پیر, اگست 13, 2012

27 ویں اولمپک ، رنگارنگ تقریب، امریکا کی برتری کے ساتھ اختتام پذیر

اختتامی تقریب کا منظر
27 ویں اولمپک گیمز اتوار کو رنگارنگ اور دلکش تقریب میں امریکا کی برتری کے ساتھ ختم ہوگئے ہیں۔ امریکا نے 46 گولڈ، 29 سلور اور 29 برانز میڈلز کے ساتھ مجموعی طور پر 104 تمغے حاصل کئے، چین 38 گولڈ، 27 سلور، 22 برانز میڈل کے ساتھ دوسرے نمبرپر رہا، میزبان برطانیہ 29 گولڈ، 17 سلور اور 19 برانز میڈل حاصل کرکے تیسرے نمبر پر رہا۔ ان کھیلوں میں پاکستان کوئی تمغہ حاصل نہیں کرسکا اور اس کے ارکان خالی ہاتھوں کے ساتھ 15 اگست کو وطن واپس آئیں گے۔ ہاکی میں پاکستان نے ساتویں پوزیشن حاصل کی۔ امریکا کے پیراک مائیکل فیلپس نے سب سے زیادہ 6 طلائی تمغے حاصل کئے۔ جمیکا کے ایتھلیٹ یوسین بولٹ نے 3 طلائی تمغے حاصل کئے۔ سونے کے تمغوں پر امریکا اور چین کی واضح برتری میں ہونے والی دلفریب اختتامی تقریب میں اگلے اولمپک گیمز 2016 کے میزبان شہر ری ڈی جینرو کے نیر ایڈورڈ وپاٹس کے حوالے کیا گیا۔ 

3 گھنٹے پر محیط خوب صورت اور دل لبھا تقریب میں برطانوی موسیقی کے 50 سالہ سفر پر روشنی ڈالی گئی۔ 36 ہزار فنکاروں نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ لندن اولمپک گیمز میں حصہ لینے والے ملکوں کے ایک ایک ایتھلیٹ اپنے ملکوں کے قومی پرچم تھامے اختتامی مارچ پاسٹ میں شریک ہوئے۔ پاکستان کا پرچم قومی ہاکی ٹیم کے کپتان سہیل عباس کے ہاتھ میں تھا۔ اختتامی تقریب میں آتش بازی کے دلکش مظاہرے نے سٹیڈیم میں موجود شائقین اور ٹی وی پر دیکھنے والے اربوں ناظرین کو دم بخود کردیا۔ اختتامی تقریب کے موقع پر سیکورٹی کے کڑے انتظامات کئے گئے تھے۔ ہزاروں تماشائی ہدایت کے مطابق تقریب کے آغاز سے 3 گھنٹے قبل سٹیڈیم پہنچ گئے تھے۔ 

لورا اسا دواس
کھیلوں کے آخری روز 15 گولڈ میڈلز کا فیصلہ ہوا۔ مجموعی طور پر 302 گولڈ میڈلزکا فیصلہ کیا گیا۔ لندن اولمپک کا پہلا تمغہ چین کی شوٹر ای سلنگ اور آخری تمغہ لیتھونیا کی لورا اسا دواس کینی کے حصے میں آیا۔ انہوں نے ماڈرن پینٹاتھلون میں حاصل کیا۔ لندن اولمپک کا پہلا اور آخری تمغہ خواتین کے حصے میں آیا، یہ واحد اولمپک گیمز تھے جس میں خواتین کی تعداد 40 فیصد سے زیادہ رہی۔ دنیا کے ہر ملک کی خواتین کھلاڑیوں نے پہلی بار اولمپک کھیلوں میں حصہ لیا۔

بھول سکتا ہے بھلا کون یہ پیاری آنکھیں


بھول سکتا ہے بھلا کون یہ پیاری آنکھیں
رنگ میں ڈوبی ہوئی ، نیند سے بھاری آنکھیں

میری ہر سوچ نے، ہر سانس نے چاہا ہے تمہیں
جب سے دیکھا ہے تمہیں، تب سے سراہا ہے تمہیں
بس گئی ہیں میری آنکھوں میں، تمہاری آنکھیں

تم جو نظروں کو اٹھاؤ تو ستارے جھک جائیں
تم جو پلکوں کو جھکاؤ تو زمانے رک جائیں
کیوں نہ بن جائیں ان آنکھوں کی پجاری آنکھیں

جاگتی راتوں کو سپنوں کا خزانہ مل جائے
تم جو مل جاؤ تو جینے کا بہانہ مل جائے
اپنی قسمت پہ کریں ناز ہماری آنکھیں


ساحر لدھیانوی

اتوار, اگست 12, 2012

عرب شہزادوں کو شکار کی اجازت ملنے پر اظہار تشویش

اسلام آباد (آئی این پی) قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے ماحولیاتی تبدیلی نے عرب ممالک کے شاہی خاندانوں کو تلور کے شکار کی اجازت دینے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے وزارت خارجہ سے تلور کے شکار کے لیے دیے گئے لائسنسوں پر جواب طلب کرلیا۔ تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے موسمیاتی تبدیلی کا اجلاس چیئرمین کمیٹی غلام میر سمیجھو کی زیر صدارت منگل کو پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا۔ اجلاس میں اراکین کمیٹی سمیت وفاقی سیکرٹری، وزارت موسمیاتی تبدیلی محمود عالم، ڈی جی این ڈی ایم اے تار سمیت اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔ 

