جمعہ, جون 29, 2012

کرینہ کپور سیف سے شادی کے لئے مذہب تبدیل نہیں کریں گی

کرینہ کپور، رواں سال اکتوبر میں سیف علی خان سے شادی ضرور کریں گی لیکن اس شادی کے لئے انہوں نے اپنا مذہب تبدیل کرنے سے صاف انکار کردیا ہے۔ حالانکہ، پٹودی خاندان کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو 2 خواتین ایسی ہیں جنہوں نے پٹودی خاندان میں شادی کے لئے اپنا مذہب اور نام دونوں تبدیل کرلئے تھے۔
ان خواتین میں سرفہرست ہیں سیف علی خان کی والدہ شرمیلا ٹیگور جو نواب منصور علی خان پٹودی یعنی سیف علی خان کے والد سے شادی کرنے سے قبل بنگال کے ایک ہندو گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں، جبکہ دوسری خاتون سیف علی خان کی پہلی بیوی امریتا سنگھ ہیں جو شادی سے قبل سکھ مت کی پیروکار تھیں۔

لیکن، کرینہ کپور ایسا نہیں کریں گی۔ خود سیف علی خان کا مقامی میڈیا سے گفتگو کے دوران کہنا تھا کہ وہ شادی کے لئے مذہب کی تبدیلی ضروری نہیں سمجھتے۔ اس لئے انہیں اس بات سےکوئی دلچسپی نہیں کہ کرینہ شادی سے پہلے اسلام قبول کرتی ہیں یا نہیں۔

سیف کا کہنا ہے کہ وہ کبھی بھی یہ نہیں چاہیں گے کہ کرینہ اپنا مذہب تبدیل کریں۔ انہوں نے حکومت کو تجویز دی کہ اسے’اسپیشل میریج ایکٹ‘ میں ترمیم کرنی چاہئیے جس کے تحت 2 مختلف مذاہب کے ماننے والوں کو آپس میں شادی کرنے سے پہلے اپنا مذہب تبدیل نا کرنا پڑے۔

 سیف کی والدہ شرمیلا نے 43 سال قبل اسلام قبول کرتے ہوئے اپنا نام عائشہ بیگم رکھ لیا تھا جبکہ امریتا سنگھ بھی سکھ مت چھوڑ کر مسلمان ہوگئی تھیں۔

بیک ٹو سکول ۔۔۔۔ 97 سال کی عمر میں میٹرک پاس

ریاست اوہائیو کی بزرگ کولیسجونی نے 80 سال کی غیر حاضری کے بعد سکول پاس کرنے کا خواب شرمندہ تعبیر کردیا۔ کولیسجونی کی طرح بہت سے لوگ امریکہ میں عمر کے کسی بھی حصے میں تعلیم مکمل کرنے کا سوچتے ہیں اور عمر کو اس راہ میں آڑے نہیں آنے دیتے۔ 



روسی لوگ بہت کم سوتے ہیں

روس کے بہت کم لوگ دیر تک سو پاتے ہيں۔ ایک سروے کے مطابق صرف دو فی صد رائے دہندگان نے کہا کہ ان کی نیند پوری ہوتی ہے۔ آٹھ فی صد کے مطابق ان کی نیند تین ماہ میں ایک بار سے زیادہ پوری نہیں ہوتی، اور پچیس فی صد کے لیے مہینے میں کئی مرتبہ صبح کو اٹھنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ ایک تہائی افراد کی نیند ہفتے میں چند بار پوری ہوتی ہے جبکہ اتنے ہی زيادہ افراد ہر رات بہت کم سوتے ہیں۔

زیادہ تر لوگوں کا خیال ہے کہ کام کی پریشانیاں ان کی نیند خراب کرتی ہیں۔ پچیس فی صد نے تسلیم کیا کہ وہ وقت پر نظر نہیں رکھ سکتے۔ کچھ لوگ گھر کی مصروفیات یا اپنے پسندیدہ مشغلات میں لگے رہتے ہیں اور چار فی صد افراد کو پیار کی وجہ سے نیند نہیں آتی۔ جبکہ کچھ لوگوں کو خراب صحت کے باعث نیند نہیں آسکتی۔

