کو منانے کا حکم ہوتا ہے تو آقائے دو جہاں سید کون و مکاں صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت پاک (جو تمام نعمتوں میں اعلیٰ اور افضل ہے) کا دن بطور عید منانا، اس کی خوشی میں جلوس نکالنا، جلسے منعقد کرنا، مساکین و فقراء کے لئے کھانا تقسیم کرنا کیوں کر بدعت و حرام ہوسکتا ہے؟

حدیث شریف سے تعیّن یوم پر دلیل:
عَنْ اَبِیْ قَتَا دَۃ قَالَ سُئِلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم عَنْ صَوْمِ یَوْمِ الْاَثْنَیْنِ فَقَالَ فِیْہِ وُلِدْتُ وَفِیْہِ اُنْزِلَ عَلَیَّ (مشکوٰۃ صفحہ ١٧٩)

ترجمہ: سیدنا حضرت ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پیر کے دن روزہ رکھنے کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ میں اسی دن پیدا ہوا۔ اور اسی روز مجھ پر قرآن نازل ہوا۔

اس حدیث شریف نے واضح کردیا کہ کسی دن کا تعین و تقرر کرنا ناجائز نہیں ہے۔ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بروز پیر دو نعمتیں نازل فرمائی گئی تھیں ایک ولادت مقدسہ اور دوسرے نزول قرآن، اسی لئے آپ نے پیر کے دن کو روزہ رکھنے کے معیّن فرمایا۔

ماہِ ربیع الاول شریف کیلئے خصوصی ہدایات:

ربیع الاول شریف کے مقدس مہینے میں حصول برکات کیلئے، عبادات کی کثرت (نماز، روزہ اور صدقات و خیرات) کیجئے۔ گناہوں سے بچنے کا خصوصی اہتمام اس مہینے میں کرنا چاہئے، جھوٹ ، غیبت، چغلی، ایذا رسانی، الزام تراشی، غصہ و برہمی وغیرہ سے اپنی ذات کو آلودہ نہ کیجئے، عید میلاد النبی ؐ کے دن اپنے چہروں پر مسکراہٹ سجائے رکھئے، کسی سے بھی (اپنا ہو یا پرایا) جھگڑا کرنے سے اجتناب کیجئے۔

ایک خاص تحفہ:

ماہ ربیع الاول شریف کی کسی بھی جمعرا ت کے دن یا شبِ جمعہ گلاب کے چند پھول لے کر اپنے گھر میں باوضو ہوکر بیٹھیں، پھولوں کو سامنے رکھیں، درود شریف تین مرتبہ پڑھیں پھر

اَللّهُ نَاصِرٌ ۔۔۔۔۔۔ اَللّٰهُ حَافِظٌ ۔۔۔۔۔۔ اللّٰهُ الصَّمَد

٣١٣ مرتبہ پڑھیں اور تین مرتبہ درود شریف پڑھ کر پھولوں پر دم کردیں، اور یہ پھول مٹھائی وغیرہ کے ساتھ ملا کر کھالیں، مشائخ سے منقول ہے کہ جو ایسا کرے گا پورے سال بھر رزق میں برکت ہوگی، مفلسی قریب نہیں آئے گی۔

ماہِ ربیع الاول میں کائنات کا اہم ترین اور مبارک واقعہ

١٢ ربیع الاول شریف عین صبح صادق کے وقت آقائے دوجہاں علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دنیا میں تشریف آوری پیر کا دن ، ٢٢ اپریل ٥٧١ء ۔۔۔۔۔۔ ٥٣ قبل ہجری ۔۔۔۔۔۔ ١١ماہ بشینس ٣٦٧٥ طوفان نوح ۔۔۔۔۔۔ یکم جیٹھ ٣٦٧٢ کُل جگ ۔۔۔۔۔۔ ٢٠ ماہ ہفتم ٢٥٨٥ ابراہیمی ۔۔۔۔۔۔ یکم جیٹھ ٦٢٨ بکرمی شمسی ۔۔۔۔۔۔ ٢٠ نسیان ٨٣٣٢ خلیقہ یہودی ۔۔۔۔۔۔ ٢٠ نیسان ٨٢٢ سکندری