آئی جی فارسٹ سید محمود ناصر نے کمیٹی کو بتایا کہ پاکستان میں پودوں کی 10ہزار جبکہ جانوروں اور پرندوں کی 4 ہزار سے زائد اقسام کی حیات کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ شاہی خاندانوں کو پاکستان میں تلور کے شکار کے لائسنس جاری ہونے سے تلور کی نسل ناپید ہونے کا خطرہ ہے۔ آئی جی فاریسٹ نے بتایا کہ عرب شاہی خاندان کے پاکستان شکار کے لیے آنے والے ایک شخص کو 100 تلور شکار کرنے کی اجازت ہوتی ہے تاہم وہ اس سے کئی گنا زیادہ پرندے شکار کرتے ہیں۔ وزارت خارجہ نے شاہی خاندانوں کو یومیہ 700 جانوروں اور پرندوں تک کے شکارکرنے کے لائسنس جاری کیے ہیں۔

قائمہ کمیٹی کا عرب شہزادوں کو شکار کی اجازت ملنے پر اظہار تشویش

مکروہ اوقات نماز

گزشتہ دنوں محلے کی مسجد کے امام صاحب نے مندجہ ذیل اہم مسائل بیان کیے ہیں؛

انہوں نے بتایا کہ طلوع صبح صادق یعنی جس وقت فجر کی نماز کا وقت شروع ہوجائے اس وقت سے لے کر طلوع آفتاب یعنی سورج نکلنے تک، فجر کی نماز کے لئے دو رکعت سنتوں کے علاوہ کوئی اور نفل نماز ادا نہیں کی جاسکتی۔ اس کے علاوہ نماز عصر کے فرائض ادا کرنے کے بعد سے لے کر غروب آفتاب یعنی سورج غروب ہونے تک نفل نماز ادا کرنا ممنوع ہے۔

جس وقت سورج طلوع ہورہا ہو اور زوال کے وقت یعنی جس وقت سورج نصف النہار پر ہو اور عین سورج غروب ہوتے وقت نماز ادا کرنا مکروہ عمل ہے۔

ایران میں زلزلے، ایک سو اسّی ہلاکتیں

ایرانی حکام کا کہنا ہے ملک کے شمال مغربی علاقے میں آنے والے دو زلزلوں میں کم از کم ایک سو اسّی افراد ہلاک اور تیرہ سو سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔

امریکی ارضیاتی سروے کے مطابق تبریز کے خطے میں آنے والے دو زلزلوں کی شدت چھ اعشاریہ چار اور چھ اعشاریہ تین تھی۔

ایرانی حکام کے مطابق پہلا زلزلہ ایران کے شہر تبریز جبکہ دوسرا زلزلہ اھر قصبے کے قریب آیا۔ تہران یونیورسٹی کے زلزلہ پیما مرکز کے مطابق دونوں زلزلے یکے بعد دیگرے آئے۔ حکام کا کہنا ہے کہ زیادہ نقصان تبریز اور اھر کے مضافاتی علاقوں میں ہوا ہے۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق مشرقی آذربائیجان صوبے کی ہنگامی امداد کی مقامی کمیٹی کے سربراہ کے مطابق سب سے زیادہ نقصان حارث اور ورزقاب نامی قصبات میں ہوا ہے۔

حکام کے مطابق زلزلے سے چار دیہات مکمل طور پر تباہ ہوگئے ہیں جبکہ ساٹھ دیہات میں ساٹھ سے ستّر فیصد تباہی ہوئی ہے۔

ایران کی ہنگامی سروسز کے ادارے کے سربراہ غلام رضا معصومی کا کہنا تھا کہ ’مواصلاتی نظام کو نقصان پہنچنے کی وجہ سے حکام کو ہلاکتوں کی درست تعداد کا تعین کرنے میں مشکلات پیش آ رہی ہیں‘۔

تبریز کی ایک رہائشی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’زلزلے کے جھٹکوں نے شہریوں میں شدید خوف و ہراس پھیلا دیا اور بہت سے لوگ اپنے مکانوں سے باہر نکل آئے ہیں۔ ایمبولینسوں کا رش ہر جگہ ہے‘۔

ایران میں زلزلے، ایک سو اسّی ہلاکتیں

بنگلہ دیش: مسجد پر بجلی گرنے سے تیرہ ہلاک

بنگلہ دیش میں پولیس کا کہنا ہے کہ ملک کے ایک شمال مشرقی گاؤں میں ایک مسجد پر بجلی گرنے سے کم از کم تیرہ افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔
 
اطلاعات کے مطابق سیلہت ضلع میں لوگوں نے رمضان کی خصوصی نمازیں ابھی مکمل ہی کی تھیں کہ ٹین سے بنی اس عارضی عمارت پر بجلی گر گئی۔

عینی شاہدین کا کہنا تھا کہ ایسا معلوم ہوا کہ بجلی گرنے سے مسجد کی پوری عمارت میں بجلی دوڑ گئی۔ اس واقعے میں مسجد کے امام بھی ہلاک ہونے والوں میں شامل ہیں۔ 