پچاس فی صد سے زیادہ روسیوں کو یقین ہے کہ نیند کی کمی سے ان کی کارکردگی پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ تیس فی صد رائے دہندگان نے کہا کہ وہ نیند پوری نہ ہونے کے باوجود بہت زیادہ کام کرتے ہیں۔ لیکن پچیس فی صد نے تسلیم کیا کہ نیند پوری نہ ہو تو ان کی کارکدگی خراب ہوجاتی ہے۔

بیشتر روسی ایام کار کے دوران نیند کی کمی پوری کرنے کے لیے ہفتے اور اتوار کو بہت زیادہ سوتے ہیں۔ پچیس فی صد افراد ہر روز ایک ہی وقت پر سو جانے کی کوشش کرتے ہیں۔

بھارت کا صوبہ کیرالہ

تصویر میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ حیرت انگیز طور پر بھارتی صوبہ کیرالہ کا نقشہ مشہور و معروف سبزی کریلے جیسا ہے۔ اگرچہ کریلے کا ذائقہ کچھ کڑوا ہوتا ہے لیکن یہ صحت کے لیے انتہائی مفید چیز ہے۔ یہ انسانی جسم کی بہت ساری بیماریوں کے لیے ایک دوا کا کام بھی کرتی ہے۔ کریلہ کھانے والے کو پھنسیاں یا دانے بہت کم نکلتے ہیں۔ لیکن کیرالہ کے بارے جان کر آپ کو یقینآ خوشی ہوگی۔ بھارت کے صوبے کیرالہ کی زبان مالیالم ہے، رقبہ 38,863 مربع کلومیٹر اور آبادی 31,838,619 ہے۔


