جمعرات, نومبر 08, 2012

سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
تو اس کے شہر میں‌ کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے درد کی گاہک ہے چشمِ ناز اس کی
سو ہم بھی اس کی گلی سے گزر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں
یہ بات ہے تو چلو بات کرکے دیکھتے ہیں

سنا ہے دن کو اسے تتلیاں ستاتی ہیں
سنا ہے رات کو جگنو ٹھہر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے حشر ہیں‌اس کی غزال سی آنکھیں
سنا ہے اس کو ہرن دشت بھر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے اس کی سیاہ چشمگی قیامت ہے
سو اس کو سرمہ فروش آہ بھر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے جب سے ہمائل ہے اس کی گردن میں
مزاج اور ہی لعل و گوہر کے دیکھتے ہیں

رکے تو گردشیں اس کا طواف کرتی ہیں
چلے تو اس کو زمانے ٹھہر کے دیکھتے ہیں

ہفتہ, نومبر 03, 2012

سندھ: بیوی کو زخمی کرنے پر خاوند گرفتار

پاکستان کے صوبہ سندھ میں پولیس نے ایک شخص کو اپنی بیوی کی ناک، کان اور چھاتی کو بلیڈ سے زخمی کرنے کے الزام میں گرفتار کیا ہے۔ یہ واقعہ گزشتہ ہفتے وسطی سندھ کے ضلع سانگھڑ میں پیش آیا تھا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ بھٹ شاہ میں چھاپہ مار کر ملزم مارو بھیل کو گرفتار کیا گیا ہے۔ 

کراچی سے نامہ نگار ریاض سہیل کے مطابق ملزم مارو بھیل نے صحافیوں کو بتایا کہ جب انہیں معلوم ہوا کہ ان کے بھائی اور والد گرفتار ہیں تو انہوں نے گرفتاری دینے کرنے کا فیصلہ کیا تھا مگر اس سے پہلے ہی پولیس نے انہیں گرفتار کر لیا۔ ملزم مارو بھیل نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے اپنی بیوی لالی بھیل پر بد کرداری کا الزام عائد کیا اور کہا کہ ’انہوں نے کئی بار لالی کو روکا مگر لالی نے ان کی بات نہیں مانی۔‘ ملزم کا کہنا تھا کہ ’وہ تنگ آ کر بیوی کو اپنے بھائی کے گھر سانگھڑ شہر لے آئے مگر وہاں بھی لالی کے رشتے دار پہنچ گئے، ایک روز جب اس کا بھائی بیوی بچوں کے ساتھ گیا ہوا تھا تو انہوں نے لالی کو سبق سکھانے کا فیصلہ کیا۔‘ مارو بھیل نے بتایا کہ’وہ لالی کے منہ پر کپڑا باندھ کر اسے قریبی فصل میں لے گئے، جہاں لالی کے ہاتھ پاؤں رسی سے باندھ کر بلیڈ کی مدد سے کان، ناک اور چھاتی کو زخمی کر دیا۔‘

  ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ لالی بھیل کے ناک، کان اور چھاتی کی پلاسٹک سرجری کی ضرورت پڑے گی، صوبائی وزیر اقلیت امور موہن کوہستانی نے متاثرہ خاندان سے ملاقات کی ہے اور انہیں ایک لاکھ روپے دینے کی یقین دہانی کرائی ہے۔

مارو بھیل مزدوری کرتے ہیں اور ان کے تین بچے ہیں، اس واقعے میں ایک نومولود بچہ ہلاک بھی ہوگیا تھا۔ مارو بھیل کا کہنا ہے کہ بچہ پیروں تلے دب کر ہلاک ہوا۔ زخمی لالی بھیل کو کراچی کے جناح ہپستال میں منتقل کر دیا گیا ہے۔ ہسپتال میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے لالی بھیل نے ملزم کی گرفتاری پر خوشی کا اظہار کیا۔ ان کے مطابق’مارو بھیل انہیں جنگل میں لے گیا جہاں رسی سے باندھ کر ناک، دونوں کان اور چھاتی کو زخمی کیا اور اس کے بعد وہاں ہی چھوڑ کر فرار ہوگیا۔‘ مسمات لالی کا دعویٰ ہے کہ ان کے نومولود بیٹے کو مبینہ طور پر گلہ گھونٹ کر ہلاک کیا گیا ہے، کیونکہ ان کے شوہر کا الزام تھا کہ یہ بچہ اس کا نہیں کیونکہ اس کی شکل مختلف ہے۔

لالی بھیل اور ان کے شوہر مارو بھیل دونوں کا تعلق ضلع سانگھڑ سے ہے اور دونوں کی شادی کو چھ سال ہو چکے ہیں۔ اپنی بیٹی لالی کو علاج کے لیے کراچی لانے والے آچر بھیل نے بتایا کہ میاں بیوی میں رنجش تو گزشتہ چار سالوں سے تھی مگر ایک سال قبل مارو کی بہن کے بیوہ ہونے کے بعد اس میں شدت آگئی۔ آچر بھیل نے بتایا کہ مارو نے انہیں شکایت کی تھی کہ اسے لالی کے کردار پر شک ہے، جس کے بعد وہ اپنی بیٹی کو اپنے پیر باقر شاہ کی مزار پر لے گئے تھے جہاں اس نے قسم لی تھی کہ اس پر جھوٹے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔

سندھ: بیوی کو زخمی کرنے پر خاوند گرفتار

پاکستان میں مسافر پرندوں کے ڈیرے

کراچی کے ساحلوں اور اندرون سندھ کی جھیلوں پر مسافر پرندوں کے ڈیرے لگ گئے ہیں۔ کلفٹن ، ہاکس بے، پیراڈائز پوائنٹ اور سینڈز پٹ کی سنہری ریت میں جھنڈ در جھنڈ کھیلتے اور بھانت بھانت کی سریلی آوازیں نکالتے ہزاروں پرندے ان ساحلوں کی خوب صورتی کو چار چاند لگائے ہوئے ہیں۔ ان پرندوں کی آمد کے ساتھ ہی ساحل پر ان کا نظارہ کرنے والوں کا بھی رش بڑھ گیا ہے۔

یہ پرندے سائبیریا، وسط ایشیائی ریاستوں، منگولیا، روس، مشرقی یورپ، چین اور دیگر ممالک سے براستہ افغانستان اور ایران، پاکستان میں داخل ہوتے ہیں اور دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ میدانی علاقوں کے آبی مقامات پر ڈیرہ ڈالتے ہیں۔

ان پرندوں کی آمد کی بنیادی وجہ وہ سخت موسم ہوتا ہے جس میں نہ صرف شدید برف باری ہوتی ہے بلکہ اس قدر یخ بستہ ہوائیں چلتی ہیں کہ انسان تک پناہ مانگنے لگتے ہیں۔ ان دنوں برفیلے علاقوں کا درجہ حرارت منفی 30 ڈگری سے بھی نیچے چلا جاتا ہے۔ ایسے میں یہ پرندے قدرت سے سدھائے ہوئے طریقے پر چلتے ہوئے معتدل موسم کے ملکوں کا رخ کرتے ہیں۔

ستمبر کے آخر سے ان پروندوں کی آمد کاسلسلہ شروع ہوجاتا ہے جو اپریل تک رہتا ہے۔ ان پرندوں کی آمد کے حوالے سے وائس آف امریکہ سے تبادلہ خیال کرتے ہوئے ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے ویٹ لینڈ سینٹر کے انچارج ڈاکٹر بابر حسین نے کہا ’سائبریا سے ہرسال تقریباً ایک سو دس اقسام کے پرندے پاکستان آتے ہیں۔ ان میں زیادہ تر بطخیں اور بگلے ہوتے ہیں۔ ان پرندوں کے نظارے کا بہترین وقت جنوری کا مہینہ ہوتا ہے جب یہ پرندے اپنے پورے جوبن پر ہوتے ہیں۔‘

بابر حسین کا کہنا ہے کہ زیادہ تر پرندے ’سینڈزپٹ ‘ پر اترتے ہیں جبکہ اندرون سندھ رن آف کچھ اور ہالیجی جھیل بھی ان پرندون کی قیام گاہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ چونکہ سینڈزپٹ پر مینگروز کی تعداد بہت زیادہ ہے اس لیے یہاں پرندوں کو آسانی سے خوراک مل جاتی ہے۔ سندھ کی آبی قیام گاہوں میں گھاس کی ایک خاص قسم بھی پائی جاتی ہے جس کے چھوٹے چھوٹے پتے اور بیج و چھوٹی مچھلیاں ان کی پسندیدہ خوراک ہے۔ یہ پرندے اپنی افزائش نسل کے بعد اپریل کے وسط تک واپسی کا سفر شروع کردیتے ہیں۔‘

کراچی کے علاوہ اندرون سندھ کے جنگلوں، دمکتی جھیلوں اور تالابوں میں بھی سینکڑوں مہاجر پرندے ہر سال اپنا عارضی بسیرا بناتے ہیں۔ ان پرندوں میں تلور، کونج، بھگوش، چارو، چیکلو، لال سر، بنارو اور دیگر چھوٹی بطخیں اور دوسرے بے شمار پرندے شامل ہیں۔ یہ پرندے زیادہ تر رن کچھ کے ساحلی علاقے اور تھر کے ریگستانوں میں اُترتے ہیں۔ اس کے علاوہ منچھر، کلری اور ہالیجی جھیلیں بھی ان پروندوں کے ٹھہرنے کی پسندیدہ جگہیں ہیں۔

ڈپٹی کنزویٹو سندھ وائلڈ لائف ڈاکٹر فہمیدہ اور دیگر ماہرین کے مطابق کئی سال پہلے تک پاکستان میں تقریباً 10لاکھ پرندے آتے تھے لیکن اب ہر سال ان پرندوں کی تعداد میں کمی آرہی ہے۔ اس کی سب سے پہلی اور بنیادی وجہ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ ہے۔ قدرت نے ان پرندوں کو بہت حساس ناک دی ہے جس کی مدد سے یہ بارود اور خطرے کی بو بہت دور سے ہی پہچان لیتے ہیں لہذا افغانستان کے راستے آنے والے پرندوں نے آمد بند کردی ہے۔