اولمپک ہاکی فائنل، جرمنی نے ہالینڈ کو شکست دے دی

جیت کی خوشی
اولمپک 2012ء کے ہاکی فائنل میچ میں جرمنی نے ہالینڈ کو 1 کے مقابلے میں 2 گول سے شکست دے کر سونے کا تمغہ جیت لیا ہے۔ اس سے قبل آسٹریلیا کی ٹیم نے برطانیہ کی ٹیم کو 1 کے مقابلے میں 3 گول سے شکست دے کر تیسری پوزیشن حاصل کی اور کانسی کا تمغہ جیتا۔

یاد رہے کہ جرمنی کی ٹیم نے مسلسل تیسری مرتبہ اولمپکس میں سونے کا تمغہ جیت کر ہیٹ ٹرک مکمل کرلی ہے۔

خواتین کے مقابلوں میں ہالینڈ کی ٹیم نے سونے، ارجنٹائن کی ٹیم نے چاندی اور برطانیہ کی ٹیم نے کانسی کا تمغہ جیتا۔ 

ہفتہ, اگست 11, 2012

ہاکی اولمپکس: جرمنی اور ہالینڈ آج فائنل کھیلیں گے

لندن اولمپکس 2012ء کے مردوں کے ہاکی مقابلوں میں جرمنی اور ہالینڈ فائنل میں پہنچ گئے ہیں جہاں وہ آج ہفتہ کو میدان میں اتریں گے۔

جمعرات کو ہونے والے سیمی فائنلز میں جرمنی نے سنسنی خیز مقابلے کے بعد عالمی نمبر ایک آسٹریلیا کو جب کہ ہالینڈ نے برطانیہ کو شکست دی۔

پہلے سیمی فائنل میں آسٹریلیا نے کھیل کے ابتدائی مرحلے سے دباؤ برقرار رکھا اور دو ایک کی خاصی دیر تک برتری برقرار رکھی۔ تاہم اختتامی مرحلے میں جرمنی نے سنسنی خیز انداز میں تین گول کرکے فائنل کے لیے کوالی فائی کرلیا۔

دوسرے سیمی فائنل میں برطانیہ کو ہالینڈ کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ ہالینڈ نے شروع ہی سے کھیل پر اپنی گرفت مضبوط رکھی اور میچ کے اختتام پر نو، دو سے فتح حاصل کرتے ہوئے فائنل میں جگہ بنالی۔

ہاکی اولمپکس: جرمنی اور ہالینڈ فائنل میں

صنوبر کے 100 درختوں کا خاکستر ہونا باعث تشویش

پاکستان میں اگرچہ جنگلات عالمی سطح پر متعین کردہ کم از کم حد سے بہت تھوڑے رقبے پر واقع ہیں لیکن قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہاں دنیا کے دوسرے بڑے صنوبر کے جنگلات موجود ہیں۔

صنوبر کو سب سے قدیم اور سب سے طویل عمر پانے والے درختوں میں شمار کیا جاتا ہے جوکہ بعض اندازوں کے مطابق تین ہزار سال تک محیط ہوسکتا ہے۔ علاوہ ازیں سطح سمندر سے دو سے تین ہزار میٹر بلندی پر شدید موسم میں افزائش بھی اس کی انفرادیت ہے۔

پاکستان میں صنوبر کے جنگلات شمال مغرب اور جنوب مغرب میں پائے جاتے ہیں۔

گزشتہ دنوں گلگت بلتستان کے علاقے رحیم آباد میں صنوبر کے جنگلات میں آگ بھڑک اٹھی تھی جس سے بہت سے درخت متاثر ہوئے۔

ورلڈ وائڈ فنڈ فار نیچر پاکستان کے کنزرویشن مینیجر محمد ظفر خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ تقریباً ایک مربع کلومیٹر رقبے پر واقع صنوبر کے جنگل کو آتشزدگی سے نقصان پہنچا اور لگ بھگ 100 درخت جل گئے۔

’’ان درختوں کی افزائش بہت سست ہوتی ہے۔ ایک درخت کو میچور ہونے میں سو سال لگ جاتے ہیں۔ یہاں پر گلگت بلتستان میں جونی پر (صنوبر) کے جنگلات ٹکڑیوں میں پائے جاتے ہیں تو اس (آتشزدگی) سے اس پیچ کو نقصان پہنچا ہے‘‘۔

انھوں نے بتایا کہ رحیم آباد اور اس کے گرد و نواح کے علاقے میں مارخور کی استوری نسل کے جانوروں کا مسکن ہے اور صنوبر کے جنگلات کو پہنچنے والے نقصان سے یہ مارخور بھی بالواسطہ طور پر متاثر ہو سکتے ہیں۔

محمد ظفر نے بتایا کہ یہاں کی مقامی آبادی کی ایندھن کی ضروریات بھی جنگلات سے حاصل ہونے والی لکڑی پر منحصر ہوتی ہیں جس سے قدرتی درختوں کے ذخائر پر ایک اضافی بوجھ پڑتا ہے۔