کیرالہ - تاریخ وتہذیب کے آئینہ میں
SAFI AKHTAR

کیرالہ میں مسجدوں کی کثرت کا یہ عالم ہے کہ ہر سڑک پر تھوڑی تھوڑی دور پر چھوٹی بڑی مساجد ملیں گی۔ یہاں جب آپ مسجد تلاش کریں گے تو اس کے لئے آپ کو زیادہ تلاش و جستجو کی ضرورت نہیں کرنی پڑے گی۔ راستوں پر مسجدیں جس اہتمام کے ساتھ آباد ہیں، ایسا لگتا ہے کہ کسی خالص اسلامی حکومت نے منظم منصوبہ بندی کے تحت انہیں تعمیر کیا ہو، یہاں کی مساجد کا یہ امتیاز ہے کہ یہ صرف مسجد نہیں ہوتی بلکہ دینی تعلیم و تربیت کا گہوارہ بھی ہوتی ہے۔ ہزاروں مسجدوں میں مکاتب اور مدارس چل رہے ہیں۔ کالی کٹ سے کوچین کا فاصلہ کوئی تین سو کلو میٹر کے قریب ہے۔ اس راستے میں اہم ترین زیارت گاہیں ہیں جن میں حضرت حبیب بن مالک دینار کی مسجد و مزار اور حضرت شیخ زین العابدین مخدومی فنانی کی مسجد و مقبرہ قابل ذکر ہیں۔ حضرت مالک بن حبیب کی مسجد جس علاقہ میں واقع ہے، اس کا نام کدنگلور ہے۔ مذکورہ مقام کوچین سے کوئی پچاس کلو میٹر دور ہے جو تھریسور ضلع میں واقع ہے اور یہ مسجد ’چیرامن جامع مسجد‘ کے نام سے مشہور ہے۔ یہ مسجد ہندوستان کی پہلی مسجد ہے اور یہ اس مقام پر 6ھ یعنی حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں تعمیر ہوئی۔ بہت ممکن ہے کہ یہ ہندوستان کی پہلی مسجد ہولیکن اس کی تاریخ 6ھ ہے اس کا اب تک کوئی دستاویزی ثبوت نہیں ہے۔ ’کدنگلو‘ عہد رسالت میں ملیباری دارالسلطنت تھا، یہاں ایک غیر مسلم بادشاہ جس کا نام ’چیرامن پیرامل‘ تھا، جسے ’فرماض‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ اس بادشاہ نے عہد رسالت میں اپنے دارالسلطنت سے ہی ”معجزہ شق القمر“ کا ٹھیک اسی وقت مشاہدہ کیا تھا جب وہ رات کے کھانے کے بعد اپنی شریک حیات کے ساتھ اپنے محل کی چھت پر تفریح کررہا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس واقعہ سے متاثر ہوکر وہ مشرف بہ اسلام ہوا، وہ اپنے اہل و عیال کو چھوڑ کر عرب سے آئے چند تجار/ سیاح کے ساتھ بارگاہ رسالت میں حاضری کی نیت سے چل پڑا اور حضور پاک کی بارگاہ میں حاضر ہوکر دیدار سے مشرف ہوا، وہی چیرا من بعد کو تاج الدین کے نام سے معروف ہوا۔ جب واپس آنے لگا تو اس کی گزارش پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے چند صحابہ کرام کو ان کی رفاقت میں بھیج دیا تاکہ وہ مالا بار میں اسلام کی تبلیغ و اشاعت کا کام کرسکیں۔ یہ قافلہ واپس چلا تو کسی قریبی ”ظفار“ نامی بندرگاہ تک پہنچ کر وہ بادشاہ بیمار ہوگیا، وہیں سے انہوں نے اپنے اہلکاروں کو نصیحت آمیز خطوط بھیجے جس میں یہ حکم کر رکھا تھا کہ انہوں نے مالا بار میں تبلیغ اسلام کے جس کام کا قصد کر رکھا ہے اس کو ترک نہ کریں۔ اگر میں انتقال کر جاﺅں تو میرے انتقال کی خبر لوگوں کو دینے سے پہلے آنے والی نورانی جماعت کے ساتھ اچھا برتاﺅ کریں، انہیں یہ بھی نصیحت کی کہ ان حضرات کا شاہانہ عزت و شوکت کے ساتھ استقبال کیا جائے پھر وہیں وہ آسودہ خاک ہوگئے، شاید اسی نصیحت کا یہ اثر ہے کہ آج بھی مالا بار کا خطہ ان برکات سے عطر بیز ہے۔
کسی شہر کی تہذیب و ثقافت کا اندازہ کرنا ہو تو وہاں کے لوگوں کے رہن سہن کے ساتھ ساتھ بازاروں کا جائزہ لیجئے اور دیکھئے کہ وہاں کی مستورات کس طرح شاپنگ کررہی ہوتی ہیں۔ مگر کیرالہ میں مغربی تہذیب کے بالمقابل ایک شرافت نظر آئے گی، یہ عفت مآب خواتین عموماً گھروں میں ہوتی ہیں اور باعزت اور حیادار ہیں۔ اسلام نے جس طرح مستورات کو شرم و حیا اور گھریلو ماحول میں زندگی گزارنے کا حکم دیا ہے، الحمدللہ ان کا عقل و شعور اور فکر و نظر بھی ان برائیوں سے عموماً گریز کا ہے اور مغربی تہذیب کے برخلاف اپنے والدین اور خاوندوں کے حسب حکم وہ گھروں میں ہوتی ہیں۔ یہاں کے زیادہ تر لوگوں کا ذریعہ معاش تجارت ہے، ملازمت اگر اپنی ریاست میں مل گئی تو یہاں رکے، ورنہ کوئی خاندان ایسا نہیں جن کا کوئی فرد خلیجی ملکوں میں نہ ہو، نتیجہ یہ ہے کہ بڑے بڑے مکانات یوں ہی خالی پڑے رہ جاتے ہیں۔ یہاں کے لوگوں کی معاشی حالت اطمینان بخش ہے، عرب ملکوں میں جانے کا رجحان عام ہے، لوگ ترک وطن تو نہیں کرتے مگر بیرون ممالک میں رہتے اور مکان سازی یہاں کرتے ہیں۔ یہاں مختلف مذاہب کے حاملین بشمول ہندو مذہب کے ماننے والے بھی مسلمانوں کا بے حد احترام کرتے ہیں۔ یہاں کے لوگ اعتدال فطرت اور سلامت ذوق کے عادی ہیں، دعوت و تحریک زندگی کے اجتماعی اور انفرادی عمل میں نمایاں ہے۔ توازن فکر کے نتیجے میں جماعت دعوت و تبلیغ ہو کہ جماعت اسلامی یا جمعیت اہلحدیث، پوری زندگی ”خیرالامور اوسطہا“ کی عملی تعبیر اور تفسیر ہے۔ ریاست کے ادبی و ثقافتی شہر ملاپورم کے Perntalmanna میں جو کہ اوٹی روڈ پر واقع ہے، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا اسپیشل سنٹر ہے، جسے اے ایم یو ملاپورم سنٹر کہتے ہیں۔
یوروپی نو آبادیاتی نظام کے خلاف کیرالہ کے مسلمانوں کی داستان شجاعت کی ابتدا 1500ء میں پرتگالیوں کے خلاف جنگ سے ہوتی ہے۔ مسلم رہنماﺅں نے کیرالہ میں پرتگالیوں کے ذریعہ نو آبادی قائم کرنے کی کوششوں کی حتی المقدور مخالفت کی، حالانکہ پرتگالی کیرالہ کے چند محدود علاقوں کو اپنے قبضے میں لے چکے تھے۔ لیکن اس کے باوجود مالا بار میں ان کے توسیع پسندانہ منصوبے مسلمانوں کی کوششوں کے سبب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکے۔ گوا پر قبضے کے باوجود 18ویں صدی کے اختتام تک مالا بار ایک آزاد علاقہ رہا جہاں علاقائی تہذیب اور زبان و ادب کو پھلنے پھولنے کے مواقع حاصل تھے۔ نو آبادیاتی نظام کے تسلط کے باوجود مالا بار نے اپنی شناخت بڑی حد تک قائم رکھی اور یہاں ذیلی قومیت کا وہ نظریہ بھی جڑ پکڑ چکا تھا جس نے بعد میں ہندوستانی قومیت کا ایک حصہ بن کر انگریزوں کا مقابلہ کیا۔
بہرحال گھنیرے ناریل کے درختوں، پہاڑوں، گھاٹیوں اور کوہستانوں کے شہر منجیری کے لئے ہمارا یہ سفر تھا۔ 10 دسمبر کو جمعہ کی نماز پڑھنے کے لئے الگ الگ مساجد میں لوگ جا رہے تھے، ہم بھی ایک مسجد میں گئے، اکثر مساجد کی تعمیر یہاں روایتی انداز پر ہوئی ہے۔ منجیری کا موسم نسبتاً پرسکون اور مناظر پرکشش ہیں۔ موسم سرما میں بھی درجہ حرارت 20-24 سے زائد نہیں ہوتا۔ ملاپورم اور کالی کٹ میں ایک گھنٹہ کی دوری ہے۔ یہ سارے مراکز سیاحتی انداز کے ہیں۔ یہ خطہ رہائش کے لئے بے حد موزوں ہے۔ یہاں کوئی مسلکی ٹکراﺅ اور مکاتب فکر کی آویزش نہیں ہے۔ اسلام نے ہر طرح کی جاہلانہ نخوت کو مٹایا اور تمام انسانوں کے لئے حقیقی مساوات کے ایسے اصول ذکر کئے ہیں جن کی بلندی تک تہذیب و تمدن کے دعوﺅں کے باوجود آج تک دنیا نہیں پہنچ سکی ہے۔ اسلام کی نظر میں انسانیت کی حیثیت ایک کشادہ باغیچہ کی ہے جس میں رنگ برنگ کے پھول پروان چڑھتے ہیں اور سب مل کر باغیچے کی رونق کو بڑھاتے ہیں۔ کسی کا سفید ہونا یا سیاہ ہونا، آب و ہوا اور اس ماحول کا رہین منت ہے جس میں وہ جنم لیتا ہے، کیرالہ کے لوگ سانولے ضرور ہوتے ہیں مگر بنی نوع انسان کی وحدت نسل، زبان و رنگ سے بالاتر ہے۔ خدا نے آب و ہوا کے فرق اور رنگ کے امتیاز کو اپنی نشانیوں میں شمار کیا ہے۔ اس لئے یہ چیز نہ تو کسی کی برتری کا ذریعہ بن سکتی ہے اور نہ پستی کا۔ اسلام نے ہر فرد کو اس کے اپنے عمل کا ذمہ دار قرار دیا ہے اور ان باتوں کی شروع سے بنیاد ہی ختم کردی ہے جو غیراختیاری طور پر انسانوں کو حاصل ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر حسن و جمال یا چہرہ بشرہ کا رنگ اور کسی مخصوص خاندان میں پیدا ہونے کی بنیاد پر کسی انسان کو اسلامی تعلیمات کی رو سے کوئی برتری حاصل نہیں ہوتی، بلکہ خود اس کا اپنا کردار اسے خوبیوں کا مجموعہ یا خرابیوں کا پتلا بناتا ہے، محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت گورے اور کالے کے امتیاز کے بغیر تمام انسانوں کے لئے عام ہے، وہ لوگ جو آباء و اجداد پر فخر کرتے ہیں یا تو اس سے باز آجائیں ورنہ وہ خدا کی نظر میں کیڑے مکوڑوں سے بھی کم حیثیت ہوں گے۔