ادھر سندھ کی جن جھیلوں اور تالابوں پر یہ بسیرا کرتے تھے وہ صنعتی فضلے، کوڑا کرکٹ اور دیگر زہریلے مادے سے بھر گئے ہیں لہذا ان پرندوں نے اس وجہ سے بھی آنا کم کردیا ہے۔ شوگر ملوں اور فیکٹریوں سے نکلنے والے زہریلے دھویں اور مواد نے دریا میں چھپی ان کی خوراک کو بھی زہریلا بنا دیا ہے۔ اس وجہ سے اب یہ پرندے پاکستان کا رخ کرنے کے بجائے بھارت جانے لگے ہیں۔ بھارتی ریاست راجستھان اور گجرات میں ان کا پرجوش استقبال کیا جاتا ہے۔ یہاں ان کے تحفظ کے لئے بھی کئی تظیمیں سرگرم عمل ہیں۔

ان پرندوں کی آمد میں کمی کی ایک بڑی وجہ غیر قانونی شکار بھی ہے۔ موسم بدلتا نہیں کہ شکاریوں کی آمد کا سلسلہ بھی شروع ہوجاتا ہے۔ یہ شکاری با اثر ہونے کے سبب قانون سے کھیلتے اور محض اپنے شوق میں ہزاروں پرندے مار دیتے ہیں۔

کراچی سمیت سندھ کے ساحلوں پر مسافر پرندوں کے ڈیرے

ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے

ڈاکٹر صفدر محمود
safdar.mehmood@janggroup.com.pk
 
خیال آیا کہ عید ابھی کل ہی گزری ہے۔ تمام تر مسائل کے باوجود لوگ تین دن تک عید مناتے رہے ہیں اس لئے عید کے تناظر میں کوئی ہنستی مسکراتی تحریر لکھنی چاہئے۔ دل نے کہا جہاں ہر روز نا اہلی، کرپشن اور بے حسی کے زخم کھلتے ہوں وہاں ہنستے مسکراتے الفاظ تخلیق کرنا نہایت کٹھن کام ہوتا ہے۔ زخم کھا کر مسکرانا ہم جیسے کمزور لوگوں کے بس کا روگ نہیں۔ ہم تو کرپشن اور نا اہلی کا ماتم کرتے رہیں گے اور بے حسی پر آنسو بہاتے رہیں گے کوئی ہماری فریاد سنے یا نہ سنے، سچی بات یہ ہے کہ ہم مسکرانا بھی چاہیں تو ایسی خبریں مسکرانے نہیں دیتیں۔
عید کے دن کے اخبارات میرے سامنے رکھے تھے اور میں دو خبریں پڑھ کر اداسی کے سمندر میں ڈبکیاں کھا رہا تھا۔ ہاں یاد رکھیئے کہ یہ دو خبریں تو دیگ کے محض دو دانے ہیں ورنہ کوئی دن نہیں گزرتا کہ اربوں کی کرپشن اور نا اہلی کی داستانیں پڑھنے اور سننے کو نہ ملتی ہوں۔ کرپشن کے پہاڑوں کے سامنے یہ خبر تو محض رائی کی حیثیت رکھتی ہے لیکن نہ جانے کیوں میں اسے پڑھ کر مغموم ہو گیا اور حکومتی نا اہلی کا دل ہی دل میں ماتم کرنے لگا۔ پھر سوچنے لگا کہ جہاں قومی وسائل کو اس بے دردی سے ضائع کیا جا رہا ہو، وہاں معاشی امراض کا علاج ناممکن ہے۔ اصل مسئلہ وسائل کی قلت نہیں بلکہ وسائل کا زیاں ہے۔ میں آپ سے کوئی خفیہ بات شیئر نہیں کر رہا، چھپی ہوئی خبروں کا نوحہ لکھ رہا ہوں۔
ہماری نوجوان نسل کو علم نہیں کیونکہ انہوں نے پاکستان کو بدحالی کا شکار ہی دیکھا ہے لیکن مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ آج سے دہائی دو دہائیاں قبل ہمارا ریلوے کا نظام ہر لحاظ سے نہایت معیاری ہوا کرتا تھا۔ دولت مند طبقے تو ہوائی سفر اور ذاتی کاروں کی سہولیات کا فائدہ اٹھاتے تھے لیکن عوام کے لئے ریلوے کا سفر آرام دہ ہوا کرتا تھا۔ پھر اسے ہماری نااہلی اور بدنیتی کی نظر لگ گئی جبکہ دنیا کا ہر ترقی یافتہ ملک اپنے ریلوے نظام کو بہتر سے بہتر بنانے میں مصروف ہے۔ موجودہ ریلوے کی کارکردگی پر تبصرہ کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ ہر شخص ریلوے کے ہاتھوں پریشان ہے۔ چنانچہ حکومت نے چین سے 75 ڈیزل انجن درآمد کرنے کا منصوبہ بنایا جو دوسرے منصوبوں کی مانند کرپشن کی نذر ہو گیا۔ مجھے اس ناکامی میں کرپشن سے زیادہ نا اہلی کا پہلو نظر آتا ہے۔ ہماری حکومت نے 2009 میں چین کی حکومت سے 75 انجن خریدنے کا معاہدہ کیا اور اس مقصد کے لئے ایک چینی بینک سے ایک سو ملین یعنی دس کروڑ ڈالر کا قرضہ منظور کروایا۔ معاہدے کے مطابق حکومت پاکستان نے پندرہ ملین ڈالر بینک میں جمع کروا دیئے۔ رینٹل پاور ہاﺅسز کی مانند یہاں بھی کرشن ہوئی۔ اصولی طور پر انجنوں کی خریداری کے لئے عالمی سطح پر ٹینڈر ہونے چاہئیں تھے لیکن یہاں قانونی تقاضوں سے انحراف کیا گیا۔ بدعنوانی کے سبب خریداری نہ ہو سکی اور پاکستان قرضہ استعمال نہ کر سکا۔ معاہدے کے مطابق قرضہ استعمال نہ کرنے کی پاداش میں چینی بینک گزشتہ دو سال سے ہر روز پاکستان کو ڈیڑھ لاکھ روپے جرمانہ کرتا رہا ہے۔ اس طرح وہ پندرہ ملین ڈالر جو پاکستان نے جمع کروائے تھے وہ جرمانے کی مد میں ادا ہو گئے ہیں اور انجن بھی نہ منگوائے جا سکے۔ تین سال تک انجن نہ منگوانے پر حکومت چین بھی ناخوش ہے اور چینی بینک بھی ناراض۔ اب اگر عالمی سطح پر ٹینڈر دیئے جاتے ہیں تو حکومت چین کے اعتماد کو ٹھیس پہنچے گی اور جو انجن 2009 میں چودہ لاکھ ڈالر کا مل رہا تھا اب کم سے کم 20 لاکھ ڈالر میں ملے گا۔ تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں کہ مقصد کرپشن اور نااہلی کی دیگ میں سے فقط نمونے کا ایک دانہ دکھانا تھا۔ اب آپ خود ہی فیصلہ کریں کہ اس طرح کے حالات میں انسان کس طرح خوش رہ سکتا ہے اور کیونکر مسکرا سکتا ہے۔
دوسری خبر ہماری قومی بے حسی، ناشکری اور سرد مہری کی داستان تھی۔ آپ جانتے ہیں کہ یونیسکو اقوام متحدہ کا ایک موثر اور متحرک ادارہ ہے جس کا دائرہ کار عالمی سطح پر تعلیم، ثقافت اور سائنس کے شعبوں پر محیط ہے۔ کوئی 193 ممالک اس کے رکن ہیں۔ مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ میں یونیسکو کے ایگزیکٹو بورڈ کا تین سال منتخب رکن رہا ہوں اور یونیسکو کے ایجوکیشن کمیشن کا منتخب وائس چیئرمین رہا ہوں۔ درجن بھر اراکین پر مشتمل ایگزیکٹو بو رڈ یونیسکو کی سرگرمیوں اور کارکردگی کی نگرانی کرتا ہے، منصوبوں اور حکمت عملی کی منظوری دیتا ہے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ میں 1998 کے دوران یونیسکو کی ایک میٹنگ کے سلسلے میں پیرس میں ٹھہرا ہوا تھا۔ ایک روز دعوت نامہ ملا آج شام ہال میں ایک تقریب منعقد کی جائے گی جس میں تعلیم، سائنس اور ثقافت کے شعبوں میں اعلیٰ کارکردگی کا ثبوت دینے والے ماہرین کو انعامات دیئے جائیں گے۔ میں اس تقریب میں اس تاثر کے ساتھ شریک ہوا کہ 193 ممالک میں پاکستان کہاں کسی انعام کا حق دار ٹھہرے گا جبکہ ان ممالک میں فرانس برطانیہ، جرمنی، ڈنمارک، سویڈن، ناروے، چین جیسے ترقی یافتہ ممالک موجود ہیں۔ مجھے حیرت بھی ہوئی اور بے حد خوشی بھی جب ایک پاکستانی سائنس دان کو انعام لینے کے لئے پکارا گیا۔ وہ انعام لے کر لوٹا تو میں نے اسے سینے سے لگا لیا، مبارک باد دی اور کہا کہ میں تمہارا ممنون ہوں تم نے عالمی سطح پر میرے ملک کا نام روشن کیا۔ اس سائنس دان کا نام تھا ڈاکٹر ریاض الدین اور وہ لاہور میں ایک سائنسی ادارے کا سربراہ تھا۔ وطن واپس لوٹا تو میں گورنر پنجاب کو ساتھ لے کر ڈاکٹر ریاض الدین کے ادارے میں پہنچا اور اس کی عزت افزائی کی۔
ہمیں یہ جان کر بے حد خوشی ہوئی کہ وہ ادارہ جینز اور ڈی این اے کے حوالے سے ریسرچ کر رہا تھا اور ان کی تحقیق سے نہ صرف مجرموں کو پکڑا جا سکتا تھا بلکہ اس سے زرعی پیداوار میں بھی خاصا اضافہ کیا جا سکتا تھا۔ یہ ادارہ براہ راست وفاقی حکومت وزارت تعلیم کا حصہ تھا۔ وزارت تعلیم کا سیکرٹری ہونے کی حیثیت سے مجھے علم ہوا کہ ڈاکٹر ریاض الدین کو سنگا پور اور کئی دوسرے ممالک سے نہایت پُر کشش آفرز آ رہی تھیں لیکن وہ وطن کی خدمت پر مصر تھا۔ 27 اکتوبر کے دی نیوز میں ایک خبر پڑھ کر میں پریشان ہو گیا۔ میں 1999 کے بعد ڈاکٹر ریاض سے کبھی نہیں ملا۔
خبر یہ تھی کہ ڈاکٹر ریاض الدین نے ہیپاٹائٹس کے مرض کے لئے ایک دوا ایجاد کی جس کی قیمت 70 روپے ہے جبکہ ہمارے ملک میں اس مرض کے لئے دستیاب دواﺅں کی قیمت 900 روپے ہے۔ میری اطلاع کے مطابق تجارت کے نام پر خون چوسنے والی ملٹی نیشنل کمپنیاں ڈاکٹر ریاض کے پیچھے پڑ گئیں۔ اس خبر کے مطابق یہ انجکشن ہمارے دو سائنس دانوں کی ریسرچ کا پھل تھا۔ چنانچہ انہیں خوف و ہراس میں مبتلا کیا گیا اور وزارت سائنس نے ان کے خلاف فنڈز میں بے ضابطگی پر انکوائری ایف آئی اے کے حوالے کر دی۔ مجھے دوران ملازمت بہت سے سائنس دانوں سے پالا پڑا ہے۔ مان لیا کہ انہیں حکومتی ضابطوں کا کلرکوں کی مانند علم نہیں ہوتا اور وہ بعض اوقات ضابطوں کی خلاف ورزی کر جاتے ہیں لیکن اسے بے ایمانی نہیں کہا جا سکتا۔ اللہ بھلا کرے پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی کا کہ جس نے اس معاملے پر تشویش کا اظہار کیا اور سپریم کورٹ کو مجرموں کے خلاف اقدام کرنے کے لئے خط لکھا۔ ایف آئی اے کی انکوائری نے ان سائنس دانوں کو کلین چٹ دے دی لیکن اس دوران ملک میں ہیپاٹائٹس کے لئے جو سستے انجکشن بنائے گئے تھے ان کی معیاد گزر گئی اور ایک لاکھ ٹیکے بے کار ہو گئے۔ خبر کے مطابق بیرون ملک سے مہنگے ٹیکے منگوا کر قومی خزانے کو 70 ارب روپے کا نقصان پہنچایا گیا۔ ہم نے ان سائنس دانوں کی یوں قدر و منزلت کی کہ ان کی تنخواہیں دو سال بند کئے رکھیں اور ان کے نام مجرموں کی مانند ای سی ایل پر ڈال دیئے۔ یہی ڈاکٹر ریاض سنگا پور یا کسی اور ترقی یافتہ ملک میں چلا گیا ہوتا تو بے پناہ تحقیقی کام کرتا، کروڑوں کماتا اور عزت پاتا۔ ہم کتنے بدقسمت ہیں کہ نہ ہمارے ہاں تحقیق کے لئے ماحول، وسائل اور سامان موجود ہے اور نہ ہم اپنے سائنس دانوں کی قدر کرتے ہیں۔ ہمارے بہترین دماغ امریکہ برطانیہ اور دوسرے ترقی یافتہ ممالک میں جا رہے ہیں اور ہم خالی ہاتھ سائنسی ترقی کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ دنیا جہان میں ملٹی نیشنل کمپنیاں سائنسی تحقیق پر بے پناہ خرچ کرتی ہیں اور سائنسی ایجادات سے بے حساب کماتی ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں ابھی یہ شعور ہی پیدا نہیں ہوا اور ہم غیر ملکی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے شکنجے میں جکڑے ہوئے ہیں رہی حکومت تو حکومت کے پاس سائنسی ریسرچ کے لئے نہ وسائل ہیں نہ ویژن اور نہ اہلیت.... سوچنے کی بات یہ ہے کہ ان حالات میں ہم کیسے ترقی کریں گے اور کیسے آگے بڑھیں گے؟ جو قوم علم کی قدر و منزلت سے آشنا نہیں وہ علم کی روشنی سے کیسے منور ہو گی؟

ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے، انجام گلستاں کیا ہو گا

 (نوٹ) (منگل والے کالم میں میں نے لکھا تھا ”دل کو پوری طرح فتح کر لینا گویا دنیا کو فتح کرنے کے مترادف ہے۔“ کمپوزنگ کی غلطیاں معمول کی بات ہے لیکن اس فقرے کو ”دل کو پوری طرح فتح نہیں“ لکھ کر بے معنی بنا دیا گیا۔ قا رئین نوٹ کر لیں)

روزنامہ جنگ، جمعرات 15 ذوالحجہ 1433ھ یکم نومبر 2012ء

اقبال، قائد اعظم اور غازی علم دین

حامد میر
hamid.mir@janggroup.com.pk
 
 بہت سے نوجوان پوچھتے ہیں کہ شاعر مشرق علامہ محمداقبال نے برطانیہ اور جرمنی کی یونیورسٹیوں سے تعلیم حاصل کی پھر اُن کے دل میں مسلمانوں کے لئے ایک علیحدہ مملکت قائم کرنے کا خیال کیوں پیدا ہوا؟ ایک طالب علم نے ای میل کے ذریعہ پوچھا ہے کہ کچھ دانشوروں کے خیال میں قائد اعظم محمد علی جناح ایک سیکولر پاکستان کے حامی تھے اگر پاکستان کو سیکولر بنانا تھا تو پھر ہندوستان تقسیم کیوں کیا گیا کیونکہ انڈین نیشنل کانگریس بھی تو سیکولر جماعت تھی؟ یہ دُرست ہے کہ اقبال اور قائد اعظم نے یورپ میں تعلیم حاصل کی، دونوں ابتداء میں متحدہ ہندوستان کے حامی تھے لیکن یہ دونوں انڈین نیشنل کانگریس سے مایوس ہو گئے تھے۔ پاکستان کیوں بنایا گیا اور کیسے بنایا گیا؟ اس موضوع پر ہزاروں کتابیں لکھی جا چکی ہیں لیکن قیام پاکستان کے نظریاتی پس منظر پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔ بہت کم محققین نے 31 اکتوبر 1929ء کو پیش آنے والے ایک اہم واقعے پر توجہ دی ہے جس نے علامہ اقبال اور قائد اعظم کی شخصیت اور نظریات پر گہرے اثرات مرتب کئے۔ یہ واقعہ تھا غازی علم دین کی پھانسی۔ تھوڑا سا غور کیا جائے تو سمجھ آ جاتی ہے کہ علامہ اقبال نے غازی علم دین کی شہادت کے تقریباً ایک سال کے بعد 1930ء میں خطبہ الٰہ آباد کے ذریعہ مسلمانوں کی علیحدہ مملکت کا خیال کیوں پیش کیا؟
غازی علم دین 4 دسمبر 1908ء کو کوچہ چابک سواراں رنگ محل لاہور میں پیدا ہوئے۔ اُن کا خاندان فرنیچر سازی سے منسلک تھا۔ اُن کے والد طالع مند لاہور کے علاوہ کوہاٹ میں بھی فرنیچر سازی کرتے رہے۔ غازی علم دین اپنے والد کے ساتھ کام کیا کرتے تھے۔ وہ بالکل غیرسیاسی اور سادہ سے نوجوان تھے۔ 1927ء میں لاہور کے ایک ہندو پبلشر راج پال نے قرآن پاک کے خلاف ایک کتاب ستیارتھ پرکاش شائع کی۔ مسلمانوں نے اس کتاب کی اشاعت پر بہت احتجاج کیا لیکن راج پال کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہوئی بلکہ کچھ عرصے کے بعد راج پال نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف ایک کتاب شائع کر دی جس میں امہات المومنین کے بارے میں نازیبا باتیں لکھی گئی تھیں۔ مسلمانوں نے راج پال کے خلاف قانونی کارروائی کی بہت کوششیں کیں لیکن برطانوی سرکار یہ کہہ کر معاملہ ٹالتی رہی کہ قانون میں گستاخ رسول کے خلاف کارروائی کی کوئی گنجائش نہیں۔ 24 ستمبر 1927ء کو یکی دروازہ لاہور کے ایک کشمیری نوجوان خدا بخش نے گستاخ رسول پر قاتلانہ حملہ کیا لیکن راج پال بچ نکلا۔ 19 اکتوبر 1927ء کو غزنی کا ایک نوجوان عبدالعزیز لاہور آیا اور اُس نے راج پال پر حملہ کیا لیکن ہندو پبلشر پھر بچ گیا۔ اُسے پولیس کا ایک حفاظتی دستہ مہیا کر دیا گیا اور اب وہ سرکاری سرپرستی میں اپنا مذموم کاروبار کرنے لگا۔ اس نے اپنی کتابوں کی قیمتیں کم کر دیں کیونکہ کئی سرمایہ دار ہندو اُس کی حوصلہ افزائی کرنے لگے تھے۔ غازی علم دین کو راج پال کی گستاخیوں کا علم ہوا تو انہوں نے خاموشی سے اُسے جہنم واصل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ 6 اپریل 1929ء کو غازی علم دین نے راج پال کو ہسپتال روڈ لاہور پر واقع اُس کی دکان میں گھس کر خنجر سے قتل کر دیا۔ غازی علم دین نے فوراً اقرار جرم کر لیا اور اپنے خاندان سے کہا کہ اُن کے مقدمے کی پیروی نہ کی جائے کیونکہ وہ شہادت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ لاہور کے ایک نامور وکیل فرخ حسین نے رضاکارانہ طور پر غازی علم دین کی وکالت شروع کر دی لیکن سیشن کورٹ نے 22 مئی 1929ء کو غازی علم دین کے لئے سزائے موت سنا دی۔ یہ وہ موقع تھا جب قائد اعظم نے غازی علم دین کی سزائے موت کے خلاف لاہور ہائیکورٹ میں اپیل دائر کی اور عدالت میں مو¿قف اختیار کیا کہ پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات پر رکیک حملے کرنا اور عوام میں نفرت پھیلانا زیر دفعہ 135 الف جرم ہے لیکن راج پال کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہوئی اُس نے غازی علم دین کو اشتعال دلایا لہٰذا غازی علم دین کے خلاف زیردفعہ 302 قتل عمد کی بجائے زیر دفعہ 308 قتل بوجہ اشتعال کارروائی کی جائے جس کی سزا زیادہ سے زیادہ سات سال قید ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شادی لال نے اپیل مسترد کر دی اور غازی علم دین کو پھانسی کے لئے میانوالی جیل بھجوا دیا گیا۔ 31 اکتوبر 1929ء کو غازی علم دین کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا اور لاش اُن کے خاندان کے حوالے نہیں کی گئی۔ اس موقع پر علامہ محمد اقبال اور مولانا ظفر علی خان نے بہت اہم کردار ادا کیا اور غازی علم دین کے جسد خاکی کو لاہور لانے کے لئے باقاعدہ مہم چلائی۔ آخرکار غازی علم دین کا جسد خاکی بذریعہ ٹرین لاہور لایا گیا۔ مستند روایات کے مطابق غازی علم دین کے جنازے میں چھ لاکھ سے زائد مسلمان شریک تھے۔ بھاٹی چوک لاہور سے لے کر سمن آباد تک لوگ ہی لوگ تھے۔ غازی علم دین کے جسد خاکی کو علامہ اقبال اور سیّد دیدار علی شاہ جیسے بزرگوں نے اپنے ہاتھوں سے لحد میں اتارا۔ جب غازی علم دین کو لحد میں اُتار دیا گیا تو مولانا ظفر علی خان نے چیخ کر کہا کہ کاش! یہ مقام آج مجھے نصیب ہوتا۔ یہی وہ موقع تھا جب اقبال کے منہ سے بھی نکلا کہ ہم تو دیکھتے ہی رہ گئے اور ترکھانوں کا لڑکا بازی لے گیا۔
 