’’گلگت بلتستان کے محکمہ جنگلات نے گو کہ جنگلات سے لکڑی کاٹنے پر پابندی عائد کر رکھی ہے لیکن یہاں کے لوگوں کا انحصار اس پر ہے ... تو ورلڈ وائڈ فنڈ فار نیچر نے دیگر متعلقہ اداروں کے ساتھ مل کر یہاں لوگوں کی زرعی اراضی میں تیزی سے بڑھنے والے درخت لگانے کا منصوبہ شروع کر رکھا ہے تاکہ قدرتی جنگلات پر پڑنے والے بوجھ کو کم کیا جاسکے‘‘۔

ان کے بقول رواں سال اب تک یہاں ڈیڑھ لاکھ تیزی سے بڑھنے والے پودے جن میں سفیدہ، کیکر اور بید شامل ہیں لگائے جاچکے ہیں۔

عالمی سطح پر کسی بھی ملک کے تقریباً 20 سے 25 فیصد رقبے پر جنگلات کا ہونا ضروری ہے جب کہ پاکستان میں 4.8 چار فیصد رقبے پر ہی درختوں کے ذخائر ہیں۔

صنوبر کے 100 درختوں کا خاکستر ہونا باعث تشویش

جمعہ, اگست 10, 2012

ابن سینا

ان کا مکمل نام علی الحسین بن عبد اللہ بن الحسن بن علی بن سینا (980 تا 1037 عیسوی) ہے جو کہ دنیائے اسلام کے ممتاز طبیب اور فلسفی ہیں۔ بوعلی سینا کو مغرب میں Avicenna کے نام سے جانا جاتا ہے۔

”الشیخ الرئیس“ ان کا لقب ہے، فلسفی، طبیب اور عالم تھے۔ اسلام کے عظیم تر مفکرین میں سے تھے اور مشرق کے مشہور ترین فلاسفروں اور اطباء میں سے تھے۔ صفر 370 ہجری 980 عیسوی کو فارس کے ایک چھوٹے سے گاؤں ”افنشہ“ میں پیدا ہوئے، ان کی والدہ اسی گاؤں سے تعلق رکھتی تھیں جبکہ ان کے والد ”بلخ“ (اب افغانستان) سے آئے تھے۔ بچپن میں ہی ان کے والدین بخارا (اب ازبکستان) منتقل ہوگئے جہاں ان کے والد کو سلطان نوح بن منصور السامانی کے کچھ مالیاتی امور کی ادارت سونپی گئی۔ بخارا میں دس سال کی عمر میں قرآن ختم کیا اور فقہ، ادب، فلسفہ اور طبی علوم کے حصول میں سرگرداں ہوگئے اور ان میں کمال حاصل کیا۔ کہا جاتا ہے کہ اٹھارہ سال کی عمر میں انہوں نے سلطان نوح بن منصور کے ایک ایسے مرض کا علاج کیا تھا جس سے تمام تر اطباء عاجز آچکے تھے، خوش ہوکر انعام کے طور پر سلطان نے انہیں ایک لائبریری کھول کردی تھی۔ بیس سال کی عمر تک وہ بخارا میں رہے، اور پھر خوارزم چلے گئے جہاں وہ کوئی دس سال تک رہے (392-402 ہجری) خوارزم سے جرجان پھر الری اور پھر ہمذان منتقل ہوگئے جہاں نو سال رہنے کے بعد اصفہان میں علاء الدولہ کے دربار سے منسلک ہوگئے۔ اس طرح گویا انہوں نے اپنی ساری زندگی سفر کرتے گزاری۔ ان کا انتقال ہمذان میں شعبان 427 ہجری 1037 عیسوی کو ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ اپنی زندگی کے آخری ایام میں وہ ”قولنج“ کے مرض میں مبتلا ہوگئے تھے اور جب انہیں اپنا اجل قریب نظر آنے لگا تو انہوں نے غسل کرکے توبہ کی، اپنا مال صدقہ کردیا اور غلاموں کو آزاد کردیا۔

ابن سینا نے علم ومعرفت کے بہت سارے زمروں میں بہت ساری تصانیف چھوڑیں ہیں جن میں اہم یہ ہیں:

ادبی علوم: اس میں منطق، لغت اور شعری تصنیفات شامل ہیں۔

نظری علوم: اس میں طبیعات، ریاضی، علومِ الہی وکلی شامل ہیں۔

عملی علوم: اس میں کتبِ اخلاق، گھر کی تدبیر، شہر کی تدبیر اور تشریع کی تصنیفات شامل ہیں۔

ان اصل علوم کے ذیلی علوم پر بھی ان کی تصنیفات ہیں 
ریاضی کی کتابیں: 
ابن سینا کی کچھ ریاضیاتی کتابیں یہ ہیں: رسالہ الزاویہ، مختصر اقلیدس، مختصر الارتماطیقی، مختصر علم الہیئہ، مختصر المجسطی، اور ”رسالہ فی بیان علہ قیام الارض فی وسط السماء“ (مقالہ بعنوان زمین کی آسان کے بیچ قیام کی علت کا بیان) یہ مقالہ قاہرہ میں 1917 میں شائع ہوچکا ہے۔

طبیعات اور اس کے ذیلی علوم: رسالہ فی ابطال احکام النجوم (ستاروں کے احکام کی نفی پر مقالہ)، رسالہ فی الاجرام العلویہ (اوپری اجرام پر مقالہ)، اسباب البرق والرعد (برق ورعد کے اسباب)، رسالہ فی الفضاء (خلا پر مقالہ)، رسالہ فی النبات والحیوان (پودوں اور جانوروں پر مقالہ)۔