باپ کا نہ ہونا بچوں میں شدید قسم کا احساس محرومی

کراچی (جنگ نیوز) شوہر کے بغیر بچوں کی پرورش آسان نہیں۔ باپ کے بغیر بچوں کو معاشرے میں بہت سی دشواریوں، پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سکول، کالج، گھر اور تقاریب میں باپ کا نہ ہونا بچوں میں شدید قسم کا احساس محرومی پیدا کرتا ہے۔ ان خیالات کا اظہار جیو ٹی وی کے مارننگ شو ”اٹھو جاگو پاکستان“ کے شرکاء نے میزبان شائستہ واحدی کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ پروگرام میں اس اہم اور حساس موضوع پر بات ہوئی کہ ”والدین میں سے کسی ایک کی موت سے بچوں پر کیا اثرات ہوتے ہیں اور ایسے بچوں کے لئے کیا کرنا چاہئے“؟ اٹھو جاگو پاکستان میں ان حادثات سے گزرنے والے خاندان اپنے بچوں کے ہمراہ شریک ہوئے اور اپنے تاثرات ناظرین سے شیئر کئے۔ ایک بچے کا کہنا تھا کہ ابو کی باتیں بہت یاد آتی ہیں، خاص طور پر انعام ملے تو پپا یاد آتے ہیں۔ دوسرے بھائی نے بتایا کہ عید کے موقع پر اپنے والد بہت یاد آتے ہیں۔ کپڑوں کا نہ ہونا مسئلہ نہیں، والد کا نہ ہونا رُلاتا ہے۔ پروگرام میں ایک خاتون فرزانہ بھی موجود تھیں۔ فرزانہ کے میاں کاانتقال ہوگیا ہے اور وہ اب اپنے6 بچوں کی کفالت تنہا کررہی ہیں۔ فرزانہ نے شوہر کے بغیر زندگی کے بارے میں کہا کہ گھریلو مشکلات بہت آتی ہیں۔

ان پڑھ ھو

سنو ہمدم !
؛
بہت ی ڈگریاں لے کر
ہنر پر دسترس پا کر
نصابِ چاھتِ دل کے
چمکتے لفظ
آنکھوں سے
اگر پڑھنے سے قاصر ھو
تو
۔۔
ان پڑھ ھو