غازی علم دین کی پھانسی اور پھر اُن کے عظیم الشان جنازے نے برصغیر کے مسلمانوں کی نفسیات پر گہرے اثرات مرتب کئے۔ ہندو اخبار ”پرتاپ“ نے قائد اعظم اور علامہ اقبال کو غازی علم دین کی حمایت کرنے پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ اس واقعے کے کچھ عرصے کے بعد علامہ اقبال نے خطبہ الٰہ آباد میں پاکستان کا تصور پیش کیا۔ 1933ء میں آریہ سماج نامی تنظیم کے سیکرٹری نتھو رام نے بھی اسلام کے بارے میں ایک گستاخانہ کتاب کراچی سے شائع کر دی۔ اس مرتبہ برطانوی حکومت نے مسلمانوں کی بے چینی روکنے کیلئے نتھو رام کی کتاب ضبط کر لی اور اسے ایک سال قید کی سزا دی۔ نتھو رام نے عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی اور رہا ہو گیا۔ ہزارہ کا ایک نوجوان عبدالقیوم کراچی میں وکٹوریہ گاڑی چلایا کرتا تھا۔ اس نے 1934ء میں نتھو رام کا پیچھا شروع کیا۔ ایک دن نتھو رام اپنی ضمانت کنفرم کرانے عدالت میں آیا تو عبدالقیوم نے بھری عدالت میں اُس پر خنجر کے وار کئے اور اُسے قتل کر دیا۔ عبدالقیوم گرفتار ہو گیا اور اُس نے اعتراف جرم کرتے ہوئے کہا کہ میں نے اپنے رسول کی شان میں گستاخی کرنے والے کو موت کے گھاٹ اُتار دیا۔ عبدالقیوم کو بھی پھانسی کی سزا ہوئی۔ کراچی کے مسلمانوں کا ایک وفد لاہور آیا اور علامہ اقبال سے درخواست کی کہ عبدالقیوم کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کرایا جائے۔ علامہ اقبال نے کچھ سوچا اور پھر کہا کہ اگر عبدالقیوم خود کہتا ہے کہ اُس نے شہادت خریدی ہے تو میں اُس کے اجر و ثواب کی راہ میں رکاوٹ کیوں بنوں؟ اسی تناظر میں علامہ اقبال نے یہ اشعار بھی کہے

نظر اللہ پہ رکھتا ہے مسلمان غیور

موت کیا شے ہے؟ فقط عالم معنی کا سفر

ان شہیدوں کی دیت اہلِ کلیسا سے نہ مانگ

قدر و قیمت میں ہے خوں جن کا حرم سے بڑھ کر

اب آپ خود ہی فیصلہ کر لیں۔ کیا قیام پاکستان کے نظریاتی پس منظر میں عشق رسول سب سے زیادہ اہمیت کا حامل نہیں؟ علامہ اقبال اور قائد اعظم دونوں کو کانگریس کے حامی مسلمان علماءکی مخالفت اور فتووں کا سامنا تھا لیکن حرمت رسول کےلئے جو کردار غازی علم دین شہید سے لے کر علامہ اقبال نے ادا کیا وہ کئی علماء کے حصے میں نہ آیا۔ آج جو لوگ اقبال اور قائد اعظم کو سیکولر ثابت کرنا چاہتے ہیں وہ بتائیں کہ کیا اُن کے سیکولرازم میں غازی علم دین کی حمایت کی گنجائش موجود ہے؟ پاکستان اسی لئے بنایا گیا تھا کہ یہاں مسلمانوں اور غیر مسلموں دونوں کو تحفظ حاصل ہو اور اسی لئے پارلیمنٹ نے عقیدہ ختم نبوت کا تحفظ بھی کیا اور توہین رسالت کا قانون بھی منظور کیا۔ یہ بھی طے ہے توہین رسالت کے قانون کا غلط استعمال قطعاً نہیں ہونا چاہئے اور ہمیں سیرت رسول کی پیروی کرنی چاہئے۔ اقبال نے کہا تھا

قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے

دہر میں اِسم محمد سے اُجالا کر دے


روزنامہ جنگ، جمعرات 15 ذوالحجہ 1433ھ یکم نومبر 2012ء

امریکی طوفان سینڈی ہارپ کی کارستانی

نصرت مرزا

راقم کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے روزنامہ ”جنگ“ میں دو مرتبہ ہارپ ٹیکنالوجی کی تباہ کاریوں کے بارے میں لکھا، پہلی مرتبہ 28 اگست 2010ء کو جب پاکستان میں تباہ کن سیلاب آیا اور دوسری مرتبہ جب جاپان میں 11 مارچ کو تباہی پھیلی تو 23 مارچ 2011ء کو ”جنگ“ میں کالم چھپا۔ اس سونامی نے جاپان کے ایٹمی ری ایکٹر کو بھی متاثر کیا۔ دونوں مرتبہ ہم نے لکھا تھا کہ ہارپ کی ٹیکنالوجی امریکہ نے حاصل کرلی ہے اور وہ دنیا بھر میں زلزلہ، سیلاب، طوفان اور سونامی لاسکتا ہے۔ ہم نے ان دونوں مضامین میں ساری تفصیلات لکھ دی تھیں کہ ہارپ کی مشین الاسکا میں واقع ہے اور وہاں 180 مائیکرویو انٹیناز کے ذریعے 3 گیگا واٹ کی انرجی حاصل کرکے اس کو Innosphere کے نظام میں ڈال کر مطلوبہ نتائج حاصل کئے جاسکتے ہیں۔
ہم نے برملا لکھا تھا کہ پاکستان کا 2005ء کا زلزلہ اور 2010ء کا سیلاب ہارپ کی کارستانی ہے اور جاپان کا سونامی اس کا نتیجہ تھا۔ اگرچہ ہم نے ہیٹی، ایران، چین اور روس کے نقصانات کا ان مضامین میں احاطہ نہیں کیا تھا مگر وہ بھی ہارپ کے مرہون منت تھے۔ ہم نے یہ بھی لکھا تھا کہ قدرت کے نظام کو چھیڑ دیا گیا ہے۔ اب نہ جانے نقصانات کہاں پر جاکر رکیں گے اور کیا خود امریکہ اس کی زد میں آجائے گا، سو اب امریکہ کو اس کی تباہ کاریوں کا سامنا ہے۔