طبی کتب: ابن سینا کی سب سے مشہور طبی تصنیف ”کتاب القانون“ ہے جو نہ صرف کئی زبانوں میں ترجمہ ہوکر شائع ہوچکی ہے بلکہ انیسویں صدی عیسوی کے آخر تک یورپ کی یونیورسٹیوں میں پڑھائی جاتی رہی۔ 
ان کی دیگر طبی تصنیفات یہ ہیں: کتاب الادویہ القلبیہ، کتاب دفع المضار الکلیہ عن الابدان الانسانیہ، کتاب القولنج، رسالہ فی سیاسہ البدن و فضائل الشراب، رسالہ فی تشریح الاعضاء، رسالہ فی الفصد، رسالہ فی الاغذیہ والادویہ، ارجوزہ فی التشریح، ارجوزہ المجربات فی الطب، اور کئی زبانوں میں ترجم ہوکر شائع ہونے والی ”الالفیہ الطبیہ“۔

ابن سینا نے موسیقی پر بھی لکھا، ان کی موسیقی پر تصنیفات یہ ہیں: مقالہ جوامع علم الموسیقی، مقالہ الموسیقی، مقالہ فی الموسیقی۔

ان کی اہم تصانیف میں
- کتاب الشفاء
- القانون فی الطب
- اشارات

یورپ میں ان کی بہت سی کتابوں کے ترجمے ہوئے اور وہاں ان کی بہت عزت کی جاتی ہے۔

ڈاکٹر شکیل آفریدی کے لئے امریکی سنٹرل انٹلی جینس ایجنسی کی طرف سے میڈل آف آنر

’وال سٹریٹ جرنل‘ کہتا ہے کہ امریکی سنٹرل انٹیلی جینس ایجنسی کےلینگ لے کے ہیڈکوارٹر میں کسی جگہ اُس پاکستانی ڈاکٹر کے لئے ایک میڈل آف آنر رکھا ہوا ہے جس نے اس ایجنسی کو ہیپاٹائٹس کےخلاف ایک بوگس سکیم چلا کر ایبٹ آباد میں اوسامہ بن لادن کی پناہ گاہ کا سُراغ لگانے میں مدد کی تھی۔

اخبار کہتا ہے کہ یہ ڈاکٹر شکیل آفریدی شاید عرصہ دراز تک اپنا یہ میڈل حاصل نہ کرسکے، کیونکہ اس وقت وہ پشاور کے سنٹرل جیل میں 33 سال کی قید تنہائی کی سزا بُھگت رہا ہے۔ یہ سزا اُسے بغاوت کے الزام میں مئی میں سُنائی گئی تھی۔

پاکستان کی آئی ایس آئی کی جاری کردہ ایک رپورٹ میں آفریدی کو ایک جہادی تنظیم کا رکن ہونے کا مجرم قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس نے 25 مرتبہ غیرملکی خفیہ ایجنٹوں سے ملاقات کی اور ان سے ہدایات حاصل کیں اور اُنہیں حسّاس نوعیت کی معلومات فراہم کیں یہ جانتے ہوئے کہ ایسا کرکے وہ پاکستان کے مفادات کے خلاف کام کررہا ہے۔

اخبار کہتا ہے کہ شاید اس ڈاکٹر نے ٹیکے لگانے کا ایک جعلی پروگرام شروع کرکے اور پاکستانی اخباری اطلاعات کے مطابق اس کے لئے 61 ہزار ڈالر کی رقم لے کر طبّی پیشے کی ذمّہ داریوں کی خلاف ورزی کی ہو۔

لیکن، اخبار کے خیال میں دلچسپ سوال یہ ہے کہ آئی ایس آئی کے لئے اکیسویں صدی کے بدنام ترین دہشت گرد کے بارے میں معلومات کیونکر حسّاس ہوسکتی ہیں، سوائے اس کے کہ یہ ادارہ یا اس کے عناصر اسے تحفظ فراہم کررہے ہونگے۔ اس سے بھی زیادہ تعجب انگیز بات یہ ہے کہ یہ ادارہ اوسامہ بن لادن کو ہلاک کرنا پاکستان کے مفاد کے خلاف کام کرنے کے مترادف سمجھتا ہے۔

اخبار کہتا ہے کہ امریکی انتظامیہ کے پاکستان کے ساتھ تعلّقات میں حال ہی میں گرمجوشی آئی ہےاور آئی ایس آئی کے ایک نئے سربراہ نے واشنگٹن کی طرف زیادہ تعمیری رویّہ اختیار کیا ہے۔ لیکن یہ مفاہمت اس وقت تک اس سے آگے نہیں بڑھ سکتی جب تک ڈاکٹرآفریدی جیل میں بند ہے۔ بن لادن کو ٹھکانے لگانے والے امریکی افراد کو واپس گھر لایا جا چُکا ہے اور ڈاکٹر آفریدی اُنہیں میں سے ایک تھا۔ اور امریکہ کی امداد کرنے والوں کو یہ اطمینان ہونا چاہئیے کہ جس طرح ہم اپنے فوجیوں کو میدان جنگ میں نہیں چھوڑ آئے اُسی طرح ہم اپنے دوستوں کو اپنے حال پر نہیں چھوڑتے۔