تین خواہشیں

کسی بھی شخص کی یہ تین خواہشیں ہوسکتی ہیں

1۔ کاش اتنا خوب صورت ہوتا جتنا اپنی ماں کو نظر آتا ہے

2۔ کاش اتنا امیر ہوتا جتنا اس کے بچے سمجھتے ہیں

3۔ کاش اتنے افیئرز ہوتے جتنے بیوی سمجھتی ہے

صبر کی صورتیں

صبر کی دو صورتیں ہیں

1۔ جو ناپسند ہو وہ برداشت کرنا

اور

2۔ جو پسند ہو اس کا انتظار کرنا

۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔

زرداری برداشت کرو

اور

بجلی کا انتظار کرو

Sea

sea is common for all
some take pearls
some take fish

&

some come out with just wet legs

thus
world is common to all, but we get
what we try

زندگی

زندگی برف کی مانند ہے، اسے اللہ کے حکم کے مطابق گزارو

ورنہ

یہ پگھل تو رہی ہے، ختم بھی ہوجائے گی۔

ایک قبرستان کے باہر لکھا تھا؛
’’کبھی ہم ایسے تھے جیسے آج تم ہو

اور

کل تم ایسے ہوجاؤ گے جیسے آج ہم ہیں۔

میڈیکل غزل

چلو آﺅ اب موسم کا مزہ چکھیں

تمام دوائیں بچوں کی پہنچ سے دور رکھیں

تم سے ملنے کی اب کیا جستجو کریں

طبیعت زیادہ خراب ہو تو ڈاکٹر سے رجوع کریں

ہماری چاہت کا کچھ تو خیال کریں

سیرپ کو اچھی طرح ہلا کر استعمال کریں

دل میرا ٹوٹ گیا اُٹھی جب اُس کی ڈولی

وہ ہنس کے بولی کھا لینا ڈسپرین کی گولی

سدا یہ دل تیرا آرزو مند رہے گا

جمعہ کے روز کلینک بند رہے گا

بیوی

بیوی آتی ہے ہیر کی طرح
میٹھی ہوتی ہے کھیر کی طرح
نمکین ہوتی ہے پنیر کی طرح

چند ماہ بعد

چبھتی ہے تیر کی طرح
کر دیتی ہے فقیر کی طرح

اور

نظر رکھتی ہے شبیر کی طرح

Our Body Parts Remind Us How To Live

we have 2 eyes
and
one tongue, which means
we need to look twice and talk once.

we have 2 ears and one mouth,
so we need to listen more
than we talk.

we have 2 hands
and one stomach
so we need to work twice as much as we eat.

we have 2 major brain parts, left and right and one heart,
so we need to think twice but trust only once.

اللہ تبارک و تعالٰی کے محبوب کون ہیں؟؟؟


1۔ اور اللہ صبر کرنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔ آل عمران، آیت نمبر 146

2۔ بے شک اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ المُمتحنَہ، آیت نمبر 8

3۔ بے شک اللہ توکل کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ آل عمران، آیت نمبر 159

4۔ بے شک اللہ توبہ کرنے والوں سے محبت کرتا ہے اور پاک صاف رہنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ البقرہ، آیت نمبر 222

جمعرات, جون 28, 2012

کلرکہار، اسلام آباد کے قریب خوب صورت سیاحتی مقام

جھیل کا بوٹنگ پوائنٹ
کلرکہار ضلع چکوال کی تحصیل اور خوب صورت سیاحتی مقام ہے جو چکوال شہر سے جنوب مغرب کی جانب تقریباً 25 کلو میٹر کے فاصلے پر اسلام آباد، لاہور موٹر وے کے ساتھ سرگودھا خوشاب سڑک پر واقع ہے۔ کلرکہار سطح سمندر سے 3 ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے، کلرکہار میں کیڈٹ کالج، فضائیہ انٹر کالج اور فوج فائونڈیشن ہسپتال بھی قائم کیا گیا ہے۔ کلرکہار کی مقبولیت کی بنیادی وجہ  وہاں موجود باغات میں آزاد پھرتے مور اور بڑے رقبہ پر جھیل، لوکاٹ، ناشپاتی اور انار کے باغات ہیں۔ ان باغات میں کیلے کے درخت بھی موجود ہیں۔ درختوں سے پھل توڑنے کی اجازت نہیں ہے کیوں کہ سرکار باغات کا ٹھیکہ دیتی ہے اور ٹھیکہ دار کے لوگ وہاں موجود ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ کلرکہار میں گلاب کے باغ بھی ہیں جن سے عرق نکال کر فروخت کیا جاتا ہے۔ عرق گلاب کی بوتلیں چوک میں واقع دکانوں پر فروخت کے لئے موجود ہیں۔ درختوں میں ”مور“ کھلے عام آزاد پھرتے بہت مشہور ہیں۔ مزار کی پہاڑی سے مشرق کی جانب پہاڑی تک ایک لفٹ بھی لگائی گئی ہے جس سے وادی اور جھیل کا خوب صورت نظارہ ملتا ہے۔ 

تخت بابری اور جھیل کا راستہ
کلرکہار میں تخت بابری بہت مشہور جگہ ہے جو انار کے باغ میں واقع ہے۔ اس کے بارے میں مشہور ہے کہ شہنشاہ ظہیر الدین بابر نے کشمیر جاتے ہوئے یہاں ٹھرائو کیا اور اپنی فوج سے خطاب کیا تھا۔

گرمیوں میں موسم کافی گرم اور سردیوں میں سرد ہوتا ہے۔ پہاڑ کی چوٹی پر ایک مزار بھی ہے جہاں اکثر لوگ فاتحہ خوانی کے لئے جاتے ہیں۔ جس پہاڑی پر مزار واقع ہے اس کے دامن میں پانی کا چشمہ ہے جہاں سے ہر وقت پانی نکلتا رہتا ہے۔ یہ پانی ایک نالے کے ذریعے جھیل تک پہنچایا جاتا ہے، نالے کے اوپر پانی کے راستے میں حمام بنائے گئے ہیں جہاں عام لوگوں کو غسل کرنے کی اجازت ہے۔