سینڈی نامی طوفان امریکہ کے مشرقی ساحلوں سے ٹکڑنے سے 6 کروڑ افراد متاثر ہوئے ہیں۔ نیویارک سُونا ہوگیا اور اس کی تمام ٹرینوں کی آمدورفت رک گئی ہے۔ واشنگٹن کا شہر بند کردیا گیا، دکانیں اور ڈیڑھ لاکھ گھروں کو بجلی کی فراہمی معطل ہوگئی، ورجینیا اور نیوجرسی میں پانی داخل ہوگیا، ایٹمی ری ایکٹر، آئل ریفائنری بند کردی گئی، خوراک کے حصول کے لئے متاثرین کی طویل قطاریں لگ گئیں۔ طوفان کے باعث پہلی بار اقوام متحدہ کے دفاتر، سٹاک مارکیٹس بند کرنا پڑی ہیں۔
اس کے نقصانات کا تخمینہ 20 ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے اور نقصانات میں مزید اضافے کا اندیشہ بدستور موجود ہے۔ امریکی صدر بارک اوباما نے کہا ہے کہ اس طوفان کو معمولی نہ سمجھا جائے، دس ہزار کے قریب پروازیں معطل کی جاچکی ہیں، 9 ریاستوں میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی ہے، ساحلی علاقوں سے لاکھوں افراد کو نکال تو لیا ہے۔ اوباما اور رومنی کی انتخابی مہم معطل ہوگئی ہے اور وقت مقررہ پر امریکی صدارتی انتخابات کا انعقاد بھی خطرے میں پڑ گیا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ یہ عذاب الٰہی ہے اور اللہ کے نظام کو چھیڑنے کا نتیجہ ہے یا پھر ہارپ کی کارستانی ہے۔ امریکہ میں کئی ویب سائٹس اس کو ہارپ کا نتیجہ قرار دے رہی ہیں۔ ان کا 28 ہارپ Sensors جو پورے امریکہ میں لگے ہیں وہ تاریخ کے مضبوط ترین اور تباہ کن ہارپ کے حملہ کی اطلاع دے رہے ہیں اور 1-10 کے اسکیل میں کانٹا 10 پر پہنچ گیا ہے۔ اس کے آگے پیمائش کی اُن کے پاس گنجائش نہیں ہے۔ وہاں اس قدر سفید بادل اور لہریں ہیں جو قدرتی نظر نہیں آتی اور کئی سائنسدان اور کالم نگار جن میں ایک الیکس تھوس شامل ہے وہ کھل کر یہ کہہ رہے ہیں کہ امریکہ پر ہارپ سے حملہ ہوگیا ہے۔ ممکن ہے یہ حملہ کسی اور جگہ کرنا ہو اور غلطی سے امریکہ کا رُخ کر گیا ہے مگر یہ طوفان قدرتی نہیں، مصنوعی ہے اس پر سب کو اتفاق ہے۔
اُن کا کہنا ہے کہ ہارپ کا حملہ اس لئے کیا گیا تاکہ انتخابات ملتوی ہوجائیں اور یہ کہ صدر بارک اوباما کو مزید حکمرانی کا موقع مل جائے کیونکہ اب یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ انتخابات وقت پر نہیں ہوسکتے مگر کئی تجزیہ کار یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ان نقصانات کا نزلہ اوباما پر ہی پڑے گا اور عین ممکن ہے کہ جیسا کہ امریکی سیاسی پنڈت کہہ رہے تھے کہ امریکہ میں تاریخ میں پہلی مرتبہ مارشل لاء لگ جائے اور دنیا کو جنگ کی لپیٹ میں لے لے۔ امریکہ کے سیاسی پنڈت یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ امریکی انتظامیہ کا دعویٰ درست نہیں ہے کہ تباہ کاری مشرقی ساحل پر بھی ہوگی۔ اُن کا کہنا ہے کہ تباہی زیادہ آبادی کے علاقوں تک پھیلے گی۔ اب سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ امریکہ اپنے ہی ملک کے لوگوں پر ہی حملہ آور ہوگیا ہے۔

9/11 کے واقعے کے بعد 29 اکتوبر 2012ء کو امریکہ دوبارہ اپنے عوام کو تکلیف اور اذیت میں مبتلا کرکے عالمی جنگ چھڑوانے کا ارادہ رکھتا ہے یا پھر اُس کا کوئی اور منصوبہ ہے، آنے والے چند دن اس بات کو واضح کردیں گے۔ مگر دنیا کے لئے کوئی اچھی خبر منتظر نہیں ہے۔ اس طوفان کے بعد امریکہ کا کیا رویہ ہوگا وہ بھی دیکھنے کی بات ہے۔

روزنامہ جنگ، جمعہ 16 ذوالحجہ 1433ھ 2 نومبر 2012ء

جمعہ, نومبر 02, 2012

فلمی دنیا کے ’مسٹر پرفیکٹ‘ حاجی ہوگئے

بالی ووڈ ایکٹر عامر خان کے بارے میں ایک عام رائے یہ ہے کہ وہ جو کام بھی کرتے ہیں لوگ عش عش کر اٹھتے ہیں۔ فلمی دنیا کے مسٹر پرفیکٹ ان دنوں حج کے ادائیگی کے لئے سعودی عرب گئے ہوئے ہیں۔۔۔ ابھی وہ وہاں پہنچے بھی نہیں تھے کہ انٹرنیٹ کی دنیا میں ان کے تذکرے زور شور سے شروع ہوگئے۔۔۔

یہاں تک کہ ممبئی ائیر پورٹ پر وہ اپنی والدہ کو لے کر کس طرح جہاز میں سوار ہوئے اور جہاز کی کش نشست پر کس انداز میں بیٹھے ہوئے تھے اس تک کی تصویریں انٹرنیٹ پر ساتھ ساتھ اپ لوڈ ہوتی اور دنیا بھر میں دیکھی جاتی رہیں۔

فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا ویب سائٹس پر پوسٹ ہونے والی ان کی تصویروں سے ہی یہ خبر عام ہوئی کہ انہوں نے مدینہ پہنچ کر پاکستانی کھلاڑی شاہد آفریدی اور ایک دینی مفکر مولانا طارق جمیل سے بھی ملاقات کی ۔

مسٹر پرفیکٹ۔۔ فلمی دنیا میں تو پرفیکٹ ہیں ہی ۔۔ حج کے دوران اپنی ماں کے روبرو بھی انہوں نے خود کو ”پرفیکٹ بیٹا“ ثابت کرنے میں کوئی کثر اٹھا نہیں رکھی۔۔۔۔ حج کی ادائیگی کے دوران انہوں نے اپنی والدہ کی خوب لگن اور محنت کے ساتھ ایسی خدمت کی کہ دیکھنے والے بھی کہہ اٹھے۔۔ ”بیٹا ہو تو عامر خان جیسا“۔

اس حوالے سے سعودی عرب میں مقیم پاکستانی صحافی شاہد نعیم نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ حج کے تمام مناسک کی ادائیگی کے دوران عامر خان ناصرف اپنی والدہ کی وہیل چیئرخود چلاتے رہے بلکہ انہوں نے مناسک کی ادائیگی میں والدہ کی سہولت اور آرام کا ہر طریقے سے خیال رکھا۔

حد تو یہ کہ عرفات سے منٰی کے دوران شدید ٹریفک جام ہونے کے سبب انہوں نے باقی تمام حاجیوں کی طرح سات کلومیٹر کا طویل سفر پیدل اور اپنی والدہ کی وہیل چیئر دھکیلتے ہوئے طے کیا۔

الخالد ٹورز کے نگراں یوسف خیرادہ کے مطابق تمام مناسک حج کی ادائیگی کے دوران عامر خان پرجوش اور خوشگوار موڈ میں نظر آئے۔ وہ اپنی والدہ کی خدمت پر پوری طرح مطمئن تھے۔ انہوں نے اپنی والدہ کے لئے مزدلفہ میں جمرات کے لئے خود کنکریاں جمع کیں۔ اپنے ہونہار بیٹے کی خدمات سے عامرخان کی والدہ بھی خوش تھیں۔

عامر خان نے حج انتظامات کے لئے سعودی حکومت کے اقدامات کو سراہا۔

عامر خان۔۔۔ فلمی دنیا کے ’مسٹر پرفیکٹ‘ حاجی ہوگئے

عورتوں کے شادی کے روایتی رجحان میں تبدیلی

حال ہی میں جاری ہونے والی تحقیقی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صدیوں سے جاری شادی کے روایتی رجحان میں تبدیلی ہونے لگی ہے۔ پہلے خواتین شادی کے لئے اعلیٰ سماجی حیثیت کے حامل شخص کو جیون ساتھی بنانا پسند کرتی تھیں لیکن اب اس کے برعکس ہورہا ہے۔ اب خواتین خود سے کم تعلیم یافتہ اور کم کمانے والے شخص سے شادی کرنے کو ترجیح دینے لگی ہیں۔ 

سپین میں یونیورسٹی کی سطح پر کی گئی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ ممکن ہے کہ زیادہ تر پڑھی لکھی خواتین مردوں کی انا کو نقصان پہنچانا چاہتی ہیں۔ لیکن اب اس صورت حال کو ٹالا نہیں جا سکتا۔ محقق البرٹ ایسٹیو کا کہنا ہے کہ خواتین میں تعلیم کی شرح میں اضافے سے سنگل وومن کی تعداد میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ تعلیم یافتہ خاتون خود کو خود مختار سمجھتی ہے اور شادی کرکے پابندیوں میں جکڑنا نہیں چاہتی، اس لیے وہ ایسا جیون ساتھی ڈھونڈتی ہے جو اس سے کم تعلیم یافتہ اور کم کمانے والا ہو تاکہ وہ بیوی کی عزت کرے۔ 

فرانس، سلووینیا اور منگولیا جیسے 21 ممالک میں خواتین خود سے اعلیٰ مرتبے کے بجائے کم تعلیم یافتہ اور کم وسائل کے مالک مرد سے شادی کو ترجیح دیتی ہیں۔ 1960 کی دہائی سے جاری 56 ممالک میں کی گئی تحقیق کے بعد کہا گیا کہ اب خواتین میں شادی کے انتخاب میں روایتی جمود ٹوٹ چکا ہے۔

مشرقی عورت کے مغربی مسائل

رابعہ کی شادی اپنے برطانوی نژاد پاکستانی کزن سے ہوئی۔ پاکستان میں اپنے گھر والوں سے بچھڑتے وقت اسے معلوم نہیں تھا کہ اس کا شریکِ سفر پہلے ہی کسی اور لڑکی کی محبت میں گرفتارہے، جس نے شادی ماں باپ کے مجبور کرنے پر محض اُن کی خوشی کی خاطر کی ہے؟ اتنا ہی نہیں۔ سسرال میں اُس کی حیثیت ایک ملازمہ سے زیادہ نہیں؟ پردیس میں اِس حقیقت کا سامنا اُس نے بڑی ہمت سے کیا۔ مگر، اِس قربانی کا صلہ اسے طلاق کی صورت میں ملا۔ آج رابعہ برطانیہ کے علاقے شیفیلڈ میں تنہا دو بچوں کےکونسل کےگھر میں رہتی ہے۔ وہ غیر تعلیم یافتہ ہے اور انگریزی زبان سے ناواقفیت کی وجہ سے روزمرہ کے معاملات کی انجام دہی میں اسےکافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