جمعرات, اگست 09, 2012

غصے کا علاج

جب غصہ آئے تو اِن میں سے کوئی بھی ایک یا سارے عمل کر ڈالیے۔

- اعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم پڑھیے
- ولا حول ولا قوۃ الا باللہ پڑھیے
- خاموش ہوجائیے
- وضو کر لیجئے
- ناک میں پانی چڑھائیے
- کھڑے ہیں تو بیٹھ جائیے
- بیٹھے ہیں تو لیٹ جائیے
- خود کو زمین سے ملا لیجئے، (وضو ہو تو سجدہ کرلیں) تاکہ احساس ہو کہ خاک سے بنا ہوں لہذا مجھے کسی شخص پر غصہ کرنا زیب نہیں دیتا۔
- جس پر غصہ آیا ہو اس کے سامنے سے ہٹ جائیے

اگر کسی کو غصے کی حالت میں ڈانٹ دیا ہے تو خصوصیت کے ساتھ سب کے سامنے ہاتھ جوڑ کر اس سے معافی مانگیں اس طرح نفس ذلیل ہوگا اور آئندہ غصہ کرتے وقت ذلت یاد رہے گی۔

اس بات پر غور کیجئے کہ آج میں کسی شخص کی خطا پر غصہ کررہا ہوں اور درگزر کرنے پر تیار نہیں، حالاں کہ میری خطائیں بے شمار ہیں اگر اللہ عز وجل غضب ناک ہوگیا اور اس نے مجھے معاف نہیں کیا تو میرا کیا ہوگا؟

اگر کوئی زیادتی کرے یا خطا کر دے اور اس پر نفس کی خاطر غصہ آجائے تو معاف کردینا کار ثواب ہے تو کیوں نہ میں اس کو معاف کرکے ثواب کا حق دار بنوں اور ثواب بھی کیسا زبردست کہ قیامت کے دن اعلان کیا جائے گا جس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے وہ اٹھے اور جنت میں داخل ہوجائے۔ پوچھا جائے گا کس کے لئے اجر ہے کہا جائے گا ان لوگوں کے لئے جو معاف کرنے والے ہیں۔

گیارہ سالہ نا بالغ بچی کی 54 سالہ شخص سے شادی کی کوشش ناکام

ٹھٹھہ کے علاقے سجاول میں پولیس نے گیارہ سالہ لڑکی کی شادی 54 سالہ شخص سے ناکام بناکر لڑکی، اُ س کی ماں اور بھائی سمیت 54 سالہ دولھا کو گرفتار کرلیا۔

پاکستان کے ایک موقر انگریزی روزنامے’ڈان‘ کی خبر کے مطابق، اطلاع پر پولیس نے ماچھی گوٹھ کے ایک مکان میں چھاپہ مار کر 54 سالہ شخص کو نابالغ لڑکی سے شادی کرنے کے جرم میں گرفتار کرلیا۔ لڑکی کی ماں اور بھائی نے گیارہ سالہ لڑکی کو پینتس ہزار روپے میں بیچا تھا۔

سجاول تھانے کے ایس ایس پی عثمان غنی نے ایف آئی آر درج کرنے کے بعد لڑکی کی ماں اور اس کے بھائی، نکاح خواں اور گواہوں کے خلاف تفتیش شروع کردی ہے۔ انسانی حقوق سیل کے انچارج رفیق سومرو نے بتایا کہ مزید افراد کو بھی جلد گرفتار کرلیا جائے گا۔

پاکستان میں کم عمری کی شادیوں کے خلاف موجودہ قانون میں لڑکی کی شادی کی کم از کم عمر سولہ جبکہ لڑکے کی اٹھارہ سال ہے، تاہم اس قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بچوں کی کم عمری میں شادی کا رواج موجود ہے۔

گیارہ سالہ نا بالغ بچی کی 54 سالہ شخص سے شادی کی کوشش ناکام

طوطے تین سالہ بچوں کی طرح ذہین

آسٹریا اور جرمنی کے ماہرین حیوانات نے تحقیقات کرکے یہ ندازہ لگایا ہے کہ ژاکو نسل کے طوطے وجہ اور نتیجہ کے درمیان موجود رابطہ کو تین سالہ بچوں کی طرح سمجھ سکتے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق ایسے طوطوں کی منطقی صلاحیت ایک آسان تجربہ کے دوران سامنے آئی۔ محققین نے طوطوں کو دو یکساں پلاسٹک گلاس دکھائے جس کے بعد ایک گلاس میں اخروٹ رکھا گیا جبکہ دوسرا خالی رہا۔ پھر محققین نے دونوں گلاس باری باری ہلا دیئے تاکہ طوطے سن سکیں کہ اخروٹ کون سے گلاس میں ہے۔ بعد میں طوطوں نے صحیح گلاس منتخب کیا۔ جہاں تک بچوں کا سوال ہے تو وہ تین سال کی عمر میں ہی ایسی مشق کرنے کے قابل ہوجاتے ہیں۔