اتوار, جنوری 20, 2013

نادرا کی تین مفید سہولتیں


آوارہ کتا چار لاکھ روپے لے کر ’فرار‘

بھارتی ریاست بہار میں ایک تاجر نے پولیس میں رپورٹ درج کرائی ہے کہ ایک آوارہ کتا ان کا چار لاکھ روپوں سے بھرا بیگ لے کر بھاگ گیا ہے۔ یہ دلچسپ واقعہ بہار کے دارالحکومت پٹنہ سے ڈیڑھ سو کلومیٹر دور گوپال گنج ضلع میں پیش آیا ہے۔ نکچھید میاں نامی تاجر نے پولیس میں جو رپورٹ درج کرائی ہے اس میں انہوں نے کہا ہے کہ نوٹوں سے بھرا بیگ ان کے بستر پر رکھا تھا، وہ نل پر ہاتھ دھونے کے لیے باہر نکلے ٹھیک اسی وقت ایک کتا ان کے کمرے میں گھنسا اور بیگ اٹھا کر بھاگ گیا۔ جب اس کتے کی تلاش ہوئی تب نکچھید کے گھر کے نزدیک سڑک پر ایک لاکھ چالیس ہزار روپے پڑے ملے لیکن باقی پیسے ابھی تک نہیں مل پائے ہیں۔

بھارت میں سڑکوں پر آوارہ کتے عام ہیں اور پولیس کا کہنا ہے کہ شاید کتے نے سوچا ہوگا کہ بیگ میں کچھ کھانے کا سامان ہے۔ نکچھید میاں نے اس واقعہ کی تحریری شکایت درج کرائی ہے لیکن پولیس اہلکار دیوندر پرساد کا کہنا ہے کہ کتے کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا سوال ہی نہیں اٹھتا ہے۔ نکچھید میاں کا کہنا ہے کہ ان کی بیٹی یو اے ای میں کام کرتی ہے اور اس نے زمین خریدنے کے لیے یہ رقم بھیجی تھی۔ مقامی لوگوں نے نکچھید میاں کے بیگ کی تلاش کا کام شروع کر دیا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ کتے نے کہیں بیگ چھوڑ دیا ہوگا اور ہو سکتا ہے اسے کسی اور نے اٹھا لیا ہو۔

آوارہ کتا چار لاکھ روپے لے کر ’فرار‘

ہفتہ, جنوری 19, 2013

گوگل کی نئی عینک

گوگل نے ایک ایسی عینک تیار کی ہے جو انٹرنیٹ سے منسلک ہوسکے گی اور اس کے ذریعے تمام درکار معلومات کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھا جا سکے گا۔ لیکن ابتدائی طور پر یہ چشمہ صرف سافٹ ویئر تیار کرنے والوں کے لیے ہے اور عام لوگ اس سے استفادہ نہیں کر سکیں گے۔

کمپنی نیویارک اور سان فرانسسکو میں تقریبات منعقد کررہی ہے جہاں سافٹ ویئر ڈویلپ کرنے والوں کو اس عینک کا ابتدائی تعارف پیش کیا جائے گا، تاہم اس کی افادیت کے بارے میں مزید تفصیلات جاری نہیں کی گئیں۔ گوگل کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے بتایا کہ ابتداء میں سافٹ وئیر ڈیولپرز کو یہ چشمہ 1500 ڈالر میں فروخت کیا جائے گا۔

گوگل کی نئی عینک

بدھ, جنوری 16, 2013

Father and Son

One old man was sitting with his 25 years old son in the train.

Train is about to leave the station.

All passengers are settling down their seat.

As train started young man was filled with lot of joy and
curiosity.
He was sitting on the window side.

He went out one hand and feeling the passing air. He
shouted, "Papa see all trees are going behind".
Old man smile and admired son feelings.

Beside the young man one couple was sitting and listing all
the conversion between father and son.
They were little awkward with the attitude of 25
years old man behaving like a small child.
Suddenly young man again shouted, "Papa see the pond
and animals. Clouds are moving with train".
Couple was watching the young man in embarrassingly.

Now its start raining and some of water drops touches the
young man's hand.
He filled with joy and he closed the eyes.

He shouted again," Papa it's raining, water is
touching me, see papa".
Couple couldn't help themselves and ask the old man.

"Why don't you visit the Doctor and get treatment for your son."

Old man said,
" Yes, We are coming from the hospital as Today
only my son got his eye sight for first time in his life".
Moral: "Don't draw conclusions until you know all the facts".