رابعہ نے ’وی او اے‘ سے اپنی کہانی اِس طرح بیان کی: میری شادی سنہ 2004 میں آصف سےمیر پور میں ہوئی۔ شادی کے چار ماہ بعد وہ برطانیہ بریڈ فورڈ آئی۔ اُن کا سسرال ساس، سسر، تین نندوں؛ ایک دیورانی اُس کی تین بچیوں، نند کے شوہر اور ایک بچے پر مشتمل تھا۔ ایک اچھی بہو کا فرض نبھاتے ہوئے سسرال کے ہر کام میں حصہ لیا مگر کچھ ہی دنوں بعد تمام کاموں کی ذمہ داری مجھے دے دی گئی اور گھر والوں کا سلوک بھی بدل سا گیا۔ ساس کا کہنا تھا کہ آصف شادی کے بعد گھر میں خرچے کے پیسے نہیں دے رہا ہے۔ لہذا، اسے سب گھر والوں کے کھانا کھانے کے بعد بچا ہوا کھانا ملے گا۔ کئی دفعہ کھانا نہیں بچتا تھا اور اکثر اسے بھوکا رہنا پڑتا۔ 2005ء میں میری بیٹی پیدا ہوئی، مگر آصف نے باپ بننے کا بھی فرض پورا نہیں کیا۔ اپنی بچی کی ضرورتوں کے لیے بھی محتاج تھی۔ روز روز کی لڑائی اور پھر نوبت مار پیٹائی تک جا پہنچی۔ سسرال والوں نے بھی کبھی اُس کا ساتھ نہیں دیا۔ بلکہ، کہا جاتا کے جتنی ذلت ہم تمہاری کرتے ہیں اگر ایک کتے کی بھی کریں تو وہ گھر سے چلا جائے۔

رابعہ نے آنکھوں سے نمی صاف کرتے ہوئے کہا، میری زندگی دن بدں دشوار ہوتی جا رہی تھی۔ سنہ 2009 میں جب دوسری بار آٹھ ماہ کی حاملہ تھی تو اپنی نند کو ویکیوم کرنے کے لیے کہنے پر ایسی سزا دی گئی کہ پانچ دن اور رات اسے ایک ہی جگہ پر بٹھا کر رکھا گیا، ساس نے طنزیہ کہا آج سےسب گھر والے اس کی خدمت کریں گے۔ اس دوران کھانا اس طرح لا کر دیا جاتا جیسے کسی جانور کے آگے رکھا جاتا ہے، مگرایک ایسی بات بھی ہوئی کہ جو میں بتانا نہیں چاہتی، جس نے مجھے گھر چھوڑنے پر مجبور کردیا۔ صبح جب سب سو رہے تھےتو میں نے گھر چھوڑ دیا اور اپنی بچی کے سکول جا پہنچی۔ سکول والوں نے میری روداد سننے کے بعد مجھے فلاحی ادارے کے سپرد کردیا۔ سسرال سے میری کوئی خبر نہیں لی گئی۔ میں نے بریڈ فورڈ سے کہیں اور منتقل کرنے کی درخواست ادارے کو دی جس پر مجھے شیفیلڈ کے رفیوجی کیمپ میں منتقل کردیا گیا۔ یہں میرا بیٹا پیدا ہوا۔ اس بات کی اطلاع آصف کو دی گئی مگر اس نے سنگدلی کی انتہا کرتے ہوئے فون بند کردیا۔

دو سال کچھ ہمسائیوں کی مدد سے اپنی زندگی کی جنگ لڑی۔ تاہم، اکیلے پن سے گھبرا کر ایک دن آصف کو فون کیا۔ آصف بھی مجھ سے ملاقات کے لیےتیار ہوگیا، جبکہ اس کے دل میں اس ملاقات کے پیچھے کوئی اور ہی مقصد تھا، نا کہ میری اور میرے بچوں کی محبت۔ اُس نے شیفیلڈ کے معزز افراد کے سامنے قرآن پر ہاتھ رکھا اور کہا کہ وہ میرا اور اپنے بچوں کا خیال رکھے گا۔ اس وعدے کے ساتھ وہ ہمیں گھر واپس لے آیا۔ رابعہ نے بتایا کہ اس نے یہ فیصلہ پاکستان میں اپنے خاندان کی مرضی کے خلاف کیا تھا جس کی وجہ سے وہ ابھی تک اس سے ناراض ہیں۔ تاہم، ان کے خدشات درست ثابت ہوئے۔ آصف کچھ عرصہ ہی اپنی بات نبھا سکا اور پھر اپنی پرانی روش پر آگیا۔ ایک دن اچانک آصف نے بتایا کہ اس کی ایک گرل فرینڈ ہے جو ماں بنے والی ہے اور وہ اس سے شادی کرنا چاہتا ہے تا کہ سوسائٹی میں بچے کو اپنا نام دے سکے۔ مجھے ایک بار پھر نئی آزمائش کا سامنا تھا۔ اس کی نظر میری چوڑیوں پر تھی میں نے اسے وہ چوڑیاں اتار کردیں تو وہ میرا شکریہ ادا کرنے لگا۔ شادی کے کچھ عرصے تک آصف حسب وعدہ بچوں سے ملنے آتا اور ان کے لیے کچھ رقم بھی دینے لگا۔ ایک دن آصف نے کہا کہ وہ ایک اچھی گاڑی خریدنا چاہتا ہے اور اس کے پاس تھوڑے ہی پیسے کم ہیں۔ کیا میں اس کی مدد کر سکتی ہوں۔ مجھے اس بار بھی اندازا نہیں ہوا کہ اب اس کی نظر میرے ان پیسوں پر ہے جو میں نے پچھلے دو سالوں میں اکیلے رہتے ہوئے بچائے تھے۔ اس دفعہ میں ایک مرتبہ پھر اس کے لہجے سے دھوکا کھا گئی، اور اپنی آخری جمع پو نجی بھی اس کے حوالے کر بیٹھی۔ مگر اس کی گاڑی میں بیٹھنا ہمارا مقدر نہیں تھا۔ اگلے ہی دن آصف سے جھگڑا ہوا کہ وہ وعدے کے مطابق ہمیں زیادہ وقت نہیں دیتا، جس پر وہ مشتعل ہوگیا۔ پہلے اُس نے مجھے دھکا دیا پھرمارا پیٹا۔ اُسی غصے میں اس نے مجھے تیں طلاقیں دیں۔ اور ہمیشہ کے لیے رشتہ ختم کردیا۔ مجھے اس مقام پر لا کر چھوڑا جہاں نہ تو میرے پاس پیسے تھے اور نہ ہی ٹھکانہ۔ ایک طرح سے میں سڑک پر آگئی تھی۔

ایک بار پھر مجھے سٹی کونسل کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑا۔ سنہ 2012 میں دوبارہ شیفیلڈ واپس آگئی۔ یہاں سٹی کونسل کی جانب سے گھر دیا گیا ہے اور ماہانہ اخراجات کے لیے رقم بھی دی جاتی ہے ۔ وہ کہتی ہے کہ برطانیہ میں عورتوں کے لیے بہت سی تنظیمیں کام کررہی ہیں۔ روشنی نام کی ایسی ہی ایک تنظیم نے اس کی ہر طرح سے مدد کی ہے۔ وہ اپنے گھر سے خالی ہاتھ آئی تھی، کونسل کے ذریعے سامان کا تقاضا آصف سے کیا تو تنگ کرنے کی غرض سے ٹی وی کا ریموٹ، کمپیوٹر کا چارجر، حتٰی کہ بچے کی گاڑی کے ریموٹ جیسی چیزیں بھی واپس نہیں کیں اور کہا کہ میں تمھیں اتنی ذہنی اذیت دوں گا کہ تم اپنا دماغی توازن کھو دو گی۔ تب میں آسانی سے اپنے بچے حاصل کرلوں گا۔ وہ تحریری طلاق دینے پر بھی آمادہ نہیں اور چاہتا ہے کہ طلاق میری طرف سے دائر کی جائے۔ میرے دونوں بچے، ماہین 7 سال اور بیٹا حسن 3 سال اپنے باپ کو بہت یاد کرتے ہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ طلاق کا کیا مطلب ہے اور ضد کرتے ہیں کے انھیں واپس اپنے گھر جانا ہے۔ مجھے قدم قدم پر پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بس کا سفر، سکول، بینک، شاپنگ، بلوں کی ادائیگی غرض باہر کی دنیا کا سامنا کرنا میرے لیے کسی امتحان سے کم نہیں۔ فون پر بات کرنا ہو توکسی کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ میں آج کل انگریزی سیکھ رہی ہوں جس میں میری بیٹی میری کافی مدد کررہی ہے۔ اس کے بعد ڈرائیونگ سیکھنا چاہتی ہوں، تاکہ جلد از جلد اپنے پیروں پر کھڑی ہوکرمیں بھی برطانوی معاشرے کے ساتھ چل سکوں۔ اپنے بچوں کا بہتر مستقبل میری اولین ترجیح ہے۔ میں اپنی بیٹی کو ڈاکٹر اور بیٹے کو وکیل بنانا چاہتی ہوں۔