طوطے تین سالہ بچوں کی طرح ذہین ہیں

یورپ میں موسم بے راہ رو ہوگیا

یورپ میں موسم کی چال ڈھال بدلی ہوئی ہے۔ پولینڈ میں شدید آندھی آنے کے باعث ہزاروں مکان منہدم ہوگئے ہیں۔ شدید ہوا کے ساتھ موسلادھار بارش کے باعث کئی شہر ندیوں کی شکل اختیار کرگئے۔ درخت جڑوں سے اکھڑ گئے اور گھروں کی چھتوں پہ جا گرے۔ ناروے میں کل ”فریدہ“ نام کا سمندری طوفان آیا۔ آدھ گھنٹے میں دریاؤں میں پانی کی سطح تقریباً ایک میٹر بلند ہوگئی۔

اس کے برعکس بلقان میں شدید گرمی ہے۔ درجہ حرارت 40 ڈگری سنٹی گریڈ کو چھو رہا ہے۔ شہر میں سڑکوں کی کولتار دھوپ سے پگھل رہی ہے۔ سربیا، رومانیہ، اٹلی اور یونان میں شدید گرمی کے باعث سیاحون نے بھاگنا شروع کردیا ہے۔

رابعہ عاشق کے اولمپک سفر کا اختتام

رابعہ عاشق
پاکستانی خاتون ایتھلیٹ رابعہ عاشق آٹھ سو میٹرز کی ہیٹ میں ہارگئیں۔ رابعہ عاشق کی شکست کے ساتھ ہی پاکستان کا لندن اولمپکس کا سفر ختم ہوگیا ہے۔ وہ اس ایونٹ کی چوتھی ہیٹ میں حصہ لینے والی چھ ایتھلیٹس میں شامل تھیں اور آخری نمبر پر رہیں۔ انہوں نے مقررہ فاصلہ دو منٹ سترہ اعشاریہ تین نو سیکنڈز میں طے کیا۔ رابعہ عاشق کو وائلڈ کارڈ کے ذریعے لندن اولمپکس میں شرکت کا موقع ملا تھا۔

اولمپکس میں آنے سے قبل رابعہ عاشق نے اس امید کا اظہار کیا تھا کہ وہ آٹھ سو میٹرز میں نیا قومی ریکارڈ قائم کرنے میں کامیاب ہوجائیں گی لیکن وہ اپنے ساتھ لندن آئی ہوئی کوچ بشری پروین کا قومی ریکارڈ جو دو منٹ صفر اعشاریہ آٹھ سکینڈز ہے نہ توڑسکیں۔ نہ صرف یہ بلکہ وہ اپنے ہی بہترین وقت کے قریب نہ آسکیں جو دو منٹ دس سیکنڈز ہے۔

رابعہ عاشق کی شکست کے ساتھ ہی پاکستان کا لندن اولمپکس کا سفر ختم ہوگیا ہے۔ ان سے پہلے ایتھلیٹ لیاقت علی۔ تیراک اسرارحسین، انعم بانڈے اور شوٹرخرم انعام مقابلوں سے باہر ہوچکے ہیں جبکہ پاکستانی ہاکی ٹیم جمعرات کو جنوبی کوریا کے خلاف ساتویں پوزیشن کا میچ کھیلے گی۔

ہاکی کے علاوہ تمام کھلاڑی وائلڈ کارڈ پر لندن آئے ہوئے ہیں۔

رابعہ عاشق کے اولمپک سفر کا اختتام

بدھ, اگست 08, 2012

محبت کی انوکھی داستان

جاوید اور ریحانہ (کرسٹینا) 2006 میں ملے اور 2010 میں ان کی شادی ہوئی
جاوید اور کرسٹینا کی محبت اور شادی کی داستان کسی فلم سے کم نہیں۔ جاوید بھارت کی گلیوں اور فٹ پاتھوں پر پلے بڑھے لیکن انہیں امریکی سیاح کرسٹینا سے محبت ہو گئی۔ دونوں کی شادی ہو چکی ہے اور اب وہ امریکی شہر اٹلانٹا میں رہتے ہیں۔

اب جاوید نیند میں بھی انگریزی میں ہی بڑبڑاتے ہیں جس سے ان کی بیوی کو لگتا ہے کہ وہ اپنے نئے ملک سے ہم آہنگ ہورہے ہیں۔

لیکن وہ کہتی ہیں ’وہ آج بھی جاوید ہے اور آج بھی بھارتی ہے‘۔

جاوید کا تعلق بھارتی ریاست بہار کے مونگیر ضلع سے ہے۔ وہ بچپن میں ہی گھر سے بھاگ کر پہلے ممبئی اور پھر دلی گئے جہاں انہیں نشے اور جوئے کی عادت پڑ گئی۔ اس وقت انہیں آوارہ بچوں کی سماجی آباد کاری کے لیے کام کرنے والے ’سلام بالک‘ نامی ٹرسٹ نے بچایا۔

جاوید کی ملاقات کرسٹینا سے پہلی بار سنہ دوہزار چھ میں اس وقت ہوئی جب کرسٹینا نے سلام بالک ٹرسٹ کے زیرِ انتظام دہلی کی سیر کے لیے آئیں۔

دو سال قبل کرسٹینا اور جاوید کی شادی ہوچکی ہے اور جاوید اٹلانٹا میں فارمیسی کے کورس میں داخلہ لینے کی کوشش کررہے ہیں۔