آزاد گھومتا 'مور'
لوکاٹ اور انار کے باغات کے ساتھ ہی راستہ جھیل کی طرف جاتا ہے۔ جھیل جانے کے لئے پہلے صرف ایک راستہ تھا، جہاں سے داخلہ تھا وہیں سے واپسی بھی ہوتی تھی جس کے باعث چھٹی کے روز خاص طور پر گاڑیوں، موٹرسائیکلوں اور پیدل چلنے والوں کے ہجوم کی وجہ سے سیاحوں کو بے شمار مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا ٹریفک جام ہوجاتی تھی لیکن اب سڑک جھیل کے گرد مکمل اور مناسب چوڑی کردی گئی ہے، ایک طرف سے داخل ہو کر دوسری طرف سے موٹر وے انٹر چینج کے قریب مرکزی سڑک پر پہنچا جا سکتا ہے۔ جھیل پر سہولتوں میں بھی خاطر خواہ اضافہ کیا گیا۔ ٹورازم ڈویلپمنٹ کارپوریشن آف پنجاب کا موٹل اور ریسٹورنٹ، گیسٹ ہاﺅسز اور ایک چھوٹا پارک بھی بنایا گیا ہے۔ بچوں کی دلچسپی کے لئے جھولے اور دیگر چیزیں بھی موجود ہیں۔ کھانے پینے کی اشیاء، گفٹ شاپس اور دستکاریوں کے مختلف سٹال بھی لگائے گئے ہیں۔ جھیل مین بوٹنگ سے بھی لطف اندوز ہوا جا سکتا ہے، جھیل کی سیر اور بوٹنگ کے دوران سب سے خوب صورت نظارہ وہ ہوتا ہے جب آپ کی کشتی کے قریب کئی مرغابیاں تیرتی اور غوطہ خوری کرتی نظر آئیں گی۔

جھیل کے ساتھ جھولے اور پارکنگ
چکوال سے کلرکہار اور خوشاب جاتے ہوئے راستے میں پہاڑی علاقوں میں کئی موڑ کافی خطرناک ہیں جس کے باعث کئی مہلک حادثات ہو چکے ہیں۔ پہلے سڑک کافی تنگ اور خراب تھی لیکن اب چوڑی کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ پہاڑ کاٹ کر کئی موڑ ختم اور کئی کافی چوڑے کئے گئے ہیں۔ موٹر وے بننے سے کلرکہار کی شہرت اور سیاحوں کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے کیوں کہ دور دراز سے لوگ ایک روز کی تفریح کے لئے بہ آسانی پہنچ سکتے ہیں۔ مقامی لوگوں کا روزگار بڑھا ہے اور اس سیاحتی مقام کی خوبصورتی میں اضافہ ہوا ہے۔

کلرکہار سے مشرق کی جانب ایک سڑک چوآسیدن شاہ جانے کے لئے ہے جس کے راستہ میں مشہور جگہ ”کٹاس“ ہے جس کے مشہور ہونے کی وجہ وہاں ہندوﺅں کے پرانے مندروں کا ایک سلسلہ ہے۔ ان مندروں کے ساتھ پانی کا ایک چشمہ بھی ہے جسے ”گنگا کی آنکھ“ کہا جاتا ہے۔ کلرکہار چوآسیدن شاہ روڈ کے ارد گرد علاقہ میں کوئلہ کی بہت ساری کانیں بھی ہیں، اسی سے متعلق ایک سرکاری سکول بھی یہاں قائم کیا گیا ہے۔