اکثر دیکھا گیا ہے کہ جب مغرب میں بسنے والی ایشیائی اور بالخصوص پاکستانی گھرانے اپنے بچوں کی شادی کرنا چاہتے ہیں تو وہ پاکستان سے داماد ا ور بہو لانے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ اِس کی وجوہات کئی ہیں جن میں اپنے خاندان، ذات اور برادری سے لڑکی یا لڑکا لانا، تاکہ خاندان سے رشتہ جڑا رہے، کبھی کبھی مفت کی ملازمہ کا حصول یا پھر اپنےکسی سگے رشتہ دار کو باہر بلا کر سیٹ کرنا شامل ہے۔ اکثر اپنے بگڑے ہوئے بچوں کو راہِ راست پر لانے کے لیے بھی ایسی شادیاں کی جاتی ہیں۔ اپنے اس فیصلے سے والدین اپنے بچوں کے ساتھ تو زیادتی کرتے ہیں۔ ساتھ ہی، کسی بے گناہ کی زندگی بھی برباد کردیتے ہیں۔ برطانیہ کے بہت سےپاکستانی گھروں میں بچوں کو جبرٍاًٍ شادی کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔

رابعہ کی اِس کہانی میں قصور وار کون ہے؟

آپ خود ہی فیصلہ کریں۔

مشرقی عورت کے مغربی مسائل

آسٹریلیا میں لڑکے کو نئی زندگی مل گئی

آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں ڈاکٹروں نے اپنی نوعیت کا پہلا سرجیکل آپریشن کرکے ایک بچے کی جان بچالی ہے، جس کا فشار خون ایک غیر معروف بیماری کے اچانک انتہائی بلند ہوجایا کرتا تھا۔ دس سالہ میتھیوگیتروپ اپنی تمام زندگی شدید نوعیت کے تناؤ میں رہا۔ اس کے جگر اور گردے کا ایسا عارضہ لاحق تھا، جسے طب کی زبان میں آٹوسومل ریسیسیو پولیسٹک کڈنی ڈزیز اینڈ کونجینائیٹل ہیپاٹک فائبروسس کہتے ہیں۔ اس کم عم میں اسے ایک بار دل کا دورہ بھی پڑچکا ہے۔ اس اذیت ناک زندگی میں روزانہ تیس طرز کی ادویات کھاتا تھا اور اس کے لیے خوراک بھی اسی مناسبت سےکیا کرتا تھا۔

محض چار برس کی عمر میں اسے نیند میں خلل کا عارضہ بھی لاحق ہوا تھا۔ روایتی طریقے سے اگر میتھیو گیتروپ کا علاج کیا جاتا تو روزانہ کی بنیاد پر اس کا خون تبدیل کرنا پڑتا یعنی ڈائلائسس، اس کا گردہ اور جگر تبدیل کرنا پڑتا اور یہ بھی خدشہ تھا کہ اسے پھر دل کا دورہ پڑ سکتا ہے۔

ایسے میں موناش ہیلتھ انسٹیٹیوٹ کے طبی عملے نے ایک تجرباتی نوعیت کے آپریشن کی ٹھانی۔ ریڈیائی شعاعوں کی تکینک کو اس انداز میں استعمال کیا گیا کہ میتھیو کے گردے کو خون فراہم کرنے والی رگ اور قریبی عضلات کو نشانہ بنایا گیا۔ سرجن ای این میریڈیتھ کے بقول اس کی مدد سے میتھیو گیتروپ کا فشار خون معمول پر آیا اور اس کی بیماری کی علامات بھی کافی حد تک ختم ہوگئیں۔ اس کم عمر لڑکے پر اس طرح رگ کو ناکارہ کرنے کا رینل ڈینرویشن طریقہء کار آزمانے سے پہلے اس کا اخلاقی پہلو سے تین اخلاقی کمیٹیوں نے جائزہ لیا اور پھر اجازت دی۔ یہ طریقہء بالغ افراد پر بھی فی الحال محض تجرباتی بنیادوں پر آزمایا گیا ہے۔

دس سالہ اس بچے کی چھوٹی رگوں کے لیے یہ آلہ ایک امریکی کمپنی نے خصوصی طور پر ڈیزائن کیا۔ گیتروپ کی والدہ ایلکس اپنی بیٹے کی حالت دیکھ کر بہت خوش ہوئیں۔ ان کے بقول ان کا بیٹا اب خاصا پرسکون اور چوکنا رہنے لگا ہے اور اس کا بلند فشار خون بھی معمول پر آ گیا ہے۔  

’’اس نے پھر سے کہانیاں پڑھنا شروع کردی ہیں، یہ سننے میں بہت چھوٹی بات لگتی ہے مگر کافی عرصے تک یہ نہیں کر پارہا تھا، وہ اب سکول پر بھی خوب توجہ دے رہا ہے۔‘‘ وہ پر امید ہیں کہ ان کے بیٹے کو اب تکلیف دہ علاج کی ضرورت نہیں پڑے گی اور وہ ایک نئی اور آسودہ زندگی بسر کر سکے گا۔
 

’ميگا اپ لوڈ‘ پر پابندی کا جواب، نئی ويب سائٹ

انٹرنيٹ کے ذريعے فائل شيئرنگ کی بين الاقوامی شہرت يافتہ ويب سائٹ ’ميگا اپ لوڈ‘ پر جنوری سے پابندی عائد ہے۔ اس کے بانی نے اگلے سال اسی طرز کی ايک نئی ويب سائٹ متعارف کروانے کا اعلان کيا ہے۔

تصاوير، فلموں، گیتوں اور متعدد اقسام کی ديگر چيزوں کی آن لائن شيئرنگ کی ويب سائٹ ’ميگا اپ لوڈ‘ کے بانی کم ڈوٹ کام (Kim Dotcom) نے انٹرنيٹ پر مواد ذخيرہ کرنے کی ’ميگا‘ نامی ايک نئی سروس کا اعلان کر ديا ہے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق يہ نئی ويب سائٹ جنوری 2013ء ميں متعارف کروائی جائے گی۔

ميگا اپ لوڈ کے بانی ڈوٹ کام کے بقول ان کی نئی ويب سائٹ کو امريکی پراسيکيوٹرز سے کوئی خطرہ نہيں ہے۔ انہوں نے يہ بات نيوز ايجنسی روئٹرز کو ديے جانے والے ايک انٹرويو کے دوران بتائی۔ ڈوٹ کام کا کہنا ہے، ’ميگا ويب سائٹ کا امريکی ہوسٹس، امريکی ڈومينز يا کسی بھی امريکی نژاد ويب سائٹ سے کوئی تعلق نہيں ہوگا‘۔ انہوں نے مزيد کہا کہ اس بار کسی ممکنہ پابندی سے بچنے کے ليے انہوں نے اپنی حکومت عملی تبديلی کی ہے۔

بھارت: لڑکیوں کے موبائل فون اور حجاب پر پابندی

بھارتی ریاست راجستھان کے گاﺅں ڈوسا میں پنچائیت نے لڑکیوں کے موبائل فون استعمال کرنے اور حجاب کرنے پر پابندی عائد کردی ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ گاﺅں کے کسی شخص نے جرگے کے اس فیصلے کے خلاف شکایت درج نہیں کرائی۔ پنچائیت میں شامل بزرگوں نے موقف اختیار کیا کہ جن لڑکیوں کے پاس موبائل فون ہیں وہ لڑکوں سے باآسانی رابطہ کرسکتی ہیں جس سے مختلف النوع مسائل جنم لے سکتے ہیں۔ آگے چل کر ان کے اہل خانہ کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ 

پنچائیت میں اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ لڑکیوں کو حجاب پہنے سے بھی روکا جائے کیوں کہ حجاب کی آڑ میں وہ باآسانی اپنی شناخت چھپا لیتی ہیں اور باہر گھومنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق گزشتہ ہفتے گاﺅں کی ایک لڑکی دوسرے گاﺅں کے لڑکے کے ساتھ بھاگ گئی تھی جس کے بعد یہ جرگہ منعقد کیا گیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ پنچائیت کے اس فیصلے کے خلاف کسی نے شکایت درج نہیں کرائی۔

والد کا خیال نہ رکھنے پر تین بیٹوں کوجیل

بھارت کی ریاست راجستھان کے بارمیڑ ضلعے کی ایک عدالت نے تین لڑکوں کو اپنے والد کا خیال نہ رکھنے پر دو دو ماہ کی سزا سنائی ہے۔ اس عمر رسیدہ شخص کے بیٹوں پر الزام ہے کہ انہوں نے اپنے والد کا خیال نہیں رکھا اور انہیں بے سہارا چھوڑ دیا۔ بارمیڑ کے گودھاملانی کے ذیلی ضلعی مجسٹریٹ کی عدالت نے جمعرات کو یہ فیصلہ سنایا اور پولیس کو حکم دیا کہ وہ ان تینوں بیٹوں کو گرفتار کرکے جیل میں ڈال دے۔ ستر سالہ سونا رام وشنوعی کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے ایس ڈی یم نے یہ پایا کہ ان کے بچوں نے ان کا خیال نہیں رکھا اور انھیں بے سہارا چھوڑ دیا اور اسی لیے انہیں یہ سزا سنائی گئی۔ شکایت کے مطابق وشنوئی کے چھ بیٹے ہیں جن میں سے تین نے عدالت کے حکم کے باوجود ان کی مدد کرنے سے منع کردیا۔ شکایت نامے کے مطابق چھ میں سے تین بیٹوں نے عدالت کے سامنے اپنے والد کا خیال رکھنے کا وعدہ کیا لیکن دوسرے تین بیٹوں نے ان پر الزام لگایا کہ وہ ایک لاپرواہ والد رہے ہیں اور انہوں کبھی اپنی اولاد کی پروا نہیں کی۔

عدالت میں ان بیٹوں کو حاضر کرنے کے لیے عدالت کو کافی مشقت کرنی پڑی کیونکہ ان کے بیٹے عدالت سے جاری سمن وصول کرنے کے لیے تیار ہی نہیں تھے۔ عدالت نے یہ حکم جاری کیا تھا کہ ضعیف سونارام وشنوئی یہاں وہاں بھٹک رہے ہیں اس لیے ان کے بیٹوں کو چاہیے کہ وہ ان کی فکر کریں لیکن ان کے بیٹوں نے ان کی کوئی خبر نہیں لی۔ شروع میں عدالت نے ان کے بیٹوں کو اپنے والد کی دیکھ بھال کی جانب راغب کرنے اور احساس دلانے کی کوشش کی لیکن انہوں نے اس کا کوئی اثر نہیں لیا۔ اس کے بعد ایس ڈی ایم شنکر لال نے بوڑھے اور معمر شہری کی نگرانی اور دیکھ بھال کے قانون کے تحت اپنے اختیار کا استعمال کرتے ہوئے انہیں ‎سزا سنائی۔