کرسٹینا کہتی ہیں کہ میں جاوید کی اس وقت مدد کرتی ہوں جب وہ انگریزی میں اپنے خیالات کا اظہار نہیں کر پاتے ہیں۔

جاوید اور کرسٹینا کی شادی کی تصاویر آج سلام بالک ٹرسٹ کے دفاتر میں لگی ہوئی ہیں۔ وہاں لوگ جاوید کو بہت محبت بھرے الفاظ میں یاد کرتے ہیں اور جاوید اور کرسٹینا کی محبت کی داستانیں سناتے ہیں۔

ٹرسٹ میں کام کرنے والے ایک کارکن اے کے تیواری کا کہنا ہے ’وہ ایک بہت خوش مزاج بچہ تھا، وہ اپنے گھر واپس نہیں جانا چاہتا تھا، وہ دہلی یونیورسٹی سے بی اے کیا اور ایک سماجی کارکن بن گیا۔ اور پھر اس کی کرسٹینا سے ملاقات ہوئی‘۔

یہ محبت کی داستان دہلی میں پہاڑ گنج کے علاقے میں شروع ہوئی جہاں جاوید ایک سیاحی رہنماء کے طور پر کام کررہے تھے۔ وہ سیاحوں کو اپنی کہانی سنایا کرتےکہ وہ کیسے نشے کے عادی ہوتے تھے اور کس طرح سلام بالک نے انہیں ان لعنتوں سے بچایا۔

جاوید کی کہانی سننے والوں میں ایک کرسٹینا بھی تھیں۔

بعد میں کرسٹینا نے ٹرسٹ میں رضاکارانہ طور پر کام کیا اور وہ بھاگے ہوئے بچوں کے لیے تصویریں بناتیں، بچوں کو کہانیاں سناتیں اور ان کو لکھنا سکھاتیں۔ کرسٹینا کے اپنے والدین طلاق شدہ تھے جس کی وجہ سے انہیں پیار کی اہمیت کا اندازہ تھا۔

جاوید کی کہانی سن کر کرسٹینا کہتی کہ یہ غیرمعمولی کہانی ہے کیونکہ امریکہ میں ایسا نہیں ہوتا۔ کرسٹینا کو جاوید کی مسکراہٹ اور اس کی آنکھوں کی چمک بے حد پسند تھی۔

امریکہ واپس آنے کے ایک سال بعد کرسٹینا نے لکھا کہ معلوم نہیں کہ وہ جاوید کو یاد بھی ہیں یا نہیں۔ یاد دہانی کے لیے انہوں نے لکھا کہ میں وہی ہوں جو ایک کالے کتے کے ساتھ بچوں کو کھیلاتی تھی۔ 

انھوں نے لکھا کہ حالانکہ میں تم بہت دور ہوں لیکن میں تمہیں بتانا چاہتی ہوں کہ میں زندگی میں تم جیسے کسی ایسے آدمی سے نہیں ملی (امریکہ میں بھی نہیں) جس کے لیے میرے دل میں اتنی جگہ ہو۔۔۔

جاوید نے اس ای میل کو کئی بار پڑھا۔ اسے وہ لڑکی بخوبی یاد تھی لیکن اسے اس بات کا احساس تھا کہ کہاں وہ گلیوں اور سڑکوں والا اور کہاں وہ پردیسی!

جاوید نے جواب میں لکھا کہ میں تو ’کچھ بھی نہیں مگر تم تو سب کچھ ہو‘۔

جاوید اور ریحانہ (کرسٹینا) اب امریکی شہر اٹلانٹا میں رہ رہے ہیں
اس کے بعد کرسٹینا نو بار بھارت آئیں اور جاوید سے ملتی رہیں۔ جاوید نے اپنے والدین کو کرسٹینا کے بارے میں بتایا تو وہ ان سے ملنے دہلی آئے۔

دونوں کی شادی جاوید کے گاؤں میں سنہ دو ہزار دس میں ہوئی۔ کرسٹینا نے شادی پر لال ساڑی پہنی اور ہاتھوں میں مہندی لگائی۔ انہوں نے اپنا نام تبدیل کرکے ریحانہ خاتون رکھا اور کئی دنوں تک جشن کا ماحول رہا۔

جب کرسٹینا کو پتہ چلا کہ جاوید کے والدین کی شادی چالیس سال پرانی ہے تو اسے بڑی حیرت ہوئی۔ اس کی خواہش ہے کہ اس کی بھی شادی اسی طرح قائم رہے۔

کرسٹینا کے والد امریکی ایئر لائن ڈلٹا میں پائلٹ ہیں اور وہ جاوید سے ملنے دو بار ہندوستان آچکے ہیں۔ شادی کے بعد کرسٹینا نے کہا کہ وہ جاوید کو امریکہ میں قسمت آزمائی کا ایک موقعہ دیں اور اگر انہیں پسند نہیں آیا تو وہ واپس بھارت آجائیں گے۔

کرسٹینا نے کہا سب اتنا اچھا ہوا کہ یقین نہیں آتا۔ ’یہ محبت کی عجیب داستان ہے، لوگ ہمیں اس پر کتاب لکھنے کی ترغیب دیتے ہیں‘۔

محبت کی انوکھی داستان