چکوال سرگودھا خوشاب روڈ
کلرکہار سے چوآسیدن شاہ جاتے ہوئے سڑک پر سیمنٹ کے کئی کارخانے قائم کئے گئے ہیں، جن میں ”لفارجے سیمنٹ“ پیداوار کے لحاظ سے ایشیاء کا سب سے بڑا سیمنٹ کا کارخانہ ہے، اس کا پرانا نام ”چکوال سیمنٹ فیکٹری“ تھا جو مصر کی ایک کمپنی نے خرید لی ہے۔ اس کے علاوہ ”ڈی جی سیمنٹ“ اور ”بیسٹ وے سیمنٹ“ کے کارخانے ہیں۔ ان کارخانوں کے قیام سے روزگار کے بہت سے مواقع پیدا ہوئے ہیں۔ ”ڈی جی خان سیمنٹ“ اور ”بیسٹ وے سیمنٹ“ کے کارخانے پرویز مشرف کے دور میں قائم ہوئے۔

++++++++++

چوآسیدن شاہ کے قریب "کٹاس راج" میں 'گنگا کی آنکھ' اور مندر

کلرکہار میں لفٹ

تخت بابری اصلی حالت میں

احمق ہیں جو کہتے ہیں محبت کی جگہ ہے

احمق ہیں جو کہتے ہیں محبت کی جگہ ہے
دنیا تو فقط اہلِ تجارت کی جگہ ہے

فرعونوں کی بستی ہے یہاں دب کے نہ رہنا
نخوت کی تکبّر کی رعونت کی جگہ ہے

ظاہر ہے یہاں تم بھی کبھی خوش نہ رہو گے
اک درد کا مسکن ہے اذیّت کی جگہ ہے

آسانی سے ملتی نہیں جینے کی اجازت
پھر سوچ لو دنیا بڑی ہمّت کی جگہ ہے

اے دل تجھے اک بوسہ بھی مشکل سے ملے گا
یہ حسن کا بازار ہے دولت کی جگہ ہے

یہ سوچ کے خاموشی سے ہر ظلم سہا ہے
اپنوں سے نہ غیروں سے شکایت کی جگہ ہے

خود اپنی ہی مخلوق کو برباد کرو گے
افسوس کی یہ بات ہے حیرت کی جگہ ہے

دل میرا کسی حال میں خوش رہ نہیں سکتا
جلوت کا مکاں ہے نہ یہ خلوت کی جگہ ہے

راحت کا یہاں کوئی تصور نہیں ملتا
معلوم ہے سب کو یہ مصیبت کی جگہ ہے

انجام کا سوچو گے تو بے چین پھرو گے
آرام سے سو جاؤ یہ غفلت کی جگہ ہے

پاگل ہو جو کرتے ہو یہاں عشق کی تلقین
دنیا تو ہر اک شخص سے نفرت کی جگہ ہے

جاتے ہوئے کہتے ہیں ہر اک بار پرندے
کچھ شرم کرو یہ بھی سکونت کی جگہ ہے

بس شرط ہے یہ دل میں محبت ہو کسی کی
صحرا ہی نہیں شہر بھی وحشت کی جگہ ہے

جانے کے لئے کوئی بھی تیار نہیں اب
دیکھو یہ زمیں کیسی قیامت کی جگہ ہے

آئے ہو تو جاؤ گے یہاں بچ نہ سکو گے
یہ موت کی منزل ہے ہلاکت کی جگہ ہے

اے اہل جنوں آؤ یہاں کچھ نہیں رکھا
ناداں ہیں یہ سب لوگ حماقت کی جگہ ہے

کس بات پہ غمگین ہوں کس بات پہ میں خوش
ذلت کی جگہ ہے نہ یہ عزت کی جگہ ہے

صحرا کی طرف اس لئے جاتا ہے مرا دل
دنیا میں یہ دنیا سے بغاوت کی جگہ ہے
احمد فواد

تین اہم عہدوں کی ہم نام شخصیات

پاکستان کے تین اعلٰی ترین عہدوں پر فائز شخصیات ’ہم نام‘ ہیں جبکہ اس سے قبل صدر کے عہدے پر فائز شخص بھی انہی کا ہم نام تھا۔

حسن اتفاق ہے کہ پاکستان کے چیف آف آرمی اسٹاف کا نام اشفاق ’پرویز‘ کیانی ہے۔

وزیراعظم کا نام راجہ ’پرویز‘ اشرف ہے ۔

جس شخصیت کو ملک کے پہلے نائب وزیراعظم کا عہدہ دیا گیا ہے اس کا نام چوہدری ’پرویز‘ الہٰی ہے، جبکہ اس سے قبل ملک کے اعلٰی ترین صدارتی عہدے پر جنرل (ر) ’پرویز‘ مشرف فائز تھے۔