اس قانون کے مطابق اگر کسی شخص کو اس جرم کا مرتکب پایا گیا کہ وہ اپنے والدین کا خیال نہیں رکھ رہا ہے تو اسے تین ماہ کی قید ہو سکتی ہے اور پانچ ہزار تک جرمانہ۔ ریاست نے دو سال قبل اس قانون کو منظوری دی تھی۔

والد کا خیال نہ رکھنے پر تین بیٹوں کوجیل

جمعرات, نومبر 01, 2012

کراچی لاڑکانہ میں ایڈز کے مریضوں میں اضافہ

کراچی: پاکستان میں ایڈز کا مرض تیزی سے پھیل رہا ہے، خصوصاً صوبہ سندھ کے دو شہروں کراچی اور لاڑکانہ میں ایچ آئی وی پوزیٹو اور ایڈز کے مریضوں کی تعداد میں بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ حکومت سندھ کے ایڈز کنٹرول پروگرام کے مطابق اس کی بنیادی وجہ منشیات، مرد و خواتین سیکس ورکرز اور تیسری جنس سے تعلق رکھنے والے ہیں۔

سندھ ایڈز کنٹرول پروگرام کےجون 2012ء تک کے اعداد وشمار کے مطابق کراچی میں ایچ آئی وی پوزیٹو مریضوں کی رجسٹرڈ تعداد سب سے زیادہ رہی جو 3 ہزار 5 سو 69 ہے جبکہ یہاں 57 افراد کو ایڈز کا مرض لاحق ہے۔ دوسرا نمبر لاڑکانہ کا ہے جہاں ایچ آئی وی پوزیٹو مریضوں کی تعداد 238 ہے جبکہ تین افراد ایڈز میں مبتلا ہیں۔ 

سندھ ایڈز کنٹرول پروگرام کے ڈاکٹر سلیمان اووڈھو نے وائس آف امریکہ کے نمائندے کو بتایا کہ سن 2010ء تک ایڈز کے سب سے زیادہ مریض لاڑکانہ میں تھے جبکہ دو سال بعد کراچی لاڑکانہ سے آگے نکل گیا ہے۔ ڈاکٹر اووڈھو کے مطابق ایچ آئی وی پوزیٹو اور ایڈز کے مریضوں کی تعداد میں اضافے کا سبب نوجوانوں میں بہت تیزی سے بڑھتا ہوا منشیات کا استعمال ہے۔ دوسری اہم وجہ غیر محفوظ جنسی تعلقات یا بے راہ روی ہے۔ مریضوں کی بیشتر تعداد اپنی شریک حیات تک محدود نہیں۔ اسی طرح جسم فروشی کرنے والی خواتین خود بھی ایڈز کا شکار ہوجاتی ہیں اور دوسروں کو بھی اس موذی مرض میں مبتلا کردیتی ہیں۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ حالیہ برسوں میں کراچی میں تیسری جنس کے افراد میں بھی بہت تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ اور جنس کے کاروبار میں ان کے ملوث ہونے کا نتیجہ ایچ آئی وی ایڈز کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ کی صورت میں نکل رہا ہے۔ 

کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ لوگوں کا ایڈز اور ایچ آئی وی پوزیٹو کے بارے میں شعور پہلے کے مقابلے میں بہتر ہوا ہے لیکن اب بھی لوگوں کو بڑے پیمانے پر آگاہی کی ضرورت ہے۔
 

گوگل ہتکِ عزت کا مقدمہ ہار گیا

آسٹریلیا میں گوگل کے خلاف ہتکِ عزت کے ایک مقدمے میں جیوری نے ایک شکایت کے بعد اسے ہرجانے کا موجب قرار دیا ہے۔ شکایت میں کہا گیا تھا کہ اس کے سرچ کے نتائج میں ایک مقامی شخص کو جرائم کی دنیا سے وابستہ دکھایا گیا ہے۔ ملوراڈ ٹرکلجا نامی شخص نے الزام لگایا تھا کہ امریکی کمپنی کی وجہ سے اس کی شہرت کو نقصان پہنچا ہے۔ باسٹھ سالہ شخص کا کہنا تھا کہ جب سرچ انجن کو اسے ہٹانے کے لیے کہا گیا تو اس نے ایسا کرنے سے انکار کردیا۔ اس سے پہلے وہ یاہو کے خلاف بھی مقدمہ جیت چکے ہیں۔ گوگل نے ابھی اس فیصلے پر کوئی ردِ عمل ظاہر نہیں کیا ہے اور ہو سکتا ہے کہ وہ اس کے خلاف اپیل کرے۔ اگلے دو ہفتوں میں جج یہ طے کریں گے کہ ہرجانہ کتنا ہونا چاہیے۔

ملوراڈ ٹرکلجا 1970 کے اوئل میں یوگوسلاویہ چھوڑ کر آسٹریلیا آ بسے تھے۔ اس کے بعد وہ تارکینِ وطن کی برادری کے اہم رکن بن گئے اور 1990 کے دہائی میں یوگوسلاو موضوعات پر ’مکی فولکفیسٹ‘ نامی ٹی وی شو بھی چلاتے رہے۔ سنہ 2004 میں ایک ریستوران میں بالاکلاوا (ایک خاص قسم کا کنٹوپ) پہنے ایک شخص نے ان کی کمر پر گولی مار دی تھی۔ یہ کیس کبھی بھی حل نہیں ہوا لیکن بعد میں ہیرالڈ سن اخبار نے اس کی یہ خبر لگائی کہ پولیس کے مطابق میلبورن زیرِ زمین مافیا کا اس سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ اس حملے کے نتیجے میں جب بھی ملوراڈ ٹرکلجا کا نام گوگل تصاویر میں ڈالا جاتا تو کئی افراد کی تصاویر ان کے نام کے ساتھ آ جاتیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ان میں سے کچھ لوگ مبینہ طور پر قاتل ہیں اور ایک منشیات فروش بھی ہے۔ اس کے علاوہ ان میں سے کئی ایک تصاویر کے نیچے ’میلبورن کرائم‘ بھی لکھا آتا ہے جس میں سے ایک ٹرکلجا کی بھی ہے، جس کے متعلق وہ الزام لگاتے ہیں کہ دیکھنے والے کو لگتا ہے کہ وہ بھی جرائم پیشہ ہیں۔.

گوگل کو جرمنی کے سابق صدر کی اہلیہ بیٹینا وولف کی جانب سے بھی شکایت کا سامنا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب بھی ان کا نام لکھ کر سرچ کیا جاتا ہے تو ’وحشیا‘ اور ’بازارِ حسن‘.جیسی مجوزہ سرچ کے نتائج آتے ہیں۔

گوگل ہتکِ عزت کا مقدمہ ہار گیا

حضرت علی رضی اللہ عنہ

حضرت علی رضی اللہ عنہ بچپن سے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی آغوشِ تربیت میں پلے تھے اور جس قدر ان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال سے مطلع ہونے کا موقع ملا تھا اور کسی کو نہیں ملا۔ ایک شخص نے ان سے پوچھا کہ آپ اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی نسبت کثیر الروایت کیوں ہیں؟ فرمایا کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ دریافت کرتا تھا تو بتاتے تھے۔ اور چپ رہتا تھا تو خود ابتدا کرتے تھے۔

اس کے ساتھ ذہانت، قوتِ استنباط، ملکۂ استخراج ایسا بڑھا ہوا تھا کہ عموماً صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین اعتراف کرتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا عام قول تھا کہ خدا نہ کرے کہ کوئی مشکل مسئلہ آن پڑے اور علی رضی اللہ عنہ ہم میں موجود نہ ہوں۔ عبداﷲ بن عباس رضی اللہ عنہ خود مجتہد تھے مگر کہا کرتے تھے کہ جب ہم کو علی رضی اللہ عنہ کا فتویٰ مل جائے تو کسی اور چیز کی ضرورت نہیں۔

(ابو حنیفہ سے اقتباس)

خواتین ایشیا کپ: پاکستان کو فائنل میں شکست

خواتین کے ٹی ٹوئنٹی ایشیا کپ کے فائنل میں بھارت نے پاکستان کو 18 رنز سے شکست دے کر کپ جیت لیا ہے۔ چین کے شہر گوانگ ڈونگ میں کھیلے جانے والے فائنل میچ میں بھارت نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے مقررہ 20 اوورز میں دس وکٹوں کے نقصان پر 81 رنز بنائے۔ 82 رنز کے تعاقب میں پاکستان کی ٹیم 19.1 اوورز میں 63 رنز بنا کر آؤٹ ہوگئی۔ پاکستان کی اننگز میں سب سے زیادہ سکور 18 رنز تھا جو بسماء معروف نے بنایا۔ اس کے علاوہ کپتان ثناء میر نے 11 اور نین عابدی نے 13 رنز بنائے۔ بھارت کی جانب سے ارچنا داس اور نرجنا نے دو دو وکٹیں حاصل کیں۔

اس سے پہلے بھارت کی اننگز میں سب سے زیادہ سکور پونم روت کا رہا انہوں نے 25 رنز بنائے۔ اس کے علاوہ ہرمنپریت کوہر نے 20 اور ریما ملہوترا نے 18 رنز بنائے۔ پاکستان کی جانب سے کپتان ثناء میر نے 13 رنز کے عوض چار وکٹیں حاصل کیں۔ بھارت کی بلے باز پونم روت کو میچ کا جبکہ پاکستان کی بسماء معروف کو سیریز کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا۔

ایشیا کپ: پاکستان کو فائنل میں شکست